ختم شد


وہ دھیرے دھیرے پلکوں کی باڑ اٹھاتی نیند سے بیدار ہونے لگی تھی۔۔۔۔پہلی نظر سامنے ٹیبل پر رکھی خوشبو پھیلاتی موم بتی پر پڑی تھی اور اس کے بعد وہ ارد گرد کا جائزہ لیتی اندازہ کر رہی تھی کہ وہ ہے کہاں۔۔۔۔اور اسے جلد ہی سب یاد آ گیا تھا۔۔۔وہ حیدر سے دور ہوتی سیدھی بیٹھی تھی پر اس کے بال جو حیدر کے سینے پر پھیلے تھے انہیں یہ دوری برداشت نہ تھی۔۔۔۔اس نے حیدر کو دیکھا تھا وہ اٹھا تھا اور انہی گہری گرے آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔زینب نے اپنے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کر کان کے پیچھے اوڑھسا تھا۔۔۔

وہ اسے اب بھی ویسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"کپڑے بدل لئے ہوتے خون کی بدبو آ رہی ہو گی" وہ اس کی اس طرح دیکھنے سے گھبرا رہی تھی اس نے محسوس کرتے اپنا انداز بدل لیا تھا۔

"خوشبو آ رہی تھی" اس نے سرگوشی میں کہا تھا پر وہ قریب ہی تو بیٹھی تھی وہ سن چکا تھا۔

"کس کی؟" اسے لگا وہ طنز کر رہی تھی۔۔۔پھر بھی سوال کرنا بہتر سمجھا۔

"جس کا خون ہے" زینب نے اس کی خوشبو کی وجہ سے لباس نہیں بدلہ تھا۔۔۔۔اس کا دل خوشی سے جھوم ہی تو گیا تھا۔

وہ ہر بار اظہار تو کر رہی تھی پر نت نئے طریقوں سے۔۔۔اس نے تمہاری نہیں کہا تھا وہ زینب تھی صاف اظہار کی امید اس سے لگانا نری حماقت تھی۔

"اور اگر میں مر جاتا تب بھی نہ بادلتیں؟" وہ بھی حیدر تھا اس کا صاف اظہار سنے پر تلا ہوا تھا۔

وہ کچھ نہ بولی تھی اس نے غصّے سے اپنے گرد پھیلے حیدر کے ہاتھوں کو نرمی سے جھڑکا تھا اور وہ اس سے آزاد ہوتی تیزی سے دور جانے لگی تھی کہ حیدر نے اس کا بازو پکڑ اپنی طرف کھنچا تھا اور اس کا دائیاں ہاتھ سیدھے حیدر کے زخم پر لگا تھا وہ کراہیا تھا۔

"سوری میں نے۔۔۔۔میں نے جان بوج کے نہیں کیا" وہ بہت ہی زیادہ گھبرا گئی تھی ورنہ حیدر کو سوری اس نے بولا کب تھا اور وہ بولتی بھی کیوں۔

حیدر نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے پکڑ اپنے دل پر ہی رہنے دیا تھا۔

"آئی ایم سوری۔۔۔۔ویری سوری۔۔۔کیوں کہ میں نے ہر بار تمہیں جان بوج کر تکلیف پنہچائی۔۔۔۔میں جانتا ہوں جو درد میں نے دئے سوری سے وہ کم نہ ہوں گے اور نہ تمہاری یادوں سے میٹیں گے۔۔۔چلو درد سے درد کا سودا کر لیتے ہیں جتنے میں نے تمہیں دئے ان سے کہی زیادہ تم دے دینا زخموں کو ہرا رہنے دینا۔۔۔انہیں خرش لینا پر ایک بات یاد رکھنا حیدر دنیا اور دنیا میں بسنے والی ہر شئے چھوڑ سکتا ہے پر زینب کو وہ کبھی نہیں چھوڑ سکتا" وہ آج معافی مانگ رہا تھا اپنے کئے کی۔۔۔۔پورے دل سے اس کے آگے گھٹنے ٹیک رہا تھا۔۔۔

"تم نے مجھ سے شادی کیوں کی تھی؟" اسے واضح نہیں ہوا تھا اسی لئے پوچھ رہی تھی۔

"محبّت ہو گئی تھی تم سے۔۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولا تھا۔

"اور تمہیں اپنے پاس رکھ کے ہر خوشی دینا چاہتا تھا تمہیں خوش رکھنا چاہتا تھا۔۔۔ہوں" وہ کچھ بتانے میں ہچکچا نہیں رہا تھا یہ ایک چیز تھی جو زینب کو اچھی لگی تھی۔

"تم نے دھمکایا تھا شادی کے لئے" اس کے منہ سے شکوہ نکل ہی گیا تھا وہ اب بھی ہلکی آواز میں ہی بولی تھی۔

وہ آج جتنا خوش تھا کوئی اس سے پوچھتا تو اس کے پاس لفظ نہیں ہوتے وہ پہلے اپنا ڈر سنا رہی تھی اور آپ شکایت کر رہی تھی حالانکہ انداز شکایتی نہیں تھا وہ عام سے انداز میں کہتی اسے بہت خاص کر گئی تھی۔

"ایک سچ بتاؤں" وہ اس کی آنکھوں میں گہرائی تک دیکھتا پوچھ رہا تھا۔

وہ اسے آنکھیں سکیڑ کے جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ایسا کیا تھا جو اسے اب تک نہیں پتا تھا۔

"احمر اس سب میں شامل نہیں تھا۔۔۔اس دن کال پر دوسری طرف میں تھا" وہ بڑی بہادری سے اپنے جرم کا اعتراف کر رہا تھا۔

وہ آنکھیں پھاڑے اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی۔۔۔اسے بیوقوف بنا گیا تھا وہ بھی اتنی آسانی سے ۔۔۔۔۔اس نے اگلے ہی پل لب بینچے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا تھا پر حیدر نے گرفت مظبوط کر لی تھی۔

"زینب!!!" وہ اسے بلا رہا تھا پر وہ اس کی طرف نہیں دلہ رہی تھی منہ پھیرے بیٹھی تھی۔۔۔وہ تو اس نے حیدر کی طبیعت کا لحاظ کر لیا تھا ورنہ دل تو کر رہا تھا ایک اور رکھ کے دے۔

"زینب!!!" وہ پھر بولا تھا اور وہ ہونوز بیٹھی رہی تھی۔

"زینب! اگر مجھے یقین نہیں ہوتا میں تمہیں اپنی محبّت سے جیت لوں گا تو میں کبھی تم سے نکاح نہ کرتا" اس کا لہجہ گھمبیر تھا۔۔۔۔آنکھوں میں سچائی لئے وہ بولتا وہ زینب کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کر گیا تھا۔

"اور تمہیں لگتا ہے کہ تم جیت گئے ہو؟" وہ اپنے پرانے انداز میں واپس آنے لگی تھی۔

"ہمم۔۔۔اگر اسے جتنا کہتے ہیں تو میں جیت گیا ہوں" اسے گردن اثبات میں ہلاتے۔۔۔اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تھا جو کب سے زینب تھمی بیٹھی تھی اسے احساس ہی نہ تھا۔

زینب نے اس کا اشارہ سمجھ اپنا ہاتھ دیکھا تو ہڑبڑائی گئی۔۔۔۔پر ہاتھ ہٹایا نہیں۔۔۔وہ جیت گیا تھا اس کے دل پر لگا حیدر کے نام کا جھنڈا محبّت کی ہواؤں سے لہراتا اسے آگاہ کر گیا تھا۔۔۔

"تم نے کچھ کھایا" حیدر کو اب اس کے کھانے کی فکر لگ گئی تھی۔

"تم نے؟" اس نے ساختہ سوال کے بدلے سوال کر ڈالا۔

"نہیں" وہ اس زینب کو دیکھنے میں ماحو تھا جس کا ہر انداز اسے ایک نئی خوشی بخش رہا تھا۔۔۔وہ کھوئے ہوئے بولا۔

"میں لے کے آتی ہوں" وہ دوپٹہ سر پر برابر کرتی اٹھی تو حیدر نے پیچھے سے ہانک لگائی تھی۔

"جلدی آنا"

اور زینب مسکرا بھی نہ سکی۔۔۔۔بس سر ہلا کے چل دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان سب نے کینٹین سے کچھ نہ کچھ لے بے دلی سے کھا لیا تھا پر ابھی وہ کینٹین میں ہی بیٹھے ہلکی پھلکی گفتگو کر رہے تھے جب رانیہ ان کے پاس آ کے بیٹھی تھی۔۔۔۔وہ ابھی ابھی زینب کو حیدر کے روم میں چھوڑ کر آ رہی تھی۔۔۔۔

"نہیں ابھی مت جائیں آپ لوگ" ان سب کو حیدر کے پاس جانے کے لئے اٹھاتا دیکھ وہ بولی تھی۔

"کیوں" یہ احمر تھا جس نے سب کے سوال کو زبان دی تھی۔

"ابھی زینب ہے وہاں کچھ دیر بعد چلیں گے" اس نے انہیں وجہ بتاتے روکا تھا اور وہ سب رک گئے تھے۔۔۔

رانیہ نے شکر کر کیا اتنی مشکل سے تو وہ زینب کو مانا کر چھوڑ کر آئی تھی اور اب یہ سب پہنچ جاتے تو وہ دونوں صحیح سے بات بھی نہیں کر پاتے اور یوں دونوں کے دل کی بات دل میں ہی رہ جاتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے لگ رہا ہے مجھے ومیٹ ہو جائے گی۔۔۔۔تم کھا لو" اس نے آڑے ٹیڑھے منہ بناتے ٹرے کو پیچھے کیا تھا۔۔۔وہ ماں والا حربہ اس پر بھی آزما رہا تھا پر اب وہ اسے دھمکا نہیں سکتا تھا۔

"تھوڑی دیر پہلے تم نے ہی کہا تھا نہ درد کا سودا کر لو تو سمجھ لو کر لیا۔۔۔۔اب تمہیں ومیٹ ہو یا تمہارے ٹانکوں پر اثر ہو کیا فرق پڑتا ہے کھانا تو تمہیں پڑے گا" وہ کہاں اس کے ڈراموں میں آنے والی تھی بڑے ریلیکس انداز میں ساری بات کر گئی تھی۔

حیدر نے ہتیار ڈالتے دودھ کا گلاس اٹھایا تھا اور اس کے آگے بڑھایا تھا۔

زینب نے اس کی آنکھوں سے کی گئی التجاؤں کی وجہ سے گلاس اس کے ہاتھ سے لینا چاہا تو اس نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔۔۔وہ الجھی۔۔۔

"میرے ہاتھ میں کانٹے نہیں لگے" وہ چڑا ہوا لگ رہا تھا۔۔۔۔اب اس کے ساتھ زبردستی بھی تو نہیں کر سکتاتھاٰ کہ وہ مان جاتی۔۔۔

وہ دل ہی دل میں اس کے اس چڑچڑے پن پر مسکرائی تھی اور اس کے ہاتھ سے ہی دودھ پینے لگی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کینٹین میں بیٹھے انہیں کافی ٹائم ہو گیا تو انہوں نے باہمی مشورے سے حیدر سے ملنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔۔

احمر چونکہ سب سے آگے تھا اسی لئے حیدر کے روم کا ڈور بھی اسی نے کھولا تھا اور سامنے کا منظر دیکھ وہ وہیں کا وہیں رہ گیا تھا۔۔۔اور اس کے پیچھے قطار میں لگے علی حاشر نور عائشہ رانیہ اور اشہل نے اسے دیکھا تھا وہ آگے کیوں نہیں چل رہا تھا ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی۔۔۔اور جب وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلا تو سب نے تنگ آ کر اپنی اپنی گردانیں اونچی کر اندر کا وہ شاندار نظارہ دیکھا تھا جو انہیں احمر کی ہی کیفیت میں لے گیا تھا۔۔۔۔

زینب۔۔۔۔زینب والیواللہ حیدر عبّاس کے ہاتھ سے دودھ پی رہی تھی۔۔۔۔امپوسبل۔۔۔۔۔حاشر نے تو ایک دو بار آنکھیں ریگڑ کے بھی دیکھا تھا پر منظر بدلنے سے انکاری تھی۔۔۔۔اور پھر وہ سب یونہی ہونقوں کی طرح ایک ایک کر اندر آئے تھے۔۔۔

زینب نے انہیں دیکھ پیچھے ہونا چاہا تھا پر حیدر نے ایسا ہونے ہی نہیں دیا۔۔۔۔

"اور پیٹ پوجا کر لی" وہ ان سب سے مخاطب تھا اور اس نے ساتھ ساتھ نوالہ بنا کے زینب کے آگے بھی پیش کیا تھا۔

زینب کو اس کو توقع نہ تھی۔۔۔اس نے غیر محسوس انداز میں اس کا پیچھے کیا تھا۔۔۔۔

"ہاں کر آئے" جواب رانیہ نے دیا تھا پر ان سب کی نظروں نے حیدر کے ہاتھ کو فوکس کیا ہوا تھا جو اس نے پھر زینب کے آگے بڑھا دیا تھا۔۔

زینب اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں وارن کر رہی تھی پر حیدر کو پھر کب ایسا موقع ملنا تھا۔۔۔وہ ڈھیٹ بنا رہا۔۔۔۔

زینب نے آگے بڑھ کے نوالہ کھایا تو تھا ہی ساتھ میں اس کی انگلیاں بھی وہ چبا گئی تھی۔۔۔۔

وہ سب تو پاگل ہونے کے در پر تھے یہ آخری چیز تھی جس کی توقع انہیں زینب سے ہر گز نہیں تھی۔

"زینب تم نے ان سے شادی کیوں کی تھی" رانیہ جھنجھلائے ہوئے انداز میں پاس پڑی بینچ پر بیٹھی چہرے پر دنیا جہاں کی الجھن لئے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔اسے صرف یہ ایک بات آپ ٹک سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔

زینب نے ایک اٹچکی نظر حیدر پر ڈالی۔۔۔۔شاید وہ بھی اس کے جواب کا منتظر تھا۔۔۔ایسے نہیں تھا اسے پتا نہیں تھا پر وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ زینب کا کیا جواب ہو گا۔

"مجھے پروپوز کیا تھا حیدر نے۔۔۔بس اس لئے" وہ لاپرواہی سے بولی تھی۔۔۔۔

"کیا!!!" وہ چیخ ہی تو پڑی تھی۔

"نہیں میں یقین نہیں کر سکتی" وہ ٹھوس لہجے میں بولتی نفی میں گردن ہلا رہی تھی۔۔۔۔اسے پائنٹ ون پرسینٹ بھی زینب کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔

"کیوں نہیں کر سکتیں" یہ احمر تھا جو سینے پر ہاتھ بندھے حیدر کو بچانے کے لئے اس کے آگے کھڑا تھا۔۔۔

"کیوں کہ مس رانیہ کو لگتا ہے کہ حیدر بھائی نے ان کے حوالے سے کوئی دھمکی دے زینب کو شادی کے لئے منایا ہو گا اور مجھے ان کی بات سو فیصد سچ لگتی ہے" اشہل نے رانیہ کے برابر بیٹھ اس کی طرف سے کہا تھا ساتھ وہ کیا سوچتی ہے وہ ،وہ بھی بتا گئی تھی۔

زینب نے اشہل کی بات سن حیدر کو کن انکھیوں سے دکھا تھا اور حیدر نے زینب کو اور یہاں زینب اپنی ہنسی نہ روک پائی اور ہنستی چلی گئی اور کے اس عمل میں حیدر نے بھی بھرپور ستج دیا تھا۔۔۔ان کے دوست پہلے کی طرح ان کو دیکھ رہے تھے۔۔۔انہیں سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے ایسا کون سا لطیفہ سنایا تھا کہ انہیں اتنی ہنسی آ رہی تھی۔۔۔ان سب نے پہلے تو منہ بنایا پر پھر وہ انہیں ہنستے دیکھ خود بھی مسکرا دئے۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دن بعد

اس نے بچتے بچاتے اپنا موبائل جو اس نے زینب سے چھپایا تھا نکالا۔۔۔۔وہی ڈیل جس کے سسلے میں وہ ہوٹل گیا تھا اسے اس سے متعلق کام کرنا تھا وہ اب یوں بیٹھے بیٹھے تھکنے لگا تھا۔۔۔

اس کے کچھ بھی کرنے سے پہلے موبائل بج اٹھا تھا اس نے فوراً سے پہلے کال رسیو کی تھی۔

"سر آپ نے جو کام کہا تھا ہو گیا ہے" وہ احترم سے بول رہا تھا۔

"کہو کیا پتا چلا" اس کے ماتھے پر لکیریں آئیں۔

سامنے زینب دیکھی تو سب بھلائے مسکرانے لگا۔

آگے سے کال کرنے والے شخص نے ایسا کچھ کہا تھا کہ پل میں حیدر کی مسکراہٹ اڑ گئی تھی۔۔۔۔اور اس کی جگہ اس کے چہرے پر وہ رنگ آئے تھے جو بیان سے باہر تھے۔

زینب نے کچھ بھی کہے بینا اس کے ہاتھ سے فون لے اپنے پرس میں رکھ لیا تھا۔

وہ رائل بلو کلر کے جوڑے میں ملبوز تھی۔۔۔۔آج حیدر کو ڈسچارج ہونا تھا تو بس وہ انہی تیاریوں میں لگی تھی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر کو گھر آئے دو دن ہو گئے تھے اور زینب نوٹ کر رہی تھی وہ اس سے کھینچا کھینچا سا رہتا تھا کیوں اسے علم نہیں تھا۔۔۔۔حیدر چپ تھا اور یہ بھی پہلی دفع تھا کہ اسے حیدر کی خاموشی کھل رہی تھی۔۔۔۔

وہ کچن میں کھڑی حیدر کے لئے کپ کیک بنا رہی تھی کیا پتا وہ اس کا یہ عمل دیکھ سمجھ جائے جو وہ لفظوں سے نہیں کہہ پا رہی تھی۔۔۔۔پر اسے کیا خبر تھی وہ اس میں ہوتی بچینیاں جانتا تھا پر آج کل وہ خود بڑا پریشان تھا بات ہی اتنی بڑی تھی کوئی بھی پریشان ہو جاتا۔۔۔۔

"آپ سے بات کرنی ہے" یہ حیدر کی آواز تھی جو کہ اوپن کچن میں بآسانی سنی جا سکتی تھی۔

"ہمم بیٹھو" دوسری آواز عبّاس عالَم کی تھی۔

زینب لاشعوری طور پر ان کی باتیں سنے لگی تھی۔

"سعدیہ کون تھیں؟" اس نے کوئی تمہید نہیں بندھی تھی وہ اپنے سوالوں کے جواب چاہتا تھا۔

عبّاس عالَم پززل ہوئے تھے۔۔۔۔جو کبھی کہیں کسی بھی مشکل میں نہیں گھبراتے تھے بیٹے کے ایک سوال پر سٹپٹا گئے تھے۔۔۔

"کون بیٹا میں تو اس نام کی کسی لڑکی کو نہیں جانتا" وہ خد کو کمپوز کر گئے تھے۔۔۔۔

"سوچ لیں یاد آ جائے گا" وہ بہت صبر سے بیٹھا تھا۔

"نہیں میں نہیں جانتا" وہ اب بھی مانے سے انکاری تھے۔

"آپ نے کیا کر دیا ڈیڈ" اس کا لہجہ روندھ گیا۔۔

زینب چونکی تھی۔۔۔۔

"میں نے کچھ نہیں کیا" وہ مکر گئے۔۔۔۔

"اب تو سچ بول دیں" جو اسے اسے اس کا بے پناہ افسوس تھا۔۔۔

فائزہ بیگم ثانیہ بھابی سعید عبّاس سب ہی تو تھے یہاں وہ کیسے سچ بول دیتے۔۔۔۔جبکہ فائزہ بیگم کو دلہ کے لگتا تھا وہ سب جانتی ہیں پر سوال ان سے نہیں ہو رہا تھا سو وہ چپ ہی بیٹھی رہیں انہیں اس بات کا جواب دینے کی کوئی خواہش بھی نہیں تھی۔۔۔

زینب چوکھٹ سے لگی ابھی اس کی باتیں سن ہی رہی تھی جب حیدر نے کچن میں آتے اس کی کلائی پکڑ اپنے پیچھے گھسیٹا تھا۔۔۔۔زینب نے دیکھا تھا اس کی آنکھیں شدتِ جذبات سے لال ہو رہیں تھیں۔

"جانتے ہیں اسے یہ کون ہے؟" حیدر نے اس کی کلائی چھوڑ اسے عبّاس عالَم کے سامنے کر ایک نیا سوال کیا تھا۔۔۔

"بیوی ہے تمہاری" انہیں اب غصّہ چڑھنے لگا تھا۔

"الحمداللہ بیوی ہے میری۔۔۔۔پر آپ وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔۔۔۔یہ زرنش ہے سعدیہ پھپو کی بیٹی۔۔۔۔جسے آپ۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر میں پھینک آئے تھے" اس نے لمحے میں راز پاش کیا تھا۔

"آپ نے کبھی ہمیں ہماری چھوٹی پھپو کے بارے میں نہیں بتایا ان کا نام ٹک ہم سے چھپایا گیا جب بھی پوچھا گیا سب نے ٹال دیا مجھے تو شاید کبھی پتا بھی نہ چلتا اگر یہ میری زندگی میں نہ آتی۔۔۔۔۔مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔۔۔میرا باپ۔۔۔۔جو ہر عیب سے پاک تھا۔۔۔۔وہ یہ بھی کر سکتا تھا" وہ آج چپ نہیں ہوسکا تھا۔۔۔۔۔

اور زینب بت بنی اس کے ایک ایک لفظ کا مطلب تلاش رہی تھی۔۔۔۔وہ حیران تھی اپنی قسمت پر۔۔۔۔خدا کی حکمت پر۔۔۔۔وہ جہاں سے کبھی نکال پھینکی گئی تھی۔۔۔۔وہیں کا ایک شخص اسے زبردستی اس کی جگہ پر لے آیا تھا۔۔۔۔

"یہ جھوٹ بول رہی ہے تم سے" عبّاس عالَم بیٹے کو ہاتھ سے جاتا دیکھ۔۔۔ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولے تھے۔

"کاش۔۔۔۔کاش یہ اس نے مجھ سے بولا ہوتا۔۔۔۔کاش کہ اس نے مجھ سے جھوٹ بولا ہوتا۔۔۔۔پر یہ کاغذ آپ کے جرم کی گواہی دے رہے ہیں میں کیسے ان سے منہ پھیر لوں" وہ بہت دکھ سے بولا تھا۔۔۔میز پر پڑی فائل کو اس نے ان کی طرف بڑھایا۔

وہ ایک ایک صفحہ پلٹ دیکھ رہے تھے اور پھر انہوں مے اپنی شکست قبول کی تھی۔

"مجھے معاف کر دو بیٹا" عبّاس عالَم نڈھال سے صوفے پر بیٹھتے چلے گئے تھے۔

"میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا کبھی بھی نہیں۔۔۔۔آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔آپ نے مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ہے۔۔۔۔" اس پر ضد حاوی ہونے لگی تھی کہ اس کے دائیں کو زینب نے اپنے مومی ہاتھ میں لئے تھا۔۔۔۔

حیدر نے پہلے اپنے ہاتھ کو اور پھر اس کو دیکھا تھا جو نرم لہجے میں ہی کہہ رہی تھی۔

"حیدر غلطیاں ہو جاتی ہم سے بھی ہمارے اپنوں سے بھی اور معاف بھی ہمیں ہی کرنا ہوتا ہے"

"غلطی نہیں کی انہوں نے گناہ کیا ہے" اسے زینب سے اس رویے کی امید نہیں تھی۔۔۔اس کا غصّہ بڑھنے لگا۔

"انہوں نے بھی کسی کے گناہ کی سزا کسی اور کو دی تھی اور آج تم بھی یہی کر رہے ہو۔۔۔۔گناہ کی سزا دینا ہمارا کام ہی نہیں ہے جس کا کام ہے وہ بیٹھا ہے سب دیکھ رہا ہے اسے اس کا کام کرنے دو اسکے کاموم میں داخلاندازی مت کرو" وہ سابقہ لہجے میں ہی بولی تھی۔

اس کے لفظ میٹھے تھے پر وہ کسی کی سنے کو تیار نہ تھا۔

"تم ان کے لئے مجھ سے لڑ رہی ہو" وہ ان پر زور دیتا بولا تو وہاں موجود سب کو ہی تکلیف ہوئی تو وہ کیسے انہیں پل میں بیگانہ کر سکتا تھا۔

"کیوں کہ تم میری وجہ سے ان سے لڑ رہے ہو" وہ صاف گوئی سے بولی تھی۔

اور وہ سب زینب کو دیکھ کر رہ گئے تھے جو آج کھڑی ان کے لئے حیدر سے لڑ رہی تھی۔

"میں صحیح بات کر رہا ہوں" وہ اپنی بات پر ڈاٹا ہوا تھا۔

"ماں باپ سے لڑنا کب سے صحیح ہو گیا حیدر" وہ اس سے چلاجنگ انداز میں پوچھنے لگی تھی۔

"یہ تمہاری تکلیف کا باعث ہیں" وہ اسے یاد کرا رہا تھا۔

"وہ تو کبھی تم بھی بنے تھے" اس نے بھی اسے کچھ یاد کرایا تھا۔

"میں نے معافی مانگی تھی۔۔۔۔تم نے معاف نہیں کیا کیا" وہ اس کا بازو پکڑ پوچھ رہا تھا کیوں کہ اس کے لئے یہ جاننا اہم تھا کہ معافی ملی بھی تھی اسے یا نہیں۔۔۔۔

"میں نے معاف کر دیا تمہیں بھی اور انہیں بھی" اس کا لہجہ مضبوط تھا۔

"انہوں نے معافی نہیں مانگی" وہ ہر لفظ پے زور دیتا بولا تھا۔

"یہ مانگے گے بھی نہیں۔۔۔۔بڑے معافی مانگنے کے لئے نہیں ہوتے دعا دینے کے لئے ہوتے ہیں" وہ ترکی با ترکی بولی تھی۔

وہ اسے گھورتا رہا اور پیر پٹخ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔۔۔۔کم از کم اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ زینب ہی خود اس کے آگے کھڑی ہو جائے گی۔۔۔۔۔آج کئی عرصے بعد وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔۔۔۔اپنے لئے نہیں ایک دوسرے کے لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں صوفے پر منہ پھلائے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا اور کافی دیر سے اسے اگنور کر رہا تھا جو گاہے بگاہے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

وہ ورڈروب بندھ کرتی اس کے پاس آ کے بیٹھی تھی اور آہستگی سے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔پھر کہا تھا حیدر کے تنے نقوش ڈھیلے پڑنے لگے تھے۔۔۔۔۔

"تمہیں پتا ہے حیدر یہ خون کے رشتے بڑے عجیب ہوتے ہیں ان سے آپ کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ملے ان کی محبت مارے نہیں مرتی دل سے ان کو تکلیف میں دیکھ دل تڑپ ہی اٹھتا ہے۔۔۔۔مجھے آج بھی کوئی کہیں سے میرے والدین سے ملا دے تو میں سب کچھ بھلائے ان کے گلے لگ جاؤں گی پر افسوس وہ رہے ہی نہیں۔۔۔۔میرے پاس یہ نعمت نہیں تمہارے پاس تو ہے تو تم کیوں محروم ہونا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ان سے غلطی ہوئی سب سے ہو جاتی ہے پر ان غلطیوں کے پیچھے ہمیں اپنے رشتے تو خراب نہیں کرنا چاہیے نہ ان میں کہاں کی عقلمندی ہے اگر کوئی برائی کرتا ہے تو کیا ضروری ہے اس کی برائی کا جواب برائی سے ہی دیا جائے۔۔۔۔تھوڑی سی بھلائی کر رشتہ بچایا بھی تو جا سکتا ہے" اس نے ساری بات بہت پیار سے ٹھر ٹھر کر کی تھی کہ حیدر کے سمجھ آ جائے۔

"تم کیوں ہو ایسی" اس نے ہار مان لی تھی تب ہی وہ زینب سے پوچھ رہا تھا۔

"کیوں کہ ہر کوئی زینب جیسا تھوڑی ہوتا ہے" وہ شوخی سے بولی تھی اور حیدر نے عقیدت سے اس کی چھوٹی سی ناک پر بوسہ کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چار سال بعد

اس کی آنکھیں باپ کی طرح ہی تھیں گرے۔۔۔لیکن بال ماں پر گئے تھے کالے سیاہ چمکیلے۔۔۔۔رنگت اس نے دونوں سے چرائی تھی۔۔۔گوری گوری۔۔۔۔وہ تین سالہ بچی لال رنگ کی کوٹن کی خوبصورت سی فروک پہنی بلکل گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔۔

"حوریہ۔۔۔۔حوریہ" زینب اسے آوازیں لگاتی لاونچ میں آئی تھی جہاں حوریہ دادی کی گود میں بیٹھی ان سے ٹوٹے پھوٹے جملے بول باتیں کر رہی تھی۔

"حوریہ آپ اب تک یہیں ہو بیٹا جاؤ جا کے بابا کو جگاؤ کب سے سو رہے ہیں حاشر چاچو کی شادی میں نہیں جانا آپ نے کیا" وہ فائزہ بیگم کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی اور حوریہ کے بالوں میں ہاتھ پھیر پوچھ رہی تھی۔

"حاشی۔۔۔چاچو" وہ اپنی ہول گول آنکھوں سے اسے دیکھتی پوچھ رہی تھی۔

"ہاں حاشر چاچو اب جاؤ جا کے بابا کو اٹھاؤ ورنہ ہم لیٹ ہو جائیں گے" زینب نے اس کے گال پر پیار کرتے جواب دیا تھا اور وہ اگلے ہی پل دادی کی گود سے اتر کمرے کی طرف بھاگی تھی۔

حوریہ کے جاتے ہی زینب فائزہ بیگم سے باتیں کرنے لگی تھی۔۔۔۔فائزہ بیگم کا رویہ اس کے ساتھ ثانیہ بھابی والا ہی تھا۔۔۔۔شروع شروع میں وہ اس سے بات کرنے میں کتراتیں تھیں پر وقت کے ساتھ ساتھ سب چیزیں اپنی جگہ پر آ گیں تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوریہ دروازے کو دھڑام سے کھول اندر آئی تھی جہاں اس کا باپ بڑے مزے سے خواب و خرجوش کے مزے گہری نیند سو رہا تھا۔

وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں کا استعمال کرتی بیڈ اور چڑھی تھی۔۔۔۔اور حیدر کے قریب ہو اس نے آہستگی سے حیدر کا گال چوما تھا۔۔۔ساتھ ساتھ وہ "بابا۔۔۔۔بابا" کہتی اسے اٹھانے کی کوشش بھی کر رہی تھی۔۔۔۔

حیدر نے نیند سے بھری آنکھیں کھولی تھیں۔

"بابا حاشی چاچو۔۔۔۔شادی" وہ اس کی کھولی آنکھیں دیکھ بولنے لگی تھی۔

"چلیں گے حور۔۔۔سو جاؤ" حیدر نے اس کے گال چوم اسے اپنی باہوں میں خود سے قریب کیا تھا اور کچھ ہی دیر میں وہ باپ بیٹی دونوں سو گئے تھے۔

"لو بھئی" زینب فارغ ہو کے جیسے ہی کمرے میں آئی تھی انہیں اس طرح سوتا دیکھ اس نے اپنا کمر کر ہاتھ رکھ کہا تھا۔

زینب چلتی چلتی حیدر کے بیڈ سائیڈ کی طرف آئی تھی اور اس گلاس میں رکھا سارا کا سارا پانی حیدر کے اوپر ایسے الٹا تھا کہ حوریہ اس کی زد میں نہ آئے۔

حیدر کی آنکھیں فوراً کھول گئی تھیں لیکن وہ ایک دم سے اٹھا نہیں حوریہ کی وجہ سے۔۔۔

"کبھی تو یار پیار سے اٹھا دیا کرو" وہ منہ پر آیا پانی صاف کرتا بول رہا تھا۔

"کبھی تو تم ایک دفع کے کہنے پر اٹھ جایا کرو" وہ اس کا بلینکٹ طے کر اسی کے انداز میں بولی تھی۔

"اور انہیں دیکھو میں تمہیں اٹھانے کے لئے بھیجتی ہوں یہ میڈم ہمیشہ خود ہی سو جاتی ہیں بلکل باپ پر گئی ہے کبھی جو میری سن لے" وہ حیدر سے کہہ رہی تھی جو آرام سے اپنے اوپر سے اٹھاتا بستر پر لیٹا رہا تھا۔

"کیا کرے بلکل ماں پر گئی ہے میرے کندھے سے لگتے ہی سو جاتی ہے" حیدر نے بدلے میں اسی پر چوٹ کی تھی جو آج بھی اس کے کندھے پر سر رکھ فوراً سو جایا کرتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشر کا اشہل کے ساتھ نکاح ہو گیا تھا اور اب وہ اسے وینیو سے لئے گھر جانے کو تھا پر اشہل جتنی بھی بولڈ کیوں نہ ہو جاتی تھی تو وہ ایک لڑکی ہی سو ہر لڑکی کی طرح وہ بھی اپنی رخصتی پر رو رہی تھی اور حاشر کو وہ ایسے زہر لگ رہی تھی وہ کب سے کوشش کر رہا تھا کہ وہ چپ ہو جائے پر اشہل میڈم چپ ہو کے ہی نہیں دے رہی تھیں۔

"قسمت تو میری پوٹھی ہے تم کیوں رو رہی ہو" حاشر نے اب کے اس زبان میں کہا جس کی اسے سمجھ آتی تھی۔۔۔۔انداز چڑا ہوا رکھا تھا۔

"ابھی تو صرف قسمت پھوٹی ہے ایسا نہ ہو کہ میں تمہارے دانت سر ہاتھ پیر سب پھوڑ دوں" حاشر اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا تھا اشہل نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کے اور اپنے دلہناپے کو بلائے طاق رکھ کہا۔۔۔۔

محفل میں کھڑے سب ہی لوگوں نے اس کی بات سن ققہہ لگایا تھا۔۔۔۔اور سارے بڑوں نے اسے ان۔ گھوریوں سے نوازا تھا کہ اسے اپنا دولہا بھول جاتا یہ گھوریاں نا بھولتیں۔۔۔۔

برات دلہن کو لے چلی گئی تھی اور یہ سب بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھنے لگے تھے نور بھی انہی میں شامل تھی۔۔۔۔وہ ابھی کار کی طرح بڑھ رہی تھی جب کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ اسے روک لیا تھا۔۔۔۔

وہ ڈر کے مارے چیخنے کو تھی لیکن انس احسن کو اپنے سامنے دیکھ اس کی نکلتی چیخ خود با خود ہی بندھ ہو گئی تھی۔۔۔۔

"کیا میرے گھر آنے کا ارادہ نہیں ہے؟" آج ان کے انداز ہی بدلے بدلے تھے نور کا ہاتھ اب بھی ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ مسلسل مسکرا رہے تھے۔

"جی۔۔۔لیکن آپ نے تو کہا تھا" وہ ہلکے ہلکے چوروں کی طرح اپنا ہاتھ آزاد کرنے کی کوشش کرتی کہہ رہی تھی۔

انس احسن نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی اس کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا مطلب صاف تھا وہ اسے آج بھاگنے نہیں دینے والے تھے۔

"اب بھی میں ہی کہہ رہا ہوں"

"لیکن آپ تو زی۔۔۔۔" اس نے خود ہی بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔

"آپ کو پتا ہے زینب سے جب میں نے یہ بات کہی تھی تو اس نے کہا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے مجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور مجھے لگتا ہے اس نے ٹھیک کہا تھا۔۔۔۔محبّت کبھی نہیں تھی ہمارے درمیان۔۔۔کچھ اور تھا۔۔۔۔کوئی انسانی رشتہ بن گیا بے نام مگر مضبوط۔۔۔۔آج مجھے معلوم ہو چلا ہے کہ میں زینب کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ورنہ اپنی محبّت کو کوئی کسی اور کے ساتھ کیسے برداشت کر سکتا ہے اور مجھے وہ حیدر کے ساتھ پہلے سے زیادہ مکمل لگتی ہے۔۔۔۔انس احسن کو محبّت پہلے نہیں ہوئی تھی اب ہو گئی ہے۔۔۔۔کیوں کہ میں تمہیں کسی اور کے ساتھ سوچنا بھی پسند نہیں کرتا۔۔۔۔۔ یہ خیال ہی بہت جان لیوا ہے" انس احسن نے یہ بات سمجھتے سمجھتے بہت وقت لے لیا تھا۔۔۔نور کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔۔۔۔

"اب تو ہنسے کے دن ہیں تم اب کیوں رو رہی ہو" وہ اس کے آنسو انگلیوں کی پوروں پر چنے لگے تھے۔

"آپ نے بہت انتظار کرایا" وہ شکوہ کر رہی تھی۔

"صبر کا پھل میٹھا بھی تو ہوتا ہے" وہ مسکراتے ہوئے اسے بھلا رہے تھے۔

"اچھا ایسی بات ہے تو اب آپ کریں چار سال اور انتظار" وہ اپنے ہاتھ چھوڑا کے ان سے دور ہوئی تھی اور مسکراتے ہوئے ہی بولی تھی۔

"نور تم ایسا کچھ نہیں کرو گی" وہ اس کی طرف قدم آگے بڑھاتے کہہ رہے تھے۔

نور نے ہونٹ دانتوں تلے دبا نفی تھی۔

"اچھا سوری نہ" وہ آگے بڑھے اور نور پیچھے۔

نور نے پھر نفی کی۔

"نور۔۔۔۔تم چاہ کیا رہی ہو؟" اب کے وہ جھنجھلائے تھے۔

"میں۔۔۔۔" وہ الٹے قlدم۔ چل رہی تھی۔۔۔۔"

میں تو بس آپ کو چاہ رہی ہوں ہر لمحہ۔۔۔ہر پل" وہ کہتے ساتھ کھلکھلاتے ہوئے مسکراتی ہوئی بھاگ گئی تھی۔

اور انس احسن کے لب اس اقرار پر خوشی سے کھل گئے تھے۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر اپنی بیڈ سائیڈ پر لیٹا ہوا مسلسل زینب کو دیکھ رہا تھا اور اس کے پیروں پر ہی اسکی نظریں پڑ رہیں تھی۔۔۔۔اس کی پنڈلیوں سے جھلکتی پازیب جو حیدر نے ہی اسے دی اور جس دن سے دی تھی اس دن سے اب تک زینب نے وہ اتاری رہی تھی۔۔۔۔پازیب سونے کی تھی اور دیکھنے میں کوئی خاص مہنگی نہیں لگتی تھی۔۔۔اس میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے چمکیلے نگ لگے تھے۔۔۔۔خیر زینب کو ٹو وہ نگ ہی لگے تھے حالانکہ وہ مہنگا ترین پھتر جڑا تھا زینب کو ہیروں کی پہچان نہ تھی ورنہ وہ جان جاتی۔۔۔۔اخیر کو حیدر نے کہا تھا وہ مہر دے کر رہے گا ایسے نہیں تو ویسے سہی سو اس نے دے دیا تھا۔۔۔تو کیا تھا زینب لاعلم تھی۔۔۔۔پر اس نے تو اپنا فرض ادا کر دیا تھا۔۔۔۔۔اور ساتھ میں اس کے ٹاپس بھی اسے لوٹا دئے تھے اور زینب نے جب پوچھا تو اس نے ساری بات سچائی کے ساتھ بتا دی تھی۔۔۔۔۔زینب نے صبر کیا تھا اور اسے صلہ بھی اتنا ہی خوبصورت ملا تھا۔

حیدر زینب کو پھر دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔زینب کی گود  میں حوریہ بیٹھی اپنی ڈول سے کھیل رہی تھی اور زینب مصروف سی اس کے بالوں میں برش کر رہی تھی۔۔۔

"زینب" حیدر نے اسے پکارا تھا۔

"ہمم" وہ مصروف سی ہی بولی۔

"آئی لو یو" وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی زینب سے کچھ سنے کے لئے اس سے کہہ رہا تھا۔

زینب مسکرائی۔۔۔۔اور پھر اس نے غرور سے ناک اونچی کرتے کہا تھا۔

"تھنکس بٹ نو تھنکس"

"حوریہ ماما سے کہو نہ بابا کو آئی لو یو کہیں" وہ حوریہ کو بیچ میں گھسیٹ رہا تھا جانتا تھا زینب اس کی کوئی بات نہیں ٹالتی۔

"بچی ہے وہ" زینب نے اسے گھور کے کہا تھا۔

"بابا ماما نہیں کہی۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔آئی لو یو۔۔۔۔آپ تو۔۔۔تون کے یہ پیار نی کرتی آپ سے" اس کا انداز معصومیت سے بھرا تھا۔

اس کی بات سن ان دونوں نے کرنٹ کھا کے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔

"مجھے ماما آئی لو یو نہیں کہیں گے کیوں کہ یہ مجھ سے پیار نہیں کرتیں" حیدر نے اس کی ساری کہی بات دوہرای تھی آیا وہ یہی کہنا چاہ رہی tتھی یا ان دونوں نے کچھ غلط سنا تھا۔

حوریہ نے معصومیت سے ہی گردن ہاں میں ہلائی تھی۔

زینب تو پریشان ہی ہو گئی تھی حوریہ کو ایسا کیا محسوس ہوا تھا جو وہ یہ کہہ رہی تھی۔

"ماما آپ سے بھوت پیار۔۔۔۔کرتی ہیں۔۔۔۔اور آپ صف۔۔۔آئی لو یو۔۔۔۔بول۔۔۔۔ہو۔۔۔تو مچ نہیں۔۔۔۔بولتو" وہ اب ماں کی طرح خود ہی غصّے سے بولی تھی اور ان دونوں نے ایک ساتھ اس کا گال چوما تھا۔

"آئی لو یور ممی ٹو مچ تھری مچ اینڈ سو اون" وہ اسے گود میں لے گودگودی کرتا کہہ رہا تھا۔۔۔۔اور حوریہ کی کلکریاں ان کے آنے والی زندگی کو بھی مہکنے والی تھیں۔

ختم شد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top