جُدا ہوئے راستے 2
تجھ سے ہے جُدا اب میرے راستے
مل جائیں اگر تو رکھنا فاصلے
عبّاس صاحب چونکہ ڈین سے بات کر چکے تھے اسی لئے حیدر کا یونیورسٹی میں آج آخری دن تھا اسے آج یونیورسٹی سے اپنے تعلیمی دستاویز لینے تھے اور پھر وہیں سے ائیرپورٹ کے لئے بھی نکلنا تھا۔
اس نے یونیورسٹی آتے ہی ساری کہانی اپنے دوستوں کو بتائی۔ علی حاشر اور احمر کو اس کے جانے کا دکھ تو بہت تھا لیکن وہ جانتے تھے کے وہ غصّے میں پاگل ہو چکا ہے اور یہاں کچھ دن اور رہنا بھی اس کے لئے خطرے سے خالی نہیں تھا اور پھر مقابل بھی کہاں چپ ہونے والی تھی وہ اینٹ کا جواب پھتر سے دے رہی تھی اور برابری سے مقابلہ کر رہی تھی۔
وہ نہیں جانا چاہتا تھا پر اسے جانا پڑ رہا تھا اور اس کی وجہ سے جانا پڑ رہا تھا سارا غصّہ ہی اس بات کا تھا اور پھر وہ کیوں اپنی جگہ چھوڑتا اور وہ بھی اس لڑکی کے لئے۔
بریک ٹائم چل رہا تھا وہ اپنے تینوں ساتھیؤں کے ساتھ کوریڈور سے گزر رہا تھا جب اس کی نظر کلاس میں بیٹھی ان تینوں لڑکیوں پر پڑی جو باتیں کرنے میں مگن تھیں اس کا موڈ تو صبح سے ہی خراب تھا لیکن اب مزید خراب ہو گیا تھا اور غصّہ نکالنے کا ایک موقع مل گیا تھا۔
زینب کی پشت دروازے کی جانب تھی جس کی وجہ سے وہ اسے دیکھ نہ سکی۔ حیدر کلاس میں جارحانہ تیور لئے اندر آیا اور زینب کا بازو پکڑ کے اپنے سامنے کیا۔ زینب اس افتاد کے لئے تیار نہیں تھی بوکھلا گئی لیکن حیدر پر نظر پڑتے ہی اس نے اپنے ہونٹوں کو سختی سے پیوست کر لیا حیدر کے ہاتھ کو زور سے جھٹکا اور انگلی اٹھا کے غصّے سے چبا چبا کر کہا۔
"اپنے ہاتھ قابو میں رکھو کیوں کہ اگر میرے ہاتھ بے قابو ہوئے تو تمہارا گال سرخ کر جائیں گے"
"تم نے خود کو سمجھ کیا رکھا ہے۔۔۔۔ہاں میں بتاؤں تم کیا ہو تم ایک حرام کی پیداوار ہو" حیدر نے زینب کا بازو پکڑا اور دنیا جہاں کی نفرت اپنے لہجے میں سموئے کہا۔
علی حاشر اور احمر جو اس کے پیچھے ہی کلاس میں لپکے تھے حیدر کی یہ بات سن کے حیرت کے سمندر میں غوتے کھا رہے تھے۔
زینب کا ضبط بس اتنا ہی تھا یہ آج پہلی بار تھا کوئی اس طرح اتنے کھولے لفظوں میں اسے نیچا دیکھا رہا تھا۔ زینب نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو حیدر کی گرفت سے آزاد کرایا اور اپنی پوری قوت سے ایک زناٹیدار تھپڑ حیدر کے منہ پے مارا۔ تھپڑ اتنا زور دار تھا حیدر کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا تھا۔
حیدر نے اپنا چہرہ اس کی طرف کیا جو سرخ ہو رہا تھا اور غصّے سے دھڑا۔
"تم نے مجھے تھپڑ مارا"
"ہاں مارا اور اگر تم نے اپنی بکواس بن نہیں کی تو اس عمل کو دوہرانے میں مجھے وقت نہیں لگے گا" زینب کی آنکھوں میں سرخی صاف دیکھی جاسکتی تھی۔
"بکواس نہیں ہے یہ،یہ سا۔۔۔۔۔" اس سے پہلے حیدر اپنا جملہ مکمل کرتا احمر علی اور حاشر اسے گھسینٹتے ہوئے پیچھے کی جانب دھکیلنے لگے اور پھر علی نے نور اور رانیہ کو مخاطب کر کے نرم لہجے میں کہا۔
"پلیز آپ لوگ جائیں یہاں سے"
نور نے رانیہ اور زینب کا ہاتھ تھاما اور اسے وہاں سے لے گئی۔
احمر جو حیدر کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے روکے ہوئے تھا یک دم ہی اس نے اپنے ہاتھ ہٹائے اور دو قدم پیچھے ہو کے کہا۔
"تو اس سارے قصّے کے پیچھے یہ وجہ تھی"
حیدر نے اپنا رخ موڑ کر مٹھیاں بینچ لیں۔
"حیدر یہ تم ہی ہو نہ جو کہا کرتا تھا آدم کی سب اولاد عزت کی حق دار ہے چاہے وہ مرد ہو عورت ہو ہندو ہو مسلمان ہو سنی ہو شیعہ ہو امیر ہو یا غریب۔۔۔۔تم نے کبھی ان میں فرق نہیں کیا تو آج کیوں۔۔۔۔۔وہ جیسی بھی ہے ،ہے تو انسان نہ عزت تو اس کی بھی ہے نہ۔۔۔۔اور تم" وہ افسردہ لہجے میں کہتے کہتے چپ ہو گیا تھا۔
حیدر کے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے تھے۔ وہ کلاس میں رکھی ایک بینچ پر سر جھکا کے بیٹھ گیا تھا۔ شاید اسے بھی اپنے اس رویے کی سہی وجہ نہیں پتا تھی۔
"آج جو کیا برا کیا حیدر۔۔۔۔۔۔بہت برا" علی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔
"ہمیں یہ امید نہیں تھی تم سے" حاشر نے تاسف سے کہا۔
حیدر مرے ہوئے قدموں سے وہاں سے اٹھا اور تینوں کو وہیں چھوڑے آگے بڑھ گیا۔ اس نے غائب دماغی سے اپنے سارے سرٹیفکیٹس ریسیوہ کئے اور پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گیا جہاں وہ تینوں ہی اسے ائیرپورٹ ڈراپ کرنے کے لئے کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
اس نے آتے ہی ڈرائیونگ سیٹ سنمبھال لی اور اپنے دستاویز کی فائل ڈیس بورڈ پر رکھی۔ احمر اس کے برابر میں بیٹھ گیا اس کے بیٹھتے ہی علی اور حاشر نے بھی اپنی اپنی سیٹ سنمبھال لی۔
سارے راستے احمر اس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا لیکن اسے تو چپ ہی لگ گئی تھی۔ احمر نے گاڑی جب ائیرپورٹ کے راستے جاتے دیکھی تو چونکا اور ساری بات سمجھتے ہوئے حیدر سے پوچھا۔
"حیدر تم گھر پر سب سے ملو گے نہیں ایسے ہی چلے جاؤ گے؟"
حیدر کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا وہ سنجیدہ چہرہ لئے جو کسی بھی تاثر سے پاک تھا ڈرائیو کر رہا تھا۔
"حیدر" احمر نے حیدر کو ایک بار پھر مخاطب کیا لیکن سب بے سود بلاخر احمر چپ ہو گیا۔
وہ ائیرپورٹ پر بھی سارا وقت ویٹنگ ایریا میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا اس کی چپ کو فون پر آنے والی عبّاس صاحب کی کالز نے بھی نہیں توڑا تھا۔ اس نے اپنے موبائل کو سائلینٹ پر لگا دیا تھا جس کی وجہ سے عبّاس صاحب نے احمر کو کال کی تھی اور احمر نے ان کو اس کی خیریت سے آگاہ کر دیا تھا۔
ائیرپورٹ پر اس کی فلائٹ کے جانے کا اعلان کیا گیا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھا اپنے مطلوبہ گیٹ نمبر تک پونچھا اس سب کے دوران وہ تینوں اس کے ساتھ ساتھ ہی تھے۔ اس نے ایک نظر سامنے گیٹ کو دیکھا اور پھر پیچھے مڑ کر ان تینوں کو دیکھا اور ایک ایک کر کے وہ تینوں سے بغل گیر ہوا۔
"اپنا خیال رکھنا" حاشر نے اس سے الگ ہو کے کہا۔
"رابطے میں رہنا اور خیال رکھنا اپنا" احمر نے اس کا ہاتھ پکڑے کہا۔
"کسی گوری کے ملتے ہمیں بھول نہ جانا" علی نے اس کے کندھا سے کندھا ٹکرایا اور مسکراتے ہوئے کہا مقصد ماحول کو خوشگوار کرنا تھا۔
حیدر نے دھیما سا مسکرا کے اثبات میں سر ہلا دیا
اور آگے چل دیا ابھی وہ کچھ قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ روکا اور پیچھے مڑ کے ان کی طرف دیکھا اور ٹھرے ہوئے لہجے میں کہا۔
"تم لوگوں نے ٹھیک کہا میں نے جو کچھ کیا غلط تھا لیکن جو آج اس نے کیا وہ ٹھیک نہیں تھا۔۔۔۔جو بھی تھا میں زبان سے بات کر رہا تھا اس نے ہاتھ اٹھا کے ٹھیک نہیں کیا اور اس کا حساب اسے دینا ہو گا۔۔۔۔ایک دن"
وہ کہہ کے آگے بڑھ گیا تھا اور وہ جو سوچ رہے تھے کہ حیدر کے جانے سے قصّہ ختم ہو جائے گا ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔۔بات اب مقابلے پر نہیں رہی تھی بات اب بدلے پر آ گئی تھی۔
یہ تینوں فلائٹ کے ٹیک اوف ہونے سے پہلے باہر پارکنگ ایریا میں پہنچ گئے تھے اور حیدر کے جہاز کو فضا میں اڑتا دیکھ رہے تھے اس بات سے انجان کہ وہ چلا گیا تھا کبھی واپس نہ لوٹنے کے لئے۔
"زینب والیواللہ اگر میری کبھی واپسی ہوئی تو میں تمہاری زندگی کا تختہ پلٹ دوں گا یہ حیدر عبّاس کا خود سے وعدہ ہے" حیدر نے اڑتے جہاز میں اپنی سیٹ سے ٹیک لگائے تہیہ کیا تھا اور آنکھیں زور سے بینچ لیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے سیدھا سر عاصم کے پاس کچھ سمجھنے کا بہانہ کر کے نکلی تھی اسے کچھ وقت چاہیے تھا خود کو نارمل کرنے کے لئے جو اسے مل گیا تھا وہ لیڈیز واشروم میں موجود واش بیسن پر سر جھکائے کھڑی تھی نظر اٹھائی تو آنکھیں اپنے عکس پر جم سی گئیں اسے خود پر اس وقت بے حد ترس آ رہا تھا وہ کیا تھی اور لوگ اسے کیا سمجھتے تھے۔۔۔۔۔اس نے سوچا اس سے بہتر نہ تھا میں وہی ہوتی جو لوگ سوچتے ہیں شاید اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی ابھی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔یہ سوچ اس کا چہرہ تپنے لگا تھا اس نے دو چار چھینٹے اپنے چہرے پر رقم اس ترس کو مٹانے کے لئے مارے اور ایک بار پھر اپنا عکس آئینے میں دیکھا وہ اب بھی ویسا ہی تھا اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور اُس کی وجہ سے تھی آئینے میں اس کا اپنا عکس اب دھندہلانے لگا تھا اس نے اس نمی کو بہنے سے پہلے ایک بار پھر اپنے چہرے پر پانی کی چھینٹے پھینکے اب کی بار اس کا عکس آئینے میں صاف دیکھ رہا تھا کوئی دھند حائل نہیں تھی اس نے اپنی آنکھوں میں گہرائی تک دیکھتے ہوئے تہیہ کیا۔
"حیدر عبّاس جو تکلیف تم نے آج مجھے دی ہے اس کے لئے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔کسی قیمت پر بھی نہیں"
تیری دنیا سے ربا
یہ صلہ ملا ہے
خوش رہے خدائی تیری
تجھ سے نہ گلا ہے
جی لوں گی کسی بھی طرح دل کو سمجھائے
بارشوں میں رو لوں گی میں آنسو چھپائے
کوئی نہ ستائے مجھے کوئی نہ ستائے
تو رنگ مولا رنگ دے
نصیباں ماری ہوں
یہ جگ خودغرض بڑا
میں جگ سے ہاری ہوں
تو رنگ مولا رنگ دے
وہ اپنے دل کا بوجھ اٹھاتی کلاس روم میں آ گئی تھی جہاں مس ثناء کا لیکچر شروع ہو گیا تھا وہ انھیں سلام کرتی نور اور رانیہ کے برابر والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئی تھی اور پورے دیہان سے لیکچر سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ اسے اپنے دفتر میں نوٹ بھی کر رہی تھی۔
رانیہ اور نور لیکچر سرے سے سن ہی نہیں رہیں تھیں ان کی نظریں تو زینب سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں وہ اسے اس طرح دیکھ رہیں تھیں جیسے کوئی ایلین ان کے بیچ آ گیا ہو اور زینب نے اپنے اوپر ان کی نظریں باآسانی محسوس کر لیں تھیں۔
لیکچر بھی ختم ہو گیا اور ساتھ آج کی ساری کلاسز بھی لیکن نور اور رانیہ کی چلتی زبانیں نہ چلیں آخر زینب نے جھنجھلا کر کہا۔
"کیا ہو کیا گیا ہے تم دونوں کو۔۔۔۔میں مر تو نہیں گئی جو اپنی پہلے سے بگڑی ہوئی شکلوں کو اور منہ لٹکا کے بگاڑ لیا ہے"
"اللہ نہ کرے" زینب کی "مر جانے" والی بات پر تو ان دونوں کا دل ہی دھل گیا تھا یک زبان ہو کر کہا۔
"بگڑی ہوئی شکلیں" رانیہ اب زینب کے جملے میں اپنی شان میں کہے لفظ پر آئی تھی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے گال پر رکھ شاک ہوتے ہوئے کہا۔
"یہ تمہیں بگڑی ہوئی لگ رہی ہے میرا چہرہ مبارک تو اتنا معصوم ہے سارے جہاں کی معصومیت میرے چہرے میں سمائی ہے۔۔۔۔۔بلکل فرشتوں جیسا ہے۔۔۔۔۔۔۔"رانیہ اپنی لائن پر آ چکی تھی۔
"ہاں اس کا کہا وہ تو سمجھ آتا ہے" رانیہ نے نور کی طرف اشارہ کر کے اسے چھیڑا۔
"کوئی نہیں۔۔۔۔۔میرا چہرہ بلکل میرے نام جیسا ہے نور ہی نور ہے" نور نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کے بڑے مضائکحہ خیز انداز میں کہا۔
رانیہ کی ہنسی چھوٹ گئی اور وہیں کھڑے کھڑے رانیہ نے نور کو نجانے کتنی بار اس کا کہا "نور ہی نور ہے" یاد دلایا اور وہ بس جھینپ کر رہ جاتی۔ نور کہہ کر پچھتا رہی تھی کیوں کہ اسے پتا تھا اب روز اسے رانیہ سے یہی سنے کو ملنے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج اپنے سارے سازوسامان کے ساتھ غروب ہونے کے لئے پر تول رہا تھا نیلے آسمان پر نجانے کتنے رنگین رنگ بکھیر کے وہ بس ایک رنگ چھوڑنے والا تھا سیاہی کا رنگ۔۔۔۔۔جہاں لوگ اس کے اس سحر بھرے منظر کو مہبوہت سا تکتے تو وہیں اس کے جانے پر افسوردہ بھی ہو جاتے۔
وہ بھی آج اداس تھی جینس اور ٹی۔شرٹ میں ملبوز وہ لاؤنچ کے صوفے پر آڑہی ترچھی لیٹی تھی گردن ایک طرف کو ڈھلک رہی تھی اس کے رنگین بال صوفے سے لٹک رہے تھے۔ لاؤنچ کا سارا سامان بکھرا ہو تھا۔ اچانک ڈور نوب کی آواز آئی اور کوئی اندر داخل ہوا اور اس ٹوٹے بکھرے سامان سے پھلانگتے ہوئے ایک خالی صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ جانتا تھا یہ سب کس بات کا نتیجہ ہے کافی دیر اس کو دیکھتا رہا وہ شاید اب سو گئی تھی۔ وہ اٹھا اور اس کے کمرے سے کمبل لینے چلا گیا وہ ابھی بستر سے کمبل اٹھا کے باہر نکل رہا تھا جب اس کی نظر رائٹنگ ٹیبل کے پاس پڑے کاغذ کے ڈھیر پر پڑی اس نے جھک کے ایک چُرا مُرا سا کاغذ اٹھایا اور پڑھنے لگا اور پڑھتے ساتھ ہی وہ بیچارگی سے بستر پر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام کے بیٹھ گیا۔
اسے لائبہ پر غصّہ تو بہت تھا پر وہ واحد تھی جو اسے دل و جان سے بھی عزیز تھی وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ وہ اسے تکلیف پنہچانے والے کو قتل کر سکتا تھا لیکن وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا مگر یہاں وہ اپنی تکلیف کی وجہ خود بن رہی تھی اور وہ بے بس تھا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
اس نے کمبل لیا اور نیچے آ گیا اسے اچھی طرح لائبہ پر ڈالا اور لاؤنچ کو سمیٹنے کا حکم ملازم کو دیا ساتھ اپنے لئے ایک کپ کافی بھی مانگائی اور وہیں اسی کے پاس بیٹھ گیا۔
رات میں اس کی آنکھ کسی آہٹ سے کھلی تو اپنے سامنے لائبہ دیکھی وہ صوفے پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی وہ تڑپ ہی تو گیا تھا اس کے آنسو دیکھ کر لپک کے اس کے برابر بیٹھا اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے ہالے میں لیا اس کے آنسو صاف کئے اور پوچھا۔
"کیوں خود کو اور مجھے اذیت دے رہی ہو"
"عاطف وہ چلا گیا۔۔۔وہ چلا گیا۔۔۔۔وہ مجھے چھوڑ کے چلا گیا" وہ روتے ہوئے ایک ہی بات بولے جا رہی تھی۔
"اور وہ کیوں گیا" عاطف نے خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"مجھے نہیں پتا" وہ نروٹھے پن سے سر نفی میں ہلاتی بولی۔
"تمہیں نہیں پتا تم نے سب کچھ کیا اور تمہیں کچھ نہیں پتا۔۔۔۔تم نے مجھے بتانے کی بھی زحمت نہ کی اور یہ خط لکھا" وہ غصّے میں بول رہا تھا مگر آواز دھیمی تھی پھر اس نے اپنی فرنٹ پاکٹ سے وہ کاغذ نکال اسے دکھایا۔
لائبہ چپ رہ گئی آنسو بھی تھم گئے تھے۔
"یہ سب تمہارے اس خط کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔تمہیں ضرورت ہی کیا تھی یہ سب کرنے کی۔۔۔۔تمہاری وجہ سے زینب کو حیدر نے کتنا اول فول کہا۔۔۔۔کسی کو تکلیف دینے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہیں آپ ہی اس کی زد میں نہ آ جائیں" وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے سمجھا رہا تھا۔
لائبہ کو اس کی باتیں سمجھ تو نہیں آئیں تھیں اور اس کی سوئیں ایک ہی جگہ اٹک گئی تھی "وہ چلا گیا" یہ سوچتے ہی وہ ایک بار پھر رونے لگی۔
"اب رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے وہ کوئی ہمیشہ کے لئے تو نہیں گیا ہے دو سال کی ہی بات ہے پھر وہ آ جائے گا۔۔۔۔۔چلو اب شاباش فرش ہو کر آؤ پھر کھانا کھاتے ہیں" عاطف نے اس کے آنسو صاف کئے اور ایک بار پھر سمجھایا اور یہ بات لائبہ کے سمجھ بھی آ گئی تھی۔
"صرف دو سال کی بات ہے" لائبہ نے سوچا اور فرش ہونے کی نیت سے اٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاطف لائبہ کا بھائی تھا۔ دونوں اکیلے ہی رہتے تھے ماں کو باپ سے علحیدہ ہوئے ایک عرصہ ہو گیا تھا۔ جب عاطف پانچ سال کا تھا تب کسی بات پر بحث پر دونوں نے اپنے راستے جدا کر لئے تھے اور اس کے اگلے سال ہی دونوں نے اپنے نئے ہمسفر کے ساتھ سفر شروع کر دیا تھا سب کچھ پیچھے چھوڑے۔
ظفر صاحب ایک مہشور بزنس مین تھے اور ان کے پاس اپنی اس اولاد کے لئے وقت نہیں تھا وہ امریکا میں اپنی فیملی کے ساتھ ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے لیکن اپنے ان بچوں کو وہ پیدا کر کے بھولے نہیں تھے ان کے کھانے پینے پہنے اوڑھنے غرض کے ہر چیز کے لئے وہ ہر ماہ ان کے اکاؤنٹ میں پیسا ڈلوا دیا کرتے تھے وہ الگ بات تھی کہ سالوں میں اپنی شکل دکھاتے تھے اور جب تھوڑی فرصت ہوتی تو ایک کال کر لیتے۔ ماں کا حال بھی کچھ یہی تھا وہ اپنی زندگی میں مگن تھیں اور مہینے میں ایک بار کال کر لیتی تھیں البتہ پاکستان آئے انہیں بھی کئی سال بیت چکے تھے۔
عاطف نے بڑے بھائی ہونے کا فرض ادا کیا تھا اس نے اپنی تین سال کی بہن کو خود پالا تھا اس کا کھانا پینا دیکھنا اسے رات کو سونے سے پہلے کہانی سننا اسکول میں کوئی اسے کچھ کہہ جاتا تو اس سے لڑ جانا اس نے لائبہ کی ہر خواہش پوری کی تھی وہ جو چاہتی تھی وہ اس کا ہوتا تھا۔ عاطف نے اسے صرف بھائی کا پیار نہیں دیا تھا اس نے اسے ماں اور باپ کا پیار بھی دیا تھا وہ کبھی اسے ماؤں کی طرح ڈانٹ دیتا اور پھر خود ہی منانے بھی بیٹھ جاتا تو کبھی باپ کی طرح اسے شفقت سے سمجھاتا۔
والدین ہماری زندگی کا ایک اہم جز ہوتے ہیں ان کا خانہ سب سے الگ ہوتا ہے کیوں کہ یہ ہماری شخصیت کو اُبھارنے میں مدد دیتے ہیں۔ پودے صرف پانی سے ہی تو نشونما نہیں پاتے انہیں اور بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح لائبہ کو بھی صرف بھائی کی محبت نہیں چاہیے تھے والدین کا نہ ہونا اس کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑ گیا تھا وہ ضدی تھی اپنی منوا کر رہتی تھی اور جو چیز اس کی نہیں ہوتی تھی وہ اسے توڑ دیا کرتی تھی لیکن جب وہ کالج لائف میں آئی اس میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اس نے عاطف سے ضد کرنا چھوڑ دیا تھا اور خود سے ضد لگانا شروع کر دیا تھا اب وہ ہر بات عاطف کو نہیں بتاتی تھی کیوں کہ وہ اسے سمجھانے بیٹھ جاتا تھا اور وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتی تھی۔
عاطف کی شخصیت بھی عجیب ہو گئی تھی وہ اپنا آپ دنیا سے چھپانے کے لئے یونیورسٹی میں ایک لاابالی لڑکے کی طرح تھا کبھی لوگوں کو تنگ کرتا اور ان کو اپنے ہونے کا احساس دلاتا لیکن گھر کی چار دیواری میں وہ ایک بوڑھا شخص تھا بہت سنجیدہ ہمیشہ کچھ سوچتا رہتا تھا اور آفس والوں کے لئے وہ ایک کم بولنے مگر خوش مزاج شخص تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس نے ہر حد پار کر دی تھی اس کی روح کو بری طرح جھنجھوڑ دیا تھا زخم تھے جو پھر سے تازہ ہو گئے تھے آنکھیں تھیں جو آنسو بہانہ چاہتیں تھیں یقیناً یہ بہہ جاتے اگر انہیں تنہائی میسر آتی اور وہ یہ جانتی تھی خود کو جان بوجھ کر کام میں مصروف رکھ رہی تھی اور پھر معمول کے مطابق والیواللہ کے پاس چلی آئی۔
وہ جب سے آئی تھی والیواللہ کو کافی خاموش خاموش لگی تھی والیواللہ کو اسے دیکھتے اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی تھی وہ یقین سے کہہ سکتے تھے کہ ضرور اسے کسی نے کچھ کہا ہے وہ اکثر لوگوں کی باتیں سن کے اسی طرح خاموش ہو جایا کرتی تھی اس لئے نہیں کے وہ ناامید ہو جایا کرتی تھی لیکن اس لئے کہ وہ ان لوگوں کے کہے لفظوں کا اثر خود پے نہیں ہونے دینا چاہتی تھی وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ابھی بھی وہ پھل کاٹ رہی تھی لیکن ذہن کہیں اور ہی پرواز کر رہا تھا والیواللہ نے اس کے پاس بیٹھ کے چُھری اس کے ہاتھ سے لی تو وہ اپنی سوچوں سے باہر آئی۔
"کیا ہوا ہے زینی" والیواللہ نے پھل کاٹتے بظاہر مصروف سے انداز میں پوچھا۔
"کچھ بھی تو نہیں" زینب نے لاپرواہی سے کہا اسے اب اپنے اوپر غصّہ آ رہا تھا کیوں کہ وہ یہاں والیواللہ کو پریشان کرنے تو نہیں آئی تھی اور انجانے میں ہی وہ یہ کر گئی تھی۔
"جب تمہیں پتا ہے زینی تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتیں تو کیوں بولتی ہو" والیواللہ نے پھل اس کے آگے رکھ کے سوال کم کیا جتایا بہت کچھ۔
"اور بابا جب آپ کو پتا ہے میں نے آپ کو نہیں بتانا تو آپ کیوں پوچھتے ہیں" زینب نے سیب کا ایک ٹکڑا منہ میں ڈال مسکراتے ہوئے انہی کے انداز میں کہا۔
والیواللہ نے مسکراتی گھورتی آنکھوں سے اسے دیکھا جس پر اس نے ایک آنکھ دبائے ایک ہی کان پکڑے معافی مانگی جس پر وہ مسکرا دئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا جانے کتنے پل گزر گئے وہ اسے دیکھتے ہی رہے تو زینب کو انہیں مخاطب کرنا پڑا۔
"کیا ہوا ہے بابا"
"زینی" والیواللہ نے پر سوچ انداز میں اسے پکارا۔
"جی" زینب کو لگا وہ کچھ کہنا چاہتے تھے۔
"تم خواب دیکھنا شروع کیوں نہیں کرتیں" وہ اب بھی اس پر نظریں جمائے ہی بات کر رہے تھے۔
"کیسے خواب" زینب الجھی۔
"اللہ نے اگر تمہیں سگے رشتے نہیں دئے تو کیا ہوا لیکن ایک رشتہ ایسا ہے جس کو بنانے کا اختیار اللہ نے بندوں کے ہاتھ میں رکھا ہے بیشک یہ رشتہ بھی وہی بناتا ہے لیکن اس کے لئے انسان کی حامی ضروری ہے اور اللہ مہربان ہوا تو تمہیں اس رشتے کے تواصص سے اپنے خونی رشتے بھی مل جائیں گے" والیواللہ اسے دیکھتے بڑے ٹھرے انداز میں کہتے چلے گئے۔
"آپ جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ کبھی حقیقت کی تصویر نہیں بن سکتا" اس نے قطعیت سے کہا زینب کو حیرت ہوئی وہ اب یہ سب سوچنے لگے تھے۔
"تم نے کر دیا نہ مجھے بیگانہ باپ کا تو ارمان ہوتا ہے اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں سوچنا زینی تم چاہتی ہو کے تمہارا باپ تمہاری شادی دیکھے بینا ہی مر جائے" والیواللہ نے اسے منانے کے لئے جذباتی تقریر کی۔
زینب کو ان کی آخری بات نے ہولا دیا تھا وہ ناراضگی اور غصّے سے اپنا بیگ اٹھاتی باہر جانے لگی تب ہی والیواللہ نے اس کا ہاتھ تھام کے اسے روک لیا۔
"اچھا نہ سوری"
"آپ کو پتا ہے میرے پاس گنتی کے ہی چند رشتے ہیں پھر بھی آپ ایسی باتیں کرتے ہیں" زینب نے خفگی سے کہا۔
"سوری" والیواللہ نے ایک بار پھر کہا اب کے لہجہ دھیما تھا۔
"اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو آپ اپنی طرف سے کوشش کر کے دیکھ لیں میں آپ کو نہیں روکوں گیں لیکن میں کوئی بھی رشتہ نہ تو جھوٹ کی بنیاد پے بناؤں گی اور نہ ہی کسی کو دھوکے میں رکھ کے یہ رشتہ قائم کیا جائے گا۔۔۔۔۔اور اگر واقعی کوئی معجزہ ہو ہی گیا تو میں آپ کے خواب کو تعبیر کرنے میں بھی دیر نہیں کروں گیں" زینب نے حامی تو بھری لیکن یہ واضح کرنا نہ بھولی کہ جو بھی اس کی زندگی میں شامل ہو اس سے کوئی جھوٹ نہ بولا جاۓ اور نہ ہی اس سے اس کا سچ چھپایا جاۓ۔
"اب خوش ہو جائیں کافی دیر ہو گئی ہے میں چلتی ہوں اپنا بہت زیادہ خیال رکھیے گا" وہ ان کے ہاتھ کا بوسہ لئے اورفینج سے چلی گئی تھی۔
والیواللہ خوش ہو گئے تھے وہ اپنی زندگی میں زینب کے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے تھے جو کہ ہر باپ چاہتا ہے لیکن یہاں زینب کے مسائل الگ تھے جس کی وجہ سے انہیں ہر وقت فکر رہتی تھی۔ وہ مان گئی تھی ایک مرحلہ عبور ہوا تھا اب ایک اور مرحلہ تھا جسے عبور کرنا باقی تھا۔۔۔۔زینب کے لئے ایک اچھا رشتہ ڈھونڈنا تھا ایک ایسی لڑکی کے لئے رشتہ ڈھونڈنا جس کے نہ باپ کا پتا تھا نہ ماں کا۔ زینب سچ ہی تو کہہ کے گئی تھی اگر ایسا ہوتا تو معجزہ ہی تو ہوتا لیکن والیواللہ کو یقین تھا اللہ نے اس کے لئے بھی کسی کو بنایا تھا بس اسے کھوجنا باقی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ بہت خوش تھے جب سے انہوں نے اپنے دل سے ہر وہم نکال کے اپنی بیٹی کو پورے دل سے قبول کیا تھا ان کو کامیابیاں ہی کامیابیاں نصیب ہوئیں تھیں اور وہ اکثر اپنی بیوی سے کہا کرتے تھے کہ یہ سب میری بیٹی کے نصیب سے ہے۔
آج ان کی خوشی دیدنی تھی انہیں ایک بہترین جگہ نوکری ملی تھی وہ اللہ کا جتنا شکر کرتے کم تھا وہ پہلے دین سے اتنے قریب نہ تھے لیکن ان کی شریکِ حیات نے ان کی دین سے دوری کو بھی ختم کر دیا تھا وہ بھی اللہ کی دی ایک حسین نعمت سے کم نہ تھی ان کے لئے کبھی کوئی شکوہ نہیں کرتیں تھیں جو ملا کھا لیا شوہر نے جو دلایا پہن لیا ان کی باتوں کو حکم کی طرح ماننا اور ان کی کسی غلط بات پر وہ انہیں اتنے سلجھے ہوئے انداز اور نرم لہجے میں سمجھاتیں کے وہ انکار کر ہی نہ پاتے اور پھر انکی باتوں میں اتنے دینی حوالے ہوتے کہ کوئی کافر بھی ایمان لے آتا پھر تو وہ مسلمان تھے۔
ان کا آج کا پروگرام بیوی اور بیٹی کو گھومانے لے کے جانے کا تھا وہ جلدی جلدی گھر آئے دیکھا تو بیگم سنگ کے آگے کھڑی برتن دھونے میں مصروف تھیں ان کو سلام کیا اور ان کے ہاتھ سے پلیٹ لی جو وہ دھو رہیں تھیں ان کی بیگم نے حیرت سے انہیں دیکھا اور انہوں نے ان کی "حیرت" کا اثر لئے بغیر انہیں کندھوں سے پکڑ کر کچن سے باہر نکالا تو وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔
"کیا ہو گیا ہے کیا کر رہے ہیں آپ؟"
"جلدی سے جائیں اور تیار ہو کے آئیں اور میری پری کو بھی تیار کر دیں ہم باہر جا رہیں ہیں اب کوئی سوال نہیں باقی باتیں بعد میں بتاؤں گا" انہوں نے خوشی چھلکاتے لہجے میں کہا۔
کچھ ہی دیر میں وہ تیار ہوئے باہر آئیں انہوں نے گہرا نیلا رنگ پہنا تھا اور اپنے گرد شال اچھے سے لے رکھی تھی بیٹی کو انہوں نے گلابی رنگ کی فروک پہنائی تھی جس میں وہ واقعی پری لگ رہی تھی اس کے سفیدی مائل رنگت گال سرخ ہو رہے تھے۔ انہوں نے اسے بیگم کی گود سے لے کر اس کے بوسے لئے اور بیوی کا ہاتھ تھامے وہ گھر سے باہر نکل گئے۔
انہوں نے اپنے دوست سے کہہ کے ایک کرولا ہیئر کی تھی جو ان کے چھوٹے سے مکان کے باہر تو آ نہیں سکتی تھی اس لئے گلی کے کونے پر کھڑی تھی۔ وہ جب اس میں بیٹھے تو ان کی بیوی کو ایک بار پھر حیرت ہوئی انہوں نے پوچھنا مناسب سمجھا۔
"یہ کار؟" انہوں نے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے بعد پوچھا اور جملہ ادھورا چھوڑا۔
"ہماری نہیں ہے بیگم کرائے کی ہے لیکن انشااللہ ایک دن ہمارے پاس بھی ہو گی" انہوں نے بیوی کے ڈر کو دور کیا۔
"انشاءلله" انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
گاڑی کو چلتے کافی دیر ہو گئی تھی پتا نہیں وہ انہیں کہاں لے جانا چاہتے تھے بس اتنا کہا تھا ان سے
"کچھ ایسا دیکھانا چاہتا ہوں جو تم نے کبھی نہ دیکھا ہو"
ابھی کچھ وقت ہی گزرا ہو گا کہ گاڑی رکی یہ ایک کھلی لمبی سڑک تھی دونوں طرف قدادام درخت تھے وہ گاڑی سے اترنے لگے تو انہوں نے پوچھا۔
"کیا ہم پہنچ گئے؟"
"بیگم ابھی تھوڑا سا اور انتظار۔۔۔۔فلحال تو میں کچھ کھانے کے لئے لینے جا رہا ہوں پری کا خیال رکھنا" انہوں نے بیٹی کو بیگم کی گود میں دیا اور سامنے ڈھابے نما ہوٹل کی جانب بڑھ گئے ان کے اترتے ہی کار کا ڈرائیور بھی گاڑی سے اترا اور ہوٹل کی طرف ہی بڑھ گیا۔
وہ ابھی اپنے شوہر کا انتظار کر رہیں تھیں جب سامنے سے ایک ٹرک آتا دیکھائی دیا جو پوری تیزی سے چل کم اور جُھول زیادہ رہا تھا اور انہی کی گاڑی کی جانب آ رہا تھا انہوں نے جلدی سے دروازہ کھولنا چاہا لیکن ان سے نہ کھولا دور کھڑے ان کی شوہر کی نظر کار پر پڑی تو ہاتھ میں تھامے سارے شوپرز زمین پر پہینکے وہ اندھا دھن بھاگے تھے جیسے ہی انہوں نے کار کا دروازہ وا کیا ٹرک پوری قوت سے کار سے ٹکرایا کار ایک طرف کلابازی کھاتی گر گئی تھی وہ خود بھی خون میں لت پت تھے لیکن اس وقت فکر کسے تھی انہیں لگا ان کے زندہ وجود میں موت رعکس کر رہی ہے۔
وہ اوندھی پڑی گاڑی کی جانب لپکے تھے دروازہ کھول کے اس کے اندر گئے تو بیوی اور بیٹی کو بیہوش پایا وہ بیہوش تھیں یا نہیں انہوں نے خود کو یہی تسلی دی کہ وہ بیہوش ہی ہیں آج پہلی بار انہیں اپنی بیٹی اور بیوی کو ہاتھ لگانے میں خوف آ رہا تھا ان دونوں کا خون سے تر جسم انہیں بہت کچھ بتا رہا تھا پر یہاں ماننا کس نے تھا۔ بڑی مشکل سے انہوں نے دونوں کو باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن سب بےسود یک دم ہی گاڑی کے انجن میں آگ لگی تھی اور ایک دھماکے کے ساتھ آگ کے بڑے بڑے گولے فضا کو سیاہ کر گئے تھے۔ یہ سیاہ دھوئیں کے بادل موت کی سیاہی سے کم ہی سیاہ تھے زندگیاں تھم گئیں تھیں ایک عجیب سناٹے اور وحشت کا راج تھا۔ موت نے آج زندگی کو ہارا دیا تھا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ASALAMUALIKUM doston....umeed krti hon sb khairyat se hon ge.... sb ne intezar bhi bhut kiya tha epi ka.....kesa laga ap sb ko epi apne reviews den.......or plz 🙏😅yeh mt kehna chota tha because ye epi around 5000 words ka.....Allah bless you all.
ALLAHAFIZ
WRITER:
NimRA Israr
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top