جو سوچا نا تھا
حیدر نجانے کتنی دیر اسی راہ کو تکتا رہا تھا جہاں سے وہ گرتی سنمبھلتی گئی تھی۔۔۔۔۔عجیب بات تھی اسے دیکھ آج حیدر کو غصّہ نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔اور ایسے دیکھ ہمدردی بھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔ہاں پر دل میں درد ہوا تھا۔۔۔۔۔حیدر کو اسے ایسے دیکھنا اچھا نہیں لگا۔۔۔۔۔زینب والیواللہ کمزور بھی ہو سکتی تھی حیدر کو علم نہیں تھا۔۔۔۔۔لیکن وہ کمزور کیوں پڑی حیدر نہیں جانتا تھا پر اتنا جانتا تھا کوئی بات تھی جو زینب کے لئے اہمیت کی حامل تھی۔۔۔۔۔اور اسے وہ جانی تھی۔
حیدر کو پتا نہیں چلا کیسے اس کے قدم پارکنگ ایریا تک گئے۔۔۔۔کیسے اس نے ڈرائیو کیا۔۔۔۔۔اور کیسے زینب کے پیچھے گیا۔۔۔۔کوئی عجیب شئے تھی۔۔۔۔یا کوئی کشش تھی جو اسے اس کی طرف کھینچ رہی تھی اور وہ کھینچا جا رہا تھا۔
رکشا ہسپتال کے باہر روکا تو زینب تیر کی سی تیزی سے رکشے سے باہر نکلی۔
"او بی بی کرایا تو دیتی جاؤ" رکشے والے نے پیچھے سے آواز لگائی تھی۔
زینب اس کی بات سن روکی تھی لیکن اس کے ہاتھ خالی تھے بیگ وہ رانیہ کے پاس ہی چھوڑ آئی تھی۔ اسے اندر جانے کی جلدی تھی زینب کو یک دم خیال آیا تھا اس نے حجاب کے اوپر سے اپنے کان پر ہاتھ لگایا تھا۔۔۔۔۔اور اس کا چہرہ اس خیال سے کچھ اور بُجھا تھا۔۔۔۔۔اس نے حجاب کے نیچے سے اپنے چھوٹے چھوٹے ٹاپس اتار رکشے والے کے آگے بڑھائے تھے۔
"یہ ارٹیفیشل چیزیں دے کر ہمیں بیوقوف نا بناؤ" اس آدمی نے بینا دیکھے ہی کہا۔
"یہ سلور گولڈ ہیں۔۔۔میرے پاس دینے کو اور کچھ نہیں ہے اور اس کی مالیت آپ کے کرائے سے زیادہ ہی ہے" زینب نے دیہمی آواز میں بتایا۔
اس آدمی نے ہاتھ آگے بڑھائے تو زینب نے وہ ٹاپس اس کی ہتھیلی پر رکھ دئے۔۔۔۔۔ٹاپس کی چمک دیکھ اس آدمی کی آنکھیں چمکیں تھیں وہ واقعی زیادہ مالیت کے نہیں تھے لیکن اس کے کرائے سے بہت زیادہ تھے۔۔۔۔۔ان ٹاپس کو ایک نظر دیکھ زینب اندر چلی گئی تھی۔۔۔۔وہ یہ دینا نہیں چاہتی تھی پر اسے دینے پڑے کیوں کہ چیزیں کبھی بھی انسانوں سے بڑھ کر نہیں ہوتی چاہے ان کی مالیت کتنی بھی کیوں نا ہو۔۔۔۔۔
ابھی رکشے والا ان ٹاپس کو پھٹی ہوئی آنکھوں سے آنکھوں میں لالچ لئے دیکھ رہا تھا جب کسی نے ان ٹاپس کو اس سے جھپٹ لیا وہ اس حملے سے بوکھلا گیا لیکن فوراً بولا۔
"ادھر دو یہ میرے ہیں"
"اوہ تمہارے ہیں۔۔۔۔۔انہیں پہن تم سگنل پر کھڑے ہوتے ہو" حیدر اپنے غصّے کو قابو کر کہہ رہا تھا۔
"اپنی حد میں رہو یہ مجھے میرے کرائے کے طور پر دئے گئے ہیں" رکشے والا بھڑک کر بولا۔
"حد میں تو تم رہو کرایا لو اور دفع ہو یہاں سے" حیدر نے اس کا کالر پکڑتے درشتگی سے کہا۔
رکشے والے نے حیدر کے تیور دیکھ اپنا گلہ تر کیا۔
حیدر نے ایک جھٹکے سے اس کا کالر چھوڑا تھا اور اپنا والٹ خالی کر اس کے منہ پر پیسے مارے تھے اور ان ٹاپس کو اپنی فرنٹ پاکٹ میں رکھ وہ چلا گیا تھا۔
یہ آدمی حیدر کی پشت کو حیرت زدہ سا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔اسے لگا شاید وہ پاگل تھا جو وہ معمولی سے ٹاپس لے گیا اور نجانے کتنے نوٹ اس پر برسا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب ریسپشن پر والیواللہ کا پوچھ بیتابی سے کوریڈور میں ان کا کمرہ تلاش کر رہی تھی۔
اسے کوریڈور کے آخری حصّے میں اورفینج کے کچھ لوگ نظر آ گئے تھے۔۔۔۔۔۔وہ خود کو مضبوط کرتی آگے بڑھی تھی۔۔۔۔چہرے پر سختی آ گئی تھی وہ سب آئی۔سی۔یو کے باہر راستہ روک کھڑے تھے۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں ایسا جنون تھا کہ اگر آج اسے والیواللہ سے ملنے سے کسی نے روکا تو وہ سب کچھ ختم کر دے گی۔۔۔۔۔ہر چیز کو ریزہ ریزہ کرنے کا جنون۔۔۔۔۔ہر حد پار کر دینے کا جنون۔۔۔۔۔۔اسے دیکھ ان سب نے خاموشی سے راستہ صاف کیا تھا۔۔۔۔۔
زینب نے آئی۔سی۔یو کے باہر لگی ونڈو سے انہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ان کا جسم کئی قسم کی تاروں سے جڑا تھا۔۔۔اؤکسیجن ماسک ان کے چہرے پر لگا تھا وہ بہت دھیمے دھیمے سانس لے رہے تھے۔۔۔۔انہیں اس حالت میں دیکھ اس سے آنسو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔۔۔گلے میں ایک گولہ اٹکا تھا۔۔۔۔وہ کمزور نہ پڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔وہ لوگوں کے سامنے خود کو کمزور ظاہر نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔۔اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا جیسے ہر غم۔۔۔۔ہر درد مٹا دینا چاہتی ہو۔
اس نے ان کی کنڈیشن کے بارے میں جانے کے لئے ڈاکٹر کے کیبن کا رخ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اینڈ دا ٹوپر اس زینب والیواللہ" اس کا نام آڈیٹوریم میں گونجا تھا۔۔۔۔۔کچھ سٹوڈنٹس اس کی کامیابی سے خوش تالیاں بجا رہے تھے تو کچھ دل پر بوجھ رکھے۔
رانیہ اور نور نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا وہ اس سب میں محو زینب کو بھول ہی گئیں تھیں۔
جس کے نام کی پکار چاروں طرف تھی وہ کہیں نہیں تھی۔ جب زینب کو بار بار پکارنے پر بھی کوئی جواب نہ آیا تو ہال میں خاموشی چھا گئی۔۔۔۔۔زینب کا نہ ہونا سب کے لئے ہی باعثِ حیرت تھا۔۔۔۔کوئی اپنی اتنی بڑی کامیابی کے دن غائب ہو سکتا تھا سمجھنا مشکل تھا۔
وہ دونوں اپنا بیگ سنمبھلتی باہر آئیں تھیں۔
"یار زینی اب تک نہیں آئی کافی دیر ہو گئی ہے" رانیہ نے باہر آتے ہی نور سے کہا تھا۔
"کہاں جائے گی یہیں کہیں ہو گی" نور نے عام سے انداز میں کہا کیوں کہ وہ رانیہ کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"لیکن بہت دیر ہو گئی ہے" رانیہ کی پریشانی کم نہیں ہوئی تھی۔
"کال آئی تھی نہ اس کے پاس کسی کی ہو سکتا ہے کہیں گئی ہو" نور نے یاد آتے اس سے کہا تھا۔
"ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔لیکن اگر وہ یہیں ہوئی تو" رانیہ نے حامی بھری لیکن اپنا خدشہ بھی ظاہر کیا۔
"تم ایسا کرو پارکنگ چیک کرو میں واشروم اور کینٹین چیک کر کے تمہیں وہیں ملوں گی۔۔۔ٹھیک ہے" نور نے ھدایت دی اور حامی چاہی۔
"ٹھیک ہے" رانیہ کہتے ہی تیز تیز پارکنگ کی طرف بڑھنے لگی۔
رانیہ پارکنگ میں زینب کی گاڑی ڈھونڈھ رہی تھی جو اسے مل گئی تھی۔۔۔۔۔وہ اس کے آگے کھڑے دعا کر رہی تھی کے زینی نور کو مل جائے۔
"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں" احمر اس کی پشت پے کھڑا مسکراتا ہوا پوچھ رہا تھا۔رانیہ کا اترا ہوا چہرہ دیکھ اس کی مسکراہٹ معدوم ہوئی تھی۔
"سب ٹھیک ہے؟" اس نے فکر سے پوچھا۔
"وہ۔۔۔۔وہ زینی نہیں مل رہی" وہ بھرائی ہوئی آواز میں معصومیت سے بولی تھی۔
اس انداز پے احمر کے لبوں کے کنارے پر ایک مسکان آئی تھی جسے اس نے چھپا لیا۔
"کوئی بات نہیں مل جائیں گیں اس میں کون سی بڑی بات ہے" وہ اسے بہلا رہا تھا۔
"آپ کو تو کوئی بات بڑی لگتی ہی نہیں ہے" رانیہ نے کہتے ساتھ رخ پھیرا تھا۔
احمر کے کچھ کہنے سے پہلے نور رانیہ کی طرف بڑھی تھی۔
"ملی؟" رانیہ نے امید سے پوچھا نور نے نفی میں سر ہلایا۔
تب ہی حاشر اور علی دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئے اور علی نے احمر سے سوال کیا۔
"حیدر کہاں ہے؟"
"اندر ہی ہو گا۔۔۔۔میں تو ابھی باہر سے آ رہا ہوں مجھے نہیں پتا" احمر نے عام سے انداز میں بتایا۔
رانیہ کے کان کھڑے ہوئے تھے اس نے احمر کی طرح رخ کئے کہا۔
"کہیں وہ تو زینی کو نہیں لے گئے کہیں؟"
"تم لوگوں نے ٹھیک کہا میں نے جو کچھ کیا غلط تھا لیکن جو آج اس نے کیا وہ ٹھیک نہیں تھا۔۔۔۔جو بھی تھا میں زبان سے بات کر رہا تھا اس نے ہاتھ اٹھا کے ٹھیک نہیں کیا اور اس کا حساب اسے دینا ہو گا۔۔۔۔ایک دن"
یہ الفاظ احمر کے ذہن میں ہوا کے جھونکے کی طرح گزرے تھے اس نے علی اور حاشر کی جانب دیکھا ان کی آنکھوں میں اس نے وہی کچھ پایا جس کا خدشہ اسے خود تھا۔۔۔۔حیدر کا یہ جملہ اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا۔۔۔حیدر کا پاکستان آنا۔۔۔اس کا بینا کوئی اعتراض کئے یونیورسٹی تک آ جانا۔۔۔اور اب ان دونوں کا ایک ساتھ غائب ہو جانا۔
"رانی۔۔۔۔ہم ایسے تو نہیں کہہ سکتے نہ۔۔۔۔ہو سکتا ہے وہ آفس گئی ہو یا گھر۔۔۔یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ والی بابا کے پاس گئی ہو" نور نے آنکھوں کے اشارے سے رانی کو سمجھایا۔۔۔آخر کو وہ تینوں اس کے دوست تھے اور رانیہ کچھ بھی سوچے سمجھے کہہ گئی تھی۔
"تم دونوں حیدر کو ڈھونڈو میں ان کے ساتھ زینب کو ڈھونڈھتا ہوں" احمر بے حد سنجیدہ لگ رہا تھا۔
"ٹھیک ہے" وہ تائید کرتے آگے بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر کوریڈور سے تیزی سے گرزتا زینب کو ڈھونڈھ رہا تھا۔۔۔۔اس کے قدم آگے جاتے جاتے پیچھے ہوئے تھے اسے وہ دیکھ گئی تھی۔۔۔۔جو مرے ہوئے قدم لئے نظریں نیچے جھکائے کسی ہارے ہوئے مسافر کی مانند اس کے سامنے سے گزری تھی۔۔۔۔۔اس پل میں حیدر کے دل کی دھڑکن اور سانس دونوں ہی تھمی تھی۔۔۔۔
وہ ایک کمرے کا دروازہ کھول اندر گئی تھی جہاں مشینوں کی آوازوں کے علاوہ ایک ادھ مارا وجود تھا جس کی سانسوں کی تمنا زینب کو دنیا میں موجود ہر شئے سے زیادہ تھی۔۔۔۔وہ ڈاکٹر سے مل آئی تھی جس کے پاس امید بہت کم تھی کیوں کہ ہارٹ اٹیک کے بعد سے ہی وہ ہوش میں نہیں آئے تھے۔۔۔۔زینب کی آنکھوں میں آنسو کا سمندر اتر آیا تھا وہ والیواللہ کے بیڈ کے پاس رکھی چیئر پر بیٹھی۔ ان کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ان پر بوسہ لیا اور ایک ایک کر اپنی دونوں آنکھوں کو ان کے ہاتھ پر رکھا۔۔۔۔۔اس لمحے کی دیر تھی آنسو چھم چھم اس کی آنکھوں سے برسنے لگے۔۔۔۔۔۔کمرے کے باہر کھڑے۔۔۔۔ونڈو سے زینب کو دیکھتے۔۔۔۔حیدر کا وجود ساکت ہوا تھا۔۔۔۔
"بابا۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔با۔۔۔۔با" وہ بھرائی ہوئی آواز میں وقفے وقفے سے انہیں پکار رہی تھی۔۔۔۔۔لیکن والیواللہ آج اس کی پکار کا جواب دینے سے قاصر تھے۔
"بابا۔۔۔۔۔بابا سن لیں نہ۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ایک۔۔۔۔و۔۔۔عدہ۔۔۔توڑ۔۔۔نے۔۔کی۔۔۔۔اتنی بڑی سزا نہ۔۔۔۔دیں مجھے۔۔۔۔۔میں برداشت۔۔۔۔نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔آپ۔۔۔۔جیسا۔۔۔۔کہیں گے۔۔۔۔۔ویسا ہی کروں۔۔۔۔گی۔۔۔آپ جہاں۔۔۔۔کہیں گے۔۔۔۔۔میں وہیں شادی۔۔۔۔۔کر۔۔۔۔لوں گی۔۔۔۔پلیز بابا۔۔۔۔۔جہاں تک پہنچے۔۔۔۔ہیں۔۔۔وہیں سے وا۔۔۔پس۔۔۔۔آ۔۔۔۔جائیں۔۔۔۔۔ورنہ آپ کی۔۔۔۔زینی۔۔۔۔ٹوٹ جائے گی۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔بابا۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔میرے۔۔۔۔پاس۔۔۔۔کوئی۔۔۔نہیں۔۔۔۔کوئی۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ہے۔۔۔۔کوئی۔۔۔بھی۔۔۔نہیں۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔خود۔۔۔۔کو۔۔۔مجھ۔۔۔سے دو۔۔۔ر۔۔۔نہ کریں۔۔۔میں۔۔۔۔میں۔۔۔۔ہمت۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔رکھتی۔۔۔۔آپ۔۔۔کو۔۔۔۔" وہ بامشکل ہچکیاں لیتے بول پا رہی تھی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخری فقرہ کہتے وہ والیواللہ کے ہاتھ پر سر رکھے روتی چلی گئی۔
زینب کو اس طرح روتے دیکھ حیدر کے سامنے کا منظر دھندہلایا تھا۔۔۔اس نے میکانکی انداز میں اس دھند کو ہٹانے کے لئے آنکھوں پے ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔آنسو اس کی مظبوط ہتھیلی پر چمک رہے تھے۔۔۔۔یہ دیکھ وہ کچھ اور ساکت ہوا۔۔۔۔وہ کب کسی کے غم میں ایسے شریک ہوا تھا کہ غمزدہ کو ہی علم نہ تھا۔۔۔۔اور کب رویا تھا یوں۔۔۔۔وہ کیوں رویا تھا۔۔۔۔اور کس کے لئے رویا تھا۔۔۔۔۔۔سوال بہت تھے جواب نہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم اچانک ہی خراب ہو گیا بادلوں نے سورج کو اپنے آنچل سے ڈھانپ لیا تھا۔ دن یک دم ہی شام میں تبدیل ہو گیا۔
کالے گہرے بادل آسمان پر چھائے ہوئے تھے اور پورے زوروشور سے برس رہے تھے اور اس تیز بارش میں احمر رانیہ اور نور کے ساتھ زینب کی تلاش میں تھا۔
احمر نور اور رانیہ کو لئے زینب کے گھر اور آفس میں اسے ڈھونڈھ آیا تھا اور اب وہ یتیم خانے کی طرف گامزمان تھے۔
نور اور رانیہ وقفے وقفے سے زینب کو کال کر رہیں تھیں لیکن زینب کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا جو ان کی پریشانی کو مزید بڑھا رہا تھا۔
یتیم خانے کے باہر ان کی گاڑی رکی تھی رانیہ نے باہر نکلنے کے لئے سیٹ بیلٹ ہٹا کر اندر جانا چاہا کہ احمر نے اس کا ہاتھ پکڑ روک لیا۔
"یہیں بٹھیں رہیں میں دیکھ کر آتا ہوں" وہ نرمی مگر سنجیدگی سے بولا تھا۔
"میں بھی ساتھ چلوں گی" اس نے ضد کی۔
"بارش ہو رہی ہے آپ بھیگ گیں تو طبیعت خراب ہو جائے گی اور میں یہ میں قطعی افورڈ نہیں کر سکتا" احمر کے لہجے میں اب کے سختی در آئی تھی۔
"میں بھی نہیں افورڈ کر سکتی آپ کی طبیعت خراب ہونا" وہ اپنی ترنگ میں کہتی چلی گئی۔
"میرے مطلب تھا کہ" اپنے لفظوں کا مطلب سمجھ اس نے کہنا شروع کیا ہی تھا جب احمر نے اس کی بات بیچ میں ہی اچک لی۔
"میں سمجھتا ہوں آپ کی ہر بات کا مطلب" احمر نے مسکراتے ہوئے کہا اور سیٹ بیلٹ ہٹاتا گاڑی سے باہر نکل گیا۔
احمر کے جاتے ہی نور نے رانیہ کو معنیٰ خیزی سے دیکھا رانیہ نے لال گال لئے رخ کھڑکی کی جانب کیا جہاں سے احمر کو صاف دیکھا جا سکتا تھا وہ خود کو بارش سے بچاتا خان بابا کے پاس پہنچا تھا۔ رانیہ کو ایک بار پھر زینب کی فکر ستانے لگی۔
"السلام عليكم خان بابا" احمر نے مصاحفہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا۔
"وعلیکم السلام آپ کون" انہوں نے ماتھے پر بل لئے پوچھا تھا۔
"میں والیواللہ کا داماد رانیہ کا ہسبینڈ" احمر نے اپنا تعارف کرایا تو خان بابا کے چہرے پر بڑی سی مسکان سج گئی۔
"آئیں اندر آئیں" خان بابا خوشی سے احمر کو اندر لے جانے لگے۔
"نہیں میں جلدی میں ہوں آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ زینب یہاں آئیں تھیں کیا آج" احمر نے انہیں روک کے پوچھا تھا۔
خان بابا کی مسکراہٹ کو غائب ہونے میں ایک پل بھی نہ لگا تھا۔
"میں نے آج فون کیا تھا زینی بی بی کو کیوں کہ کل رات سے والیواللہ صاحب ہسپتال میں ہیں ان کو کل ہارٹ اٹیک آیا تھا" وہ روتے ہوئے بتا رہے تھے۔
"آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا انشااللہ" اسنے ان کا کندھا تھپتاپتے کہا۔
احمر نے ان سے ہسپتال کا اڈریس پوچھا تھا اور ان سے ایک بار پھر مصاحفہ کرتے کار کی جانب بڑھا تھا اب کے اس کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
احمر کو سنجیدگی سے کار سٹارٹ کرتے دیکھ رانیہ کو تشویش ہوئی تھی۔
"کیا ہوا کچھ پتا چلا کیا بتایا خان بابا نے" وہ ایک کے بعد ایک سوال کر رہی تھی اور احمر بینا کوئی جواب دئے گاڑی چلا رہا تھا۔
"کچھ تو بتائیں کیا ہوا ہے" اس نے ایک بار پھر پوچھا۔
"زینب کا پتا چل گیا ہے" احمر نے صرف اتنا ہی بتایا تھا۔
اس سے پہلے رانیہ کچھ اور پوچھتی وہ قطعیت سے بولا تھا۔
"ایک سوال اور نہیں"
رانیہ کو ناچار چپ ہونا پڑا وہ اس پر خوش تھی کہ زینب کا پتا چل گیا تھا۔
کچھ ہی دیر میں کار ہسپتال کے باہر رکی تھی رانیہ اور نور نے حیرت سے احمر کو دیکھا تھا۔
"ہم یہاں کیوں آئیں ہیں احمر بھائی" اب کے سوال نور کی طرف سے آیا تھا۔
"والی بابا کو ہارٹ اٹیک آیا تھا کل رات زینب اندر ہی ہوں گیں" احمر جواب نور کو دے رہا تھا لیکن آنکھیں رانیہ کی آنکھوں پر جامی تھیں۔
"آپ دونوں دوست ہیں زینب کی اس وقت انہیں سب سے زیادہ آپ کی ضرورت ہے آپ کو اس کا حوصلہ بڑھانا نہ کے خود کمزور پڑنا ہے زینب پر مشکل وقت آیا ہے لیکن آپ دونوں ساتھ ہوں گی تو یہ مشکل بھی آسان ہو جائے گی" احمر نے اب بھی اپنی نظروں کا زاویہ نہیں بدلا تھا۔ وہ رانیہ کو کمزور نہیں پڑنے دے رہا تھا۔
رانیہ نے اپنے آنسو صاف کر اثبات میں گردن ہلائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر ایک بار پھر سب کچھ بھلائے اسے دیکھ رہا تھا جب اس کی سماعتوں سے آواز ٹکرائی اور وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔
"آپ دونوں چلیں میں کال اٹینڈ کر کے آتا ہوں" وہ احمر کی آواز تھی جو نور اور رانیہ سے کہتا ایک طرف چلا گیا تھا۔
حیدر نے پیچھے مڑ کن انکھیوں سے انہیں دیکھا تھا اور ان کے چہرے دیکھ وہ بچتا بچاتا ہسپتال میں ہی ایک جگہ بیٹھ گیا تھا۔
وہ اب بھی نظروں کے سامنے تھی وہ خود کو وہاں سے لے آیا تھا پر کیا تھا وہ وہاں بھی ساتھ آ گئی تھی۔
اس نے کھوئے ہوئے انداز میں اپنی پاکٹ سے موبائل نکالا تھا جہاں علی احمر حاشر کی ڈھیروں مس کالز اپنا نوٹیفکیشن دے رہی تھیں پر حیدر کو تو اس سکرین پر بھی وہی سب نظر آ رہا تھا جو کچھ پل پہلے وہ دیکھ چکا تھا یا یوں کہیں محسوس کر چکا تھا وہ بلکل ایک الگ دنیا میں تھا ایک ایسی دنیا جہاں وہ اِس دنیا میں رہ کر بھی اُس دنیا میں تھا جہاں اسے خود ہی خود کی خبر نہیں تھی۔
ایک بار پھر اس کا موبائل بجا تھا اس نے بینا کچھ سوچے سمجھے کال اٹینڈ کی تھی کال علی کی تھی جس نے حیدر کے فون اٹھاتے ہی غصّے سے سوال کیا تھا۔
"کہاں ہو تم؟"
"پتا نہیں" وہی کھویا ہوا لہجہ۔
"کیا مطلب پتا نہیں گھر پہنچو جلدی سب پریشان ہیں تم بغیر کوئی خبر دئے غائب ہو گئے" اس کا غصّہ کچھ اور بڑھا تھا۔
"ایک ایمرجنسی آ گئی ہے ٹائم ملا تو آ جاؤں گا تم سب بے فکر ہو جاؤ" حیدر نے مظبوط لہجے میں کہا اور اگلے ہی پل لائن ڈسکنیکٹ کر دی۔
علی بس موبائل کو گھور کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زینی" رانیہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ اسے پکارا تھا۔
زینب انہیں اندر آتا دیکھ چکی تھی اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے اپنے غم کو آج پھر چھپا رہی تھی۔
"زینی" نور نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔
"کچھ دیر کے لئے مجھے اکیلا چھوڑ دو" وہ سپاٹ لہجے میں بولی تھی۔
"ہم کہیں نہیں جا رہے" رانیہ نے اس کے گرد اپنا حصار بنایا تو نور نے بھی اپنی باہیں اس پر پھیلا دیں۔ وہ کافی دیر ایسے ہی بیٹھی رہیں اور پھر الگ ہوئیں۔۔۔زینب اپنا چہرہ صاف کر چکی تھی لیکن آنکھوں کی سرخی وہ چاہ کر بھی چھپا نہ پائی۔
وہ پورا دن زینب کے ساتھ رہیں تھیں کبھی اسے حوصلہ دیتیں تو کبھی اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتیں کبھی اسے کچھ کھلانے کی کوشش کرتیں تو کبھی پلانے کی زینب نے بمشکل پانی کے چند قطرے حلق سے اتارے تھے۔
دن ڈھالا تو زینب نے انہیں زبردستی گھر بھیجا کیوں کہ نور کی دادو کی طبیعت اور رانیہ کی والدہ کی طبیعت دونوں سے ہی زینب واقف تھی اور انہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔ نہ نہ کر کے بھی ان دونوں کو وہاں سے جانا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا آخری پہر چل رہا تھا چاروں سون اندھیرا اور سناٹا طاری تھا۔ وہ اس اندھیرے میں اپنی دونوں کونیاں گھٹنوں پر رکھے َبینچ پر بیٹھا آنکھیں سبزے پر جمائے تھا۔
اسے پتا ہی نہ چلا وہ کب سے یہاں تھا۔ بیٹھے بیٹھے اس کی کمر اکڑ گئی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا ایک بار پھر ہسپتال کے اندر داخل ہوا تھا اس کے قدم خود بخود ایک کوریڈور سے دوسرے کوریڈور کی جانب بڑھ رہے تھے اور پھر وہ روکے تھے۔۔۔۔۔وہ اپنی پرانی جگہ پر کھڑا ایک بار پھر کمرے کے اندر کا منظر دیکھ رہا تھا۔
زینب ایک طرف مصحلے پر بیٹھی ہاتھ جوڑے اللہ سے فریاد کر رہی تھی۔ آنکھیں زور سے بینچین تھیں آنسو آبشار کی صورت اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے چہرہ بری طرح سرخ ہو رہا تھا۔ ہونٹ کنپکپا رہے تھے۔ وہ سجدے میں گرتی چلی گئی تھی۔
حیدر سے یہاں کھڑے رہنا مشکل ہو رہا تھا زینب کی اُکھڑی سانس اور ہچکیاں اس کے دل کی دھڑکن کو بڑھا رہیں تھیں۔ وہ اپنی دھڑکن کو نارمل کرنے باہر رکھی ایک بینچ پر بیٹھ گیا تھا جب اسے زینب کے چیخنے کی آواز آئی حیدر ایک جھٹکے سے اٹھا تھا وہ والیواللہ پر جھکی انہیں ہلا رہی تھی اور روتے ہوئے ڈاکٹر کو آواز لگا رہی تھی۔
حیدر بھاگتا ہوا ڈاکٹر کو بلا کر لایا تھا لیکن خود باہر ہی کھڑا رہا تھا۔
مشین پر چلتی والیواللہ کی سانسوں نے حرکت بند کر دی تھی اب وہاں ایک سیدھی لکیر تھی جو موت کی گواہ تھی۔
"ہی از نو مور" ڈاکٹر نے اس کے کان میں سور پھونکا تھا۔
وہ بے یقینی سے پھٹی ہوئی آنکھوں سے کبھی والیواللہ کو تو کبھی اس مشین کو دیکھ رہی تھی آنسو پوری تیزی سے بہہ رہے تھے پر اسے خبر نہیں تھی وہ تو جیسے اپنی جگہ منجمند ہو گئی تھی۔ اس کا دماغ سن ہو گیا تھا۔ اس میں اب طاقت نہیں رہی تھی اس کی آنکھوں پر منوں بوجھ پڑا تھا دل پر خنجر سا چل گیا تھا۔ اسے لگا اب وہ بھی ختم ہو جائے گی اس کی ٹانگوں نے اس کا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔وہ لہرا کے گرتی اس سے پہلے حیدر نے اسے اپنی گرفت میں لیا تھا۔ زینب کا سر اس کے کندھے پر رکھا تھا وہ گری نہیں تھی حیدر نے اسے سنمبھال لیا تھا ۔ حیدر نے اسے احتیاط سے کرسی پر بٹھایا اس کے ڈھلکتے سر کو اپنے ہاتھ سے سہارا دیا وہ بے حد پریشان نظر آ رہا تھا۔
"چیک ہر ناؤ" اس نے چیختے ہوئے ڈاکٹر کو حکم دیا تھا۔
"پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے بے ہوش ہو گئیں ہیں یہ اور انہیں ویکنس بھی بہت ہو گئی ہے شاید انہوں نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے میں میڈیسن لکھ دیتا ہوں ہوش میں آنے پر کھانے کے بعد کھلا دیجیے گا" ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد پیشوارانہ انداز میں کہا۔
" ڈرپ لگا دیں" اس نے کچھ سوچ کے کہا تھا۔
ڈاکٹر اثبات میں سر ہلاتا چلا گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں زینب کو دوسرے روم میں شفٹ کر کے ڈرپ لگائی گئی تھی۔ حیدر نے اسے دیکھتے مطمئن ہو کے یتیم خانے میں والیواللہ کے انتقال کی خبر دی تھی اور ساتھ رانیہ کا نمبر بھی لینے کی کوشش کی کیوں کہ اس وقت زینب کے ساتھ کسی کو ہونا چاہیے تھا اور پہلا نام حیدر کے ذہن میں رانیہ کا ہی آیا تھا لیکن رانیہ کا نمبر مانگنے پر کسی عورت نے بدتمیزی سے اسے جواب دیتے حیدر کے ردعمل سے پہلے ہی فون کو بری طرح پٹخ دیا تھا۔
حیدر کا خون کھولا تھا موبائل پر اس کی گرفت سخت تر ہوئی تھی اور وہ غصّے سے اپنی گاڑی میں آ بیٹھا تھا۔
گاڑی کو ہوا میں اڑاتے وہ یتیم خانے آیا تھا جہاں اسے گیٹ پر ہی خان بابا ملے تھے۔ اس نے ان سے رانیہ کا نمبر منگا تھا، رانیہ کا نمبر تو نہ ملا البتہ اس کے بھائی کا مل گیا تھا۔
حیدر نے نمبر ڈائل کر فون کان سے لگایا تھا۔
"السلام عليكم" انس احسن کی آواز فون کے سپیکر سے گونجی تھی۔
"وعلیکم السلام۔۔۔آپ رانیہ کے بھائی بات کر رہے ہیں؟" اس نے سلامتی دیتے سوال کیا تھا۔
"جی لیکن آپ کون بات کر رہے ہیں" انس احسن نے فکر سے پوچھا تھا۔
"والیواللہ صاحب کا انتقال ہو گیا ہے زینب ہسپتال میں اکیلی ہے ہو سکے تو رانیہ کو بھیج دیں" حیدر نے اس کے سوال کو نظر انداز کر اپنی بات کہی تھی۔
"کیا ! !" انس احسن کے لہجے میں بے یقینی واضح محسوس کی جا سکتی تھی۔ انس احسن کا پیر یک دم بریک پر پڑا تھا گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔
حیدر نے کوئی بھی جواب دئیے بغیر کال منطقہ کر دی۔
انس احسن آج آفس سے ہی اسلام آباد کے لئے بزنس کے سلسلے میں بائ روڈ نکل گئے تھے اسی لئے انہیں والیواللہ کی طبیعت کے متعلق کچھ نہیں پتا تھا نہ ہی رانیہ نے انہیں کچھ بتایا تھا۔
انس احسن نے گاڑی کو ریورس کر کراچی کی راہ لی تھی۔ زینب اکیلی تھی اور انہیں اس تک پہنچنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ASALAMUALIKUM readers....kese hain ap sb.....socha tha epi lengthy don gi or saturday ko pr ab iradah badl gaya hai....janti hon epi short hai pr kamaaal ka bhi tu hai na....or phr wada raha next epi jldi kldi likhon gi or jhat se upload kr don gi....
ALLAH HAFIZ
WRITER:
NIMRA ISRAR
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top