جگ ہاری (آخری قسط)
" میرے لئے رک جاؤ پلیز حیدر میرے لئے رک جاؤ" وہ سسکتی بلکتی اس کے ماتھے پے ماتھا ٹیکائے التجائی لہجے میں آنکھیں سختی سے بند کرتی اسی ایک جملے کو بار بار دہرا رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے گرتے موتی کے چمکتے ٹکرے حیدر کی آنکھوں پر پڑ رہے تھے۔
وہ پہلی بار اس سے کوئی گزارش کر رہی تھی اور وہ آج اتنا بے بس تھا کہ اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
حسرت ہی رہی ہماری
وہ کبھی دل پے ہاتھ رکھیں
وہ کبھی دل کو آباد کریں
جو علم ہوتا وہ لہو رنگ دیکھ تڑپ اٹھائیں گے ہمارا
میں کمان سے نکلا ہر تیر اپنے دل کے پار کرتا۔
(نمرہ اسرار)
اس نے اپنی آنکھیں موند لیں تھیں کبھی نہ کھولنے کے لئے محبت کی کہانی شاید یہیں ختم ہو گئی تھی وہ جگ ہاری تھی اور آج سہی معنوں میں وہ اپنا جگ ہار گئی تھی۔۔
وہ جگ ہاری ضرور تھی پر دنیا والوں کی طرح محبّت میں ہارنا اسے بھی گروارا نہیں تھا تو وہ کیسے محبّت میں ہار جاتی بینا کسی کوشش کے۔۔۔حیدر کی بند آنکھیں دیکھ وہ سیدھی ہوئی تھی اور اپنا خون سے تر ہاتھ دیکھا تھا جو اب تک اس کے دل پر رکھا تھا۔۔۔وہ اس کی دھڑکوں کو محسوس کر سکتی تھی وہ چل رہیں تھیں پر بہت مدھم۔۔۔۔اس نے اپنے سفید سوٹ کی استین سے بیدردی سے اپنے گال پے بہتے آنسو ریگڑ دئے تھے۔۔۔اسنے اس کے لئے رونا تو کبھی نہیں سیکھا تھا اور اس نے ہمت ہارنا بھی کبھی نہیں سیکھی تھی تو آج کیسے وہ ہمت ہار جاتی۔۔۔
زینب نے اسے مجمعے میں کھڑے لوگوں کی مدد سے اپنی گاڑی میں بٹھایا تھا اور اچانک ہی اسے لائبہ کا خیال آیا تھا۔ حیدر کی طرف کا دروازہ بند کر وہ اس چودہ پندھرا سال کے بچے کی طرف موڑی تھی جس نے حیدر کو گاڑی تک لانے میں اس کی مدد کی تھی۔
"وہ لڑکی۔۔۔۔۔" زینب کا فقرہ ہونے سے پہلے ہی اس نے بتایا تھا۔
"شی اس ڈیڈ"
وہ یہ سن کتنی ہی دیر کچھ بول نہ سکی۔
"آپ۔۔۔آپ پلیز۔۔۔ان کے۔۔۔۔بھائی۔۔۔عاطف۔۔۔۔کو کال کر کے اطلاع کر دیں" اس کی سانسیں پھولنے لگیں تھیں۔۔۔وہ اٹک اٹک کے بول پائی تھی۔
اس کی بات سن وہ لڑکا اسے ایسے دیکھنے لگا تھا مانو زینب کوئی خلائی مخلوق ہو۔۔۔
"پلیز۔۔۔۔" اس نے ایک دفع پھر کہا اور تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی گاڑی ہسپتال کے راستے پر ڈال دی۔۔۔اس نے آج سے پہلے کبھی اتنی رش ڈرائیونگ نہیں کی تھی۔۔۔وہ کرتی بھی کیا اس کے ہاتھ مسلسل کانپ رہے تھے۔۔۔اس نے ایک بھی بار گردن گھوما کے اپنے ساتھ بیٹھے حیدر کو نہیں دیکھا تھا اس میں اتنی ہمت تھی ہی نہیں وہ کیسے دیکھ لیتی اسے ڈر تھا کہیں کچھ۔۔۔۔اور اس سے آگے قوہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی اس کی رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ جاتی۔۔۔اسے اب اسے ہسپتال لے کے جانا تھا وہ بھی جلد از جلد۔۔۔۔۔
ہسپتال کے ایمرجنسی ورڈ کے باہر زینب کی گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی اور وہ اسی تیزی سے گاڑی سے اترتی اندر کی جانب بھاگی تھی۔۔۔
اسے سامنے ہی ورڈ میں ڈاکٹر نظر آ گیا تھا جو کسی شخص کا معینہ کر رہا تھا۔۔۔وہ لمبے لمبے قدم لیتی ان کے پاس جا کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
"ڈاکٹر ایمرجنسی" اس نے اپنے لہجے کو بھیگنے سے بچایا تھا۔۔۔ڈاکٹر بےاختیار ہی اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔۔۔زینب کے سفید سوٹ پر پڑے خون کے لال لال دھبے اور خون میں رنگا ہاتھ کافی کچھ ڈاکٹر کو سمجھا چکا تھا۔۔۔
"چلیں" ڈاکٹر نے ایک لمحہ بھی اور ضائع کئے بغیر اس سے کہا تو زینب نے فوراً سے پہلے انہیں باہر حیدر کے پاس لے آئی۔۔۔ڈاکٹر نے حیدر کی نبض چیک کی تھی۔۔۔۔امید باقی تھی۔۔۔۔اس نے مخصوص وردی میں کھڑے دو لڑکوں سے اسے اندر آپریشن تھیٹر میں لانے کا حکم دیا تھا۔۔۔
ان دونوں لڑکوں نے حیدر کو اسٹریچر پر لٹایا اور دوڑتے ہوئے اسے اندر لے گئے۔۔۔زینب ساتھ ساتھ تھی۔۔۔آج کیوں اسے ایسے دیکھنے میں اسے تکلیف بھی ہو رہی تھی اور اس سے دور جانے کا خیال بھی روح چھلی کر رہا تھا۔۔۔حیدر کے آپریشن تھیٹر میں داخل ہوتے ہی اسے اُس کا ہاتھ چھوڑنا پڑا تھا پر۔۔۔پر وہ اس کی جان کبھی نہیں چھوڑنے والی تھی۔۔۔وہ اسے روک لے گی اسے یقین تھا۔۔۔وہ آپریشن تھیٹر کے باہر قطار میں لگی بینچوں میں سے ایک پر بیٹھی تو اس کے آنسو پھر بہنے لگے تھے۔۔۔
"ایکسکیوز می" یہ وہی ڈاکٹر تھا۔
زینب چہرہ صاف کرتے کھڑی ہوئی تھی۔
"جی؟" اس نے بےچینی سے پوچھا تھا۔۔۔۔آنکھوں میں انکہی خوف کا تاثر بلکل واضح تھا۔
"میں ہسپتال کے رول کے خلاف جاتے آپریشن شروع تو کر رہا ہوں لیکن آپ کو پیمنٹ ابھی کرنی ہو گی" وہ حیدر کی حالت کے پیشِ نظر بول رہا تھا۔۔۔۔اسے امید تھی اور وہ پیسوں کے لئے ایک جان ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"جی میں کر دیتی ہوں پر حیدر ٹھیک تو" وہ جملہ مکمل کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی تھی۔
"انشاءلله" وہ بول کے روکا نہیں تھا سیدھا آپریشن تھیٹر کے اندر چلا گیا تھا۔
"انشاءاللہ" اس نے زیرِلب دل کی گہرائیوں سے یہ الفاظ ادا کئے تھے۔
یک دم اسے پیمنٹ کا خیال آیا تھا۔۔۔وہ گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی۔۔۔کچھ بھی تو نہیں تھا اس کے پاس۔۔۔اب وہ کیا کرے۔۔۔وہ سوچنے لگی۔۔۔اور پھر اس نے جلدی سے پارکنگ میں آ کے گاڑی میں سے اپنا موبائل نکالا تھا۔۔۔اس نے عبّاس عالَم کو کال ملائی تھی۔۔۔بیل جا رہی تھی۔۔۔تیسری بیل پر فون رسیو کر لیا گیا تھا۔
"ہیلو" وہ رات دیر تک اسٹڈی میں بیٹھنے کے عادی تھے ابھی بھی وہیں موجود تھے کوسی کتاب کا مطالع کر رہے تھے۔۔۔۔مصروف سے انداز میں بولے تھے۔
"بابا۔۔۔بابا حیدر۔۔۔حیدر" پتا نہیں اس کا دل ان کی آواز سن بھر آیا تھا وہ ہچکیاں لیتی کہہ رہی تھی۔
"کون" عباس عالَم ریوولونگ چیر پر سیدھے ہوتے چوکنا ہوئے تھے۔
"زینب بابا۔۔۔۔حیدر۔۔۔کو۔۔با۔۔۔بچا۔۔۔۔لیں" اس طرح روتے۔۔۔۔سسکتے۔۔۔۔ہچکیاں لیتے۔۔۔ایسے تو کبھی کچھ بھی اس نے والیواللہ سے بھی نہیں مانگا تھا جو وہ ان سے مانگ رہی تھی۔
"کہاں ہے وہ اور کیا ہوا ہے اسے" وہ پریشان ہوئے تھے۔۔۔بے حد پریشان۔۔۔۔اپنی کرسی سے اٹھتے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے پورچ میں پہنچ گئے تھے۔۔۔۔اور ثانیہ بھابی جو ابھی تک سوئی نہیں تھی انہیں اس طرح پریشان ہال دیکھ ان کے پیچھے لپکیں تھیں۔
"ہسپتال" وہ ایک ہی سوال کا جواب دے پائی۔
"میں بس پہنچ رہا ہوں" انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے زینب سے کہتے کال منطقہ کی ہی تھی کہ ثانیہ بھابی نے سوال کر دیا۔
"مامو سب خیریت تو ہے"
"پتا نہیں بیٹا زینب کی کال آئی تھی حیدر ہسپتال میں ہے۔۔۔سعید کو اٹھاؤ اور فوراً بھیجو میں نکل رہا ہوں" وہ عجلت میں مختصر بات کرتے گاڑی زن سے اڑا لے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر کا آپریشن آئی سی یو کیا جا رہا تھا۔۔۔وہ بینچ پر بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔پہلی بار اسے حیدر یاد آ رہا تھا۔۔۔اس کی باتیں۔۔۔اس کی فقرے جن سے وہ چڑ جایا کرتی تھی آج انہیں یاد کرتے اسے غصہ نہیں آ رہا تھا۔۔۔اگر کچھ آ رہا تھا تو صرف آنسو تھے جو آنکھوں سے رواں اس لمحے کو۔۔۔۔اس حادثے کو دھندھلا دینا چاہتے تھے۔۔۔پر یہ دھن صرف آنکھوں تک محیط تھی۔۔۔یہ دن۔۔۔۔یہ پل وہ چاہ کر بھی مٹا نہیں سکتی تھی۔۔۔۔جو وہ حیدر کے لئے کبھی نہیں کر سکتی تھی آج کر رہی تھی وہ رو رہی تھی اس کے لئے۔۔۔۔حیدر اگر یہ سنتا تو اسے کبھی یقین نہ آتا۔۔۔۔
عبّاس عالَم ریسپشن سے حیدر کا پتا کرتے آئی سی یو کے کوریڈور میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ان کی نظر بینچ پر بیٹھی زینب پر پڑی جو سر پر دوپٹا لئے ایک غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے رو رہی تھی۔۔۔۔اس کا لباس خون سے لتھ پت تھا۔۔۔۔اسے اس طرح دیکھ عباس عالَم کی سانسیں اٹکی تھیں۔۔۔ان کے پیر جم گئے تھے وہ آگے نہیں بڑھے وہیں کھڑے رہے۔۔۔ابھی کچھ دیر بھی نہیں ہوئی تھی کہ کوریڈور میں سعید ثانیہ اور فائزہ بیگم تیزی سے چلے آ رہے تھے۔ وہ سب ہی عبّاس عالَم کو یوں کوریڈور کے وسط میں کھڑا دیکھ رک گئے تھے۔۔۔۔
"ڈیڈ " عبّاس عالَم نے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ انہیں اپنی طرف مخاطب کیا تھا۔
عبّاس عالَم اس کی آواز پر اس کی طرف متوجہ ہوتے اسے خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔
سعید عبّاس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کا حوصلہ بڑھاتے انہیں وہیں بینچ پر بیٹھا دیا تھا اور خود کو راہداری میں ٹہلتے کبھی کسی نرس سے تو کبھی کسی ورڈبوائے سے اس کی خیرات معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور انہیں کچھ بھی پتا نہیں چلا تھا سب اسے ٹال کر آگے بڑھ جاتے۔۔۔۔
یونہی آئی سی یو کے باہر بیٹھے انہیں آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ احمر رانیہ علی عائشہ نور حاشر اور اشہل بھی یہاں پہنچ گئے تھے۔۔۔۔یقیناً انہوں نے احمر کو اطلاع دی ہوگی اور پھر ان دوستوں نے ایک دوسرے کو اطلاع کر دی۔۔۔۔
حیدر کے گھر والوں کا حوصلہ بڑھانے کے بعد ان سب کی نظر آنسو چھلکاتی زینب پر پڑی تھی جو یک ٹک سی آئی سی یو کے دروازے کو دیکھ رہی تھی جیسے امید کی کوئی ڈور بندھی تھی اور اگر وہ پلک جھپکا جاتی تو امید ٹوٹ جاتی۔۔۔پھر ایک ایک کر ان سب نے آپس میں نظروں کا تبالہ کیا تھا۔۔۔ایک دوسرے سے سوال کرتی نظریں۔۔۔حیرت کے سمندر میں غوتے کھاتی نظریں۔۔۔
وہ سب ابھی کوئی سوال نہیں کر سکتے تھے یہ موقع ایسے سوال کرنے کا نہیں تھا۔۔۔لیکن وہ حیران ہو سکتے تھے اور حیران ہو رہے تھے۔۔۔۔
یک دم آئی سی یو کا دروازہ کھولا تھا اور ڈاکٹر باہر آیا تھا۔۔۔زینب تیر کی طرح سیدھی کھڑی ہو گئی تھی اور اس سے پہلے وہ ان کی طرف بڑھ کے کوئی سوال کرتی ڈاکٹر اسے نظر اندز کرتا اپنی طرف آتے سعید عبّاس کو اشارہ کرتے تھوڑا آگے لے گیا تھا وہ ان کے پیچھے ہی چلی آئی اور اب کے اس کے پیچھے علی احمر اور حاشر بھی کھڑے تھے۔۔۔
ڈاکٹر نے اسے دیکھا۔۔۔ایک سانس اندر کو کھینچی اور بولنا شروع کیا۔
"گولی ٹھیک دل پر نہیں لگی ہے لیکن اس نے دل کو نقصان پہنچایا ہے کتنا ابھی ہم نہیں جانتے لیکن اگر زیادہ نقصان ہوا تو ہمیں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنا ہو گا۔۔۔رپورٹ بس آتی ہی ہوں گی" ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں کہتے کہتے زینب کو دیکھ انپروفیشنل انداز میں بولتا اس کی آس بڑھا رہا تھا۔
"کوئی خطرے والی بات تو نہیں" سعید عبّاس جانتے بوجتے یہ سوال کر رہے تھے۔۔۔۔شاید چاہتے تھے کہ انہیں امید دی جائے۔
"ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اگر پہلی صورت ہوئی تو ہم پر امید ہیں لیکن اگر ہمیں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنا پڑا تو۔۔۔ہم نے ہارٹ کی سرچ شروع کروا دی ہے تاکہ کوئی مسلہ نہ ہو بس آپ دعا کریں ہارٹ اویلیبل ہو" وہ کہتے ہی وہاں سے چلا گیا تھا اس سے زیادہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔
"احمر بھائی" وہ اسے پکار رہی تھی۔۔۔
"ہاں" اس نے فوراً جواب دیا۔
"حیدر کا بلڈ گروپ کیا ہے؟" وہ اب ٹک وہیں دیکھ رہیں تھیں جہاں سے ڈاکٹر گیا تھا۔
احمر کو اس کے اس سوال کی وجہ سمجھ نہیں آئی لیکن پھر بھی اس نے جواب دے دیا۔
"بی پازیٹیہہ(+)"
"بی پازیٹیہہ(+)" زینب نے اسے دیکھتے دوہرایا۔
احمر نے ہاں میں گردن ہلائی تو زینب کو نجانے کیا ہوا وہ تیز تیز قدم اٹھاتی آگے جانے لگی۔۔۔احمر کو وہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس نے تھوڑی دور کھڑی رانیہ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور زینب کے پیچھے لپکا۔
"ڈاکٹر۔۔۔۔ڈاکٹر" اسے راہداری میں ڈاکٹر نظر آ گیا تھا وہ انہیں آوازیں دیتی ان کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
ڈاکٹر نے بلاخر سن لیا تھا اور وہ رک گیا تھا۔
"ڈاکٹر میرا بلڈ گروپ بی(+) ہے" وہ انہیں بتانے لگی۔
رانیہ اور احمر کچھ قدم اس سے دور تھے لیکن اس کی کہی بات باآسانی سن چکے تھے۔
"تو" ان کے کچھ پلے نہ پڑا۔
"آپ میرا ہارٹ لے لیں حیدر کو بچا لیں" یہ کہتے اس کی آنکھیں بھر آئیں تھیں اور ڈاکٹر نے ایک ہی لمحے میں کئی طرح کے احساسات کا تجربہ کیا تھا۔۔۔وہ حیرت زدہ ہوا اور پھر اسے زینب کی دماغی حالت پر شک ہوا۔۔۔۔۔پیچھے کھڑے احمر اور رانیہ کو بھی اس کی اس بات پر کرنٹ لگا تھا۔
"آپ جائیں ڈاکٹر اپنا کام کریں۔۔۔۔اور تمہار دماغ تو ٹھیک ہے پتا بھی ہے کیا کہہ رہی ہو مر جاؤ گی" رانیہ نے پہلا فقرہ ڈاکٹر سے کہتے انہیں روانہ کیا اور دوسرے فقرے میں وہ زینب سے مخاطب ہوتی اس پر برسی تھی۔
"ابھی بھی تو مر ہی رہی ہوں" اس کا لہجہ ٹوٹا۔۔۔بکھرا ہوا تھا۔۔۔آنکھوں سے اشک جاری تھے۔۔۔۔رانیہ نے اسے یوں روتا کبھی نہیں دیکھا تھا وہ تو آنسوؤں کو چھپا کر رکھتی تھی۔۔۔۔وہ ان کو دل میں اتارتی تھی پر شاید وہ بھول گئی تھی یہ تو قدرت کا قانون ہے بادل ایک وقت تک خود میں پانی جذب کرتا ہے اور پھر ایک دن اس نے برسنا ہوتا ہے۔۔۔۔اور ان آنسوؤں کے برسنے کا دن آج طے تھا سو وہ آج برس رہے تھے۔۔۔۔رانیہ اسے گلے لگاتے اپنے آنسوؤں کو روک نا سکی۔۔۔۔
کئی گھنٹے گزر گئے تھے ان سب کی ہی جان سولی پر اٹکی تھی۔۔۔ڈاکٹرز اپنا کام کر رہے تھے اور ایسی کوئی خاص پر امید بریفنگ نہیں دے رہے تھے۔۔۔
"ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی گولی دل سے ایک دو انچ کے فاصلے پر جا کے لگی تھی۔۔۔۔ہم نے آپریشن کر دیا ہے اور اب ان کے ہوش میں آنے کا انتظار ہے" گھنٹے بیتنے کے بعد ڈاکٹر نے آئی سی یو کے آپریشن تھیٹر سے نکل کے سعید عبّاس کو معطل کیا تھا۔
"وہ ٹھیک تو ہے" انہیں بس اس کے ٹھیک ہو جانے سے غرض تھی۔
"جب تک ہوش نہیں آ جاتا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔۔۔دعا کریں اللہ سب بہتر کرے گا" ڈاکٹر نے آخر میں ان کا کندھا تھپتپتے ان کو حوصلہ دینے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔
اسکے کانوں میں ڈاکٹر کے الفاظ پڑے تھے۔۔۔ اور وف سوچنے لگی تھی۔۔۔
"دعا" ہاں یہ دعا ہی تو ہر راستہ سہل کر دیتی ہے جب سارے راستے بند ہوں جب کوئی امید باقی نہ ہو تب یہ دعا ہی تو کام آتی ہے اور آج اسے دعا ہی تو مانگنی ہے۔۔۔۔۔
دعا کا در کبھی بندھ نہیں ہوتا۔۔۔اللہ کے ہر در کو خود پر بندھ کرنے والے ہم خود ہوتے ہیں جبکہ وہ تو تمہارا منتظر ہے جب تک یہ سانسیں ہیں۔۔۔۔جس دن تم نے اس سے سچے دل سے دعا مانگی میرے ایمان ہے وہ تمھیں خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا
اچانک ہی والیواللہ کے کہے جملے اسے یاد آئے تھے۔۔۔وہ اکثر ہی اسے دعا مانگنے کے لئے کہتے تھے اور وہ ان کی باتوں کو باتیں سمجھ سن لیا کرتی تھی۔۔۔۔اسے نہیں علم تھا اسے انہی باتوں پر عمل کرنا تھا ایک دن۔۔۔۔اور رب نے وہ دن آج کا مقرر کیا تھا۔۔۔
وہ غیر محسوس انداز میں اٹھی تھی لیکن پھر بھی نور اور رانیہ اس کے پیچھے پیچھے چل دیں تھیں۔۔۔۔وہ اس سے فاصلہ رکھ چل رہیں تھیں۔۔۔۔اس نے ایک راہداری عبور کر لی تھی اور دوسری راہداری کے اختتام پر اسے عاطف دیکھا تھا وہ کسی ڈاکٹر سے بات کر رہا تھا۔۔۔زینب کے قدم خود با خود ہی اس کی طرف چل دئے تھے۔۔۔۔
عاطف نے ڈاکٹر سے بات کرنے کے دوران ہی اسے دیکھ لیا تھا اور جلد ہی اپنی بات مکمل کر وہ اس کے اس تک پہنچنے سے قبل اس کی طرف رخ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
وہ آ تو گئی تھی پر وہ کیا کہے اس کے بولنے کی جیسے قابلیت ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔وہ خاموش رہی لائبہ کی تعزیت کرنے کے لئے اس کے پاس الفاظ نہیں تھے سو یہ لمبی خاموشی ہی اس کی تعزیت تھی۔۔۔
پیچھے وہ دونوں کھڑی اپنا غصّہ ضبط کر رہیں تھیں۔۔۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ عاطف کو کھری کھوٹی سنائیں۔۔۔۔اور انہیں زینب پر بھی غصّہ تھا بھلا وہ کیوں یوں چپ چاپ اس کے پاس کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔زیادہ غصّہ انہیں اس کے چہرے پر چھائے افسوس نے دلایا تھا جو یقیناً کسی اور کے لئے نہیں اس کی بہن کے لئے ہی تھا۔۔۔۔
"کہیں پڑھا تھا" وہ خاموشی توڑتے بولا تھا۔۔
"کچھ لوگوں کے حصے میں صرف چاہتیں باٹنے کا کام آتا تھا وصول کرنے کا نہیں۔۔۔۔شاید اشفاق احمد نے کہا تھا" وہ نارمل نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
"اس دن آپ کو لاوارث کہا تھا" وہ استہزیہ انداز میں مسکرایا تھا۔۔۔۔
"لاوارث۔۔۔۔ہمم۔۔۔لاوارث تو میں ہوں۔۔۔۔مجھ جیسا لاوارث بھی کوئی ہو گا۔۔۔جس کے اپنے ہوتے ہوئے کبھی اس کے اپنے نہیں ہوئے۔۔۔۔محبت والدین سے کی۔۔۔۔وہ چھوڑ گئے۔۔۔۔محبّت بہن سے کی۔۔۔۔وہ چھوڑ گئی۔۔۔۔اور جب کسی کی محبّت پانی چاہی تو وہ بھی نہیں ملی۔۔۔۔مجھے لگتا ہے اشفاق احمد یہ بات میرے لئے کی کہہ گئے تھے میں انہی لوگوں میں شامل ہوں" اس کے پاس کوئی نہیں تھا یہ سب باتیں کرنے کے لئے وہ تھی تو وہ اسے سنا رہا تھا۔۔۔
"اور میں بھ۔۔۔۔" عاطف نے اس کے کہے سے نفی کرتے اس کی بات کو مکمل ہی نہیں ہونے دیا تھا۔
"شاید آپ نے میری بات غور سے نہیں سنی میں نے کہا۔۔۔۔کچھ لوگوں کے حصے میں چاھتیں باٹنے کا کام آتا ہے۔۔وصول کرنے کا نہیں۔۔۔تو بھلا آپ کیسے ان لوگوں میں شامل ہوئیں۔۔۔جو شخص آپ سے محبّت کرتا ہے وہ آج آئی سی یو میں پڑا ہے۔۔۔جو ہر کسی سے آپ کے لئے لڑ جاتا تھا۔۔۔۔میری دعا ہے وہ آج موت سے بھی لڑ جائے آپ کے لئے اور آپ کو اس کی چاہت وصول کرنے کا موقع ملے" وہ ٹوٹے دل سے دعا کر رہا تھا اس کے لئے کہ کسی کی تو محبّت کامل ہو۔۔۔۔اور آج وہ چاہتی تھی پورے دل سے کے یہ قبول ہو۔۔۔اسکی دعا سے اسے اپنی دعا یاد آئی تھی اسے بھی تو دعا مانگنی تھی۔۔۔یہ سوچتی ہوئی وہ اسے کوئی بھی جواب دئے آگے بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔۔۔بہتر ہے کہ یہ بات میں آپ کو خود بتا رہا ہوں کیوں لہ شاید اگر آپ کو اس بات کا علم کسی دوسرے سے ہوا تو آپ کو بہت افسوس ہوگا" نکاح ہونے کے بعد وہ انہوں نے اس سے اکیلے ملنے کی درخواست نور کی دادی کے سامنے رکھی تھی جو کے منظور کر لی گئی تھی اور اب انس احسن اپنی جاندار پرسنیلٹی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے اس سے ہم کلام تھے۔
نور ہاتھوں کو آپس میں جوڑے پہلے ہی بہت نروس بیٹھی تھی اور اب انس احسن کی عجیب و غریب باتیں اسے مزید پریشانی میں گھیر رہی تھیں۔
"میں زینب کو پسند کرتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا" وہ توقف کے بعد اسے آنکھوں میں لئے بولے تھے جیسے انہیں اس کے برا لگ جانے کا ڈر ہو۔
نور کے چہرے پر جو تاثر آنا چاہیے تھا وہی آیا تھا وہ حیرات زدہ ہوئی تھی۔
"اگر آپ اس حقیقت کو قبول کر کے میرے ساتھ زندگی گزرنا چاہتی ہیں تو موسٹ ویلکم لیکن اگر صورت دوسری ہوئی تو میں کو پوری عزت کے ساتھ چھوڑ دوں گا" انھوں نے بہت نرم لہجے میں بات مکمل کی تھی اور وہ چلے گئے تھے۔۔۔۔اس کی کوئی بات انہوں نے نہیں سنی تھی۔۔۔۔وہ اسے کب سنے آئے تھے وہ تو اپنی کہنے آئے تھے اور کہہ کے چلے گئے تھے۔
*دوسری صورت ہوئی تو میں آپ کو پوری عزت کے ساتھ چھوڑ دوں گا* کمرے میں آپ تک ان کی مہک موجود تھی۔۔۔اور بہت قریب اس کے وہی جملہ گونجا تھا جو کچھ دیر پہلے وہ کہہ کے گئے تھے۔
اس جملے کے معنٰی کی اسے ضرورت نہیں تھی وہ صاف لفظوں میں سب کچھ اس کی آنکھوں کے آگے سے صاف کر گئے تھے۔۔۔۔ہر خواب۔۔۔۔ہر تمنا۔۔۔۔ہر ارمان اور وہ سب اپنے جذبوں کی اس صفائی کو دیکھ کر رہ گئی تھی۔
"انہوں نے کہا تھا وہ اسے عزت کے ساتھ چھوڑ دیں گے۔۔۔انہیں کیا معلوم نہیں تھا کہ جسے چھوڑ دیا جائے پھر اس کی عزت کہاں رہتی ہے۔۔۔۔نہ اپنے دل میں نہ ہی دنیا میں۔۔۔۔دل عزت نہیں کرتا کہ وہ محبّت میں کامیاب نہیں ہوا اور دنیا عزت نہیں کرتی کہ وہ شادی جیسے رشتے کو نبھا نہیں سکی۔
اسکی چار سال کی خاموش محبّت نے اسے عجیب دوراہے پے لا کھڑا کیا تھا۔۔۔وہ کیا کرتی۔۔۔ہاں وہ تو پہلے بھی چپ رہی تھی اسے آج بھی یہی کرنا تھا۔۔۔اس نے اپنے گہری مہندی چڑھے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں سے نکلتا ایک خاموش آنسو اتنی ہی خاموشی اسے ریگڑ دیا تھا جتنی خاموشی اس نے انس احسن سے محبّت کی تھی۔
منظر بدلہ تھا۔۔۔۔
وہ اب ہال میں تھی۔۔۔۔نکاح کے دن کا وہ منظر اسے زینب اور عاطف کی وجہ سے یاد آیا تھا۔۔۔جو وہ اس پورے دن سوچتے رہی تھی۔۔۔صرف ایک سوال۔۔۔وہ زینب سے محبّت کیوں کرتے ہیں؟
اسے جواب مل گیا تھا۔۔۔۔زینب نفرت نہیں کر سکتی تھی کسی سے بھی نہیں۔۔۔۔تبھی تو وہ لائبہ کی موت کا مجرم بھی خود کو سمجھ رہی تھی اور لائبہ کی وجہ سے ہونے والے حیدر کے حملے کا بھی خود کو۔۔۔۔کیوں کہ اگر وہ مجرم لائبہ کو گردانتی تو کبھی اس کی تعزیت کے لئے کھڑی نہیں ہوتی۔۔۔۔اسے تو یہی لگ رہا تھا۔
"کتنے عجیب ہیں ہم سب دائرے میں رہ کر محبّت کرنے کے باوجود ہمارے دائرے محبّت سے ملتے ہی نہیں" اس نے مصحلے پر بیٹھی دنیا سے بیگانی زینب کو بھیگی آنکھوں سے دیکھتے سوچا تھا جسے حیدر سے محبّت تو نہیں ہوئی تھی پر آج اسے اس کی محبّت کا احساس ضرور ہو گیا تھا۔۔۔۔رشتوں میں جو چیز سب سے اہم ہے آج اسے وہ ہو چلا تھا۔۔۔۔۔احساس۔۔۔۔۔باقی کے جذبے بھی عبور کو جاتے اگر۔۔۔۔اگر وہ بچ جاتا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعید عبّاس نے کسی طرح بہلا کے ماں باپ کو ثانیہ کے ساتھ گھر بھیجا تھا ساتھ اسے ان کا خیال رکھنے کی تائد بھی کی تھی۔۔۔۔وہ زینب کو بھی گھر بھیجنا چاہتا تھا پر وہ اسے کہیں نظر ہی نہیں آئی۔۔۔۔
"احمر علی حاشر اب تم لوگ بھی جاؤ گھر۔۔۔۔حیدر کے ہوش میں آتے ہی میں کال کر دوں گا" انہوں نے مظبوط لہجے میں سب کو اپنا حکم سنایا تھا نہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔
"زینب کہاں ہے؟ اسے بھی ساتھ لے کے جانا" ان کے متلاشی نظروں سے ارد گرد کا جائزہ لیتے احمر سے کہا تھا پر وہ کہیں نہیں تھی۔
دور سے آتی رانیہ اور نور کو دیکھ احمر نے ان کے قریب آنے پر رانیہ سے پوچھا تھا۔
"بھابی کہاں ہیں؟"
"وہ پرینگ روم میں ہے" رانیہ افسوردگی سے بولی تھی۔
"لے آؤ انہیں ہمیں اپنے ساتھ لے کے جانا ہے" احمر نے رسان سے کہا تھا۔
"ہم نے بہت کہا پر لگتا ہے وہ سن ہی نہیں رہی" یہ کہتے رانیہ کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔
"تم سب نکلو میں دیکھ لوں گا اسے" سعید عبّاس نے ان سب کی نظریں خود پر محسوس کر انہیں پھر سے جانے کا کہا تھا۔
ان سب بےدلی سے باہر کی طرف قدم بڑھائے تھے صاف لگتا تھا کہ ان میں سے کسی کا بھی یہاں سے جانے کا دل نہیں تھا پر ہسپتال میں وہ رک بھی نہیں سکتے تھے رکتے تو ایک رش لگ جاتا اور ہسپتال کے عملے سے انہیں خوب سنے کو ملتی۔
وہ مصحلے پر کب سے بیٹھی تھی اسے اندازہ نہیں تھا۔۔۔پرینگ روم سے اس سارے وقت میں کتنے ہی لوگ آئے تھے اور کتنے ہی چلے گئے تھے پر وہ یونہی ہاتھ پھیلائے بیٹھی تھی۔۔۔۔وقت لمحہ لمحہ کر کے گزر گیا تھا اندھیری رات ڈھل گئی تھی۔۔۔۔نمازِ فجر کی اذان اس کی سماعتوں سے ٹکرائیں تو اس نے سب کچھ پیچھے چھوڑے رب کے دربار میں حاضری دی تھی نماز میں اسے ہمیشہ ہی سکون ملتا تھا آج بھی ملا۔۔۔امید کی ڈور مضبوط ہو گئی تھی۔۔۔ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں پھیلائے تو آنکھوں سے ایک نیا سیلاب جاری ہو گیا تھا۔۔۔یونہی اسکی زندگی مانگتے وہ سجدے میں چلی گئی تھی۔۔۔۔وینٹیلیٹر سے آتی سورج کی پہلی کرنیں سجدے میں سر جھکائے اس کے وجود پر پڑیں تھیں۔۔۔۔آہستہ آہستہ کمرہ روشنی میں نہا رہا تھا پر وہ اسی طرح لرزتی ہوئی سجدے میں جھکی رہی کہ جب تک اس کی دعا قبول نہیں کی جاتی وہ یوں ہی اس کے در پر سر جھکائے بیٹھی رہے گی۔۔۔۔
سورج سر پر چڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔اس نے حیدر کو تب سے اب تک ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔اسے اسے ایسے دیکھنے کی آرزو بھی نہیں تھی۔۔۔۔مشینوں اور تاروں میں جکڑا ہوا۔۔۔۔وہ اسے ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتی تھی چاہے وہ اسے ستا لیتا پر یوں ستاتے جان تو نہ لیتا۔۔۔۔
"زینب۔۔۔۔" رانیہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھی اسے پکار رہی تھی۔۔۔
"زینب۔۔۔۔حیدر بھائی" حیدر کا نام سنتے ایک ہی وقت میں اس کی جان میں جان بھی آئی تھی اور جان سے جان نکلنے کو بھی تھی۔۔۔۔
وہ سجدے سے ڈری سہمی سے اٹھی تھی آنکھوں میں امید کے ساتھ خوف کے رنگ بھی نمایاں تھے۔
رانیہ اسے دیکھ دھک سے رہ گئی تھی۔۔۔۔اس کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں آنکھوں کے پییوٹے بری طرح سوجے ہوئے تھے۔۔۔چہرہ آنسوؤں سے بھیگا تھا۔۔۔چہرے کے آگے چاند لاٹیں آ گئی تھیں جو کے نمکین پانی کی زد میں آ کے گیلی ہو چکی تھیں۔۔۔۔
رانیہ کی آنکھیں یکا یک نم ہوئیں تھیں۔
"زینب حیدر بھائی ٹھیک ہیں انہیں ہوش آ گیا ہے۔۔۔۔چلو اب چپ ہو جاؤ" وہ بچوں کی طرح خود روتے ہوئے اس کے آنسو صاف کرتی اسے بہلا رہی تھی۔
"تم جاؤ میں آ رہی ہوں" وہ کافی دیر کے بعد کچھ بولنے کے قابل ہوئی تھی اور نارمل انداز میں بولی تھی۔۔۔وہ بے یقین نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔۔اس لئے اس نے یقین کیا تھا اس ذات پر جس ذات کے یقین پر وہ کل سے مصحلے پر بیٹھی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے بارہ تیرہ گھنٹے گزرنے کے بعد بلاخر سب کی دعائیں رنگ لے آئیں تھیں۔۔۔۔حیدر کو ہوش آ گیا تھا پر وہ خطرے سے باہر تھا۔۔۔۔لیکن اب بھی غوندگی کی حالت میں تھا اور کچھ انجیکشنز کا اثر تھا جس کی وجہ سے وہ مکمل ہوش نہیں سنمبھال سکا تھا۔۔۔۔وقفے وقفے سے آنکھیں کھولتا اور بند کر لیتا۔۔۔۔
سعید عبّاس نے سب کو گھر میں اطلاع کر دی تھی اور وعدے کے مطابق احمر علی اور حاشر کو بھی۔۔۔۔وہ لوگ اگلے پندھرا دس منٹ میں اس کے سر پر حاضر تھے جیسے یہیں آنے کے لئے بے تاب بیٹھے تھے۔۔۔۔
حیدر کے تو دوستوں نے جب تک ڈاکٹر سے بریفنگ لے خود اچھی طرح تسلی نہیں کی وہ مطمئن نہیں ہوئے۔۔۔اور ڈاکٹر کے بتانے پر کے وہ بلکل ٹھیک ہے تو ان سب نے سکون کی سانس لی۔۔۔۔۔۔
کوئی اڑھائی تین بجے وہ مکمل حواسوں میں آیا تھا اور پھر سعید عبّاس نے ڈاکٹر سے ملاقات کی اجازت لی تھی جو کے ڈاکٹر نے باآسانی دے دی تھی۔
حیدر نے نرس سے کہہ اس کے بیڈ کو اونچا کرنے کے لئے کہا تھا۔۔۔۔لیٹے لیٹے اس کی کمر دکھنے لگی تھی۔۔۔۔وہ تھوڑا اوپر ہو مشقت سے بیٹھا تھا کہ دروازہ کھول وہ سب اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔۔۔
فائزہ بیگم نے تو کتنی ہی دیر اسے چھو کے اس کے ہونے کا یقین کیا تھا۔۔۔۔انہیں کل سے ایک پل چین نہیں آیا تھا سعید عبّاس نے انہیں ضد کر گھر بھیج تو دیا تھا پر وہ ساری رات اللہ سے دعائیں کرتی رہیں تھیں۔۔۔۔آرام کو انہوں نے خود پر حرام کر لیا تھا۔۔۔۔
عبّاس عالَم نے جھک کے اس کا ماتھا چوما تھا ساتھ اس کی خیریت بھی دریافت کی تھی۔۔۔۔انہیں اس سے زیادہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی ان کی محبّت اور پرواہ ان کی آنکھوں سے عیاں تھی۔۔۔۔۔اور فائزہ بیگم کی ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی صورت ظاہر تھی۔۔۔
"اب کیوں رو رہیں ہیں آپ یار۔۔۔۔دیکھیں میں بلکل ٹھیک ہوں آپ کے سامنے بھلا چنگا بیٹھا ہوں" اسے ان کے آنسو ہمیشہ کی پریشان کرتے تھے آج بھی کر رہے تھے۔۔۔۔پر وہ ظہور نہیں ہونے دیتا تھا کوفت زدہ لہجہ بنا کر بولا۔
"اللہ کی عجیب مخلوق ہے بیٹا جو رونے کے مواقعے ہوتے ہیں وہاں تو یہ روتی ہی ہیں اور جو نہیں ہوتے وہاں یہ یقینی طور پر روتی ہیں" عبّاس عالَم نے اپنی شریک حیات پر بھرپور چوٹ کر کے کہا تو حیدر نے بے ساختہ قہقہ لگایا تھا جو ایک پل میں کھانسی میں بدل گیا تھا۔۔۔۔دل کی طرف ٹیس اٹھی تھی۔۔۔۔آنکھوں میں آئے پانی کو اس نے پلکیں جھپکتے چھپا لیا تھا۔۔۔۔
"تم ٹھیک تو ہو" فائزہ بیگم اس کی کمر سہلاتی پریشانی سے استفسار کرے لگیں۔
"آپ کے ہوتے ہوئے بھلا مجھے کچھ ہو سکتا ہے" اس نے اس کا ہاتھ تھام اپنے آگے بٹھایا تھا۔۔۔۔کھانسی اب رک چکی تھی۔۔۔۔
فائزہ بیگم نے اس کی نفی کی تھی۔
"امی بھوک لگ رہی ہے" وہ بچوں کی سی طرح انہیں بتا رہا تھا۔
"ہاں۔۔۔۔۔" وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ گئیں تھیں۔
"آرے یار آپ یہیں بیٹھیں۔۔۔۔۔احمر ایک گلاس گرم دودھ اور اچھا سا گرما گرم ناشتے کا انتظام کرو اور یار علی تم خدا کے لئے ان دوائیوں کی اسمل کا کچھ کرو" پہلا فقرہ اس نے فائزہ بیگم کو پھر سے اپنے پاس بٹھالتے کہا تھا اور دوسرے میں وہ بڑے مزے سے علی اور احمر کو آرڈر کر رہا تھا۔۔۔۔۔جو اس کے ایک حکم پر سر ہلاتے باہر نکل گئے تھے۔۔۔۔
پانچ منٹ میں ناشتہ کمرے اس کے پاس موجود تھا۔
"مجھے پتا ہے آپ نے کچھ نہیں کھایا ہو گا چلیں اب جلدی سے یہ دودھ آدھا کریں تاکہ میں پی سکوں۔۔۔۔اور یہ اوملیٹ بھی آپ نے آدھا کھانا ہے اگر شرت منظور ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں نے آدھا بھی نہیں کھانا" وہ بڑی ہوشیاری سے انہیں کھانے پر مجبور کر رہا تھا۔۔۔۔اور فائزہ بیگم بس اسے گھور رہیں تھیں جانتی تھی اس نے کہہ دیا ہے تو اب کبھی نہیں کھائے گا۔
"گھورنے سے کچھ نہیں ہو گا اب جلدی جلدی ہاتھ چلائیں" وہ انہیں بھی حکم دے رہا تھا۔۔۔۔اور وہ مانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتیں تھیں۔
انہوں نے جلدی جلدی کھایا کم نگلا زیادہ تھا انہیں بیٹے کی فکر تھی جس نے شرط رکھ دی تھی۔۔۔۔جب وہ کھا چکیں تو انہوں نے اسے کھانے کا اشارہ کیا۔۔۔وہ دودھ کا گلاس منہ کے قریب لے کے گیا اور بغیر پئے عجیب سے منہ بناتے اس نے گلاس واپس ٹرے میں رکھ دیا۔۔۔۔
"کیا ہوا" انہوں نے فوراً پوچھا۔
"امی مجھے لگ رہا ہے میں نے کچھ بھی کھایا تو مجھے ومٹ (الٹی) ہو جائے گی۔۔۔۔اور پھر اس صورت میں مجھے کافنگ شروع ہو جائے گی اور اس کا میرے ٹانکوں پر اثر پڑے گا" وہ صرف باتیں بنا رہا تھا پر اس کی باتیں فائزہ بیگم کو ڈرا گئیں تھی اس لئے انہوں نے اسے کھانے پر مجبور نہیں کیا۔۔۔کچھ دیر فائزہ بیگم اور عبّاس عالَم اس کے پاس بیٹھے کیوں کہ اس سے زیادہ اس نے بیٹھنے ہی نہیں دیا اور انہیں زبردستی گھر بھجوا دیا۔
فائزہ بیگم اور عبّاس عالَم کے جاتے ہی اس کی نظر کمرے میں بیٹھے باقی نفوسوں پر پڑی جو کب سے اس کی حرکتیں ملاحضہ فرما رہے تھے۔
"چلو اٹھو اپنی جگہوں سے اور اپنی لٹکی ہوئی صورتیں غائب کرو میرے سامنے سے کچھ کھا پی کر آؤ۔۔۔۔تم لوگ تو ایسے بھوکے بیٹھے ہو کے میری فوتگی کی ہی بریانی کھاؤ کے" وہ وہ ان سب کی شکلیں دیکھ غصّے میں ہی تو آ گیا تھا رکھائی سے بولا۔
"دماغ خراب ہو گیا ہے"
"پاگل ہو گیا ہے کیا"
"کچھ بھی بولے چلے جا رہا ہے"
احمر علی اور حاشر کو اس کے ایک جملے نے ہولا دیا تھا۔۔۔وہ غصّہ کرتے ایک کے بعد ایک بولے تھے۔
"جاؤ یہاں سے کھا پی کر آؤ کچھ۔۔۔۔شکلیں دیکھو کسی مسکینوں والی لگ رہی ہیں" وہ اب بھی اپنی ہی بولا تھا اور وہ سب اس کی سن جانے لگے تھے جب وہ پھر بولا تھا۔
"زینب کہاں ہے؟" جسے نظریں ڈھونڈھ رہی tتھیں وہ نجانے کہاں تھی۔۔۔وہ کب سے اس کا انتظار کر رہا تھا پر وہ کہاں تھی اور کیوں اب تک نہیں آئی تھی۔۔۔اسے کئی سوال بے چین کر رہے تھے۔
"جہاں اسے ہونا چاہیے" جواب علی نے دیا تھا اور پھر حیدر نے آگے سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔۔۔۔کمرہ خالی ہو گیا تھا۔۔۔۔
"تو کیا وہ گھر پر ہے۔۔۔۔سکون سے۔۔۔۔میری بے سکونی نے اسے سکون دے دیا۔۔۔۔پر کیسے۔۔۔۔کیا وہ مجھ سے واقعی ااتنی شدید نفرت کرتی ہے کہ میری موت کے اتنے قریب ہوتیں سانسیں اس کی نفرت کو مٹا نہیں پائیں۔۔۔۔کیا میری محبّت اتنی کھوکلی تھی کہ اپنا اثر نہیں چھوڑ سکی اس پے اور ایسا تھا تو زندگی کیوں ملی مجھے موت کیوں نہیں ملی" وہ تنہا بیٹھا تھا۔۔۔۔پر کیوں لگ رہا تھا اسے کے آج وہ واقعی تنہا ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زینب اب تو نماز بھی پڑھے تمھیں اتنا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔۔حیدر بھائی ٹھیک ہیں انہیں ہوش بھی آ گیا ہے تمھیں ملنا نہیں ہے کیا" رانیہ کب سے اس کے پیچھے لگی تھی کہ حیدر سے مل لے اور اب اکتائی ہوئی اس سے پوچھ رہی تھی۔
"لیکن میں کیسے۔۔۔۔۔" اس نے جملہ ادھورا چھوڑا تھا وف مکمل کر بھی نہیں سکتی تھی۔
"اگر تمہیں ان سے ملنا ہی نہیں تھا تو کل سے کیوں بیٹھی اللہ سے ان کی زندگی مانگ رہی ہو مرنے دیتی نہ" رانیہ غصّے سے بھری جو منہ میں آیا بول گئی۔
زینب کی آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔اسے تکلیف ہوئی تھی۔۔۔سیدھے دل میں۔۔۔
"تم تو ایسے مت کہو رانی" وہ پھر رونے کے در پر تھی۔
"اچھا نہیں کہتی پر تم جاؤ تو ملو تو سہی ان سے۔۔۔ہر خوف کو بلائے طاق رکھ کر جاؤ۔۔۔بہادروں کی طرح۔۔۔۔محبّت ویسے بھی بزدلوں کا شیوہ نہیں۔۔۔۔وہ تمھیں کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔۔نہ چڑائیں گے نہ مذاق اڑائیں گے۔۔۔۔نہ ہی کچھ اور کہیں گے تم جاؤ اور محبّت جیت آؤ۔۔۔۔۔چاہے انا ہار جائے پر محبّت کو جیت جانا چاہیے" وہ بہت جوش و خروش سے اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔
زینب کے کچھ سمجھ آ گیا تھا تب ہی اس نے جانے کی حامی بھر لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر دلکشی سے مسکرا رہا تھا۔۔۔۔تھری دیر پہلے چھائی اس کے اوپر کی اداسی چھٹ چکی تھی۔۔۔۔وجہ عائشہ تھی جو اسے زینب سے متعلق سب بتا گئی تھی ٹھیک اسی وقت دروازہ وا کرتی زینب اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔وہ سر جھکائے آئی تھی اس لئے پہلی ہی نظر میں اسے دیکھ نہ سکی ورنہ اس کے چہرے پر سجی مسکان دیکھ لیتی۔
حیدر کے لب مرجھائے تھے۔۔۔وہ اسے دیکھ ٹھٹھک گیا تھا۔۔۔اس نے اپنا کیا ہال بنا لیا تھا۔۔۔۔وہ ایک ہی دن میں کتنی اجڑی اجڑی لگنے لگی تھی۔۔۔۔دل میں وہ کہیں اپنے لئے اس کے پریشان ہونے پر خوش تھا لیکن اسے اسے ایسے دیکھ تکلیف بھی ہوئی تھی۔
"سنا ہے کوئی دل دینے کی باتیں بڑے زور و شور سے کر رہا تھا" حیدر نے مسکراتے ہوئے کہا تھا وہ اپنے اور اس کو درمیان حائل موحول کو نارمل کرنا چاہتا تھا۔
"سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے" زینب نے نظریں جھکائے کہا۔۔۔۔آ تو گئی تھی اس سے ملنے پر اپنی ہار وہ اتنی آسانی سے اس کے آگے قبول نہیں کرنے والی تھی۔
اس کے لہجے نے پل میں اپنا انداز بدلہ تھا اب کے وہ بہت سنجیدہ تھا۔
"اور آنکھوں دیکھی کو" حیدر کا اشارہ اس کی سوجھی ہوئی آنکھوں کی طرف تھا۔۔۔۔
"ضروری نہیں آنکھوں دیکھا بھی سچ ہی ہو" ایک بر پھر ویسے ہی کہا گیا۔۔۔۔وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔اس کے علاوہ کر چیز کو دیکھ رہی تھی کیوں کہ اس شخص کے آگے وہ زیادہ دیر سر جھکا کے کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔۔اور اگر اس کی طرف دیکھ لیتی تو بری طرح ہار جاتی۔
"میری زندگی سے حسین تو موت ہی تھی کم از کم تم دل دینے کی بات تو کر رہیں تھیں" حیدر نے جل بھن کے کہا۔۔۔۔۔وہ اب بھی نہیں مان رہی تھی اسے افسوس ہوا۔
زینب کے لئے اس کی موت کا ذکر جان لیوا تھا۔۔۔۔وہ اسی پل کمزور کو گئی۔۔۔۔
"پہلی دفع مجھے اپنی ہی سانسیں بوجھ لگی تھیں۔۔۔۔میں نے اس سے زیادہ خوفناک کچھ نہیں پایا" وہ آنسو پینے کے جھوکم میں پھر سر جھکا گئی تھی۔۔۔۔اس نے موت کا لفظ استعمال نہیں کیا اس سے اس کی اپنی روح میں تکلیف کی لہر دوڑ گئی تھی۔
وہ کتنی ہی بار اس کے ایک فقرے کی گردان اپنے ذہن میں کر چکا تھا۔۔۔اس کا مطلب تلاش رہا تھا اور اس کا ایک بھی مطلب تھا اور اگر کوئی مطلب نکلتا بھی تھا تو اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔۔۔وہ بس چاہتا تھا جو اسے لگتا ہے وہ ہی سچ ہو۔
"تم اظہار محبت کر رہی ہو" اور پھر جیسے اس نے تزدیق کرتے پوچھا۔
زینی کا جھکا ہوا سر ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔
"میرے کسی بھی جملے میں محبت کا لفظ تک نہیں تھا" زینب نے جیسے اسے یاد دلایا۔۔۔۔وہ کیوں اس کی چوری پکڑنے پر تلا تھا۔۔۔
"لفظ نہیں تھا لیکن احساس تھا اور میں نے صرف اس احساس کو سنا ہے" اس نے گہری نظروں سے دیکھتے بے حد سنجیدی سے کہا تھا۔
"گولی دل پر لگی ہے مگر اثر دماغ پر ہو گیا ہے" اس نے حیدر کا مذاق اڑاتے ہوئے بات کو بدلناچاہا تھا۔
"یہ دل اتنا برا لگتا ہے تو مار دو گولی تمہارے ہاتھوں تو خوشی خوشی کھا لوں گا" وہ اس سے کچھ اور ہی سنے کا منتظر تھا۔۔۔آج وہ صرف اس سے وہ کہلوانا چاہتا تھا جو وہ کہنے سے کترا رہی تھی۔
زینب کا دل تو اس ایک دن میں موم کا ہو گیا تھا۔۔۔اور آنسو تو اب ہر وقت کی باہر کا راستہ تلاش کرتے تھے۔۔۔وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے بیڈ تک آ کے رکی تھی۔۔۔۔حیدر کی نظریں اس پر کی مرکوز تھیں۔۔۔۔وہ اس کے پاس جگہ خالی دیکھ بیڈ پر بیٹھی تھی اور حیدر کا منہ پورا کا پورا کھولنے کو تھا لیکن اسے اس وقت اپنی حیرت اس سے چھپانی تھی ورنہ وہ اس کے اظھار سے محروم ہو جاتا۔۔۔۔
وہ اس کے بے حد قریب ہوتی اس کے دائیں کندھے پر اپنا سر رکھ بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔حیدر اس لمحے مانو پتھر کا مجسمہ ہوا تھا۔۔۔اسے لگا وہ یقیناً کھولی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہے ورنہ زینب اور اس کے اتنے قریب وہ بھی اپنی خواہش سے۔۔۔۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔کتنی ہی دیر وہ اس حیرانگی کے زیرِ اثر بیٹھا رہا۔۔۔۔لیکن دائیں جانب جب اسے احساس ہوا کہ اس کا کندھا گیلا ہو رہا ہے تو ہوش سنمبھال گیا۔۔۔۔
"تم ٹھیک تو ہو؟" اس کی آواز سے ظاہر تھا وہ رو رہی تھی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں بکل فٹ ہوں" وہ اسے بھلا رہا تھا۔
"میں۔۔۔۔۔میں ڈر گئی تھی" وہ رو رہی تھی۔۔۔ہچکیاں لیتے۔۔۔۔اور شادی سے اب تک اپنا کوئی احساس اس سے شئیر کر رہی تھی۔
"میں بھی" ہاں وہ بھی ڈر گیا اسے اکیلے وہ اس دنیا میں کیسے چھوڑ سکتا تھا جبکہ وعدہ تو زندگی اور موت دونوں کا تھا۔
"شش۔۔۔سب ٹھیک ہے" وہ محبّت سے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتا اسے چپ کرانے کے جتن کر رہا تھا۔
وہ کافی دیر اس کا کبھی سر سہلاتا کبھی کمر سہلاتا اسے مسلمسل ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے پتا بھی نہیں چلا تھا کہ وہ تو کب کی اس کے کندھے پر سر رکھے رکھے ہی سو گئی تھی۔۔۔۔اور یہ جان وہ مسکرایا تھا وہ اس کے اتنے قریب سکون سے سو گئی تھی۔۔۔۔
کچھ دیر پہلے سینے میں اٹھنے والی درد کی ٹیسیں ہوا ہو گئیں تھیں۔۔۔۔درد ہوتا کیا ہے اسے بھول ہی گیا تھا۔۔۔۔اس اس کے گرد ہلا بناتے خود بھی آنکھیں مندھ لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top