ساتویں قسط
ساتویں قسط
ضروری تو نہیں ہوتا کے جس خوشی کے لئے انسان عرصے سے انتظار کرے وہ خوشی اتنی چھوٹی سی مدت کے لئے ہو ہر ایک کی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ہو گا مگر رابیل کے ساتھ ہوا تھا ۔ شاہ زیب کے منہ سے پیار بھرے الفاظ سننے کے لئے اس نے عرصہ انتظار کیا مگر جب آج وہ اس کا محرم بھی ہے تو بھی اس کی محبت ، اس کے جذبات، احساسات پر رابیل کا حق نہیں تھا ۔
ہمیشہ کی طرح ٹپ ٹپ آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔
کچن میں داخل ہوتے ہوئے اس نے واٹر ٹیب اون کیا اور ہاتھوں میں پانی لئے منہ پر چھینٹے مارے ۔
"یہ کیسے موڑ پر آ گئی ہوں میں ، ہر وقت اپنی عزتِ نفس اس کے سامنے نیلام نہیں کروا سکتی ۔لیکن کروں بھی تو کیا ایک طرف شاہ میری محبت ہیں دوسری طرف میرے محرم۔ انہیں چھوڑ نہیں سکتی کسی صورت بھی میں شاہ کے بغیر کیسے رہوں گی لیکن ساتھ بھی نہیں رہ سکتی کیوں کے وہ تو میرے ساتھ خوش ہی نہیں ہیں "
"یا اللہ میری مدد فرما " وہ بے بس سا محسوس کر رہی تھی
آنسو تھے کے رک نہیں رہے تھے ۔ کتنی حساس تھی وہ ہر لڑکی حساس ہی تو ہوتی ہے ۔
کچن سے نکل کر وہ ہال میں آئی
"مجھے گھر جانا ہے، امی اور بابا کے پاس مجھے ادھر نہیں رہنا شاہ نے بھی تو کہا ہے میں چلی کیوں نہیں جاتی ۔۔ ہاں میں کس حق سے ہوں ان کے ساتھ وہ تو ٹھیک سے بات بھی نہیں کرتے اور آج کتنے واضح انداز میں انہوں نے کہا کے میں چلی جاؤں تو ٹھیک ہے میرا جانا ہی بہتر ہے ۔ چلی جاتی ہوں کیا ہو گا زیادہ سے زیادہ کچھ عرصہ یاد آئیں گے تو کیا ہے میں تب بھی تو یں کے بغیر رہتی تھی نا جب وہ میرے محرم نہیں تھے ۔ "سوچتے ہوئے اور خود کو تسلی دیتے ہوئے اسنے سیدھا اپنے کمرے کا رخ کیا ۔
وہ فیصلہ کر چکی تھی بس اب اس پر پورا اترنا تھا ۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے شاہ زیب کو دیکھا جو بازو آنکھوں پر رکھے لیٹا تھا شائد کچھ سوچ رہا تھا۔
"اپنے کرتوت یاد کر کے برا محسوس کر رہا ہوگا ین شائد اپنی حرکت پر شرمندہ ہے " رابیل نے سوچا
"ہہ وہ کیوں ہوگا " دوسرے ہی لمحے سر جھٹک کر وہ الماری کی طرف بڑھی
الماری کھلنے کی آواز پر شاہ زیب کو رابیل کی موجودگی محسوس ہوئی اسنے آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر سامنے رابیل کو دیکھا جو الماری سے ہینڈ بیگ نکال کر الماری بند کر رہی تھی ۔ الماری لاک کر کے وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور اپنا فون اٹھا کر بیگ میں ڈالا ۔ کپڑے وغیرہ نہیں لئے تھے لیکن شاہ زیب کو معلوم ہو چکا تھا وہ کہیں جانے لگی ہے ۔ یک دم اس کے اندر خطرے کی گھنٹی بجی
"تم کہیں جا رہی ہو " شاہ زیب نے پوچھا
رابیل جواب دیئے بغیر جانے لگی
"رابیل کچھ پوچھا ہے میں نے " وہ سخت لہجے میں بولا ۔ رابیل اندر سے کانمپ اٹھی ہمیشہ کی طرح وہ شاہ زیب کے غصے سے ڈر گئی تھی
"ہاں " وہ ہمت کر کے بولی
"کدھر " پھر سوال پوچھا گیا
"بتانا ضروری نہیں سمجھتی " کہ کر وہ کمرے سے نکل گئی اس وقت وہ ہی جانتی تھی اس نے کیسے جواب دیا تھا ۔ شاہ زیب کے ساتھ شادی کے بعد بھی وہ اتنی ہمت نہیں کر پاتی تھی کے دو منٹ بھی اس کو ایٹیٹیوڈ دکھا دے
شاہ زیب فٹ سے بیڈ سے اترا اور باہر اسکی طرف بھاگا
"رکو رابیل میری بات سنو " اس نے رابیل کا بازو پکڑا وہ دونوں اس وقت ہال میں موجود تھے ۔ رابیل نے مڑ کر شاہ زیب کو دیکھا ۔
رابیل کی آنکھیں اب تک سرخ تھیں۔
"تم مجھے چھوڑ کر جا رہی ہو " شاہ زیب نے کہا
"ہم ساتھ تھے کب " رابیل اسی طرح کھڑی تھی
جواب مشکل تھا اس لئے شاہ زیب نے بات بدلی
"کب آؤ گی گھر واپس "
"کس گھر " رابیل نے پوچھا
"ہمارے " شاہ زیب سوچے سمجھے بغیر بولا
"نہیں یہ صرف آپ کا گھر ہے " رابیل نے اندر کی بات کہی
"مت جاؤ " شاہ زیب کے لہجے میں التجا تھی
"کس حق سے روک رہیں ہیں آپ " لہجہ رابیل کا بھی سپاٹ تھا
رابیل مت جاؤ پلیز اب تم تو مجھے چھوڑ کر مت جاؤ " شاہ زیب کے منہ سے اپنے لئے ایسے الفاظ سن کر وہ خیران ہوئی ۔شاہ زیب نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اب وہ پوری طرح شاہ زیب کی طرف مڑی وہ دونوں اب آمنے سامنے تھے ۔
روک لیتا ہوں تو کہتا ہے جانے دو مجھے
جانے دیتا ہوں تو کہتا ہے بس یہی محبت تھی
"کیوں روک رہے ہیں آپ مجھے شاہ ۔ کہتے ہیں چلی جاؤ پر جانے کیوں نہیں دیتے ۔ آخر کیوں باندھ رہے ہیں اپنے ساتھ۔۔ آپ کو تو اکیلا رہنا ہے نا تو جانے دیں مجھے ۔ میں جیسے بھی کر کے رہ لوں گی پر آپ تو خوش رہیں گے نا میرے بغیر میری غیر موجودگی آپ کو خوشی دے گی میرے لئے کافی ہوگا ۔ میں اس طرح آپ کو اپنے ساتھ مجبوری کی زندگی گزرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی شاہ "
"رابیل میں جانتا ہوں میں تمھیں ہرٹ کر چکا ہوں مگر تم میری زندگی سے تو نا جاؤ رابیل۔ "
"کیوں شاہ پھر کیوں ایسا رویہ اختیار کر رہے ہیں آپ جب میری موجودگی آپ کو ڈسٹرب کرتی ہے میری غیر موجودگی بھی آپ کو ڈسٹرب کرتی ہے تو کیا کروں میں آخر ۔ کیوں نہیں بتا دیتے ایسی کون سی چیز ہے جو آپ کو پریشان کر دیتی ہے اس کون سی بات ہے جو آپ بتانا نہیں چاہتے " وہ روندی آواز میں بولی
"میں تمہیں نہیں بتا سکتا "
"تو پھر ٹھیک ہے آپ خوش رہیں " کہ کر وہ جانے لگی
"میں کسی سے محبت کرتا ہوں رابیل " شاہ زیب کی بات پر وہ رک گئی
"کک۔۔کس سے "
"عبیرہ "
"کک۔۔ کون عبیرہ " رابیل نہیں جانتی تھی وہ کیا محسوس کر رہی تھی مگر وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی فل حال وہ شاہ زیب کو سننا چاہتی تھی جاننا چاہتی تھی تو یہ کے عبیرہ کون ہے کیسی ہے حال ہے یاں بس ماضی
"تم میری بات سن کر فیصلہ کر لینا کے تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو یاں نہیں ۔ میں تم سے کوئی بات اب نہیں چھپانا چاہتا "
"عبیرہ میری یونیورسٹی میں پڑھتی تھی ۔ میری جونیئر تھی ۔ یونیورسٹی کے دوسرے سال میری اس سے دوستی ہوئی " وہ بات کرتے ہوئے اب صوفے پر بیٹھ گیا جیسے جانتا تھا کے اب رابیل نہیں جائے گی
_________________
ماضی :
یہ یونیورسٹی کی لائبریری تھی ۔ ایک لڑکی کتابوں سے الجھتی ہوئی ایک سے دوسرا صفحہ پلٹ رہی تھی ۔ اسکا رنگ زیادہ سفید نہیں تھا گندمی رنگ مگر صاف تھا ۔ بال سیدھے اور درمیانے تھے زیادہ لمبے نہیں تھے ۔ آنکھوں کے گرد چشمہ لگاۓ ۔ پینٹ کے اوپر لونگ کرتا پہنے وہ کتابوں میں کچھ ڈھونڈھ رہی تھی ۔ جب اس نے سر اٹھا کر لائبریری میں چاروں طرف نظر دوڑائی ۔ تب ہی اس کی نظر شاہ زیب خان پر پڑھی وہ کوئی کتاب پڑھنے میں مگن تھا ۔ اسکی ذہانت کے چرچے وہ سن چکی تھی ۔ کتاب اٹھا کر وہ شاہ زیب کی طرف گئی جیسے جان گئی ہو کے اب اسکا مسئلہ حل ہو جاۓ گا
"ہیلو " اسکے پاس رک کر وہ بولی ۔
شاہ زیب نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا
"جی " مختصر سا جواب
"میں عبیرہ آپ کی جونیئر ہوں۔ مجھے آپ کی مدد چاہیے تھی میں جانتی ہوں آپ میری مدد کر سکتے ہیں پلیز کل مجھے اسائنمنٹ دینی ہے آپ تھوڑی سی میری مدد کر دیں پلیز "
"اوکے آپ بیٹھیں اور کتاب دیں " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا تو وہ اسکے ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔ شاہ زیب اسے سمجھانے لگا تو وہ بھی پڑھائی میں مگن ہو گئی
________________
حال :
"اس دن سے تقریباً ہم روز ملنے لگے عبیرہ اسی طرح کوئی نہ کوئی کام لے کر میرے پاس آ جاتی اور ہم دونوں گھنٹوں مل کر اس کام کو کرتے ۔ وہ تھوڑی شوخ مزاج تھی ۔ بہت زیادہ بولتی تھی اور بولتے ہوئے مجھے بات کرنے کا کبھی موقع نہیں دیتی تھی ۔ ہر چھوٹی سی بات کے متعلق اپنی راۓ دیتی تھی اور تجربہ بتاتی تھی ۔ مجھ سے وہ کافی کمفرٹیبل رہنے لگی تھی ۔ وجہ شائد یہ تھی کے وہ میری جونیئر تھی اور میں اسے ہر معاملے میں گائیڈ کر دیتا تھا ۔ اسی دوران ہماری کافی اچھی دوستی ہو گئی۔ اکثر میسج پر بات بھی ہو جاتی تھی ۔ تم مجھے شرو ع سے جانتی ہو رابیل میں شوخ مزاج نہیں ہوں اور نا ہی شوخ مزاج لڑکیوں کو پسند کرتا ہوں لیکن پتا نہیں کیوں وہ جب بولتی تھی تو میرا دل کرتا تھا بس اسے سنتا رہوں "اس نے سر اٹھا کر رابیل کو دیکھا وہ بھی شاہ زیب کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ چکی تھی اور سنجیدگی سے اسے سن رہی تھی
"دن ، ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں گزر گئے ۔ ہماری دوستی کو چھے ماہ ہو چکے تھے۔ اتنی گہری دوستی کے دن با دن بڑھتی چلی گئی۔ ہمارے اندر سب کچھ تھا روٹھنا بھی منانا بھی ۔ فکر بھی سب کچھ ۔ تب مجھے محسوس ہوا کے مجھے اس سے محبت ہونے لگی تھی ۔کسی کے لئے یہ عرصہ کم ہوگا مگر محبت تو ایک بار دیکھنے سے بھی ہو جاتی ہے ۔ یہ بات میں نے پہلی بار تب محسوس کی جب اس کا رجسٹر میرے پاس رہ گیا اور میں پوری رات اس کو اپنے ہاتھ میں لئے بیٹھا رہا صرف اس لیے کے یہ عبیرہ کا رجسٹر ہے اس کی چیزوں سے مجھے اس کی خوشبو آتی تھی ۔ کتنی عام سی بات ہے نا کے اس کے رجسٹر کو میں گھنٹوں گورتا رہا اسکی لکھائی میں گھنٹوں دیکھتا رہا مجھے اس سے محبت ہو گئی تھی۔ لیکن بتانے کی ہمت نہیں تھی ۔ تب ایک روز ہم دونوں یونیورسٹی کیفے میں بیٹھے کافی پی رہے تھے "
__________________
ماضی :
"شاہ زیب میری کلاس ہونے والی ہے چلو ہم چلتے ہیں اب " عبیرہ کہتے ہوئے اٹھی
"رکو عبیرہ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے " شاہ زیب نے اسے پھر سے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ سر جھٹک کر بیٹھ گئی
"شاہ زیب جلدی کرو نا میں لیٹ ہو جاؤں گی " عبیرہ جهنجهلا کر بولی ۔
"اچھا دیکھو تم میری بات کا غلط مطلب نہیں نکالو گی نا ہی یہ سوچو گی کے تم نے مجھ سے دوستی کر کے کوئی غلطی کر دی ہے "
"ہاں یارا بولو بھی " وہ اسکے ساتھ کافی فرینک ہو گئی تھی
"عبیرہ اصل میں بات یہ ہے کے "
"شاہ بولو بھی "
" آئی لوو یو "
"یہ مذاق ہے نا یاں کوئی پرینک ہے " عبیرہ سنجیدگی سے بولی
"عبیرہ میں اس طرح کے مذاق نہیں کرتا تم جانتی ہو "
"لیکن شاہ زیب ہم اچھے دوست ہیں یار یہ محبت ہمیں بہت دور تک لے جائے گی تب کیوں یں سب چیزوں میں پڑ رہے ہو "
"تو میں دور تک جانا چاہتا ہوں نا لیکن صرف تمہارے ساتھ "
"شاہ زیب ان چند ماہ میں تم کیسے فیصلہ کر سکتے ہو کے ہم ساتھ رہ سکتے ہیں "
"ایسے فیصلے کے لئے تو ایک منٹ بھی کافی ہوتا ہے اور جن سے محبت ہو وہاں دل سے سوچا جاتا ہے عبیرہ دماغ سے نہیں "
"یہ جلد بازی ہے شاہ زیب سوچ لو تمھیں پچھتانا نہ پڑے " عبیرہ اسے سمجھانا چاہتی تھی
"میں فیصلہ کر چکا ہوں " وہ بھی شاہ زیب خان تھا اور اپنے فیصلے پر اٹل تھا
"کس فیصلے کی بات ہو رہی ہے یار ۔۔کوئی ہمیں بھی تو بتاؤ " ایک لڑکا ان کے پاس آ کر رکتے ہوئے بولا جس کو دیکھ کر عبیرہ خوش ہو کر اچھل کر کھڑی ہوئی اور عبیرہ کے ساتھ شاہ زیب بھی کھڑا ہوا
"عامر کیسے ہو تم کدھر تھے اتنے دنوں سے " عبیرہ نے خوش ہو کر اس سے ہاتھ ملایا ۔ شاہ زیب نے ایک نظر ان دونوں کے میلے ہوئے ہاتھ پر ڈالی
"تم ہی بزی رہتی ہو یار پتا نہیں کن لوگوں میں مصروف ہو آج کل " بات کرتے ہوئے اسنے ہاتھ پیچھے کیا اور شاہ زیب پر نظر ڈالی
"میٹ مائی فرینڈ ۔۔ شاہ زیب خان ۔۔ شاہ زیب یہ عامر ہے میرا اسکول لیول کا کلاس فیلو " عبیرہ نے انٹروڈکشن کروایا ۔۔ شاہ زیب اور عامر نے مسکرا کر سلام لیا
"اچھا عبیرہ ابھی تو میں جا رہا ہوں جلدی میں ہوں پھر ملاقات ہو گی " کہ کر وہ تیزی سے چلا گیا
"بہت اچھا انسان ہے یہ بس تھوڑا فلرٹی بھی ہے " اسے جاتے دیکھ کر عبیرہ مسکرا کر بولی
"ہمم" شاہ زیب بھی اسے جاتا دیکھ کر بولا
"عبیرہ وہ تم سے زیادہ فرینک نہیں ہو رہا تھا اور تمھیں بھی اس سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے تھا " شاہ زیب بیٹھتے ہوئے بولا
"کیا مطلب " وہ شاہ زیب کی بات پر خیران ہوئی تھی
"مطلب مجھے یہ سب پسند نہیں ہے " شاہ زیب بغیر جھجھک کے بولا
"تو "
"تو تم اتنا فری مت ہوا کرو اس سے "
"شاہ زیب وہ تم سے پہلے کا میرا دوست ہے اور تم مجھے کیوں منع کرنے لگ گئے ہو کیا میں پورا دن تمہارے ساتھ یونیورسٹی میں نہیں رہتی ۔ " وہ اب تھوڑے سخت لہجے میں آ گئی تھی شائد یہ بات اسے پسند نہیں آئی تھی
"میری بات اور ہے عبیرہ "
"کیوں اور ہے " عبیرہ نے سوال کیا
"عبیرہ کیا مجھ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے " شاہ زیب کو جیسے یقین نہیں آیا تھا
"نہیں " عبیرہ دو ٹوک بولی
"عبیرہ " شاہ زیب خیران ہوا
"یو آر ڈسگسٹنگ " وہ غصّے سے اٹھی اور اپنا بیگ اٹھا کر چلی گئی ۔ شاہ زیب بھی کچھ نا بولا اور اسے جانے دیا ۔ وہ اتنا تو جانتا تھا کے عبیرہ ضدی ہے اس لئے خاموش رہا
_____________________
اب رات ہو چکی تھی عبیرہ کا کوئی میسج نہیں آیا تھا۔ بے چینی سے وہ کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا ۔ اس دوران کئی بار اس نے فون اٹھایا کے میسج کرے مگر پھر فون رکھ دیا کے نہیں میں کیوں کروں ۔ لیکن محبت میں عزتِ نفس کہاں دیکھی جاتی ہے ۔ محبت تک پوھنچنے کے لئے عزتِ نفس کی پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھ کر اسے پاؤں تلے روندھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے ۔ محبت عزتِ نفس سے بہت آگے کا مقام ہے۔ محبت تو سوچ سے آگے کا مقام ہے جہاں انسان کی سوچ سمجھ سب ختم ہو جاتا ہے۔۔ یاد رہتا ہے تو بس وہ شخص جس سے محبت ہوتی ہے ۔
شاہ زیب نے آگے بڑھ کر اپنا فون اٹھایا اور عبیرہ کو فون ملایا ۔ دو تین بیل جانے کے بعد فون اٹھا لیا گیا
"السلام عليكم " شاہ زیب جلدی سے بولا
"بولو " بغیر لچک کھاۓ وہ بولی
"عبیرہ ناراض ہو مجھ سے " شاہ زیب نے پوچھا اب وہ بیڈ پر بیٹھ گیا تھا
"ہاں ہوں تو "
"عبیرہ ایم سوری یار میں جانتا ہوں مجھے تمھیں آرام سے سمجھانا چاہیے تھا۔ "
"تم نے مجھ پر شک کیا ہے شاہ زیب "
"نہیں عبیرہ میں تم پر شک کیوں کروں گا میں بس ڈرتا ہوں " دل کی بات زبان پر آ چکی تھی
"ڈر لیکن کس چیز سے "
"عبیرہ یہ ڈر ہے تمھیں کھونے کا ۔ میں تمھیں کھونا نہیں چاہتا عبیرہ ۔ مجھے اچھا نہیں لگتا میرے علاوہ کوئی تمہارا ذکر بھی کرے "
"شاہ زیب تم سے آخر مجھے کون الگ کر سکتا ہے میں تو تمہاری ہی ہوں نا ۔ میں بھی تو تمھیں پسند کرتی ہوں " عبیرہ کی جانب سے ایسا جواب سن کر وہ کرنٹ کھا کر بیڈ سے اٹھا
"میں جانتا تھا تم مجھے ایسا ہی جواب دو گی ۔ " اسکی آواز سے ہی عبیرہ اسکی خوشی کا اندازہ لگا سکتی تھی ۔
محبت میں جب اس چیز کا یقین ہو جاتا ہے کے اگلا بھی آپ سے اتنی ہی شدت سے محبت کرتا ہے جتنی آپ اس سے کرتے ہو تو انسان اندر سے عجیب سا مطمین ہو جاتا ہے ۔
_____________________
حال میں عجیب سی خاموشی تھی ۔ شور برپا تھا تو ان دو انسانوں کے اندر جو ادھر بیٹھے تھے ایک شاہ زیب خان جو ماضی کا قصّہ کھولے سنا رہا تھا اور دوسری رابیل جو اپنے شوہر کے منہ سے اسکی محبت کی داستان سن رہی تھی ۔
"سب کچھ بہت اچھا جا رہا تھا ایک ایک چیز پرفیکٹ تھی ہر روز ہم یونیورسٹی ملتے تھے ۔ پھر میں یونیورسٹی سے فری ہو گیا تو آفس جانا شرو ع کر دیا ۔ لیکن ہر ویکینڈ پر ہم ملتے تھے ۔ میں نے اسے کبھی چھوا تک نہیں تھا بس ہم ملتے تھے باتیں کرتے تھے ۔ زندگی مکمل لگنے لگی تھی ۔ ہم پورے دن کی اپنی روٹین بتاتے تھے عبیرہ اپنی ہر بات مجھے بتاتی تھی ہم روز بات کرتے تھے مگر پھر بھی جب ہم ملتے تو خوشی ہر بار خوشی پہلے سے بڑھ کر ہوتی تھی ۔ وہ ایسی لڑکی تھی جس کی وجہ سے یونیورسٹی میں مجھے پھر کسی دوست کی ضرورت نہیں پڑھی ہم اکٹھے رہتے تھے ۔ احمد کے علاوہ میرا کوئی دوست نہیں تھا ۔ مجھے اور عبیرہ کو کسی اور کی ضرورت ہی نہیں تھی " وہ ماضی میں کھویا کھویا بول رہا تھا
"پھر کیوں آپ دونوں آج ساتھ نہیں ہیں " ایک لمحے کے لئے رابیل کی خاموشی ٹوٹی تھی
"میری اوقات دکھانے کے لیے میرے ساتھ یہ ہونا تھا "
"مطلب " نظر اٹھا کر اس نے شاہ زیب کی طرف دیکھا
______________________
اس دن میں عبیرہ سے ملنے جا رہا تھا جب میں گاڑی کے پاس پوھنچا ہی تھا کے تم یونیورسٹی سے آ گئی اور آ کر تم نے مجھے اپنی دوست کی شادی پر جانے کا کہا تھا ۔ عبیرہ سے ملنے کی جلدی ہی اتنی ہوتی تھی کے جی چاہتا تھا اس دن کوئی ہمیں نا روکے اور پھر تم سے گھڑی دو گھڑی بات کر کے میں چلا گیا تھا ۔۔اسکی عادت ہی اتنی زیادہ تھی تھوڑا عرصہ نا ملیں تو سب ادھورا لگتا تھا ۔
لیکن کہتے ہیں نا عادت محبت سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہے ۔ مجھے اس سے محبت بھی تھی اور اس کی عادت بھی ۔ ہماری غلطی ہی یہ ہوتی ہے ہم کسی کی عادت بنے نا بنیں لیکن کسی کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں اپنی زندگی کے ہر معاملے میں انکو شامل کر کر کے پھر انکی ذرا سی غیر موجودگی بھی ہمیں انکی شدت سے یاد دلاتی ہے ۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں بھی اسے یہ ہی کہوں گا کے کسی سے محبت تو کر لینا مگر اپنے آپ کو کسی کا عادی نا بنانا ۔
ویکینڈ تھا ہمیشہ کی طرح ہم ملےمگر اس بار ہم پارک میں ملے تھے۔
"شاہ زیب مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے " عبیرہ آج تھوڑی پریشان تھی۔
"بتاؤ نا آج ویسے بھی تم مجھے فرش نہیں لگ رہی " وہ شائد انتظار میں تھا کے عبیرہ اسے بتاۓ وہ کیوں پریشان ہے ۔
"شاہ زیب میں نے تمھیں ایک بہت ضروری بات بتانی تھی " شاہ زیب کے اندر خطرے کی گھنٹی بجی ۔۔
"کون سی بات "
"شاہ زیب تم مجھے غلط نہیں سمجھو گے پلیز مجھے سمجھنے کی کوشش کرو گے ۔ " وہ سچ میں پریشان تھی۔
"بولو " وو ٹک ٹک اسے دیکھ رہا تھا عبیرہ اسکے بلکل سامنے کھڑی تھی ۔
"شاہ زیب میرے گھر والے میری شادی کروانا چاہتے ہیں ۔ شاہ زیب وہ میری خالہ کا بیٹا ہے اگر میری اس سے شادی نا ہوئی تو میری امی ہمیشہ کے لئے میری خالہ سے دور ہو جائیں گیں میں نے سب کو منع کیا ہے مگر کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔ ان دنوں میں نے لگاتار امی کو سمجھایا مگر کوئی بھی نہیں مان رہا " عبیرہ پریشان تو تھی مگر اس کی اس بات نے جیسے شاہ زیب کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی تھی
"تم خوش میں تو ہو عبیرہ یہ کیا کہے جا رہی ہو "
"شاہ زیب میں نے ببت کوشش کی ہے سب کو سمجھانے کی مگر نا کوئی مانا ہے اور نا کوئی نہیں مانے گا مجھے لگتا ہے اب ہمیں ایک دوسرے کو چھوڑنا ہوگا "
"عبیرہ تم کیا کہے جا رہی ہو ہاں میں اتنی دیر سے کچھ بول نہیں رہا اس کا مطلب یہ نہیں تم کچھ بھی بولتی جاؤ اور کیا چھوڑنا ہوگا چھوڑنا ہوگا لگایا ہے کیوں چھوڑیں ہم ایک دوسرے کو محبت کرتے ہیں ہم ایک دوسرے سے۔ یہ کوئی کھیل نہیں تھوڑی دیر کھیلا اور پھر ختم یہ تو محبت ہے زندگی بھر ساتھ نبھانا ہے ہمیں " وہ جذباتی ہو رہا تھا
"شاہ زیب یہ محبت سے زیادہ وقتی ایٹریکشن ہے ختم ہو جاۓ گی اور تم بھی اس بات کو سمجھ جاؤ گے "عبیرہ کی اس بات پر شاہ زیب دهنگ رہ گیا
"یہ وقتی اڑریکشن ہے " اس نے عبیرہ کے الفاظ دوہرائے
"شاہ زیب سمجھنے کی کوشش کرو پلیز " عبیرہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا جس کوشاہ ز یب نے غصّے سے نیچے کیا
"ایک ہفتے کا ٹائم ہے تمہارے پاس کچھ بھی کر کے گھر والوں کو مناؤ ۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا یہ بتا رہا ہوں تمھیں اور اگر تم نے نا منایا تو میں خود منا لوں گا ان کو سمجھی " وہ اس وقت کسی لوفر غنڈے کی طرح بولا تھا
"تم رعب دکھا رہے ہو شاہ زیب " وہ خیران ہوئی عجیب انسان ہے محبت حاصل بھی رعب جما کر کرتا ہے
"صرف ایک ہفتہ "شاہ زیب کہ کر روکا نہیں ۔۔۔
_______________________
گھر آ کر بھی میری اور عبیرہ کی بات نا ہوئی اس دوران وہ مجھے فون کرتی رہی مگر میں نے نہیں اٹھایا وہ کہتی تھی نا عادت اور وقتی اٹریکشن بس اسے یہ ہی بتانا چاہتا تھا کے نا تو یہ عادت ہے نا وقتی اٹریکشن یہ ان سب سے بڑھ کر ہے یہ محبت ہے ۔
کچھ دن بعد میں پھر اس سے ملا اور وہ دن میں کبھی بھول نہیں سکتا۔
وہ اس دن بہت خوبصورت لگ رہی تھی پنک کلر اس پر بہت پیارا لگتا تھا اس نے بےبی پنک کرتا پہنا تھا اور بےبی پنک ہی کیپری ۔ ہلکی ہلکی پنک ہی لیپ سٹک ۔۔ ہر بار اس کے صدقے جانے کا دل کرتا تھا ۔ لیکن چہرے پر پریشانی آج تھوڑی کم تھی ۔ میں جان چکا تھا وہ فیصلہ کر چکی ہے
"کیا کہا پھر گھر والوں نے " سلام دعا کے بعد شاہ زیب نے اس سے پوچھا
"شاہ زیب میری فیملی مجھ سے صاف کہ چکی ہے کے اگر میں نے تم سے شادی کی تو وہ کبھی مجھ سے نہیں ملیں گے ۔ ان کی ضد یہ ہی ہے کے میں اپنی خالہ کے بیٹے سے شادی کروں اور میں اب اپنی فمیلی کو نہیں چھوڑ سکتی دو دن کی محبت کے لئے میں اپنے گھر والوں کو نہیں چھوڑ سکتی ۔ میں ان کی آنکھ میں آنسو دے کر اپنی مسکراہٹ بھی قائم نہیں رکھ پاؤں گی شاہ زیب میں مجبور ہوں اب میں کچھ نہیں کر سکتی "
"اور میرا کیا عبیرہ " ماتھے پر شکن تھی
"اپنی فیملی کے سر سے میں کئی شاہ زیب وار دوں " کہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی
"ایسا مت کہو پلیز عبیرہ ایسا نا کرو ۔میرا کیا ہوگا میں کیا هوں پھر عبیرہ تم میرا کیوں نہیں سوچ رہی اپنا کیوں نہیں سوچ رہی ہمارا کیا ہو گا میں مر جاؤں گا عبیرہ محبت کرتا هوں تم سے "شاہ زیب نے اسکا ہاتھ پکڑا
"شاہ زیب مجھے میرے فیصلے پر قائم رہنے دو " عبیرہ کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں
"ہر لڑکی بے وفا نہیں ہوتی ۔ ہم لڑکیوں کے ساتھ بہت سے لوگوں کی خوشیاں جڑی ہوتی ہے ۔ کئی بار ہم ان کی خوشیوں کو برقرار رکھنے کے لئے ، اور انکی خوشیوں کی حفاظت کے لئے اپنی خوشیاں قربان کر دیتی ہیں ۔" وہ رو دی تھی
"تم خوش رہ پاؤ گی " شاہ زیب اسی طرح اسکا بازو پکڑے کھڑا تھا
"خوشی کا تو علم نہیں مگر سب کو خوش دیکھ کر مطمعین ضرور ہو جاؤں گی " شاہ زیب نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا ۔جیسے سب سوال جواب رد ہو گئے ہوں
"اپنا خیال رکھنا " آنسو صاف کر کے وہ بولی ۔
میں جانتا تھا وہ فیصلہ کر چکی ہے مگر وہ فیصلہ میرے خلاف ہوگا اس بات کا مجھے ہرگز علم نہیں تھا ۔
اس رات گھر آیا تو دادی جاں سے علم ہوا کے گھر والے ہماری شادی کا سوچ رہے ہیں ۔۔رابیل اس وقت میں بہت برے موڈ میں تھا کیوں کے میں پریشان تھا عبیرہ کی وجہ سے اور پھر غصہ تم پر نکل گیا کچن میں آ کر نا جانے میں کیا کیا تمھیں کہ گیا جو نہیں کہنا چاہیے تھا لیکن میں کیا کر سکتا تھا عبیرہ سے محبت کرتا تھا اس پر میرا بس نہیں چلتا تھا کے اسے کچھ کہوں ۔
پھر میں کچھ دن بعد پھر عبیرہ کو ملنے گیا اس دوران ہماری بات چیت نہیں ہوئی تھی اور اس نے بتایا کے اسکی منگنی ہو چکی ہے اور اب وہ میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھ سکتی ۔ میں رویا تھا اسکے آگے کے ایسا نا کرے بہت رویا تھا منتیں کی تھیں کے مت چھوڑو ۔۔ عبیرہ میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر مجھے مت چھوڑو مگر وہ تو جیسے پتھر کی ہو چکی تھی میری سب محبت اسکے آگے فضول ہو جیسے اس نے مجھے آخر میں کہا بھی تو اتنا کے تم بھی شادی کر لینا ۔ اور میں کتنی ہی دیر صرف یہ سوچتا رہا کے کیا سچ میں اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر میری شادی ہو جائے تو ۔ اس رات گھر آ کر میں نے دادی جان کو ہاں کر دی کیوں کے میں عبیرہ کو محسوس کروانا چاہتا تھا کے مجھے کتنا برا لگا ہے جب اسنے مجھے چھوڑ کر کسی اور کو چنا لیکن اسے خبر تک نہیں دے پایا کیوں کے وہ اپنا نمبر چینج کر کے سوشل میڈیا پے ہر جگہ سے مجھے بلاک کر چکی تھی ۔ میں ٹوٹ گیا تھا رابیل ۔ عبیرہ کے بغیر کبھی زندگی کا تصور بھی نہیں کیا تھا اور اس کے بغیر جینا پڑ رہا تھا . . تم سے شادی تو کر لی مگر جب کوئی ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ کر بات کرتا تھا تو نہیں سن پاتا تھا میں۔ کیوں کے میں یہ سب کسی اور کے ساتھ سوچ چکا تھا ۔اس نے مجھے چھوڑ دیا رابیل اب جو زندگی ہے میری وہ یہ ہی ہے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر چکا ہوں کے تم میری بیوی ہو ۔ میں ان سب سے نکلنا چاہتا ہوں پرانی چیزوں کو نہیں دوہرانا چاہتا لیکن جانتی ہو رابیل جب بھی تمہارے ساتھ ٹھیک رہنے کی کوشش کرتا ہوں کوئی نا کوئی ایسی چیز یاں بات ہو جاتی ہے کے مجھے اس کی یاد ستانے لگتی ہے خود سے اور ہر اس چیز سے نفرت ہونے لگتی ہے اپنے غصے سے میں تمھیں بھی کمرے سے نکال دیتا ہوں کیوں کے میں نہیں چاہتا کے تمھارے سامنے رووں رابیل میں نہیں چاہتا میں کسی کے سامنے رووں لیکن تمہارے سامنے نا جانے کیوں چاہ کر بھی میں خود کو چھپا نہیں پاتا ۔ اب یہ ہی زندگی ہے میں تمھیں تسلیم کر چکا ہوں کے وہ جا چکی ہے یہ سب سن کر اگر تم پھر بھی میرے ساتھ رہنا چاہو تو ٹھیک ہے ورنہ تم اپنی زندگی بہتر کر سکتی ہو میں تمہاری زندگی میں دخل نہیں دوں گا " شاہ زیب بات مکمل کر چکا تھا اور رابیل کے جواب کا انتظار کر رہا تھا ۔ رابیل کے اندر جو طوفان برپا تھا اب تھم چکا تھا عبیرہ تو تھی اور رابیل تو ہے ۔ اس چیز نے رابیل کو تسلی دی تھی چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اسنے سر اٹھا کر شاہ زیب کو دیکھا
"شاہ وہ آپکا پاسٹ تھا اور جو پرسنٹ ہے میرے سامنے ہے۔ بیوی تو شائد اچھی نا بھی بن پاؤں لیکن آپ نے مجھے اپنی دوست مان کر مجھے اپنا رازدار بنایا ہے میرے لئے کافی ہے ۔ میں کوشش کروں گی کے میری وجہ سے کبھی آپ کو کوئی تکلیف نا ہو ۔۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی
"کہاں جا رہی ہو " شاہ زیب کو تجسس ہوا
"اپنے کمرے میں سامان واپس رکھنے " وہ مسکرائی شاہ زیب بھی کھڑا ہو گیا رابیل جانے لگی جب شاہ زیب نے اسکا بازو پکڑا وہ شاہ یب کی طرف مڑی
"تھینک یو سو مچ رابیل "
"مجھے مت کہا کریں " وہ مسکرا کر بولی اور شاہ زیب نے اسکا باز و چھوڑ دیا تو وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی
____________________
"یس میڈم آپ کیا کھانا پسند کریں گیں " ریسٹورانٹ میں داخل ہو کر ایک خالی میز کے پاس آ کر ادب سے کرسی کھینچ کر زری کو بیٹھا کر عدیل اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا
"کچھ بھی منگوا لو مجھے جلدی گھر جانا ہے " زری نے منہ بنایا
"یار حد ہو گئی ہے کیا ہو گیا ہے زری ۔ نکاح ہوا ہے ہمارا اور کزن بھی ہیں ہم دونوں تو کیا مسئلہ ہے اب کسچیز کا ڈر ہے " عدیل کو چڑ ہو رہی تھی
"اچھا یار دیکھو میرا میک اپ ٹھیک ہے نا " زری نے ہونٹوں کو اپس میں مس کر کے عدیل سے پوچھا
"ہاں ٹھیک ہے تم نے کالج میں میک اپ کیا تھا کیا " عدیل خیران ہوا
"ہاں دوستوں نے کر دیا " وہ ہنس کر بولی
"مطلب تم نے ان کو بتایا کے تم میرے ساتھ لنچ پر آ رہی ہو "
"ہاں " زری مسکرائی
"بہت تیز ہو میڈم تم تو "
"کیوں میں نے کون سا تمہاری سابقہ گرل فرینڈ کا پتا لگوا لیا جو تیز ہوں میں " زری اپنے آپ میں آ گئی
"پر میری سابقہ گرل فرینڈ تو تم ہی ہو " عدیل مسکرا کر بولا
"اس سے سابقہ "
"اس سے سابقہ بھی تم ہی " عدیل نے اسی طرز میں جواب دیا وہ ٹیبل پر بازو رکھ کر ہاتھ اپنی تھوڑی کے نیچے ٹیکا ئے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا
"اچھا اب اتنے بھی نا بنو ہے تم برے رومیو اور میرے ساتھ یہ فضول باتیں نا کیا کرو " زری مصنوعی غصے سے بولی
"تم بھی میری محبت میں گرفتار ہو بس کہتی نہیں ہو " عدیل اب اسے چھیڑنے کے موڈ میں تھا
"دل کو تسلی کے لئے صنم یہ خیال بھی اچھا ہے " طنز سے کہتے ہوئے اس نے پانی لا گلاس اٹھا کر منہ سے لگایا
"چلو اسی بہانے تم نے صنم تو کہ دیا "عدیل بھی اسے آسانی سے چھوڑنے والا نہیں تھا
"یہ آج کون سی بولی ووڈ کی گھٹیا رومانٹک مووی دیکھ کر آئے ہو تم آرڈر کروا رھے ہو یاں چلیں "
"کرواتا ہوں موٹی " عدیل یک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
___________________
"دادی جاں کیسی ہیں آپ " رابیل نے سلام کر کے دادی جاں سے پوچھا
"میں بلکل ٹھیک ہوں الحمداللہ تم کیسی ہو میری جان "دوسری جانب سے فون سے دادی جان کی میٹھی آواز نے رابیل کو سکون بخشا
"میں بھی ٹھیک ہوں الحمداللہ ۔ دادی جان مجھے لگتا ہے آپ سب کو میری یاد نہیں آتی کوئی بھی نہیں آتا یہاں مجھ سے ملنے " رابیل نے شکوہ کیا
"میری جان ہم تو تمہارے آنے کا انتظار کر رہی تھے پھر اس بات کی خوشی بھی تھی کے تم اپنے گھر خوش ہو اسی لئے تو تمھیں زیادہ ہماری یاد نہیں آتی " دادی جان کی بات پر وہ لاجواب ہو گئی
"دادی جان اصل میں ابھی گھر کی سیٹنگ مکمل نہیں ہوئی تھی پھر شاہ کے کچھ دوستوں کے گھر دعوت بھی تھی بس اسی لئے مصروف تھی تھوڑی "
"تو کیا تم خوش نہیں ہو " دادی جان بے پوچھا
"نہیں نے ایسا کب کہا " وہ چونکی
"تو پھر تم یہ اقرار کر لیتی کے ہاں تم خوش ہو "
"اوہ دادی جان آپ مجھے کنفیوز تو نا کریں "
"بیٹا میں تو جاننا چاہتی ہوں کے اگر تمھیں کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ میں شاہ زیب سے بات کرتی ہوں "
"نہیں وہ تو بہت اچھے ہیں "
"اچھا پھر ابھی اس کے آنے کا وقت ہو گیا ہے تم تیاری کر لو "
"لیس چیز کی تیاری دادی جان " وہ نا سمجھی سے بولی
"ارے شوہر جب گھر آئے تو اسکو توجہ دیتے ہیں ۔ انکو خوش ہو کر خوش آمدید کہتے ہیں پورا دن وہ آپ کے لئے گھر سے باہر رہ کر کماتے ہیں تو رات کو جب وہ لوٹیں تو اپکا بھی تو فرض بنتا ہے فریش فریش رہو " دادی جان کی بات پر رابیل کو خوب ہنسی آئی
"میں اندازہ کر سکتی ہوں شاہ آپ کو کیوں اتنا زیادہ پیار کرتے ہیں اور میرے خیال سے دادا جان کی بڑی اچھی گزری ہوگی آپ کے ساتھ " وہ مسکرا کر بولی
"اچھا اچھا اب جاؤ "
"آئی لوو یو دادی جان بائے " ہنس کر اسنے فون بند کر دیا اور کمرے کا رخ کر لیا
________________
وہ شاہ زیب کا انتظار کرتے ہوئے باہر حال میں ہی بیٹھی تھی جب شاہ زیب حال کا دروازہ کھول کر حال میں داخل ہوا وہ یک دم صوفے سے اٹھ کر شاہ زیب کی طرف بڑھی
"السلام عليكم " شاہ زیب نے مسکرا کر سلام کیا ۔
رابیل نے آگے بڑھ کر اسکا بیگ پکڑا ۔
"کیسی ہو " کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے پوچھا
"ٹھیک آپ کا دن کیسا رہا " رابیل اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی ۔
شاہ زیب نے اپنا بلیو کوٹ جو بازو پر ڈالا تھا بیڈ پر رکھا اور شوز اتارنے لگا
"اچھا تھا تھک گیا ہوں بہت " شاہ زیب نے آہ بھری
"چلیں میں نے کھانا بنایا ہے لگا دیتی ہوں " رابیل نے بیگ ٹیبل پر رکھا اور نیچے بیٹھ کر شاہ زیب کے پاؤں کی طرف بڑھی
"کیا کر رہی ہو " شاہ زیب نے رابیل کو اپنی جرابیں اتارنے سے روکا
"جرابیں اتار رہی ہوں آپ کی " رابیل نے شاہ زیب کا ہاتھ ہٹایا
"میں کر لوں گا یار تم چھوڑ دو "
"شاہ میں کر لیتی ہوں کیا ہو گیا ہے " رابیل نے شاہ زیب کے دوبارہ بڑھے ہوئے ہاتھ کو پیچھے کیا
شاہ زیب اسے خیرت سے دیکھ رہا تھا ۔ کیسی لڑکی تھی آج کل کی جنریشن تھی مگر کوئی غرور اور انا نہیں تھی اس میں ورنہ جو شاہ زیب اس کے ساتھ کر چکا تھا اس کے بدلے میں وہ کبھی بھی رابیل سے کچھ اچھا ایکسپیکٹ نہیں کر رہا تھا ۔
"آپ فریش ہو جائیں میں کھانا گرم کر لوں " جرابیں اتار کر بیڈ پر رکھ کر وہ الماری کی طرف بڑھی
شاہ زیب بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔ اور شرٹ کے کف کے بٹن کھولنے لگا
رابیل نے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھے ۔
"یہ آپ کے کپڑے " رابیل نے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاہ زیب کو دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا
اورینج کلر کی کمیز اور کیپری پہن کر اورینج ہی نیٹ کا دوپٹہ اسنے کندھے پر پھیلایا تھا بالوں کی ڈھیلی سی پونی کی تھی اور ہونٹوں پر ہلکا ہلکا لیپ گلوز لگایا تھا
"کہیں جا رہی ہو " شاہ زیب نے اس پر ایک نظر ڈال کر پوچھا
"اممم ۔۔۔ نن ۔۔ نہیں تو " رابیل نے ماتھے پر سے آتی ہوئی لٹ کو کان کے پیچھے کیا ۔۔
وہ تھوڑی شرمندہ ہوئی تھی ۔ وہ کیوں دادی کی باتوں کو سیریس لے رہی تھی ۔ کیوں وہ تیار ہوئی تھی ۔ شاہ زیب اسے پسند تھوڑی کرتا تھا جو اسکی تعریف کرتا ۔ اسے خود پر بے حد غصہ آیا
"اچھا " کہ کر شاہ زیب نے بیڈ سے کپڑے اٹھاۓ
اور اسکے سامنے آ کر روکا
"بہت پیاری لگ رہی ہو " شاہ زیب کی بات پر اسنے سر اٹھا کر چونک کر اسے دیکھا ۔۔ پل دو پل دونوں کی نظریں آپس میں ملیں ۔۔ شاہ زیب اسکے پاس سے گزر گیا ۔۔
رابیل کے ہونٹوں پر یک دم مسکراہٹ آئی
نظر سے نظر ملا کر تم نظر لگا گئے
یہ کیسی نظر لگی کے ہم ہر نظر میں آ گئے
۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔
________________
کچھ وجوہات کی بنا پر قسط بہت لیٹ ہو گئی ہے سوری اتنا انتظار کروانے کی لئے ۔ رائیٹر آپ کے لئے محنت کرتے ہیں کم از کم پڑھ کر اپنی راۓ کا اظہار کمینٹ میں ضرور کیا کریں اور ووٹ بھی کر دیا کریں تا کے لکھنے والے کے شوق میں اضافہ بھی ہو ۔ اس قسط کو کمنٹ کریں اور بتاییں آپ کو ناول کیسا لگا تا کے اگلی قسط جلدی ملے آپ کو ۔
آپ کی دعاؤں کی طلب گار ایمان محمود ۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top