چوتھی قسط

چوتھی قسط :
اسی طرح ٹیک لگاۓ وہ پوری رات سوئی رہی تھی۔ صبح آنکھ کھلتے ھی اسکی نظر پاس سوۓ شاہ زیب پر پڑی جو دنیا سے بےخبر ہو کر سو رہا تھا ۔ رابیل کی طرف منہ کیے وہ سویا تھا ۔ سویا ہوا وہ کتنا خوبصورت لگ رہا تھا۔ اپنے شوہر کو وہ جتنی دیر چاہے دیکھ سکتی تھی لیکن وہ کیا کرتی اس انسان کے چہرے پر وہ زیادہ دیر اپنی نظر ٹھہرا ہی نہیں پاتی تھی ۔ وہ کتنا پر کشش اور خوبصورت تھا یہ کوئی رابیل سے پوچھتا ۔
"یہ وہ ھی شخص ہے جس سے میں نے چپکے چپکے سے محبت کی ہے آج یہ میرا محرم ہے میرے لئے اس سے بڑی خوشی کی بات نہیں ہو سکتی مگر کیا میری اس خوشی میں اس کی بھی خوشی شامل ہے ۔ اگر اس میں شاہ زیب کی خوشی نا ہوئی تو میری خوشی بھی ادھوری ہے۔ میں کسی کو دکھ دے کر خوشی کیسے حاصل کر سکتی ہوں ، کسی کو بے سکون کر کے سکون کیسے مل سکتا ہے ۔۔مجھے شاہ زیب سے پوچھنا تو چاہیے مگر کیسے ۔۔" اسی چہرے پر نظریں جمائے وہ سوچ رہی تھی جب اس نے گھڑی کی طرف دیکھا ۔ 8 بج رہے تھے۔ رابیل اٹھ کر ڈریسنگ کے سامنے گئی ۔ وہ ھی رات والا برائیڈل گیٹ اپ ۔اس نے چینج نہیں کیا تھا ۔۔ جیولری اتار کر ڈریسنگ پر رکھتے ہوئے وہ الماری کی طرف بڑھی
"رابیل " شاہ زیب کی آواز پر رابیل نے فورًا اسے دیکھا ۔۔
وہ بہت کم اسے اس کے نام سے مخاطب کرتا تھا یاں یہ کہنا بہتر ہو گا کے وہ اسے بلاتا ہی بہت کم تھا
لیکن رابیل نے محسوس کیا تھا اس کے منہ سے رابیل کا نام بہت خوبصورت لگا تھا ۔
"جی " نرم لہجے کے ساتھ وہ بولی
"میرے کپڑے نکال دو " وہ لیٹے لیٹے ھی بولا ۔۔
رابیل کے لئے یہ ھی خوشی بہت تھی کے شاہ زیب نے پہلی بار اسے کوئی کام کہا تھا ۔۔
سر اثبات میں ہلا کر وہ کپڑے نکالنے لگی۔
____________________________
وائٹ فل لونگ فروک جو گھٹنوں سے نیچے تک آتی تھی ، اس فروک کا بے گلا بنا ہوا تھا دوپٹہ پھیلا کر لیا تھا، بالوں کو ڈیلی پونی میں باندھا ہوا تھا، ہاتھ میں وہ ہی گولڈ کا بریسلیٹ ، پاؤں میں وائٹ پمپس۔۔ میک اپ نہیں کیا تھا۔۔ رابیل شاہ زیب کے ساتھ کمرے سے باہر آئی ۔ شاہ زیب نے وائٹ فل شلوار کمیز پہنی تھی جو رابیل نے ہی نکالی تھی ۔ یہ کپڑے زری نے ان دونوں کے لئے رکھے تھے اور خاص طور پر رابیل کو کہا تھا کے وہ شاہ زیب کے ساتھ فرسٹ ڈے میچنگ ہی کرے ۔ رابیل نے وجہ پوچھی تو اس نے یہ کہ کر ٹال دیا کے جب رابیل ناشتے کے ٹیبل پر آئے گی تو خود سمجھ جاۓ گی کہ زری نے ایسا کیوں کہا تھا ۔
ناشتے کے ٹیبل پر سب موجود تھے جو اس نئی جوڑی کا ہی انتظار کر رہے تھے ۔
چھوٹے چچا کی فمیلی بھی ناشتے کے ٹیبل پر موجود تھی ۔
رابیل اور شاہ زیب نے سب کو سلام کیا ۔ شاہ زیب کرسی پر بیٹھ گیا ۔لائبہ اس کے پاس والی کرسی پر آ کے بیٹھ گئی اور شاہ زیب بھی مسکرا کر اس سے باتیں کرنے لگا۔ رابیل سب سے ملی۔ عروا نے رابیل سے ہاتھ ملانا ہی ضروری سمجھا ۔۔
عروا کو دیکھ کر رابیل کو معلوم ہو گیا کے کیوں زری رابیل اور شاہ زیب کو ایک جیسی ڈریسنگ کرنے کا کہ رہی تھی ۔ چھپے طریقے سے وہ بہت کچھ عروا کو جتانا چاہتی تھی ۔
افف یہ زری بھی رابیل کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی تھی ۔ رابیل کو احساس ہوا ۔
"چلو ناشتہ شروع کرو، ولیمہ کی تیاریاں بھی کرنی ہیں " دادی جان کے کہنے پر سب نے ناشتہ کرنا شرو ع کیا ۔
رابیل اٹھ کھڑی ہوئی اور سروِنگ کرنے لگی
"ارے رابیل بیٹا ادھر بیٹھو شاہ زیب کے ساتھ اور ناشتہ کرو ۔ یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں " مسز جنید (رابیل کی ساس ) نے کہا
"نہیں تائی امی میں کرتی ہوں "
"کہا نا بیٹھ جاؤ " انہوں نے پھر کہا تو رابیل شاہ زیب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔
"ارے امی کیا ہو گیا یار آپ اچھی ساس نا بنے وہ ٹیپیکل لڑائی جھگڑے والی ساس بنے مزہ آئے گا " زری نے رابیل کو آنکھ مار کر اپنی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"جس کو اتنی اچھی بہو مل جاۓ وہ ساس کیسے بن سکتی ہے ۔وہ تو ماں بن کر ٹریٹ کرے گی نا " مسز جنید نے مسکرا کر پیار بھری نظروں سے رابیل کو دیکھ کر کہا
"چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات " عروا نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا
"مطلب " زری نے عروا کو گورتے ہوئے پوچھا
"مطلب کے شرو ع میں لڑکیاں نا جانے کیوں اچھی بہو بننے کے ڈرامے کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنا اصل رنگ دکھاتی ہیں سٹرینج " عروا نے کہتے ہوئے کندھے اچکائے

رابیل کی جھکی نظر مزید جھک گئی ۔ زری کا بس چلتا تو پورا کا پورا ٹیبل اٹھا کر عروا کے سر پر دے مارتی مگر بس چلتا تو ۔۔۔
زری اور رابیل کے علاوہ کسی نے عروا کی بات پر غور نہیں کیا تھا ۔ کیوں کے سب اپنی باتوں میں مگن تھے ۔۔
ناشتے سے فارغ ہو کر سب اپنے اپنے کام میں مگن ہو گئے جب زری رابیل کو تقریبًا کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آئی


"کیا ہو گیا زری " کمرے میں آ کر بیٹھتے ہوئے رابیل نے کہا
"یارا ۔۔ اب تو مصروف ہو گئی ہو شادی جو ہو گئی ہے ۔ پر تھوڑا سا وقت مجھ معصوم کے لئے بھی نکال لو نا " اوور ایکٹنگ کی دکان زری اب اپنا ڈرامہ شرو ع کر رہی تھی
"اچھا اچھا تو میڈم زری آپ کو نہیں لگتا ہمیں ڈائریکٹ اصل بات پر آنا چاہیے " ہنستے ہوئے رابیل نے کہا
"چلو جیسے تم مناسب سمجھو ۔۔ اب ذرا بتاؤ کے بھائی نے منہ دکھائی کیا دی " تجسس سے زری نے پوچھا
پل بھر کو رابیل لاجواب ہو گئی۔

"تمھیں نہیں لگتا یہ بہت پرسنل ہے " رابیل نے نظریں چرائیں
"ہا۔۔ میں تمہاری سہیلی ہوں نا رابی " زری نے معصومانہ شکل بنائی
"زری دیکھو ۔ تم ایک پڑھی لکھی لڑکی ہو ۔ ایسے سوالات آپ کو کبھی بھی دوسروں سے نہیں کرنے چاہیے۔ یہ میاں بیوی کی پرسنل بات ہوتی ہے، ان میریڈ کو ایسے سوالات شادی شدہ سے کرنے ہی نہیں چاہیے اور نا ہی شادی شدہ کو ایسے سوالوں کے جواب دینے چاہیے۔
دیکھو قرآن میں میاں بیوی کو کہا گیا ہے۔

"وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو"
(سورہ البقرہ آیت نمبر 187)

اور لباس کس لئے ہوتا ہے زری وجود ڈھکنے کے لئے۔میاں بیوی کو ایک دوسرے کے راز رکھنے چاہیے ۔ ایک دوسرے کا پردہ رکھنا چاہیے ۔تو پھر کیوں آج ہمارے شادی شدہ جوڑوں کی کوئی بات دوستوں سے محفی نہیں رہتی۔ " رابیل سنجیدگی سے بول رہی تھی
"ایم سوری یار ۔۔" زری شرمندہ ہوئی
"نہیں میری جان میں بس تمھیں سمجھا رہی ہوں ۔ شرمندہ نہیں کر رہی "
"جانتی ہوں مجھے شرمندگی اس بات پر ہو رہی ہے کے ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں ۔ یہ سوچ لیتے ہیں سب ہی تو پوچھتے ہیں یاں یہ کے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہم کتنے سچائی سے منہ موڑنے والے ہیں نا۔ اور اس بات کا رتی برابر بھی ہمارے اندر احساس نہیں ہوتا " زری نے کہا
"بس سوچنے کی ضرورت ہے " رابیل نے مسکرا کر زری کو گلے لگایا ۔۔
___________________
ولیمہ کا فنکشن ختم ہوتے ہی سب مہمان اپنے اپنے گھروں کو ہو لئے ۔ ٹائم کافی ہو چکا تھا گھر آ کر سب اپنے اپنے کمرے میں سونے کو چلے گئے ۔ شاہ زیب نے گھر آتے ہی کپڑے تبدیل اور چاۓ لئے چھت پر چلا گیا تھا۔ رابیل نے اسے جاتا دیکھ لیا تھا ۔
آج بھی پورے فنکشن میں اس نے رابیل کو ایک نظر بھی نہیں دیکھا تھا وہ ہی سر سری سی جو نظر اس پر پڑ گئی تو پڑ گئی ۔
کیوں وہ اس سے کچھ نہیں کہتا تھا ، کیوں وہ نہیں جانتا تھا کے رابیل اس سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہے، بہت سے سوال پوچھنا چاہتی ہے ۔ وہ اسکی بیوی ہے ۔ اس کے اس روئیے کے متعلق وہ بہت لوچ پوچھنا چاہتی تھی مگر کیسے پوچھتی وہ کوئی جواب دینے کو راضی کب تھا اور وہ جیسے رابیل نے نظریں ملانے سے بھی کترا رہا تھا۔

آج رابیل نے گولڈن کام دار فروک پہنا تھا۔ اپنی جیولری اتار کر وہ ڈریسنگ پر رکھ رہی تھی۔ پھر وہ فریش ہونے چلے گئی۔
باتھروم سے باہر نکلی تو شاہ زیب بیڈ پر لیٹا تھا ۔۔آنکھیں بند کیے وہ سو رہا تھا ۔ رابیل نے ایک نظر اسے دیکھا۔
وہ سو رہا تھا یاں صرف شو کروا رہا تھا رابیل نہیں جانتی تھی ۔ کمرے کی لائٹ بند کر کے وہ بیڈ پر شاہ زیب کی جانب کروٹ کیے لیٹ گئی ۔

__________________
"ارے زری تم ٹھیک تو ہو " کچن میں آتے ہی عدیل پریشانی سے بولا
"کیوں " ٹماٹر کاٹتے ہوئے اسکے ہاتھ رکے
"مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ، چلو ڈاکٹر کے پاس "عدیل نے کہا
"مجھے کیا ہوا ہے کس نے کہا " زری نا سمجھی سے بولی
"یار امی نے بتایا تم پاستہ بنا رہی ہو وہ بھی میرے لئے تو یقیناً تم ٹھیک نہیں ہو ۔ کیوں کے اپنے ہوش و حواس میں تو زری میڈم کم از کم میرے لئے تو کچھ بنانےسے رہیں
"اچھا ایک غزل پڑھ رہا تھا سوچا تمھیں سناؤں " عدیل کرسی پر بیٹھ گیا
"آہا ارشاد " زری ہنسی دبا کر بولی

ہمیں اتنا پیارا مہربان ملا ہے
بن کے وہ ہماری جان ملا ہے

بڑا مشکل تھا اسے ڈھونڈھنا
مگر وہ ہمیں بڑا آساں ملا ہے

جب بات ہو جاتی ہے اس سے
یوں لگتا مجھے سارا جہان ملا ہے

جب کبھی مجھ سے ملنے آجاتا ہے
ایسا لگتا ہے چوری کا سامان ملا ہے

جس دن سے مہربان ہے وہ
میزبان ہوں میں دل کو حسیں مہمان ملا ہے

(غزل سنا کر اسنے زری کو دیکھا جو بازو باندھ کر کھڑی تھی۔ پل بھر کو رک کر وہ عدیل کے پاس آئی )
"اتنے مسکے آپ کیسے لگا لیتے ہیں مسٹر عدیل " زری نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا

"یار " عدیل کچھ بولنے لگا لیکن وہ مسکرا کر باہر چلی گئی ۔۔۔
چلبلی سی زری ۔۔ عدیل سر جھٹک کر رہ گیا
________________________

ریڈ کرتا اور کیپری پہنے جس پرکالے رنگ کی کڑھائی ہوئی تھی سیدھے کالے بال کھول کر پیچھے کیے تھے ۔ ہلکا ہلکا میک اپ کیے وہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔ شاہ زیب آج آفس جا رہا تھا سب نے منع کیا مگر وہ نہیں مانا تھا ۔سب ناشتہ کر رہے تھے۔

"شاہ زیب بھائی رابی کو کہاں لے کر جا رہے ہیں پھر گھمانے " زری نے شاہ زیب سے پوچھا
"تمہارا مسئلہ نہیں ہے " منہ توڑ جواب ۔ وہ لوچ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا تھا
"لو جی سوچا تھا شادی کے بعد منہ پے رونق آئے گی مگر نہیں یہ سڑے کے سڑے ہی رہیں گے " زری نے منہ بنایا
"واٹس رانگ ود یو " شاہ زیب نے چاۓ کا کپ تقریباً پٹہتے ہوئے رکھ کر کہا
"یار کیوں بھڑک رہے ہیں بات کیا کی ہے میں نے۔ بس یہ ہی تو پوچھا ہے کے کدھر جائیں گے گھومنے ۔عجیب ہیں آپ بھی ۔۔ آج کل کے لڑکے گرل فرنڈز کو لے لے گھومیں گے اور جب بیویوں کی بات آئے تو ان کو یاں تو کام یاد آ جاتے ہیں یاں گھومنا پھرنا پسند نہیں کہ کر ٹال دیتے ہیں ۔۔بیویوں کی تو ہوش ہی نہیں ہوتی " زری نے فلو فلو میں بات کر دی ۔ رابیل جو کانٹے سے پلیٹ میں رکھا سینڈ وچ لے رہی تھی اسکا ہاتھ وھیں رک گیا

"ڈس گس ٹنگ " غصے سے کہ کر وہ اٹھ کر چلا گیا
"حد ہے زری ۔۔ شرم بھی نہیں آتی تمھیں ۔۔ "مسز جنید زری کو ڈانٹنے لگیں
"میں نے کیا کر دیا " زری خیران ہو گئی

"منہ کیا دیکھ رہی ہو جاؤ پیچھے بلاؤ اپنے خاوند کو بچے " مسز عامر نے رابیل سے کہا ۔۔
اسکو تو جیسے کسی نے شیر کے پنجرے میں ہاتھ ڈالنے کا کہ دیا ہو ۔ پہلے تو شاہ زیب غصہ ہوتا تو وہ پورا دن اس کے سامنے نہیں آتی تھی اور اب اسے ہی شاہ زیب کو سمبھالنا تھا پتا نہیں وہ کیسے کرے گی ۔۔ رابیل تیزی سے اٹھ کر شاہ زیب کے پیچھے گئی ۔۔باہر دور گارڈن میں وہ کھڑا تھا رابیل تقریباً بھاگتی ہوئی اس تک پوھنچی

"شاہ زیب ۔۔ کیا ہوا ہے آپ کو اندر سب پریشان ہو رہے ہیں " رابیل اس کے پاس آ کر رکی ۔۔
جو اکیلا کھڑا سیگریٹ جلا رہا تھا
"کیوں ۔۔ کیوں پریشان ہو رہے ہیں وہ " غصے سے اس نے رابیل کو دیکھتے ہوئے کہا
"وہ آپ کی فیملی ہیں شاہ زیب آپ کی وجہ سے وہ پریشان ہو سکتے ہیں " رابیل نے ہمت کر کے جواب دیا
"فیملی کی وجہ سے ھی شادی کی ہے تم سے کے کم از کم میری وجہ سے پریشان تو نا ہوں ۔ لیکن نہیں ان کو چھوٹی چھوٹی بات پر پریشان ہونے کی عادت ہے۔ زیادہ دیر چپ نہیں رہنے دیتے ،اکیلے نہیں رہنے دیتے ،سب کا دل کرتا ہے ہر ٹائم سمائل لے کر ان کے سامنے پھرتا رہوں یہ احساس کیوں نہیں کرتے کے نا جانے میں اپنے اندر کتنی بڑی لڑائی لڑ رہا ہوں ۔ کس طرح سب کے سامنے نارمل شو کروا رہا ہوں یہ میں ھی جانتا ہوں۔ تم سب لوگ میرے درد کا اندازہ نہیں کر سکتے " وہ غصے سے بول رہا تھا اور رابیل اس کی باتوں کے مطلب ھی نکال رہی تھی
"آپ کو چاہیے آپ اپنی پرابلم مجھ سے شئیر کریں " رابیل نے کہا جس پر شاہ زیب نے خیرانگی سے اسے دیکھا
"تم سمجھ پاؤ گی " شاہ زیب نے کہا
"کوشش کروں گی " رابیل نے تحمل سے جواب دیا
"تم چاہتی ہو کے جس لڑکی کا ابھی ولیمہ ہوا ہے اس کو میں اپنے دکھ سنا دوں "
"مجھے فرق نہیں پڑتا " رابیل نے نظریں چراتے ہوئے کہا

"Let it go" کہ کر وہ چلا گیا ۔۔۔
___________________________

"زری ابھی شاہ زیب گھر آیا تو معافی مانگ لینا بڑا بھائی ہے "عدیل نے چاۓ پکڑتے ہوئے ہوئے کہا جو رابیل بنا کر لائی تھی۔ وہ تینوں اس وقت بیٹھے فلم دیکھ رہے تھے اور ساتھ چاۓ پی رہے تھے۔
"غلطی بھائی کی بھی تھی عدیل انہوں نے اتنا زیادہ بڑھا دیا بات کو جتنی بڑی بات نہیں تھی۔ وہ میرے بھائی ہیں اور میں ان سے مذاق نہیں کروں گی تو اور کس سے کروں گی " زری نے منہ بنایا

"میں جانتا ہوں ۔ لیکن زری میں نہیں جانتا اسے کیا ہوا ہے وہ ایسا نہیں ہے بس تھوڑا سنجیدہ ہے لیکن آج کل نا جانے کیا ہوا ہے وہ غصہ جلدی کر جاتا ہے شائد کسی بات سے پریشان ہے "عدیل زری سے بات کر رہا تھا رابیل دکھاوا ایسے کر رہی تھی جیسے فلم دیکھ رہی ہے مگر اسکی توجہ باتوں کی طرف ہی تھی

"ہاں تو آخر بتاتے کیوں نہیں ۔دادی سے شیئرنگ کرتے ہیں ان سے کر لیں کسی دوست سے کر لیں سب سے بیسٹ رابیل ہے اب ان کے پاس اس سے کر لیں مگر نہیں "
"اچھا وہ ان کا پرسنل معاملہ ہے بس تم معافی مانگ لینا بڑا بھائی ہے نا "
"اچھا ٹھیک ہے فلم دیکھنے دو " زری نے منہ بنا کر کپ سے چاۓ کا گھونٹ لیتے ہوئے ریموٹ پکڑ کر آواز اونچی کی ۔۔
_______________

کمرے میں آ کر اس نے چینج کیا اور بیڈ سائیڈ ٹیبل کے دراز سے موبائل چارجر لینے لگی جب اسکی نظر دراز میں پڑے سیگریٹس پر پڑی ۔ رابیل نے ہاتھ بڑھا کر سیگریٹس کی ڈبیاں اُٹھائیں پانچ چھے سیگریٹ کی ڈبیاں پڑی تھیں ۔ اس نے وہ سب کی سب ڈسٹ بن میں پھینک دیں ۔
" شاہ زیب ابھی باہر ھی دوستوں کے ساتھ تھا آج اس کے آفس کے دوستوں نے اس سے شادی کی ٹریٹ مانگی تھی اسی لئے وہ باہر تھا اور کھانا کھا کر ہی گھر لوٹے گا ۔۔رابیل بیڈ پر تکیے رکھ رہی تھی جب شاہ زیب کمرے میں داخل ہوا ۔ آتے ھی بیڈ سائیڈ ٹیبل سے اس نے سیگریٹس نکالے چاہے مگر وہاں کوئی سیگریٹ نہیں تھا
"میرے سیگریٹس کہاں ہیں " شاہ زیب نے غصے سے رابیل سے پوچھا ۔ ویسے انکو ساتھ رہتے ہوئے تیسرا دن تھا مگر ان کی کوئی زیادہ بات نہیں ہوئی تھی ۔ شاہ زیب یاں رابیل دونوں ایک دوسرے کو نہیں بلاتے تھے ۔
"میں نے پھینک دیے " رابیل کے ہاتھ کانمپ رہے تھے مگر وہ خود کو نارمل شو کر رہی تھی ۔۔
"تم ہوتی کون ہو میری چیزوں کو ہاتھ لگانے والی " شاہ زیب نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کیا
"آپ کی بیوی ، جو شائد آپ نہیں جانتے " رابیل کا رخ شاہ زیب کی طرف تھا مگر اس نے نیچے دیکھتے ہوئے کہا ۔ پتا نہیں یہ ہمت کہاں سے آئی تھی مگر وہ بول تو رہی تھی لیکن شاہ زیب سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی
"تم نے کس حق سے پھینکہا انہیں ۔ میں تمھیں یہ حق ہرگز نہیں دیتا " شاہ زیب نے اسی سختی سے اسکا بازو پکڑا تھا
"مجھے سیگریٹ کی سمیل اپنے کمرے میں پسند نہیں " رابیل بازو چھڑاتے ہوئے بولی
"تم سے پہلے یہ میرا کمرہ ہے سمجھی "
"شاہ زیب میرا بازو چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے "
"درد ۔۔۔درد ۔۔درد "شاہ زیب نے جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑا رابیل گرتے گرتے بچی
"تمھیں بازو میں درد ہو رہا ہے بس ۔۔ مجھ سے پوچھو جس کا اندر زخمی ھو چکا ہے اور اوپر سے تم سب کے رویے مجھے اور تکلیف دیتے ہیں ۔۔ " وہ دکھ سے بولا

"تو بتائے نا آپ مجھے کیا ہوا ہے آپ کو ایسی کون سی چیز ہے جو آپ کو پریشان کرتی ہے ۔ میں بیوی ہوں آپ کی " رابیل نے کہا
"شاہ زیب میں آپ کی بیوی ہوں ایک بار بھروسہ کر کے دیکھیں مجھے بیوی نہیں تو اپنی دوست ھی سمجھ لیں پلیز میں آپ کو ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔ آپ ایک بار مجھے بتائیں تو "

"میں تم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتا سمجھی ۔ بلکہ مجھے کسی پر بھروسہ نہیں کرنا " غصے سے اس نے کہا
"کیا آپ کی زندگی میں کوئی اور ہے "رابیل نے دھیمے لہجے سے کہا
"جسٹ گیٹ آوٹ " شاہ زیب نے اسے کندھے سے پکڑ کر باہر کی طرف دھکیلا ۔رابیل ہکا بکا اسے دیکھنے لگی ۔ اس چیز کی توقع نئی نویلی دلہن اپنے شوہر سے نہیں کر سکتی تھی
"شاہ زیب میری بات ۔۔" رابیل کو کمرے سے باہر نکال کر وہ آگے بڑھا ۔ رابیل ابھی بول ہی رہی تھی کے اس سے دھڑام سے دروازہ بند کیا۔ رابیل کو یقین نہیں آ رہا تھا جو کچھ شاہ زیب نے ان چند منٹوں میں اس کے ساتھ کیا تھا ۔ کچھ دیر وہ یوں ہی کھڑی رہی خود کو یقین دلاتی رہی کے شاہ زیب نے اسے کمرے سے نکال دیا ہے ۔
کہاں جاؤں ۔۔ زری کے پاس؟ نہیں سب باتیں کریں گے ۔۔۔ سوچتے ہوئے وہ وہیں ہال کے صوفے پر بیٹھ گئی ۔ مگر پوری رات وقفے وقفے سے جاگ جاتی کے کہیں کوئی اسے وہاں سوتا نا دیکھ لے ۔ اور آخر کار صبح ہو گئی اور سب سے پہلے وہ ہاتھ منہ دھو کر کچن میں ناشتہ بنانے چلی گئی ۔۔

_____________________
اس وقت وہ سب ناشتے کے ٹیبل پر تھے ۔ زیادہ تر ملاقات سب کی ناشتے کے ٹیبل پر ہی ہوتی تھی کیوں کے آفس ٹائمنگ ہوتی تھی سب اکٹھے ناشتہ کرتے تھے ۔ آفس کا وقت ہونے والا تھا اور زری جی کو بھی کالج جانا تھا ۔ سب مزے سے ناشتہ کر رہے تھے ۔ شاہ زیب بھی سب کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا کمرے سے نکل کر جب وہ آیا تو ایک نظر اس نے رابیل کو دیکھا تھا جو رات والے کپڑوں میں ہی منہ پر مسکراہٹ لئے ناشتہ لگا رہی تھی ۔ کوئی اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا تھا کے یہ مسکراہٹ نہیں دکھاوا ہے۔ سر جھٹک کر وہ بھی ناشتہ کرنے سب کے ساتھ بیٹھ گیا اور اب رابیل سے ناشتہ نہیں ہو رہا تھا کیوں کے اسے رات کا واقع نہیں بھول رہا تھا۔
"بڑے ابا مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے " جنید صاحب نے رابیل کو دیکھا جو ان سے مخاطب تھی
"ہاں بولو بیٹا " محبت اور خلوص سے وہ بولے
"آپ نے مجھ سے پوچھا تھا کے مجھے شادی کا کیا تحفہ چاہیے اور میں نے کہا تھا جب کچھ چاہیے ہوا تو بتاؤں گی " رابیل نے انکو یاد کروایا
"تو بتاؤ میرے بچے کو کیا چاہیے "
"مجھے ایک گھر چاہیے چھوٹا سا لیکن سیپریٹ " رابیل کی بات پر سب کوجھٹکا لگا سب نے رابیل کی طرف دیکھا ۔ شاہ زیب نے گوری ڈالتے ہوئے رابیل کو دیکھا یہ گوری بے اختیار آئی تھی
"ٹھیک ہے بچے ۔۔۔ لیکن دیکھ لینا اُدھر کی کیئر کرنے کے لئے کوئی اچھا سا بندہ بھی ڈھونڈنا ہے میں لگاتا ہوں کسی کی ذمداری "

"نہیں مجھے وہاں شفٹ ہونا ہے ۔" رابیل کا آج دماغ گھوم گیا ہے ایسا زری کو لگا تھا
"تم پاگل ہو گئی ہو رابیل ہم سب یہاں ہیں تم وہاں کیسے رہو گی۔ ہم نے اس لئے تمہاری شادی شاہ زیب سے کی کے ہماری اکلوتی بیٹی ہماری آنکھوں کے سامنے رہے " مسز عامر غصے سے بولیں
"ہاں رابیل تمھیں الگ گھر کیوں چاہیے ادھر کس چیز کی کمی ہے " مسز جنید نے کہا
"مجھے شرو ع سے شوق تھا میرا الگ گھر ہو اگر میں نے کہ دیا تو کیا غلط ہے امی " رابیل نے اپنی ماں سے کہا پھر تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وہ بولی
"اور ویسے بھی ہمارا مذہب ہمیں اجازت دیتا ہے کے ہم اپنے شوہر سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کے وہ ہمیں الگ رکھے پھر چاہے وہ ایک دو کمرے کا مکان ہی کیوں نا ہو تو پھر آپ لوگوں کو اعتراض کیوں ہے "
"نہیں بچے ہمیں اعتراض نہیں ہے آپ فکر نا کرو میں ہمارا دوسرا گھر نام کروا دیتا ہوں آپ کے "جنید صاحب کا جواب سن کر وہ مسکرائی ۔
"رابیل ہم سب اکٹھے رہتے آئے ہیں تو اب کیا مسئلہ ہے جو تمھیں الگ رہنا ہے " مسز جنید کے چہرے پر فکر مندی واضح تھی
"ایسا بھی کیا کہ دیا ہے میں نے تائی امی " رابیل معصومانہ لہجے میں بولی ۔
ناشتے کے ٹیبل پر خاموشی چھا گئی تھی
"مجھے یہ محسوس مت کرواؤ کے تم سے شادی کر کے میں نے اپنا بیٹا گنوا دیا ہے " مسز جنید کہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور کمرے میں چلی گئیں ۔۔
رابیل نے جنید صاحب کو دیکھا
"بیٹا فکر مت کرو میں سمجھا لوں گا تم تیاریاں کرو " جنید صاحب نے تسلی دی ۔۔
"بات سنو میری " شاہ زیب کہ کر کمرے میں تیزی سے گیا ۔
"ایکسکیوز می " رابیل اس کے پیچھے گئی ۔
کمرے میں قدم رکھتے ہوئے اس کی دل کی دھڑکن تیز تھی نا جانے وہ کس طرح ریکٹ کرے گا ۔ ہلکے ہلکے قدم رکھتی وہ شاہ زیب سے تھوڑے فاصلے پر رکی
شاہ زیب کا چہرہ دوسری طرف تھا ۔ رابیل کی طرف اس کی کمر تھی ۔ رابیل کی موجودگی وہ محسوس کر چکا تھا۔
"کیوں کہا تم نے باہر وہ سب "اسی طرح کھڑے کھڑے وہ بولا
رابیل نے کوئی جواب نا دیا یاں شائد اس میں بولنے کی ہمت نہیں تھی ۔ باہر اس نے الگ گھر کا مطالبہ تو کر لیا تھا مگر شاہ زیب کی راۓ لئے بغیر ۔ وہ جانتی تھی شاہ زیب کا ری ایکشن کچھ ایسا ہی ہوگا تو اس نے خود کو اس چیز کے لئے تیار کیا ہوا تھا ۔

"میں نے کہا کیوں کہا تم نے باہر وہ سب " وہ یک دم اسکی طرف مڑ کر چلایا ۔۔ رابیل اسکی اونچی آواز کی وجہ سے یک دم ڈر گئی ۔
"مم۔۔ میں " شاہ زیب کے سامنے اسکے لئے بولنا مشکل ہو جاتا تھا
"بولو باہر تو بڑے بیوی کے حقوق یاد آ رہے تھے ہاں ۔ کیوں کہا تم نے الگ گھر کے لئے "
"کیوں کے میں نہیں چاہتی کے روز روز آپ مجھے کمرے سے نکالیں اور میں باہر پوری پوری رات ہال میں گزاروں ۔ کل تو کوئی ہال میں نہیں تھا اگر نیکسٹ کسی نے مجھے ایسے دیکھ لیا تو سب ہماری وجہ سے پریشان ہوں گے جو کے میں نہیں چاہتی کے کوئی ہماری وجہ سے پریشان ہو " رابیل نے کہا
"اوہ ویل ڈان۔ یہ تو بہت بہتر فیصلہ کیا تم نے کم از کم الگ گھر میں مجھے سب ٹھیک ہے کا ڈرامہ نہیں کرنا پڑے گا ۔ تم نے تو ببت اچھا کیا اب تو میں بھی اس فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اتنی سمجھداری کی توقع نہیں تھی " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا اور باہر نکل گیا ۔
شاہ زیب کا میرے ساتھ روئیہ کیسا ہے یہ میں جانتی ہوں،گھر والوں کی نظر میں ہمارے بیچ سب ٹھیک ہے۔ اگر ہم ان سب کے ساتھ رہے تو جس طرح کل شاہ زیب نے مجھے کمرے سے نکال دیا تھا اگر آگے بھی کبھی ایسا ہوا تو کل رات تو مجھے کسی نے ہال میں سوتے دیکھا نہیں لیکن اگلی بار اگر کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ ہو جاۓ گا ۔ نا صرف میرے اور شاہ زیب کے لئے بلکہ عدیل اور زری کے لئے بھی ۔ تھوڑی دیر کی ناراضگی سہنا سب کو پریشان کرنے سے ہزار درجے بہتر ہے ۔ اب جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے گا میں کسی کو کچھ نہیں بتا سکتی کیوں کے اس سے عدیل اور زری کے رشتے میں بھی مسائل آ سکتے ہیں ۔۔ میں اپنی وجہ سے کسی کو پریشان نہیں کر سکتی ۔۔ بیڈ پر بیٹھی وہ سوچوں میں گم تھی ۔
_______________________

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top