دل پے وار


اس واقعے کو آج دو ہفتے گزر چکے تھے اور ان کے درمیان کوئی بات یا یوں کہہ لیں کہ کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا اس کی ایک وجہ حیدر کا پروجیکٹ میں بزی ہونا بھی تھا وہ کم کم ہی یونیورسٹی آ پاتا تھا اور جلد ہی چلا بھی جاتا تھا۔ اس نے خود کو کام میں غرق کر لیا تھا وہ اس پروجیکٹ کو کامیاب بنانے کی جستجو میں جوٹا ہوا تھا اسے اپنا مقام واپس چاہیے تھا جس کے لیے وہ دن رات کوشش کر رہا تھا۔

دوسری طرف زینب والیواللہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا تھا حیدر کے نہ ہونے کا۔ وہ نہیں ہوتا تھا تو کوئی اور ہوتا تھا جب حیدر نہیں تھا تب بھی بہت لوگ تھے زینب کے بارے میں بات کرنے والے اور اب بھی تھے وہ الگ بات تھی اس یونیورسٹی میں وہ واحد اجنبی تھا جو اس کے سچ کے بارے میں علم رکھتا تھا۔

ہمیں کتنا شوق ہوتا ہے نہ دوسرے پر اور دوسروں کی زندگیوں پر تبصرہ کرنے کا انہی تبصروں سے  لوگ چاند پر پھنچ گئے کیوں کہ وہ پروڈکٹیوہ ڈسکشن کرنا جانتے ہیں وہ اپنے اور دوسروں دونوں  کے فائدے کے بارے میں سوچ رہے  ہیں اور ہم اپنے تبصروں سے خود کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور دوسرے کے لیے بھی تکلیف  کا باعث بن رہے ہیں اگر آپ کسی کے چہرے پر آنے والی مسکان کی وجہ نہیں بن سکتے تو خدارا ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی وجہ بھی نہ بانے۔

جہاں ان دونوں نہروں کا پانی فلحال بغیر کسی ٹکراؤ کہ بہہ رہا تھا وہیں احمر اور رانیہ کی نہریں ایک ہی سمت میں بہہ رہیں تھیں۔ رانیہ نے اب احمر سے ڈرنا چھوڑ دیا تھا پر محتاط رہنا نہیں چھوڑا تھا لیکن ان دنوں اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ احمر ایک سلجھا ہوا انسان ہے اور وہ واقعی لڑکیوں کی عزت کرنا جانتا تھا اس نے کبھی اپنی حدود عبور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی وہیں احمر رانیہ کے بارے میں جان گیا تھا  کہ وہ اس سے محتاط رہتی تھی اور وہ جانا کچھ ایسے👇

"یار چلو لائبریری چلیں" رانیہ نے زینب اور نور سے کہا جو گراؤنڈ میں سبزے  پر بیٹھی جوس کے مزے لے رہیں تھیں۔

"کیوں" نور نے عام سے انداز میں پوچھا۔

"تم دونوں یہاں دھوپ میں بیٹھ کے کالا کوئلہ ہو جاؤ گی گرمی سے پھوڑے پھونسیاں نکل آئیں گے پر تم میرے ساتھ نہیں چلو گی" رانیہ نے سیخ پا ہو کے کہا۔

"ہیں۔۔۔ہم دھوپ میں کب بیٹھے ہیں رانی" زینب نے تعجب سے پوچھا کیوں کہ یہ لوگ درخت کے ساۓ میں بیٹھے تھے۔

"تو اے۔سی میں بھی کب بیٹھے ہو" رانیہ نے منہ پھیر کے کہا۔

"چلو زینی چلتے ہیں ورنہ یہ ریکوڈر بن نہیں ہونے والا" نور نے رانیہ کی زبان پر چوٹ کی۔

"چلو" زینب نے کہا اور یہ تینوں ہی اپنے کپڑے جھاڑ کر کھڑی ہو گئیں۔

لائبریری میں داخل ہونے پر رانیہ نے ان دونوں کو ایک میز پر بیٹھا دیا اور خود احمر کی میز کی طرف بڑھنے لگی تب ہی نور نے اسے روک کے حیرت سے پوچھا۔

"تم کہاں جا رہی ہو"

"وہاں" رانیہ نے ہلکی آواز میں ہاتھ سے احمر کی طرف اشارہ کر کے بتایا جو بلیک پینٹ اور گرے شرٹ میں ملبوز کتاب پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔

"کیوں" زینب نے ایک نظر رانیہ کی بتائی ہوئی سمت میں ڈال کہ ماتھے پے شکنے لئے پوچھا۔

"احمر بھائی کے ساتھ اسائنمنٹ کرنا ہے نہ اس لیے" رانیہ نے نظریں چرا کے بتایا۔

"ہا۔۔۔تم اپنی چوکیداری کے لیے لائی ہو ہمیں" نور کا تو منہ ہی کھلا رہ گیا۔

"اور نہیں تو کیا" رانیہ نے آنکھ دبا کے کہا اور آگے بڑھ گئی۔

احمر کو سلام کر کے وہ میز کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی یہاں سے زینب اور نور صاف نظر آ رہیں تھیں اور ان کو تھمب کا نشان بنا کے دکھایا۔جس پر زینب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ نفی میں گردن ہلائی جیسے کہہ رہی ہو (تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا) جس کا جواب رانیہ نے سر اثبات میں ہلا کر دیا جیسے وہ زینب کی بات سے متفق تھی (سچ میں کچھ نہیں ہو سکتا)۔

رانیہ جو سوچ رہی تھی احمر کتاب سے پوائنٹس نکالنے میں مصروف ہے اور یہ سب حرکتیں کر رہی تھی اس کی ایک حرکت بھی احمر سے مخفی  نہیں رہی تھی۔ احمر نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہاں نور اور زینب نظر آئیں۔

(تو مس رانیہ آپ نے اپنی حفاظت کے لیے گارڈز تعینات کر رکھے ہیں) اس نے سوچا اور دھیمے سے مسکرایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بےبی پنک کلر کا سوٹ زیب تن کیے بستر پر چت لیٹی دیوار کو بِنا پلکیں جھپکیں دیکھ رہی تھی وہاں اس شخص کا عکس تھا جو اسے پہلی بار یونیورسٹی کے باہر ہی دیکھا تھا اور پھر روز دیکھنے لگا تھا اور روز وہ اس کے سحر میں گرفتار گھر لوٹتی تھی اس کی سوچوں کا محور اب ایک ہی شخص ہوتا تھا وہ کتنی ہی بار دل کو سمجھا چکی تھی پر دل کب کسی کی مانتا ہے اور دماغ سے تو اسے خاصا بیر ہے۔ وہ اس کی سوچوں سے رہائی حاصل کرنے کے لئے خود کو کام میں غرق کر لیا کرتی تھی پر پتا نہیں کہاں سے وہ لمحے آ ہی جاتے تھے جن سے فرار کے لیے وہ جتن کر رہی تھی اور پھر وہ لمحے آتے تو اس کے گھنٹے تباہ کر کے بھی جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔

"نور۔۔۔۔انسان بن جاؤ" اس نے بستر پے بیٹھ کے سائیڈ میں پڑا دوپٹا اپنے شانوں پر ڈالا اور خود کو سرزنش کی۔

"انسان ہی تو ہوں جب ہی تو۔۔۔۔" اندر سے آواز آئی جسے اس نے مکمل ہونے سے پہلے ہی روک لیا۔

  "یہیں رک جاؤ نور۔۔۔۔اللہ‎ کا نام لو مجھے ایسی خرافات میں بلکل بھی نہیں پڑنا" اس نے ایک بار پھر خود کو سمجھایا۔

"گھر اور پڑھائی پے دیہان دو یہ سب بکواس ہے" سلیپیرس کو پیروں میں پہن کے وہ کچن میں چلی گئی اور تھوڑی ہی دیر میں وہی خیالات اس کے دل و دماغ پے حاوی ہو چکے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کھانا جلا چکی تھی دودھ گرا چکی تھی اور برتن توڑ چکی تھی۔

"بڑے ہی کوئی منحوس انسان ہیں آپ میرے سارے کام خراب کرا رہے ہیں" اس نے اپنے آنسو پوچھ کے معصومیت سے کہا وہ خود کو اس وقت بے بسی کی انتہا پر پا رہی تھی۔

اور دل پے پھرے نہیں بیٹھائے جا سکتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر کے سب ہی افراد ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے وہ نیوی بلیو رنگ کی ڈریس کوڈ پے کالے رنگ کی ٹائی لگاۓ آفس جانے کے لیے تیار تھا اور ناشتہ کر رہا تھا۔

"امی موٹی کہاں ہے" انس احسن نے رانیہ کو ناشتے پر نہ پا کر پوچھ لیا۔

وہ رانیہ کو اکثر موٹی کہا کرتے تھے جو اب ہر گز موٹی نہ تھی لیکن بچپن میں رانیہ کے وزن کی وجہ سے نیلم بیگم کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

نیلم بیگم جو سرونگ میں مصروف تھیں ہاتھ روک کے بتانے ہی لگیں تھیں جب رانیہ ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی جو انس احسن کی بات بخوبی سن چکی تھی تبھی کہا۔

"بھائی کم از کم آپ کے اب موٹی بولنے پر مجھ پر کوئی اثر نہیں ہونے والا" رانیہ نے انس کو آگاہ کیا اور اس کے سامنے والی کرسی سنمبھال لی۔

"وہ کیوں؟" انس احسن نے کھانے سے اپنا ہاتھ روک کے پوچھا۔

"کیوں کے میں یونیورسٹی میں موٹی کی ڈیفینیشن سے واقف ہو گئیں ہوں اور ان لڑکیوں کا وزن مجھ سے بہت زیادہ ہے" رانیہ نے ایک اور اہم خبر انس کے گوشگُزر دی۔

"رانیہ بھینسؤں اور ہاتھیوں میں فرق ہوتا ہے" انس احسن نے مصروف سے انداز میں کہا۔

"بھائی۔۔۔۔آپ مجھے بھینس بول رہے ہیں" رانیہ نے چیخ کے کہا انس کے بھینس کہنے پر وہ اچھل ہی تو پڑی تھی۔

"نہیں میں اُنھیں بھینس بول رہا ہوں" انس احسن نے سنجیدگی سے کہا۔

  رانیہ یک دم خوش ہو گئی۔

"بھینس انھیں بول رہے ہیں اور ہاتھی آپ کو" بلال جو اسکول یونیفارم میں ملبوز کونفلیکس کے ساتھ انصاف کر رہا تھا اس نے ٹکرا لگایا۔

"بھائی۔۔۔۔۔" اس انکشاف پے رانیہ تڑپ ہی گئی تھی اور انس احسن بڑی دلکشی سے مسکرا رہے تھے۔

"ابو دیکھ رہے ہیں آپ؟" رانیہ نے باپ کو بیچ میں گھسیٹا جو اکثر اور بیشتر لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے۔

"کس کو ہاتھی کو؟" احسن صاحب نے ہنسی دبا کے پوچھا۔

"ہا۔۔۔ابو آپ بھی۔۔۔۔جائیں میں بیٹھ ہی نہیں رہی آپ سب کے ساتھ" رانیہ نے ناراضگی سے کہا اور جانے لگی لیکن احسن صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑ کے روک لیا۔

"مذاق کر رہا تھا سوری۔۔۔اب کوئی میری پھولوں سی نازک بیٹی کو تنگ نہیں کرے گا" احسن صاحب نے اس سے معذرت کی اور ساتھ بیٹھے لوگوں کو اپنا حکم سنایا۔

"پھولوں سی نازک۔۔۔۔اوہ مائے گاڈ" بلال قہقہ لگا کے ہنسا اور احسن صاحب کی گھوری پر فوراً بریک بھی لگا لیا۔

رانیہ نے بلال کو منہ چڑایا۔

"رانیہ باہر آ جاؤ میں ویٹ کر رہا ہوں" انس احسن نے نیپکین سے چہرہ صاف کرنے کے بعد رانیہ سے کہا اور سب کو دعائی کلمات کہہ کے باہر کی اُور قدم بڑھا دیے۔

تھوڑی ہی دیر میں رانیہ انس احسن کے ساتھ کار میں بیٹھی اپنی منزل کی طرف گمزمان تھی جب انس احسن نے اپنا گالا کھنکار کے پوچھا۔

"پڑھائی کیسی چل رہی ہے"

"اے ون بھائی" رانیہ نے بلا توافق کہا۔

"اور یونیورسٹی میں سب ٹھیک ہے" انس احسن نے اس پے ایک نظر ڈال کے پوچھا۔

"جی۔۔۔سب ٹھیک ہے" رانیہ کے ذہن کی سکرین پے دو نفوس نمایاں ہوئے اور اگلے ہی پل زینب کی کہی گئی باتیں اس کے کانوں میں گوجنے لگیں اس نے کچھ بھی بتانے کا ارادہ ترک کر دیا اور کہا۔

"اور باقی سب ٹھیک ہیں" نجانے انس احسن کے دماغ میں کیا چل رہا تھا لیکن رانیہ جانتی تھی وہ کس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔

"بھائی اس میں شرمانے والی کون سی بات ہے بِنداس پوچھے نہ جو پوچھنا چاہ رہے ہیں" رانیہ نے اپنی کونی انس احسن کے کندھے پر رکھ کے بڑے ہی فرانک انداز میں کہا۔

انس احسن نے رانیہ کی بات پر اسے زبردست سی گھوری سے نوازا۔

"سوری" رانیہ نے پیچھے ہو کے ہلکی سی آواز میں کہا۔

"وہ ٹھیک ہے آپ پریشان مت ہوئیں میں ہوں نہ"
گاڑی یونیورسٹی کے گیٹ پے روکی تو رانیہ نے انس احسن سے کہا اور گاڑی سے اتر گئی۔

انس احسن مسکرا دیے اپنی بہن کے انداز پے اور کچھ اس کی دی گئی خبر سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں لائبریری میں بیٹھے اسائنمنٹ کے آخری مرحلے پر تھے جب ایک لڑکا پستائی رنگ کی ٹی شرٹ اور بلیو رنگ کی ڈیمیج پینٹ میں ملبوز ہاتھ میں مختلف قسم کے بینڈز پہنے رانیہ کی طرف جھکا اور اس کے کان کے قریب ہو کے بولا۔

"ہیے بیوٹیفل"

اپنے اتنے قریب کسی کی آواز سن کے رانیہ اپنی جگہ بری طرح حل کر رہ گئی تھی اور احمر کا بس نہیں چل رہا تھا اس کا منہ توڑ دے۔

"تمہاری ہمّت بھی کیسے ہوئی ایسا کرنے کی" احمر نے اس کا کولر پکڑ کر اپنی سرخ ہری آنکھیں اس پر گاڑے غصّے سے کہا۔

"تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے" اس نے کہہ کہ احمر کے ہاتھ جھڑکے۔

"بیوی ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔ گرل فرینڈ ہے تمہاری۔۔۔۔۔ یا بہن ہے تمہاری" آخری بات اس نے کمینگی سے قہقہ لگا کے کہی۔

"عزت ہے میری۔۔۔۔اس پر پڑنے والی ایک بھی میلی  نگاہ کو میں بصارت سے محروم کر سکتا ہوں۔۔۔۔اور اسے محض دھمکی سمجھنے کی غلطی تمہارے حق میں بہت بھاری پڑ سکتی ہے" احمر نے غصّے سے کہا اور رانیہ نے تشکرانا نظروں سے اسے دیکھا رانیہ کے دل میں اس کی عزت اور بڑھ گئی تھی۔

دور کھڑے علی اور حاشر تمام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے احمر کی اس بات پر دونوں نے معنٰی خیز نظروں کا تبادلہ کیا۔

"محبّت میں گرے وہ کچھ ایسے
    کہ پھر مرنے مرانے پے آگے "

علی نے آنکھ دبا کے شعر کہا اور حاشر کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔

"اور بہن ہے ہماری" علی نے احمر کے آگے کھڑے ہو کے مضبوط لہجے میں کہا۔

"کیا تماشا لگا رکھا ہے آپ لوگوں نے۔۔۔۔یونیورسٹی ہے یا کوئی جنگ کا میدان ہے اگر لائبریری میں بیٹھنے کے اصول نہیں پتا تو یہاں سے جائیں" لائبریرین نے قدرے غصّے سے کہا۔

لائبریرین کے کہنے کی دیر تھی عاطف اور وہ سب بھی لائبریری سے باہر نکل آئے۔

"شکریہ آپ سب کا" رانیہ نے ان سب کا شکر ادا کرنا ضروری سمجھا۔

"شکریہ کس بات کا بھئی بہن کہا ہے تمہیں اور پھر بہنوں کی حفاظت کرنا بھائیوں کا فرض ہوتا ہے" حاشر نے خوش دلی سے کہا۔

"اور کسی کی عزت بھی ہو" علی نے بظاہر سنجیدگی سے احمر پر چوٹ کی جو صرف رانیہ کے ہی پلے نہیں پڑی تھی احمر نے علی کو خوفناک گھوری سے نوازا۔

"میں اسے چھوڑوں گا نہیں" احمر کو رہ رہ کے وہ لمحہ یاد آ رہا تھا اور اس کا غصّہ بڑھتا جا رہا تھا۔

"آپ کو کیوں غصّہ آ رہا ہے بدتمیزی اس نے میرے ساتھ کی ہے تو بدلا بھی میں ہی لوں گی" رانیہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بتایا۔

"اور وہ آپ کیسے لیں گیں" احمر نے رانیہ کے عظیم خیالات جاننے کی کوشش کی۔

علی اور حاشر بھی رانیہ پر نظریں جمائے کھڑے تھے جس کی آنکھوں سے شرارت ٹپک رہی تھی اور ہونٹوں پے بھی شرارتی مسکان سجی تھی۔

"اس سے" رانیہ نے بیگ سے اپنی شول نکل کے کہا۔

"کیسے" ان تینوں نے ناسمجھی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر یک زبان ہو کے پوچھا۔

اور پھر رانیہ نے اپنے دماغ کی ساری خرافات ان کے گوشگُزر کر دی۔

"ہم ایسا کچھ نہیں کر رہے" احمر نے ہر ایک لفظ پے زور دے کے کہا۔

"ہم ایسا ہی کریں گے کیوں علی اینڈ حاشر بھائی" رانیہ نے خوش ہوتے ہوئے اسی کے انداز میں کہا اور ساتھ میں علی اور حاشر کی حامی بھی طلب کی۔

"ہاں بلکل" علی نے بلا توافق کہا۔

"لیکن اگر میرا نام۔۔۔" رانیہ اب اداسی سے کہہ رہی تھی جب اس کی بات کو علی نے کاٹ دیا۔

"تمہارا نام نہیں آئے گا بے فکر رہو" علی نے اسے تسلی دی تو وہ خوش ہو گئی۔

احمر منع کرنا چاہتا تھا پر سفید ہالے میں مقید اس کے معصوم سے چہرے پر شرارت اسے بڑی بھلی لگی اور پھر علی جس کام میں شامل ہو جائے اسے آئیکسپوس کرنے کی جرات کسی میں نہیں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رانیہ نور اور زینب کو لئے دور کھڑی چھپ چھپ کر سامنے کے منظر پر نظر ڈال رہی تھی اور وہ
دونوں سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہیں تھیں۔

"رانی ہمیں یہاں کیوں لے کر آئی ہو؟" زینب نے سنسان جگہ دیکھ کے پوچھا۔

"ابھی پتا چل جائے گا بس اپنے ہتھیار مطلب اپنی کتابیں اپنے ہاتھ میں رکھو" رانیہ نے جلدی سے بتایا اور پھر سے نظریں منظر پر ڈال دیں۔

یونیورسٹی کا یہ ایریا قدرے سنسان تھا وہ یہاں سیڑھیوں پر بیٹھا سگرٹ نوشی کر رہا تھا جب کسی نے اس کے اوپر کالی چادر ڈال دی وہ کچھ بھی دیکھ نہیں پا رہا تھا اس نے مزمت کی کوشش کی مگر مقابل کی گرفت بہت مضبوط تھی۔

"حلّا بول" رانیہ نے ہاتھ اٹھا کے دیہمی آواز میں مگر جوش سے کہا اور ساتھ ہی نور اور زینب کو اپنے ساتھ گھسینٹ لیا۔

اور پھر رانیہ اور حاشر نے اس شخص کی سر پر تابڑ توڑ کتابوں سے حملے کئے نور کو بھی جوش آیا اور اس نے بھی اس شخص کی اچھی خاصی درگت بنائی۔ زینب منہ کھولے سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ علی نے ان سب کو بھاگنے کا اشارہ کیا تو وہ سب جھٹ سے غائب ہو گئے اور عاطف ظفر اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گیا جو بری طرح چکرا رہا تھا۔

یہ سب بھاگتے بھاگتے ایک جگہ روکے اور پھر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے رانیہ اور نور کی ہنسی روکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ان دونوں کے چہرے ہنس ہنس کر سرخ ہو گئے تھے اور انہیں دیکھ زینب بھی مسکرا رہی تھی اور ساتھ کھڑا احمر رانیہ کو مبہوت سے تک رہا تھا۔

پھر بڑی مشکل سے ہی سہی لیکن ان کی ہنسی کو بریک لگ گیا تھا اور رانیہ نے زینب اور نور سے اپنے ایک دن کے بھائیوں کا تعارف کرایا اور ساتھ ہی آج کا سارا قصّہ ان دونوں کو بتا دیا۔ جسے سنے کے بعد زینب نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

"بہت شکریہ آپ لوگوں کا"

"شکریہ والی کوئی بات ہی نہیں ہے رانیہ ہمیں بہنوں کی طرح عزیز ہیں۔۔۔کیوں احمر" علی نے احمر کے کندھے پر ہاتھ پھیلایا اور اسے چڑایا۔

"جی ہاں۔۔۔یہ ہمیں بہت عزیز ہیں" احمر نے علی کی باتوں میں سے اپنی مطلب کی بات نکال کے رانیہ کو دیکھ مسکراتے ہوئے کہا۔

علی کا جملہ اسی پر بھاری پڑ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بیلک ڈنر سوٹ میں ملبوز اس فارمل لک میں بے انتہا وجیه اور حسن کا شاہکار لگ رہا تھا ٹانگ پر ٹانگ رکھے بورڈ روم میں بیٹھا تھا جہاں کمپنی کے ممبرز اور بہت سے سینئرز استاذہ حیدر کے پروجیکٹ کی بہترین کامیابی پر مبارک بعد دے رہے تھے اور انہوں نے اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے ایک پارٹی بھی منعقد کی تھی جس پر یہ حیدر اور کچھ استاذہ کو مدعو کر رہے تھے جسے حیدر نے  خوش دلی سے قبول کر لیا تھا۔ اس پروجیکٹ کی کامیابی کی خبر پوری یونیورسٹی میں پھیل چکی تھی اور ایک بار پھر حیدر کے نام کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔

کمپنی کے ممبرز  استاذہ کے ساتھ بیٹھے اپنے کچھ اور پروجیکٹ ڈسکسس کرنے لگے تو حیدر ان حضرات سے اجازت لے کر باہر آ گیا اور کینٹین کا رخ کیا وہ صبح بھی جلدی جلدی میں گھر سے نکلا تھا اور اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا اور اسے اس وقت سخت بھوک لگ رہی تھی۔

کینٹین میں داخل ہوا تو وہاں پہلے سے ہی نہ صرف احمر علی اور حاشر موجود تھے بلکہ ان کے ٹیبل کے دائیں جانب آخری ٹیبل پر وہ بھی بیٹھی تھی اور اس کے ساتھ سفید اسکارف والی ایک لڑکی بھی بیٹھی تھی۔ اسے دیکھتے ہی حیدر کی بھوک کہیں اوڑن چھو ہو گئی تھی وہ اپنے دوستوں کے پاس روکنے کے بجائے اس کی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔

وہ اپنے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اسے پکارا۔

"مس زینب"

زینب نے گردن اٹھا کے دیکھا وہ جس کا چہرہ ہمیشہ ہی کسی بھی تاثر سے پاک رہتا تھا وہاں  حیدر نے آج صرف ایک تاثر دیکھا تھا اور وہ تاثر "بیزاریت" کا تھا اور یہ اس کے لیے ناقابلِ قبول بات تھی وہ لڑکیوں کی حسرت بھری نظریں دیکھنے کا عادی تھا نہ کے بیزاریت بھری نظریں۔

زینب نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا تو اس کو اور تپ چڑھ گئی۔

"جیلس ہو رہی ہو مجھ سے" اس نے تاپا دینے والی  مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

"میں کیوں جیلس ہوں گی تم سے" زینب نے اس کے سامنے کھڑے  ہو کے ماتھوں پے شکنے لئے پوچھا۔

"اوہ کم آن۔۔۔۔۔ بنو مت ظاہر ہے میری کامیابی کی وجہ سے" حیدر کو لگا وہ پریٹنڈ کر رہی ہے۔

"ایسی چھوٹی موٹی کامیابیاں تمہیں ہی مبارک ہوں" زینب نے اس کی گرے کانچ سی آنکھوں میں دیکھ پورے اعتماد سے کہا۔

"تم خود کو سمجھتی کیا ہو" حیدر کو سمجھ نہیں آئی "اس" جیسی کو غرور کس بات کا تھا۔

"میں کم از کم تمہاری طرح تو بلکل نہیں ہوں جو باپ کی دولت اور نام پے ناز کرتی پھیروں" زینب نے تہزیک آمیز لہجے میں کہا جو مقابل کو سخت ناگوار گزرا۔

"باپ ہوتا تو کرتیں نہ" حیدر نے درشتگی سے کہا۔

زینب کے چہرے پر رہنے والی سرخی یک دم ہی کہیں تحلیل ہو گئی تھی اس  کا ویران چہرہ کچھ اور ویران ہوا زینب کو لگا اس کے پاس کہنے کے لیے کوئی الفاظ ہی نہ بچا ہو۔

رانیہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں وہ حیدر کی طبیعت صاف کرنے کی غرض سے دو قدم آگے بڑھی زینب نے اس کی کلائی پکڑ کے اسے پیچھے کیا اور نفی میں سر ہلایا۔

"حیدر عبّاس آپ کے والد کی کال ہے وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں" سر عاصم جو کہ جونیئر ٹیچر تھے انہوں نے حیدر کو مخاطب کر کے کہا۔

حیدر کی نظر کینٹین پر پڑی تو وہاں کھڑا ہر نفوس ان کی توجہ کا مرکز تھا۔

سر عاصم جونیئر ٹیچر تھے اور انہیں جوائن کئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ تمام سینئر اسٹاف میٹنگ میں مصروف تھا اور اگر کمپنی کے ممبرز انہیں اس طرح دیکھ لیتے تو یونیورسٹی کی ساخت کو بہت نقصان پہنچتا ان کی جب سمجھ نہ آئی کے صورتحال کو کس طرح ہینڈل کریں تو انہوں نے حیدر کے والد کو کال کر دی۔

حیدر نے ان کے ہاتھ سے موبائل لیا اور تب ہی زینب نے کہنا شروع کیا۔

"زینب والیواللہ کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اسے کسی کا محتاج نہیں بنایا گیا حتکہ باپ کے حکم کا بھی نہیں" زینب نے بے حد سکون سے حیدر کا سکون برباد کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ASALAMUALIKUM tu kesa laga ap ko aj ka episode....apne ache ache comments or reviews zaror den mai muntazir hon or agr ap ko pasnd aye tu plz vote krna na bholen😉😊

WRITeR:
NIMRA ISRAR

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top