عہد


اندھیرا چاروں سوں پھیل چکا تھا۔ اسٹریٹ لائٹس کی ساری بتیاں گل تھیں۔ اس کی گاڑی کو مشکل سے ہی اس اندھیرے میں دیکھا جا سکتا تھا جو سڑک کے کنارے کھڑی تھی اس نے گاڑی کی ہیڈ لائٹس کو یہاں آنے سے پہلے ہی بند کر دیا تھا تاکہ کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نا ہو سکے۔

کچھ دیر ڈرائیور سیٹ پر براجمان وہ سارا لہحہء عمل ترتیب دیتا رہا اور گاڑی سے باہر نکل اس نے آہستگی سے دروازہ بند کیا۔

اس نے مین گیٹ کے دائیں طرف جاتے اپنے سامنے کھڑی دیوار کا جائزہ لیا جو تقریباً دس پندھرہ  فٹ کی تھی اور اس کو پھلگنا بے حد مشکل تھا اگر وہ جیسے تیسے کر کے اس دیوار کے اوپر چڑھ بھی جاتا تو اترنے میں کم از کم اس کے پیر کی ہڈی تو ضرور ٹوٹتی۔

وہ گردن گھوما کے ارد گرد کوئی سہارا تلاش کر رہا تھا جب اسے دیوار سے نکلتا ایک پھتر دکھائی دیا اس نے مزید وقت برباد کئے اپنا دایاں پیر اس پر رکھا اور دونوں ہاتھ دیوار کی اوپری سطح پر رکھے اور آہستہ آہستہ خود کو اوپر کی جانب گھسینٹا تھوڑی سی کوشش سے ہی وہ اب دیوار کے اوپر بیٹھا تھا ایک لمبی سانس اندر کو کھینچتا وہ یہاں سے کودنے کے لئے خود کو تیار کر رہا تھا جب اس نے ایک شخص کو لائٹ ہاتھ میں تھامے چکر کانٹتے دیکھا وہ یقیناً چوکیدار تھا اس نے فوراً جمپ لگائی تھی نیچے قطار سے لگے گملوں میں کیکٹس کے پودے لگاۓ گئے تھے جو بری طرح اس کے ہاتھ میں اندر تک گھس چکے تھے۔

کودنے کی آواز نا چاہنے کے باوجود بھی پیدا ہو گئی تھی چوکیدار نے پیچھے مڑ اس کی جانب ٹارچ کی روشنی ماری تھی لیکن وہ پھیلے ہی وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ چوکیدار اسے اپنا وہم جانتا اب اپنے کوٹر کی طرف جا رہا تھا۔

وہ چوکیدار کو دیکھتا سیدھا ہوا تھا اس کے ہاتھ میں شدید تکلیف ہو رہی تھی اس نے ہاتھ میں گھسے ان کانٹوں کو نکلنا چاہا لیکن پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ پھر خون اور تیزی سے نکلے گا اور جو وہ کرنے آیا ہے اس کا نشان یہیں رہ جائے گا اور دیکھنے والے اس پر کئی سوال اور اٹھائیں گے۔

اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے اپنی دائیں طرف کی پینٹ کی جیب سے رومال نکلا اور ان کانٹوں کے اوپر سے ہی کس کے رومال کو ہاتھ پر لپیٹ دیا۔ اس نے درد برداشت کرنے کے لئے اپنے دانتوں کو سختی سے بینچ لیا۔

درد تو بہت تھا لیکن وہ اس کو نظر انداز کرتا بلڈنگ پر لگے پائپ پر چڑھنے لگا۔

کچھ ہی وقت میں وہ اپنی منزل پر موجود تھا اس نے بغیر کوئی آواز پیدا کئے کھڑکی سے کمرے کے اندر قدم رکھے تھے۔

کمرے میں ملجھائی سا اندھیرا تھا۔ کھڑکی پر لگے سفید پردے ہوا کی دوش پر اوڑھ رہے تھے اور اس سے آتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا موحول کو خواب ناک  بنا رہی تھی۔

بستر پر سوئے ہوئے وجود کا رخ کھڑکی کی ہی جانب تھا۔ پردھا چھن سے اڑتا اس کے چہرے پر چاندی بکھیر رہا تھا اور وہ اپنی جگہ پر مجسمہ بنا اسے تک رہا تھا ایک بار پھر اس کا چہرہ تاریک ہوا تھا چاندنی لوٹ گئی تھی ایک بار پھر واپس آنے کے لئے اور چاندنی پھر آئی تھی اور اس کا ویران چہرہ پھر روشن کر گئی تھی۔

وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتا اس کے سامنے پڑے صوفے پر آرام دہ حالت میں جا بیٹھا تھا اور اس کے ایک ایک نقش کو فرصت سے پڑھ رہا تھا۔

اس کی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ ہلکے تھے وہ بیمار لگ رہی تھی۔ بسروں کی مسافت کی تھکن اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔

اس وجود نے بستر پر اپنا رخ بدلا تھا۔ اس کی نظر اب اس کی پشت پر موجود تکیے پر پھیلے سیاہ سلکی بالوں کی طرف تھی جب وہ پھر رخ بدلتی سیدھی لیٹتی چھت کو بینا پلکیں جھپکیں دیکھنے لگی تھی۔

دوسری طرف وہ ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا کتنا وقت اس کو اس طرح چھت کو گھورتے ہوا وہ نہیں جانتا تھا لیکن اس سب میں وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے اچھی طرح واقف ہو رہا تھا اور اسے اس میں کوئی مشقت نہیں ہو رہی تھی حالانکہ پھیلے کبھی وہ اس طرح اسے پڑھ نہیں سکا تھا لیکن اب ایسا ہو رہا تھا شاید وہ پہلے ہی یہ سب جان جاتا لیکن نفرت کا پردہ اس کی آنکھوں پے پڑا تھا جس کی وجہ سے کبھی اسے اس طرح دکھا ہی نہیں تھا۔

اپنی طرف کسی کی نظریں محسوس کر زینب نے چہرہ موڑ اپنے دائیں جانب دیکھا تھا اسے اندھیرے کی وجہ سے صرف چمکتی ہوئی دو آنکھیں نظر آئیں تھیں جو اسے ڈرانے کے لئے کافی تھیں۔

اس نے اپنے پہلو سے دوپٹہ اٹھایا اور سر پر لیا ساتھ ہی جلدی سے سائیڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ اون کیا اور سوئچ بورڈ کی طرف بڑھتے اس نے کمرے کی لائٹ بھی اون کر دی۔

کمرہ روشنی میں نہا چکا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو ایک شناسا چہرہ اپنے سامنے پایا وہ اب تک صوفے پر بیٹھا اس کا ایک ایک عمل ملاحظہ فرما رہا تھا۔

زینب ایک دم بھونچا کے رہ گئی اسے اس وقت یہاں دیکھ اسے شاک لگا تھا وہ یہاں کیا کر رہا تھا اور  اس وقت اس کی آمد کی وجہ اسے سمجھ نہیں آئی۔

زینب کو لگا کہ یہ سب اس کا وہم ہے اور اس کے ذہن میں چل رہا ہے لیکن اس کے ذہن میں بھی یہ شخص کیوں ہے کیوں کہ وہ اسے تو بلکل نہیں سوچتی تو وہ اس کی سوچوں میں کیوں آئے گا۔ اسے لگا وہ اب پاگل ہونے لگی ہے لیکن یہ جانا بھی ضروری تھا کہ حقیقت ہے بھی یا نہیں ورنہ اس طرح وہ اپنا بڑا نقصان کروا سکتی تھی۔

"تم۔۔۔۔۔تم یہاں کیسے آئے؟" اس نے اپنا وہم دور کرنے کے لئے پوچھا تھا۔

سامنے بیٹھے وجود میں حرکت ہوئی تو جیسے اس کا دماغ یک دم ہی جاگا تھا۔

"تم اندر کیسے آئے؟" وہ دبے دبے غصّے میں بولی۔

"تم سے بات کرنے آیا ہوں" اس نے پر سکوں لہجے میں جواب دیتے آج پہلی بار بہت ہی سکوں سے زینب پر اسی کی چل الٹ دی تھی۔

(وہ بیحد سکوں سے اس کا سکوں برباد کر رہا تھا)

"لیکن مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی تم جاؤ یہاں سے" وہ قطعیت سے کہتی اس کے جانے کی منتظر تھی۔

"تم سے بات کرنے آیا ہوں اور بات کئے بغیر جانے کا اردہ نہیں رکھتا"

"رات کے اس پہر کسی کے گھر میں گھس کر زبردستی بات کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟" وہ غصّے سے پھٹتی اس سے پوچھ رہی تھی۔

"یہ حیدر عبّاس کا طریقہ ہے" بہت باروعب آواز میں اس نے کہا تھا۔

"تم جا رہے ہو یا میں سیکورٹی کو بلاؤں" اس نے پوچھا کم دھمکی زیادہ دی۔

وہ کافی دیر اس کا جواب سنے کے لئے کھڑی رہی اور وہ یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔

زینب کو جب یقین ہو گیا وہ بینا دّھکے کھائے نہیں جائے گا تو سیکورٹی کو بلانے کے لئے موڑی لیکن حیدر کے جملے نے جیسے اسے فریز کیا تھا۔

وہ اب اس کے سامنے ہوتی عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی آیا یہ جملہ اس نے ہی کہا تھا یا اسے سنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔

"میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"

زینب کے ذہن میں الف سے ے تک اس کے ساتھ ہوئی ہر ملاقات کسی فلم کی طرح رواں ہوئی تھی وہ یہ کیوں کہہ رہا تھا اسے جواب مل گیا تھا۔

"بدلہ لینے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟" وہ ایک بار پھر غصّے سے پوچھ رہی تھی۔

(بدلہ لینے ہی آیا تھا کیا پتا تھا کمبخت دل ہی بدل جائے گا) اس نے سوچا تھا اور مسکراہٹ کو چھپایا بھی تھا۔

ہاں آج اس نے دل سے سچ کہا وہ جانتا تھا وہ غلط تھا اس نے سب غلط کیا زینب کے ساتھ لیکن یہ ایک مرد کی اٰنا تھی وہ سب بھول جاتا وہ تھپڑ نہیں بھولا تھا اور اسی لئے اس سے فاصلہ قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا کیوں کہ اسے پتا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا ہاتھ اٹھ جاتا اور کم از کم وہ اتنا بے غیرت نہیں بننا چاہتا تھا کہ ایک عورت پر ہاتھ اٹھاتا پر یہاں تو بساط ہی پلٹ گئی تھی اِس نے ہاتھ چہرے پر لگایا تھا اور چُرا وہ دل کو گئی تھی۔

"یہ بدلہ لینے کا اگر کوئی نیا طریقہ ہے تو انتہائی بیہودہ طریقہ ہے۔۔۔۔تم بات کرنے آئے تھے میں نے تمہاری بات کا جواب دے دیا اب جاؤ یہاں سے" زینب چاہ کر بھی سیکورٹی کو نہیں بلا سکتی تھی پہلے ہی اس کے کچھ نا کرنے پر اس کے کردار پر بہت سے ستارے لگے تھے وہ اب ان پر کوئی میڈل نہیں لگوانا چاہتی تھی اور حیدر اسی کا فائدہ اٹھا رہا تھا۔

وہ صوفے سے کھڑا ہوا تھا اپنا زخمی ہاتھ اس نے اپنی جیب میں رکھا اور اس کے روبرو کھڑے ہوتے وہ انتہائی مضبوط لہجے میں بولا تھا۔

"میں تم سے پوچھ نہیں رہا تمہیں بتا رہا ہوں"

"تمہیں لگتا ہے میں۔۔۔۔زینب والیواللہ تم جیسے گھٹیا شخص کے نکاح میں آئے گی" وہ لفظوں پر زور دیتی حقارت سے پوچھ رہی تھی۔

"ہاں تم۔۔۔۔۔تم زینب والیواللہ۔۔۔۔۔مجھ جیسے شخص۔۔۔حیدر عبّاس کے نکاح میں ہی آئے گی" وہ وثوق سے کہتے ایک لمحے کے بھی کم عرصے میں زینب کو ڈرا گیا تھا۔

"تم خواب دیکھ رہے ہو" زینب نے سنمبھلتے ہوئے  آرام سے کہا تھا جیسے اس کا مذاق اڑا رہی ہو۔

"حالانکہ نیند سے تو تم بیدار ہوئی ہو" حیدر نے الٹا اسے چڑایا۔

"میں ایسا کچھ نہیں کروں گی" وہ حتمی انداز میں بولی۔

"تم نہیں کرو گی تو رانیہ کرے گی" حیدر نے بلیک میلینگ کا حربہ آزمایا۔

"وہ نکاح شدہ ہے" زینب نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"طلاقیں بھی اسی دنیا میں ہوتی ہیں" حیدر کا یہ جملہ سن وہ کتنی ہی دیر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی تو کیا وہ اتنا اندھا ہو گیا تھا کہ اپنے انتقام کے خاطر چار زندگیاں باربرد کرتا اور تو اور نکاح جیسے پاکیزہ بندھن توڑوا دیتا وہ بھی اس بندھن کا جس میں محبت کا پودا پھل پھول رہا تھا۔

"تم جانتے ہو احمر۔۔۔۔۔" زینب نے اسے احمر کی محبّت یاد دلانی چاہی۔

"میں جانتا ہوں" وہ بات مکمل ہونے سے پہلے جانتا تھا وہ کیا کہنے والی ہے اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

"پھر بھی" زینب کو تعجب ہوا۔

"ہاں پھر بھی" وہ اپنی جگہ مصر تھا۔

"احمر بھائی ایسا کچھ نہیں کریں گے جیسا تم سوچ رہے ہو" وہ یقین سے بولی۔

"زینب جو تم رانیہ کے لئے کر سکتی ہو وہ احمر بھی میرے لئے کر سکتا ہے اور یاد رکھو وہ میرا دوست پہلے ہے بعد میں رانیہ کا شوہر" وہ اسے تصویر کا دوسرا رخ دیکھا رہا تھا۔

"تم ان سے دوستی کی قیمت مانگو گے؟" وہ اس شخص کی بے غیرتی پر جتنا حیران ہوتی کم تھا۔

"دوستی کی قیمت جب بھی مانگی جائے دینی تو پڑتی ہے"

ہاں وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا آج اس سے بھی رانیہ کی دوستی کی قیمت مانگی جا رہی تھی اور اسے دینی تھی وہ کم ظرف نہیں تھی رانیہ جیسی دوست کے لئے تو کچھ بھی حاضر تھا اس کے آگے تو یہ قیمت کچھ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ شخص کو اپنی زندگی کا حصّہ نہیں بنا سکتی تھی۔

"دو فریقوں کی جنگ میں کسی تیسرے کو شامل کرنا بزدلی ہے" زینب نے اسے بزدل کہا تھا شاید وہ ارادہ بدل دے۔

"محبّت اور جنگ میں سب جائز ہے" حیدر اس کی اس کوشش پر دل ہی دل میں مسکرایا تھا کیوں کہ اب وہ پہلے والا حیدر نہیں تھا جو زینب کے لفظوں پر غصّہ ہو جاتا۔

"تمہاری دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے تم ایک نا جائز لڑکی کو اپنا نام دو گے؟" وہ خود کو ڈی گریڈ کرتی اس سے کہہ رہی تھی شاید وہ پیچھے ہٹ جاتا۔

"میں کل بارات لے کے آؤں گا تمہاری۔۔۔۔۔۔فرار کی کوشش صرف تمہارا نقصان کرے گی" حیدر اس کی بات کو نظر انداز کرتا اسے بہت اہم خبر دے رہا تھا۔

"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا بدلہ لینے کے لئے تم اتنے اندھے ہو جاؤ گے کہ اپنے معیار سے گر جاؤ گے" اس نے اسے جاتے دیکھ پھر سے کوشش کی۔

"حیدر عبّاس سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے" وہ جاتے جاتے روکا تھا۔ اس نے گردن پیچھے کئے کہا تھا اور وہ چلا گیا تھا۔
زینب کو ایک نئی مصیبت میں ڈالے۔ اس کی ساری سوچوں کا بھاؤ اپنی طرف کرتا اسے ہر منفی سوچ سے رہائی دے گیا تھا۔ اب اگر کچھ زینب سوچ رہی تھی تو وہ اس صورتحال سے نکلنا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح کا سورج طلوع ہوتا ہر اندھیرا مٹا گیا تھا۔۔۔۔۔اب روشنی ہی روشنی تھی ہر طرف جو آج بہت سی زندگیوں کو ایک طرف جہاں روشن کرنے والی  تھی وہیں غروبِ آفتاب ایک بار پھر ان کی زندگیوں میں اندھیرا کرنے کے لئے پہلے سے تیار تھا پر یہ اندھیرا اب کب ان زندگیوں میں شامل ہوتا ہے کوئی نہیں جانتا۔

اِس طرف

حیدر زینب کی نیندیں اڑا آیا تھا اور اپنے اس عمل سے خوش بھی بہت تھا اور اسی خوشی میں وہ رات بھر سو نا سکا۔

اسے بے صبری سے آج کے دن کا انتظار تھا۔ اس نے بستر پر لیٹے اپنے موبائل میں ٹائم دیکھا تھا صبح کے سات بج رہے تھے۔ موبائل بیڈ پر ہی چھوڑ وہ بستر سے اٹھا تھا اور باتھروم کی راہ لی تھی۔

اپنا جوگنگ سوٹ پہنے وہ باہر آیا تھا اور قریب ہی بنے ایک پارک میں اچھی خاصی دیر جوگنگ کرتے وہ اپنے گھر واپس آیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر ٹائم  دیکھا تھا جہاں ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔

وہ دوبارہ باتھروم میں گھسا تھا اور اس بار وہ آفس کے فارمل ڈریس میں ملبوز تھا۔ اس نے ڈریسنگ کے آگے کھڑے ہو اپنے کوٹ کو ٹھیک کیا تھا اور اپنے اوپر پرفیوم اچھے سے چھڑکا تھا۔

ُاس طرف

زینب کو نیند تو پہلے بھی نہیں آتی تھی پر اب تو جیسے وہ پاگل ہونے کو تھی۔۔۔۔اسے یہ سب ایک خواب سا لگ رہا تھا لیکن وہ جانتی تھی وہ خواب نہیں تھا اور خود کو وہ یہ یقین دلانا بھی نہیں چاہتی تھی کیوں کہ اس کے نتائج اسے نہیں رانیہ کو اٹھانے پڑتے۔۔۔۔

بہت سوچنے کے بعد اسے صرف ایک راستہ نظر آ رہا تھا۔ زینب کے ساتھ جو بھی ہوا یہ سچ تھا کہ وہ ٹوٹ گئی تھی لیکن ہمت ابھی بھی کچھ باقی تھی وہ اسی ہمت کو مجتمع کرتی اب اپنے دفع کی آخری کوشش کرنے جا رہی تھی۔

ساڑھے آٹھ ہو رہے تھے یقیناً رانیہ سو رہی ہوتی اس وقت لیکن اسے اس سے بات کرنی تھی وہ اب اور انتظار نہیں کر سکتی تھی۔

اس نے کال ملائی تھی۔

رانیہ کا موبائل کب سے گلہ پھاڑ رہا تھا لیکن رانیہ تھی کہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہی رہی۔ جب موبائل نے اپنا گلہ پھاڑنا بند نا کیا تو مجبوراً رانیہ نے جھلائے ہوئے انداز میں کال اٹھائی۔

"کیا ہے؟" وہ چیختی ہوئی پوچھ رہی تھی۔

"میں رانی زینب بات کر رہی ہوں کیا تم آج آ سکتی ہو میری طرف؟" زینب نے فوراً مدعے کی بات کی۔

"کیوں خیریت؟" رانیہ اب پوری طرح بیدار ہو گئی تھی بستر پر سیدھی بیٹھتی اس سے پوچھ رہی تھی۔

"بس ایسے ہی" زینب اسے کچھ بھی بتانا نہیں چاہتی تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے میں آ جاؤں گی" رانیہ نے حامی بھری تھی کیوں کہ بہت دنوں بعد زینب اس طرح نارمل بی یہو کر رہی تھی۔

اِس طرف

حیدر نے ناشتے سے فارغ ہو اب آفس کا رخ کیا تھا لیکن وہ اپنے آفس جانے کے بجائے احمر کی طرف آ گیا تھا۔

احمر اس کو دیکھ حیران ہوا تھا کیوں کہ موصوف پچھلے کئی دنوں سے غائب تھے اور آج احمر کے آفس آ گئے تھے۔

"کیسے آنا ہوا؟" سلام دعا کے بعد احمر نے دماغ میں اٹھتا سوال حیدر سے کر ہی لیا۔

"کام کے سلسلے میں آیا ہوں۔۔۔۔واصف صاحب کی کنٹریکٹ کے بارے میں تم سے کچھ ڈسکسس کرنا تھا" حیدر نے اپنے پرانے انداز میں کہا۔

"مجھ سے ڈسکسس کرنے؟" احمر اپنی طرف انگلی کرتا حیرت سے پوچھ رہا تھا۔

"ہاں" حیدر یک لفظی جواب دیتے کرسی گھسینٹتا  بیٹھ گیا تھا۔

احمر نا سمجھی سے کندھے اچکاتا اس کے برابر میں بیٹھا اب اس کی سن رہا تھا جو خود ہی سارا  ڈسکاشن کر رہا تھا اور احمر بیٹھا احمقوں کی طرح سب سن رہا تھا۔

اُس طر ف

رانیہ زینب کے گھر آ گئی تھی اور زینب نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا تھا اسے لگ رہا تھا رانیہ کو بتانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا اس سے معملات اور بیگڑ سکتے تھے۔

رانیہ کو آج زینب میں عجیب تبدیلی نظر آئی تھی وہ اداس نہیں تھی آج وہ الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔

"کچھ ہوا ہے کیا زینی تم پریشان لگ رہی ہو؟" رانیہ کی فکری طبیعت جاگ اٹھی تھی۔

"نہیں تو!!! سب ٹھیک ہے" زینب نے جلدی سے ایک مسکراہٹ اپنے لبوں پر سجائی تھی۔

"رانیہ کچن میں میرا موبائل رہ گیا ہے لے تو آؤ" زینب نے اپنے وڈروب میں ہاتھ چلاتے رانیہ سے کہا تھا۔

"ابھی لائی" رانیہ خوشی خوشی کمرے سے چلی گئی اسے زینب بدلی بدلی اچھی لگ رہی تھی۔

زینب نے بیڈ پر رکھا رانیہ کا موبائل اٹھایا تھا اور اس میں کوئی پاسورڈ نہیں لگا تھا زینب نے جلدی سے اس کے موبائل میں احمر کا نمبر ڈھونڈھنا چاہا لیکن احمر کے نام سے کوئی نمبر سیو نہیں تھا۔ اس نے پھر ہسبینڈ کے نام سے سرچ کیا لیکن احمر کا نام اس نام سے بھی سیو نہیں تھا زینب نے رانیہ کے موبائل کی ڈائلنگ کھولی تھی جہاں پر پہلا نمبر "لؤبی" کے نام سے سیو تھا یقیناً رانیہ نے یہ لفظ لؤ اور حبی کو جوڑ کے بنایا تھا۔

زینب کو اس ایک نام سے ہی رانیہ کے جذبات و احساسات کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ کوئی بھی الٹی بات کر کہ اس کے دل میں بدگمانی نہیں ڈالنا چاہتی تھی اسی لئے اس نے ڈائریکٹ احمر سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس نے نمبر کو اپنے ذہن نشین کر واپس موبائل کو اس کی جگہ پر رکھا تھا اور کمرے سے باہر نکل وہ رانیہ کے پاس چلی گئی تھی۔

ُاُس طرف

"یار ذرا کافی تو منگا" حیدر نے ساری روداد سنانے کے بعد فائل بند کی تھی اور اب وہ احمر سے کافی آرڈر کرنے کی فرماہش کر رہا تھا۔

احمر کو بہت غصّہ آیا وہ اپنی کہے جا رہا تھا اور پھر یہ حیدر کے اس طرح خوب مہارت سے ڈسکاشن کرنے کا اثر تھا کہ احمر نا چاہتے ہوئے بھی اس کی باتوں کو سنے لگا تھا اور پھر تو جیسے ایک سماء بندھ گیا تھا وہ اس سے خود کو نکال نا سکا اور اس وجہ سے اس کا کتنا ہی ٹائم برباد ہو گیا تھا۔

اس نے ریسیور اٹھاتے دو کافی کے کپ آرڈر کئے تھے۔

"رخصتی کب ہو رہی ہے تمہاری آخر کو تمہاری دلہن لینے بھی جانا ہے؟" احمر کے فون کریڈل پر رکھتے ہی حیدر نے شوخ ہوتے پوچھا تھا جو اب آرام دہ حالت میں دونوں کونیاں کرسی کے ہنڈل پر جمائے بیٹھا تھا۔

"رخصتی میری نہیں رانیہ کی ہونی ہے۔۔۔۔۔۔۔ویسے تمہیں میرا خیال کیسے آ گیا؟" احمر کا انداز شکایتی تھا۔

"بس آ گیا اڑتا اڑاتا۔۔۔۔۔خیر میں سوچ رہا تھا رانیہ کو یوں تنہا رسیو کرتا میں اچھا نہیں لگوں گا کیسا ہی ہوتا اگر میری بھی ایک عدد بیوی ہوتی" احمر جتنا حیران ہوتا کم تھا کیوں کہ جناب حیدر صاحب کے تو انداز ہی بدل گئے تھے۔

"تو کر لو تم شادی لے آؤ بیوی" احمر نے اپنی حیرانی چھپاتے موقعے سے فائدہ اٹھایا تھا۔۔۔۔جو حیدر شادی سے بھاگتا تھا آج شادی کرنے کی بات کر رہا تھا فائدہ اٹھانا تو بنتا تھا نجانے کب حیدر کا ارادہ بدل جاتا۔

"سمجھو تمہاری ارضی منظور ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔اپنا موبائل دینا؟" حیدر نے مہارت سے بات بدلی تھی۔

"کیوں؟" احمر نے بے ساختہ پوچھا۔

"میرا موبائل ٹوٹ گیا تھا کل اور نجانے کہاں چلا گیا مجھے ایک کیلاینٹ کو نمبر دینا تھا تو میں نے تمہارا دے دیا وہ شاید آج کال کریں" حیدر نے ساری بات اسے بتائی تھی۔

احمر نے کچھ بھی اور کہے بغیر اسے اپنا فون تھما دیا تھا۔ وہ اس کے فون توڑنے کی عادت سے اچھے سے واقف تھا جانتا تھا فون ٹوٹا نہیں توڑا گیا ہو گا۔

اُس طرف

رانیہ چلی گئی تھی اور یہی وقت تھا زینب کے پاس اس نے کوئی بھی لمحہ اور ضائع کئے بغیر احمر کا نمبر ملایا تھا۔

اُس طرف

حیدر کے ہاتھ میں تھما موبائل بجا تھا احمر کی نظریں اسی جانب اٹھی تھیں اور پھر دروازے پر ہلکی سے دستک دے ایک لڑکی اندر آئی تھی۔

احمر کی ساری توجہ اب اس لڑکی کی طرف تھی۔

"سر آپ سے کچھ بات کرنی ہے ارجنٹ دو منٹ" وہ عجلت میں بولتی کمرے سے غائب ہو گئی تھی۔

احمر حیدر سے ایکسکیوز کرتا باہر چلا گیا۔

اُس طرف

کال کچھ ہی بیلوں کے بعد کال ریسیو کر لی گئی تھی۔

"السلام عليكم احمر بھائی میں زینب بات کر رہی ہوں" زینب نے سلام کرتے اپنا تعارف کرایا تھا۔

"وعلیکم سلام۔۔۔۔۔جی کہئے زینب کیسے کال کی سب ٹھیک ہے" حیدر نے رومال اسپیکر پر رکھ سلام کا جواب دیا تھا ساتھ وہ بھرپور اداکاری کر اس کی خیریت پوچھ رہا تھا۔

زینب نے حیدر کی آواز نا تو کبھی فون پر سنی تھی نا ہی احمر کی اسے رتی برابر شک نہیں ہوا تھا کہ دوسری طرف لائن پر اس کا دشمن حیدر موجود تھا۔

"مجھے آپ سے صرف ایک سوال پوچھنا ہے" زینب نے اپنے کال کرنے کی وجہ بیان کی تھی۔

"جی پوچھیں" حیدر نے اسے اجازت دی تھی۔

"کیا آپ انتقام کے اس کھیل میں حیدر کے ساتھ ہیں۔۔۔۔کیا آپ صرف اس لئے رانیہ کو طلاق دے دیں گے تاکہ آپ کا دوست اپنا بدلہ لے سکے مجھ سے" زینب نے جذبات میں آ ایک کی جگہ دو سوال کر ڈالے تھے اور اب وہ جواب کی منتظر تھی۔

لیکن دوسری طرف بلکل خاموشی تھی زینب کو لگا شاید لائن کٹ گئی ہے لیکن کافی دے کے جانے والے کی "آپ کی کافی صاحب" کی آواز زینب کے کان کے پردوں پر پڑ چکی تھی۔

اسے ایک دھچکا لگا تھا وہ اس خاموشی کا مطلب جانتی تھی۔

"مجھے میرا جواب مل گیا مسٹر احمر وقار" زینب نے بیگانیت سے کہتے کال کو بے جان کیا تھا۔

حیدر نے موبائل کی سکرین کو دیکھا تھا جہاں اب کال بے جان ہو گئی تھی۔ اس کو بہت برا لگا تھا اپنے لئے نہیں مسٹر احمر وقار کے لئے۔۔۔۔۔وہ یہ سوچتے ہی دلکشی سے مسکرایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زینب نے غصّے اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ احمر کی کال منطقہ کی تھی لیکن کچھ ہی دیر میں وہ افسوردہ ہو گئی تھی۔ اس نے تو احمر کو ایسا نا سوچا تھا وہ تو سمجھدار لگتا تھا لیکن دن ڈھلتے اس کی سوچ احمر کے متعلق بدل گئی تھی۔

یہ پہلی دفع تھا زینب کے جیسے تمام راستے ہی بند ہو گئے تھے تو اسے اب وہ کرنا ہو گا جو وہ شخص چاہتا ہے لیکن بدلہ لینے کا یہ عجیب طریقہ ہے۔۔۔۔کسی سے شادی کر کے بدلہ کیسے لیا جا سکتا ہے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔اور اب وہ کیا کرے ۔۔۔کیا چپ چاپ ہونے دے یہ سب۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ تمہارے پاس کوئی راستہ بچا ہی کہاں ہے۔۔۔۔۔آواز کہیں اندر سے آئی تھی اور سچ ہی تو تھا اب اس کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔۔۔کیا میرے ساتھ کبھی کچھ اچھا ہو سکتا ہے یا ساری عمر میں نے یہی سب دیکھنا ہے۔۔۔۔وہ بد دل نہیں ہونا چاہتی تھی پر ہو رہی تھی۔۔۔اور اگر یہی سب ہونا ہے تو ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔۔۔میں مذمت کر کر کے تھک گئی ہوں اب یہ زندگی جہاں لے جائے گی میں وہیں چلی جاؤں گی۔۔۔۔وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھی جب اس کے کمرے کے دروازے پر ہلکی سے دستک دے وہ آیا تھا سفید کرتا شلوار۔۔۔۔نفاست سے سیٹ بال۔۔۔۔۔پشاوری چپل۔۔۔۔ہاتھ میں چمکتی گھڑی۔۔۔۔۔شیو جو کل تک بڑھی تھی آج تراش رخراش کے بعد ہلکی ہو چکی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کئی شوپنگ بیگس تھے۔ اس نے اندر آ کر انہیں بیڈ کے کنارے پر رکھا تھا۔

"تیار ہو جاؤ تھوڑی دیر میں نکاح ہے ہمارا" وہ بے حد سنجیدہ لگ رہا تھا۔

زینب کو اسے اپنے کمرے کے باہر دیکھ کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ جو شخص کھڑکی کود کے آ سکتا ہے وہ یقیناً اگلی دفع ایسا نا ہو اسی لئے سارے انتظام کے ساتھ آیا تھا۔

وہ کہہ کے چلا گیا تھا اور زینب اپنے فیصلے کے مطابق بوجھل دل سے کسی روبوٹ کی طرح اس کے کہے پر عمل کرنے باتھروم کا رخ کیا تھا۔ اسے کبھی اپنا آپ اتنا بے اختیار نہیں لگا تھا کے اس پر کوئی بھی اپنے حکم چلا سکے لیکن اب ایک تھا جو ایسا کر رہا تھا۔

اگلی بار جب وہ اس کے کمرے میں آیا تو قدم دروازے پر ہی رک گئے۔۔۔۔۔وہ سفید جوڑے میں ملبوز تھی جس کے گلے دامن اور استینوں میں سفید موتیوں کا کام ہوا تھا۔۔۔۔۔۔سر پر لال بھاری کام کا دوپٹہ موجود تھا جو سرک کر پیچھے کو گر رہا تھا۔۔۔۔۔چہرے میک اپ سے پاک تھا بمعہ لپسٹک۔ آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے واضح تھے اور رات کے مقابلے دن میں دیکھنے میں زیادہ گہرے لگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔لیکن وہ ایسے بھی دنیا کی سب سے حسین لڑکی لگ رہی تھی حیدر کو کیوں کہ محبّت حسن سے کب تھی وہ تو اس کے دل سے تھی۔

وہ سر جھکائے کسی سوچ میں گم تھی اور شامت انگلیوں کی آئی تھی جنہیں خرش خرش کے جگہ جگہ سے خال ہٹا دی گئی تھی۔

حیدر اس کے پاس جا کھڑا ہوا لیکن وہ اب بھی اپنے کام میں مصروف تھی۔ اس نے زینب کا سرکتا دوپٹہ سر سے اٹھایا تھا اور اسے گھونگھٹ کی شکل دے دی تھی۔

زینب کو ہوش تب آیا جب اسے لگا روشنی کم ہو گئی ہے اور یک دم ہی اس کے سر پر کوئی وزنی شئے رکھ دی گئی ہے۔

ابھی وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس عمل کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی جب وہ قدرے دور کھڑے ہوتا بولا تھا۔

"چلو باہر"

زینب اس کے کہنے پر اٹھتی اب اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ لاونچ میں آ کر حیدر نے اسے ایک صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا اور وہ ڈہ سی گئی تھی۔ اس کے بیٹھنے کے بعد وہ اس سے فاصلہ رکھ اسی صوفے پر بیٹھا تھا۔

اپنے اوپر اتنا بھاری دوپٹے ہونے کے باعث زینب کچھ دیکھ نہیں پا رہی تھی اور نا ہی اسے کوئی جوستجو تھی۔ وہ ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح سر جھکائے بیٹھی تھی۔

"شروع کریں" حیدر نے قاضی کو اجازت دی تھی۔

"السلام عليكم مس زینب" ایک بریک مگر مردانہ آواز اس سے مخاطب تھی۔

"وعلیکم السلام" اس نے حلق کو تر کر جواب دیا تھا۔

"زینب مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کا کوئی والی موجود نہیں ہے تو بطور والی میں آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ نکاح آپ کی رضامندی سے ہو رہا ہے" انہوں نے ایک نیا سوال اس سے کیا تھا۔

"جی" ایک کمی تھی جو آج اسے بہت بری طرح محسوس ہوئی تھی۔

"کیا آپ کو اس نکاح سے کوئی اعتراض نہیں" جانے وہ کیوں ایک ہی سوال دہرا رہے تھے زینب کو سمجھ نہیں آیا۔

"نہیں" وہ مٹھیوں کو زور سے بند کر اپنے اندر بولنے کی ہمت پیدا کر رہی تھی۔

حیدر اس سارے عمل میں چپ ہی رہا تھا اسے پتا تھا جب تک ناصر صاحب اپنی تسلی نا کر لیں وہ نکاح پڑھنے والے نہیں تھے اور انہیں شک جب ہوا جب انہوں نے تنہا لڑکی کو گھر میں پایا وہ سمجھ رہے تھے حیدر اس لڑکی سے نکاح زبردستی کر رہا تھا اور وہ غلط بھی نہیں سمجھ رہے تھے۔

"شروع کریں" حیدر نے مؤدب انداز میں ان سے کہا تھا۔

"زینب والیواللہ آپ کا نکاح حیدر عبّاس والد عباس عالَم کے ساتھ ایک کڑوڑ حق مہر سکہ راجلوقت طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے"

*زینب والیواللہ اور حیدر عبّاس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے*

ماضی میں اس نے کہا تھا اور آج وہ زندگی کے سب سے بڑے مقابلے میں سے ہارا گیا تھا۔

"قبول ہے"  آج اس سے سب چھین لیا گیا۔

"زینب والیواللہ آپ کا نکاح حیدر عبّاس والد عباس عالَم کے ساتھ ایک کڑوڑ حق مہر سکہ راجلوقت طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے"

"اپنی دولت کا زعم کم از کم تم مجھے مت دکھانا اور جہاں تک رہی تمہارے ساتھ کی بات تو تم دنیا کے آخری مرد ہی کیوں نا ہوئے زینب والیواللہ تم پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرے گی"

اپنی کہی بات اسے آج بہت چھوٹا کر گئی تھی۔

"قبول ہے" آج وہ پوری طرح ختم ہو گئی تھی۔

"زینب والیواللہ آپ کا نکاح حیدر عبّاس والد عباس عالَم کے ساتھ ایک کڑوڑ حق مہر سکہ راجلوقت طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے"

"قبول ہے" یہ کہتے ایک کردار ختم ہوا تھا۔۔۔۔۔۔آج زینب والیواللہ ختم ہوئی تھی۔۔۔۔۔اور اپنی ہی قبر پر مٹی ڈالنے والی وہ خود تھی۔

قاضی نے نکاح کے پیپر اس کے آگے رکھے تھے اور وہ ان پر دستخط کرتی چلی گئی تھی۔

قاضی اب حیدر سے پوچھ رہے تھے۔

"حیدر عبّاس والد عبّاس عالَم آپ کا نکاح زینب والیواللہ کے ساتھ ایک کڑوڑ حق مہر سکہ راجلوقت طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے"

*میں غیر خاندانی لوگوں کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں کرتا*

اور آج وہ اس غیر خاندانی سے نکاح کر اپنا ایمان مکمل کر رہا تھا۔

"قبول ہے" وہ مطمئن تھا۔

"حیدر عبّاس والد عبّاس عالَم آپ کا نکاح زینب والیواللہ کے ساتھ ایک کڑوڑ حق مہر سکہ راجلوقت طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے"

*یہ کیا بکواس لکھی ہے تم نے اس میں۔۔۔۔تمہاری ہمّت بھی کیسے ہوئی اتنی تھرڈ کلاس حرکت کرنے کی۔۔۔۔۔اوہ میں بھی کس سے کہہ رہا ہوں تم سے۔۔۔تم سے تو اسی سب کی توقع کی جاسکتی ہے آخر تم جیسی لڑکیوں کا کام ہی یہ ہے اچھے امیر گھر کے لڑکوں کو اپنے جال میں پنھسنا انہیں اس طرح کے الفاظ کہہ کے اور لکھ کر رجھانا اور ان کے ساتھ شہزادیوں جیسی زندگی گزارنے کا تصور کرنا۔۔۔۔۔لیکن مس زینب میں کوئی بھی لڑکا نہیں ہوں میں حیدر عبّاس ہوں جو تمہاری کسی بھی چال میں نہیں آئے گا اور میرے ساتھ کا تصور بھی اپنے ذہن سے نکل دو تم دنیا کی آخری لڑکی ہوئیں تب بھی میرے لئے حرام ہی ہو گی۔۔۔۔۔میں جانتا ہوں یہ سب کس لئے کیا ہے تم نے۔۔۔۔۔۔۔تم جیسی لڑکیاں کس لیے کرتیں ہیں یہ سب صرف دولت کے لئے۔۔۔۔۔صرف اس کے لیے*

وہ اسے تھرڈ کلاس کہنے والا آج اس سے زبردستی نکاح کر رہا تھا۔

وہ اس کو خود پر حرام کرنے والا آج دنیا کی ہر لڑکی کو خود پر حرام کر اس کو حلال کر رہا تھا۔

وہ اپنا تصور اس کے ذہن سے مٹانے کا کہنے والا آج صرف اسی کے تصور میں جی رہا تھا۔

"قبول ہے"

"حیدر عبّاس والد عبّاس عالَم آپ کا نکاح زینب والیواللہ کے ساتھ ایک کڑوڑ حق مہر سکہ راجلوقت طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے"

"قبول ہے" اس نے بہت عہد خود سے کر پپرس پر دستخط کئے تھے۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top