نویں قسط
Ninth epi ..
شاہ زیب کی ویڈیو کال تھی رابیل نے مسکرا کر اٹینڈ کی۔۔۔
وہ آفس کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنا کوٹ کرسی کے پیچھے لگایا تھا ۔ گھر میں وہ کافی رف رف رہتا تھا لیکن وہاں وہ ایک بزنس مین لگ رہا تھا ۔ رابیل نے بال جوڑے میں باندھ کر ایپرن پہنا تھا ۔ دائیں اور بائیں جانب سے دو لٹیں ماتھے سے اس کے چہرے پر آ رہی تھیں ۔
"ہیلو وائی فائی " شاہ زیب نے فون ٹیبل پر سیٹ کیا تھا اور خود اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف سر کے نیچے رکھ کر کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی
"ہیلو " رابیل مسکرا کر بولی اس نے ہاتھ میں فون پکڑا تھا
"کیا کوئی سیلفی بنا رہی ہو " رابیل نے فون تھوڑا اٹھا کر پکڑا تھا جیسے سیلفی لینے لگی ہو
"نہیں تو " رابیل نے کندھے اچکا کر کہا
"تو پھر فون سیدھا رکھو نا یارا "
"اچھا جی " رابیل نے فون سیدھا چہرے کے پاس کیا
"کیا کر رہی ہو "
"اپسرا سے اچار گوشت سیکھ رہی ہوں " رابیل نے سامنے کھڑی اپسرا کو دیکھ کر کہا ۔مگر فون اسکی طرف نہیں کیا تھا
"میرا پسندیدہ " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا
"اممم ۔۔۔ اچھا آپ کو بھی پسند ہے اچار گوشت " رابیل نے انجان بنتے ہوئے کہا
"اچھا جیسے تمھیں تو پتا ہی نہیں " شاہ زیب کے جواب پر رابیل مسکرائی
"آپ کو پتا ہے " رابیل کچھ بتانے لگی تھی
"رابیل ۔۔ رابیل۔۔ رابیل ۔۔" شاہ زیب نے اس کی بات کاٹی
"کیا ہوا " رابیل نے پوچھا
"تم فون اتنا ہلا کیوں رہی ہو یار " وہ اکتا کر بولا
"کب ہلا رہی ہوں ۔۔ میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں " رابیل کے منہ سے سچی بات نکل ہی گئی
"کیوں " شاہ زیب نے تجسّس سے پوچھا
"پہلی بار ویڈیو کال پر بات کر رہی ہوں نا آپ سے اس لئے اور مجھے عادت بھی نہیں ہے کسی سے ویڈیو کال پر بات کرنے کی۔۔"
"اچھا جی (وہ مسکرایا ) پھر میں بند کر دیتا ہوں " ہنسی دبا کر وہ بولا
"اب میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا " رابیل کے اندر ہلچل ہوئی
"اچھا تو تم چاہتی ہو میں نا بند کروں " شاہ زیب بھی اسے چھیڑ رہا تھا
"میں نے ایسا بھی تو نہیں کہا " رابیل جهنجهلا کر بولی
"ہاہا اچھا چلو تم بناؤ اچار گوشت " شاہ زیب نے کہا جس پر رابیل فون بند کرتے ہوئے بولی
"ہاں ٹھیک ہے فی امان اللہ "
"کیا ۔۔کیا میں نے کھانا بنانے کا کہا ہے فون بند کرنے کا نہیں " شاہ زیب کی بات پر وہ خیران ہوئی
"کیا مطلب شاہ میں ہاتھ میں فون پکڑ کر کیسے بناؤں گی "
"مسز شاہ زیب فون کو پکڑ کر سامنے سیٹ کریں اور کھانا بنائیں ساتھ ساتھ ایسی جگہ سیٹ کریں جہاں سے آپ مجھے نظر آتی رہیں "
"شاہ اپسرا بھی ہے ادھر بیچاری کب سے مجھے دیکھ رہی ہے "
"اوہ . چلو ٹھیک ہے تم آج اپسرا کے ساتھ مل کے بنا لو ۔۔ وہ پاس ہے تو ۔۔ اللہ حافظ " شاہ زیب نے مسکرا کر کہتے ہوئے فون بند کر دیا
"فی امان اللہ " کہ کر رابیل نے فون اٹھا کر پھر فریج کے اوپر رکھ دیا
"سوری " رابیل اپسرا کو دیکھ کر بولی جو مسکراتے ہوئے رابیل کو دیکھ رہی تھی
"رابیل تم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے " اپسرا نے پوچھا
"کیا مطلب "
"مطلب جس بات کو لے کر تم پریشان تھی وہ ٹھیک ہو گئی ۔اس لیے ۔"
"نہیں تو " رابیل کی آنکھوں میں شرمندگی تھی
"جانتی ہو رابیل ۔۔ ہم انسان بہت مطلبی ہوتے ہیں ۔ ہم مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں اور خوشی کے وقت بھول جاتے ہیں ۔ جب ہمیں کوئی چیز چاہیے ہو تو ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے دعائیں کرتے ہیں مگر پھر جب وہ چیز مل جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں بہت ہی کم لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو ہر حال یاد رکھتے ہیں ۔ خوشی غمی ہر حال میں ۔ اور ایسے لوگوں پر اللہ بڑا مہربان ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے
"اگر تم شکر کرو گے تو اور زیادہ دوں گا"
سوره ابراھیم (آیت 7)
تو پھر ہم کیوں شکر ادا نہیں کرتے ۔ کیا یہ ہماری غلطی نہیں ہے ؟۔ "
"تم ہر چیز کو اتنی گہرائی سے کیسے سوچ لیتی ہو اپسرا میں یہ سب باتیں کیوں نہیں سوچتی " رابیل اسے دیکھ کر بول رہی تھی جس کے چہرے پر سکون تھا
"تم محسوس کر کے دیکھو تمھیں بھی سمجھ آنے لگیں گی " اپسرا نے جواب دیا
"نا جانے کب " رابیل نے کندھے اچکا کر کہا
__________________
"کدھر تھی تم " زری اپنے کمرے میں بیٹھی فلم دیکھ رہی تھی جب اچانک عدیل کمرے میں داخل ہوا ۔۔ وہ لیٹی ہوئی تھی ڈر کر اچھل کر اٹھ کر بیٹھی ۔۔ پھر عدیل کو دیکھ کر نارمل ہوئی
"عدیل میں کمرے میں تھی کام بنتا تھا دروازہ کھٹکھٹا کر آتے " زری نے سنجیدگی سے کہا
"جو میں نے کہا اس کا کیا ہاں " وہ اس کے پاس آ کر کھڑا ہوا
اس کے حلیے سے لگ رہا تھا وہ ابھی آفس سے آیا تھا اور چینج کیے بغیر سیدھا زری کے کمرے میں آیا تھا
"کیا کہا تم نے "
"زری تم کہاں تھی آج پورا دن کوئی اندازہ ہے کے کتنے میسج اور فون کیے "
"ہاں وہ فون کا چارجر خراب ہو گیا ہے ۔۔ سوچا تم گھر آؤ گے تو منگوا لوں گی تم سے اس لئے میسج نہیں دیکھ پائی "
"تم آکاش کے ساتھ کیوں گئی تھی " اب وہ اصل بات پر آیا تھا زری کمبل اتار کر اٹھ کر بیڈ سی اتری
"ہا۔ں ڈاکٹر کے پاس گئی تھی " دوپٹہ لیتے ہوئے اس نے کہا
"مجھے کیوں نہیں بتایا کے تم بیمار ہو اس کے ساتھ جانا ضروری تھا کیا " وہ سنجیدہ تھا ۔
"میں جان بوجھ کر نہیں گئی تھی یار چچی نے زبردستی بھیج دیا تھا "
"اور چاۓ پینے کا کیا تک بنتا تھا ہاں اچانک اتنی فری ہو گئی اس کے ساتھ پہلے تو بات بھی نہیں ہوتی تھی اس سے تم۔ "
"ایک منٹ ایک منٹ اگر تم سب جانتے تھے تو پوچھ کیوں رہے تھے " زری کو خیرانگی ہوئی
"میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا تھا "
"عدیل میں نے ایسا کیا غلط کیا جو تم میرے منہ سے سننا چاہتے تھے ہاں ۔۔تم نے میری طبیعت تک کا تو پوچھا نہیں اور یہ سب تفتیش کرنا یاد آ گیا تمھیں ؟" زری کے ماتھے پر بل پڑے
"زری تم نیکسٹ اس کے ساتھ کہیں نہیں جاؤ گی " وہ وارن کرتے ہوئے بولا
"کیوں آخر اس میں کون۔ سا بڑا گناہ کر دیا میں نے کزن ہے وہ بھی میرا ۔۔"
"کزن ہو یاں جو بھی تم۔ مجھے اس کے ساتھ نظر نا آؤ "
"تم عجیب ہو عدیل " وہ جانے لگی جب عدیل نے اسکا بازو پکڑ کر اسکو اپنی طرف متوجہ کیا
"زری۔ میں تمھیں خود سے دور نہیں کرنا چاہتا پلیز میری بات کو سمجھا کرو آئندہ تم مجھے اس کے ساتھ نظر نا آؤ ۔" عدیل کی بات پر زری نے اثبات میں سر ہلا کر اپنا ہاتھ چھڑایا ۔۔۔
__________________
شاہ زیب چاۓ کا کپ لے کر کمرے میں داخل ہوا ۔۔ رابیل شیشے کے سامنے کھڑی بال سنوار رہی تھی ۔ رابیل نے وائٹ کیپری اور پیلے رنگ کا کرتا پہنا تھا۔ جو بلکل سادہ تھا ۔ وائٹ ہی دوپٹہ اس نے گلے میں لے رکھا تھا ۔ بال سائیڈ پر کر کے دائیں کندھے پر سے آگے کو کیے ہوئے تھے جن پر وہ برش پھیر رہی تھی ۔
"تمہاری چاۓ " ڈریسنگ پر چاۓ رکھتے ہوئے وہ بولا
"شاہ مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے کے آپ میرے لئے چاۓ بنائیں " رابیل اسے دیکھتے ہوئے بولی
"تم میرے لئے پورا دن گھر کا کام کرتی ہو تو میں تمہارے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتا کیا " چاۓ کا گھونٹ لے کر اس نے اپنی چاۓ بھی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی ۔۔
وہ دونوں اس وقت آمنے سامنے کھڑے تھے ۔۔
"تم جانتی ہو رابیل " شاہ زیب نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے رابیل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
"تم سادگی میں جتنی خوبصورت لگتی ہو سوچ ہے تمہاری " وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے بولا
رابیل کے چہرے پر یک دم مسکان آئی ۔۔ رابیل نے نظریں نیچے کیں .
"اور شرماتی ہو تو لگتا ہے میری جان ہی لے لو گی " شاہ زیب کی بات پر اس نے نظر اٹھا کر شاہ زیب کو دیکھا
"کیا ہوا " رابیل کے یک دم دیکھنے پر شاہ زیب نے پوچھا
"کبھی سوچا نہیں تھا کے آپ بھی ایسی باتیں کرتے ہیں " آہستگی سے اس نے کہا ۔۔
شاہ زیب کو اس کی معصومیت پر ہنسی آئی ۔۔ اس نے ابھی تک رابیل کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا
"جس کی اتنی خوبصورت بیوی ہو وہ ایسی باتیں نا بھی کرتا ہو تو کرنے لگ جاۓ گا " شاہ زیب نے جواب دیا
"شاہ ۔۔ شاہ ۔۔ ہاتھ چھوڑیں " یک دم رابیل نے چیخ مار کر اپنا ہاتھ چڑایا اور بھاگ کر بیڈ پر چڑ گئی ۔۔
"رابیل کیا ہوا ۔۔" شاہ زیب نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے نا سمجھی سے پوچھا
"شاہ ۔۔۔سپائیڈر (مکڑا )" رابیل نے زمین پر اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں کہیں سے مکڑا آ گیا تھا ۔۔
"یہ۔۔ تو کیا ہو گیا ہے رابیل " شاہ زیب کو پھر بھی سمجھ نہیں آئی تھی کے رابیل کو مکڑا دیکھ کر کیا ہوا ہے
"شاہ اس کو نکالیں پلیز ۔۔ پلیز مجھے ڈر لگتا ہے۔ آہا ۔۔ یہ میرے پاس نا آ جاۓ ۔۔ شاہ جلدی کریں نا " رابیل نے آنکھیں میچ لیں اور تیزی سے بولی ۔۔
شاہ زیب نے مکڑے کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینکا اور ہاتھ دھو کر روم میں آیا ۔۔رابیل اسی طرح آنکھیں بند کیے کھڑی تھی
"پھینک دیا ہے آ جاؤ نیچے " ہاتھ صاف کرتے ہوئے شاہ زیب نے کہا ۔۔ رابیل آرام سے بیڈ سے نیچے اتری ۔۔ اور ادھر اُدھر دیکھا
"کدھر گیا " پھر دکھائی نا دینے پر پوچھا
"چلا گیا ۔۔پھینک کر آیا ہوں باہر "
"ہُف۔۔۔۔ شکر ہے " رابیل نے آہ بھری
"ہاں تو کیا بات کر رہے تھے ہم " رابیل نے یاد آنے پر پوچھا
"مجھے نہیں پتا " شاہ زیب نے منہ بنا کر چاۓ کا کپ پکڑا
"کیا ہوا ہے شاہ "
"رابیل مطلب یار کیا ہے ایک مکڑے سے ڈر رہی ہو تم "
"شاہ وہ بہت خطرناک ہوتے ہیں آپ نہیں جانتے ۔۔ مجھے کاکروچ اور مکڑے سے کتنا ڈر لگتا ہے "
"اوکے میں اب ان۔ کو گھر آنے ہی نہیں دوں گا اوکے " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا
"پکا " رابیل نے مسکرا کر کہا جس پر شاہ زیب نے بھی ہنس کر سر اثبات میں ہلایا ۔۔
"کل میں آفس نہیں جاؤں گا اوکے ۔۔ ہم شاپنگ پے چلیں گے "
"کس چیز کی شاپنگ " رابیل نے پوچھا
"گھر کی چیزیں لے لینا اور اپنے لئے بھی کچھ لے لینا "
"اور آپ " رابیل نے کہا
"میں کیا "
"اپنی حالت دیکھی ہے داڑھی کبھی کبھی ٹھیک کرواتے ہیں اب ۔۔اور اپنی ڈریسنگ کا بھی خیال نہیں رکھتے ۔۔ آنکھوں کے گرد ہلکے بھی کافی ہو گئے ہیں ۔ شاہ آپ بلکل خیال نہیں رکھتے اپنا " وہ فکر مندی سے بول رہی تھی ۔۔ اور شاہ زیب بس مسکرا رہا تھا
"کیا ہنسی کیوں آ رہی ہے آپ کو "
"جانتی ہو رابیل تمہارے آنے سے پہلے جس دکھ سے میں گزرا ہوں تب میری حالت زیادہ خراب ہو گئی تھی تمہاری وجہ سی تو کافی حد تک بہتری آ گئی ہے میرے اندر ۔۔ میں ٹھیک ہونے لگا ہوں رابیل ۔ رات کو سکون سے سونے لگا ہوں ۔ کیوں کے تم میرے پاس ہوتی ہو ۔۔" شاہ زیب اسے دیکھ کر بول رہا تھا اور سچائی اس کی آنکھوں میں واضح تھی ۔وہ کبھی کبھی بولتا تھا اور جب وہ بولتا تھا تو رابیل اسے خاموشی سےصرف سنتی تھی
"میں تمہارا عادی ہونے لگا ہوں رابیل ۔۔ مجھے کبھی چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گی نا ۔۔ " شاہ زیب نے بچوں کے سے انداز میں کہا تھا ۔۔ رابیل کو اس پربے حد پیار آیا
"رابیل شاہ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی " رابیل نے مسکرا کر کہا
_____________________________
"تم تھوڑا جلدی نہیں بتا سکتی تھی مجھے میڈم " فون کان سے لگاۓ ہوئے وہ تیزی سے اپنے کمرے سے نکل کر باہر حال میں داخل ہوئی جہاں دادی جان اور ان کی بہوؤں کی گول میز کانفرنس ہو رہی تھی ۔۔ زری کی آواز پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئیں
"کیا ہوا ہے زری " فون بند کر کے زری نے ٹیبل پر رکھا تو دادی جان نے تجسس سے پوچھا
"آپ کی پوتی اور پوتا آ رہے ہیں اور اس وقت بتا رہی ہیں اب لنچ کا ٹائم ہو گیا ہے اور کہ رہی ہیں کے ایک گھنٹے تک آ جائیں گے ۔۔ پہلے نہیں بتا سکتے تھے اتنی جلتی میں کیا کیا تیار کریں گے۔۔ " زری نے بتایا جس پر سب کے چہرے پر خوشی چھا گئی
"یہ تو اچھی بات ہے کے رابیل اور شاہ زیب آ رہے ہیں اور تم کیوں فکر کر رہی ہو تم نے کبھی کچن میں آ کر کچھ پکایا بھی ہے کیا۔۔ میں خود بنا لوں گی " کلثوم بیگم اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔
"میں بھی بھابھی کے ساتھ جاتی ہوں " نگہت بیگم بھی ان کے پیچھے چل دیں
"میں تو جا رہی ہوں تیار ہونے ۔۔ میک اپ نا کروں تو بیمار بیمار لگنے لگتی ہوں ۔۔ اب اس حالت میں کوئی دیکھے تو کیا سوچے گ " زری کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگی اور دادی جان بس ہنستے ہوئے ان کو دیکھتی رہ گئیں
__________________________
شاہ زیب نے سفید شلوار سوٹ پہن رکھا تھا رابیل نے گولڈن رنگ کی لونگ فروک پہن کر بال ایک سائیڈ پر کیے تھے کندھے پر نیٹ کا وائٹ دوپٹہ ڈالا ہوا تھا ۔۔ وہ زیادہ کام والے کپڑے نہیں پہنتی تھی ۔ اس کے کپڑوں میں صرف دوپٹہ کام دار ہوتا تھا جسے وہ کندھے پر پھیلا کر لیتی تھی ۔ سمارٹ سی ، سفید رنگت اور موٹی موٹی بڑی آنکھیں وہ بلکل گڑیا لگتی تھی۔۔ اس کے ھر انداز میں ایک نازک پن اور سلیقہ تھا ۔
"شاہ ہم ابھی شاپنگ سے آئے ہیں اب کیا ضرورت ہے اس گھر جانے کی "
"رابیل تم واحد لڑکی ہو جو اپنے مائیکے جانےپر بھی خوش نہیں ہے " شاہ زیب ہاتھ باندھ اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولا
"ارے میں نے ایسا کب کہا کے میں خوش نہیں ہوتی اددھر جا کر " رابیل نے ہاتھ بڑھا کر شاہ ضاب کے ماتھے پر آئے بال پیچھے کیے ۔۔ہاتھ نیچے کیے تو شاہ زیب نے مسکرا کر اسکا ہاتھ پکڑا
"تو پھر یہ سب کیا ہے یارا ۔۔"
"شاہ میں تو آپ کے لئے کہ رہی ہوں کل پھر آفس چلے جانا ھے آپ نے تو آج زیادہ تھک جائیں گے نا آپ "
"نہیں تھکتا میری جان اب چلو " شاہ زیب نے اس کے بازو سے پکڑ کر اسے باہر لے آیا ۔۔
_______________________
"زری ۔۔ زری ۔۔ کہاں ہو یارا " رابیل زری کے کمرے میں آتے ہوئے بولی ۔۔جہاں زری میڈم شیشے کے سامنے کھڑی میک اپ کر رہی تھیں
"اوہ میری جان آ گئی " زری اٹھ کر رابیل کے گلے لگی
"مجھے سمجھ نہیں آتا میں کس کس کی جان ہوں " یک دم رابیل نے کہا جس پر زری نے اسے گھوری ڈالی
"ہیلو میڈم خیریت ہے نا ۔۔کن چکروں میں ہو "
"شرم کرو " رابیل نے اس کے کندھے پر تھپکی لگائی
"اچھا یہ بتاؤ ہمارے ہیرو کہاں ہیں " زری نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا
"وہ تو باہر ہیں ۔۔ ہم پانچ منٹ سے آئے ہوئے ہیں اور تمہارا انتظار کر رہے ہیں مگر آپ میڈم کے تو نخرے ہی بہت ہیں "
"یار تیار ہو رہی تھی نا " زری نے اپنے کھلے ہوئے میک اپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"اچھا چلو آ جاؤ اب " رابیل نے زری کا ہاتھ پکڑا اور دونوں چلتی ہوئیں باہر ہال میں آئیں
"ماننا پڑے گا رابیل تمھیں تو " دادی جان نے رابیل کو آتے دیکھ کر کہا
"کیا دادی جان " رابیل نے زری کا ہاتھ چھوڑا اور مسکرا کر شاہ زیب کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی
"تم نے سچ میں شاہ زیب کو بدل دیا ہے دیکھو تو میرا بچہ اب پہلے جیسا ہو گیا ہے ورنہ کچھ مہینوں سے میں تو اس کی وجہ سے پریشان ہی ہو گئی تھی " دادی جان کی بات پر رابیل مسکرائی
"اچھا جی ۔۔۔واہ ۔۔۔خوبصورت میں ہوں اور کریڈٹ رابیل کو ناٹ فیئر دادی " شاہ زیب مصنوعی غصے سے بولا
"شاہ زیب کے ساتھ رابیل کتنی پیاری لگتی ہے نا اماں جان " کلثوم بیگم نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا
"ماشاءالله " نگہت بیگم نے کہا
"اچھا یہ بتا دیں کے یہ بوجھ کب ہلکا کر رہے ہیں ہمارے سر سے " رابیل نے زری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"تم زیادہ فکر مند مت ہو اچھا نا " زری نے منہ چڑا کر کہا
"اس کو ابھی پڑھائی مکمل کر لینے دو پھر کر دوں گی رخصتی اس کی بھی " کلثوم بیگم نے تسلی سے کہا
"بہت اچھی بات ہے بیٹیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اچھا ہوتا ہے " رابیل نے ہنسی دبا کر کہا
"میں شادی کے بعد بھی اسی گھر کی رہنے والی ہوں تو تم فکر مت کرو مخترمہ " زری نے کہا جس پر رابیل نے قہقہ لگایا
"اچھا ہم لوگ چلتے ہیں اب " شاہ زیب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
"ارے ایسے کیسے نا کچھ کھایا نا پیا ۔۔ پندرہ منٹ بیٹھے ہو ۔۔ دوپہر کا کہا ہے شام کو آئے ہو اب بھی جانے کی جلدی پڑھ گئی ہے " نگہت بیگم نے ان کو اٹھتے دیکھ کر کہا
"میں نے آج سب کھانے رابیل کی پسند کے بنوائے ہیں اس لئے آج آپ لوگ کہیں نہیں جاؤ گے "
"امی میری کل ضروری میٹنگ ہے اور فائل بھی گھر ہے اس لئے جانا پڑے گا "
"تو ٹھیک ہے تم جاؤ پر رابیل آج ادھر ہی رہے گی "
"رابیل سی پوچھ لیتے ہیں " زری نے کہا
"ہاں بتاؤ رابیل " شاہ زیب نے اطمینان سے رابیل سے پوچھا
"شاہ جیسے آپ کی مرضی ۔۔ " رابیل نے کہا
"ٹھیک ہے رکھ لیں ۔۔ کل۔ عدیل کو بولیے گا چھوڑ آئے " کہ کر شاہ زیب بغیر الوداعی کلمات کہے چلا گیا
"یہ۔۔۔ " زری نے خوشی سے رابیل کو گلے لگا لیا ۔۔اور وہ شاہ زیب کو جاتا دیکھتی رہی ۔۔ وہ ناراض ہو گیا تھا لیکن کیوں ۔۔رابیل نے تو فیصلہ اس پر ہی چوڑا تھا پھر بھی ۔۔
وہ رکنا چاہتی تھی مگر وہ یہ بھی چاہتی تھی کے شاہ زیب اس کے ساتھ یہاں رک جاۓ مگر شاہ زیب رک نہیں سکتا تھا ۔ اور گھر والے رابیل کو بھی جانے نا دیتے ۔۔ اب رابیل کیا کرتی اس لئے شاہ زیب پر فیصلہ چھوڑ کر وہ بری ہو گئی مگر شاہ زیب بھی اس پر ملبہ ڈال کر چلا گیا ۔۔ہُف۔۔۔۔رابیل کو سوچ سوچ کر کوفت ہو رہی تھی
رابیل یہاں آ کر سب کے ساتھ مصروف ہو گئی تھی اور فون بھی نہیں دیکھ پائی تھی مگر اس کی نظریں کہیں نا کہیں شاہ زیب کو ہی ڈھونڈھ رہی تھیں ۔ وہ ایسا ہی تھا جس سے بھی مل لیتا تھا اسے اپنا بنا لیتا تھا پھر وہ شاہ زیب کو بھولا نہیں سکتے تھے اور رہی بات رابیل کی تو شاہ زیب تو اس کی محبت تھا ۔۔ ساری فیملی نے مل کر بہت باتیں کیں رابیل بہت دنوں بعد آج سب کے ساتھ اس طرح بات کر تھی تھی کیوں کے اپنے گھر جانے کے بعد وہ دوسری بار ادھر آئی تھی ۔۔۔ فارغ ہو کر رابیل اپنے کمرے میں آئی جو کے شادی کے بعد جب تک شاہ زیب اور رابیل ادھر تھے ان دونوں کا تھا اور شادی سے پہلے صرف شاہ زیب کا ۔۔کمرے کی چیزوں پر نظر ڈالی تو کافی چیزیں وہاں موجود نہیں تھیں جو شاہ زیب اپنے ساتھ اس گھر لے گیا تھا ۔ اس کمرے کے ساتھ رابیل کی اچھی یادیں نہیں جڑی تھیں مگر پھر بھی یہ کمرہ اسے بہت پیارا تھا کیوں کے یہ شاہ زیب کا کمرہ تھا ۔۔سب سو چکے تھے مگر رابیل کو نیند نہیں آ رہی تھی ۔۔ شاہ زیب کو خود فون کرنے کا سوچ کر وہ فون اٹھا کر لیٹ گئی جب اچانک شاہ زیب کی کال آنے لگی
"ہیلو " ہیڈ فون کان کے ساتھ لگا کر وہ کمبل اپنے اوپر لیتے ہوئے بولی
"کیسی ہو " سنجیدگی سے پوچھا گیا ۔۔وہ جتا رہا تھا کے ناراض ہے ۔
"ٹھیک ہوں الحمداللہ آپ کیسے ہیں " رابیل نے ہنسی دبا کر پوچھا
"نہیں ہوں ٹھیک " شاہ زیب سپاٹ لہجےمیں بولا
"ارے آپ کو کیا ہوا " جانتے بوجھتے رابیل نے کہا
"خود تو تمھیں میری یاد نہیں آئی نا "
"ارے نہیں میں آپ کو ہی فون کرنے لگی تھی "
"یعنی تم کہنا چاہتی ہو شیطان کا نام لیا اور شیطان حاضر " شاہ زیب فٹ سے بولا
"نہیں میں کہنا چاہتی ہوں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے " رابیل مسکرا کر بولی جس پر شاہ زیب نے قہقہ لگایا
"یارا ایسی باتیں نا کیا کرو نا میں پھر تم سے ناراض نہیں رہ پاتا " دل سے ہار کر وہ بولا
"تو آپ مجھ سے ناراض ہیں کیوں مسٹر شاہ زیب خان "
"تم جانتی ہو نا رابیل مجھے تمہاری عادت ہے ، تمہارے بغیر یہ گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے تمھیں میرے ساتھ آنا چاہیے تھا نا "ناراض لہجے میں شاہ زیب نے شکایت کی
"شاہ زبردستی روکا سب نے آپ تو جانتے ہیں نا اور اگر آپ نا کر دیتے تو میں رک سکتی تھی یہاں "
"خیر چھوڑو " شاہ زیب نے مٹی ڈالو والے انداز میں کہا
"اچھا آپ سو جائیں صبح آفس جانا ہے دیر ہو جائے گی " رابیل نے کہا
"ہاں سونے لگا ہوں ۔۔" شاہ زیب نے جواب دیا
"چلیں میں فون بند کرتی ہوں سو جائیں آپ "
"کیوں " شاہ زیب نے پوچھا
"آپ نے سونا نہیں " رابیل نا سمجھی سے بولی
"ہاں سونا ہے مگر تم فون بند مت کرو ۔ تم پاس ہوتی تو احساس ہوتا ہے کوئی میرا اپنا مجھ سے محبت کرنے والا میرے پاس ہے اس لئے تم فون بند مت کرو اور ایسے ہی بولتی رہو اور جب میں سو جاؤں تو تم بھی سو جانا مگر فون بند مت کرنا " شاہ زیب کی فرمائش پر اسے ہنسی آئی
وہ عجیب سی فرمائشیں کرتا تھا ۔ پر رابیل بھی اس کی ھر فرمائش پوری کرتی تھی ۔ کیوں کے وہ شاہ زیب سے بے انتہا محبت کرتی تھی ۔ شاہ زیب کے سامنے اس سی نا ہوتی ہی نہیں تھی ۔
"اچھا آپ سو جائیں "
"ہمم۔۔" اس نے کہا جس سے واضح تھا وہ سونے کی کوشش کر رہا ہے
"جانتے ہیں شاہ آپ مجھے سب سے زیادہ خوبصورت کب لگتے ہیں " رابیل آنکھیں بند کیے بول رہی تھی
"کب " شاہ زیب نے پوچھا
"اچھا آپ مت بولیں نا بس مجھے بولنے دیں ایسے تو آپ پوری رات نہیں سوئیں گے " رابیل ڈانٹتے ہوئے بولی مگر اس کی ڈانٹ میں اس کا پیار واضح تھا شاہ زیب نے جواب نا دیا
"آپ مجھے سب سے زیادہ خوبصورت مسکراتے ہوئے لگتے ہیں ۔۔ جب آپ کھل کے مسکراتے ہیں تو دل کرتا ہے خود کو آپ پر سے وار دوں۔ اور جانتے ہیں شاہ آپ کی آواز مجھے بہت بہت بہت زیادہ پسند ہے ایک سکون سا ہے آپ کی آواز میں ۔ آنکھیں بند کر کے سنو تو جی چاہتا ہے کے بس سنتے ہی رہیں اور آپ کبھی خاموش نا ہوں ۔ میری زندگی کا سب سے خوبصورت تحفہ ہو آپ سب سے قیمتی چیز ۔ کبھی کبھی تو اتنا رشک آتا ہے خود پر کے جس کو پانے کی خاندان کی ہر لڑکی نے کوشش کی وہ ہے تو صرف اور صرف میرا ۔۔" رابیل نا جانے کیا کیا کہ رہی تھی وہ خود نہیں جانتی تھی شاہ زیب کے سامنے ہوتی تو کبھی یہ سب کہنے کی ہمت نا کر پاتی مگر آج قسمت نے موقع دیا تھا تو وہ گنوا نہیں سکتی تھی
"رابیل تم اتنی اچھی اچھی باتیں کرو گی تو میں پوری رات سو نہیں پاؤں گا " وہ مسکرا کر بولا ۔۔ رابیل کو شرم آئی تھی کے وہ سویا نہیں تھا بلکہ سن رہا تھا
"اچھا جی چلیں میں اب چپ کرتی ہوں "رابیل بھی مسکرائی
"نہیں بولو یارا بات کرو مجھے اچھا لگ رہا ہے " شاہ زیب نے پھر سے کہا ۔۔رابیل کچھ دیر خاموش رہی ۔۔دونوں طرف گہری خاموشی تھی ۔۔
"آئی لوو یو سو مچ شاہ ۔۔ رابیل شاہ زیب خان آپ سے بہت بہت زیادہ محبت کرتی ہے " رابیل نے کہا وہ جانتی تھی شاہ زیب سو چکا ہے ۔۔ دوسری جانب خاموشی تھی وہ سچ میں سو گیا تھا شائد ۔۔ رابیل بھی چپ کر گئی پانچ منٹ تک دونو ں میں خاموشی رہی
"رابیل " شاہ زیب کی ایک آواز پر رابیل نے جلدی سے جی کہا جیسے احساس دلا رہی ہو کے ہاں میں پاس ہوں نا تمہارے پاس تمہاری رابیل
"تم سو جاؤ مگر اپنا فون پاس رکھو تا کے تم جب سانس لو تو مجھے احساس ہوتا رہے تم پاس ہو "
"شاہ یہ مذاق ہے نا" رابیل کو سچ میں مذاق ہی لگا
"رابیل رات کے اس وقت مجھے اپنی بیوی سے مذاق کرنے کی کیا ضرورت ہے "
"کون کرتا ہے ایسے شاہ ۔۔ میری سانس کی آواز سننی ہے آپ کو پر کیوں "
"تم میرے پاس نہیں ہو ۔ اس سی مجھے احساس ہوگا کے تم میرے پاس ہو ۔ میں اکیلا نہیں ہوں رابیل مجھے اکیلے نیند نہیں آتی " شاہ زیب کے لہجے سے رابیل کو محسوس ہو گیا تھا کے رابیل اس کے لئے کتنی اہم ہو گئی تھی رابیل نے فون پاس رکھا ۔۔
"سو جائیں" ۔۔پھر دونو ں جانب خاموشی چھا گئی ۔۔۔
____________________
"ہائے زری کیسی ہو ؟" زری باہر ہال میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی جب عروا اس کے پاس آ کر بیٹھی زری نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
"تم نے تو ڈرا ہی دیا تھا " زری اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی اس لئے اسے دیکھ کر چونکی تھی
"اچھا ۔۔ تم ایسا بھی کیا سوچ رہی تھی جس نے تمھیں ڈرا دیا کے کوئی سن نا لے " عروا ہنسی دبا کر بولی
"جسٹ شٹ اپ اوکے " زری چاۓ کا سیپ لے کر بولی ۔۔ بدلے میں عروا مسکرائی
"گھر والے سب کہاں ہیں " ادھر ادھر نظر گھما کر عروا نے پوچھا
"ریسٹ کر رہے ہیں ۔۔ رابیل شاہ زیب خان آئی تھیں نا (شاہ زیب خان پر اس نے زور دیا تھا ) ابھی صبح صبح ہی وہ گئی ہے تو کل رات سے سب جاگ کر لیٹ نائٹ تک باتیں کرتے رہے تھے اس لئے ابا جان اور چچا جان آفس گئے تو سب اپنے اپنے کمرے میں ریسٹ کرنے چلے گئے " زری نے اسے بتایا
"اچھا رابیل کچھ دیر رک جاتی نا اور "
"ارے شاہ زیب بھائی تو اس کو ایک رات بھی رکنے نہیں دے رہے تھے وہ دونوں رہتے ہی نہیں ہیں ایک دوسرے کے بغیر کے کیا بتاؤں "زری بھی تیز تھی بات لگانا خوب جانتی تھی
"تم بہت تیز بنتی ہو نا زری ۔۔ ابھی تمہاری ساری مکاریاں میں نکالوں گی " بہت جرات سے آج عروا نے کہا تھا وہ کھڑی ہو گئی تھی
"بابا لوگ سب اسلام آباد گئے ہیں خالہ کے بیٹے کی منگنی پر میرا کل پیپر ہے اس لیتے میں نہیں گئی گھر کوئی نہیں تھا تو اس لئے بابا نے کہا کے میں ادھر چلی جاؤں تو اس لئے آج رات میں یہاں ہی رہوں گی ۔۔ " عروا نے آنے کی وجہ بتائی
"اوہ تمھیں اتنی فنکاریاں آتی ہیں تو تھوڑی مکاریاں مجھے آ گئیں تو کیا ہو گیا تم یہاں رہو یاں بھاڑ میں جاؤ مجھے پروا نہیں ہے " زری نے منہ بنا کر کہا زری نے موبائل سے سر اٹھا کر عروا کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
"بد تمیز " عروا نے کہا اور دادی جان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی
"عجیب اے " زری نے کندھے اچکائے
____________________
رابیل گھر آ چکی تھی چوکیدار نے اسے بتایا کے شاہ زیب آفس جا چکا ہے ۔۔رابیل اندر آ گئی کمرے میں قدم رکھا تو ہر طرف چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔۔ شاہ زیب ہر چیز سلیقے سے رکھتا تھا مگر آج ایسی کمرے کی حالت دیکھ کر اسے خیرانگی ہوئی تھی بیگ سے فون نکال کر اس نو شج زیب کو کال کی
"السلام عليكم شاہ۔"
"ویلکم ہوم مسز شاہ زیب کیسی ہو جاناں " شاہ زیب نے پیار سے کہا رابیل کے چہرے پر مسکراہٹ آئی
"آپ کی جاناں تو بلکل ٹھیک ہے آپ مجھے یہ بتائیں کے آپ نے ناشتہ کیا تھا " رابیل نے فکر مندی سے پوچھا
"نہیں یار اٹھا ہی دیر سے تھا اور پھر کوئی چیز نہیں مل رہی تھی کپڑے بھی نہیں مل رہے تھے کون سے پہن کر جاؤں ٹائی وغیرہ کچھ بھی نہیں مل رہا تھا اس لئے اور زیادہ دیر ہو گئی "
"پر شاہ ناشتہ تو کرنا چاہیے تھا نا آپ کو ۔۔ اور یہ کمرے کی حالت کیا بنائی ہوئی ہے آپ نے آپ سے کم از کم یہ امید نہیں تھی "
"اچھا اور تم سے یہ امید تھی کے تم مجھے اپنا اتنا عادی بنا دو گی ۔ ایک دن تم میرے پاس نہیں تھی اور ناشتہ کیے بغیر میں آفس آیا ہوں رابیل تم کیوں رکھتی ہو میرا اتنا خیال کے میں خود کو تمہارے حوالے کر چکا ہوں " وہ بات کر رہا تھا اور اس کے لہجے میں عجیب سی محبت تھی جو رابیل کو محسوس ہوئی تھی
"یہ تو پھر بڑی ہی اچھی بات ہے کیوں کے اس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکیں گے ہے نا اور ایک دوسرے کو کبھی چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا " رابیل نے جواب دیا
"اگر کبھی تمھیں میرے بغیر رہنا پڑھ گیا تو "
"ایسا کیوں ہی گ شاہ ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے " رابیل پر سکون ہو کر بولی
"رابیل تم ایک کام کرو " وہ بات یاد آنے پر بولا
"جی "
"تم امی کو کال کرو کے کوئی ملازمہ بھیج دیں جو گھر کے کام کر دیا کرے تم کوئی کام نہیں کرو گی "
"اچھا تو میں پورا دن گھر کیا ،کیا کروں گی "
"مجھ سے۔ بات " وہ بولا
"پورا دن " رابیل نے پوچھا
"ہاں پورا دن " شاہ زیب نے جواب دیا
"شاہ آپ بھی نا "
"میں کیا رابیل ۔۔ تم جانتی ہو میرا دل چاہتا ہے تم پورا دن مجھ سے بات کرتی رہا کرو اور جب میں تمہارے پاس ہوں تب بھی تم مجھ سے بات کرتی رہا کرو ہم ہر وقت ایک ساتھ رہیں "
"شاہ میں کچھ بنا لوں اب آپ کے کھانے کے لئے " رابیل کچن کی طرف جاتے ہوئے بولی
"اچھا کیمرا سیٹ کر لو اور کام کرتی رہو " شاہ زیب نے ویڈیو کال کرتے ہوئے کہا
"اچھا جی " رابیل نے کیمرا اون کر کے رکھا اور کھانا بنانے لگ گئی
"شاہ زیب اور وہ کافی دیر تک آپس میں باتیں کرتے رہے ۔
"شاہ میرے فون کی چارجنگ ختم ہو گئی ہے اور ویسے بھی تھوڑی دیر میں آپ گھر آنے والے ہیں میں فون چارج پر لگا لوں " رابیل نے کہا تو شاہ زیب نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا ۔۔ اور کال اوف کر دی ۔۔
__________________________
رائل بلیو کلر کا سادہ کرتا اور رائل بلیو کلر کی ہی کیپری پہن کر دائیں کندھے پر ہم رنگ شیفون کا دوپٹہ لئے ہوئے ہلکا ہلکا میک اپ کیے ہوئے وہ بیٹھی شاہ زیب کا انتظار کر رہی تھی ۔۔ آج کافی دیر ہو گئی تھی شاہ زیب نہیں آیا تھا رابیل کو فکر بھی ہو رہی تھی کے شاہ زیب اب تک کیوں نہیں آیا وہ فون کر رہی تھی مگر شاہ زیب فون اٹھا نہیں رہا تھا ۔۔
وہ ہال میں ادھر سے اُدھر واک کر رہی تھی ۔۔ ہاتھوں کو آپس میں مروڑتی ہوئی ۔۔ شاہ زیب جانتا تھا رابیل گھر اکیلی ہوتی ہے بیشک چوکیدار ہوتا ہے مگر وہ گھر میں تو اکیلی تھی نا اس لئے شاہ زیب جلدی آ جایا کرتا تھا مگر آج نو بج گئے تھے وہ اب تک نہیں آیا تھا ۔۔ رابیل نے سوچا کے اب وہ عدیل کو فون کرے گی وہ فون کرنے ہی لگی تھی کے شاہ زیب کی گاڑی کا ہارن بجا ۔۔ وہ یک دم دروازے کی طرف بھاگی ۔۔ شاہ زیب کو آتا دیکھ کر اسکی سانس میں سانس آئی تھی ۔۔
وہ بازو پر کوٹ ڈالے ہاتھ میں لیپ ٹاپ پکڑے نظریں جھکائے تیزی سے آ رہا تھا
"شاہ آپ کہاں رہ گئے تھے آپ جانتے ہیں میں کتنا پریشان ہو گئی تھی " شاہ زیب نے ایک نظر رابیل کو دیکھا رابیل بھی اسکو ہی دیکھ رہی تھی اس کی نظروں میں آج عجیب سا خوف تھا جیسے وہ کسی چیز سے ڈر کر بھاگ کر آیا ہو ۔۔ رابیل پر نظر ڈال کر وہ سیدھا اندر آ گیا ۔۔
"شاہ کیا ہوا ہے " رابیل اس کے پیچھے پیچھے آئی اسکی آنکھیں لال ہوئی تھیں وہ رویا تھا کیا ؟ ۔۔رابیل سوچ کر اس کے پیچھے آئی وہ چلتا ہوا صوفے کے پاس آیا اور لیپ ٹاپ ٹیبل پر رکھا
"شاہ میں آپ سے بات کر رہی ہوں آپ سن رہے ہیں نا " رابیل تھوڑا اونچا بولی ۔۔ اسے لگا تھا شاہ زیب اپنے خواص میں نہیں ہے
"اسنے شادی کر لی رابیل۔۔ اس نے اسی شخص سے شادی کر لی " شاہ زیب کی چیخ کر کہا آنکھ سے آنسوجاری ہو رہے تھے مگر وہ بے یقینی سے رابیل کو دیکھ رہا تھا
"کس نے شادی کر لی شاہ "وہ تیزی سے اسکے پاس آئی جو اسی کی طرف اب رخ کیے کھڑا تھا
"عبیرہ نے ۔۔"وہ رندی آواز میں کہتے ہوئے زمین پر گھٹنوں کے بل گرا ۔۔۔رابیل اسکو تھامتے ہوئے اس کے ساتھ گھٹنوں کے بل بیٹھی۔۔
"شاہ کیا ہوا کدھر ملی وہ آپ کو " رابیل نے شاہ زیب کو کندھوں سے پکڑا کر جھنجھوڑ کر مخاطب کیا ۔۔ رابیل نے اسکے گرد اپنے بازو پھیلا کر اس کے کندھے پر سر رکھا ۔۔وہ شائد کسی سہارے کی تلاش میں ہی تھا ۔۔ وہ رو رہا تھا ایک بار پھر آج عبیرہ کے لئے وہ رو رہا تھا ۔۔ دھاڑے مار کر ۔۔جیسے کوئی بچا روتا ہے۔۔ اتنے بڑے آدمی کو اس طرح روتے دیکھ کر رابیل لرز کر رہ گئی تھی
وہ بلکل بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔۔ رابیل نے ہلکے سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔۔ وہ اس سی لپٹ کر رو رہا تھا وہ بھی کسی اور کے لئے ۔۔ اور رابیل تو اس سی گلا بھی نہیں کر سکتی تھی آخر کرتی بھی کیوں ۔۔ رابیل کی محبت شاہ زیب تھا مگر کیا شاہ زیب کی محبت رابیل تھی ؟؟؟؟
"شاہ میں ہوں نا آپ کے ساتھ کیا ہو گیا ہے ۔۔ "
"رابیل وہ کیوں آ گئی ہے میرے سامنے میں رہ لیتا اس کے بغیر وہ کیوں آئی ہے میرے سامنے وہ کیوں مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔۔کیوں میری زندگی سے جڑ کر رہ گئی ہے وہ ۔۔ رابیل اسے کہ دو چلی جاۓ چلی جاۓ میں اسے کسی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا ۔۔ میرا خون کھولتا ہے جب میں یہ سوچتا ہوں کے میری محبت کسی اور کے ساتھ ہے ۔۔ اسے دور کر دو مجھ سے پلیز کوئی اسے دور کر دے۔یاں میرا وجود مٹا تو میں اسے نہیں دیکھ سکتا کسی کے ساتھ " شاہ زیب اسکے گرد اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے بولا ۔۔
"شاہ ہم ٹھیک کریں گے نا ہم مل کر سب ٹھیک کریں میں هوں نا آپ کے ساتھ جب تک میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کو کسی اور کی ضرورت نہیں ہے " رابیل کی بات پر رابیل کے کندھے پر سر سی اس نے سر اٹھا کر رابیل کو دیکھا
آنکھیں رو رو کر لال تھیں ۔۔ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ رابیل نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے آنسو صاف کیے اور اپنے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ گھیرا
"رابیل اپنے شاہ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گی " اسکے چہرے کے گرد اپنے ہاتھ پھیلا کر وہ بولی تھی ۔۔ وہ دونوں اسی حالت میں بیٹھے تھے رابیل نے شاہ زیب کو پکڑ کر اٹھایا ۔۔
وہ پاس صوفے پر لیٹ گیا رابیل نے اس کے سر کے نیچے تکیہ رکھ کر اسکے اوپر چادڑ دی اور صوفے کے پاس نیچے ہی بیٹھ گئی
شاہ زیب نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا اور اسی حالت میں وہ سو گیا تھا رابیل بھی صوفے سے سر لگا کر شاہ زیب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے سو چکی تھی ۔۔
___________________________
رات کے دو بجھ چکے تھے ۔۔ گھر میں سب ہی اس وقت سو چکے تھے ۔ عدیل بھی نیند کی وادیوں میں کھویا ہوا تھا۔۔ جب اچانک اس کے فون پر میسج آیا ۔۔ میسج کی آواز سن کر تو اسکی آنکھ نہیں کھلی تھی مگر جب کال آنا شرو ع ہوئی تو عدیل نے نیند میں بیڈ پر ہاتھ مار کر فون ڈھونڈنے کی کوشش کی فون پر ہاتھ پڑھتے ہی اس نے دیکھا تو زری کے نمبر سے کال آ رہی تھی عدیل نے کال اٹھانی چاہی تو کال بند ہو گئی رات کے اس وقت وہ اسے کیوں فون کر رہی تھی عدیل کال بیک کرنے لگا لیکن دیکھا تو زری کے میسجز آئے ہوئے تھے ۔۔عدیل نے میسج کھولے ۔۔خطرے کی گھنٹی اس کے اندر بجی تھی . .
"عدیل جلدی میرے کمرے میں آؤ ایمرجنسی ہے " ایک کے بعد دوسرا میسج بھی یہ ہی تھا
"عدیل جلدی کرو پلیز " پانچ میسج یہ ہی تھے وہ ہڑ بڑا کر اٹھا
اور جلدی سے کمرے کی لائٹ اون کی ۔۔ جوتے پہن کر وہ زری کے کمرے کی طرف بھاگ کر گیا ۔۔ کمرے کا دروازہ بند تھا عدیل نے جلدی سے دروازہ کھٹكهٹايا۔۔ تین چار بار دستک دینے پر زری نے دروازہ کھولا
"تم ادھر کیا کر رہے ہو " زری نیند سی اٹھی تھی اور ابھی اسکی ٹھیک سے آنکھیں بھی نہیں کھل رہی تھیں۔۔
"تم سو رہی تھی " عدیل خیرانگی سے کمرے میں داخل ہوا ۔۔ اور پورے کمرے کا جائزہ لینے لگا
"نہیں ڈانس کر رہی تھی " زری چڑ کر بولی
"تم نے مجھے میسج کیوں کیا " عدیل نے پوچھا
"میں نے ۔۔؟ کون سا میسج ؟ " زری کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا
"تایا ابا ۔۔۔تائی امی ۔۔چچی ۔۔۔چچا جان " عروا نے دروازے کے پاس آتے ہی چلانا شرو ع کر دیا ۔۔ وہ اونچا اونچا چلا رہی تھی ۔۔ سب کو بلا رہی تھی جیسے کچھ دکھانا چاہ رہی ہو ۔۔ عدیل اور زری اسے دیکھ کر چونک گئے ۔۔ زری کی تو کچھ سمجھ میں نہیں اس رہا تھا کے وہ کیوں سب کو بلا رہی ہے مگر عدیل سب سمجھ چکا تھا
"کیا بکواس ہے یہ " عدیل عروا کی طرف بڑھ کر غصے سے بولا
"کیا ہو رہا ہے ادھر " جنید صاحب انکی طرف آتے ہوئے بولے ۔۔ ۔
نگہت بیگم ، کلثوم بیگم ، عامر صاحب دادی جان سب آ چکے تھے ۔۔ سب نے ایک بار عدیل پر اور پھر زری پر نظر ڈالی ۔
"وہ تایا ابا میں تو پانی لینے کچن میں جا رہی تھی جب میں نے دیکھا کے زری کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا ہے میں اس کو کہنے جا رہی تھی کے دروازہ لاک کر لو مگر آگے دیکھا تو عدیل اس کے کمرے میں موجود تھا ۔۔ جب میں نے آپ کو آوازیں دیں تو عدیل مجھ پر برس پڑا " پر عروا نے بات کو غلط رنگ دیتے ہوئے نظر جھکا لی
"تایا ابا یہ جھوٹ بول رہی ہے "عدیل جنید صاحب کے بدلتے تاثرات دیکھ کر بولا ۔۔ نگہت بیگم نے منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا ۔۔ عامر صاحب کا سر بھی جھک گیا ۔۔ کلثوم بیگم کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا
"امی ۔۔ امی میری بات سنیں " عدیل نگہت بیگم کی طرف بڑھا جب انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا
"کہا تھا ساتھ ہی رخصتی کر دیں ان کی مگر میری مانتا کون ہے ایسے ہمارے خاندان کا نام خراب کر رہی ہیں یہ لوگ " عروا نے عدیل کو دیکھ کر کہا
"کیا مطلب یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم ہاں ؟؟" زری عروا کی بات کو سمجھتے ہوئے بولی
"بابا میری بات سنیں ایسا کچھ بھی نہیں ہیں یہ جھوٹ بول رہی ہے " زری جنید صاحب کے پاس آئی ہی تھی جب کلثوم بیگم نے کھینچ کر زور دار تھپڑ زری کے منہ پر مارا
"امی " زری نے بے یقینی سے انکو دیکھا
"اس عمر میں نا جانے اور کیا کیا دکھائیں گے یہ ہمیں " دادی جان سر پکڑ کر بیٹھ گئیں
"عامر دو دن میں ان کی رخصتی کرواؤ " جنید صاحب غصے سے بول کر چلے گئے ۔۔ زری اةدھر ہی گھٹنوں کے بل زمین پر گرتے گرتے ہوئے بیٹھی
"میری بات تو سنیں ۔۔ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔ یہ جھوٹ کھ رہی ہے ۔۔ تایا ابا سنیں تو ۔۔ بابا پلیز ہماری بات کا یقین کریں " سب اپنے اپنے کمرے میں جا رہے تھے ۔۔ عدیل ایک ایک کو بلا رہا تھا مگر سب جا چکے تھے
"بد کردار لڑکی " عروا نے ابرو اچکا کر کہا اور چلی گئی
"میں بد کردار نہیں ہوں ۔۔ امی ۔۔۔ابا ۔۔ میں۔۔۔۔ بد کردار نہیں ہوں کوئی یقین کرے گا میری بات پر میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔امی پلیز یقین کریں مجھ پر کوئی تو یقین کرے مجھ پر ۔۔"وہ سر پکڑ کر چلا چلا کر بول رہی تھی
"زری چپ کر جاؤ پلیز " عدیل اس کو اٹھانے کے لئے آیا
"دور رہو مجھ سے یہ تم سب نے پلان کیا ہے تم ہی آئے تھے میرے کمرے میں تم سب نے سازش کی ہے " زری کی بات پر عدیل کو لگا کسی نے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو
"زری نہیں میں نے کچھ نہیں کیا وہ "
"دفع ہو جاؤ یہاں سے عدیل میری نظروں سے دور ہو جاؤ تم دفع ہو جاؤ یہاں سے چلے جا۔۔۔۔۔۔۔۔ؤ "
وہ چلا چلا کر بولی ۔۔۔عدیل کو نا چاہتے ہوئے بھی وہاں سے جانا پڑا
__________________________
صبح کے سات ہو چکے تھے جب رابیل کی آنکھ کھلی تھی ۔ پہلی نظر اسکی اپنے ہاتھ پر پڑی ۔۔ جس میں رات کو وہ شاہ زیب کا ہاتھ لے کر سوئی تھی ۔۔ مگر اس وقت اس کا ہاتھ حالی تھا شاہ زیب کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں موجود نہیں تھا اس نے سر اٹھا کر صوفے پر دیکھا شاہ زیب وہاں بھی موجود نہیں تھا ۔ رابیل ہر بڑا کر اٹھی۔۔ اور کمرے کی طرف بڑھی۔ وہ ناشتہ کیے بغیر آفس نا چلا گیا ہو رابیل فکر مندی سے کمرے میں داخل ہوئی مگر داخل ہوتے ہی کمرے میں دیکھا مگر وہ وہاں موجود نہیں تھا باتھ روم کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا ۔ باہر آ کر اس نے ایک ایک کر کے پورا گھر دیکھا وہ وہاں موجود نہیں تھا۔ رابیل کو لگا تھا وہ آفس گیا ہوگا گاڑی دیکھنے کے لئے وہ باہر آئی شاہ زیب کی گاڑی ادھر ہی موجود تھی ۔ چوکیدار اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا
"صبح بخیر بی بی جی " ادب سے اسنے کہا
"شاہ زیب کدھر گئے ہیں " رابیل نے پوچھا جس پر چوکیدار نے خیرانگی سے رابیل کو دیکھا
"آپ کو نہیں بتا کر گئے کیا بی بی جی " چوکیدار نے پوچھا
"نہیں تو مجھے تو نہیں بتایا " رابیل کو اب ڈر لگ رہا تھا
"کہاں گئے ہیں وہ " اس نے جلدی سے پھر پوچھا
"جی وہ تو بہت صبح صبح کہیں چلے گئے ہیں ایک بیگ تھا ان کے پاس ۔۔ میں نے کہا صاحب گاڑی لے جائیں کہا نہیں یہ رابیل کی ہے ۔"
"کک۔۔ کہاں گئے ہیں یہ نہیں بتایا انہوں نے " رابیل کا رنگ اوڑھ گیا تھا
"نہیں۔۔ " چوکیدار نے نا میں گردن ہلائی
"یا اللہ " رابیل نے ایک ہاتھ سے اپنا سر تھاما
"کک۔۔ کوئی پیغام " رابیل سے اب بولا نہیں جا رہا تھا
"نہیں بی بی جی ۔۔ (پھر اچانک یاد آنے پر بولا ) ہاں ہاں بی بی جی بس اتنا کہا کے رابیل کو کہنا مجھے ڈھونڈنے کی کوشش نا کرے "
"کیسے نا کروں ۔" وہ چلا کر بولی
"آپ نا آپ ایسا کریں آپ جا کر انہیں بلا کر لائیں۔ بولیں۔ رابیل بلا رہی ہے آپ کو جائیں نا " وہ چوکیدار کو دھکا دے کر بولی
کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے
پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے
تجھ سے مل کر بھی جب اداسی کم نہیں ہوتی
تو تیرے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔
۔۔۔جاری ہے ۔۔
____________________
Assalam o Alaikum wa'reh'matulahi'wabarakatuhu..
Mere pyare pyare readers. Kesi lgi ap ko yh episode. Thnku pichli epi ko itni mhbt Dene KY liye.. Kher sy is ke achy achy feedbacks dy dyn btayein kya best lga apko taa KY next epi apko kuch dinon main mil Jaye..
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top