اظہارِ محبّت
آج یونیورسٹی میں ایونٹ تھا اور رانیہ کو چونکہ اسے ہر حال میں اٹینڈ کرنا تھا اسی لئے اس نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انس احسن سے اجازت لی تھی جو اس لئے نہیں مان رہے تھے کیوں کہ ایونٹ کے اوقات پانچ سے رات آٹھ بچے کے تھے۔۔۔۔۔بس پھر کیا تھا رانیہ نے اپنا آخری ہتیار استعمال کیا اور وہ آخری ہتیار زینب تھی۔ زینب کے ساتھ ہونے کا سن کر انس احسن نے رانیہ کو اجازت دے دی تھی ورنہ رانیہ کو وہ بچی ہی سمجھتے تھے جسے بکل کسی چیز کی عقل نہیں تھی۔
انس احسن نے رانیہ کو یونیورسٹی کے گیٹ پر اترا ساتھ ہی اس سے پوچھا۔
"تم نے ان دونوں سے پوچھ لیا تھا وہ آ گئیں ہیں نہ"
"جی" رانیہ نے مختصر سا جواب دیا کیوں کہ وہ جلدی جلدی میں ان دونوں سے پوچھنا ہی بھول گئی تھی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔خداحافظ اپنا خیال رکھنا" انس احسن کہہ کے چلے گئے تھے اور رانیہ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔
کافی دیر ہو گئی تھی اور نور اور زینب اب تک نہیں آئیں تھیں رانیہ گراؤنڈ کے بائیں جانب بے چینی سے سبزے پر ٹہل رہی تھی جب کے نظریں سامنے دروازے پر مرکوز تھیں۔
"کہاں رہ گئیں یہ دونوں" اس نے خود کلامی کی اور پھر کچھ یاد آتے ہی بینچ پر رکھے اپنے بیگ سے کچھ ڈھونڈھنے لگی اپنی مطلوبہ چیز مل جانے پر اس نے زینب کو کال لگائی اور ایک بار پھر ٹہلنے لگی تین بیل جانے کے بعد کال رسیو کر لی گئی۔
"زینب کہاں ہو تم" رانیہ نے دعا سلام کے بغیر پوچھا۔
"آفس میں۔۔۔کیوں" زینب نے عام سے انداز میں جواب دیا اور پھر رانیہ سے سوال بھی کر ڈالا۔
"یار زینب میں کب سے انتظار کر رہیں ہوں تم دونوں کا نور بھی اب تک نہیں آئی۔۔۔۔اور میں نے تم سے منع بھی کیا تھا آفس مت جانا" رانیہ نے غصّے اور جھنجلائے ہوئے لہجے میں بولا۔
دوسری طرف زینب نے دانتوں تلے اپنی زبان دبائی وہ تو بھول ہی گئی تھی حالانکہ رانیہ نے صبح یاد بھی کرایا تھا۔
"رانی ایم سو سو سوری میں بھول گئی تھی۔۔۔۔میں بس پانچ منٹ میں آئی بس پانچ منٹ میں تم گھڑی میں ٹائم نوٹ کرو میں پہنچ رہی ہوں" زینب نے یک دم ہی کھڑے ہو کر آفس سے اپنا سامان سمیٹا اور بینا کسی کو بتائے لفٹ کا انتظار کرنے لگی۔
"ٹھیک ہے" رانیہ نے کہتے ہی لائن منقطع کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاطف آج یونیورسٹی آیا تو اسے دیکھ کسی نے نہ پہچانا حتکہ لائبہ نے بھی نہیں آج وہ ایک ذمدار اور سنجیدہ شخص لگ رہا تھا اس کے لباس میں بھی تبدیلی آ گئی تھی بلیک چیک شرٹ اور بلیک ہی پینٹ پہن رکھی تھی بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیا تھا ہاتھ کسی بھی قسم کے بینڈ سے پاک تھے البتہ اب ہاتھ میں ایک ریسٹ واچ چمک رہی تھی آنکھوں میں گہری سنجیدی کا راج تھا وہ آج ہر لڑکی کو اپنی طرف متوجه کر گیا تھا کوئی لڑکی سوچ بھی نہیں سکتی تھی عاطف اس قدر ہینڈسم بھی لگ سکتا تھا جہاں لڑکیاں اس کے بدلے روپ سے حیران تھیں وہیں بہت سی لڑکیاں جن سے عاطف نے پورے دل سے معافی مانگی تھی لیکن جیسے کے اس نے خود سے وعدہ کیا تھا وہ نپے تلے انداز میں معافی مانگتا اور انہیں حیران پریشان چھوڑ کے آگے بڑھ جاتا اور وہ سب ہی اس کے بدلے بدلے انداز پے فدا ہو گئیں تھیں۔
عاطف کو اب بےصبری سے رانیہ کا انتظار تھا وہ آڈیٹوریم میں بیٹھا بار بار کبھی آڈیٹوریم کے دروازے پر تو کبھی اپنی گھڑی پر نظر ڈال رہا تھا جو اس کی بیقراری کی گواہ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمر ابھی کار پارک کر کے یونیورسٹی میں داخل ہی ہوا تھا جب اس کی نظر گراؤنڈ کے بائیں جانب پڑی۔ ایونٹ چونکہ آڈیٹوریم میں تھا جو کے گراؤنڈ کے دائیں جانب تھا اسی لئے آج یونیورسٹی کے اسی حصّے میں سارے آدم زاد موجود تھے جب کے بائیں جانب کسی کا ہونا اور وہ بھی لڑکی کا احمر کو کچھ ٹھیک نہیں لگا اس نے تھوڑا آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں رانیہ تھی۔ احمر کو غصّہ آیا وہ یہاں کیا کر رہی تھی احمر کو کم از کم رانیہ سے اس بیوقوفی کی امید نہیں تھی۔
"آپ یہاں کیا کر رہیں ہیں؟" احمر نے اس کے پاس جا کر اپنے لہجے کو قدرے نرم بنا کر پوچھا۔
"آپ کو کیوں بتاؤں؟" رانیہ احمر کو اپنی جانب آتا دیکھ چکی تھی اور زینی کے حق میں کہے احمر کے الفاظ بھولی نہیں تھی تن کے الٹا احمر سے ہی سوال کیا۔
"کیوں کہ میں پوچھ رہا ہوں آپ سے" احمر نے سختی سے کہا۔
احمر کے لہجے میں ایسی سختی تھی کہ رانیہ نے دھیمی آواز میں کہا۔
:زینب اور نور کا انتظار کر رہی ہوں"
"میرے خیال ہے وہ آپ آڈیٹوریم میں بیٹھ کر بھی کر سکتیں ہیں چلیں میرے ساتھ" احمر کا لہجہ ایک بار پھر نرم ہوا تھا۔
"میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جا رہی" رانیہ نے قطعیت سے انکار کیا۔
رانیہ کے لہجے میں ایسا کچھ تھا جو احمر کو ٹھٹکا گیا اس نے کچھ دیر کے وفقے کے بعد رانیہ سے پوچھا۔
"آپ مجھ پر بھروسہ نہیں کرتیں"
"بات بھروسے کی نہیں ہے بات اصول کی ہے" رانیہ نے گیٹ پر نظریں جمائے ہی جواب دیا۔
"ٹھیک ہے بات اگر اصول کی ہے تو میرا بھی ایک اصول ہے میں آپ پے بھروسہ کر کے خود کو سزا نہیں دے سکتا" احمر نے گردن اثبات میں ہلا کے رانیہ سے کہا اور اس کی کچھ بھی سننے بغیر دوسری بینچ پر جا کر بیٹھ گیا جہاں سے رانیہ کی بینچ صاف دکھائی دے رہی تھی۔
رانیہ اس کی کہی باتوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی پر اس کے کچھ بھی پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر احمر کے جانے کا انتظار کرتی رہی لیکن جب وہ وہاں سے نہیں ہلا تو جھنجھلائے ہوئے انداز میں بیگ کندھے پر ڈالا اور اس کی طرف بڑھ گئی وہ بےنیاز بنا اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔
"کیا مطلب تھا آپ کی بات کا ہاں مجھ پر بھروسہ کر کے آپ کو کون سی سزا مل رہی ہے" رانیہ نے لڑاکوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے احمر سے پوچھا۔
"نادان لڑکی اتنا نہیں سمجھتیں یہاں اکیلا رہنا آپ کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور آپ کا کوئی بھی نقصان چاہے ایک خراش کا ہی کیوں نہ ہو میرے لئے تو سزا ہی ہے" احمر نے ایک نظر اسے دیکھ سنجیدگی سے سوچا تھا۔
"میں کچھ پوچھ رہی ہوں آپ سے آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں" غصّہ ہونوز وہیں تھا پر اب کے سوال بدل گیا تھا۔
"کیوں بیٹھنا منع ہے یہاں" احمر نے برہراستہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کے پوچھا۔
"آپ جائیں یہاں سے" رانیہ نے حکم سنایا۔
"آپ کو اکیلا چھوڑ کر تو نہیں" احمر نے ڈھٹائی سے کہا۔
"جائیں۔۔۔۔" رانیہ نے پھر کہا اور احمر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
"ٹھیک ہے بیٹھے رہیں یہیں میں جا رہی ہوں" رانیہ اپنے پیر پٹختے ہوئے آڈیٹوریم جانے لگی۔ احمر مسکراتا ہوا اٹھا اور اس سے کافی فاصلہ رکھے خود بھی اندر جانے لگا تب ہی رانیہ کے پاس زینب اور نور آئیں۔
احمر زینب اور نور کو دیکھتا مطمئن ہوا اور آڈیٹوریم چلا گیا۔
"رانی" نور نے رانیہ کو آواز لگائی جو تیر کی سی تیزی سے آگے چل رہی تھی۔
رانیہ نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو نور اور زینب نظر آئیں اس نے دور سے ہی اپنے کندھے سے بیگ اترا اور انہیں مارنے کی نیت سے زور سے ان کی طرف پھینکا جسے پوری مہارت سے نور نے کیچ کر لیا تھا۔
"کہاں مر گئیں تھیں تم دونوں" رانیہ نے غصّے سے پوچھا۔
"یہ ہوتے ہیں دوست جو کل میرے مرنے پر اللہ نہ کرے کہہ رہی تھی آج کہہ رہی ہے کہاں مر گئیں تھیں" زینب نے رانیہ کا موڈ ٹھیک کرنا چاہا۔
"تم سے تو میں بات ہی نہیں کر رہی۔۔۔۔یہ بتاؤ تم کہاں دفع تھیں" رانیہ نے پہلا فقرہ خفگی سے زینب سے کہا جب کے دوسرا فقرہ آستینے چڑھا کر نور سے پوچھا۔
"یار دادو کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی نکلتے نکلتے ٹائم لگ گیا" نور نے ڈرنے کی اداکاری کر کے ڈرتے ڈرتے ہی کہا جیسے اسے ڈر ہو کہ رانیہ اس کی دھولائی شروع کر دے گی۔
"مجھ سے کیوں بات نہیں کرو گی" زینب نے اس کا رخ اپنی طرف کر کے پوچھا۔
"تم سے میں نے منع بھی کیا تھا کہ آفس نہ جانا" رانیہ کہاں ناراض ہو سکتی تھی زینب سے پہلی ہی باری میں بول پڑی۔
"یار مجھے مصروف رہنے کی عادت ہو گئی ہے فراغت میں تم جیسے شیطان یاد آتے ہیں اسی لئے چلی گئی تھی لیکن ہاف ٹائم کے لئے پر پھر ٹائم کا پتا ہی نہیں چلا۔۔۔۔باس کو انفارم کئے بغیر آئیں ہوں صرف تمہارے لئے" زینب نے اس کے سامنے اپنا معّدا رکھا۔
"آخری دفع معاف کر رہیں ہوں تم دونوں کو" رانیہ نے ایسے کہا جیسے کوئی بہت بڑا احسانِ عظیم کیا ہو۔
"شکریہ رانی صاحبہ" نور اور زینب نے ایک نظر آس پاس ڈالی جب کوئی نہ دیکھا تو جھک کر ایک ادا سے رانیہ کا شکریہ ادا کیا۔
رانیہ کھلکھلا کر ہنس دی اور وہ دونوں اسے یوں دیکھ مسکرا دیں۔
اب یہ تینوں آڈیٹوریم کی طرف رفتہ رفتہ قدم بڑھا رہیں تھیں جب نور نے رانیہ سے پوچھا۔
"ویسے تم سے کس نے کہا تھا اتنی جلدی آنے کے لئے بندہ پوچھ ہی لیتا ہے" نور نے اسے ایک دھپ رسید کی۔
"بھول گئی تھی میں" رانیہ نے نظریں بچائے کہا۔
اور یہاں زینب اور نور کے قدم غصّے اور حیرت سے رکے تھے وہ دونوں اب رانیہ کو گھور رہیں تھیں جو مزے سے آگے چلے جا رہی تھی۔ رانیہ کو جب احساس ہوا کہ وہ اکیلی ہی چل رہی ہے تو اس نے اپنے دائیں بائیں دیکھا جب کوئی نہ دیکھا تو پیچھے مڑ کے دیکھا وہ دونوں سینے پر ہاتھ بندھے اسے ہی گھور رہیں تھیں۔
"غلطی تو انسانوں سے ہی ہوتی ہے نہ" رانیہ نے اپنی وکالت خود کی۔
"رانی۔۔۔۔" نور نے جب سے رانیہ کا تھما ہوا بیگ اب اس پر اسی کے انداز میں پھینکا تھا جسے رانیہ کیچ کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹیج پر اس وقت ایک گروپ کھڑا اپنا تیار کردہ ایکٹ پرفارم کر رہا تھا جسے زینب بے دلی سے دیکھ رہی تھی۔ کافی دیر سے یہی سب ہو رہا تھا ایک کے بعد ایک گروپ آتا اپنا پرفارمنس دیتا اور چلا جاتا۔ ہر ایکٹ سبق آموز تھا زینب انہی باتوں پر غور کر رہی تھی جب ایک لڑکی کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا جو کہہ رہی تھی۔
"کیا بکواس ہے یار بور کر دیا ہے ان لوگوں نے تو میری ساری شام برباد کر دی کوئی تفریح ہی نہیں ہم کیا یہاں یہ سنے آئے تھے۔۔۔۔حیدر ہوتا تھا تو کتنا مزہ آتا تھا ویسے علی احمر اور حاشر تو یہیں ہیں انہیں تو پرفارم کرنا چاہیے تھا"
"انہوں نے کہا کہ وہ حیدر کے بغیر نہیں کریں گے" دوسری لڑکی نے علی احمر اور حاشر کے نہ پرفارم کرنے کی وجہ بتائی۔
"زینب نے ٹھیک نہیں کیا حیدر کے ساتھ۔۔۔۔۔خیر میں جا رہی ہوں میں اور برداشت نہیں کر سکتی یہ سب" اس لڑکی نے مختصر سا تبصرہ کیا یوں لگا جیسے وہ خود کو اور کچھ کہنے سے باز رکھ رہی ہو اور وہاں سے چلی گئی۔
زینب کو سمجھ نہیں آیا کہ اس نے حیدر کے ساتھ کیا غلط کیا جو وہ لڑکی ایسے کہہ گئی تھی یا پھر اس لڑکی کے لئے وہ سب غلط تھا ہی نہیں جو حیدر کرتا رہا زینب کے ساتھ۔۔۔۔زینب نے ایک لمبی سانس لی اور ان بیکار کی سوچوں سے خود کو آزاد کیا۔
"چلو بس اب چلتے ہیں" زینب نے رانیہ اور نور سے کہا جو اس کے دائیں بائیں بیٹھی بڑے انہماک سے شو دیکھ رہیں تھیں۔
"کہاں" رانیہ نے پوچھا تو نور زینب کے جواب کا انتظار کرنے لگی۔
"جتنی عوام یہاں موجود ہے ایونٹ کے اختتام پر باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا بہتر ہے ابھی چلو" زینب نے وجہ بتائی۔
"ٹھیک ہے چلو" نور نے حامی بھری تو رانیہ کو بھی اٹھنا پڑا۔
یہ تینوں اپنا سامان سمیٹتی باہر آ گئیں تھیں۔ اندر جتنا شور تھا اس کے برعکس یہاں سکون ہی سکون تھا۔ تازہ ٹھنڈی روح کو تسخیر کر دینے والی ہوا چل رہی تھی زینب کو یہ فضا بہت پسند تھی وہ اب خود کو پرسکون محسوس کر رہی تھی اسے شور شرابہ بلکل پسند نہیں تھا لیکن وہ یہاں صرف رانیہ کے لئے آئی تھی۔
رانیہ کب سے اپنے بیگ میں نجانے کیا ڈھونڈہ رہی تھی جو اسے مل ہی نہیں رہا تھا اسے اس طرح دیکھ نور نے پوچھ لیا۔
"یار میرا موبائل نہیں مل رہا انس بھائی کو کال کرنی ہے" رانیہ نے رونی صورت بنا کے کہا۔
"دیکھو ٹھیک سے اسی میں ہو گا" زینب کے بولنے کی دیر تھی رانیہ نے اپنا پورا بیگ ہی اس کے سامنے الٹ دیا۔ واٹر بوٹل،پنز اور ایسی بہت سی چیزیں اب زینب اور نور کے قدموں میں پڑیں تھیں لیکن موبائل موجود نہیں تھا۔
"تم ویڈیو بنا رہیں تھیں نہ۔۔۔۔اندر ہی رہ گیا ہے پھر" زینب نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
"میں۔۔۔" رانیہ نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ زینب نے اسے بولنے ہی نہیں دیا اور خود کہا۔
"میں دیکھ کے آتی ہوں تم دونوں یہیں انتظار کرو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور اور رانیہ راہداری کے کونے پر کھڑیں زینب کی منتظر تھیں تب ہی ایک لڑکا ان کے پاس آیا اور احترام سے سلام کیا۔
نور اور رانیہ اسے انجانی نظروں سے دیکھ رہیں تھیں لیکن چند لمحے بعد ہی ان کی آنکھوں میں شناسی کی چمک ابھری تھی وہ عاطف تھا۔ رانیہ نے اعتماد سے جواب دیا اور نور نے دھیمی آواز میں۔
نور ڈر رہی تھی ظاہر ہے جو اس دن عاطف کی پٹائی کی تھی اس کے بعد ڈرنے کا جواز بھی بنتا تھا۔ ایسا نہیں تھا یہاں لوگ موجود نہیں تھے انہی کی طرح بہت سے لوگ اختتام میں ہونے والے جمِ غفیر سے بچنے کے لئے پہلے ہی آڈیٹوریم سے نکل گئے تھے اور سیدھے پارکنگ ایریا اور خارجی دروازے کی طرف گامزمان تھے لیکن یہاں یہ دونوں ہی تھیں جو کافی دیر سے ایک ہی جگہ کھڑی تھیں۔
"جیسا آپ نے کہا تھا میں عمل کر آیا ہوں آپ سے ایک بار پھر معافی کی درخواست کرتا ہوں" عاطف کے لہجے میں عقیدت صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
"ٹھیک ہے" رانیہ کے سمجھ نہیں آیا کیا کہے اس کے بدلے ہوئے انداز و اطوار نے جیسے رانیہ کا ذہن ہی سلب کر دیا تھا۔
"آپ نے معاف کیا" عاطف نے بچوں کی طرح چہکتے ہوئے پوچھا۔
"جی" رانیہ نے مختصر سا جواب دیا۔
"آپ نے معاف بڑی دیر سے کیا حالانکہ آپ بدلہ بھی لے چکیں تھیں" عاطف نے مسکراتے ہوئے اس بات کا تذکرہ کیا جو اب تک نہ کہی تھی۔
"کو۔۔۔ن۔۔ن سا بدلہ" رانیہ نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
"وہی جو آپ نے دھولائی کی تھی کتابوں سے" عاطف نے اسے یاد دلایا۔
"وہ" رانیہ کی وضاحت سے پہلے ہی عاطف بول پڑا۔
"ٹھیک ہی کیا آپ نے اس وقت میں وہی ڈیزروہ کر رہا تھا"
"جی واقعی" اب کی بار رانیہ نے بھی مسکرا کے کہا۔
کچھ دور کھڑے احمر کی نظروں سے یہ منظر مخفی نہ رہا جو علی اور حاشر کے ساتھ ابھی آڈیٹوریم سے ہی آ رہا تھا۔ رانیہ کو عاطف کے ساتھ مسکراتا دیکھ احمر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ علی جو اس کے پیچھے ہی کھڑا تھا سرگوشی کے انداز میں بولا تھا۔
"کہانی میں ٹوسٹ"
عاطف چلا گیا تھا لیکن احمر وہاں سے ہل نہ سکا وہ اب بھی وہیں کھڑا تھا جانے رانیہ کے چہرے پر کیا پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
نور جو رانیہ اور عاطف کی باتیں چپ چاپ سن رہی تھی عاطف کے جاتے ہی رانیہ سے سوال جواب کرنے لگی پھر کیا تھا رانیہ نے کل کی ساری روداد جو وہ وقت کی کمی کی وجہ سے بتا نہیں پائی تھی اب نور کے گوشگزر دی تھی۔
"تم نے اس سے یہ سب کرایا" نور کا تو حیرت کے مارے منہ ہی کھل گیا تھا۔
رانیہ نے خوشی سے مسکراتے ہوئے آنکھیں جھپکائیں جیسے کوئی بہت بڑا کام سر انجام دیا ہو۔
"اور اس نے یہ سب کر لیا صرف تمہارے کہنے پر" نور کی حیرت کسی صورت کم نہیں ہو رہی تھی۔
رانیہ نے اب کی بار اپنے فرضی کولر اٹھائے۔
"دو ہی باتیں ہو سکتیں ہیں اس کے رویے کے پیچھے" نور نے سوچتے ہوئے کہا۔
"کون سی دو باتیں" رانیہ نے نہ سمجھی سے پوچھا۔
"پہلی تو یہ کہ اس سب کے پیچھے اس کا مقصد تم سے بدلہ لینا ہے۔۔۔۔لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا وہ اس لئے کہ ابھی جب تم نے اسے معاف کیا تو اس کی آنکھوں میں سچی خوشی دیکھی جا سکتی تھی" نور نے پہلی صورتِ حال کو اپنی ہی رائے دے کر رد کیا۔
"اور دوسری" رانیہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
"دوسری یہ کہ ہو سکتا ہے وہ تمہیں۔۔۔۔۔۔ پسند کرتا ہو" نور نے آخر کے چند لفظ جلدی میں کہے۔
احمر جو سب سن رہا تھا کو نور کی یہ قیاس آرائیاں بلکل نہیں بھائیں تھیں اس نے اپنی مٹھیوں کو زور سے بینچ لیا تھا۔
"مجھے کون پسند نہیں کرتا" رانیہ اترائی۔
"نہیں میرا مطلب ہے شاید وہ تمہیں چاہنے لگے ہیں" نور نے آنکھوں کے اشارے سے بتایا۔
"رانیہ احسن کے چاہنے والے بہت ہیں لیکن رانیہ احسان کو اپنے شہزادے کا انتظار ہے" رانیہ نے ایک بار پھر بات ہوا میں اڑائی۔
بس یہیں احمر کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور وہ لمبے لمبے ڈگ بڑھتا ٹھیک رانیہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ رانیہ اس کی آمد پر اسے سوالیہ نظروں سے تکنے لگی احمر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے کہنا شروع کیا۔
"رانیہ احسن کے چاہنے والے بہت ہوں گے لیکن رانیہ احسان سے محبّت صرف احمر وقار نے کی ہے اور احمر وقار محبّت کر کے عزت بنانے کا قائل ہے"
احمر کے اس طرح کے اعتراف پر جہاں علی حاشر اور نور ششدر رہ گئے تھے وہیں رانیہ کو سانپ سونگ گیا تھا اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ احمر نے اس سے کیا کہہ دیا تھا۔ احمر کچھ پل اس کی حیران پریشان سی آنکھوں میں دیکھتا رہا اور پھر قدم واپسی کی جانب لئے لیکن اس کے قدم زینب کو دیکھ کر رک گئے زینب کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ سب سن چکی تھی احمر نے اس پر ایک نظر ڈالی اور پھر وہاں سے چلا گیا اور یہ سب اس کی پشت کو اس وقت تک دیکھتے رہے جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔
ان کا ارتکاز فون پر آنے والی کال نے توڑا جو زینب کے ہاتھ میں موجود تھا کال رانیہ کے فون پر آ رہی تھی جو ابھی زینب آڈیٹوریم سے ڈھونڈ کر لائی تھی۔ زینب نے رانیہ کے فون کی سکرین پر انس بھائی کا نام جگمگاتا دیکھا تو فون رانیہ کی طرف بڑھایا جو آنکھوں میں نمی لئے سر نفی میں ہلا رہی تھی۔ اس سب کے دوران علی اور حاشر نہ محسوس انداز میں وہاں سے چلے گئے تھے۔ زینب نے کال اٹینڈ کی تو انس احسن کا سلام اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔
"وعلیکم سلام۔۔۔۔۔۔۔میں زینب بات کر رہی ہوں رانیہ ابھی بات نہیں کر سکتی" زینب نے سلام کا جواب دیا ساتھ اپنے کال اٹینڈ کرنے کی وجہ بھی بیان کی۔
دوسری طرف انس احسن کچھ بول نہ سکے اور نہ ہی یہ اندازہ لگا سکے کہ وہ ان سے کتنے عرصے بعد ایسے ہم کلام ہوئی تھی انہیں اس کے تعارف کی ضرورت نہیں تھی وہ اسے آواز سے ہی پہچان گئے تھے کہ وہ کون تھی۔
"ہیلو!!" جب کافی دیر تک انس احسن کچھ نہ بولے تو زینب کو انہیں مخاطب کرنا پڑا۔
"جی؟۔۔۔۔۔" انس احسن نے اپنی سوچوں کے بھنور سے نکل کے بے ساختہ پوچھا وہ سن ہی نہ سکے تھے زینب نے ان سے کیا کہا تھا۔
"رانیہ بات نہیں کر سکتی ابھی" زینب نے رانیہ کو دیکھتے ہوئے کہا جہاں بوندا باندی اب برسات میں بدل چکی تھی۔
"کیوں" انس احسن نے پریشانی سے استفار کیا۔
"وہ ابھی مصروف ہے" زینب نے یہ نہیں کہا کہ رونے میں مصروف ہے۔
"اچھا۔۔۔۔ویسے مجھے کام تو آپ سے ہی تھا" انس احسن نے اب اپنا مُعّدا پیش کیا۔
"جی کہیے" زینب کو عجیب لگا انس احسن کو اس سے کیا کام ہو سکتا تھا اس نے سوچتے ہوئے ہی پوچھا۔
"کیا آپ رانیہ کو آج واپسی میں اپنے ساتھ لے کے جا سکتیں ہیں دراصل ایک ارجنٹ میٹنگ آ گئی ہے بابا اور میں اسی میں مصروف ہیں۔۔۔میں آ نہیں سکتا ابھی" انس احسن نے تفصیل سے اپنا مسلہ بتاتے ہوئے رسانیت سے پوچھا۔
"جی ضرور" زینب نے فوراً حامی بھر لی۔
انس احسن نے شکریائی کلمات کہتے کال منطقہ کر دی تھی۔
"یہ لو اپنا فون اتنی دیر تک میں ڈھونڈھتی رہی تب ملا ہے شکر کرو کسی کی نظر نہیں پڑی ورنہ تم انس بھائی کا انتظار ہی کرتیں رہتیں۔۔۔ان ہی کا فون تھا کہہ رہے تھے تمہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤں پھر بعد میں وہ تمہیں وہیں سے اپنے ساتھ لے جائیں گے" زینب نے رانیہ کا رونا نظر انداز کرتے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔
"تم نے سنا نہیں احمر بھائی کیا کہہ کے گئے ہیں" زینب کا مقصد اگر اسے موضوع سے ہٹانا تھا تو ایسا نہیں ہوا تھا وہ ابھی بھی اسی کا غم مانا رہی تھی روتے ہوئے بولی۔
"کیا کہا ہے؟" زینب انجان بنی۔
"بتاؤ" رانیہ نے نور کو آگے کرتے اس سے کہا۔
"تم خود بتاؤ" نور نے اس کی حالت سے محظوظ ہوتے کہا۔
"تمہیں نظر نہیں آ رہا میں رو رہیں ہوں تم بتاؤ" رانیہ نے سون سون کرتے اسے اپنی اہم مصروفیت بتائی۔
زینب اور نور نے اپنی ہنسی دبائی۔
"رانیہ احسن کے چاہنے والے بہت ہوں گے لیکن رانیہ احسن سے محبت صرف احمر وقار نے کی ہے اور احمر وقار محبّت کر کے عزت بنانے کا قائل ہے" نور نے شوخی سے بھرپور لہجے میں احمر کے الفاظ زینب کو سنائے۔
"ایسے کب کہا تھا" رانیہ نے نور کے کندھے پر ہاتھ مارتے پوچھا آنسو اس پل میں رک سے گئے تھے۔
"تو پھر کیسے کہا تھا تم خود بتا دو" نور نے اپنا کندھا سہلاتے کہا۔
"زینی سننا تم نے احمر بھائی یہ کہہ کے گئے ہیں" رانیہ نے نور کی بات کو نظر انداز کرتے زینب سے کہا رانیہ کا رونا پھر شروع ہو گیا تھا۔
"رانی کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے وہ ابھی صرف کہہ کے گئے ہیں" زینب نے اس کے آنسو پوچھتے اسے سمجھایا۔
"اور اگر انھوں نے ایسا کر دیا تو" رانیہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
"تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے" زینب نے بلاتوافق جواب دیا۔
"کیسے برائی نہیں ہے۔۔۔۔میں کتنا اچھا سمجھتی تھی احمر بھائی کو اور وہ کیسے نکلے" رانیہ نے تاسف سے کہا۔
"لڑکی کچھ تو خیال کرو ایک لڑکا تم سے اظہارِ محبّت کر گیا ہے تم اب بھی اسے بھائی کہہ رہی ہو" نور نے اسے چھیڑنے کے لئے کہا۔
"ہاں تو یہ بیہودہ حرکت انھوں نے کی ہیں میں نے تو نہیں جو میں خیال کروں" جواب دوبدو آیا۔
"پوائنٹ" نور نے سمجھتے ہوئے حامی بھری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاطف نے کار پارکنگ ایریا سے لی اور یونیورسٹی کے دروازے پر جا پھنچا جہاں لائبہ اس کی منتظر تھی۔ لائبہ کار کا فرنٹ گیٹ کھولے سیٹ پر بیٹھی تو عاطف نے کار سڑک پر ڈال دی۔ آج ایک پل کے لئے بھی عاطف کے لبوں سے مسکراہٹ جدا نہیں ہوئی تھی وہ ایک انجانی خوشی کے زیر اثر خوش تھا۔ لائبہ کو جو سوال پورے وقت پریشان کرتا رہا بلاخر اس نے عاطف سے پوچھ ہی لیا۔
"یہ سب کیا تھا؟"
"کیا سب" عاطف سمجھ نہیں پایا اس کا اشارہ کس طرف تھا۔
"یہ سب" لائبہ نے عاطف کے سر تا پیر اشارہ کر کے بتایا۔
"کیوں تمہیں اچھا نہیں لگا" عاطف نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"صرف اچھا۔۔۔بہت اچھا لگا" لائبہ نے پورے دل سے تعریف کی عاطف کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔
"شکریہ" عاطف نے سر کو ذرا خم کر کے کہا۔
"لیکن اس تبدیلی کی وجہ" لائبہ کو اب تک اپنے سوال کا جواب نہیں ملا تھا۔
"مجھے لگا ایک پی۔ایچ۔ڈی سٹوڈنٹ کو میچیور لگنا چاہیے" عاطف کو جو سمجھ آیا بول دیا اب یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ اسے اس تبدیلی کی وجہ خود بھی نہیں معلوم۔
"بڑی جلدی نہیں خیال آ گیا" لائبہ نے طنز کیا۔
"دیر آئے درست آئے" عاطف نے اپنا دفع کیا۔
"خیر میچیور تو آپ پہلے ہی بہت ہیں وہ تو بس یونیورسٹی میں ہی ایسے تھے۔۔۔آپ کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے لیکن مجھے تو کچھ اور ہی لگا تھا" لائبہ کو عاطف کی بتائی گئی وجہ کچھ ٹھیک نہیں لگی۔
"کیا لگا تھا؟" اس نے مسکراتے ہوئے ہی پوچھا۔
"مجھے لگا کہ۔۔۔۔ شاید آپ کسی لڑکی۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔ پسند کرنے لگے ہیں" لائبہ نے جملے کے کئی ٹکرے کر کے بتایا۔
لائبہ کی بات سنتے ہی کار کی سکرین پر عاطف نے ایک لڑکی کا معصوم سا چہرہ نمودار ہوتے دیکھا ایک نام تھا جو اس کی سماعتوں کے گرد گونجا تھا ایک پل لگا تھا عاطف کی مسکراہٹ کو سمٹنے میں وہ حیران تھا ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا وہ اپنی اس کیفیت کو کوئی نام نہیں دے پا رہا تھا۔ اگلا سارا راستہ عاطف نے خاموشی سے گزارا تھا لیکن بہت سے ایسے سوال تھے جنہوں نے اس کے اندر شور برپا کر دیا تھا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ASALAMUALIKUM kesa laga episode ap sb ko....apne reviews or vote zaror dn mai silent readers se bhi mukhatib hon agr ap psnd kr rahe hain tu apni psnd zahir bhi karen...shuriya
ALLAHHAFIZ
WRITER:
NimRa Israr
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top