سکوں دل
عائشہ کو یوں روتا دیکھ حیدر کو زندگی میں پہلی بار ڈر لگا تھا۔۔۔۔۔۔دل۔۔۔۔۔۔سیاہی۔۔۔۔۔۔آنکھیں۔۔۔۔اسے یہ سب الفاظ پریشان کر رہے تھے شاید وہ اس قدر نا ڈرتا اگر یہ دل کسی اور کا ہوتا۔۔۔۔۔لیکن ساری بات ہی یہی تھی یہ دل زینب کا دل تھا جو اس کے دل کو بے چین کئے رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔اس ایک دل سے حیدر کو قرار بھی آتا تھا اور بیقراری بھی۔۔۔۔۔۔
حیدر وہاں سے تیزی سے نکلا تھا۔
عائشہ کرسی پر بیٹھی آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی جب علی نے ٹشو اس کے آگے بڑھایا۔
عائشہ نے روتے روتے ہی ٹشو لے لیا اور آنسو صاف کرنے لگی۔ کچھ یاد آنے پر اس نے فوراً سر اٹھایا تھا اس کو تو بھول ہی گئی تھی اور اب اس کے سامنے رونے پر شرمندہ بھی ہو رہی تھی۔
"عاشی تم روتی اچھی نہیں لگتیں" علی نے سنجیدگی سے کہا تھا جو کبھی بھی اس کے لہجے میں نئی پائی گئی تھی۔
"میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں میرا نام عائشہ ہے عاشی نہیں" یہ سن وہ ایک لمحے سے پہلے غصّے میں آئی تھی۔
"اور میں بھی پہلے کہہ چکا ہوں میرے لئے تو عاشی ہی ہے" وہ اب اپنے ازلی انداز میں لوٹتا اسے تاؤ دلا رہا تھا۔
"کیوں آپ کیا آسمان سے اترے ہیں؟" وہ آگ بھاگو ہوتی پوچھ رہی تھی۔
"ہاں بلکل صرف تمہارے لئے" علی نے آنکھ دبا کے کہا تو اس کے غصّے کا گراف شوٹ کر گیا۔
"آپ دفع ہو جائیں یہاں سے" وہ دروازے کے پاس کھڑی اسے باہر کا راستہ دکھا رہی تھی۔
علی غیر متوقعہ طور پر مسکراتا ہوا کچھ بھی کہے بینا چلا گیا تھا۔
عائشہ نے واپس اپنی کرسی سنبمھالتے سکھ کی سانس لی تھی۔ اس نے ابھی قلم اٹھایا تھا جب علی کی بات اسے یاد آئی۔
*ہاں بکل صرف تمہارے لئے*
اسے علی کی بات کا مطلب اب سمجھ آیا تھا اور وہ بے انتہا پریشان ہو گئی تھی پتا نہیں وہ کیسا شخص تھا اور وہ کیوں اس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔۔۔اور کیا اس کی بات کا مطلب وہی تھا جو میں سمجھ رہی ہوں یا پھر میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہوں۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے ایسا کچھ بھی نا ہو۔۔۔میں ہی اور ریکٹ کر رہی ہوں۔۔۔۔ہاں ایسا کچھ نہیں ہے عاشی۔۔۔۔۔۔ہنننننننننن۔۔۔۔۔عائشہ۔۔۔۔۔وہ عاشی کہنے پر خود کو سرزنش کر رہی تھی۔
"اتنا مت سوچو پیار ہو جائے گا" علی سینے پر ہاتھ بندھے تپا دینے والی مسکراہٹ لبوں پر سجائے دروازے کے ساتھ لگا اس سے کہہ رہا تھا۔
عائشہ نے غصّے سے میز پر رکھا پیپر ویٹ اٹھایا اور علی کے کھینچ کے مارا لیکن سب بے سود علی اسے کینچ کر چکا تھا۔
"جا تو رہا ہوں لیکن واپس آنے کے لئے" علی نے اندر آتے پیپر ویٹ ٹیبل پر رکھا۔ دونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں میز پر جماتا وہ ذرا سا جھکا اور اسے یقین دلاتا کہہ رہا تھا۔
عائشہ کچھ کہہ نا سکی بس چپ چاپ سنتی رہی وہ چلا گیا تو سر ہاتھوں میں تھام وہ اللہ کو یاد کر رہی تھی اور اس مصیبت سے بچنے کا حل سوچنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر کچھ بھی سوچے سمجھے عائشہ کی بات سنتے ہی زینب کا تعاقب کرتا اس کے گھر تک آیا تھا صرف اسے ایک بار دیکھنے کے لئے۔۔۔۔پتا نہیں کیوں لیکن دل اس کو دیکھنے کی خواہش پر ڈاٹا تھا۔
وہ اس کا تعاقب کرتا یہاں تک آ تو گیا تھا پر اس سے فاصلہ رکھ کے ڈرائیو کرنے کی وجہ سے اسے دیر ہو گئی تھی وہ اسے دیکھ نہیں پایا تھا۔ اس نے غصّے سے سٹرنگ پر ہاتھ مارا تھا۔
وہ گاڑی پارکنگ میں کھڑی کر مضطرب سا چکر کاٹ رہا تھا۔۔۔۔۔گھنٹے گزرتے گئے پر وہ نہیں دیکھی۔۔۔۔اس نے اپنا کوٹ اتار بونٹ پر رکھا تھا اور اپنی آستینوں کے کف موڑتا وہ گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا اس کے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔حیدر کو دیکھ ایسا لگ رہا تھا کہ جب تک اسے وہ دیکھ نا لیتا یہاں سے جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔۔
دن ڈھلتا جا رہا تھا اور اس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔زینب کا بے تاثر چہرہ جو کبھی اس کا غصّہ بڑھا دیتا تھا آج بھی بڑھا رہا تھا لیکن اب کے یہ غصّہ نفرت یا جلن کی وجہ سے نہیں تھا۔۔۔۔فکر کی وجہ سے تھا۔۔۔۔۔وہ اسے ایک بار دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ ٹھیک تھی یا نہیں۔۔۔۔لیکن کیا وہ ٹھیک ہو سکتی تھی اتنا سب ہونے کے باوجود بھی۔۔۔۔یہ سوال بھی وہ خود سے کر رہا تھا جس کا جواب ہر بار منفی آ رہا تھا۔
حیدر کا سر بے ساختہ آسمان کی طرف اٹھا تھا اور وہ آنکھیں بند کئے دل کی گہرائیوں سے صرف اتنا بولا تھا۔
"یااللہ مدد"
اور جس پاک ذات سے مدد مانگی گئی تھی اس نے حیدر کے آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی مدد بھیج دی تھی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو سامنے سے نور رانیہ کے ساتھ اپنی کار میں پارکنگ میں داخل ہوئی تھیں۔ وہ اسے نا دیکھ سکیں اسی لئے حیدر نے اپنا رخ موڑا تھا۔
وہ دونوں گاڑی سے اتر بلڈنگ میں گئیں تھیں اور تھوڑی دیر بعد ہی وہ رانیہ اور نور کے ہمراہ نیچے آئی تھی۔ وہ کالے رنگ کے سادھا سے لباس میں ملبوز تھی اور کالے ہی رنگ کا حجاب لئے اپنے گرد شول کو اچھے سے لاپیٹے تھی۔ اس کی آنکھیں بے رنگ تھیں جو دکھ سے بھری نظریں کبھی پورے اعتماد کے ساتھ اٹھی ہوتیں تھیں آج وہ نظریں جھکیں تھیں حیدر کو لگا ان آنکھوں نے اپنا اعتماد کھو دیا ہے۔۔۔۔زینب کے لبوں پے ایک مصنوئی مسکان سجی تھی اس ایک مسکان کے پیچھے اتنی تھکن تھی کہ اس کا بوجھ حیدر کو اپنے دل پر محسوس ہو رہا تھا۔
وہ تینوں کار میں سوار ہوئیں تھیں اور کچھ ہی دیر میں حیدر نے انہیں پارکنگ سے نکلتے دیکھا تھا۔
حیدر کا دماغ اس وقت سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا نے ایک گہری سانس لے ان سوچوں کو جھٹکا تھا اور ایک بار پھر ان لے پیچھے چل دیا۔
ایک لمبی ڈرائیو کے بعد زینب نے بریک دے کار کو روکا تھا اور کچھ بھی کہے بینا وہ کار سے اتر گئی تھی۔
وہ قدم قدم چلتے ایک پہاڑ کی چوٹی پر رکی تھی۔ سامنے دل موہ لینا والا منظر اپنی پورے حسن و شادابی کے ساتھ موجود تھا۔
دو قدادام پہاڑوں کے عین درمیاں سے دودھ مائل پانی کی ایک آبشار بغیر کسی روکاوٹ کے بہتی ہوئی ایک چھوٹی مگر خوبصورت جھیل کے ساتھ ملتی تھی جس کے گرد بیشمار بڑے بڑے پھتر جگہ جگہ موجود تھے۔ اس آبشار کا پانی سطح پے پھیلتا اپنا رنگ بدل گیا تھا۔۔۔۔یہ پانی شفاف نیلے رنگ کا تھا جس میں اپنا عکس با آسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
اونچائی سے یہ جھیل ایک پیالے نماں کی صورت دکھائی دیتی تھی جس کے چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ تھے۔
زینب دم بخود سی اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔
"زینی تمہیں ابروڈ سے جاب کی آفر آ رہی ہے؟" زینب رانیہ کی طرف متوجہ ہوئی تھی رانیہ کے ہاتھ میں زینب کا فون تھا مطلب جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
زینب سیدھی ہوتی ایک بار پھر سامنے دیکھنے لگی۔
"زینی ان کی کال آ رہی ہے وہ پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔بتاؤ میں انہیں کیا جواب دوں؟" زینب کو خاموش پا کر رانیہ نے دوبارہ سوال کیا تھا۔
زینب کی خاموشی اب بھی برقرار تھی۔
"زینی تمہیں یہ کرنا چاہیے" رانیہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ نرمی سے مشورہ دیا تھا۔
"کس کے لئے؟" زینب بلاخر بولی تھی۔
"اپنے لئے" رانیہ نے مدھم آواز میں کہا۔
"اپنے لئے کچھ بھی کرنے کی مجھے اب چاہ نہیں رہی" ایک عجیب ٹہراؤ تھا اس کے لہجے میں۔
"وہ تو تمہیں کبھی نہیں تھی" رانیہ ناراضگی سے بولی۔
کافی دیر زینب کچھ بول نہیں سکی۔
"خوبصورت ہے نا۔۔۔۔۔بابا اکثر مجھے یہاں لیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا تھا زینی خواب دیکھنا شروع کرو۔۔۔۔۔۔وہ چاہتے تھے میں شادی کر لوں میں نے کبھی بابا کی بات کو نہیں ٹالا تھا۔۔۔۔۔جو خواب وہ مجھے دکھانا چاہتے تھے وہ انہوں نے پہلے خود دیکھا تھا۔۔۔۔انہوں نے مجھے سب کچھ دیا تھا تو میں کیسے پیچھے ہٹ سکتی تھی میں نے ہاں کر دی۔۔۔۔۔پر۔۔۔۔۔جب مجھے یہ علم ہوا کہ اس سب میں ان کی بہت بے عزتی ہو رہی ہے تو میں نے وعدہ توڑ دیا" وہ بہت ٹہر ٹہر کے کہتی سانس لینے کے لئے روکی تھی۔
"وعدہ توڑنے کی اتنی بڑی سزا دی بابا نے مجھے، وہ مجھے چھوڑ کر ہی چلے گئے"
"زینی وہ صحیح تھے تم شادی کر لو" رانیہ نے سابقہ انداز اپنائے ہی کہا۔
" ہر کوئی بابا جیسا نہیں ہوتا کہ کسی کے گناہ کو اپنے سینے سے لگا لے۔۔۔۔۔۔اپنے گھر کی عزت بنا لے" رانیہ نے پہلی بار زینب کے منہ سے اپنی ہی ذات کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرتے سنے تھے۔
رانیہ کو حیرت تو بہت ہوئی دکھ بھی ہوا لیکن وہ آج کسی اور ہی موضوع پر بات کرنا چاہتی تھی۔
"لیکن میں دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتی ہوں زینی میں تمہیں اپنی بھابی بنانے کے لئے تیار ہوں" رانیہ نے مستحکم لہجے میں کہا۔
زینب ایک بار پھر چپ ہوئی تھی۔ اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ انس احسن اسے پسند کرتے ہے لیکن رانیہ بھی یہ جانتی ہے اسے علم نہیں تھا۔
"محبّت کرتے ہے انس بھائی تم سے" رانیہ نے اب کے صاف لفظوں میں بولا تھا۔
زینب جس پہاڑ پر کھڑی تھی اس کے ٹھیک نیچے حیدر کھڑا کافی دیر سے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔ رانیہ کے اس انکشاف پر اس کا دل زوروں سے دھکڑکا تھا۔
زینب کی یہ طویل خاموشی حیدر کو بری طرح ڈسٹرب کر رہی تھی۔ اسے اس پل زینب کے جواب کی شدید خواہش تھی۔۔۔۔۔۔وہ اس کا جواب سنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔کیا وہ شادی کر لے گی۔۔۔۔۔۔کیا وہ کسی اور ہی ہو جائے گی۔۔۔۔
"رانی تم بھاگ کے یہاں آ گئی بندا تھوڑی مدد ہی کر دیتا ہے اتنی مشکل سے نکالا ہے میں نے یہ بیگ ڈیگی میں پھنس گیا تھا" نور ایک ہاتھ میں بیگ دوسرے میں فروٹ باسکٹ اٹھاۓ آ رہی تھی۔
رانیہ زینب سے اس متعلق بعد میں بات کرنے کا تہیہ کرتی نور کی جانب بڑھی اور اس کے ہاتھ سے بیگ لے لیا۔
"بندا ہوتا تو کرتا نا مدد۔۔۔۔ویسے کس بندے کی مدد کی ضرورت ہے تمہیں" رانیہ نے شوخی سے نور کو چھیڑا تھا۔
"اف رانی میرا مطلب تھا بندی یعنی کہ تم" نور نے وضاحت کی۔
"سچ میں" وہ شکی نظریں اس پر جمائے پوچھ رہی تھی۔
"دفع ہو جاؤ" نور اس کے دیکھنے سے ایک پل کو ڈری لیکن اگلے ہی پل غصے سے کہتی تیز تیز قدم لئے آگے بڑھ گئی۔
"ارے سنو تو " رانیہ کہتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگی تھی۔
ان تینوں نے یہاں بیٹھ خوب باتیں کیں۔۔۔۔۔نور نے بہت سی پِکس کلک کیں اور رانیہ سلفیس لینا بھی نہیں بھولی۔۔۔۔۔عجیب غریب پوس لیتی۔۔۔۔۔پک کو خراب کرتیں وہ اسے ہنسانے کی کوششوں میں پیش پیش تھیں۔
حیدر ان کے جانے کے بعد بھی وہاں سے ہلا نہیں تھا۔۔۔۔۔وہ جیسے ایک ہی لمحے میں قید ہو گیا تھا۔۔۔۔اس کی دلی حالت عجیب ہو رہی تھی۔۔۔۔۔"کیوں؟" وہ جلد جانے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انس احسن ڈائننگ ٹیبل پر براجمان اخبار ہاتھ میں لئے اس کا مطالع کر رہے تھے چونکہ آج وہ معمول سے ہٹ کر جلدی اٹھ گئے تھے اور اب اپنے ناشتے کا انتظار کر رہے تھے۔
"بھائی" رانیہ نے اس کے برابر والی کرسی سنمبھالتے ہلکی آواز میں اسے پکارا۔
"بولو" انس احسن نے مصروف سے انداز میں کہا۔
"بھائی ضروری بات کرنی ہے آپ سے زینب کے بارے میں" اب کے وہ سرگوشی میں بولی تھی کہیں نیلم بیگم سن ہی نا لیں۔
"کہو" انس احسن اخبار میز پر رکھ اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔۔۔۔ماتھے پر شکنے اور لہجے میں سنجیدگی تھی۔
"بھائی آپ زینب سے شادی کر لیں" وہ بینا تمہید بندھے عجلت سے بولی تھی۔
انس احسن مسکرا بھی نا سکے انہیں پتا نہیں تھا رانیہ یوں ان سے ایک دم ہی ایسی فرمائش کرے گی جو ان کی خود کی بھی خواہش تھی پر اس پر عمل کرنے میں وہ ذرا گھبرا رہے تھے۔۔۔۔۔نا جانے یہ سن کر زینب ان کے بارے میں کیا سوچتی۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں غرق تھے جب رانیہ نے ان سے دوبارہ کہنا شروع کیا۔
"زینب ٹھیک ہے پر میں چاہتی ہوں وہ صرف ٹھیک نا ہو وہ خوش بھی ہو اسی لئے اب اور دیر نہیں کر سکتے ہم۔۔۔۔مجھے نہیں پتا آپ یہ سب کیسے کریں گے پر آپ آج ہی میرے ساتھ اس سے بات کرنے چل رہے ہیں" وہ اپنی طبیعت کے خلاف سنجیدگی سے کہہ رہی تھی اور آخر میں تحمکانہ انداز اپنا لیا تھا۔
"ہمم" انس احسن نے سر اثبات میں ہلاتے اپنی رضامندی دی کیوں کہ نیلم بیگم ناشتے کی ٹرے لئے یہیں آ رہیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات حیدر کی آنکھوں میں کٹی تھی۔ اس کے دل میں عجیب اتھل پھتل مچی ہوئی تھی۔ اسے کسی طور چین نہیں آ رہا تھا۔
زینب نے کچھ کیوں نہیں کہا۔۔۔۔۔۔کیا وہ انس سے شادی کر لے گی۔۔۔۔۔اسی طرح کے کئی سوالات اس کے ذہن میں چل رہے تھے اور انہی سوالات کے جواب جانے وہ ایک بار پھر زینب کے گھر گیا تھا۔
وہ ابھی باہر ہی تھا جب اس نے سوسائٹی کے دروازے سے ان کی گاڑی کو نکلتے دیکھا اس نے اپنی گاڑی کو بھی ان کے پیچھے ڈال دیا۔
پانچ منٹ کے سفر کے بعد زینب کی کار ایک کیفٹیریا کے باہر رکی اور وہ تینوں کار سے نکلتی اندر کو چل دیں۔
حیدر نے کچھ سوچتے ہوئے بیک سیٹ پر نظر دوڑائی اور ہاتھ بڑھا کر ہیٹ اٹھایا۔ گاڑی کو لاک کر کے اس نے ہیٹ کو پہنا آج اس کا حلیہ معمول سے مختلف تھا وہ سکین کلر کی ٹی۔شرٹ اور بلیک جینس میں ملبوز تھا۔ اپنے اس انفورمل لباس میں بھی وہ توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
اس نے ہیٹ کے ہوڈ سے اپنے چہرے کو چھپایا اور آنکھوں پر گوگلس لگاتا وہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔
وہ تینوں ہمیشہ کی طرح حجاب میں موجود تھیں اور گلاس وال سے لگی میز پر بیٹھی اپنا آرڈر نوٹ کروا رہیں تھیں۔ حیدر نے دیکھا تھا زینب کے پشت پر رکھی میز خالی تھی وہ لمبے لمبے قدم لیتا وہاں جا بیٹھا۔
ویٹر حیدر سے اسکا آرڈر لینے آیا تو حیدر نے کافی کا آرڈر دیتے اسے رخصت کیا۔ اتنے میں پیچھے بیٹھی لڑکیوں کا آرڈر بھی آ گیا تھا جس سے یہ بھرپور انصاف کر رہیں تھیں۔
"زینی مجھے تم سے بات کرنی ہے انس بھائی۔۔۔۔۔" رانیہ نے کیپیچینو کا سپ لیتے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ساتھ بیٹھی نور کو ایک دم پھندا تھا۔
رانیہ اپنی بات بھولتی اس کی طرف متوجہ ہوئی جو بری طرح کھانس رہی تھی۔ رانیہ نے اس کی کمر کو تھپکا اور زینب نے جلدی سے پانی کا گلاس اس کے آگے بڑھایا۔ نور نے چند گھونٹ لئے۔۔۔۔کھانسی اب بند ہو گئی تھی۔۔۔۔۔لیکن آنکھوں میں نمی نمایاں تھی۔
"تم ٹھیک ہو؟" رانیہ اس کو دیکھتے پوچھ رہی تھی۔
"ہاں۔۔۔۔۔میں ابھی واشروم سے آتی ہوں" نور کہتی اٹھ کر چلی گئی تھی۔
"زینی انس بھائی تم سے محبت کرتے ہیں شادی کرنا چاہتے ہیں" رانیہ نے نور کے جاتے ہی اپنی بات جاری رکھتے کہا تھا۔
زینب ایک بار پھر خاموش ہو گئی تھی جو حیدر کو چبھن کی طرح اپنے دل میں محسوس ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے حیدر اپنا ضبط کھو کر اس کے سامنے آ اس سے یہ سوال کرتا زینب کی آواز حیدر کی سماعتوں سے گزری تھی۔
"کرتے ہوں گے رانی۔۔۔۔۔تم تینوں بہن بھائی مجھے اس دنیا کے نہیں لگتے کسی دور دیس سے آئے ہو یا شاید بھیجے گئے ہو" زینب کافی کے مگ پر ہاتھ پھرتی کہہ رہی تھی۔
"ہاں بھیجے ہی گئے ہیں صرف تمہارے لئے میں بھی اور بھائی بھی تم کرو گی نا انس بھائی سے شادی" رانیہ نے اس کے برابر بیٹھ کہا تھا۔
"کیا ہم اس ڈسٹ بن کو گھر لے چلیں؟" زینب نے رانیہ کی بات کا جواب دینے کے بجائے ایک کونے میں رکھے ڈسٹ بن کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
"ہم دوسرا لے لیں گے یہ تو گندا ہے" رانیہ کو دھچکا لگا زینی اس کی بات سن بھی رہی تھی یا نہیں اسے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کیوں کہ وہ اب بھی اسی ڈسٹ بن کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"نہیں مجھے یہی چاہیے" وہ زور دیتی بولی۔
"زینی لیکن ہم کسی گندی چیز کو گھر تو نہیں لے جا سکتے نا یہ تو بیوقوفی ہوئی نا" رانیہ نے بچوں کی طرح اسے سمجھایا۔
"ٹھیک کہا تم نے گند کو گھر کی زینت نہیں بنایا جاتا اور جو ایسا کرتے ہے وہ بیوقوفی کرتے ہیں۔۔۔۔۔مجھ جیسے لوگوں کی زندگی کا آغاز تاریک رات میں سنسان سڑک پر پڑے کسی کچرے کے ڈھیر سے سے ہوتا ہے اور کسی دن انہی سڑکوں پر ہماری لاش ملتی ہے۔۔۔۔بس اتنی سی ہے زندگی۔۔۔۔تھوڑی جی چکی ہوں تھوڑی باقی ہے" وہ خود ازیتی کا شکار تھی جو اس کی ذات میں کبھی رانیہ نے نہیں دیکھا تھا آج دیکھ رہی تھی۔
"خدا کا واسطہ ہے زینی ایسی باتیں مت کرو۔۔۔۔۔انس بھائی سب ٹھیک کر دیں گے بس تم مان جاؤ" رانیہ آنسو پیتی اس سے التجا کر رہی تھی۔
"میرے پاس دل نہیں ہے۔۔۔۔ہوا کرتا تھا کبھی۔۔۔۔پر اب نہیں ہے اسے لوگوں کے تلخ جملے نے توڑ دیا ہے اور اب صرف کانچ کے ٹکرے ہیں اگر کوئی انہیں سمیٹنے کی کوشش کرے گا تو صرف اس کے ہاتھ لہو ہوں گے اسی لئے بہتر ہے اجتیناب کیا جاۓ" وہ رانیہ کو دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔
*میں بتاؤں تم کون ہو تم ایک حرام کی پیداوار ہو* حیدر کو اپنا کہا یاد آیا تھا۔
اس نے شدتِ جذبات سے آنکھیں میچین تھیں۔۔۔۔۔ہاں ایک کاری ضرب اس نے بھی لگائی تھی۔ اسے زینب کا وہ چہرہ یاد آیا تھا جو اس جملے کے بعد سفید پڑا تھا۔
"دل میں نے توڑا ہے تو مسیحائی کرنے کا حق بھی صرف میرا ہے"
اس نے اپنی لال انگارہ آنکھیں کھولیں تھیں اور اسی لمحے فیصلہ کیا تھا وہ فیصلہ جس سے بہت سوں کی زندگی ہلنے والی تھی۔۔۔۔۔وہ فیصلہ جو نا جانے کیوں وہ خود کو کرنے سے روک رہا تھا۔۔۔۔۔وہ سچ جسے مانے سے وہ انکاری تھا آج اسے پورے دل سے قبول کر رہا تھا۔
"انس بھائی سب ٹھیک کر دیں گے" رانیہ ایک ہی بات پر اٹک گئی تھی۔
"محبّت ہو جاتی ہے ہم انسانوں کو۔۔۔۔عزت ہم کر لیتے ہیں۔۔۔۔لیکن عزت کروا نہیں سکتے" زینب کے پاس آج بہت کچھ تھا بولنے کے لئے۔
"زینی انس بھائی تمہاری عزت بھی کروا لیں گے" رانیہ بھی چپ ہونے سے انکاری تھی۔
"ہوسکتا ہے کروا لیں معاشرے سے لڑ لیں لیکن کیا اپنے ہی گھر میں جنگ کی وجہ بنو گی میں؟" زینب نے اب کی بار اس سے سوال کیا تھا۔
رانیہ جانتی تھی اس کا اشارہ نیلم بیگم کی طرف تھا۔ وہ چپ رہی کیوں کہ نیلم بیگم کو کیسے راضی کرنا تھا یہ تو اسے بھی نہیں پتا تھا۔
"کیا اپنی ہی جنت سے لڑیں گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں چاہتی میں جہاں ہوں ٹھیک ہوں اور اگر ٹھیک نہیں بھی ہوں تو بھی کیا فرق پڑتا ہے زندہ ہوں۔۔۔تمہارے ساتھ ہوں اتنا کافی ہونا چاہیے تمہارے لئے" زینب اس کی طرف دیکھ بولی تھی۔
"لیکن زینی۔۔۔۔۔۔" رانیہ ایک کوشش اور کرنا چاہتی تھی۔
"مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی" زینب نے کہتے ہی آنکھیں ایک بار پھر پھیری تھیں۔
"لیکن زینی میں نے یہاں انس بھائی کو بلا لیا ہے تم سے بات کرنے" رانیہ ایک ہی سانس میں سب کہہ گئی۔
"میں کر لوں گی بات" وہ اسی کھوے انداز میں بولی۔
"بھائی" رانیہ انس احسن کو دیکھتے کھڑی ہوئی تھی۔ انس احسن اس کو دیکھتے اسی ٹیبل پر آ کر روکے۔
"میں نور کو دیکھ کر آتی ہوں پتا نہیں کہاں رہ گئی ہے جب تک آپ دونوں باتیں کریں" رانیہ عجلت میں کہتی انہیں اکیلا چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
حیدر کا خون کھولا تھا اسے یہ سوچ غصّہ دلا رہی تھی کہ وہ اس شخص کے ساتھ بیٹھی تھی شاید اسے غصّہ نا آتا مگر یہاں وہ ان کے بیٹھنے کی وجہ اور موضوع دونوں سے واقف تھا۔
"میں آپ سے۔۔۔۔۔" خاموشی کے لمبے وقفے کے بعد انس احسن نے ہمت معجمہ کرتے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ زینب نے انہیں بیچ میں ہی ٹوک دیا۔ وہ اس قسم کی کوئی بھی بات سنے کی روادار نہیں تھی۔
"میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔۔۔۔عزت کے رشتے محبّت کے رشتوں سے زیادہ انمول ہوتے ہیں۔۔۔۔زیادہ خالص ہوتے ہیں۔۔۔۔آپ ہمارے اس رشتے کے درمیاں محبّت کو لا کر اسے بے مول نا کریں" وہ کچھ پل کو رکی تھی اور اس نے پھر کہنا شروع کیا تھا۔
"میں آپ کے لئے نہیں ہوں۔۔۔۔۔میں کسی کے لئے نہیں ہوں کیوں کہ جو خود میں مکمل ہوں انہیں کسی ساتھی کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔۔میرے زندگی میں مشکلات پیدا نا کریں۔۔۔۔۔۔میرے اور آپ کے درمیان ہمیشہ سے عزت کا رشتہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا" وہ ایک بار پھر روکی تھی۔
"محبّت کو وہاں تلاش نا کریں جہاں اس کا چھایا بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔آپ اسے غلط جگہ تلاش کر رہے ہیں جس سے صرف آپ کا نقصان ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں شادی اس سے کرنی چاہیے جو آپ کو چاہے نا کے اس سے جس کو آپ چاہیں کیوں کہ وہ چاہنے والا ہماری زندگی کو جنت بنانے کی جان توڑ کوشش کرنے کے لئے ہم وقت تیار رہتا ہے۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے آپ کو میرا یہ کہنا برا لگے لیکن مجھے آپ کے اس جذبے کی کوئی قدر نہیں ہے۔۔۔۔اپنے جذبوں کا قدر کرنے والا ڈھونڈھے۔۔۔۔جو آپ کا ساتھ پا کر خود کو متعبر سمجھے۔۔۔۔۔۔۔
"ایک لڑکی ہے جو آپ کو چاہ رہی ہے اور ایک دو دن سے نہیں چاہ رہی۔۔۔۔۔پچھلے چار سال سے چاہ رہی ہے خود سے لڑ رہی ہے خود کو کوس رہی ہے صرف اس لئے کیوں کے اسے آپ سے محبّت ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب ہوتی ہیں نا ہم لڑکیاں محبّت ہمارے بس میں نہیں ہوتی اور اس کا اظھار ہم اپنے جذبوں کی پامالی کے ڈر سے خود کے بس سے باہر کر دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ میری تھوڑی بھی عزت کرتے ہیں تو اسے تلاش کریں۔۔۔۔۔زیادہ مشکل کا سامنا نہیں ہو گا آپ کو یہ کرنے میں کیوں کہ اس کے چہرے پر ہر تحریر واضح ہے۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں آپ کا عکس ہر وقت نظر آتا ہے۔۔۔۔۔۔
اور یہ مت سمجھئے گا کہ کوئی آپ کو چاہتا ہے اس وجہ سے میں آپ سے شادی نہیں کر رہی کیوں کہ کسی کی بھی زندگی میں کوئی بھی ہو مجھے کوئی سروکار نہیں" زینب اپنی بات مکمل کرتی اب چپ ہوئی تھی۔
انس احسن نے اس کی ہر بات کو بینا کسی مداخلت کے پوری توجہ سے سنا تھا اور اس نئے انکشاف پر وہ دنگ رہ گئے تھے اسے سمجھ نہیں آیا کیسے ریکٹ کریں وہ چپ چاپ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے چلے گئے تھے۔
زینب کی ساری باتیں سن سکوں کی ایک لہر تھی جو حیدر کے رگ و پیمان میں اتر گئی تھی۔ اتنا ہلکا اس نے کبھی خود کو نہیں محسوس کیا تھا جتنا وہ اس وقت محسوس کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر انس احسن کے جاتے ہی چلا گیا تھا۔ اسے اب اپنی سوچ پر عمل کرنا تھا۔ پلان تیار تھا بس اس پر عمل کرنے کی دیر تھی اور وہ اب مزید کوئی تاخیر نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے فون نکال نمبر ڈائل کیا تھا۔
کال پہلی ہی بیل پر رسیو کر لی گئی تھی۔
"ان کے سٹے کو کچھ بھی کر کے چھ مہینے کے لئے بڑھا دو" حیدر نے حکم دیا تھا۔
"میں کوشش۔۔۔۔" فون کے سپیکر سے آواز گونجی تھی۔
حیدر نے اسے بولنے ہی نا دیا۔
"کوشش نہیں کرنی۔۔۔ایسا ہی ہونا چاہیے" وہ سختی سے بولا تھا۔
"اوکے سر" دوسری طرف سے تعبیداری سے کہا گیا۔
"جب تم انہیں آگاہ کر دو تو مجھے فوری اطلاع کر دینا" حیدر نے کہتے ہی کال ڈسکنیکٹ کی تھی۔
اب اسے بےصبری سے اس کال کا انتظار تھا کیوں کہ آگے کے مراحل اس کے بعد ہی طے پانے تھے۔
حیدر گھر آیا اور سیدھے اپنے کمرے میں گیا وورڈروپ سے کپڑے نکلتا وہ باتھروم میں نہانے کی غرض سے چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد ہی باتھروم کا دروازہ کھولا۔ وہ اب خود کو تازہ تازہ سا محسوس کر رہا تھا اس نے تولئیہ ایک طرف پھینک ڈریسنگ سے موبائل اٹھایا تھا جہاں اسے چند مس کالز اور میسیجز کا نوٹیفکیشن ملا اس نے میسیجز پر ٹچ کیا تو ایک ہی نام سے کئی میسیجز آئے تھے اس نے انہیں بھی ٹچ کیا اور میسج پڑھنے لگا جسے پڑھ کر اس کے لب مسکائے تھے۔۔۔۔۔۔ایک مرحلہ حل ہوا تھا۔۔۔۔۔باقی کے مراحل میں اسے کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیوں کہ اتنا تو وہ زینب کو جان ہی گیا تھا۔۔۔۔۔
لیکن اس سے پہلے اس نے ایک نمبر ڈائل کیا تھا اور بات کافی لمبی ہو گئی تھی اور اس پورے عمل میں اس کے ماتھے پر بے شمار بل تھے۔۔۔۔۔لیکن بات کے اختتام میں اس کے چہرے پر خوشی نے رقص کیا تھا اور وہ مطمئن ہوتا اب اگلے مرحلے کی طرف بڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top