گیارویں قسط
گیارویں قسط ۔۔
"شاہ " اس کے وجود پر نظر پڑتے ہی رابیل کے منہ سے اس کا نام نکلا
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا رابیل کے پاس آ رہا تھا روشنی اب اسکا سراپا ظاہر کر رہی تھی ۔ دھیرے دھیرے اس کے چہرے کے نقش واضح ہو رہے تھے ۔ وہ شخص جو اندھیرے میں اس کے شوہر کی طرح لگ رہا تھا اب جب روشنی میں آ رہا تھا اور رابیل کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔ ڈر ،بے چینی جیسے ملے جلے جذبات تھے
جس کو اندھیرے میں بھی رابیل نے پہچان لیا تھا۔ وہ شاہ زیب خان ہی تھا ۔ ہاں آخر وہ اس شخص کو پہچاننے میں غلطی کیسے کر سکتی تھی جس سے اس نے خود سے زیادہ محبت کی تھی ۔دروازے کے پاس اسکا وہ بیگ پڑا تھا جو شائد وہ گھر سے جاتے ہوئے لے کر گیا تھا ۔ رابیل کی آنکھیں بھر رہی تھیں۔ وہ خیرت اور بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ آنکھیں پوری طرح کھولے ہوئے اور ان آنکھوں میں آنسو ۔ جو کسی بھی وقت اپنی حدود توڑنے کو تیار تھے ۔
جینز کے اوپر وائٹ شرٹ جس کے اوپر کے دو بٹن کھلے ہوئے تھے۔ آستینیں کہنیوں تک چڑھائی ہوئی تھیں ۔ وہ کمزور لگ رہا تھا ۔ اور بے حال بھی ۔ رابیل بس اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی اس کے لئے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کے وہ لوٹ آیا ہے یا یہ کہنا بہتر ہو گا کے وہ رابیل کے پاس لوٹ آیا تھا جب کے اب تو اس نے شاہ زیب کی واپسی کی ساری امیدیں ہی چھوڑ دی تھیں ۔
وہ چلتا ہوا رابیل کی طرف آ رہا تھا پھر اچانک ہال کے درمیان میں ہی رک گیا ۔۔ رابیل کو اپنی دھڑکن ایک لمحے کے لئے تھمتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ رک کیوں گیا تھا ۔ رابیل اب شاہ زیب کا اپنے پاس آنے کا انتظار نہیں کر سکتی تھی وہ اب پھر اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اپنی زندگی کا مزید قیمتی وقت وہ اب اس کے انتظار میں نہیں گزار سکتی تھی بلکہ اسے تو اپنی زندگی اس کے ساتھ گزارنی تھی ۔ رابیل تیزی سے اسکی طرف بڑھی وہ شائد اب چاہتا تھا کے رابیل اسکی طرف خود آئے ۔ یاں پھر وہ اس کی بے قراری دیکھنا چاہتا تھا ۔ رابیل تیزی سے اس کے پاس جا کر رکی
"شش ۔۔ شاہ " رابیل نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بے یقینی سے کہا
"آئی ایم سوری رابیل " سر اثبات میں ہلاتے ہوئےشاہ زیب نے جواب دیا اور اسکو اپنے قریب کیا
شکایتیں ساری جوڑ کر رکھی تھی میں نے
اس نے گلے اپنے لگا کر سارا حساب بگاڑ دیا
"کک۔۔کہاں چلے گئے تھے آپ ۔۔ " شاہ زیب سے لپٹ کر وہ بول رہی تھی ۔۔ آنسو نکل رہے تھے مگر یہ خوشی کے آنسو تھے ۔ رابیل نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ وہ محسوس کرنا چاہتی تھی یقین کرنا چاہتی تھی کے وہ شاہ زیب کی گرفت میں ہے وہ رابیل کے پاس تھا ، وہ رابیل کے پاس ہے اسے اپنے حصار میں لئے ہوئے ۔ شاہ زیب نے اس کے گرد اپنی گرفت مضبوط کی ۔
"میں اب تو آ گیا ہوں نا " دھیمے لہجے میں وہ بولا
"ترس گئی تھی میں یہ آواز سننے کو " شاہ زیب کے سینے سے سر لگائے آنکھیں بند کیے ہوئے اس نے کہا
"میں بھی تو ترس گیا تھا تمھیں دیکھنے کے لئے " شاہ زیب نے کہا جس پر رابیل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
"آئی مسڈ یو شاہ ۔۔ آئی مسڈ یو سو مچ " شاہ زیب کو دیکھتے ہوئے وہ کہ رہی تھی ۔۔ چند لمحے اسی طرح گزر گئے
"رابیل " خود سے الگ کرتے ہوئے اس نے رابیل کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا
"رو نہیں پلیز ۔۔ تمھیں روتا نہیں دیکھا جاتا مجھ سے پلیز رابیل ۔۔ تمہیں روتا دیکھ کر میں خود کو اور کوسوں گا کے میں تمہارے حقوق بھی پورے نہیں کر پایا ۔ " اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے شاہ زیب نے کہا
"یہ تو خوشی کے آنسو ہیں شاہ " رابیل نے مسکرا کر اپنے آنسو صاف کیے
" اچھا ذرا پیچھے ہو (شاہ زیب کی بات پر وہ دو قدم پیچھے ہوئی۔۔ شاہ زیب نے اس پر نظر ڈالی۔۔ سرخ ساڑی اب تک اس نے پہنی تھی بال کھلے ہوئے تھے وہ اب بھی اتنی ہی خوبصورت لگ رہی تھی ) یہ اتنی ریڈ ریڈ ہو کر کس کو قتل کرنے کا ارادہ ہے ۔۔ "تو وہ رابیل کا لباس دیکھ چکا تھا وہ ہر چیز پر کتنا غور کرتا تھا اس کی بات پر رابیل مسکرائی وہ رابیل کو فریش کرنا چاہتا تھا
"کسی کو نہیں "
"ہاں جس کو کرنا تھا اس کو تو کر لیا تبھی تو وہ تو خود کھینچا کھینچا تمہارے پاس چلا آیا ۔ " شاہ زیب نے آنکھ مار کر کہا
"اچھا نا۔ ۔ایسے مت دیکھیں مجھے شرم آ رہی ہے " رابیل ہنس کر بولی اسے سچ میں شرم آ رہی تھی ۔۔
"ہُف۔۔۔ اور جا کر دوسروں کی بیویوں کو دیکھوں "
"دیکھ کر دکھائیں " رابیل نے دھمکی والے انداز میں کہا
"اوہ میڈم مذاق تھا ۔ اور دیکھوں گا تو تب جب تم سے خوبصورت کوئی اور ہو گی "
"مسکے مت ماریں " رابیل نے آبرو آچکائے
رابیل کا روئیہ کافی غیر متوقع تھا۔۔ کوئی گلا شکوہ اس نے نہیں کیا تھا وہ اب اس کے پاس تھا رابیل کے لئے یہ کافی تھا
"قدر ہی نہیں ہے " شاہ زیب نے منہ بنایا
"ادھر ہی کھڑا رکھنے کا ارادہ ہے کیا مجھے لگتا ہے یہ ہی سزا ہے میری ہے نا " شاہ زیب نے اسے احساس دلایا کے وہ دونوں اب تک ہال میں ہی کھڑ ے تھے ۔۔
"اوہ چلیں کمرے میں " رابیل اپنا ماتھا پٹخ کر بولی
"نو۔۔ مجھے بھوک لگی ہے یار " شاہ زیب نے بچوں کی طرح اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا
"اوہ اچھا تو آپ چلیں میں لے کر آتی ہوں "
"نہیں میں تمہارے ساتھ جاؤں گا " شاہ زیب کی بات پر رابیل کے ماتھے پر شکن آئی ۔ وہ کتنا ضدی تھا
"کیوں ۔۔ آپ وہاں کیا کریں گے " رابیل نے پوچھا
"تمہاری ہیلپ "
"مجھے نہیں لگتا ۔۔ خیر چلیں " رابیل کچن کی طرف ہو لی ۔۔ اور شاہ زیب رابیل کے پیچھے ۔۔۔
شاہ زیب کرسی پر بیٹھ کر رابیل کو کام کرتے دیکھ رہا تھا اور رابیل کھانا اوون میں گرم کرنے کے لئے رکھ کر چاۓ بنانے لگی ۔۔ پھر کھانا نکال کر اس نے شاہ زیب کے سامنے رکھا تب اسے محسوس ہوا کے وہ رابیل کو کب سے دیکھ رہا تھا
"کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہیں " ٹیبل پر کھانا رکھتے ہوئے اس نے پوچھا
"رابیل میں جب سے آیا ہوں تم نے ایک بار بھی نہیں پوچھا کے میں کیوں گیا تھا " وہ خیرانگی سے اسے دیکھے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔
وہ لڑکی تھی اور لڑکیاں تو جذباتی ہوتی ہیں مگر کیوں وہ دوسروں کی طرح نہیں تھی ۔ ہر چیز خاموشی سے کیسے برداشت کر لیتی تھی ۔ ایسے حالات میں تو اسےشاہ زیب پر غصہ ہونا چاہیے تھا چیخنا چلانا چاہیے تھا مگر اس نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔
کہتے ہیں جہاں محبت اور حق ہو وہاں گلے شکوے ہوتے ہیں مگر نہیں جس سے محبت ہو وہ ہر طرح سے قبول ہوتا ہے اس کی خوشی میں ہی ہماری خوشی ہوتی ہے ۔ جس سے محبت ہو اس میں اگر تبدیلیاں لانا چاہیں تو محبت کہاں کی ۔۔ رابیل جتنی محبت کوئی کسی سے کیسے کر سکتا ہے
"کیوں کے مجھے پتا ہے اگر آپ گئے تھے تو کوئی ایسی وجہ ضرور ہو گی جس کی وجہ سے آپ کو مجھے چھوڑ کر دور جانا پڑا ۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کے ھم ایک دوسرے کے بغیر نہی رہ سکتے۔ دل کیا تھا آپ کو ڈھونڈوں مگر بہت سی ایسی چیزیں تھیں جنہوں نے مجھے روک دیا تھا اور اس میں سب سے بڑی تھی آپ کی مرضی ۔ آپ اپنی مرضی سے گئے تھے اگر میں بلاتی تو وہ میری مرضی ہوتی اور میں نہیں چاہتی کے میری مرضی چلے میں چاہتی ہوں سب کچھ آپ کی مرضی کا ہو آپ کی پسند کا جس میں آپ خوش ہوں گے اسی میں میں بھی خوش ہوں گی " چاۓ کپ میں ڈالتے ہوئے وہ بول رہی تھی
"مجھ سے اتنی محبت مت کیا کرو رابیل میں اس قابل نہیں ہوں " شاہ زیب ہار مانتے ہوئے بولا
"خود کو میری نظر سے دیکھیں تو آپ کو علم ہو گا آپ کس قابل ہیں " بات کرتے ہوئے اس نے چاۓ میز پر رکھی
اور خود اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔
"اتنا پیار کرتی ہو مجھ سے " اب اس نے کھانا کھانا شروع کیا تھا اور رابیل اس کے سامنے بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی
"نہیں " رابیل کے نہیں پر شاہ زیب کے کھانا کھاتے ہوئے ہاتھ رکے اس نے نظر اٹھا کر رابیل کو دیکھا
"اس سے کہیں زیادہ کرتی ہوں " چاۓ کا کپ اٹھاتے ہوئے وہ مسکرا کر بولی ۔۔ تو شاہ زیب کے سانس میں سانس آیا ۔۔
"جانتے ہیں شاہ اگر آپ خود کو میری نظر سے دیکھیں تو آپ کو خود سے ہر دن پہلے سے زیادہ محبت ہوتی چلی جاۓ گی۔۔" رابیل کی بات پر وہ مسکرایا ۔۔۔ ۔
"تم یہاں کب آئی ۔۔ اور کیوں ۔۔ میں گھر گیا تو چوکیدار نے بتایا کے تم ادھر ہو " اب وہ کھانا کھاتے ہوئے اس سے تفصیل پوچھ رہا تھا
"شاہ وہ ۔۔ " رابیل نے شاہ زیب کو زری کی شادی جلدی ہونے کی وجہ بتائی۔۔۔
"حد ہوتی ہے کسی چیز کی زری بہن ایسی نہیں ہے ۔ یہ سب عروا کا کیا ہوا ہے ۔۔ کتنی چیپ لڑکی ہے وہ ۔ اس کو تو میں اب سیٹ کروں گا اور ویسے بھی رابیل ان دونوں کا نکاح ہوا ہے پہلی بات کے زری اور عدیل ایسا کچھ نہیں کر سکتے جس سے ہمیں شرمندگی ہو اور دوسری بات یہ کے اگر وہ ساتھ تھے تو میاں بیوی ہیں وہ اب یہ تو زری کی ضد کی وجہ سے رخصتی نہیں کی تھی مگر شرعی طور پر وہ میاں بیوی ہیں رخصتی تو محض اس لئے کی جاۓ گی کے لوگوں کو پتا چل جاۓ کے ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کے وہ زری پر الزام لگا دے اور امی اور بابا نے یقین کیسے کر لیا ۔ اتنا کمزور بھروسہ تھا سب کا کے ایک جھوٹ سے ٹوٹ گیا ۔" وہ یک دم برھم ہوا
"اگر بھروسہ نہیں تھا تو نکاح کے وقت ہی رخصت کر دیتے اس وقت زری کی بات مان لی اور اب جب اس کے پیپر شرو ع ہونے والے ہیں تو انہوں نے یہ سب شرو ع کر دیا ۔ ان دونوں کو صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا "
"شاہ ھم جانتے ہیں زری اور عدیل ایسے نہیں ہیں مگر میں نہیں جانتی تایا ابا نے شادی جلد کیوں کروائی وہ صرف اتنا کہ رہے تھے کے جو بھی اس بارے میں بات ہو گی شادی کے بعد ہی ہوگی " رابیل نے اس اسے بتایا
"رابیل میں ایک اچھا بھائی بھی نہیں بن سکا نا اس وقت میری بہن کو میری ضرورت تھی اور میں اپنی ہی زندگی میں مگن ہو کر اسے بھول گیا " شاہ زیب کی آنکھوں میں دکھ تھا
"نہیں شاہ۔ ۔آپ تو ان سب سے انجان تھے نا "
"اب میں اس گیا ہوں نا اس عروا کو تو میں دیکھ لوں گا "
"ھم مل کے اسے سیٹ کریں گے آپ فکر نا کریں " رابیل نے سر اثبات میں ہلا کر اسے تسلی دی ۔۔ شاہ زیب کھانا کھا کر اٹھ گیا ۔۔۔
وہ دونوں چلتے ہوئے شاہ زیب کے کمرے میں داخل ہوئے ۔۔ جو کچن کے سامنے تھا ۔۔
"آپ ریسٹ کریں میں آتی ہوں " بیڈ ٹھیک کر کے وہ شاہ زیب کو دیکھ کر بولی ۔۔ جو چینج کر کے آ چکا تھا اب وہ سفید کمیز شلوار پہنے ہوئے تھا
"اوکے " شاہ زیب نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔ اور رابیل فریش ہونے چلی گئی تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوئی ۔ شاہ زیب آنکھوں پر بازو رکھے لیتا ہوا تھا رابیل کی آمد پر اس نے رابیل کو دیکھا ۔۔ وہ شلوار کمیز پہنے ہوئے تھی ۔ منہ کے گرد دوپٹہ سکارف کی طرح لیا ہوا تھا جس سے اس کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا ۔ شاہ زیب کو دیکھ کر وہ مسکرائی ۔ اور الماری سے جاۓ نماز نکالا ۔۔
باہر جانے لگی جب شاہ زیب کی آواز پر رکی
"کہاں جا رہی ہو "
"نماز پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے " رابیل کہ کر چلی گئی ۔۔
__________________
بیڈ ٹیک سے ٹیک لگائے وہ فون استمعال کر رہا تھا ۔ جب رابیل کمرے میں داخل ہوئی ۔۔
"آپ سوئے نہیں " جاۓ نماز الماری میں رکھتے ہوئے وہ پوچھ رہی تھی
"نہیں تمہارا انتظار کر رہا تھا " فون سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے شاہ زیب نے جواب دیا
"اچھا " مسکرا کر کہتے ہوئے وہ اپنا سکارف اتارنے لگی
"رابیل تمھیں سکارف بہت خوبصورت لگتا ہے ماشاءالله " نظریں رابیل پر جمائے ہوئے شاہ زیب نے اس کی تعریف کی
ہر کوئی رابیل کی تعریف کرتا تھا مگر جب شاہ زیب اس کی تعریف کرتا تھا ایک الگ ہی احساس اس کے اندر پیدا ہوتا تھا
تجھے معلوم ہے میرے چارہ گر
یہ ظرف ہے میرے عشق کا
میرے دل نے چنا تجھی کو
تیری بے تحاشا انا کے ساتھ
" تھینک یو " بالوں کو سیٹ کرتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا
"ادھر بیٹھو " اپنے پاس اشارہ کرتے ہوئے شاہ زیب نے اسے بلایا ۔۔ رابیل اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔۔
"رابیل مجھے خیرت ہے کے تم نے مجھ سے ایک بار بھی نہیں پوچھا میں تم سے دور کیوں چلا گیا تھا وہ بھی بنا بتاۓ ۔ پتا اے میں سوچ رہا تھا تم لڑو گی یاں مجھ سے ناراض ہو جاؤ گی ۔ یاں پتا نہیں کیا کرو گی لیکن تم نے بلکل الگ کیا ہے کچھ بھی نہیں کہا مجھ سے کیوں ؟ کیا تم مجھ پر اپنا حق نہیں سمجھتی یاں پھر تم مجھ سے راضی ہی نہیں ہو " وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ایک لڑکی سے اتنی برداشت کی توقع وہ نہیں کر سکتا تھا یاں یہ کہنا بہتر ہو گا کے اپنی زندگی مسن کبھی اس نے رابیل جیسی حمبل لڑکی نہیں دیکھی تھی
"جب آپ میری زندگی میں آئے تھے نا شاہ اور جب آپ نے مجھے عبیرہ کے بارے بتایا تھا تب سے میں نے فیصلہ کیا تھا کے میں آپ کی خوشی میں ہی خوش رہوں گی کبھی آپ کو وہ کرنے کو نہیں کہوں گی جو میں چاہتی ہوں ہمیشہ اس میں خوش ہو جاؤں گی جو آپ چاہتے ہیں اور یہ بھی کے کبھی بھی عبیرہ اور آپ کے درمیان نہیں آؤں گی میں جانتی ہوں جس سے محبت ہو اس کو بھولایا نہیں جا سکتا اور پھر اگر میں کبھی آپ دونوں کے اندر آئی تو وجہ صرف یہ ہوگی کے جب جب آپ اس کی وجہ سے پریشان ہوں گے تب تب میں آپ کو سمبھالوں گی ۔ شاہ اس رات آپ آ کر روۓ اور میں جانتی تھی کے وجہ عبیرہ تھی میں آپ کو سمبھالنا چاہتی تھی ۔ کیوں کے میں آپ کی زندگی کی ساتھی ہوں شریکِ حیات ہوں مگر جب صبح اٹھی تو آپ جا چکے تھے تب ایک لمحے کے لئے لگا کے میری زندگی ختم ہو گئی ہے اور سوچا جب آپ آئیں گے ناراض ہوں گی گلا کروں گی مگر جب آپ میرے پاس نہیں تھے تو مجھے احساس ہوا کے جب محبت دور ہوتی ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے( وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہی تھی ۔ پھر رابیل نے شاہ زیب کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما)
مجھے دکھ یہ تھا کے میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں آپ اکیلے ہیں . مگر شاہ زیب ان دنوں میں بھی ایک چیز میری تسلی کے لئے کافی تھی اور وہ یہ کے آپ چاہ کر بھی مجھے نہیں چھوڑ سکتے ہمارا رشتہ بہت مضبوط ہے شاہ بہت مضبوط اس رشتے میں بندھنے کے لئے ہم نے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا ہے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر ہم نے ایک دوسرے کو قبول کیا ہے اور آج ھم ایک دوسرے کے نکاح میں ہیں ۔ تب احساس ہوا کے مجھے تو امید تھی کے آپ لوٹ آؤ گے کیوں کے نکاح کی ڈور نے ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے ۔ مگر عبیرہ ۔۔ شاہ زیب عبیرہ تو ہمیشہ کے لئے آپ سے دور چلی گئی ہے آپ بھی تو اتنی جلدی اسے بھول نہیں سکتے نا۔ آپ کی تکلیف میں محسوس نہیں کر سکتی کیوں کے آپ نے اپنی محبت ہمیشہ کے لئے کھو دی ہے مگر شاہ مجھ میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کے اپنی محبت کو کھونے کا تصور بھی کر سکوں ۔ "
"تھینک یو رابیل " شاہ زیب نے اس کے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑا
"میں اتنی اچھی نہیں ہوں شاہ مگر آپ سے ناراض نہیں رہا جاتا " رابیل نے کہا
" جانتی ہو اس دن کیا ہوا تھا (شاہ زیب کی بات پر رابیل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا )اس دن گھر آنے سے پہلے میں تمہارے لئے گفٹ لینے مال گیا تھا ۔ میں چاہتا تھا تمھیں ایک خوبصورت سا تحفہ دوں مگر وہاں تمہارے لئے گفٹ پسند کرتے ہوئے میں نے عبیرہ کو دیکھا وہ بھی وہاں موجود تھی۔ اتنے عرصے بعد اسے وہاں دیکھ کر خوشی ، غصہ اور دکھ سب کی ملی جلی کیفیت تھی ایک لمحے کو چاہا آگے بڑھ کر اس سے بات کروں مگر جیسے اس کی طرف بڑا تو سمجھ آیا وہ وہاں اکیلی نہیں تھی رابیل اس کے ساتھ اسکا شوہر بھی تھا۔ وہ شخص جو میرے مقام پر کھڑا تھا جس مقام پر کھڑ ے ہونے کے میں نے خواب دیکھے تھے وہ وہاں موجود تھا اور خیرت کی بات پتا کیا تھی وہ دونوں وہاں ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہوئے شوپنگ کر رہے تھے وہ خوش تھی کسی اور کے ساتھ وہ لہش کیسے ہو سکتی تھی (شاہ زیب کی آنکھوں میں دکھ تھا رابیل ایک بار پھر اپنی محبت کے منہ سے اس کی محبت کی باتیں سن رہی تھی کتنا مشکل تھا یہ برداشت کرنا مگر وہ شاہ زیب کے لئے یہ سب کر لیتی تھی ) ۔ اسے وہاں کسی اور کے ساتھ دیکھ کر مجھے بہت برا لگ رہا تھا اور لگنا بھی چاہیے نا ۔۔(وہ ہاتھوں پر نظر جمائے ہوئے بول رہا تھا جس میں اس نے رابیل کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا پھر نظر اٹھا کر اس نے رابیل کو دیکھا ) ایک منٹ میں وہ سارا ماضی جس پر میں نے بہت مشکل سے پردہ ڈالا تھا وہ میرے سامنے آ گیا رابیل میں خود کو سمبھال نہیں پایا اس سے پہلے کے وہ مجھے دیکھتی میں مال سے نکل آیا ۔ بہت دیر تک میں پارک میں بیٹھا رہا عبیرہ کے ساتھ گزارا ہوا وقت نا چاہتے ہوئے بھی مجھے یاد آ رہا تھا ۔ جب خود پر تھوڑا قابو پایا تو گھر آیا مگر رابیل گھر آ کر تمھیں دیکھا جس طرح تم میرا انتظار کر رہی تھی میرے لئے پریشان ہو رہی تھی پتا نہیں کیوں تم سے میں چھپا نہیں پایا اور تمہارے سامنے اپنے آنسو روک نہیں پایا ۔۔(وہ رابیل کو ہی دیکھ رہا تھا جو شاہ زیب کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے اسے سن رہی تھی وہ کم ہی بولتا تھا اس لئے جب وہ بولتا تھا تو رابیل اسے سننا بہتر سمجھتی تھی ) رات کو جب میری آنکھ کھلی اور تم میرے پاس نیچے صوفے سے ٹیک لگاۓ سو چکی تھی رابیل اس لمحے احساس ہوا کے میں نے تمہارے ساتھ کتنا غلط کیا ہے۔ اس وقت ایسا لگا کے میں تمہارے قابل ہی نہیں ہوں مجھے چلے جانا چاہیے کیوں کے میں جانتا تھا کچھ دن میں اس بات سے چاہ کر بھی باہر نہیں نکل پاؤں گا اس لئے میں بغیر بتاۓ آوٹ اوف سٹی چلا گیا اور تم سب سے رابطہ ختم کر دیا ۔۔۔ لیکن وہاں جا کر بھی سکون نہیں آیا رابیل وہاں تمہاری یاد آتی رہی ۔ کھاتے پیتے اٹھتے بیٹھتے ۔۔ سوتے ۔۔ ہر وقت تم یاد آتی تھی۔ تم نے مجھے اتنا خود کا عادی کر دیا ہے رابیل کے وہاں رہنا میرے لئے مشکل ہو گیا تھا پھر مجھے لگا ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاؤں گا مگر نہیں ۔۔ رابیل مجھے احساس ہوا کے تم میرے لئے کتنی ضروری ہو اور تم سے دور نہیں رہ پایا اور لوٹ آیا تمہارے اس ۔ میں نے بہت غلط کیا رابیل جب عبیرہ کی یاد آتی ہے تو میں خود غرض ہو جاتا ہوں اس خود غرضی میں ہی میں تم سے دور چلا گیا یہ سوچے بغیر کے تمہارا کیا حال ہوا ہوگا مجھے معاف کر دو رابیل مجھے معاف کر دو " رابیل کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے اس نے ان کو اپنے منہ کے پاس کرتے ہوئے ان پر اپنا سر رکھ دیا
"مجھے معاف کر دو پلیز "
ہوا کے رخ پر دیا دھر نہیں گیا تھا میں
بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں
یہ اور بات ہے کے میں نا مراد لوٹ آیا
مگر قطار میں لگ کر نہیں گیا تھا میں
ہوا ضرور تھا اوجهل نگاہ سے لیکن
گئے ہوئوں کے برابر نہیں گیا تھا میں
پرائے کرب کی تحویل میں دیا گیا تھا
خوشی سے آگ کے اندر نہیں گیا تھا
"نہیں شاہ ۔۔ آپ کو کبھی بھی مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر آپ کی بیوی آپ کو نہیں سمجھے گی تو اور کون سمجھے گا لیکن اگلی بار مجھے چھوڑ کر جانے کا سوچا بھی نا تو میں پتا بھی ہے میرا ۔ " اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں سے آزاد کرواتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا بدلے میں وہ بھی مسکرایا
"چلیں اب تھک گئے ہوں گے آپ سو جائیں " رابیل نے مسکراتے ہوئے کہا
_____________________
دادی جان ہال میں آ کر صوفے پر بیٹھیں تھیں ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی ۔ وہ نماز پڑھ کر تھوڑی دیر بعد پھر ہال میں آ کر بیٹھتی تھیں ۔ دادی جان ہال میں بیٹھیں تسبیح پڑھ رہی تھیں جب رابیل کچن سے باہر آ کر ان کی طرف بڑھی ۔ رابیل کو اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ مسکرائی تو تھیں مگر ساتھ میں ایک عجیب سی پریشانی یک دم ان کے اندر آئی تھی کیوں کے کوئی بھی اتنی صبح اٹھ کر اپنے کمرے سے باہر نہیں آتا تھا مگر آج رابیل کمرے سے بھی نہیں بلکہ کچن سے نکل کر آ رہی تھی اس کا مطلب تھا وہ کافی پہلے سے جاگی ہوئی تھی . رابیل کے ہاتھ میں چاۓ کے دو کپ تھے ۔ دادی جان کے پاس آ کر وہ رکی
"صبح بخیر دادی جان " مسکراتے ہوئے اس نے کپ ٹیبل پر رکھے اور خود دادی جان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی
"صبح بخیر ۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا رابیل " پریشانی سے انہوں نے پوچھا
"جی بلکل دادی جان کیوں میں بیمار لگ رہی ہوں " رابیل نا سمجھی سے خود پر نظر ڈال کر بولی
"نہیں تم آج اتنی صبح ۔۔۔۔سب خیریت ہے "
"اچھا مجھے لگا شائد میں بیمار لگ رہی ہوں جو آپ نے پوچھا ہے ۔ یہ فجر پڑھ کے سونے کا دل نہیں تھا سوچا آپ کے لئے اور اپنے لئے چاۓ بنا لوں اور ویسے بھی آج زری کا شادی کے بعد پہلا ناشتہ ہے تو کچھ اسپیشل ھونا چاہیے "
"اچھا۔ تمہاری شاہ زیب سے بات ہوئی کیا " دادی جان نے چاۓ کا کپ اٹھاتے ہوئے پوچھا
"نہیں " رابیل نے ہنسی دبا کر کہا
"ارے فون تو کرو اسے۔ یہ کوئی طریقہ ہوا بھلا نا بات کی تم سے نا شادی پر آیا اتنا بھی کیا مصروف ہوا۔ " دادی جان کے ماتھے پر شکن آئی
"ارے ارے دادی جان سن تو لیں ۔۔ بات نہیں ہوئی بلکہ شاہ کل رات کو خود ہی آ گئے ہیں " رابیل مسکراتے ہوئے بولی جس پر دادی جان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی
"تمہارے چہرے پر جو چمک ہے نا اس کو دیکھ کر ہی میں نے شاہ زیب کا تم سے پوچھا تھا کیوں کے جب سے تم ادھر آئی تھی یہ تمہارے چہرے کی رونق کہیں کھو سی گئی تھی ۔ آج یہ رونق لوٹ آئی ہے جس کی وجہ بلا شبہ شاہ زیب ہی ہے کیوں کے ایک وہ ہی تو ہے جس کا نام سن کر بھی میری بیٹی خوش ہو جاتی ہے " دادی جان اس کے چہرے کو جانچتے ہوئے بول رہی تھیں ۔۔ حیا سے رابیل کی نظریں جھک گئیں
"دادی جان " رابیل نے نظر اٹھا کر ان کو دیکھا جو سامنے بیٹھیں اب چاۓ پی رہی تھیں۔۔ رابیل کی آواز پر انہوں نے سوالیہ نظروں سے رابیل کو دیکھا
"ہم ساتھ میں اچھے لگتے ہیں کیا " رابیل کے سوال پر وہ مسکرائیں۔
"تم دونوں کو دیکھ کر لگتا ہے کے تم دونوں صرف اور صرف ایک دوسرے کے لئے بنے ہو۔ (رابیل کو انہوں نے بھر پور تسلی دی )تم جانتی ہو رابیل مرد کے دل میں عورت اپنا مقام خود بناتی ہے ۔ جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں نا تو عورت اپنی محبت سے مرد کے دل میں جگہ بناتی ہے ۔ کبھی وہ اس کی ماں بن کر اس کا خیال رکھتی ہے تو کبھی اس کی داسی بن کر اس کے کام کرتی ہے ۔ کبھی ایک دوست بن کر اس کی ہر بات میں اسے مشورہ دیتی ہے ۔ ایک بیوی مرد کے لئے بہت کچھ کرتی ہے رابیل اس رشتے کو نبھانے میں وہ اپنی تمام تر محنت لگا دیتی ہے مگر میری جان ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کبھی بھی اس کا کوئی کام بدلے میں بہتری کی امید رکھ کر نا کرنا ۔ یہ ایک بے لوث جذبہ ہے رابیل ۔ جب کسی سے محبت کی جاتی ہے تو بدلے کی امید نہیں رکھی جاتی۔ یہ سب اس لئے کھ رہی ہوں کیوں کے تم شاہ زیب سے بہت محبت کرتی ہو اور اسے خوش رکھنے کی سمجھنے کی بہت کوشش کرتی ہو لیکن اگر وہ بدلے میں تمھارے لئے کچھ نا بھی کر سکے تو برا نا منانا " وہ سنجیدگی سے دادی جان کی بات سن رہی تھی
"کچھ بھی امید نا رکھیں دادی " اس نے پوچھا
"رکھو ضرور رکھو کیوں کے ہم کبھی بھی کسی سے بھی امید رکھنے سے باز نہیں آ سکتے رابیل ۔ ہم کہتے ہیں کے ہم امید نہیں رکھیں گے مگر ہم رکھتے ہیں نا چاہتے ہوئے بھی ہم لوگوں سے وابستہ اپنی امیدوں کو چھوڑ نہیں سکتے ۔ مگر اگر اگلا امید پر پورا نا اترے تو اسے یہ مت جتاؤ کے میں نے تمہارے لئے یہ کیا وہ کیا تم نے میرے لئے کیا کیا "
"یعنی ہم امید رکھیں مگر یہ بھی یاد رکھیں کے یہ امیدیں ٹوٹ سکتی ہیں ۔ امید رکھنے سے پہلے خود کو اس چیز کے لئے تیار رکھیں کے اگر یہ ہی امید ٹوٹ جاۓ تو ہم خود کو کور کیسے کریں گے " رابیل نے اپنی زبانی کہا
"بلکل " دادی جان نے کہا ۔۔
"کیا باتیں ہو رہی ہیں " شاہ زیب ان کے پاس آتے ہوئے بولا ۔ دادی جان اور رابیل نے شاہ زیب کی طرف دیکھا
"آپ کی برائیاں کر رہے ہیں " رابیل مسکرا کر بولی
"ہو ہی نہیں سکتا ۔ ہر کسی سے میں یہ امید رخ سکتا ہوں مگر تم سے دادی سے کبھی نہیں " چلتا ہوا وہ دادی جان کے پاس آیا اور ان کو ملا
"میرا بچہ کتنا کمزور لگ رہا ہے " دادی جان نے اس کے ماتھے پر پیار دیا
"رابیل کی موٹی روٹی جو نہیں ملی کھانے کے لئے ۔۔ کیا بتاؤں دادی اتنی موٹی روٹی بناتی ہے آپ یقین نہیں کریں گی اس کی ایک روٹی کو دیکھو تو دو روٹیاں لگتی ہیں" وہ دادی کے پاس بیٹھ گیا
"اچھا ٹھیک ہے ۔۔ اب آپ ہوٹل کا ہی کھانا کھایا کریں ۔ " منہ بنا کر وہ اٹھ گئی
"نہیں مجھے تمہارے بد ذائقہ کھانے کھانے کی عادت ہو گئی ہے " وہ بھی باز نہیں آیا تھا
"دادی میں ناشتہ بنا لوں " اسے اگنور کرتے ہوئے رابیل کچن میں چلی گئی دادی اور شاہ زیب ہنس کر رہ گئے
"یہ بہت اچھی کوکنگ کرتی ہے دادی اس کے کھانے کا عادی ہو گیا ہوں بڑے سے بڑے ریسٹورانٹ کا کھانا بھی مجھے پسند نہیں اتا " دادی کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔۔
"کیوں تنگ کرتے ہو پھر اسے "
"یہ جب چڑتی ہے نا تو مزہ آتا ہے مجھے " شاہ زیب کچن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔ کچن تک آواز جا رہی تھی رابیل ہنس کر رہ گئی ۔۔
________________________
وہ کھڑا گھڑی باندھ رہا تھا جب زری فریش ہو کر آئی ۔ سادہ سی شلوار کمیز کے اوپر ڈھیلی پونی کر کے شال کندھوں پر ڈالے ہوئے تھی ۔ چہرہ بے رونق ہوا تھا ۔ وہ کبھی اتنی سادہ گھر میں بھی نہیں رہتی تھی جتنی اب رہنے لگی تھی ۔
"کپڑے تو بدل لو " عدیل کہی بغیر رہ نا سکا
زری نے خون خوار نظروں سے اسے دیکھا
"تمھیں کوئی حق نہیں میری پرسنل لائف میں انٹر فئیر کرنے کا "
"میں شوہر ہوں تمہارا تم مانو یاں نا مانو ۔ "
"یہ سب ڈرامے میرے ساتھ مت لگاؤ عدیل ۔ میں پہلے ہی تمھیں بہت برداشت کر رہی ہوں مزید نہیں کر پاؤں گی " انگلی اٹھا کر وہ اسے وارن کرتے ہوئے بولی
"میں نے کچھ بھی نہیں کیا تم میرا یقین کیوں نہیں کر رہی "
"جیسے میرے گھر والوں نے مجھ پر یقین نہیں کیا نا اسی طرح مجھے بھی تم پر نہیں کرنا ۔ اگر تم نا آتے تو نا بدنامی ہوتی میری سمجھے تم " وہ چلائی
"شش۔ ۔آہستہ باہر سب موجود ہیں " وہ اسے خاموش کروانا چاہتا تھا
"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی میرے بارے میں کیا سوچتا ہے جو سوچنا تھا وہ تو سوچ ہی چکے ہیں نا سب " کہ کر وہ باہر نکل گئی
کسی نے کہا میں برا ہوں تم مان کر چل پڑ ی
اتنا کمزور بھروسہ اپنے پیار پر انجان بن کے چل پڑی
مضبوط سے مضبوط رشتہ شک طور دیتا ہے
تمھیں لگا وہ سچ تھا گماں کر کے چل پڑی
______________
سب ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھے زری اور عدیل کا انتظار کر رہے تھے ۔ زری کمرے سے نکلی تو اس کے پیچھے پیچھے عدیل بھی آیا ۔
"السلام عليكم " سب کے پاس آتے ہوئے سنجیدگی سے زری نے کہا
سب کی نظر ان دونوں پر تھی سب نے جواب دیا شاہ زیب جو سب کے ساتھ ہی بیٹھا تھا اٹھ کھڑا ہوا اور زری کی طرف بڑھا
"کیسی ہو " اسے اپنے ساتھ لگا کر شاہ زیب نے پوچھا
"آپ کو کیا فرق پڑتا ہے کوئی زندہ رہے یاں مرے " اس سے الگ ہوتے ہوئے زری نے سخت لہجے میں کہا
"میری جان میں آ گیا ہوں نا سب ٹھیک کر دوں گا " شاہ زیب عدیل سے مل رہا تھا مگر مخاطب وہ زری سے تھا
"اچھا " زری نے کہتے ہو ئے پلیٹ اٹھائی
"تم تیار نہیں ہوئی " رابیل کچن سے ناشتے کی کچھ مزید چیزیں لاتے ہوئے زری کو دیکھ کر بولی
"نہیں " زری نے ناشتہ کرتے ہوئے جواب دیا
سب خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے ۔
"اچھا چلو میں تمھیں تیار کر دوں گی تم فکر نا کرو " رابیل نے مسکرا کر اس کا موڈ فریش کرنا چاہا
"تھوڑی دیر میں تم لوگ پارلر کے لئے نکل جاؤ اور ٹائم سے ہوٹل پوھنچ جانا ۔" نگہت بیگم رابیل کو ولیمہ کی ڈیٹیلز دینے لگیں ۔
"شاہ زیب اور تمہارا آفس کیسا جا رہا ہے " جنید صاحب نے بات بدل دی۔ اور شاہ زیب ان کو اپنی بزنس ڈیٹیل دینے لگا
_______________
کبھی کبھی انسان دوسروں کو بے سکون کر کے خود سکون کی تلاش میں ہوتا ہے ۔ دوسروں کو بے سکون کر کے انسان نا تو سکون حاصل کر سکتا ہے اور نا خوشی ۔ دوسروں کی زندگی کے کم بگاڑ کر اپنے حق میں بہتری کی امید رکھنا بے کار ہے ۔
کچھ ایسا ہی عروا کے ساتھ بھی ہو رہا تھا ۔ اس نے ہمیشہ شاہ زیب کو پانا چاہا تھا۔ کیوں کے وہ اسے پسند کرتی تھی مگر شاہ زیب اس کا نہیں رابیل کا ہو گیا تھا ۔ شاہ زیب کے ساتھ شادی کروانے میں اگر زری عروا کا ساتھ دیتی تو آج عروا اور شاہ زیب ساتھ ہوتے مگر زری عروا کو خاص پسند نہیں کرتی تھی اور عروا یہ بات بھی بہت اچھے سے جانتی تھی ۔
یہ ہی وجہ تھی کے جب عروا ۔ اور شاہ زیب کی شادی نا ہو پائی تو عروا نے ذری کی خوشیاں چھیننے کی پلاننگ شرو ع کر دیں ۔ انہی سوچوں میں گم عروا اپنے گھر کے گارڈن میں واک کر رہی تھی ۔
" جب جب شاہ زیب اور رابیل کو ایک ساتھ دیکھ کر میرا دل جلا تب تب زری کا چہرہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی ہے ۔ میرے پھینکے ہوئے جال میں سب اتنی آسانی سے پھنس جائیں گے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا " وہ خود کلامی کرتے ہوئے خوش ھو رہی تھی
جب انسان کچھ غلط کر رہا ہو اور اسے اس چیز کا احساس تک نا ہو تو اس سے بڑی بربادی انسان کے لئے ب اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔ اپنی غلطی کا احساس ہونا بھی ہمارے انسان ہونے کی دلیل ہوتی ہے ۔ اگر کسی کو دکھ دے کر آپ بھی آپ خوشی سے سو جاتے ہیں تو یقین کریں آپ کا ضمیر اور آپ کے اندر احساس . مسٹر چکا ہے ۔
___________________________
"میں اندر آ سکتی ہوں " دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے رابیل نے اندر دیکھ کر پوچھا ۔ دروازہ کھلا تھا مگر دستک دینے کا مطلب اندر موجود لوگوں کو متوجہ کرنا اور آگاہ کرنا تھا کے کوئی کمرے میں داخل ہونے والا ہے
"تمھیں کب سے اجازت لینے کی ضرورت پڑ گئی ہے " زری نے مسکرا کر کہا تو رابیل کمرے میں داخل ہوئی
"ہاں جہاں تم میں اتنی تبدیلیاں آ گئی ہیں کیا خبر اگر ابھی بغیر دستک دیئے آ جاتی تو تم مجھ سے خفا ہو جاتی ۔"
"ایک تم ہو تی رابیل جو مجھے سمجھتی ہو کم از کم تم جیسی دوست کو میں کھونا نہیں چاہتی " زری اور وہ دونوں صوفے پر بیٹھیں
" اچھا مجھے لگا کے تم اگر عدیل سے ناراض ہو تو اس کی بہن سے بھی ہوئی ہو گی "
"جب تم شاہ زیب بھائی سے ناراض ہوتی ہو تو کیا مجھ سے بھی ہو جاتی ہو " زری نے جتانا چاہا
"زری میں جانتی ہوں تم بہت ہرٹ ہوئی ہو سچ کہوں تو گھر والوں کے رویوں سے دکھ تو مجھے بھی ہوا ہے کم از کم ان کو تمہارا ساتھ دینا چاہیے تھا لیکن سب تمہارے خلاف ہیں ۔ لیکن تم یقین کرو میں اور شاہ زیب اس کے پیچھے کا سچ نکال لیں گے جس نے یہ گھٹیا حرکت کرنے کی کوشش کی ہے تم بھی جانتی ہو اور میں بھی بس اس کو سب کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا اور اس کے لئے ثبوت چاہیے میں کوشش کروں گی کے جلد ثبوت ڈھونڈھ لوں ۔" رابیل سنجیدگی سے بول رہی تھی زری خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسے سن رہی تھی ۔
"دیکھو آج ولیمہ بھی گزر گیا ہے اب ہم آرام سے بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں گے ٹھیک ہے "
"رابیل اگر عروا نے یہ سب کیا ہے تو گھر والوں کو تو مجھ پڑ یقین کرنا چاہیے تھا ان کے اس رویے کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی ۔ اتنا کمزور بھروسہ تھا کے ایک منٹ میں مجھے مجرم بنا دیا سب نے " زری دکھ سے کہ رہی تھی
"نہیں زری کوئی تمھیں مجرم نہیں بنا رہا وہ بس تھوڑا غصہ ہیں جلد یہ سب ٹھیک ہو جاۓ گا میرا یقین کرو "
"پتا نہیں رابیل " وہ مایوسی سے بولی
"تم مایوس نا ہو زری ۔ . مایوسی تو گناہ ہے امید رکھو سب بہتر ہو گا انشااللہ ۔۔"
"رابیل جانتی ہو کوئی کچھ بھی کرے آپ کے خلاف باتیں کرے سازشیں کرے آپ کو فرق نہیں پڑتا مگر جب بات انسان کے کردار پڑ آتی ہے نا تو انسان بہت کانشیس ہو جاتا ہے یہ مسئلہ بہت حساس ہوتا ہے رابیل ایک لڑکی کے لئے تو بہت ہی زیادہ ۔ جب یہ لوگ مجھے بہت اچھے سے جانتے ہیں تو کیوں پھر آج مجھ پڑ یقین نہیں کر رہے میں تو ان کے سامنے پلی بڑی ہوں تو کیا انہوں نے کبھی مجھے ایسی کوئی بھی حرکت کرتے دیکھا ہے جو اتنی آسانی سے یقین کر لیا "
"زری ہم تو بہت گناہگار ہیں یار ۔ تم کیسے بھول سکتی ہو لوگوں نے تو حضرت عائشہؓ پر بھی تہمت لگا دی تھی۔ یہ لوگ کچھ بھی بول دیتے ہیں زری ۔ جو منہ میں آتا ہے یہ لوگ بک دیتے ہیں ۔ اور پھر جانتی ہو کیا ہوا حضرت عائشہؓ کی گواہی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورہ نور میں دی ۔ جب حضرت عائشہؓ پر لوگوں نے الزام لگایا تو پھر ان کی گواہی میں رسول پاک صلى الله عليه وسلم پر وحی نازل ہوئی تھی
ترجمہ:
تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں۔ یا اللہ ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے
آیت 16سوره نور
اور تم جانتی ہو زری حضرت عائشہؓ کے خلاف باتیں کرنے میں اس وقت وہ لوگ بھی موجود تھے جو مالی طور پر سٹرونگ نہیں تھے اور حضرت ابو بکر صدیقؓ انکی مالی مدد فرماتے تھے۔ جتنی نیک حضرت عائشہؓ تھیں ہم اتنے ہو ہی نہیں سکتے مگر یہ سوچ کر دل کو تسلی ہوتی ہے کے یہ لوگ تو کچھ بھی بول دیتے ہیں ایک پاک دامن عورت حضرت عائشہ پر بھی انہوں نے تہمت لگا دی مگر دیکھو لوگوں کے سامنے سچ آ گیا تھا اللہ تعالیٰ نے قرآنی آیات نازل فرمائیں جن سے صاف ظاہر تھا کے حضرت عائشہؓ بے قصور ہیں اور پاکدامن ہیں ۔ تم کیوں مایوس ہو رہی ہو حضرت عائشہؓ کا اور تمہارا اللہ ایک ہی ہیں انشااللہ اللہ تعالیٰ بہت جلد کسی ذریعے سے ان سب کے سامنے سچائی لے آئیں گے وہ جس کی ذات پاک ہے کوئی نا کوئی ایسا وسیلہ ضرور بنا دے گا کے تم سچی ہو اور حق پر ہو سب کو پتا چل جاۓ گا " رابیل کی باتوں سے زری کے چہرے پر اب قدرے اطمینان تھا
"انشااللہ " زری نے آہستگی سے کہا
____________________________
عدیل باہر لان میں بیٹھا نا جانے کن سوچوں میں گم تھا مگر شکل سے وہ کافی پریشان لگ رہا تھا ۔ شام ہو چکی تھی ۔ ولیمہ سے واپس آ کر سب ہال میں ہی بیٹھے تھے مگر عدیل چینج کر کے باہر لان میں آ گیا تھا ۔ وہ نیچے ہی گھاس پر بیٹھا تھا ۔ جب شاہ زیب چلتا ہوا آیا اور اس کے پاس آ کر رکا
"کن سوچوں میں گم ہو " شاہ زیب بھی نیچے اس کے پاس بیٹھ گیا ۔ تو عدیل بھی سوچوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آیا
"کچھ نہیں " بس اتنے سے جواب پر ہی عدیل نے اکتفا کیا
"اب کوئی مان سکتا ہے کے اس لڑکے کا آج ولیمہ تھا جو اتنا منہ سوجھا کر بیٹھا ہے " شاہ زیب نے بغور اسے دیکھتے ہوئے کہا
"ہاہا بس کوئی مانے نا مانے پر شادی شدہ کا ٹائٹل تو لگ گیا ہے مجھ پر "
"سب خیریت ہے نا پریشان لگ رہے ہو" شاہ زیب اب اصل بات پڑ آیا تھا
"تمھیں لگتا ہے اب مجھے پریشان ہونے کے لئے وجہ کی ضرورت ہے سب کچھ تو تمہارے سامنے ہے " عدیل بے بسی سے بولا
"یار سب ٹھیک ہو جاۓ گا عدیل "
"سب ٹھیک تو ہو جاۓ گا مگر اب جو ہو رہا ہے اس کا کیا ۔ اب جب مجھے زری کی اور اسے میری ضرورت ہے تو وہ مجھے ہی غلط سمجھ کر بیٹھی ہے یار ایسے کیسے چلے گا " وہ اکتا کر بولا
"اچھا تھوڑا صبر کر بس ۔۔ اچھا سن ۔۔ کل تم مجھے ملو بات تو آج ہی کرنا چاہتا تھا مگر آج تم تھک گئے ہو اس لئے کل میرے گھر آ جاؤ یاں آفس پھر بات کریں گے اب میں اور رابیل جا رہے ہیں " اٹھتے ہوئے وہ بولا
"اچھا کل تمہارے گھر ہی آتا ہوں شام کو آفس سے آ کر " عدیل بھی اٹھ گیا
"ابھی چلو مل رابیل سے پھر ہمیں نکلنا ہے "
"ہاں چلو " کہ کر عدیل بھی شاہ زیب کے ساتھ چل دیا
_________________________
رابیل نے لائٹ بلو رنگ کی لونگ فروک پہنی تھی جس کے اوپر گلابی رنگ کے پھول بنے تھے اس کے نیچے گلابی پمپس ۔ کندھے پر پھیلا کر شیفون کا گلابی دوپٹہ لیا تھا۔ بالوں کو کھول کر دونوں کندھوں پڑ ڈالا ہوا تھا۔ میک اپ کی جگہ ہلکی سا لپ گلوز لگایا ہوا تھا ۔ ہاتھ میں ہینڈ بیگ پکڑا ہوا وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی کمرے سے تیار ہو کر وہ باہر نکلی تو شاہ زیب کی نظر اس پڑ ٹھہر سی گئی تھی۔ ہال میں سب سے آ کر وہ مل رہی تھی جس طرح وہ ہنس ہنس کر بول رہی تھی وہ بس اسے دیکھ رہا تھا اس پڑ سے نظر ہٹانا ہمیشہ شاہ زیب کے لئے مشکل ہو جاتا تھا ۔
ملاوٹ ہے تیرے عشق میں عطر اور شراب کی
کبھی ہم مہک جاتے ہیں کبھی ہم بہک جاتے ہیں
"شی از سو بیوٹیفل " دادی جان شاہ زیب کے ساتھ کھڑی تھیں شاہ زیب نے اسے سرگوشی کرتے ہوئے کہا
"شرم کرو دادی ہوں تمہاری " دادی جان بھی رابیل کو ہی دیکھ رہی تھیں شاہ زیب کے کندھے پر تھپکی لگاتے ہوئے انھوں نے کہا
"آپ میری دادی کم اور فرینڈ زیادہ ہیں " شاہ زیب مسکرا کر بولا
"ماشاءالله بولو نظر نا لگانا میری بچی کو "
"ہاہا ۔۔ دادی جان ۔۔ شوہر کی نظر کب سے لگنے لگ گئی میں تو خوشی سے بول رہا ہوں حسد سے تھوڑی "
"میری جان نظر خوشی کی بھی لگ جاتی ہے اس لئے ماشاءالله بولتے ہیں "
"اوکے دادی اور کچھ " شاہ زیب نے ہار مانتے ہوئے کہا
"اوکے دادی ہم چلتے ہیں " دادی جان کے پاس آتے ہوئے رابیل نے کہا اور ان کے گلے لگی
"خیر سے جاؤ میرے بچو ۔۔ " دادی جان نے رابیل کو خود سے الگ کیا اور شاہ زیب کے ساتھ پکڑ کر کھڑا کیا
"ادھر ساتھ کھڑے ہو دونوں " اور دونوں پر سے چند پیسوں کے نوٹ وارے
"اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ہر بری نظر سے بچاۓ آمین "
"اوکےپھر ہم اب چلیں " رابیل نے شاہ زیب کو دیکھتے ہوئے پوچھا
"چلو " شاہ زیب نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر الوداعی کلمات کہے
____________________________
رابیل شاہ زیب کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی شاہ زیب ڈرائیو کر رہا تھا اور رابیل کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی
"جانتے ہیں میں نے سوچا تھا کے اب اس گھر میں شائد آپ کے ساتھ کبھی نا جا پاؤں "
"اتنی جلدی تم اتنا کچھ کیسے سوچ لیتی ہو اپنے چھوٹے سے دماغ پر اتنا زور نا ڈالا کرو " شاہ زیب نے ہنس کر کہا
"شاہ ۔۔۔۔۔شاہ گاڑی روکیں جلدی وہ ۔۔۔۔۔۔" باہر دیکھتے ہوئے اچانک اس وہ ہڑبڑا کر بولی ۔۔
___________________________
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Assalam o Alaikum wa'reh'matulahi'wabarakatuhu
Yh episode apko kesi lgi comment section main zroor btaiye ga. BHT shukriya itna pyar dene KA agli QST lmbi ho gi or akhri bhi is liye ab Thora wqt lgy ga. Lekin itna ziyada b nhi. Thnku sooo much for your love ND support.. AL'HAM'DU'LILLAH bht bht pyar mil rha Hai ap sb sy JAZAKILLAH khair.
Eman Mehmood.
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top