ایک نیا امتحان
صفا زینب کو دیکھ پہچان گئی تھی اور بہت خوش بھی تھی اسے زینب اپنی بھابی کے روپ میں بہت پسند آئی تھی۔
عبّاس مینشن پہنچنے پر حیدر کے گھر والوں نے زینب کا پر تپاک استقبال کیا تھا اور زینب جان گئی تھی کہ وہ سچ نہیں جانتے تھے لیکن وہ اب بھی سمجھ نہیں پائی تھی حیدر اسے یہاں کیوں لیا تھا۔
چند ایک رسموں کے بعد ثانیہ بھابی زینب کو حیدر کے کمرے میں لے آئیں تھیں۔
کمرہ کافی بڑا تھا کمرے کے وسط میں جہازی سائز کا بیڈ رکھا تھا اور بیڈ ،سائیڈ ٹیبلس غرض کے ہر چیز پر گلاب کی پتیاں سجائیں گئیں تھیں۔ ایئر فریشنر اور گلاب کے پھولوں کی ملی جلی خوشبو ماحول کو خواب ناک بنا رہی تھی۔
ثانیہ بھابی نے اسے بیڈ پر بیٹھنے میں مدد دی تو کب سے اپنے اوپر کسی کی نظریں محسوس کرتی زینب نے ثانیہ بھابی کے ساتھ کھڑے اس چار پانچ سال کے نیلی آنکھوں والے بچے کو دیکھا جس کے نقوش حیدر سے ملتے تھے اور آج اس نے ڈریسنگ بھی بلکل حیدر جیسی کر رکھی تھی۔
"ہو اس شی؟" احد نے پوچھا تو ثانیہ بھائی نے مسکرا کے بتایا۔
"شی اس یور چچی"
"آئی نو داٹ۔۔۔۔آئی ایم آسکنگ ہو اس شی" احد نے ماں کو خشمگیں نظروں سے گھورتے ہوئے دوبارہ اپنا سوال دوہرایا۔
ثانیہ بھابی کو سمجھ نہ آیا وہ کیا پوچھنا چاہ رہا تھا۔
زینب اس کا سوال سمجھ گئی تھی۔
"آئی ایم زینب" زینب نے اپنا تعارف خود کراتے مصاحفے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
"آئی ایم احد سعید عبّاس" احد نے اپنا چھوٹا سا ہاتھ پوکٹ سے نکال مصاحفہ کیا۔
زینب کو حیرت ہوئی اس کے انداز پر پانچ سال کا یہ چھوٹا سا بچا۔۔۔۔۔بچا تو ہر گز نا لگتا تھا۔
"لیکن ہوٹل وینیو میں اسٹیج پر جو لیڈیز آپ کے ساتھ تھیں وہ تو آپ کو زینی کہہ کے پکار رھیں تھیں" اس نے واپس اپنا ہاتھ جیب میں رکھ سوال کیا تھا۔
"وہ سب میری فرینڈس ہیں اور مجھے زینی ہی کہہ کے بلاتی ہیں" زینب نے اس کا اشارہ سمجھ کے جواب دیا۔
"اوکے" اس نے سر کو خم کر جنبش دی۔
"ول یو بی مائی فرینڈ مسس زینب حیدر عبّاس؟" اس نے بڑی شاہستیگی سے پوچھا۔
"یس" زینب نے فوری حامی بھری یہ بچا اسے بہت پسند آیا تھا۔
"اٹس این آنر فور می" وہ یک دم ہی خوش ہوتے بولا۔
"تھینکس" ایک گہری مسکراہٹ نے زینب کے لبوں کا احاطہ کیا۔
"اب آپ آرام کریں زینی میں آپ سے کل ملوں گا" وہ دوستانہ انداز میں گویا تھا۔
"احد بڑی ہیں آپ سے۔۔۔۔زینب چچی کہیں گے آپ" ثانیہ بھابی نے فوراً سے پہلے اسے ٹوکا تھا۔
"شی اس ناٹ مائی چچی شی اس مائی فرینڈ اینڈ بائی دا وے آل اوف ہر فرینڈس کلڈ ہر زینی سو وائے آئی ایم ناٹ" وہ ماں کو دلیل رہا تھا۔
اس سے پہلے ثانیہ بھابی اسے اور کچھ کہتیں زینب بول پڑی۔
"بھابی اٹس اوکے"
"آرام کرو" ثانیہ بھابی محبّت سے کہتیں کمرے سے چلی گئیں تھیں اور وہ اب تک اس بچے کے انداز یاد کر مسکرا رہی تھی اور پھر اس کی آنکھوں کے پیوٹے بھاری ہوئے تھے اسے نیند نے آ گھیرا تھا۔ وہ وہیں بیٹھی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر سو گئی تھی بینا یہ جانے کہ اسے آج نیند کی گولیوں کی ضرورت نہیں پڑی تھی آج نیند اس پر خود مہربان ہو گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے رات دیر سے اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔۔۔خوشبو سے مہکتے کمرے نے اس کا استقبال کیا۔۔۔۔۔پہلی نظر اس صنف نازک پر پڑی، وہ عروسی لباس میں ہی بستر پر گٹھری بنی سو رہی تھی اسے شاید سردی لگ رہی تھی۔۔۔۔حیدر نے اپنے پیچھے آہستگی سے دروازہ بند کیا۔۔۔۔ڈراور سے
اے۔سی کا ریموٹ نکال ٹمپریچر کم کیا۔
زینب کے پیروں کے نیچے سے کمفرٹر نکال اس کے کندھوں کے برابر کرتے وہ سیدھا ہوا۔۔۔کچھ پل اسے یونہی دیکھتا رہا اور پھر چینج کرنے چلا گیا۔
واپس آیا تو اس کے لباس میں تبدیلی آ گئی تھی وہ اب ٹرؤزر اور لوز شرٹ میں ملبوز تھا۔
اس نے کمرے کی مین لائٹ بند کی اور ڈم لائٹ اون کرتے وہ اس کے پہلو میں آ کے نیم دراز ہو گیا۔
نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔وہ فرصت سے اس کے ایک ایک نقش کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اس کا ایک ہاتھ گال کے نیچے تھا۔۔۔۔چہرے پر دنیا جہاں کا چین و سکوں اتر آیا تھا۔۔۔اسے اتنی گہری نیند سوتے دیکھ یہ چین و سکوں حیدر کے دل میں بھی اتر رہا تھا۔۔۔۔ایک عہد پورا ہوا تھا عزت دینے کا لیکن ابھی بہت سے عہد باقی تھے۔۔۔۔اسے نہیں پتا تھا وہ کتنی دیر رات تک اسے دیکھتا رہا تھا اور کب اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتی بند ہو گئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ معمول سے ہٹ کر کافی دیر سے اٹھی تھی۔۔۔۔اس نے آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کی تھی اور کچھ ہی دیر کی کوشش کے بعد اس کی آنکھیں سامنے کا منظر دیکھ پوری طرح کھل گئیں تھیں اور ذہن ایک جھماکے سے بیدار ہو گیا تھا۔
وہ اس کے برابر لیٹا اسی کی طرف کروٹ کئے خواب و خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔۔۔ماتھے پر اس کے بھورے بال بکھرے تھے چہرہ پردوں سے ہلکی ہلکی آتی روشنی سے چمک رہا تھا۔۔۔زینب کو آہستہ آہستہ سب یاد آ گیا تھا۔۔۔۔لیکن اس کے سمجھ نہ آئی اسے تو سلیپنگ پلس لے کر بھی کبھی اتنی گہری نیند نہیں آئی تھی اور اسے اچھے سے یاد تھا کل اس نے سلیپنگ پلس نہیں لیں تھیں تو پھر کیسے۔۔۔۔
وہ اتنی بےفکری کی نیند اس ملنے والی عزت کی وجہ سے سوئی تھی جو حیدر کی وجہ سے اسے ملی تھی لیکن یہ بات اس کے شعور میں نہیں تھی۔۔۔
سوچوں میں گھری وہ کمفرٹر خود سے ہٹاتی بستر سے اٹھی تھی اور اپنا عکس سامنے رکھی ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں دیکھ اسے ایک اور جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔وہ اس قدر بھاری لباس اور جویلری میں ہی سو گئی تھی۔۔۔وہ یقین نا کر پائی۔
"کیا مصیبت ہے" وہ جھنجھلائے ہوئے انداز میں بڑبڑائی تھی۔
اسے اب نئی فکر لاحق ہو گئی تھی اسے کپڑے تبدیل کرنے تھے پر وہ تو یہاں ایسے ہی آ گئی تھی کپڑے تو سب اس کے گھر پر تھے۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی حیدر کی وارڈروب کے جانب بڑھی تھی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے وارڈروب کھولا تھا۔۔۔۔۔ایک اور جھٹکا لگا تھا اسے۔۔۔۔۔وارڈروب کے دائیں طرف اس کا سارا سامان موجود تھا کپڑے کتابیں فائلز ہر چیز سلیقے سے رکھی تھی۔۔۔۔اس نے پیچھے مڑ حیدر کو دیکھا تھا جس کی پشت اس کی طرف تھی۔۔۔۔یہ سب وہی لایا تھا اور لا بھی کون سکتا تھا اس نے سوچا تھا۔
کچھ دیر لگا کہ اس نے ایک امبروئیڈری والا ڈم یلو رنگ کا سوٹ جس پر لال رنگ سے
امبروئیڈری ہوئی تھی منتخب کیا اور شاور لینے چلی گئی۔
اس کے گیلے کالے بال کمر پر بکھرے تھے۔۔۔۔دوپٹہ کندھے پر ڈالا تھا اور وہ دائیں ہاتھ میں ٹاول لئے باتھروم سے نکلی تھی اور حیدر کو دیکھ ایک سیکنڈ کے لئے رکی اور ہمیشہ کی طرح اگنور کرتی دروازے سے ہٹ گئی۔۔۔
حیدر سامنے صوفے پر بیٹھا اسی کے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔حیدر کی نظر اس پر پڑی تھی اور کمر پر بکھرے اس کے سیاہ بالوں میں الجھ گئی تھی وہ کتنی ہی دیر اس کے سیاہ بالوں کو دیکھتے رہا اور بمشکل سر جھٹکتا فریش ہونے باتھروم میں گھس گیا۔
زینب نے تولئے سے بال خشک کئے۔۔۔اپنے سامان سے ہیئر برش نکالا۔۔۔بالوں میں برش کیا اور بال گیلے ہونے کی وجہ سے آدھے بالوں کو کیچر لگا کے سیٹ کر دیا۔
وہ اپنی کروائی میں اتنی مصروف تھی حیدر کی موجودگی کو نوٹ ہی نا کر سکی۔
حیدر نے ڈریسنگ پر چیک رکھا تو زینب نے چونک کے اسے دیکھا وہ باتھ لے کے آگیا تھا۔۔۔۔سفید کرتے شلوار میں ملبوز۔۔۔۔استینوں کے کف کو موڑے۔۔۔۔گیلے بال ماتھے پر سجے تھے وہ چہرے پر نرم تاثر لاتا اس سے کہہ تھا۔
"مہر ہے تمہارا" وہ کہہ کے پلٹ گیا تھا اور چیک پر اماؤنٹ کے خانے میں موجود ہندسے دیکھ زینب کا پرا آسمان کو چھونے لگا تھا۔
نکاح کے وقت مہر کیا بتایا گیا تھا اسے یاد نہ تھا۔۔۔۔جتنے بڑے باپ کا وہ بیٹا تھا اور جتنا وہ بزنس چلا چکا تھا اسے پتا تھا ایک کڑوڑ کی یہ رقم وہ دے سکتا تھا لیکن زینب کو لگا اسے ذلیل کیا گیا ہے۔۔۔۔اسے لگا ایک بار پھر حیدر نے اس کے منہ پر پیسے مارے ہوں۔۔۔۔اس نے بھی وہی کیا جو اس دن کیا تھا چیک پھاڑا اور وہیں رکھ دیا۔
حیدر جو اس کے پیچھے ہی کھڑا بال سیٹ کر رہا تھا جانتا تھا کیا ہونے والا ہے۔۔۔۔اس نے وارڈروب سے چیک بک نکال ایک اور چیک بنایا اور اب کے زینب کے ہاتھ میں زبردستی تھماتے ہوئے کہا۔
"میں دے سکتا ہوں تو دے رہا ہوں"
"لیکن میں نہیں لے سکتی" زینب نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے غصے سے کہا۔
"حق مہر ہے تمہارا" وہ صبح سے ہی نرمی سے بات کر رہا تھا۔
"میں نہ کوئی حق لینے کی روادار ہوں نہ دینے کی۔۔۔۔میں نے اپنے تمام حق معاف کئے تمہیں" اس نے دو ٹوک انداز میں کہتے جیسے بات ہی ختم کی تھی۔
حیدر اس کی آخری بات پر نا چاہتے ہوئے بھی مبہم سا مسکرا دیا۔
"میں اپنے حق معاف کر سکتا ہوں تمہارے نہیں۔۔۔۔تم معاف کرنا چاہو تب بھی نہیں۔۔۔۔" وہ اس پر آنکھیں گاڑھے کہہ رہا تھا۔
"دے کے تو میں تمہیں رہوں گا ایسے نہیں تو ویسے سہی" اب کی بار اس نے چیک کے ٹکرے خود کرتے پراسرار لہجے میں کہا تھا۔
زینب کے دل میں آیا پوچھے "کیسے" لیکن پھر یہ سوچ کہ چپ ہوگئی "دے گا تو تب ہی نہ جب میں لوں گی اور جب میں لوں گی ہی نہیں تو دے گا کسے"
زینب نے سر پر دوپٹہ لیا وہ حیدر کو دیکھ چکی تھی وہ مسلسل اس کے بالوں کو دیکھے جا رہا تھا۔ اور بیڈ پر کتاب کھول کے بیٹھ گئی جو اس نے کچھ دیر پہلے نکالی تھی۔
حیدر نے اس کے ہاتھ سے کتاب جھنپٹتے بیڈ پر پٹخی اور اس کی کلائی پکڑتے اپنے پیچھے گھسینٹا۔۔۔۔۔زینب ایک دم بوکھلا گئی وہ تیز تیز چلتا اسے باہر لے آیا تھا زینب نے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا لیکن سامنے سے آتی ثانیہ بھابی کو دیکھ کے رک گئی۔
"اٹھ گئے تم دونوں۔۔۔۔ میں تم ہی دونوں کو بولانے آئی تھی ناشتے کے لئے" ثانیہ بھابی کی چلتی زبان ان دونوں کے ہاتھ دیکھ کے رکی تھی۔
زینب نے ان کی آنکھوں کا ارتکاز کرتے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو حیدر کی گرفت میں تھا اور پھر حیدر کو وہ مسکرا رہا تھا زینب کا دل چاہا اس کا قتل کر دے۔
"آجاؤ" وہ مسکراہٹ دبانے کی ناکام کوشش میں بولیں تھیں اور ان کے آگے آگے کچھ ہی فاصلہ رکھے چل رہیں تھیں زینب نے ناچار اپنے ہاتھ کو اس کی گرفت میں ڈھیلا چھوڑ دیا۔
ڈائننگ ہال میں آتے زینب نے دیکھا تھا سب کے چہروں پر خوشی تھی اور سب اس کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔زینب کو حیرت ہوئی کیا اتنی بڑی محفل میں کوئی نہیں تھا انہیں بتانے کے لئے کہ وہ کس کو بہو بنا کے لے آئیں ہیں؟ اور حیدر اس کا کیا مقصد ہے مجھے یہاں لانے کے پیچھے؟ وہ سوچ ہی رہی تھی جب حیدر نے کرسی کھینچ کے اسے بیٹھنے کی آفر کی۔۔۔زینب بیٹھ گئی تو وہ اسی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
حیدر نے اسے آج بھی خود سروہ کیا تھا۔۔۔۔زینب سب کی مسکراتی نظریں باآسانی خود پر محسوس کر سکتی تھی۔۔۔اسے حیدر پر اب نئے سرے سے غصّہ آ رہا تھا اسے کیا ضرورت تھی یہ دیکھاوا کرنے کی۔۔۔۔۔دیکھاوا؟ وہ اس لفظ پر رکی تھی۔۔۔۔وہ دیکھاوا کر رہا تھا نہیں وہ دیکھاوا نہیں کر رہا تھا وہ تو جب کوئی نہیں ہوتا تھا تب بھی یہی کرتا تھا۔۔۔۔جب حیدر کے دفع میں اس کے دل نے اس کے اعتراضات کو رد کیا تو اس نے سر جھٹک دیا۔۔۔مطلب وہ اس کے بارے میں کچھ اچھا نہیں سوچنا چاہتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہوئی تو ایک بار پھر محفل سجی۔۔۔۔وہ ایک بار دلہن بنی۔۔۔۔۔بے بی پنک کلر کی میکسی جس پر سلور رنگ سے کام ہوا تھا میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔یہ طے کرنا مشکل تھا کہ اس کا حسن کل اس شوخ رنگ میں زیادہ اٹھ رہا تھا یا آج اس ہلکے رنگ میں۔۔۔۔۔وہ اسٹیج پر بیٹھی تھی اور اس کے گرد لڑکیوں کا ہجوم لگا تھا جن میں رانیہ اور نور بھی شامل تھیں۔۔۔۔۔ایک بار پھر لوگوں سے وینیو بھرا پڑا تھا لیکن اس بار بم کسی اور پر گرنا تھا جو اس محفل میں موجود تھا اور خوش تھا اور آج یہ خوشی ہوا ہونی تھی۔
"عاشی" عبّاس عالَم نے زینب کے پاس بیٹھی عائشہ کو آواز لگا اپنے پاس بلایا تھا۔
"جی بابا۔۔۔آئی" عائشہ کہتے ساتھ اپنی گلابی رنگ کی فوراک جس پر گولڈن کام جگہ جگہ ہوا تھا سنمبھالتی ہوئی اسٹیج سے اتر ان کے پاس پہنچ گئی۔
"بیٹا آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے" وہ تمہید باندھ رہے تھے۔
"جی کہیے" اس نے تمام تر توجہ ان کی طرف ملبوز کی۔
"ہمارے تین بچوں کا تو ہم نے فرض ادا کر دیا اب ہم آپ کا فرض بھی ادا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔آپ کا ایک پروپوسل آیا ہے اور ہمیں بہت پسند ہے اگر آپ اجازت دیں تو ہم بات آگے بڑھائیں" وہ اس سے اس کی رضامندی مانگ رہے تھے۔
عائشہ انہیں منع نہیں کر سکتی تھی وہ احسان فراموش نہیں تھی لیکن اس لمحے اسے بےتحاشا رونا آیا تھا وہ جو نہیں کرنا چاہتی تھی پتا نہیں کیوں لیکن اسے وہی کرنا پڑتا تھا۔
"جیسے آپ بہتر سمجھیں بابا"
"آپ خوش تو ہیں" وہ اطمینان کرنا چاہتے تھے۔
"جی" اس نے مصنوئی مسکان لبوں پر سجائی۔
"ان سے ملو یہ ہیں علی احمد حیدر کے دوست پروپوسل ان ہی کی طرف سے آیا ہے۔۔۔۔آپ دونوں بات کریں آئی ول جوائن یو لیٹر" عبّاس عالَم نے عائشہ کے پیچھے کھڑے علی سے اس کا تعارف کرایا اور اپنے کسی کولیگ کے بلانے پر وہ ان سے ایکسکیوز کرتے چلے گئے۔
"آپ" وہ حیرت زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی جس نے بلیک رنگ کی ٹی۔شرٹ پر گریئش رنگ کا کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا۔ آج ان دوستوں کی تھیم یہی تھی وہ سب اسی لباس میں ملبوز تھے۔
"جی بلکل میں" اس نے ایک ہاتھ سینے پر رکھا اور مسکرایا۔
"میں۔۔۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکی تھی اور تیزی سے وینیو سے باہر کے لئے نکل گئی۔
علی کو سمجھ نا آیا ہوا کیا۔۔۔وہ پریشان سا اس کے پیچھے لپکا۔
"عاشی" وہ سنسان سڑک دیکھ پکارا تھا۔
"عائشہ نام ہے میرا" وہ برخلاف غصّے سے دھاڑی تھی۔
"ہوا کیا ہے" وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
"کیا ہوا ہے!!!! میں نے آپ کو منع نہیں کیا تھا کہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی"
"نہیں" ماتھے پر شکنے ابھریں تھیں۔۔۔۔۔دل ہی دل میں وہ یہ سوچ مسکرایا تھا۔۔۔۔اسے معلوم تھا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
"ہاں تو میں اب بتا رہی ہوں مجھے آپ سے یا کسی سے بھی شادی نہیں کرنی۔۔۔۔"
"کیوں" وہ بیچ ہی میں بول پڑا۔
"میری مرضی" اس نے زور دیا تھا اپنے لفظوں پر۔
"اب آپ جا کر انکار کر دیں عبّاس بابا کو" وہ حکم دے رہی تھی۔
علی نے گردن نفی میں ہلائی تو عائشہ نے اپنے غصّے کو ضبط کرتے پوچھا۔
"کیوں"
"میری مرضی" وہ کہتے ساتھ مسکرایا تھا۔۔۔۔کمینگی سے کم از کم عائشہ کو تو ایسا ہی لگا۔
"ہر وقت مذاق ہر وقت مذاق۔۔۔آپ نے زندگی کو مذاق سمجھ رکھا ہے کوئی کھیل تماشا ہے یہ سب آپ کے لئے۔۔۔آپ کبھی سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔۔۔آپ کے لئے سب کچھ بہت آسان ہے۔۔۔جا کے کہہ دیا عائشہ سے شادی کرنی ہے مجھ سے پوچھا آپ نے میں کیا چاہتی ہوں۔۔۔۔نہیں نہ لیکن میں بتا دیتی ہوں آپ کو میں آپ جیسے غیر سنجیدہ غیر ذمدار آدمی سے شادی نہیں کرنا چاہتی نہ میں کروں گی" وہ رو رہی تھی کیوں وہ نہیں جانتی تھی پر اس کے آنسو علی کو چپ کرا گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی کلائی اور بستر خون میں تر تھے۔۔۔۔اس کے اپنے خون سے تر۔۔۔۔وہ جب اس کو پکارتے اس کے کمرے تک آیا تو ایک شدید خوف کی لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔۔۔۔اس نے ایسا کیوں کیا تھا اسے سمجھنے میں بس کچھ وقت لگا تھا۔۔۔۔اور پھر جیسے وہ محبّت نامی جذبے سے اتنی نفرت کرنا چاہتا تھا کہ اس کی یہ نفرت محبّت کو جھلسا دے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔۔لیکن وہ ایسا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔۔
کائنات کی ہر شئے اپنے مدار میں گھومتی ہے اور جب کوئی شئے اپنے مدار سے نکل جائے تو صرف تباہیاں اس کا مقدر بنتی ہیں۔۔۔۔وہ محبت کرتے کرتے اس کے مدار سے نکل گئی تھی تو کیوں تباہی اس کا مقدر نہیں بنتی۔۔۔۔مانا کے محبّت کا غم روح کو وہ اذیت دیتا ہے جو کوئی اور جذبہ نہیں دیتا لیکن یہ اتنی بھی ناقابلِ برداشت نہیں کہ ہم خود کو نہ زمین کا چھوڑیں نہ آسمان کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ڈریسنگ روم تھا حاشر کو یہاں ایک بچا یہ کہہ کے لیا تھا کہ کوئی اسے بلا رہا ہے پر یہاں تو کوئی نہیں تھا۔ وہ اس بچے سے پوچھنے کے لئے موڑا تھا پر وہ بچا پہلے ہی وہاں سے بھاگ گیا تھا۔
وہ جانے ہی لگا تھا کہ اپنے پیچھے چوڑیوں کی آواز سن وہ ہلکا سا مڑا۔
وہ سامنے بیٹھی تھی سفید رنگ کی چھوٹی کمیز میں زیب تن کئے جس پر گولڈن گوٹے کا کام ہوا تھا جو گھٹنوں تک آ رہی تھی اور اس پر اس نے گھیردار پلازو پہنا تھا۔۔۔۔سفید رنگ کا ہی دوپٹہ اس کے شانوں پر سلیقے سے سیٹ تھا۔۔۔۔ہاتھ میں گولڈن اور سفید رنگ کی چوڑیاں موجود تھیں۔۔۔۔اس لڑکی کو دیکھ حاشر نے نکلنے کی۔۔۔.لیکن وہ پہلے ہی بول پڑی۔
"میں نے ہی بلایا تھا آپ کو"
"جی" اسے چار نا چار رکنا پڑا۔
"مجھ سے شادی کریں گے۔۔۔جواب سوچ سمجھ کر دیے گا کیوں کہ یہ پستول اٹومٹک ہے اور نہ لفظ سنتے ہی چل پڑتی ہے" اشہل نے پستول ٹیبل کے اوپر رکھ کے حاشر سے کہا۔
سوال انتہائی غیر متوقع تھا حاشر کی حیرت بجا تھی۔
"آپ مجھے پرپوز کر رہیں ہیں وہ بھی دھمکی دے کے" وہ سنمبھال چکا تھا ریلیکس سے انداز میں پوچھ رہا تھا۔
"یا اکزیکٹلی میں آپ کو دھمکی ہی دے رہی ہوں اور جہاں تک رہی پرپوز کرنے کی بات تو وہ میں کیوں کرنے لگی میں تو آپ کے ہی بھلے کی بات کر رہی ہوں"
"اور بھلا اس میں میرا کیا بھلا ہے" اس نے جاننا چاہا۔
"آپ کو کوئی اپنی لڑکی دینے سے رہا تو میں نے سوچا کیوں نہ یہ سوشل ورک میں ہی کر لوں" وہ مانو اس سے شادی نہیں کر رہی تھی احسانِ عظیم کر رہی تھی۔
"میں آپ سے شادی کیوں کروں گا؟"
"مجھ سے شادی کی دو وجوہات ہیں آپ کے پاس اول تو یہ کہ آپ کو اپنی جان عزیز ہے اور دوسری یہ کہ میں ایک اچھی بیوی ثابت ہوں گی کیوں کہ مجھے اچھا پکانا آتا ہے اور اچھا صفایا کرنا آتا ہے" اس نے اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑھے۔
"صفایا۔۔۔۔صفائی" حاشر نے تصحیح کی۔
"جی وہی" اس نے ناک سے مکھی اڑائی۔
"زندگی میں پہلی بار میں ایک ایسی لڑکی دیکھ رہا ہوں جو گن پائنٹ پے پروپوسل قبول کروا رہی ہے" وہ اس کے انداز سے مرعوب لگ رہا تھا۔
"پہلی اور آخری بار اور اگر آپ کا جواب مثبت نہ ہوا تو آپ دنیا بھی آخری بار ہی دیکھ رہے ہوں گے" وہ بتا رہی تھی وہ علی کی ہی بہن تھی۔
"وہ تو میں ہاں کروں یا نہ دونوں صورتوں میں ہی آخری بار دیکھ رہا ہوں" وہ پھنس گیا تھا ہاں کرتا تو علی مار دیتا نہ کرتا تو یہ چڑیل مار دیتی۔
"تو آپ بھائی سے کب بات کر رہے ہیں ہماری شادی کی" وہ ساری بات آج ہی فائنل کرنا چاہتی تھی۔
"میں کیوں بات کروں گا آپ خود ہی کریں" اس نے جان چھوڑانی چاہی۔
"میں بھائی سے اپنے ہی رشتے کی بات کرتی اچھی لگوں گی؟" اس نے ہاتھ سر پر مار اس کی عقل پر ماتم کیا۔
"مجھے اس طرح پروپوز کرتی آپ اچھی لگ رہی تھیں؟" اس نے سوال کے بدلے سوال کیا۔
"یہ تو آپ بتائیں گے" وہ ڈرامائی انداز میں دوپٹہ منہ میں دباتی شرمائی تھی۔
"حسین چڑیل" وہ بڑبڑایا۔۔۔۔مسکرایا اور ڈریسنگ روم سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ونیو سے واپسی پے ایک عجیب خاموشی حائل تھی سارے راستے۔۔۔۔۔جہاں کل کا سفر ہنسی مذاق لطیفوں چھیڑ چھاڑ میں کٹا تھا زینب کا آج وہیں بکل خاموشی تھی۔۔۔۔حیدر کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی دیکھی تھی زینب نے۔۔۔۔لمحے لگے تھے زینب کو جاننے میں۔۔۔بات جو اب تک چھپپی رہی تھی سب سے۔۔۔۔۔اب کسی سے نہ چھپپی تھی۔۔۔۔۔وہ جوش اور خلوص کل تک تھا زینب کے لئے آج معدوم ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ایک نیا امتحان تھا اس کے ضبط کا جو شروع ہونے کو تھا۔۔۔۔۔لیکن اب وہ اکیلی نہیں تھی حیدر ساتھ تھا اس کے ہر قدم پر۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top