جُدا ہوئے راستے
تجھ سے ہے جُدا اب میرے راستے
مل جائیں اگر تو رکھنا فاصلے
یہ سب ڈین کے آفس کے باہر کچھ فاصلے پر کھڑے زینب اور حیدر کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے جنہیں کچھ دیر پہلے ہی سر رضا یہاں لے کر آئے تھے۔
یہ عمارت قدیم طرز پر بنی تھی داخلی دروازہ محراب کی صورت میں بنا تھا اور دیواریں لال اینٹوں سے بنی تھی اور ساتھ ہی رہداری کے دائیں اور بائیں جانب سیمنٹ کی لال ہی رنگ کی بنچیز بھی بنی تھیں۔
رانیہ کے آنسوں تھے یا کوئی سیلاب تھا جو روکنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور احمر کی حالت ایسی تھی کہ رانیہ اگر کچھ دیر اور روتی تو یا تو وہ تھپڑ لگا دیتا یا خود بھی رونا شروع کر دیتا۔
نور رانیہ کو چپ کرانے کی اپنی سی کوشش کر رہی تھی لیکن رانیہ نے تو شاید نا چپ ہونے کی قسم کھا رکھی تھی۔
نور احمر کے اشارے پے اٹھی اور علی اور حاشر کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔
احمر نے رانیہ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر اس کی جانب پانی کی بوتل بڑھائی۔
"رانیہ پلیز چپ ہو جائیں اور پانی پئیں شاباش" احمر نے رانیہ کو بچوں کی طرح بہلایا۔
"اندر کیا ہو رہا ہو گا" نور نے پریشانی سے علی سے پوچھا۔
"کم سے کم ڈانٹ رہے ہوں گے دونوں کو" علی نے سکون سے بتایا۔
"اور زیادہ سے زیادہ" نور نے ڈرتے ڈرتے ایک بار پھر پوچھا۔
"زیادہ سے زیادہ اکسپیل کر رہے ہوں گے" علی کا اطمینان برقرار تھا۔
"کیا!!! "نور نے حیرت سے کہا۔
علی نے اثبات میں سر ہلایا۔
اور یہ سن کر رانیہ کے آنسوؤں میں اور روانی آ گئی
جس پر احمر نے سامنے دیکھ کر علی سے کہا۔
"تم چپ نہیں ہو سکتے"
"میرے چپ ہونے سے کیا ہوتا ہے جنہیں چپ ہونا چاہیے تھا وہ تو ہوئے نہیں" علی نے لاپرواہی سے کہا۔
"ہاں دونوں میں سے اگر کوئی ایک چپ ہو جاتا تو بات اتنی نہ بڑھتی" احمر نے زندگی میں پہلی بار علی سے متفق ہو کے کہا یہ جانے بغیر کہ یہ اسے کتنا بھاری پڑنے والا تھا۔
"کیا مطلب ہے آپ کے کہنے کا۔۔۔۔زینی کو چپ ہو جانا چاہیے تھا مطلب ہر دفع لڑکی ہی چپ ہو اور بات زینی نے نہیں آپ کے عظیم دوست نے بڑھائی ہے" احمر کی بات پر رانیہ کو غصّہ ہی چڑھ گیا تھا اپنے آنسوؤں کو بالائے طاق رکھ کے کھڑی ہوئی اور کہا۔
"میرا وہ مطلب نہیں تھا" احمر نے صفائی دینی چاہی۔
"اب آپ یہ بھی کہہ دیں کہ یہ مطلب بھی میں نے خود ہی اخذ کر لیا ہے۔۔۔۔اور آپ خود بتائیں اگر میں آپ کی اتنی تذلیل کروں آپ کے منہ پر پیسے ماروں وہ بھی اتنے مجمعے میں تو آپ کو کیسا لگے گا" رانیہ کی دوست زینی پر بات آئی تھی وہ کہاں چپ ہونے والی تھی۔
علی ان دونوں کی لڑائی دیکھ اپنی ہنسی دبا رہا تھا اور رانیہ کی پیسے منہ پر مرنے والی بات پر علی نے حاشر کے کان کی اُور جھک کے کہا۔
"اس پر اب یہ اینٹ بھی مارے گی تو یہ خوشی خوشی کھا لے گا"
علی کی بات پر اتنی ٹینشن ہونے کے باوجود حاشر بھی مسکرا دیا۔
"یو نو واٹ۔۔۔۔آپ بھی اپنے دوست ہی کی طرح ہیں بدتمیز بداخلاق بد لحاظ۔۔۔۔آپ چاہتے تو ان کو روک سکتے تھے لیکن آپ نے نہیں روکا" رانیہ بات کو حیدر سے احمر پر لے آئی تھی۔
"تو آپ روک لیتیں زینب کو" احمر کو اپنی شان میں یہ خوبیاں بلکل نہیں بھائیں تھیں اسی لئے کہا۔
"میں کیوں روکتی۔۔۔۔۔۔۔۔ زینی نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا اور آپ کا دوست یہی ڈیزرو کرتا ہے" رانیہ نے غصّے سے کہا۔
"کیا ہوگیا ہے رانی ابھی ان دونوں کی لڑائیاں ختم نہیں ہو رہیں یہاں آپ دونوں نے بھی لڑنا شروع کر دیا ہے" نور نے رانیہ سے کہا۔
رانیہ خفگی سے نور کا ہاتھ پکڑ کر محراب کے قریب دائیں جانب کھڑی ہو گئی جب کے احمر علی اور حاشر کے ساتھ بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔
احمر کا موڈ اتنی سنے کے بعد خراب ہو گیا تھا اس نے ہاتھ میں پکڑی بوتل سے پانی کے چند گھونٹ پئے۔
"حیدر نے تیری بنی بنائی لائن خراب کر دی" علی نے بمشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے رانیہ پر چوٹ کر کے کہا۔
"کمینے یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے" احمر نے کہا اور ہاتھ میں پکڑی بوتل جس پر کیپ موجود نہیں تھا کھینچ کے علی پر پھیکی پر افسوس اس کی زرد میں حاشر آ گیا کیوں کہ علی احمر کا ارادہ بھانپ کر سامنے سے ہٹ گیا تھا اور اب حاشر کے پانی سے بھیگے چہرے کو دیکھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھے اپنی امڈ آنے والی ہنسی کو روکنے کے چکر میں لالم لال ہو رہا تھا کیوں کہ حاشر کے آگے کے سارے بالوں نے اس کی آنکھوں کو ڈھانپ دیا تھا۔
حاشر نے اپنے بال پیچھے کئے ٹھنڈا ٹھنڈا پانی گندمی چہرے پر پڑنے کی وجہ سے اب سرخ ہو رہا تھا۔ حاشر نے غصّے سے ہونٹ بینچے اور علی کی طرف دیکھا۔ علی نے فوراً کہا۔
"میں نے تو کچھ نہیں کیا پانی اس نے پھیکا ہے" علی نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور احمر پر سارا الزام ڈالا۔
حاشر نے مستقبل میں بدلا لینا کا تہیہ کیا اور اپنے گیلے بالوں کو ہاتھوں سے ہی سیٹ کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سر رضا اور یونیورسٹی کا باقی اسٹاف گراؤنڈ میں آیا تو کچھ مناظر وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے ان دونوں کو اپنے ساتھ لا کے ڈین کے آفس میں بیٹھایا جو غصّے سے لب بینچے ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھے تھے اور انہیں دیکھ رہے تھے جو اب ایسے بیٹھے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو ان دونوں نے ہی اپنے اوپر قابو پا لیا تھا۔
"آپ دونوں نے یہ سب کیا لگا رکھا ہے اتنی بڑی یونیورسٹی کا حصّہ ہو کر آپ اس طرح سے بی ہیو کر رہے ہیں آپ بچے نہیں ہیں کہ ہم آپ کو پکڑ پکڑ کر سمجھائیں گے اور نہ یہ ہماری زمیداری ہے کہ ہم آپ کو آپ کی ایج کے اس حصّے میں مینرز سیکھائیں گے۔۔۔۔آپ ماشاءالله بیچھلر اور ماسٹر کے بہت ہی قابل سٹوڈنٹس ہیں۔۔۔۔لیکن مجھے لگتا ہے آپ اپنی قابلیت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں ہمیں آپ کی قابلیت کا جتنا لحاظ کرنا تھا ہم کر چکے ہیں اب اگر آپ دونوں کا روائیہ یہی رہا تو ہم وہی کریں گے جو ایک یونیورسٹی کو اس صورتحال میں کرنا چاہیے۔۔۔۔۔میری طرف سے یہ پہلی وارننگ ہے آپ کو اور اسی کو ہی آخری بھی سمجھیں کیوں کہ اس کے بعد اگر آپ کو لڑنا مرنا ہو تو یونیورسٹی کے باہر یہ تماشے کئے گا" ڈین جب بولیں پر آئے تو اپنے سخت لہجے میں بولتے چلے گئے۔
وہ دونوں بیٹھے چپ چاپ ان کی بات سن رہے تھے اور ان دونوں کے ہی ڈین کی بات سو فیصد میں سے جو سمجھ آئی تھی وہ صفر فیصد بھی نہیں تھی۔ ان کے دماغوں میں بس آج ہوا سب گردش کر رہا تھا اور وہ خود پر ضبط کئے ڈین کو سن رہے تھے۔
"امید کرتا ہوں بات سمجھ آ گئی ہو گی اور اگر نہیں آئی تو میں صرف افسوس ہی کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔اب آپ دونوں جا سکتے ہیں" ڈین نے ایک بار پھر کہا اور ساتھ ہی انہیں جانے کا حکم بھی سنایا۔
وہ دونوں ہی یک دم اٹھے تھے دروازے کی جانب بڑھے ایک پل کے لئے دونوں کی نظریں ٹکرائیں اور انکے نقوش ایک دوسرے کو دیکھتے ہی تن گئے تھے۔ پھر زینب نے دروازہ وا کیا اور باہر نکل گئی حیدر نے بھی غصّے سے دروازہ کھولا اور بے دیھانی میں دروازہ زور سے بند کیا۔
وہ دونوں کبھی ساتھ نہیں چل سکتے تھے دو قدم بھی نہیں حیدر نے جہاں اپنا رخ بائیں جانب کیا تھا وہیں زینب بھی دائیں جانب کی طرف بغیر پیچھے دیکھے آگے بڑھ گئی تھی اور ان دونوں کے ہی دوست ان کے پیچھے لپکے تھے۔
پیچھے سر رضا اور ڈین تاسف سے سر جھٹک کر رہ گئے کچھ دیر کے واقفے کے بعد ڈین نے گالا کھنکار کے کہنا شروع کیا۔
"ان دونوں کے والدین کو کال کر کے بولائیں ہمیں اب ان سے بات کرنی ہوگی"
"سر زینب کے ایڈمشن فارم میں فادر کا نام موجود نہیں ہے البتہ گارڈین میں انہوں نے اپنا ہی نام لکھا ہے جب کے حیدر کے والد سے بات کی جاسکتی ہے" سر رضا نے انہیں تفصیل سے بتایا۔
"آپ حیدر کے والد کو کال کر کے بلا لیں۔۔۔۔اس مسلے کا اب ایک ہی حل ہے" ڈین نے پرسوچ انداز میں کہا۔
"وہ کیا سر" سر رضا نے پوچھا۔
"ان دونوں کا ایک ساتھ ایک ہی جگہ رہنا نہ ان کے کیریئر کے لئے ٹھیک ہے اور نہ ہی ہمارے لئے۔۔۔۔فلحال یہی لگ رہا ہے کہ انہیں اپنے کیریئر عزیز نہیں ہیں لیکن ہم یونیورسٹی کی ساخت کو تباہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔آپ اسٹار گروپ اوف انڈسٹریز سے آئی کنٹریکٹ فائل انہیں واپس بھیج دیں اور اپنی کچھ کنڈیشنز ان کے سامنے رکھیں۔۔۔۔۔مجھے پوری امید ہے کہ وہ ہماری کنڈیشنز کو قبول کر لیں گے" ڈین نے سر رضا کو ھدایت دیں۔
"سر کیسی کنڈیشنز" سر رضا نے الجھ کے پوچھا۔
"یہی کہ وہ ہمارے سٹوڈنٹ کی آگے کی پڑھائی نہ صرف مکمل کرائیں گے بلکہ اس کا خرچہ بھی خود اٹھیں گے اور ساتھ ہی ان کی رہائش کا اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کریں گے" ڈین نے کنڈیشنز سر رضا کے سامنے رکھیں۔
"اوکے سر میں حیدر کے والد اور اسٹار گروپ اوف انڈسٹریز سے بات کر کے آپ کو بتاتا ہوں" سر رضا کہہ کر چلے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے نامور بزنس مین عباس صاحب سیاہ ٹو پیس سوٹ سیاہ ہی برانڈڈ جوتے ہاتھ میں مہنگی ترین ریسٹ واچ پہنے اپنی روعبدار پرسنلیٹی کے ساتھ اس وقت ڈین کے آفس میں بیٹھے تھے جنہیں ارجنٹ کال کر کے بلایا گیا تھا اور عبّاس صاحب اپنی ایک بہت اہم میٹنگ چھوڑ کے زندگی میں پہلی بار حیدر کی کسی شکایت کی وجہ سے آئے تھے انھیں جتنی حیرت ہو رہی تھی کم تھی کیوں کہ حیدر کبھی بھی کسی سے جھگڑا نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اسے کسی کے معملات میں پڑنے میں دلچسپی تھی لیکن اب وہ یہ سب کر رہا تھا اور کیوں کر رہا تھا وہ اس سے لاعلم تھے۔
"آپ کو سر رضا نے بتا تو دیا ہو گا معافی چاہتا ہوں آپ کو یہاں آنے کی تکلیف دی لیکن پانی سر سے اوپر پہنچ جائے اس سے بہتر ہے ہم اس کا کوئی مناسب حل نکال لیں" ڈین نے عبّاس صاحب سے مصاحفہ کے بعد کہنا شروع کیا۔
"ہم نے یہ حل نکالا ہے کہ حیدر سے کنٹریکٹ جو کے اسٹار گروپ اوف انڈسٹریز سے آیا تھا ہمارے پاس سائن کرا لیا جائے اس کی مدت دو سال ہے اور آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ انڈسٹری برطانیہ میں ہے اور اپنا الگ مقام رکھتی ہے یہ کنٹریکٹ نہ صرف حیدر کے کیریئر کے لئے بہتر ہے بلکہ ہماری اور آپ کی ریپوٹیشن کو قائم رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے کیوں یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ اگر حیدر کی حرکات کی خبر میڈیا تک پہنچ گئی تو آپ کے بزنس کو بڑا نقصان ہو گا۔۔۔۔اور جہاں تک رہی حیدر کی پڑھائی کی بات تو میں انڈسٹری کے اونر سے بات کر چکا ہوں انہیں کوئی مسلہ نہیں ہے وہ حیدر کی پڑھائی وہاں مکمل کرا دیں گے اور یہ بات کنٹریکٹ میں بھی موجود ہے اس لئے آپ بے فکر ہو سکتے ہیں" ڈین نے اپنا بنایا سارا پلان ان کے گوش گزر دیا۔
ڈین نے عبّاس صاحب کو دیکھا جو کسی گہری سوچ میں غرق تھے اور ایک بار پھر کہا۔
"یہ ہماری تجویز ہے اگر آپ کو مناسب نہیں لگتا تو بے شک نہ کریں لیکن پھر حیدر کی زمیداری آپ لیں کیوں کہ اب اگر کچھ ہوا تو مجبوراً ہمیں انہیں اکسپیل کرنا ہو گا"
"آپ کنٹریکٹ کی فائل مجھے دیں میں حیدر سے سائن کرا لوں گا" عبّاس صاحب نے ایک نتیجے پر پہنچتے ہوئے مختصراً کہا۔
سر رضا نے ٹیبل پر رکھی فائل انہیں تھما دی اور وہ ایک بار پھر مصاحفہ کر کے باہر نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج دل بہت اداس تھا اس کو سکون میسر نہیں آ رہا تھا والیوللہ کے پاس بھی ہو آئی تھی لیکن دل کی کفیت عجیب تھی۔
ابھی کچھ دیر پہلے اس نے مغرب کی نماز ادا کی تھی اور پھر قرآن کی تلاوت شروع کر دی تھی جب کہیں سکون نہیں ملتا تو وہ یہی کرتی تھی اللہ کی کتاب کھول لیا کرتی اس پاک ذات سے ہم کلام ہوا کرتی اور کچھ ہی دیر میں سکون کے حصار میں ہوتی تھی۔
"اور بیشک دلوں کا سکون قرآن میں ہے"
وہ محوِ تلاوت ہی رہتی اگر ڈور بیل نہ بچتی اس نے قرآن گلاس کی بنی ایک خوبصورت سی مگر چھوٹی سی شیلف پر رکھا جائے نماز اٹھائی اور دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
پہلے چیک کیا کہ آیا کون آیا ہے اور سامنے کھڑے دو نفوس کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی اس نے فوراً ہی دروازہ کھول دیا۔
رانیہ اور نور نے اندر داخل ہوتے ساتھ ہی اسے خود میں بینچ لیا جیسے مہینوں بعد مل رہی ہوں وہ اس افتاد کے لئے تیار نہیں تھی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور زمین پر ڈھیر ہو گئی لیکن مجال ہے کے ان دونوں نے اسے چھوڑ دیا ہو اس کے ساتھ ہی خود بھی زمین پر گر گئیں۔
کچھ دیر بعد بھی جب ان دونوں نے زینب کو نہ چھوڑا تو زینب کو بولنا ہی پڑا۔
"اب ہٹ بھی جاؤ کیا دم نکلو گی میرا"
"دم نکل کر تو دیکھائے ہم دم کی دُم پکڑ کر واپس لے آئیں گے" رانیہ نے اپنی باہیں اس پر سے ہٹاتے فرضی دُم کھینچ کے کہا۔
"اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔دم کی دُم۔۔۔۔۔۔کہاں سے لاتی ہو تم ایسی باتیں" زینب نے ہنستے ہوئے کہا۔
"یہ سب اس کے خرافاتی دماغ کی مہربانیاں ہیں" نور نے باقائدہ رانیہ کے سر پر انگلی مار کے کہا۔
"شکریہ۔۔۔شکریہ" رانیہ نے ڈھیٹوں کی طرح داد وصول کی۔
رانیہ کی اس طرح کرنے پر وہ دونوں ہی ہنسے لگیں۔
"خیریت تو ہے آج یہاں کیسے" زینب نے کھڑے ہو کے پوچھا۔
"خیریت بعد میں لڑکی پہلے گھر آئے مہمان سے کھانا تو پوچھ لو۔۔۔۔چلو شاباش جلدی بتاؤ کیا بنایا ہے" رانیہ نے نور کے ساتھ کھڑے ہو کے اپنے مطلب کی بات کی۔
"مہمانوں کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں لڑکی" نور نے اسی کے انداز میں کہا۔
"ہاں تو تم ان آداب پر عمل کرو میں تو مہمان نہیں ہوں"
"ہاں تو میں بھی نہیں ہوں" نور نے جھٹ سے کہا۔
"آپ جب کے تم دونوں ہی مہمان نہیں ہو تو جاؤ کچن میں اور جو کھانا ہے بنا لو کیوں کہ میں نے تو کچھ نہیں بنایا" زینب نے جان بوجھ کے کھانا بنانے کا کہا اسے پتا تھا رانیہ کھانے کے معملے میں ماہر تھی اور بنانے کے معملے میں اناڑی۔
"ٹھیک ہے" نور اور رانیہ نے ساتھ کہا اور کچن کی جانب بڑھ گئیں۔
"رانی رک جاؤ۔۔۔۔۔رانی نہیں مجھے اپنے کچن کو جنگ کا میدان بلکل نہیں بنانا تم نکلو یہاں سے" زینب رانیہ کے پیچھے لپکی وہ ایک بار چائے بنانے کے چکر میں زینب کا کچن تباہ کر چکی تھی اور زینب دوبارہ یہ رسک نہیں لے سکتی تھی۔
"کیوں" نور نے کچن کارنر پر دونوں ہاتھ رکھے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"کیوں کہ یہ اول درجے کی پھوڑ عورت ہیں" زینب نے نور کے علم میں اضافہ کیا۔
"اوووووو" نور نے ہونٹھؤں کو او کی شکل اختیار کر کے کافی کھینچ کے کہا۔
"کیا اوووو" رانیہ نے نور کی نقل اتر اسے ایک زور دار دھپ کندھے پر رسید کی جس کی وجہ سے نور اپنی جگہ سے ہی حل گئی۔
"میں آج تمہیں بریانی بنا کے کہلاتی ہوں۔۔۔۔انگلیاں چاٹتی رہ جاؤ گی میری" رانیہ نے اپنی انگلیاں لہرا کے کہا۔
"ای ی ی ی " نور نے عجیب سی شکل بنا کے جُھرجُھری لی۔
رانیہ نے اسے گھورا اور پھر نور اور زینب اسے منع ہی کرتے رہ گئے لیکن رانیہ نے نہ سنی تھی نہ سنی اور کھچڑی نما بریانی بنا کر ہی دم لیا اور کچن کا حال ایسا تھا مانو کسی نے بم پھینکا ہو لیکن اس سب میں ایک بات اچھی ہوئی تھی نور اور رانیہ جس مقصد سے آئیں تھیں وہ مکمل ہوا تھا زینب ہنس رہی تھی مسکرا رہی تھی اس کا فوکس کچھ دیر کے لئے ہی سہی پر اب وہ وہ نہیں سوچ رہی تھی جو ان کے آنے سے پہلے سوچ رہی تھی اور یہی تو وہ چاہتی تھیں اور کامیاب بھی ہو گئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا ڈنر کر کےحیدر احد کے ساتھ باہر نکل گیا تھا اور اسے بہت سی چاکلیٹس دلا کر لیا تھا۔ حیدر ابھی پورچ میں گاڑی کھڑی کر کہ لاونچ میں صوفے پے آ کے بیٹھا تھا جہاں سعید عبّاس کوئی ٹاک شو دیکھ رہے تھے جب ثانیہ بھابی رات کی چائے لے کر لاؤنچ میں داخل ہوئیں اور سعید اور حیدر کو چائے سرو کی اور ساتھ ہی حیدر کی گود سے احد کو اٹھایا۔
احد صاحب نے ماں کی گود میں آتے ساتھ ہی اپنا گالا پھاڑنا شروع کر دیا تھا۔
"دنیا کے بچے اپنی ماں کے دامن سے چپکے رہتے ہیں ایک میری اولاد ہے جو میری گود میں آتے ساتھ ہی رونا شروع کر دیتی ہے" ثانیہ بھابی نے افسوردگی سے کہا۔
"ہو سکتا ہے ڈر جاتا ہو" سعید عبّاس نے چائے کا ایک سپ لے کے کہا۔
"میں کب مارتی ہوں اسے جو یہ ڈر جاتا ہے" ثانیہ بھابی نے حیرت سے کہا۔
"میں نے کب کہا کہ تم مارتی ہو اسے۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے تمہارا خوفناک چہرہ دیکھ کے ڈر جاتا ہو" سعید عبّاس نے سنجیدگی سے کہا۔
"بھولیں مت اسی چہرے پر مر مٹے تھے آپ" ثانیہ نے گردن اکڑا کے سعید عبّاس کو یاد دلایا۔
"ٹھیک کہا تم نے یہ چہرہ دیکھ کے کسی کی بھی جان نکل سکتی ہے میں تو پھر بڑے ہی کمزور دل کا مالک ہوں" سعید عبّاس نے پوری سنجیدگی سے بیوی کو چھیڑا۔
"ٹھیک ہے تو میں چلے جاتی ہوں یہاں سے کہیں آپ کی جان پھر سے نہ نکل جائے اب اپنے اس سپوت کو آپ خود ہی سنمبھالیں کیوں کہ بقول آپ کے یہ میرا چہرہ دیکھ کے ڈر جاتا ہے نہ" ثانیہ بھابی کو تو صدمہ ہی ہو گیا تھا انہوں نے غصّے سے کہا اور احد کو ان کی گود میں ڈال کے آگے چلے گئیں۔
"ارے سنو تو" سعید عبّاس نے پیچھے سے آواز لگائی۔
ثانیہ بھابی جاتے جاتے رک گئیں اور پھر حیدر کو عبّاس صاحب کا پیغام دیا جو وہ دینا بھول گئیں تھیں۔
"حیدر پاپا تمہیں اسٹڈی میں بلا رہے تھے"
"کیوں" حیدر نے حیرت سے پوچھا وہ کم کم ہی اسے اس طرح بلاتے تھے اگر کوئی بات ہوتی تو وہ عموماً ڈائننگ ھال میں ہی کر لیا کرتے تھے۔
ثانیہ بھابی نے کندھے اچکا دیے اور سعید عبّاس کی طرف ایک مسکراہٹ اچھال کے آگے بڑھ گئیں۔
"یار حیدر" سعید عبّاس نے بیچارگی سے حیدر کی جانب دیکھا۔
"بیوی سے پنگا نہیں لینا چاہیے۔۔۔۔۔اور ویسے اب میں آپ کو یہ نہیں کہوں گا کے سدھر جائیں" حیدر اپنی شرٹ سہی کرتے صوفے سے اٹھا اور کہا۔
"کیوں" سعید نے پوچھا۔
"آپ کو سدھارنے کے لئے آپ کی یہ ایک اولاد کافی ہے" حیدر نے احد کی طرف اشارہ کیا جو سعید عبّاس کا چشمہ زبردستی اتارنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسٹڈی کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹڈی کافی بڑی تھی کمرے کے وسط میں آفس ٹیبل اور ریولونگ چیئرس رکھی گئیں تھیں ٹیبل پر لیپ ٹاپ پیپر ویٹ پینز اور کچھ فائلز رکھیں تھیں جن میں سے ایک فائل عبّاس صاحب تھامے آنکھوں پر آئی۔سائٹ گلاسس لگاۓ اس کا مطالع کر رہے تھے۔ کمرے کے دائیں جانب ایک صوفہ رکھا گیا تھا اور اس کے ٹھیک سامنے کتابوں کی قدادام شیلفز بنی تھیں جہاں بیشمار کتابیں رکھیں تھیں۔
حیدر ہلکی سی دستک دے کر اندر داخل ہوا اور دروازے پر کھڑے ہی پوچھا۔
"ڈیڈ آپ نے بلایا تھا"
"آؤ برخوردار اندر آؤ" عبّاس صاحب نے فائل سے نظریں ہٹا کے اس کو ایک نظر دیکھا اور پھر سے فائل پر نظریں ڈال دیں۔
حیدر ان کے سامنے والی کرسی پا جا بیٹھا۔
"اس پر سائن کر دو" کچھ دیر گزرنے کے بعد عبّاس صاحب نے فائل حیدر کے آگے بڑھائی اور کہا۔
"پر یہ ہے کیا" حیدر نے ماتھے پر شکنے لئے پوچھا۔
"کنٹریکٹ ہے اسٹار گروپ اوف انڈسٹریز کا جو تم سائن کر رہے ہو اس کی مدت دو سال ہے اور میں نے ان سے بات کر کے تمہاری کل کی سیٹ بک کرا دی ہے پہلے تم دوپہر میں اسلام آباد جاؤ گے اور پھر وہاں سے برطانیہ" عبّاس صاحب نے سارا لاہحہؑ عمل اس کے سامنے رکھ دیا۔
"لیکن میری اسٹڈیز ابھی مکمل نہیں ہوئیں اور کچھ مہینوں کی تو بات ہے میں اپنی ڈگری مکمل کر لوں پھر چلا جاؤں گا" حیدر نے رسانیت سے کہا۔
"یہ کنٹریکٹ یونیورسٹی کے لنک سے ہو رہا ہے تمہیں اسے ابھی ہی سائن کرنا ہو گا۔۔۔جہاں تک اسٹڈیز کی بات ہے تو اس کنٹریکٹ میں یہ صاف لکھا ہے کے تمہاری آگے کی تعلیم وہ خود مکمل کرائیں گے" عبّاس صاحب نے اسے مزید بتایا۔
"میں یہ سائن نہیں کروں گا" حیدر کو ساری بات سمجھ آ گئی تھی اس نے خود پر ضبط کرتے کہا۔
"تمہیں یہ سائن کرنا ہو گا" عبّاس صاحب نے اپنی رعبدار آواز میں ہر لفظ پر زور دے کے کہا۔
حیدر اپنی جگہ سے اٹھا اور دروازے کا ہینڈل تھما جب ہی عبّاس صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور انہوں نے غصّے سے کہا۔
"حیدر میں کچھ کہہ رہا ہوں تم سے"
"اور میں آپ کو جواب دے چکا ہوں" حیدر نے بینا پیچھے موڑے کہا۔
"تمہیں ان پپیرس پر سائن کرنے ہوں گے"
میں ان پر سائن نہیں کروں گا صرف اُس کی وجہ سے تو بلکل نہیں" حیدر نے سر نفی میں ہلا کے کہا۔
صفا عبّاس جو عبّاس صاحب کو دودھ کا گلاس دینے آئی تھی ان کی بھاری مردانہ آوازوں سے ڈر گئی تھی اور اپنی ماں کو بلا لائی تھی۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں" فائزہ بیگم نے اسٹڈی میں داخل ہوتے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
"حیدر تم میں غصّہ بہت ہو گا پر اپنے باپ سے زیادہ نہیں مجھ سے ضد مت کرو جتنا کہہ رہا ہوں کرو" عبّاس صاحب فائزہ بیگم اور صفا دونوں کو نظر انداز کر کے حیدر سے مخاطب ہوئے۔
"ورنہ" حیدر نے عبّاس صاحب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بڑے اطمینان سے پوچھا۔
"کیا ہو گیا ہے آپ دونوں کو کیوں ایسی باتیں کر رہے ہیں" فائزہ بیگم نے پریشانی سے استفار کیا جسے ایک بار پھر نظر انداز کیا گیا۔
"ورنہ یہ کہ میں تمہیں اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا" عبّاس صاحب نے محض دھمکی دی ورنہ انھیں اپنی اس تیسری اولاد سے بےپناہ محبت تھی۔
"یہ صرف دھمکی ہے" حیدر نے انھیں جتایا۔
"اور اسے عمل میں لانے میں مجھے کچھ منٹ لگیں گے" عبّاس صاحب نے غصّے سے کہا۔
"آپ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں میرا دل بیٹھے جا رہا ہے۔۔۔۔۔حیدر تم مجھے چھوڑ کے کہیں نہیں جاؤ گے۔۔۔۔کہیں نہیں مجھ سے وعدہ کرو" فائزہ بیگم نے روتے ہوئے حیدر کا چہرہ ہاتھوں کے ہالے میں لے کے کہا۔
حیدر کی کمزوری اگر کوئی تھی تو وہ اس کی ماں تھی وہ ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا۔
"بھائی پلیز مان جائیں نہ پاپا کی بات" صفا حیدر سے بڑی تھی لیکن پھر بھی بھائی کہہ کے ہی پکارتی تھی اس نے بھیگی ہوئی آواز میں حیدر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔
خونی رشتوں سے محبت کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے جو اپنے ہوش کھو کے ہم وہ کرتے ہیں جو ان کی خوشی ہوتی ہے جو ان کی خواہش ہوتی ہے چاہے وہ فیصلے ہمارے حق میں بہتر ہوں یا بتر ہوں۔
حیدر نے ماں کے آنسو صاف کئے ان کے ماتھے پر بوسہ لیا اور انہیں خود سے لگائے ٹیبل تک گیا اور پپیرس پر سائن کر دیے اگلے ہی پل وہ سب کو پیچھے چھوڑ اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ASALAMUALIKUM readers kese hain ap sb or kesa laga ap ko aj ka epi apne reviews se zaror agah karen or plz next epi ke liye abhi se mai bata rahi hon ap sb ko q k mere papers ho rahe hain is liye next kb don i don't know....sorry for that but i think you all understand it....abhi ke liye Allahafiz fiamanliAllah.
WRITER:
NIMRA ISRAR
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top