دوستی ایک نعمت


رات گہری ہو رہی تھی اس بلڈنگ کے تیسرے فلور پر وہ ابھی نیند کی گولیاں کہا کے سونے کے لیے لیٹی تھی جو کے اب داغا دینے لگیں تھیں اس کے وجود پر اثر ہی نہیں کرتیں تھیں۔ کافی دیر کروٹیں بدلنے کے بعد نیند کی دیوی اس پر مہربان ہو ہی گئی۔

مسلسل بیل کی آواز نے اس کے نیند کے تسلسل کو توڑا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ لیمپ کو اون کیا۔ بستر جو اس وقت بے شمار شکنوں سے بھرا ہوا تھا اس پر سفید چادر اور سفید ہی رنگ کا کمفرٹر موجود تھا جس نے اس چڑیا کے آدھے وجود کو ڈھانپ رکھا تھا اس کے لمبے سلکی بال جو اس وقت بکھرے شانوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جن میں ہمیشہ ہی اداسی کا بسیرا ہوتا تھا ابھی بھی سرخ ہو رہی تھیں کھڑی مغرور  سی ناک گلابی رنگت وہ ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی۔

بیل کی آواز ابھی بھی آ رہی تھی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بیل پر ہاتھ رکھ کر بھول گیا ہو اس نے کمفرٹر کو اپنے اوپر سے ہٹایا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ دروازے تک پنہچنے کے بعد اس نے لینس سے دیکھ کر تصدیق کرنی چاہی کہ آیا رات کے اس پہر کون آیا ہے؟ لینس سے دیکھنے پر اسے ایک لڑکی جو ایک حجاب میں موجود تھی بڑی بڑی بھوری آنکھیں چھوٹی ناک اور گلابی ہونٹ وہ لڑکی بلا کی معصوم دیکھتی تھی۔

"اسلام و علیکم۔۔۔۔اب اگر آپ کی تفتیش پوری ہو گئی ہو تو دروازہ کھول دیں "
سر کو ذرا خم کر کے اس نے سلام کیا اور ساتھ ہی طنز بھی فرمایا۔

زینب اس کو یہاں اس وقت دیکھ کے کافی پریشان  ہو گی تھی اس لیے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ اندر آنے والی نے اس کو کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بغیر کہا۔

"رانی تمہاری یہ گستاخی معاف نہیں کرے گی بھلا رانیوں کے لیے بھی کبھی دروازے اتنی دیر سے کھولے گئے ہیں"

"رانی صاحبہ کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گی کے رات کہ اس پہر آپ اپنے عالیشان محل کو چھوڑ کر میرے اس جھوپڑے میں کون سی خدمات حاصل کرنے کے لیے آئیں ہیں" جواب رانیہ کے انداز میں ہی دیا گیا۔

"اس سوال کا جواب ضرور دیا جائے گا پہلے یہ لباس تبدیل کر کے آؤ" رانیہ کہتے ہوئے زینب کے کمرے میں آئی اور ایک سوٹ نکال کر اس کے آگے بڑھایا۔

"رانی کیا کر رہی ہو؟" زینب نے تھوڑا چڑ کر کہا۔

"کہا نا پہلے چینج کر کے آؤ پھر بتاؤں گی" رانیہ نے اسے واشروم میں دھکیل کے کہا۔

پانچ منٹ بعد وہ گلابی رنگ کا سوٹ زیب تن کیے واشروم سے باہر آئی اور اپنی سوالیہ نظریں رانیہ کے اوپر ڈالیں۔

"ہم ساحل سمندر جا رہے ہیں" بہت ہی اطمینان سے بتایا۔

"کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ رانی تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔۔۔۔وقت دیکھا ہے تم نے ہم اتنی رات کو ساحل سمندر جائیں گے" زینب  نے غصّے سے کہا۔

وقت کا سن کر رانی نے گردن موڑ کے گھڑی کی جانب دیکھا جو اس وقت گیارہ بجا رہی تھی۔

"زینی کتنی دیر لگا دی تم نے باتوں میں۔۔۔۔۔اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھائی نیچے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔جلدی کرو اب" رانیہ نے زینب  کو حجاب تھماتے ہوئے بتایا۔

"لیکن" زینب نے احتجاج کرنا چاہا۔

"پلیز نا میرے لیے چلو۔۔۔۔پلیز" رانیہ منتوں پر آگئی تھی۔

زینب کو مانا ہی پڑا رانیہ زینب کی بچپن کی دوست تھی رانیہ ایک اچھے امیر طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔

ان دونوں نے اسکول اور کالج ساتھ مکمل کیا تھا۔ زینب ایک زہین طلبیعلم تھی اسی لیے میٹرک تک اسکالر شپ پے تعلیم حاصل کی اور چونکہ میٹرک کے امتحان میں ٹاپ کیا تھا اسی لیے حکومتِ  پاکستان کی طرف سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مفت حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج میں بھی اس نے میٹرک کی طرح ٹاپ کیا تھا۔

رانیہ بھی ذہانت میں کم نہیں تھی اسکول ہاف اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کی۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور اب ان دونوں نے کراچی کی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا جہاں دونوں کے انٹرمیڈیٹ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے زینب کو پہلے سیمسٹر میں سو فیصد جب کے رانی کو پچیاسی فیصد اسکالر شپ دی گئی۔

کل ان کی یونیورسٹی کا پہلا دن تھا۔ زینب والیواللہ کم گو اور سنجیدہ مزاج کی حامل تھی اس کے بر عکس رانیہ احسن شوخ،چنچل،باتونی اور بہت ہی مخلص۔۔۔رنگوں سے سجی ایک حسین گڑیا۔

   زینب نے حجاب اچھی طرح باندھ لیا اور رانیہ  کے ساتھ نیچے آ گئی تھی جہاں رانیہ احسن کے دونوں بھائی فرنٹ سیٹس پر برجمان تھے (انس احسن اور بلال احسن) انس احسن رانیہ کے بڑے بھائی بھوری آنکھیں، لمبی کھڑی ناک ،چھ فٹ کد۔۔۔ذمدار اور سنجیدہ مزاج کے حامل وہ ایم۔بی۔اے کر رہے تھے اور ساتھ میں اپنے والد کا بزنس بھی دیکھتے تھے اور بلال احسن رانیہ سے چھوٹا تھا اور ابھی پانچویں جماعت کا طلبیعلم تھا۔۔۔رانیہ کی ہی طرح معصوم اور زہین۔۔۔۔

وہ دونوں کار میں بیٹھ گئیں اور تھوڑی دیر میں ہی وہ سب ساحل پر موجود تھے۔

ساحل سمندر اس وقت بہت ہی سحر انگیز منظر پیش کر رہا تھا رات نے چاروں اور اپنے پر پھیلائے ہوئے تھےکیوں کہ دسمبر کا مہینہ تھا اسی لیے ساحل پر ایکا دکا لوگ ہی موجود تھے لیکن زینب۔۔۔۔۔۔۔۔زینب اس منظر میں کھو سی گئی تھی گہرے نیلے آسمان پر چاند اور ستارے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے معلوم ہوتا جیسے اوپر بھی آسمان ہو اور نیچے بھی۔۔۔۔۔۔۔لیکن پانی میں ہونے والا ارتعاش واضح کر دیتا کہ یہ صرف عکس ہے حقیقت تو آسمانوں میں ہے۔ اسی طرح اس دنیا میں ہمارا اپنا آپ بھی تو ایک عکس سا ہی ہے حقیقت تو آسمانوں کے پرے ہیں۔

زینب انہی سوچوں میں گم تھی جب رانی کی آواز نے اس کی سوچوں کے تسلسل کو توڑا۔ رانیہ اسے اپنی طرف بلا رہی تھی پاس جا کے دیکھا تو ایک فولڈنگ ٹیبل پر کیک رکھا تھا جو ممبتیوں سے سجا تھا البتہ انہیں ابھی جلایا نہیں گیا تھا۔

"ہیپی برتھڈے زینی جانی" رانیہ نے زینب کے گلے لگ کر کہا۔

"یہاں مجھے نہیں پتا میں کب پیدا ہوئی اور تم برتھڈے مانا رہی ہو میری" رانیہ ہر سال زینب کی برتھڈے اسی دن منایا کرتی تھی لیکن زینب نے آج اس سے کہہ ہی دیا۔

"تم جس دن میری زندگی میں آئیں۔۔۔۔میرے لیے تم اسی دن پیدا ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔۔اور ویسے بھی اچھا ہے نا کوئی تمہاری عمر کا حساب نہیں کر سکے گا" پہلا فقرہ رانیہ نے زینی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا جب کے دوسرا آنکھ دبا کے کہا۔

"رانی تم کبھی نا سدھرنا" زینب نے مسکرا کے طنز کیا۔

"جو حکم۔۔۔۔۔اور ویسے بھی ہم اگر سدھر گئے تو تمھیں زندگی بے رنگ لگے گی" ایک بار  پھر شوخی سے کہا۔

"آہاں۔۔۔۔بڑی خوش فہمیاں پال رکھی ہیں" زینب نے رانی کو چھیڑنا چاہا۔

"پال لینی چاہیں پیسے نہیں لگتے۔۔۔۔ویسے تمھیں پتا ہے؟" رانیہ نے نصیحت کی ساتھ میں سوال بھی کیا۔

"کیا" زینب نے عام سے انداز میں پوچھا۔

"یہ کیک بھی انس بھائی کے پیسوں کا ہے" رانیہ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

"یقیناً تحفہ بھی تم انس بھائی کے پیسوں کا ہی لائی ہو گی۔۔۔۔کنجوس" زینب نے رانیہ کو گھور کے کہا اور آخر میں القاب سے نوازنا نا بھولی۔

"وہ میں اپنے ہی پیسوں کا لائی ہوں اب اتنی بھی کنجوس نہیں ہوں میں" رانیہ نے منہ پھلا کے کہا۔

"کیک کاٹ لیں۔۔۔۔۔گھر کے لیے بھی نکلنا ہے پھر"
انس بھائی جو کے فون پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھے رانیہ کے پاس آ کر نرم لہجے میں بولے۔
 
انس بھائی نے فاؤنٹین کندلیس کو جلایا تو روشنی کا ایک فوارہ سا پھوٹا زینب نے اسی روشنی میں کیک کاٹا اور رانیہ اور بلال کو کھلایا البتہ انس بھائی کو کھلانے کا ذمہ رانیہ نے اٹھایا۔ باری باری رانی کے بھائیوں نے زینی کو وش کیا اور اب باری تھی رانیہ کی جنہوں نے بڑے ہی شاہانہ انداز میں ہاتھ گھما کے دعا دی جیسے وہ خود تقدیر کے قلم سے خود تقدیر لکھ کر آ رہی ہوں۔

"تم جیو ہزاروں سال۔۔۔۔۔سال کے دن ہوں پچاس ہزار"

"اتنے سال جی کے میں کیا کروں گی؟" زینب نے رانیہ کے کندھے پے ایک دھپ رسید کر کے کہا۔

"تو پھر ٹھیک ہے میری برتھڈے پر تم بھی مجھے یہی دعا دی دینا" رانیہ نے اپنی طرف سے مسلے کا حل بتایا۔

"کیوں؟" زینب نے الجھ کے پوچھا۔

"اب ایسا تو ہونے سے رہا کے رانیہ احسن زندہ ہو اور تمھیں کوئی کام نا ہو"

زینب کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ ابھری اور پھر وہ کھلکلا کر ہنس دی۔

رانیہ نے اپنی پوری زندگی میں زینب کی آنکھوں میں آنسو صرف ہسنتے وقت ہی دیکھے تھے زینب  کی زندگی میں بہت سے غم اور دکھ آئے لیکن اس کی آنکھیں ہمیشہ خشک ہی رہیں تھیں لیکن خوشی کے لمحات میں زینب کی آنکھوں سے آنسو چھلک ہی جاتے تھے۔ وہ آنسوؤں کو غم میں روکنا جانتی تھی۔۔۔۔۔خوشی میں نہیں۔

"نظر لگاؤ گی کیا" زینب کے بولنے کی دیر تھی رانیہ  نے اس کی بلائیں لے لیں وہ دونوں ایک بار پھر مسکرا دیں۔ کوئی دور کھڑے اس لمحے کو بڑی مبہوت سے دیکھ رہا تھا۔

انس بھائی نے زینب کو گھر ڈراپ کیا اور رانیہ کے  تحائف کا ڈھیر زینب کے حوالے کیا وہ ایسے ہی زینب کے لیے خوشیاں چن کر اس کی جھولی میں بھرتی تھی۔

صبح کا سورج ان دونوں کی زندگیوں کے نۓ سفر کا آغاز تھا کسی کے لیے محبّتوں اور چاہتوں کی سیج سجائی جارہی تھی تو کسی کے صبر کو اور آزمانا تھا کسی پے حقیقتیں آشکار کرنی تھیں۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top