الجھانیں میری


ایک کے پیچھے ایک شاندار گاڑیاں عباس مینشن کے پورچ میں داخل ہوئیں اور اسی طرف سب ایک ایک کر ولیمے کی دلہن کو اکیلا چھوڑ اندر چلے گئے سوائے حیدر کے۔

حیدر اب بھی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا اور پیچھے وہ بیٹھی اسے منصوبے اب سمجھنے لگی تھی۔۔۔۔کیوں اس سے شادی کی تھی۔۔۔۔کیوں وہ اسے یہاں لے کے آیا تھا۔

زینب نے کھسک کے دروازے کا ہینڈل تھاما لیکن اس سے پہلے وہ دروازہ کھول پاتی حیدر نے پہلے ہی کھول دیا اور اپنی ہتھیلی آگے بڑھائے وہ اس کی مدد کے لئے کھڑا تھا۔۔۔زینب نے ایک نظر اسے دیکھا اس کے چہرے پر تھکا تھکا سا تاثر تھا اور پھر اس نے نظریں پھیر لیں۔۔۔۔اپنی میکسی کا گھیر اوپر اٹھاتی وہ باہر آ نکلی۔۔۔حیدر نے آہستگی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور پینٹ کی جیب میں ڈال دیا۔

وہ گر جانے کے ڈر سے چھوٹے چھوٹے قدم لے رہی تھی اور حیدر اس کے ساتھ قدم ملا کر چل رہا تھا۔

اپنے کمرے میں آتے ہی حیدر نے وارڈروب سے ٹراؤزر اور شرٹ نکالی اور باتھروم میں گھس گیا۔ اس کے واپس آنے تک زینب اپنی جیولری اتار چکی تھی اور اپنا سادہ سا کالے رنگ کا لباس ہاتھ میں لئے حیدر کے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔

وہ باہر آیا تو زینب چینج کرنے چلے گئی جب واپس آئی تو کمرے میں کہیں بھی نظر نہ آیا۔۔۔اسے تھکن محسوس ہو رہی تھی اپنے دماغ میں اٹھتے سوالوں کو ایک طرف کرتی وہ بستر پر کمفورٹر تان کر سو گئی۔

رات کافی دیر وہ کمرے میں آیا تو زینب کو سوتا پایا۔۔۔وہ چاہتا بھی یہی تھا اسی لئے کمرے سے چلا گیا تھا۔۔۔۔اپنی سائیڈ سنمبھلاتا وہ اسے آج پھر فرصت سے تک رہا تھا جو اس کی نیندیں اڑاتی مزے سے سو رہی تھی۔

کہاں محترمہ کو نیند نہیں آتی تھی اور کہاں اب یہ میرے بستر پر بے فکری سے سو رہی رہیں۔۔۔وہ سوچتے ہوئے مبہم سا مسکرایا۔

"میں تمہاری زندگی سے سارے رتجاگے مٹا دوں گا۔۔۔تمہیں اپنی پناہوں میں لیتے میں تمہارا گلاف بن جاؤں گا تمہاری پاکیزگی پے کسی کے کہے گند جملوں کی گرد نہیں لگنے دوں گا۔۔۔۔تمہیں میرے لباس بنایا گیا ہے میں اس پر داغ نہیں لگنے دوں گا۔۔۔رات کی یہ تاریکی یہ خاموشی گواہ ہے حیدر عبّاس اپنے وعدوں سے پھرنے والا نہیں میں تم سے کیا ہر وعدہ نبھاؤں گا" وہ تصور میں اس سے مخاطب تھا۔۔۔۔اس کی آنکھیں نیند سے خالی تھی جیسے نیند چرا لی ہو کسی حسین خواب کی تعبیر نے۔۔۔۔۔جیسے وہ ان لمحوں کو کھونا نہ چاہتا ہو جو لمحے اس کے ساتھ تھے۔۔۔۔جن لمحوں میں وہ اس کے ساتھ تھی۔۔۔۔وہ اس کے علاوہ فل وقت کچھ اور نہیں سوچنا چاہتا تھا اسی لئے وہ وہی کر رہا تھا جو اس کی چاہت تھی۔۔۔اسے سوچ رہا تھا۔۔۔۔اور انہی لمحوں کے دامن میں اس کی محبّت نے ایک دریچہ عبور کر لیا تھا اور زینب کی محبّت پانے کے لئے ابھی بہت سے دریچے عبور کرنے باقی تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بات کو کھولے آج دو دن ہو گئے تھے اور ان دونوں دنوں میں عبّاس مینشن میں وہی خاموشی چھائی تھی جس کا آغاز ولیمے کی واپسی کے روز ہوا تھا۔

ان دو دنوں میں اگر زینب سے کسی نے بات کی تھی تو وہ احد سعید عبّاس تھا جس سے زینب کی بہت اچھی دوستی ہو چکی تھی۔

ابھی بھی وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے جا رہا تھا کیوں کہ اسے اپنے ٹوائس اپنی اسکول بکس ویڈیو گیمز اور اسی طرح کی کئی چیزیں زینب کو دکھانی تھیں۔

وہ پر جوش انداز میں اس کے ساتھ چلتے اپنے نئے ویڈیو گیم کی خاصیت اور تفصیلات اسے بتا رہا تھا جسے زینب پوری توجہ سے سن رہی تھی۔

"کیچ می زینی" وہ کہتے ہی دائیں طرف بھاگا تھا۔

"احد" اس نے تقریباً احد کے پیچھے لپکتے ہوئے آواز لگائی تھی لیکن اسے دیر ہو گئی تھی وہ منظر سے غائب ہو چکا تھا۔

زینب پریشان سی کھڑی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کون سی جانب راہ لے کیوں کہ یہاں دو راستے نکلتے تھے ایک دائیں اور ایک بائیں۔۔۔۔تھوڑی دیر اور سوچتے رہنے کے بعد اس نے دائیں جانب اپنے قدم بڑھائے۔۔۔۔یہاں ایک صف میں کمروں کی قطار موجود تھی جن کے درمیان اچھا خاصا فاصلہ حائل تھا۔

زینب ایک کے بعد ایک کمرے کے آگے سے گزر رہی تھی اور بہت آہستہ سے اسے پکار رہی تھی لیکن احد کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔

پھر ایک آواز نے زینب کے قدم جکڑ لئے تھے۔

"تمہاری عقل کیا گھاس چرنے گئی تھی جو تم نے اس لڑکی سے شادی کر لی جانتے ہو کتنا نقصان ہوا ہے ہمیں بزنس میں کتنے لوگ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں تھا جس لڑکی کو ہم خوشی خوشی بیاہ کر گھر لائے تھے اس کا خون کیسا ہے تم نے شادی کرنی تھی کر لی اب اسے چھوڑ دو" وہ غصّے سے بھرے اسٹڈی میں حیدر سے مخاطب تھے ان کے غصّے کا گراف کہاں تک پہنچا ہوا تھا زینب ان کی آواز میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے بخوبی اندازہ لگا سکتی تھی۔

جو اگلی آواز زینب کی سماعتوں سے ٹکرائی وہ حیدر کی تھی عبّاس صاحب کے برعکس اس کا لہجہ اور انداز دونوں ہی پراطمینان تھے۔

"عشق عقل کو مات دے دیتا ہیں اس میں خسارہ اور نفع نہیں دیکھا جاتا۔۔۔میرا ساتھ اس کا رشتہ میری سانسوں کے ساتھ بندھا ہے جس دن یہ سانسیں ٹوٹ گیں یہ رشتہ بھی ٹوٹ جائے گا اب آپ میری موت کی دعا کریں"

وہ جو گردن جھکائے انگلیوں کو مسلتی دروازے سے کان لگائے کھڑی تھی اس نے کرنٹ کھا کے بند دروازے کو دیکھا۔۔۔۔وہ سامنے نہیں تھا پر آواز تو اسی کی تھی لیکن وہ کیا اور کیوں بول رہا تھا زینب کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔اسے لگا حیدر عبّاس پاگل ہو گیا ہے پہلے نکاح کیا پھر اپنے گھر لے آیا اور اب یہ نیا قصہ شروع کر کے بیٹھ گیا ہے۔۔۔۔

"حیدر بکواس مت کرو مجھ سے" وہ تڑپے تھے لیکن انہوں نے درشتگی سے کہتے حیدر کو جھاڑا تھا۔

"بکواس نہیں ہے سچ ہے" اس کے لہجے میں عجیب سا کچھ تھا جو بار بار زینب کو ٹہٹکا رہا تھا اور عبّاس عالَم کو بھی۔۔۔۔وہ چپ سے اسے دیکھے گئے جو گرینش ڈنر سوٹ میں ملبوز دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے کھڑا انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔

عبّاس عالَم کی آج ایک ڈیل ڈن ہونی تھی جو ان کے لئے بہت معنٰی رکھتی تھی لیکن اینڈ ٹائم پر مطلوبہ کمپنی کے اونر نے ڈیل کرنے سے انکار کر دیا وجہ پوچھنے پر انہوں نے بہت ہی چھبتے ہوئے لہجے میں عبّاس عالَم سے انکی بہو کا ذکر جن لفظوں میں کیا عبّاس عالَم اپنا غصّہ کنٹرول نہ کر سکے اور آفس میں کتنے ہی امپلوئس سے ان کی منہ ماری ہو گئی۔۔۔۔۔وہ وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے اور حیدر کو کال کر سائٹ سے فوری گھر آنے کا کہا اور اب وہ ان کے سامنے ہر سوال کا جواب لئے کھڑا تھا۔

"ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں سب کچھ آپ کی اجازت سے ہی ہوا ہے" عبّاس عالَم کی گھوریوں سے ڈسٹرب ہوتے اس نے بینا سوچے کہا تھا۔

"تم نے جھوٹ بول کے اجازت لی تھی" انہوں نے یاد کرایا تھا۔

"جھوٹ نہ بولتا تو آپ کر دیتے اس سے میری شادی" وہ اپنے جھوٹ بولنے کی وجہ بتا رہا تھا۔

"ہر گز نہیں" ان کا انداز قطعی تھا۔

"اسی لئے بولا" اس نے جتاتی نظر باپ پر ڈالی۔

"تم نے کر لی شادی ہم نے کر دی تمہارا شوق پورا ہو گیا اب اسے چھوڑ دو" وہ منانے لگے تھے اسے لفظوں سے یہی لگتا لیکن آواز میں اس کی کوئی رمق شامل نہیں تھی کیوں کہ وہ اسے شہہ نہیں دینا چاہتے تھے۔

"شوق پورا کرنے کے لئے نہیں کی اس سے شادی عشق پورا کرنے کے لئے کی ہے"

زینب اب اس کے عجیب قسم کے اعترافات سے جھنجلا رہی تھی یا تو وہ پاگل تھا یا اپنے باپ کو بنا رہا تھا۔

"محبوباؤں کے لیے بھی مرد اتنے پاگل نہیں ہوتے جتنے تم بیوی کے لئے ہو رہے ہو۔۔۔۔۔زندگی میں پہلی بار میں ایسا مرد دیکھ رہا ہوں " وہ اپنی حیرت زیادہ دیر چھپا نہیں سکے۔

"یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم گھنٹوں یونیورسٹی کے باہر کھڑے ہو کر گرل فرینڈ کا تو انتظار کر سکتے ہیں پر بیوی کا نہیں بیوی دیر سے آئے تو ہم اسے جھڑکنے لگتے ہیں جب کہ گرل فرینڈ کے دیر سے آنے پر ہمیں کتنا بھی گراں کیوں نہ گزرے ہم اسے ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتے بلکہ اسے خوش کرنے کے لیے دنیا بھر کے تحائف پیش کئے جاتے ہیں پر بیوی کے لیے شوہروں کی جیب ہمیشہ ہی خالی ہوتی ہے۔۔۔۔۔بیوی کو ہمارا لباس بنایا گیا ہے ہماری روح کا حصہ بنایا گیا ہے لیکن اسے ہم صرف پیر کی جوتی سمجھتے ہیں خیر یہ ایک الگ بحث ہے حیدر بغیر حق کے کوئی کام نہیں کرتا پر عشق ہو گیا تھا اس کی ذات سے بغیر کسی حق کہ تو اپنا بنا لیا اب سے قیامت تک وہ صرف حیدر عباس کی ہے صرف میری آپ کہہ رہے تھے کہ میں اس کے لیے پاگل ہوں آپ غلط کہہ رہے تھے میں اس کے لیے بری طرح پاگل ہوں۔۔۔۔آئی لؤ ہر میڈلی۔۔۔سکلی۔۔۔کریزلی"

I love her madly sickly crazily

اندر جہاں عبّاس عالَم ششدہ ہو گئے تھے تو باہر زینب کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔بلکہ اس کی تو دنیا ہی گھومنے لگی تھی جب سے یہ شخص اس کی زندگی میں آیا تھا۔۔۔۔۔اس نے گھومتے ہوئے سر کے ساتھ اپنے کمرے کی راہ اختیار کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جب سے کمرے میں آئی تھی حیدر کے کہے جملے میں الجھی تھی۔۔۔۔وہ کیا کر رہا تھا اور کیوں زینب کے لئے سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

*شوق پورا کرنے کے لئے نہیں کی اس سے شادی عشق پورا کرنے کے لئے کی ہے*

"عشق" اس کی آواز سماعت سے باہر تھی۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے" دماغ نے دلیل چاہی۔

"وہ جھوٹ بول رہا ہے" دلیل دی گئی۔

"پر وہ کیوں جھوٹ بول رہا ہے" وہ سوچنے لگی۔

"وہ۔۔۔۔وہ ناٹک کر رہا ہے سب ڈرامہ ہے تاکہ۔۔۔۔تاکہ وہ اپنی جھوٹی محبّت کے جال میں مجھے پھنسا سکے اور جب میں یقین کر لوں کہ وہ سچ کہہ رہا ہے تو وہ مجھے ایک جھٹکے سے زمین پر پٹخ مجھے میری اوقات بتائے۔۔۔۔ہاں وہ یہی کرے گا۔۔۔وہ یہی کر سکتا ہے اور یہی کر رہا ہے" زینب نے پورا پزّل حل کر لیا تھا۔۔۔۔ہر بات سمجھ میں آ گئی تھی اسے جب ہی دروازہ کھولتے حیدر آیا تھا اور بیڈ پر بیٹھی زینب کو دیکھا تھا جو لون کے سمپل گرین سوٹ میں ملبوز تھی لیکن چہرے پر گلابیاں بکھریں تھیں۔

حیدر نے اس پر سے نظر تو ہٹا لی تھی پر وہ کیوں لال پیلی ہو رہی تھی وہ سوچنے لگا اور ساتھ ہی اس نے کوٹ اتار صوفے پر ڈالا کف موڑے اور صوفے پے بیٹھ وہ اپنے جوتے اتارنے لگا۔

"تمہیں کیا لگتا ہے مجھے نہیں پتا کہ تم نے مجھ سے اس طرح سے شادی کیوں کی ہے؟" زینب حیدر کے سر پر کھڑی اس سے سوال کر رہی تھی۔

موزے اتارتے حیدر کا ہاتھ روکا اس نے سیدھا ہوتے اپنے سامنے کھڑی اپنی بیوی کو دیکھا جو آج واقعی "بیوی" لگ رہی تھی شوہر کے گھر آتے ہی شروع ہو گئی تھی۔

"اچھا۔۔۔کیوں کی ہے؟" وہ ریلیکس سا ایک ہاتھ صوفے پر پھیلائے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اس سے پوچھنے لگا اور ساتھ ہی زینب کی چپپی ٹوٹنے پر اللہ‎ کا شکر ادا کیا۔

"تاکہ تم مجھے۔۔۔۔۔تکلیف پوھنچا سکو" زینب نے اٹکتے ہوئے بات بدلی تھی اب یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ تمہارے سنہرے اقوال سن لئے تھے آخر کو یہ ایک غیر اخلاقی حرکت تھی اور وہ ابھی اس پر کچھ واضح بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کیوں کہ اب تک حیدر نے اس سے اس قسم کا کوئی اظہار نہیں کیا تھا۔

"اؤہ گریٹ۔۔۔۔تم تو کافی زہین ہو" حیدر نے تالی بجا کے زینب کو سراہا۔۔۔مقصد صرف اسے تنگ کرنا تھا۔

"مسٹر حیدر عباس یہ مت بھولنا کہ صرف میں ہی اس رشتے سے بندھی ہوں تم بھی ٹھیک اسی طرح اس رشتے سے بندھے ہو جسے کے میں۔۔۔۔اسی لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچ لینا کے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں اور یہ کہ یہ مت سوچنا کہ زینب سے شادی کر کے تم نے کوئی مارکا حل کر لیا ہے تم نے اپنے سر پر بلا خود بیٹھائی ہے" زینب نے دل کشی سے مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ سینے پے باندھ لئے اور کہا۔

وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔۔۔۔چند سیکنڈ اسے دیکھتا رہا پھر دو قدم اس کی طرف بڑھائے اور زینب کے کان کے پاس جھکتے ہوئے کہا۔

"سر پر نہیں دل کے تخت پر بٹھائی ہے"

زینب نے اس کی اس حرکت پر بے اختیار پیچھے کی طرف دو قدم لئے۔۔۔ایک پل کے لئے اس کے چہرے پر حیرت کے تاثرات آئے اور پھر ان کی جگہ غصّے نے لے لی۔

" تم مجھ سے ایسے بات نہیں کر سکتے"

"کیسے بات نہیں کر سکتا" حیدر جان بوجھ کے انجان بن رہا تھا۔

"ایسے ہی جیسے تم کر رہے ہو" زینب نے چبا چبا کر کہا۔

"کیسے کر رہا ہو" حیدر کی اداکاری عروج پر تھی۔

"تم اتنے نہ سمجھ بھی نہیں ہو جتنا بننے کی کوشش کر رہے ہو تم مجھ سے فلرٹ نہیں کر سکتے۔۔۔فلرٹی آدمی" زینب نے غصے سے کہا اور لقب بھی دے دیا۔

"فلرٹ کون کر رہا ہے میں تو اظھارِ محبّت کر رہا ہوں" وہ صافگوئی سے بولا۔

"اپنی سو کالڈ محبت تم اپنے تک ہی رکھو اور اگر تمہیں ایسا لگتا ہے کہ تمہاری اس جھوٹی محبت کے اظھار سن میں نابیناؤں کی طرح ایمان لے آؤں گی اور تمہارے آگے بچھی چلی جاؤں گی تو ایسا بلکل بھی نہیں ہے وہ دن کبھی نہیں آئے گا جب میرا دل تم جیسے کے لئے دھکڑنے لگے " وہ اعتماد سے بولی۔

"وہ دن ضرور آئے گا" وہ اسکی آنکھوں میں گہرائی تک دیکھتا۔۔۔۔۔بےیقینی کی حد تھا یقین سے بولتا زینب کے اندر سنسنی دوڑا گیا تھا۔

زینب اس کی بات سے زیادہ اس کے انداز سے اور انداز سے زیادہ اس کی آنکھوں میں موجود آتش سے خوفزدہ ہو گئی اور سیکنڈ ضائع کئے بغیر واک آوٹ کر گئی۔

کمرے سے آ تو گئی تھی پر اب وہ اکیلے ڈائننگ ہال میں جانے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔۔وہ کوریڈور میں کھڑی انگلیوں مروڑتی سوچ رہی تھی جائے یا نہیں جائے۔۔۔۔اس نے سوچ لیا تھا اسے واپس کمرے میں ہی جانا تھا وہ موڑی سامنے وہ کھڑا تھا دروازہ کھولے تروتازہ سا۔۔۔وہ شاید باہر ہی نکل رہا تھا اسے اپنے ساتھ لئے ڈائننگ ہال میں لے آیا۔۔۔عبّاس عالَم نے ایک اٹچکی نگاہ ان پر ڈالی۔۔۔فائزہ بیگم نے کرسی پر ناگواری سے پہلو بدلہ۔۔۔سعید عبّاس نے بھی باپ کی طرح ان پر ایک نظر ڈالی لیکن یہ نظر نرم تاثر لئے تھی۔۔۔۔ثانیہ بھابی اسے دیکھ مدھم سی مسکرائیں تھیں وہ اتنے دنوں میں ایسی کئی مسکراہٹوں کا تبالہ کر چکی تھیں لیکن زینب کو مخاطب ایک دفع بھی نہیں کیا تھا۔ یہاں اگر زینب کو دیکھ کے سچی خوشی کسی کے چہرے پر آئی تھی تو وہ احد تھا۔

کھانا کھانے کے بعد سب معمول کی طرح اپنے اپنے کمروں میں جا گھسے۔۔۔۔زینب نے روز کی طرح کپڑے چینج کئے اور بیڈ پر جا بیٹھی کچھ دیر سوچنے کا شگل فرمایا اور پھر وہ سونے کے لئے لیٹ گئی۔۔۔۔کچھ دیر بعد کسی آہٹ پر اس کی آنکھ کھولی تو سامنے اسی کا چہرہ پایا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"تم۔۔۔۔تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" وہ جھٹکے سے کمفورٹر خود سے ہٹاتی کھڑی ہو گئی تھی۔

"سونے کی کوشش" وہ معصومیت سے بولا۔

"لیکن تم یہاں کیوں سو رہے ہو؟" وہ پریشان لگ رہی تھی۔

"کیوں کہ زندگی کے ستائیس سال میں یہیں سویا ہوں سو اس لئے آج بھی یہیں سوؤں گا" اس نے کونی بیڈ کی سطح پر جمائے ہاتھ کی مدد سے سر کو اوپر کیا تھا۔

زینب اب اس بات پر تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی کیوں کہ یہاں وہ صحیح تھا جگہ اس کی تھی زینب کی نہیں اس نے چپ چاپ بیڈ سے اپنا تکیہ اٹھایا اور کارپیٹ پر لیٹ گئی۔

وہ اسے پہلے گھورتا رہا اور پھر ایک مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا۔

اسنے بیڈ سائیڈ سے اپنا موبائل اٹھایا اور ایک نمبر ملایا۔

"السلام عليكم کون" دوسری طرف جو کوئی بھی تھا اب اس کا تعارف چاہ رہا تھا۔

کال پر چونکہ سپیکر پر ڈالی گئی تھی اسی لئے یہ آواز زینب کی سماعتوں سے بھی ٹکرائی تھی۔۔۔وہ سیکنڈ ضائع ہونے سے پہلے آواز پہچان گئی تھی۔

"میں حیدر عبّاس بات کر رہا ہوں رانیہ" اس نے زینب کو سنانے کے لئے رانیہ کا نام لیا۔

"آپ۔۔۔" حیرت اور ناگواری اس کے لہجے سے عیاں تھی۔

"جی میں۔۔۔" اس کا جملہ سنے بغیر ہی وہ پریشانی سے بولی تھی۔

"زینب ٹھیک تو ہے"

"جی الحمداللہ آپ کی دوست بلکل ٹھیک ہیں دراصل میں نے آپ کو کچھ بتانے کے لیے کال کی تھی" حیدر زینب کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا جو ابھی تک دوسری طرف کروٹ کئے لیٹی تھی۔۔۔۔

"سو نہیں رہی اس کا تو پکا پتا ہے لیکن اٹھ کے کیوں نہیں آ رہی؟" اس نے سوچا اور لب کاٹنے لگا۔

"جی کہیں" وہ لٹھ مار انداز میں بولی۔

"مجھے یہ بتانا تھا کہ احمر نے میری مد۔۔۔" اور اس سے آگے حیدر کچھ بولتا زینب تن فن کرتی اس کے پاس آئی اور موبائل اس کے ہاتھ سے چھین کال ڈسکنیکٹ کر موبائل بیڈ پر اچھال دیا۔

"تمہاری اس حرکت کا مقصد جان سکتی ہوں میں؟" وہ چیخی تھی۔

"یہاں آ کے سو جاؤ" اس نے بیڈ کی دوسری سائیڈ کی طرف اشارہ کیا اور پیروں پر کمفورٹر کو برابر کرنے لگا۔

زینب اپنا کیا سوال یکسر بھول گئی تھی۔

"یہ تمہارا بیڈ ہے تو تم ہی سو یہاں" وہ کہتے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔

"ہاں تو تم بھی میری ہو" وہ بغیر کسی تعمل کے بولا۔

وہ رکی پلٹ کر اسے دیکھا ماتھے پر شکنوں کا جال تھا۔

"پہلے باپ سے اول فول بک رہا تھا پھر مجھ سے پہلی دفع بکواس کی اور اب یہ پھر شروع ہو گیا ہے کہیں یہ" اس نے اپنی سوچوں پر بریک لگاتے ان کو الفاظ کی صورت حیدر کے آگے پیش کیا۔

"تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نشہ واشا تو نہیں کر کے آئے" اس نے متلاشی نظروں سے دیکھتے اس سے پوچھا۔

اس کی بات سن اس کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ ابھری۔

"کر کے آنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو تمہیں دیکھ کے خود ہی چڑھ جاتا ہے" اس نے کہتے ساتھ آنکھ دبائی۔

"کوئی سو۔۔۔نہیں۔۔۔بلکہ انگنت گھٹیا لوگ مارے ہوں گے تب جا کے تم پیدا ہوئے ہو گے" وہ حقارت سے بولی تھی۔

"اگر تم چاہتی ہو میں مزید گھٹیا پن کا مظاہرہ نہ کروں تو یہاں آ کے سو جاؤ" اب کے وہ سنجیدہ ہوا تھا۔

"کیا مطلب" وہ تیکھی نظروں سے اسے گھورتی پوچھ رہی تھی۔

"مطلب یہ کے تم نے میری بات سے انکار کیا تو میں رانیہ کو سب بتا دوں گا" وہ پھر دھمکیوں پے آ گیا تھا۔

زینب کو اس کے رانیہ کو کال کرنے کی وجہ اب سمجھ آئی تھی۔

اس نے کارپیٹ سے اپنا تکیہ اٹھایا۔۔۔۔بیڈ پر پٹخا اور حیدر کے مخالف سمت کروٹ کر کے لیٹ گئی۔

"تم مر کیوں نہیں جاتے" وہ زیادہ دیر اپنی نفرت اس سے چھپا نہ سکی بینا پلٹے بولی۔

"بیوہ پھر بھی میری ہی کہلاؤ گی" وہ اس کی بات کا اثر لئے بغیر بولا زینب کو ستانے کے سارے حربے اس کے پاس موجود تھے۔

زینب کلس کر رہ گئی مرنے کے بعد بھی اسے "اسکی بیوہ ہونے" کا اطمینان تھا۔

زینب نے اس کی کہی باتوں کو زور سے آنکھیں مینچیں بڑی دقت سے ہضم کیا اور ایک لمبی سانس اندر کو کھینچ خود کو پر سکوں کرنا چاہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح سے ہی عبّاس مینشن میں ہر گہما گہمی اور شور برپا تھا کل تک پائی جانے والی خاموشی کا کوئی نام و نشان باقی نہ تھا وجہ کچھ ہی دیر میں زینب کے سمجھ میں آ گئی تھی عبّاس مینشن میں کسی مہمان کی آمد کی تیاریاں ہو رہیں تھیں مگر وہ مہمان تھا کون زینب نہیں جانتی تھی ثانیہ بھابی ملازم کو ھدایت دیتی کمرہ سیٹ کروا رہیں تھیں اور پھر جب حیدر معمول سے ہٹ کے شام کی چائے کے لئے اس کو لئے لان میں آیا تو گھر کے سب لوگ اس وقت یہیں موجود تھے زینب کو دیکھ حیدر کے پیرنٹس کی مسکراہٹ معدوم ہوئی تھی۔ زینب سے ان کے تاثرات چھپے نہیں رہے تھے۔

حیدر نے اپنی فیملی کے بیچ میں بیٹھے مہمان سے زینب کا تعارف کرایا وہ کوئی اور نہیں تھی۔۔۔۔عائشہ اصغر تھی جسے زینب دیکھتے ہی پہچان گئی تھی۔۔۔۔زینب کو اچانک ہی یاد آیا تھا یہی وہ لڑکی تھی جو اسے ولیمے والے دن مسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھی لیکن تب زینب اسے پہچان نہیں پائی تھی۔

زینب خوشدلی سے عائشہ سے ملی۔ حیدر اسے لئے وہیں سب کے ساتھ بیٹھ گیا تھا اور زینب خود کو ان سب کے دوران بہت مس فٹ محسوس کر رہی تھی۔

لان میں ان سب کے ساتھ وقت گزرنے پر زینب کو اتنا تو پتا چل گیا تھا کہ عائشہ کی شادی ہو رہی ہے اور عبّاس پینشن اس کی مستقل رہائش گاہ نہیں تھی لیکن چونکہ عبّاس عالَم اسے اپنے گھر سے رخصت کرنا چاہتے تھے اسی لئے اسے یہاں لے آئے تھے۔

جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے شادی کی تیاریوں میں روانی آتی جا رہی تھی گھر کے ہر فرد سے لے کے ملازموں تک سب ہی مصروف تھے اگر کسی کو فراغت حاصل تھی تو وہ زینب تھی کیوں کہ اسے شادی کی کسی بھی تیاری میں حصہ نہیں دیا گیا تھا اور جب زینب نے اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے خود کسی کام کا پوچھا تو فائزہ بیگم نے سرد لہجے میں یہ کہہ کے انکار کر دیا کہ" تمہیں خود کو اس سب میں تھکانے کی ضرورت نہیں ہے"

مختصر یہ کہ وہ اسے ہر چیز سے دور رکھ رہے تھے البتہ زینب نے اس کا کوئی خاص اثر نہیں لیا تھا کیوں کہ حیدر کے گھر والوں کے لہجے سرد تھے پر جملے تلخ نہ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زینب کی یہاں دو ہی لوگوں سے بات چیت کا سلسلہ بندھا تھا ایک تو احد سے اور ایک عائشہ سے۔۔۔۔۔عائشہ نے کبھی بھی اس کو کریدنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ زینب نے اسے اپنے بارے میں کچھ بتایا تھا۔۔۔۔

زینب جو تھوڑا بہت اس شادی سے جوڑی تھی وہ صرف عائشہ کی وجہ سے۔۔۔وہ جب بھی شوپنگ کر کے آتی اسے بلا کے اپنے سارے ڈریسس اسے دکھاتی اور ساتھ ساتھ اس کی رائے بھی لیتی رہتی۔۔۔

عائشہ نے بیڈ پر مہرون رنگ کا جوڑا پھیلایا ہوا تھا جس پر گولڈن رنگ سے امبروئڈری ہوئی تھی وہ یہ زینب کے لئے لے کر آئی تھی۔

"کیسا لگا؟"

"بہت پیارا" وہ مسکرائی۔

"یہ میں آپ کے لئے لائی ہوں" اس نے معطل کیا۔

"لیکن میں یہ نہیں لے سکتی" زینب نے نرمی سے انکار کیا۔

"پہلی بات تحفے کو انکار نہیں کرتے دوسری بات اگر آپ یہ سوچ رہیں ہیں کہ آپ کو کوئی اس ڈریس میں دیکھ مجھ سے ناراض ہو گا کہ میں نے آپ کو کیوں دیا تو ایسا نہیں ہو گا کیوں کہ میں نے یہ کہہ کے یہ ڈریس لیا ہے کہ میں اپنی دوست کے لئے لے رہی ہوں اور تیسری بات آپ پے یہ رنگ اچھا لگے گا بلکہ بہت اچھا لگے گا کیوں کہ رنگ حیدر بھائی نے پسند کیا ہے اور ویسے بھی کل کی بات کے لئے آپ کو ان کے لئے اتنا تو کرنا ہی چاہیے" وہ نون اسٹاپ بول رہی تھی۔

"کون سی کل کی بات" زینب نے اچھنبتے سے پوچھا۔

عائشہ نے دانتوں تلے زبان دبائی وہ غلطی سے اسے کل کا حوالہ دے گئی تھی۔

"نہیں کوئی بات نہیں" وہ ٹال رہی تھی۔

"میں یہ ڈریس اسی صورت قبول کروں گی اگر تم مجھے پوری بات پوری ایمانداری سے بتاؤ گی" وہ جاننا چاہتی تھی حیدر نے ایسا کیا کر دیا تھا اس کے لئے کہ اسے اس کی پسند کا رنگ پہنا چاہیے۔

عائشہ نے کپڑے ایک سائیڈ پر کرتے بیڈ پر جگہ بنائی اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔

"وہ۔۔۔۔کل حیدر کی تینوں پھوپو آئیں تھیں عبّاس بابا کی سسٹرز۔۔۔۔" وہ بات کو طویل کر رہی تھی۔

زینب نے اسے گھورا۔

"وہ کہہ رہیں تھیں کہ اگر زینب اس شادی میں شریک ہوئی تو ہم اس میں شریک نہیں ہوں گے (کیوں کہ ہم دنیا والوں کے تلخ جملے نہیں سن سکتے) " عائشہ ایک ہی سانس میں کہہ گئی تھی اور بے ایمانی کرتی آخر فقرہ زینب سے چھپا گئی تھی۔

"پھر" اس کا انداز لاپرواہ تھا۔

"پھر حیدر بھائی نے کہا کہ آپ شریک ہو جائیں ہم نہیں ہوں گے"

"ہم۔۔۔۔ہم تمہیں تو نہیں روک رہے" یہ عالیہ پھوپو تھیں۔

"جہاں آپ کی عزت نہ ہو پھوپو وہاں آپ کے شوہر شوہر جائیں آپ کو کیسا لگے گا؟" حیدر کے اس سوال پر پھوپو سٹپٹائیں۔

"اچھا نہیں لگے گا نہ۔۔۔۔۔تو جہاں میری بیوی کی عزت نہیں وہاں میں شرکت نہیں کروں گا" وہ حتمی انداز میں کہتا جانے کے لئے کرسی سے کھڑا ہو گیا تھا۔

وہ جاتے جاتے پلٹا تھا۔

"ایک بات اور اگر میرے اس عمل کا بدلہ کسی نے زینب کو تکلیف پونچھا کر لیا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔آپ کو تلخ جملوں کی بارش کرنی ہے۔۔۔۔گالیاں دینی ہیں۔۔۔۔کوسنا ہے۔۔۔غرض کسی بھی صورت اپنا غصّہ نکلنا ہے تو مجھ پر نکالیں کیوں کہ اس سے شادی کرنے والا میں تھا۔۔۔۔اسے آپ کی بہو بنانے والا بھی میں تھا۔۔۔" وہ ایک پل کو روکا۔

"اور جن کو لگتا ہے کہ ان کے چاند سے حیدر کو اس لڑکی نے اپنی اداؤں سے پھنسا لیا ہے صرف حیدر کی دولت کے لئے تو میں بتاتا چلوں وہ لڑکی مجھ پر اور میری دولت پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی آپ سب چاہیں تو اس کی تصدیق ڈیڈ سے یا میرے کسی بھی دوست سے کر سکتے ہیں" اس نے پھوپو کی بات کمرے کی چوکھٹ پر قدم رکھتے ہی سن لی تھی جو وہ اس کی ماں سے کہہ رہیں تھیں۔ اس نے جواب دینا ضروری سمجھا۔

"میں نے اسے دھمکا کر شادی کی تھی" اس نے راز فاش کر دیا۔

انکی تینوں پھوپھیاں حیرت میں ڈوبی تھیں البتہ یہ بم عبّاس عالَم اور انکی زوجہ پر پہلے ہی گر چکا تھا ان لے تاثرات نارمل تھے یا شاید وہ نارمل کئے ہوئے تھے۔۔۔۔۔اس کے بعد وہاں بیٹھا ہر شخص اسے کیا کہ سکتا تھا۔۔۔۔سب خاموش ہو گئے تھے جیسے کہنے کے لئے کچھ بچا ہی نہ ہو۔

"زینب کو کسی نے تکلیف دی تو میں برداشت نہیں کروں گا یہ بات ذہن نشین کر لیں آپ سب" وہ کہہ کے روکا نہیں تھا۔

زینب نے ساری بات بڑے غور سے سنی تھی اور جیسے اسے احساس ہوا تھا کوئی اسے کیوں جھڑک نہیں رہا تھا۔

"کیا ہوا" عائشہ اس کے آگے چٹکی بجاتے اسے ہوش میں لائی۔

"کچھ نہیں" اس نے سر جھٹکا۔۔۔۔۔حیدر کا روایہ اس کے الفاظ دن با دن زینب کے ذہن کے تاروں کو مزید الجھا رہے تھے۔۔۔۔اور اگر صورتحال یہی رہتی ہے تو ممکن تھا کہ اسپارک ہو جائے۔

عائشہ بیڈ پر بکھرا سامان سمیٹنے لگی تھی تھوڑی دیر پہلے موجود جوش کا نام و نشان نہیں تھا بلکہ آپ کے وہ پریشان لگ رہی تھی۔

زینب کئی دنوں سے نوٹ کر رہی تھی عائشہ پہلے خوشی خوشی اسے سب چیزیں دکھاتی اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ اداس ہو جاتی۔۔۔زینب نے ہمت کر کے آج پوچھ ہی لیا۔

"کیا تم پریشان ہو؟"

"آپ کو کیسے پتا" وہ حیران ہوئی۔

"تمہاری شکل بتا رہی ہے۔۔۔۔اب بتاؤ کیوں پریشان ہو" زینب نے اسے اپنے پاس بیٹھا کے نرمی سے پوچھا۔

"پتا نہیں" وہ بیڈ شیٹ پر انگلی پھیرتی کھوئی کھوئی سی بولی۔

زینب کچھ دیر اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرتی رہی اور پھر اس نے اندازہ لگایا۔

"علی پسند نہیں ہے تمہیں"

"نہیں!!!۔۔۔۔" زینب کی بات سن بیڈ پر چلتی اس کی انگلی رکی اور وہ ایک دم ہی بول پڑی۔

"میرا مطلب ہے پتا نہیں" عائشہ نے بات سنمبھالنی چاہی۔

"مطلب پسند ہے" زینب نے اسکی بات سے یہی اخذ کیا۔

"پتا نہیں۔۔۔۔میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی" زینب کو وہ کنفیوز لگ رہی تھی۔

"لیکن اب کرنا چاہتی ہو علی سے" زینب واضح جواب چاہتی تھی ایک بار پھر پوچھنے لگی۔

"پتا نہیں۔۔۔۔وہ مجھ سے بہت آپوزیٹ ہیں مطلب میں ذرا سنجیدہ مزاج کی ہوں اور وہ کبھی سیریس نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ کچھ جانتے ہیں میرے بارے میں ایسے تو۔۔۔۔۔" زینب کو دینے کے لئے اس کے پاس کوئی قبلِ قبول وجہ نہ تھی۔

"زینب!!!!" عائشہ کی بات میں خلل حیدر کی آواز نے ڈالا تھا جو اس کو مسلسل آوازیں دئے جا رہا تھا۔

"میں ابھی آئی تھوڑی دیر میں" زینب نے دانت بینچے مسکراتے ہوئے عائشہ سے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔وہ کچھ ہی فاصلے پر اسی طرف چلا آ رہا تھا زینب کو دیکھ کر اس نے آواز لگانے کے لئے اپنا کھولا ہوا منہ بند کیا تھا۔

"کیا ہے" زینب سخت چڑی ہوئی لگ رہی تھی اس سے۔

"یار ایک کام تھا تم سے" اس کا انداز فرانک تھا۔

"یار وار نہیں ہوں میں تمہاری" وہ چبا چبا کر بولی۔

"یار نا بولوں تو زینو بول لوں" وہ چہرے پر جہاں بھر کی معصومیت سجائے پوچھ رہا تھا۔

"نہ یار نہ ہی کچھ اور اول تو تمہیں مجھے پکارنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر پکار ہی رہے ہو تو میرے نام سے پکارو" وہ اپنے کمرے کی طرف جاتی چلتے چلتے ہی اسے ھدایت دے رہی تھی۔

"پہچان سے نہ بولاؤں" وہ ریلیکس سا اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔

زینب کے چلتے قدم روکے۔۔۔۔۔۔ماتھے پر چند نہ سمجھی کی لکیریں ابھریں۔

"پہچان؟" اس کا انداز سوالیہ تھا۔

"جانِ حیدر" وہ دل جلانے والی مسکراہٹ لبوں پر سجائے کھڑا تھا۔۔۔۔زینب کا دل کیا اس کا سر دیوار پر دے مارے لیکن ضبط کر گئی۔

"اپنے یہ تھرڈ کلاس رومانوی جملے تم کسی اور پر آزمانا میرے اوپر ان کا کوئی اثر نہیں ہونے والا" وہ خود کو لاپرواہ ظاہر کرتی کمرے کے اندر چلے گئی۔

سامنے صوفے پر علی بیٹھا تھا اس کا حلیہ فارمل تھا شاید وہ آفس سے آ رہا تھا۔

زینب کو اندر آتے دیکھتے اس نے کھڑے ہو کے سلام کیا تھا۔۔۔۔ زینب کو سمجھ نہیں آیا وہ آیا کیوں تھا۔۔۔اس نے بے رخی سے جواب دیا اور بیڈ کی پائینپی پے بیٹھ گئی البتہ حیدر فریش ہونے باتھروم چلا گیا تھا۔

"آپ ناراض ہیں مجھ سے" وہ زینب کی بے رخی دیکھ پوچھ بیٹھا۔

"ہاں جو تمہارے دوست نے کیا میرے ساتھ اس کے بات مجھے تم سے بہت عزت سے بات کرنی چاہیے نہ" اس نے طنز کیا۔۔۔۔۔وہ حیدر کا غصّہ اس پر نکال رہی تھی۔

"کیا کیا ہے حیدر نے" وہ فکرمند ہوا۔

"اوہ کم اون اب تم یہ نہ کہنا کہ تمہیں علم ہی نہیں تمہارا بیسٹ فرینڈ کیا کرتا پھر رہا ہے" زینب نے اس کی فکر کو محض ڈرامہ سمجھا تھا۔

"مجھے واقعی نہیں پتا۔۔۔۔آپ بتا دیں" وہ سعادت مندی سے بولا۔

"تمہارے دوست نے زبردستی مجھ سے شادی کی ہے" اس نے حیدر کا راز فاش کیا۔

علی کو اب پوری بات سمجھ آئی تھی۔۔۔۔ورنہ زینب کہاں حیدر سے شادی کرنے والی تھی۔۔۔۔لیکن زینب کیوں اس سے شادی پر راضی ہو گئی علی نے وجہ پوچھنا مناسب نہ سمجھی۔

"حیدر کے اس عمل کے حوالے سے میں کچھ نہیں جانتا بھابی پر اتنا جانتا ہوں وہ دل کی بات دل میں رکھنا جانتا ہے اور وقت آنے پر دل والوں تک پہنچانا بھی جانتا ہے" وہ تحمل سے گویا ہوا۔

"تم نہیں جانتے پر میں اچھے سے جانتی ہوں تمہارے دوست نے صرف مجھ سے شادی اس لئے کی ہے تاکہ وہ مجھے دس لوگوں کے سامنے ذلیل کر سکے اور اس طرح اس کی انٰا کو تسکین مل جائے گی" وہ اپنا سارا لاوا لگتا تھا اسکی کے سامنے نکالنے والی تھی۔

"بھابی عزت اور ذلت تو اللہ‎ کے ہاتھ میں ہے میں اور وہ کیا کسی کو ذلیل کریں گے" وہ عام سے انداز میں بولا تھا لیکن زینب کا چہرہ تاریک ہوا تھا تو کیا خدا نے اسے ذلیل کیا تھا۔

"مطلب میں ہی غلط ہوں اسی لئے یہ ساری روسوائی میرے حصے میں آئی ہے" وہ کانپتی ہوئی آواز میں خود کلام تھی لیکن اس کی بات کو علی نے سن لیا تھا اور وہ پریشان ہو گیا تھا وہ اس کی بات کو غلط پیرائے میں لے رہی تھی۔

"بات صحیح اور غلط کی تو ہے ہی نہیں۔۔۔بہت سی چیزیں ایسی ہوں گی جو آپ کے نقطہ نظر میں صحیح ہوں گیں لیکن میرے نقطہ نظر میں غلط ہوں گیں۔۔۔۔۔ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ صرف ہمدردی اور ترس کی وجہ سے ہیں تو آپ کا نقطہ نظر یہاں میرے لیے غلط ہے کیوں کے ہم یہاں اس لیے ہیں کیوں کہ ہم آپ کی انفرادی حیثیت کو اس معاشرے میں قبول کرتے ہیں۔۔۔۔ہمیں حق اور باطل میں فرق کرنا سیکھنا ہے بھابی بات حق اور سچ کی کہنی ہے۔۔۔سچ کو حق کے بغیر بول کے کسی کے منہ پر جوتا نہیں مارنا۔۔۔۔۔حق اور باطل میں فرق کرنے والے عمرؓ ہوتے ہیں اور جو کوشش کرتے ہیں وہ ان کے پیروکار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔آپ کو کیا لگتا ہے کیا یہ معاشرہ آپ کے سچ سے واقف نہیں تھا۔۔۔۔یہ اس سچ سے تب بھی واقف تھا جب آپ نہیں تھیں" وہ لمحے بھر کو روکا۔۔۔۔زینب کو دیکھا۔۔۔۔وہ سر جھکائے اسکی بات سن رہی تھی۔۔۔۔۔پر یہ سر علی کو جھکا اچھا نہیں لگا۔

وہ پھر سے گویا ہوا۔

"ہمارے معاشرے نے خود کو خدا ھی سمجھ لیا ہے کون جنت میں جائے گا کون دوزخ میں جائے گا کس کو کتنی سزا دینی ہے۔۔۔۔سزا اور جزا کا تعلق تو اللہ‎ کی ذات سے ہے جب کوئی اللہ‎ کی بنائی گئی حدود کو عبور کرتا ہے تو سزا بھی اللہ‎ ہی منتخب کرتا ہے نہ کے معاشرے میں بسنے والے لوگ۔۔۔۔ہمارا معاشرہ اندھی تقلید پر چل رہا اور جب وہ گناہگروں کو سزا نہ دے سکے تو اس کا بدلا اس سے جوڑی ذات سے لیتا ہے۔۔۔۔۔آپ کل بھی حق پر تھیں آپ آج بھی حق پر ہیں۔۔۔ہم جو کچھ بھی ہیں اپنی مرضی سے تو نہیں ہیں تو پھر کس چیز کی شرم کس چیز کا دکھ ہم سینے سے لگائے بیٹھے رہیں۔۔۔۔۔جب میں نے کوئی گناہ نہیں کیا تو میں اپنے لئے کسی کے منہ سے بکواس سنے کا روادار نہیں ہوں" وہ اس پر نظریں جمائے تھا اور وہ اب بھی ویسے ہی بیٹھی تھی۔۔۔۔وہ سانس لینے کے لے روکا اور پھر بولنے لگا۔

"زندگی ہمیں بہت کچھ دیتی ہے بھابی اور بہت کچھ لیتی بھی ہے آپ کو اگر زندگی نے اب تک صرف دکھ اور غم ہی دیئے ہیں تو کوئی بات نہیں اب آپ کی باری ہے آپ اس سے وہ سب خوشیاں لے لیں جس پر آپ کا حق ہے"

"یہ میرے اختیار میں نہیں" وہ ساری گفتگو میں پہلی بار بولی تھی۔

"صرف کچھ چیزیں ہیں جنہیں اللہ‎ نے ہمارے اختیار میں نہیں رکھا اور ایسی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں اللہ‎ نے ہمارے اختیار میں رکھا ہے ان میں سے ایک خوش رہنا بھی ہے خوشیاں ہر کسی کے در پر دستک دیتی ہیں اب یہ آپ پر منحصر کرتا ہے کہ آپ اس کو مایوس کر کے لوٹا دیں یا ان کو اپنے گالے کا ہار بنا لیں اپنے غموں کو یہ بتا دیں کہ وہ آپ کی مسکراہٹ سے زیادہ طاقتور نہیں ہیں"

زینب نے نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔وہ بڑبڑائی ضرور پر اس نے ظاہر نہ ہونے دیا۔۔۔۔اس نے کیا کر دیا تھا۔۔۔۔وہ خود کو ملامت کرنے لگی۔

"عائشہ پریشان ہے" اس نے موضوع بدلا۔

"لڑکیاں پریشان کب نہیں ہوتیں" وہ ہنسا۔

زینب نے اسے ایک آئی۔برو اچکا کر سخت تاثرات لئے دیکھا تو اس نے اپنا بیان ایک دم ہی بدل دیا۔

"یعنی کے لڑکیاں چھوٹی چھوٹی بات پر پریشان ہو جاتی ہیں نہ اس لئے"

"اس نے تم سے انکار کر دیا اس شادی کے لئے پھر بھی تم پیچھے نہیں ہٹے۔۔کیوں؟" وہ اس سے سوال کرنے لگی۔

"یہ فیصلہ ہم دونوں کے لئے بہترین ثابت ہو گا۔۔۔مجھے وہ ابھی پسند نہیں کرتی لیکن ہم نے کون سا ایک دو دن ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے بڑھاپے تک کا ساتھ ہے جب تک مجھے وہ پسند کرنے لگی گی" اس جملے میں موجود یقین زینب کو اچھا بھی لگا اور عجیب بھی وہ پہلے سے ہی اتنا شیور تھا۔

عائشہ جو زینب کا موبائل جو وہ اس کے کمرے میں بھول آئی تھی اور اس پر رانیہ کی کال آ رہی تھی اسے لیے زینب کو دینے چل پڑی لیکن دروازے کی جھری سے علی کی شکل دیکھ وہیں رک گئی اور سب سن لیا۔۔۔۔وہ اس کی اتنی کی گئی سیریس باتیں اگر اپنی کانوں سے سن اور اپنی آنکھوں سے اسے بولتا دیکھ نہ لیتی تو کبھی۔۔۔۔کبھی بھی۔۔۔۔کسی بھی قیمت پر یقین نہیں کرتی۔۔۔۔۔

اور وہاں سے پلٹنے پر عائشہ نے اعتراف کیا تھا وہ باتیں اچھی کر سکتا تھا اگر کرنا چاہتا۔۔۔۔۔اسے زینب کو حوصلہ دینا بھی اچھا لگا وہ الگ تھا ان میں شامل نہیں تھا جو زینب کے خلاف تھے۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top