آٹھویں قسط

نظر سے نظر ملا کر تم نظر لگا گئے
یہ کیسی نظر لگی کے ہم ہر نظر میں آ گئے

ایک عجیب سا احساس اس کے اندر اترا تھا ۔ ویسے تو بہت سے لوگ آپ کی تعریف کرتے ہیں مگر کوئی نا کوئی آپ کی زندگی میں ایسا انسان ہوتا ہے جس کے منہ سے آپ اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں۔ رابیل کی زندگی میں وہ شخص شاہ زیب خان تھا اسکا مجازی خدا ۔جس سے اسے یک طرفہ محبت تھی ۔ عورت مرد کے لئے اتنا کچھ کرتی ہے اگر وہ مرد بدلے میں عورت کی تعریف کر دے تو دن کے ہر فرصت کے لمحے میں وہ ان الفاظ کو خود میں دوہراتی ہے جو اس کے محرم نے اس کی تعریف کے طور پر استمعال کے ہوں ۔

مسکراتے ہوئے وہ کمرے سے باہر آ گئی اور کھانا لگانے لگی ۔ ڈائننگ ٹیبل پر برتن رکھ کر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیجو تقریباً وہ ہمیشہ سے کرتی تھی ۔ کھانا لگا کر شاہ زیب کا انتظار  ۔  ٹیبل پر پڑا رابیل کا  فون بجا ۔ رابیل نے ایک نظر فون کو دیکھا ۔ زری کالنگ آ رہا تھا ۔ یک دم رابیل کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ۔ دوستی کا رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے ۔ زری اور رابیل کا رشتہ تو بہت مضبوط تھا ۔
وہ دونوں کزنز بھی تھیں ، زری بھابی بھی تھی رابیل کی اور رابیل زری کی اور سب سے مضبوط رشتہ دوستی کا تھا ۔ بچپن سے وہ دونوں بہت اچھی دوستیں بھی تھیں ۔ رابیل نے فون اٹھا کر کان سے لگایا
"ہیلو مسز شاہ زیب " زری کی زندگی سے بھر پور آواز آئی ۔ وہ ہر وقت بنداس اور خوش رہنے والی لڑکی تھی ۔
"اچھا تم مجھے رابیل کہ سکتی ہو " رابیل ہنس کر بولی
"اہم اہم تمھیں نہیں لگتا مجھے اب تمھیں شاہ زیب بھائی کی بہن بن کر ٹریٹ کرنا چاہیے۔ ہاں یہ سمجھ لو کے  ٹیپکل ننند بن کر "
"اچھا پھر تو میں بھی تمھیں عدیل کی بہن بن کر ٹریٹ کروں گی " رابیل بھی اسی کے انداز میں بولی
"منہ بند کرو اچھا نا " زری نے فر سے  کہا۔ جس پر رابیل کھلکھلا کر ہنسی
"اچھا اب بتاؤ کیوں فون کیا ہے " رابیل اسے تنگ کرتے ہوئے بولی کیوں کے زری ویسے بھی کام سے ہی فون کرتی تھی ۔ اس کے بقول اس سے فون پر لمبی چوڑی گفتگو نہیں ہوتی تھی
"کل آپ کو یہاں تشریف لانی ہے اس لئے فون کیا ہے میڈم آپ جو اس گھر کو بھولے بیٹھی ہیں نا تو آپ کی ساس یعنی میری اماں جان بہت سخت والی ناراض ہیں آپ سے ۔ ہمیں تو بھول سکتی ہیں میڈم کو اپنے والدین کی بھی ہوش نہیں واہ " زری کی بات پر رابیل کے ماتھے پر شکن آئی
"کیوں تائی  امی سچ میں ناراض ہیں کیا مجھ سے " رابیل نے پریشانی سے کہا
"ہاں جی کل چچا لوگ بھی آ رہے ہیں اور آپ کو بھی امی جان نے انوائٹ کیا ہے تو اب تشریف کا ٹوکرا لے آئیں اور اپنے درشن کروا جائیں "
"اچھا بس تھوڑا گھر میں ایڈجسٹ ہوتے ٹائم لگ رہا ہے کل ضرور آؤں  گی انشااللہ " رابیل نے تسلی بخش جواب دیا
"کس سے بات ہو رہی ہے " شاہ زیب حال میں آتے ہوئے بولا
"زری کا فون ہے " رابیل اسی طرح فون کان سے لگائے ہوئے بولی
"ہاں تو کیا فرما رہی ہیں میڈم " شاہ زیب رابیل کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا اور فون پکڑ کر سپیکر اون کر کے ٹیبل پر رکھا ۔ خود تھوڑا آگے کو جھک کر زری سے بات کرنے لگا ۔
رابیل کرسی پر بیٹھی تھی اور شاہ زیب اس کے پیچھے کھڑا تھا جب وہ زری سے بات کر رہا تھا تو رابیل کے کندھے کے پاس جھک کر بات کر رہا تھا ۔ رابیل کو اس چیز کی عادت نہیں تھی۔وہ ہمیشہ سے شاہ زیب سے دوری میں رہی تھی۔ ۔ اس نے شاہ زیب کی  طرف دیکھا جس طرف وہ جھک کر بات کر رہا تھا
"میں یہ فرما رہی ہوں کے ایک عدد آپ کی فیملی بھی ہے ۔ بیوی کو تھوڑی سی زحمت دیں اور ادھر آ کر ان کو ہم سے  ملوا جائیں  خود تو آپ تقریباً روز ہی آئے ہوتے ہیں " زری طنز کر کے بولی مگر وہ دونوں جانتے تھے یہ طنز وہ مذاق میں کر رہی تھی ۔
"میں اپنی بیوی کو تم سے ملوا کر بگاڑنا نہیں چاہتا "
"اچھا جی وہ میرے ساتھ ہی رہی ہے بچپن سے بگڑنا ہوتا اب تک رج کے بگڑ چکی ہوتی "
رابیل اسی طرح شاہ زیب کو دیکھ رہی تھی . . شاہ زیب کی پرفیوم کی خوشبو رابیل کو اپنی آغوش میں لے رہی تھی ۔کبھی کبھی کسی شخص کی  کتنی عجیب سی پہچان ہوتی ہے ۔ کسی کی خوشبو اس کے ہونے کا احساس دلاتی ہے ایسی خوشبو ہمیشہ شاہ زیب کے کپڑوں سے آتی تھی اور رابیل کو بہت پسند تھی  آج اسے معلوم ہو گیا تھا کے یہ شاہ زیب کی خوشبو ہے ۔۔
"اچھا تو کل پھر لمبا چوڑا اہتمام رکھو پھر ہی میں اپنی بیوی کو لے کر آؤں گا " شاہ زیب مسکرا کر بولا
"استغفرالله کیسے کیسے لوگ آ گئے ہیں بیوی کے لئے بہن سے تردد کرواتے ہیں ۔" زری بھی ہنس کر بولی
"اچھا رابیل نے بہت محنت سے کھانا بنایا ہے ہمیں کھانے دو " شاہ زیب نے کہ کر فون بند کر دیا اور اسی طرح جھکے ہوئے رابیل کو دیکھا وہ اب بھی شاہ زیب کو دیکھ رہی تھی ۔
اسکی خوشبو میں جیسے کہیں کھو سی گئی تھی ۔ زری اور شاہ زیب کے درمیان جو باتیں ہوئی تھیں اگر وہ رابیل سے پوچھتا تو رابیل نہیں جانتی تھی ۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کے ان دونوں نے ابھی کیا کیا بات کی ہے ۔ جب شاہ زیب نے رابیل کو دیکھا تو وہ جیسے ہوش میں آئی تھی تو سمبھل کر یک دم سیدھی ہو گئی ۔ شاہ زیب مسکرا کر پیچھے ہوا جیسے وہ جان گیا تھا  پھر شاہ زیب بھی آ کر اپنی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا

"آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے " رابیل نے چاول پلیٹ میں ڈالتے ہوئے پوچھا
"تم نہیں جانتی " شاہ زیب نے ایک نظر رابیل کو دیکھ کر کہا  پھر نظر جھکا کر کھانا شرو ع کر دیا
"نہیں تو " رابیل نے کہا
"سچ میں " شاہ زیب نے چمچ پلیٹ میں رکھی اور رابیل کی طرف متوجہ ہوا
"ہاں سچ میں شاہ " رابیل نے کندھے اچکائے
"جو کچھ تم بناتی ہو مجھے پسند ہے " شاہ زیب کی بات پر وہ مسکرائی
"تم جانتی ہو جب تم ہنستی ہو تو تمہارے ایک گال پر ڈمپل پڑتا ہے۔ جس سے تمہاری سمائل اور خوبصورت لگتی ہے  "
"جی ۔۔اچھا " رابیل نے خیرانگی سے اسے دیکھا ۔ وہ کب نوٹ کرتا رہا تھا۔ کیا انسان تھا وہ بظاہر بڑا سیدھا سا مگر  ہر کسی کی ہر حرکت پر کتنا غور کرتا تھا 
"اتنی کوئی عجیب بات بھی نہیں کہی اب میں نے " اس کے عجیب سے جواب پر شاہ زیب مسکرا کر بولا ۔۔
رابیل چپ کر کے کھانا کھانے لگ گئی
جب آج اس نے کمرے میں  رابیل پر کومپلیمنٹ دیا تھا اس کے بعد وہ رکا نہیں تھا اور فریش ہونے چلا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ رابیل کا ری ایکشن نہیں دیکھ پایا تھا  مگر ابھی وہ اس پر  کومپلیمنٹ دے کر اسکے سامنے ہی بیٹھا تھا رابیل کو کیسا ری ایکٹ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں جانتی تھی اس لئے خاموش رہنا ہی اسے بہتر لگا تھا
پھر کھانا کھاتے ہوئے ان کے درمیان خاموشی ہی رہی تھی ۔ کھانا کھا کر شاہ زیب اٹھ کر کمرے میں چلا گیا ۔ کیوں کے اب اسے آفس کا کام کرنا تھا اور پھر آرام کرنا تھا ۔
رابیل برتن کچن میں رکھ کر چائے بنانے لگی۔ شاہ زیب کے ساتھ اسے بھی نائٹ ٹی کی عادت ہو گئی تھی 
"میں جتنا برا شاہ کو سمجھتی تھی وہ اتنے ہیں نہیں ۔ مجھے لگا تھا وہ بہت سڑو سے ہوں گے کیوں کے وہ مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کرتے تھے مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کے عبیرہ سے محبت انکو کسی اور طرف دیکھنے ہی نہیں دیتی تھی ۔ اس ولن سے چہرے کے پیچھے ایک سوفٹ سی نیچر کا بندہ بھی موجود ہے اب اندازہ ہونے لگا ہے  " اپنے خیالوں میں وہ کہی دور جا چکی تھی
"بھلے شاہ مجھ سے زیادہ بات نہیں کرتے مگر ان کے ساتھ زندگی آسان لگنے لگی ہے۔ جس طرح سے وہ اب سمبھل رہی ہیں اس رشتے ہو اکسیپٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ۔" چاۓ بنا کر وہ کمرے میں لے گئی جہاں شاہ زیب بیڈ پر  بیڈ ٹیک سے ٹیک لگاۓ لیپ ٹاپ گود میں رکھے کام کر رہا تھا
"یہ آپ کی چاۓ " شاہ زیب کی طرف  سائیڈ ٹیبل پر چاۓ رکھتے ہوئے وہ بولی
"تھینکس " شاہ زیب نے بنا رابیل کو دیکھے کہا
"مجھے نا کہا کریں "
پھر رابیل بھی آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔
"تم ہر وقت گھر بور نہیں ہو جاتی " لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے شاہ زیب نے کہا
"نہیں تو " رابیل  چاۓ کا گھونٹ لے کر بولی
"کیا کرتی ہو پورا دن " شاہ زیب نے بھی اپنی چاۓ اٹھا لی ۔ شائد وہ اب رابیل سے باتیں کرنا چاہتا تھا
"گھر کا کام ، کھانا بنانا بس انہی کاموں میں دن گزر جاتا ہے "
"اچھا پھر بھی تم بور تو ہو جاتی ہوگی نا۔ کیوں کے اس گھر میں تمھیں سب کی عادت تھی ہر وقت زری بھی تمہارے ساتھ ہوتی تھی اور اب تم بلکل اکیلی رہتی ہو ۔ اچھا ایسا کیا کرو  تم زری کو یاں امی کو چچی کو کسی کو بھی کال کر لیا کرو " شاہ زیب نے کہا
"کرتی ہوں دو منٹ سے زیادہ بات نہیں ہو پاتی کیوں کے میرے پاس کوئی بات ہی نہیں ہوتی کرنے والی "  رابیل نے سیدھی سیدھی بات کی 
"تم مجھے فون کر لیا کرو اب یہ مت کہنا کے آپ سے کیا بات  کروں  گی " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا
"ہاہا آپ کو۔۔ لیکن آپ تو کام کرتے ہیں ڈسٹرب ہوں گے "
"یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے یارا " شاہ زیب نے خالی چاۓ کا کپ ٹیبل پر رکھا
"اچھا " رابیل نے سر اثبات میں ہلایا
"ہاں اور میں جانتا ہوں پھر بھی تم نہیں کرو گی ۔ تو میں خود ہی کر لوں گا "
"ہاہا اچھا شاہ "رابیل کو اس کے انداز پے ہنسی آئی
"صبح کا کیا پلان ہے " رابیل نے کمرے کی لائٹ اوف کرتے ہوئے کہا
"ہاں کل آفس نہیں جاؤں گا اس گھر چلیں گے انشااللہ"
"انشااللہ " رابیل بھی آ کر لیٹ گئی ۔ تھوڑی دیر دونوں میں خاموشی رہی ۔پھر یہ خاموشی شاہ زیب نے توڑی
وہ اب اس رشتے کو وقت دینے لگا تھا ۔ رابیل کے ساتھ وقت گزارنے لگا تھا ۔ اپنے غموں سے  نکلنا چاہتا تھا ۔ رابیل کو خوش رکھنا چاہتا تھا 
"رابیل " شاہ زیب کی آواز پر رابیل نے اس کی طرف منہ کیا ۔
"جی شاہ " رابیل نے دیکھا وہ بازو ماتھے پر رکھے سیدھا لیٹا تھا
"میں تمہاری زندگی خراب تو نہیں کر رہا " نا جانے اسے کیا سوجھی تھی جو اس نے پوچھ لیا
"نن۔۔ نہیں تو آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں "
"رابیل میں نہیں جانتا تم اب میرے بارے میں کیا سوچتی ہوگی مگرمیں  تم سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتا تھا اس لئے تمھیں اپنا ماضی بتا دیا تا کے تم سے کچھ نا چھپاؤں کیوں کے اب ہمیں زندگی ساتھ گزارنی ہے اور میں تمھیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ رابیل وہ میرا ماضی تھا میرا حال یہ ہے کے تم اور میں ایک ساتھ ہیں اس لئے تم کبھی ان سکیور نا ہونا پلیز  " وہ اسے تسلی دے رہا تھا
"آپ کو کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں شاہ میں سمجھتی ہوں "
"یو آر سچ آ سویٹ فرینڈ اوف مائن  " شاہ زیب نے اسکی طرف منہ کیا اور رابیل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
"کوشش کروں گا تمھیں کبھی دکھ نا دوں " آنکھیں بند کر کے اس نے کہا ۔۔ رابیل اس کو دیکھتی رہ گئی ۔
"ویسے تم ایکٹنگ بھی بہت  اچھی کرلیی ہو تم نے مجھ سے میری پسندیدہ ڈش پوچھی حلانکہ تم بہت اچھے سے میری پسند اور نا پسند جانتی ہو۔ تبی تو جو چیز تمھیں نہیں پسند ہوتی وہ بھی تم بنا لیتی ہو اور میرے ساتھ کھا بھی لیتی ہو  " شاہ زیب کی بات پر رابیل کلس کر رہ گئی کیا چیز ہے یہ انسان ۔ کیسے اسے میری سب فیلنگز کا پتا چل جاتا ہے ۔ بظاہر کتنا انجان بنتا ہے ۔اووچھا ۔۔
رابیل خود ہی سوچ کر ہنس پڑی  ۔۔ شاہ زیب اسی  طرح اسکا ہاتھ پکڑے ہوئے سو  گیا. ایک عجیب سا اطمعنان اسکے چہرے پر تھا ۔
___________________________
"زری ۔۔ زری کہاں ہو تم " کلثوم بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں
"امی تھوڑی دیر  اور پلیز " وہ جان گئی تھی کے وہ اسے اٹھانے آئی تھیں
"زری تم نے مجھے بہت پریشان کر دیا ہے ۔ کسی گھر کے کام میں تم توجہ نہیں دیتی ۔ ایسے کیسے چلے گا تمہاری پڑھائی مکمل ہوتے ہی شادی کر  دینی ہے ہم نے تمہاری اور تم ہو کے ذرا جتنا بھی گھر کی کسی چیز میں انٹرسٹ نہیں لے رہی اور کل تمہارے  بھائی بھابی آ رہے ہیں تیاری کر لو کب سے سو ہوئی ہو " کلثوم بیگم  بغیر لحاظ کے ہوئے بولیں ۔۔
"اور کچھ بچ گیا تو سنا دیں " زری کمبل سے منہ نکال کر بولی
"تم بس میک اپ کرتی رہا کرو پورا دن کارٹون بن کر پھرتی رہتی ہو مجھے لگتا ہے اب مجھے عدیل سے بات کرنی پڑے گی کے کوئی سمجھائے تمھیں "
اس کا کوئی جواب نہیں آیا  ۔کلثوم بیگم خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں ۔۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے پر زری بولی

"اچھا اگر کوئی اور بات نہیں کرنی تو جاتے ہوئے دروازہ بند کر دیں " کہ کر اس نے پھر اوپر کمبل لے لیا
"ساس اچھے اچھے کو سیٹ کر دیتی ہیں دیکھنا تم ۔ یہ ماں ہی ہے جو نخرے اٹھاتی ہے "
"میری ساس اچھی ہیں کہا نا " زری ہنس کر بولی
کلثوم بیگم سر جھٹک کر چلی گئیں ۔ یہ ہی چیز انہیں زری کی طرف سی سر ہرو رکھتی تھی کے وہ شادی کے بعد بھی اسی گھر میں رہنے والی تھی ۔ نگہت بیگم نہایت تحمل مزاج تھیں ۔
زرفشاں بہت چلبلی اور گھر کی رونک تھی ۔میک اپ کی شوقین ہر وقت سج سنور کے رہنا اس کی عادت تھی ۔ اسی لئے وہ اور خوبصورت لگتی تھی ۔ کسی نے بھی اسے اداس بہت ہی کم دیکھا تھا ۔
____________________
رابیل نے ہلدی رنگ کی سلک کی  فروک پہنی تھی جو گھٹنے سی نیچے تک آتی تھی۔ بائیں جانب فروک کا کٹ ڈیزائن بنا تھا ۔ نیچے کالے رنگ کا چوڑی دار اور دوپٹہ بھی کالے رنگ کا تھا جس پر هلدی رنگ کی کڑھائی ہوئی تھی ۔ فروک اور شلوار سادی تھی جب کے دوپٹہ پر پوری کڑھائی ہوئی تھی ۔ دوپٹہ اس نے کندھے پر ڈال رکھا تھا ۔ بالوں کو کھول کر دونوں اطراف سی آگے کو کندھوں پر ڈالا تھا جب کے  سامنے بالوں کو مانگ نکال کر دائیں اور بائیں کو ٹویسٹ  بنا کر سیٹ کیے تھے ۔ پاؤں پر ہیل والے جوتے پہنے تھے جوتے بھی هلدی رنگ کے تھے ۔  میک اپ ہلکا ہلکا سا کیا ہوا تھا۔

"شاہ چلیں ٹائم کافی ہو گیا ہے " رابیل دوپٹہ سیٹ کر کے شاہ زیب کی طرف  مڑی جو الماری سے کوئی چیز نکال رہا تھا
شاہ زیب نے کالے رنگ کی شلوار کمیز پہنی تھی ۔ کف کہنیوں تک عادتاً فولڈ کیے تھے بالوں پر جیل لگا کر ایک سائیڈ پر سیٹ کیے ہوئے تھے ۔ وہ پہلے بہت سج کر اچھے حلیے میں رہتا تھا نگر عبیرہ کے جانے کے بعد سے وہ تھوڑا لاپروا ہو گیا تھا ۔ پہلے وہ داڑھی اور مونچوں کو سنوار کر رکھتا تھا اب وہ کتنی بڑھ جائیں اسے پروا نہیں رہی تھی ۔ جب رابیل کو وجہ معلوم نہیں تھی تو اسے یہ سب چیزیں دکھ دیتی تھیں کیوں کے اس کا قصور وار وہ خود کو سمجھتی تھی شائد وہ رابیل سی شادی کر کے خوش نہیں ۔ رابیل کو ایسا لگتا تھا مگر اب جب وہ حقیقت جان چکی تھی تو اس نے ٹھان لیا تھا وہ خود شاہ ذ ب کے پیچھے پڑھ کر اس سی گر کام کروایا کرے گی ۔
"کیا ڈھونڈھ رہے ہیں مجھے دکھائیں میں دیکھتی ہوں " رابیل شاہ زیب کی طرف آتے ہوئے بولی
"نہیں بس مل گئے " شاہ زیب نے کچھ گفٹس نکال کر بیڈ پر رکھے
"یہ کیا ہیں " رابیل نا سمجھی سے بولی
"چچی لوگوں کے لئے گفٹس ہیں " کہ کر وہ انکو شوپنگ  بیگ میں ڈالنے لگا
"شاہ یہ کب لاۓ آپ مجھے کیوں نہیں بتایا ۔۔ ان سب کی کیا ضرورت تھی ۔ وہ کون سا بے گانے ہیں " رابیل کو خوشی بھی تھی اور خیرانگی بھی ۔ وو ایسا لگتا تو نہیں تھا
"صبح میں یہ ہی لینے گیا تھا آیا تو تم کچن میں تھی اس لئے میں نے الماری میں رکھ دئیے" 
"اب چلیں " شاہ زیب چابی بیڈ سائیڈ ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے بولا
"ہمم " رابیل بھی ہینڈ بیگ لئے اس کے پیچھے چل دی ۔۔
چوکیدار نے دروازہ کھولا ۔
رابیل شاہ زیب کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔ شاہ زیب نے گاڑی سٹارٹ کی۔
"شاہ سیٹ بیلٹ تو باندھ لیں " رابیل شاہ زیب  کو ٹکٹکی بندھے دیکھ رہی تھی بولی
"خیر اے " شاہ زیب گاڑی چلانے لگا جب رابیل آگے ہوئی
"مجھے اپنے دوست کی بہت ضرورت ہے " رابیل نے آگے بڑھ کر اسکا بات بیلٹ باندھا ۔۔۔ وہ دوست ہی تو تھے ۔۔
"اب چلیں " پھر سیدھا ہوتے ہوئے بولی
"مجھے بھی اپنی دوست کی بہت ضرورت ہے " شاہ زیب نے بھی آگے بڑھ کر  اسکا سیٹ بیلٹ باندھا ۔۔پھر دونوں اپنی حرکت پر دل کھول کر ہنسے
____________________

"زری ذرا فون ملاؤ کدھر رہ گئے دونوں " دادی جان پریشانی سے بولیں ۔ وہ حال میں بیٹھی تھیں اور اپنے ساتھ سب کو بھی حال میں بٹھایا ہوا تھا۔ کوئی ٹس سی مس نہیں ہو سکتا تھا ۔ آخر کو انکے پسندیدہ پوتے کی بیوی آ رہی تھی ۔ 
"آ جاتے ہیں اماں جان " نگہت بیگم مسکرا کر بولیں ۔
سب ہال میں بیٹھے انکا انتظار کر رہے تھے وہ جانتے تھے دادی جان بہت ایکسائٹڈ تھیں
"تم تو نا جانے کیسی ماں ہو بچی کی پروا ہی نہیں ۔ اتنی لاپروا ہو ۔ کم از کم فون تو کرنا بنتا تھا نا تمہارا "دادی جان کی بات پر نگہت بیگم کے ساتھ سب ہنس پڑے ۔
"تم زری  فون تو کرو ۔ " دادی جان کو فکر ہو رہی تھی یاں اکسائٹمینٹ یہ وہ ہی جانتی تھیں ۔
تب ہی رابیل اور شاہ زیب ہال کے دروازے سے آتے ہوئے نظر آئے ۔ رابیل نے بازو پر بیگ ڈالا ہوا تھا وہ ہمیشہ بازو پر ہی بیگ ڈالتی تھی کندھے پر نہیں ۔ اور شاہ زیب نے ہاتھ میں شوپنگ بیگز پکڑے ہوئے تھے ۔ وہ دونوں اکٹھے بہت خوبصورت لگ رہی تھے ۔ رابیل ہیل پہن کر شاہ زیب کے کندھے تک آ رہی تھی ۔۔
سب جلدی سے اٹھ کر انکی طرف گئے
"میرے بچے آ گئے " دادی جان سب سے پہلے شاہ زیب اور رابیل کو ملیں
"ویسے تو  دادی جان نے میرے گھٹنے میں درد ہے میرے گھٹنے میں درد ہے کا بہانہ لگایا ہوتا ہے اب دیکھیں کیسے دوڑ رہی ہیں واہ دادی " زری نے کہا جس پر سب ہنسے ۔
"میرے بچوں کو دیکھ کر میری آدھی بیماری دور ہو گئی " دادی جان نے رابیل کے ماتھے پر پیار دیا ۔۔ پھر چند ہزار کے نوٹ نکال کر رابیل اور شاہ زیب پر سے  وارے ۔۔
"ماشاءالله میرے بچے کتنے پیارے لگ رہی ہیں ۔۔اللہ‎ تعالیٰ ہر نظرِ بد سی بچاۓ میرے بچوں کو ۔۔ لو پکڑ عدیل جا کے صدقہ دے کر آؤ میرے بچوں کا " دادی جان نے پھر سے  دونوں کے ماتھوں پر پیار دیا ۔ اور پیسے عدیل کو پکڑائے
"آئی مس یو سو مچ بابا " رابیل اپنے باپ کے گلے لگ کر بولی
"آئی مسڈ یو ٹو بیٹا " انھوں نے رابیل کو خود سی الگ کرتے ہوئے کہا۔۔
پھر باری باری رابیل سب کو ملی ۔شاہ زیب آتا رہتا تھا اس لیے سب کو رابیل کا انتظار تھا۔ سب آ کر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ۔
"تائی امی آپ مجھ سی ناراض تھیں کیا " رابیل نے روندو شکل بنا کر کہا
"نہیں بیٹا وہ تو تم لوگوں کو بلانے کے لئے کہا تھا " وہ ہنس کر بولیں
"حد ہو گئی ہے " رابیل یک دم اپنا تکیہ کلام بولی ۔۔

"میری بچی کتنی کمزور ہو گئی ہے " نگہت بیگم نے کہا
"توبہ کریں چچی یہ تو میرے حصّے کا بھی کھا جاتی ہے " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا
"ہاں شاہ زیب مجھے زیادہ کمزور لگ رہے ہیں " عروا نے شاہ زیب کی طرف داری کرتے ہوئے کہا
"سوچ سمجھ کر بولیے گا بھائی دیکھنے والے عقاب کی نظر رکھتے ہیں " زری بھی  نشانہ عروا کی طرف کستے ہوئے کہا
"لگ رہا ہے " عدیل نے مسکرا کر کہا
عدیل اور زری ایک صوفے پر بیٹھے تھے کلثوم اور نگہت بیگم کے درمیان میں رابیل بیٹھی  تھی ۔ شاہ زیب دادی جان کے ساتھ بیٹھا تھا اور شاہ زیب کے ساتھ لائبہ بیٹھی تھی ۔ اور دادی جان کی دوسری طرف عروا بیٹھی تھی ۔ مرد حضرات تینوں بھائی کسی میٹنگ کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے حال کے دوسرے کونے میں بیٹھے تھے۔
"کیا بچو آپ لوگ بھی ایک بات کو پکڑ لیتے ہو سکون سے بیٹھو " کلثوم بیگم مسکرا کر بولیں
"ہائے سکون کی بات تو نا ہی کریں تائی امی "عدیل ہلکا سا بولا زری اور وہ ساتھ ساتھ ہی بیٹھے تھے ۔۔ زری کے علاوہ کسی نے نہیں سنا تھا ۔ زری نے پاؤں زور سے عدیل کے پاؤں پے مارا ۔۔
"آہہ " وہ یک دم اچھلا
"اور شہزادے تمہارے کیا حال ہیں " شاہ زیب عدیل کی طرف متوجہ ہو کر بولا
"حالِ دل میرا پوچھو نا صنم " عدیل اداکاری کرتے ہوئے بولا
"امی آپ کو ان دونوں کا رشتہ کرنے کی ضرورت کیا تھی دونوں ڈرامے ایک جیسے ہیں۔ کم از کم ایک تو سیریس ہوتا دوسرے کو سمجھانے کے لئے  " رابیل نگہت بیگم سے بولی
"شاہ زیب  بھائی چپ رہتے ہیں نا اس لئے آپ کو میں زیادہ باتونی لگتا ہوں ۔۔" عدیل چڑ کر بولا
"لگتا ہے بڑی نا خوش ہے بیچاری رابیل " عروا منہ بنا کر بولی
"کیوں " رابیل نے پوچھا 
"شاہ زیب خاموش جو رہتے ہیں تم تو بور ہو جاتی ہو گی نا "
"جی نہیں میں ہر فضول لوگوں کے ساتھ بات نہیں کرتا ۔ میری اور رابیل کی باتیں ہی ختم  نہیں ہوتیں اسی لئے تو رابیل کو کسی کی یاد نہیں آتی کیوں رابیل۔۔۔ " شاہ زیب رابیل کو دیکھتے ہوئے  بولا۔ ایک عورتاتنا ہی تو چاہتی ہے کے اسکا شوہر اسے ہر کسی کے سامنے ڈیفنڈ کرے اس کا ساتھ دے ۔۔
"ججی۔۔۔" وہ مسکرا کر بولی ۔۔
زری اور عدیل اپنی ہنسی دبا کر بیٹھے تھے ۔۔
آ جاؤ بچو پہلے کھانا کھا لو ۔۔ عروا کی والدہ نے آ کر کہا ۔
کھانا کھاتے ہوئے کافی باتیں ہوئیں اور بعد میں چاۓ پیتے ہوئے بھی ۔ رابیل کافی فریش تھی شاہ زیب کی نظر بار بار اس پر پڑھتی تھی تو وہ  اسے مسکراتا ہوا پاتا تھا ۔
"میں ہمیشہ تمھیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں رابیل ۔ تم نے جو میرے ساتھ رہ کر میرا ساتھ دیا ہے میں یہ احسان کبھی بھی نہیں بھول سکتا ۔ بس اسی لئے کوشش کروں گا تم میرے ساتھ خوش رہو ۔ تمھیں کوئی تکلیف نا پوھنچے ۔ " شاہ نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا 
"شاہ ٹائم کافی ہو گیا ہے چلیں " رابیل نے شاہ زیب کو دیکھا جو خاموشی سے بیٹھا تھا
"آج آپ لوگ کہیں نہیں جا رہے یہی رک جائیں " کلثوم بیگم نے کہا
"نہیں امی ابھی نہیں پھر کبھی " شاہ زیب اٹھتے ہوئے بولا
"کیوں ابھی کیوں نہیں " زری بولی
"ابھی مجھے کل آفس جانا ہے اس لئے "
"جی پھر کبھی " رابیل بھی مسکرا کر سب کو ملی ۔۔
سب ان  کو دیکھ کر خوش تھے کیوں کے وہ دونوں ساتھ میں خوش تھے ۔ والدین اپنی سب سی قیمتی چیز داماد کے سپرد کرتے ہیں بدلے میں صرف اتنی توقع رکھتے ہیں کے وہ ان کی بیٹی کو خوش رکھے ۔ بس اور کچھ نہیں ۔ آج ان دونوں کو ایک ساتھ خوش دیکھ کر سب بہت خوش تھے ۔
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے رابیل نے اپنے آنسو صاف کیے

"رابیل تم رو رہی ہو " شاہ زیب اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا وہ پہلے ہی گاڑی میں بیٹھ گیا تھا جب رابیل سب کو مل رہی تھی ۔

"نہیں وہ ایسے ہی " اسکی آواز بھی بھری ہوئی تھی

"کیا ہوا ہے بتاؤ "

"وہ ایسے سب کو چھوڑ کر اس گھر جانا۔ عادت نہیں ہے تو ۔"
"تو ہم ادھر ہی  آ جاتے ہیں "
"نہیں نہیں شاہ میں ٹھیک ہوں چلیں " رابیل آنسو صاف کر کے مسکرائی
"پکا " شاہ زیب نے پوچھا
"جی " رابیل نے مسکرانے پر اکتفا کیا
پورے راستے دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی ۔
گھر پوھنچ کر شاہ زیب نے ہال کا دروازہ کھولا اور رابیل اس کے پیچھے داخل ہوئی ۔۔
"رابیل  چاۓ پلیز " شاہ زیب نے کچن کی طرف اشارہ کیا اس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا
رابیل بیگ صوفے پر رکھ کر سیدھا کچن کی طرف چلی گئی ۔شاہ زیب کمرے میں چلا گیا ۔

آ جاؤ تمھیں لے چلوں
اس بے فکری کی دنیا میں
جہاں دل کو بھاتے رویے،
اپنی پسند کے لوگ ہوں
نا کوئی یاد نا کوئی بات  ہو
محبت سے معمور نظریں ہوں
جہاں ستائش کی بارش ہو
بس محبت کی فرمائش ہو 
اے میرے ہم راہی
یہ تیرا میرا دیس نہیں
یہ دنیا ہمیں راس نہیں
یہاں مشکل ہے پریشانی ہے
ہر پابندی ہمیں نبھانی ہے
یہاں ہجر کا کوئی قصّہ نہیں
یہاں وصل کی کوئی بات نہیں
یہ دنیا ہمیں راس نہیں ۔۔

(ایمان محمود )

چاۓ بنا کر وہ شاہ زیب کو بلانے جانے  ہی لگی تھی کے وہ خود تیزی سے باہر آ  گیا
"میں آپ کو ہی بلانے لگی تھی " رابیل اسے آتا دیکھ کر بولی
"بہت جلدی بنا لی " شاہ زیب مسکرا کر آتا ہوا بولا
"چاۓ پر اتنا ہی وقت لگتا ہے شاہ " رابیل صوفے پر بیٹھتی ہوئے  بولی
"ہمم" شاہ زیب اس کے سامنے بیٹھ گیا
"آج سب کتنے خوش تھے نا " رابیل مسکرا کر بولی
"اور تم کتنی فریش تھی " شاہ زیب نے کہا جس پر رابیل نے کندھے اچکائے
"تھینک یو شاہ " رابیل نے شاہ زیب کو  دیکھ کر کہا جو چاۓ پی رہا تھا

"کس لئے "
"عروا کے سامنے میرا ساتھ دینے کے لئے "
"میرا فرض تھا " شاہ زیب نے صوفے سے ٹیک لگائی
وہ دونوں اب ایک دوسرے سے فرینک ہونے لگے تھے ۔ جب سے شاہ زیب نے اس کے ساتھ شیئرنگ کرنا شرو ع کی تھی تب سے رابیل  کافی کمفرٹیبل ہو گئی تھی ۔
"رابیل "  شاہ زیب نے اسے مخاطب کیا
رابیل کو اپنی طرف دیکھ کر اس نے بات شروع کی
"تمھیں کبھی کسی سے محبت ہوئی ہے " شاہ زیب کی بات پر رابیل کی آنکھیں مزید کھل گئیں
"ہم پہلے اچھے دوست ہیں اگر میں تم سے ہر بات کر سکتا ہوں تو چاہتا ہوں کے تم بھی مجھ سے کرو ۔ کیا تمھیں کسی سے محبت ہوئی ہے ۔ یاں اب بھی ہے " اسکا اڑتا ہوا رنگ دیکھ کر شاہ زیب نے بات تھوڑی واضح کی
"نن۔۔ نہیں تو " رابیل نے نظریں چرائیں
"تمھاری خاصیت پتا کیا ہےرابیل ۔۔ " شاہ زیب اسے دیکھتا ہوا بولا ۔۔ لہجہ دھیمہ تھا
" تم سے جھوٹ نہیں بولا جاتا " شاہ زیب نے بات مکمل کی
"شاہ مجھے نیند آ رہی ہے " رابیل اٹھنے لگی
"رکو " شاہ زیب نے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ اکتانے والے انداز میں  پھر بیٹھ گئی
"رابیل کیا تم مجھ پر اتنا یقین نہیں کر سکتی کے میں تمہاری بات کو سمجھوں گا ۔ کیا تم مجھ پر بھروسہ نہیں کر سکتی ۔ اس طرح تم کمفرٹیبل رہو گی یار ۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے ماضی سے آگاہ ہوں گے ۔ تو حال اور مستقبل کو بہتر کر سکیں گے ۔ قیک دوسرے پر یقین کر سکیں گے ۔ "
"نہیں شاہ ایسی کوئی بات نہیں ہے "
"اتنا تو میں جانتا ہوں تم جھوٹ کہ رہی ہو مگر تم نہیں بتانا چاہتی تو میں فورس نہیں کروں گا جب تمھیں یقین ہوا تو بتا دینا " شاہ زیب اٹھ گیا اور جانے لگا
"شاہ ۔۔" رابیل کی آواز پر شاہ زیب نے رابیل کو سوالیہ نظروں سی دیکھا
"میں نہیں جانتی آپ کیا سوچیں گے میرے بارے میں اچھا  یاں برا پر سچ تو یہ ہے کے میں کسی سے محبت کرتی ہوں ۔۔آج سی نہیں بلکہ بہت ،بہت پہلے سے " رابیل نظریں جھکائے ہوئے بولی
"کون ہے وہ " شاہ زیب نے پوچھا
تھوڑی دیر کو رابیل خاموش رہی اس کے ہاتھ کانپ رہی تھے نجانے کیوں اسے ڈر لگ رہا تھا ۔
"الله تعالیٰ نے اسے میرا محرم بنا دیا ہے " رابیل نے نظریں اٹھا کر شاہ زیب کو دیکھا ۔۔ وہ مسکرایا ۔ جیسے جس جواب کا وہ منتظر تھا وہ اسے مل گیا تھا
"آپ ہنس کیوں رہے ہیں " رابیل کے ماتھے پر شکن آئی اسے اپنا مذاق بنتا ہوا نظر آیا
"میں جانتا تھا وہ میں ہی ہوں گا "
"کیسے " وہ خیران ہوئی 
"اگر تم صرف میری بیوی ہوتی اور تمھیں مجھ سے محبت نا ہوتی تو شادی کے بعد جو میں نے تمہارے ساتھ کیا تم مجھے کب سے چھوڑ چکی ہوتی لیکن تم جس طرح میرے موڈ سوینگز کو سمجھتی ہو وہ خلوص خاص محبت کا ہی تھا ۔ " شاہ زیب اسکے پاس آتے ہوئے بولا۔۔
وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔شاہ زیب نے آگے بڑھ کر اسکے گرد اپنے بازو پھیلائے اور اسے اپنے ساتھ لگایا  ۔۔
"رابیل وعدہ کرو مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤ گی "
"کبھی نہیں " رابیل نے کہا
"میرے ساتھ نئی  زندگی کو شرو ع کرو گی" 
یہ شاہ زیب تھا جو اس کے لئے خاص اپنے آپ کو بدل رہا تھا ۔ رابیل کی آنکھیں بھر آئیں ۔۔
"ہاں " اس نے آہستگی سے کہا۔۔
شاہ زیب نے اسے خود سے الگ کیا اور ایک بازو سے اسکے دونوں کندھوں سے پکڑ کر کمرے تک لے گیا ۔ وہ اس کے قدم کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے چلتی گئی۔
"ایک چھوٹا سا گفٹ " کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ بولا
دروازہ کھلتے ہی جو کمرے کا منظر تھا ۔۔ رابیل کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
بہت خوبصورتی سے ڈریسنگ ٹیبل پر گلاب کے پھول کی پتیاں پھیلا ئی تھیں بیڈ سائیڈ ٹیبل پر بھی پھول کی پتیاں پھیلائی ہوئی تھیں ۔ کمرے میں سرخ غبارے ہر طرف  پڑے تھے۔ پورا کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔
"شاہ یہ سب " رابیل نے منہ کے آگے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔ وہ خیران تھی ۔۔
خوشی ، خیرانگی ، محبت ، یقین بہت سی جذباتوں نے یک دم اس کے اندر جنم لیا تھا ۔
"نئی زندگی کا چھوٹا سا تحفہ " وہ مسکرایا
"لیکن " رابیل کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کہے۔۔
شاہ زیب نے اسکی کمر کے گرد اپنے ہاتھ باندھے اور اسے  اٹھا کر دروازے سی آگے لگے غبارے کو پھوڑا جس سی بہت سی پھول کی پتیاں ان پر گریں اور وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسے کمرے میں لے کر آیا
وہ نہیں جانتی تھی اسے کیا کہنا چاہیے تھا  ۔۔ اس نے تو آج اس کو بتایا تھا کے وہ اس سے محبت کرتی ہے ۔ پہلے یہ بات صرف وہ جانتی تھی۔۔ قسمت اس کا کتنا ساتھ دے رہی تھی۔ رابیل کو اپنی قسمت پر رشک ہوا ۔ 
اللہ‎ تعالیٰ نے اسکی محبت کو اسکا محرم بنا دیا تھا ۔ پھر اس نے  اللہ‎ تعالیٰ سے اپنے اور شاہ کے لئے دعا کی اور آج کس طرح شاہ زیب نے انکے رشتے کو قبول کر لیا تھا۔۔
اسے اتار کے وہ  سیدھا ہو کر کھڑا ہوا ۔۔
"لگتی نہیں ہو پر ویٹ کافی ہے تمہارا " وہ ہنسی دبا کر بولا

"شاہ۔۔۔"اسنے منہ بنایا
"اچھا اچھا سوری مذاق کر رہا ہوں یار " شاہ زیب نے اسے اپنے ساتھ لگا کر اسکے ماتھے پر ایک پاکیزہ رشتے کی موہر لگائی ۔ بدلے میں وف بس مسکرا سکی ۔۔

جی چاہتا ہے ایک خواب دیکھوں
اس خواب کو پورا ہم کریں
تم ہو اور میں ہوں
زندگی ہمیشہ ساتھ ہو
اپنی پسند کی باتیں ہوں
کبھی نا ختم ہونے والی چاہت ہو
کبھی روٹھنا تو کبھی منانا ہو
نا کبھی ہم  جدا ہوں
لمبی سڑک پے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
چلتے ہم ساحل سمندر کو پوھنچیں 
ہوا اڑائے بال ہمارے
تمھیں ایک راز پھر بتلاؤں میں
تجھ سے ہو کر قریب تر
اپنی محبت تم سے جتاوں میں
تجھے اس طرح سے اخترام دوں
اپنے سکون کا تم کو عنوان دوں

(ایمان محمود )

_______________________
"زری بیٹا کالج نہیں جانا " نگہت بیگم زری کو دیکھ کر بولیں جو کچن میں آئی تو تیار نہیں ہوئی تھی
عام دنوں میں اس وقت وہ تھر تھلی مچاتی ہوئی کچن میں آتی تھی اور جلدی جلدی ایک دو نوالہ کھا کر چلی جاتی تھی
"نہیں چچی آج طبیعت ٹھیک نہیں ہے " زری نے جمائی لیتے ہوئے کہا
"کیوں کیا ہو گیا میرے بچے کو " انھوں نے آگے بڑھ کر زری کے ماتھے کو ہاتھ لگایا اسے بخار ہو رہا تھا
"ہاں تمھیں تو بخار ہے ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤ عدیل کے ساتھ " وہ کہ کر ناشتے کی طرف متوجہ ہوئیں
"وہ آفس گیا ہے " زری نے پانی کا گلاس بھرتے ہوئے کہا
"اچھا پھر میں اسے فون کرتی ہوں آ جاتا ہے " نگہت بیگم چاۓ بناتے ہوئے بولیں
"ہیلو ایوری ون " آکاش کچن میں داخل ہوتے ہوئے بولا
آکاش مرتضیٰ صاحب کا بیٹا اور عروا کا بھائی تھا جو زری کے ہم عمر تھا
"ارے تم آج کدھر اس گھر کا راستہ بھول آئے " نگہت بیگم اس کے سر پے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں ۔
"تائی امی پڑھائی میں وقت ہی نہیں ملتا بس آخری سمسٹر ہے پھر فری ہو جاؤں گا " آکاش کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا
"کیسی ہو زری " آکاش اب زری سے مخاطب تھا جو پانی پی رہی تھی
"اس کو بخار ہوا ہے " زری کے کچھ بولنے سے پہلے ہی نگہت بیگم نے اسے بتایا
"میڈیسن نہیں لی "
"نہیں " زری نے کہا
"چلیں اٹھیں اور چلیں میرے ساتھ  " آکاش کھڑے ہوتے ہوئے بولا
"کدھر " زری نے پوچھا
"ڈاکٹر کے پاس اور کدھر "
" نئی تم ابھی تو آئے ہو " زری نے کہا
"تو کیا ہو گیا آپ کی صحت بھی تو خراب ہے نا چلیں اب بس کریں اٹھ جائیں " آکاش نے پھر کہا تو زری کھڑی ہو گئی
"زری تم تیار ہو آؤ تب تک آکاش تم چاۓ بھی پی لو " نگہت بیگم نے آکاش کو بیٹھنے کا اشارہ کیا
"نہیں جب یہ ٹھیک ہو جائیں گی تو پھر ان ہی کے ہاتھ کی پی لوں گا " آکاش نے کہا  جس پر نگہت بیگم مسکرا دیں
"میں چلی جاتی ہوں لیکن ٹھیک ہو کر بھی میں چاۓ نہیں بناؤں گی " زری نے معصومانہ انداز میں کہا
"ہاہا ۔۔اچھا بابا یہ بھی ٹھیک ہے آپ چلیں تو سہی " آکاش ہنستے ہوئے اسکو ساتھ لیے چلا گیا
_____________________

"شاہ ناشتے میں کیا کھائیں گے " رابیل شاہ زیب کے پاس آ کر بولی

"نہیں  رابیل مجھے ناشتہ نہیں کرنا ۔ میں آفس کر لوں گا "ٹائی باندھتے ہوئے شاہ زیب  نے کہا
"شاہ میں آپ کی ٹائی باندھوں " رابیل جلدی سے چل کر اس کے پاس آئی ۔ شاہ زیب شیشہ سے نظر ہٹا کر اسکی طرف مڑا
"ہاں ضرور " اس نے ٹائی رابیل کو پکڑائی
"پر شاہ مجھے ٹائی باندهنی نہیں آتی " رابیل نے ٹائی ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا
"میں سیکھا دیتا ہوں " شاہ زیب نے ٹائی پکڑ کر اپنے گلے میں ڈالی اور اسے باندھنا شروع کیا رابیل غور سے دیکھتی رہی
"سمجھ آ گئی " شاہ زیب باندھ کر بولا
"ہاں " رابیل نے آگے بڑھ کر  ٹائی کو کھولا اور باندهنا  شرو ع کی وہ قد میں شاہ زیب کے کندھوں کے تھوڑے نیچےتک آتی تھی
شاہ زیب تھوڑا جھکا ہوا تھا تا کے وہ آسانی سے ٹائی باندھ لے
وہ رابیل کو دیکھ رہا تھا جو بلکل اپنے کام میں مگن تھی اور اس بات سے انجان کے شاہ زیب کتنے غور سے اسے دیکھ رہا ہے ۔
"تمہاری پلکیں کتنی بڑی ہیں ماشاءالله " شاہ زیب کی بات پر اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا  جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
"آپ دوسری  منہ کریں نا مجھے نا دیکھیں " رابیل مسکرا کر بولی
"ہاہا ۔۔ کیوں " شاہ زیب ہنس کر بولا
"مجھے شرم آتی ہے نا" رابیل نے کہا جس پر شاہ زیب کھل کر  ہنس پڑا
"مجھے تو دیکھنا ہے یہ کیا کوئی پابندی ہے کیا " شاہ زیب نے کندھے اچکائے
"میں نہیں باندھ رہی پھر " اس نے شرما کر ٹائی کو پکڑے ہوئے شاہ کے سینے پر سر رکھا ۔۔
"اچھا باندھ لو ٹائی  میں نہیں دیکھ رہا تمھیں " شاہ زیب نے مسکرا کر منہ دوسری طرف  کرتے ہوئے کہا
رابیل سیدھی ہو کر ٹائی باندھنے لگی
"تمھیں پتا ہے عبیرہ کو بھی ٹائی باندھنے کا بہت شوق تھا اور وہ بھی کہتی تھی کے اسے مجھ سے ٹائی باندھنا سیکھنی ہے " شاہ زیب مسکرا کر بول رہا تھا ۔ رابیل کے چلتے ہاتھ رک گئے تھے ۔۔
کتنی ہمت کی بات ہوتی ہے اپنی محبت کے منہ سی اس کی محبت کی بات سننا ۔ یک طرفہ محبت ایسی ہی تو ہوتی ہے ۔ جس میں اس طرح کی چیزیں برداشت تو کرنی ہی پڑھتی ہیں جو عادی نا بھی ہو یک طرفہ محبت اسے سیکھا ہی دیتی ہنسی ۔
رابیل نے پھر سی  نارمل ہوتے ہوئے ٹائی باندھی
"اچھا ۔۔" مسکرا کر وہ سیدھا ہوتے ہوئے بولی
"واہ سمارٹ گرل پہلی بار میں ہی اتنی اچھی ٹائی  باندھ لی " شاہ زیب ٹائی سیدھے کرتے ہوئے شیشے  میں دیکھ کر بولا
"اوکے میں چلتا ہوں " شاہ زیب نے لیپ ٹاپ اٹھایا
"اللہ‎ حافظ "
"فی امان اللہ‎ " رابیل مسکرا کر بولی اور شاہ زیب چلا گیا ۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس نے چابی جیب سے نکالی۔ جو جلدی جلدی میں رکھی تھی ۔ چابی نکال کر وہ گاڑی سٹارٹ کرنے ہی لگا تھا جب اسکی نظر کی چین پر پڑی جو رابیل نے چینج کیا تھا اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی سکئیر کی طرح کی پٹی بنی تھی جس پرکچھ لکھائی ہوئی تھی ۔ شاہ زیب نے چابی کو پکڑا ۔ اس پٹی کے اوپر اسی کے سائز کا کٹنگ کیا گیا چارٹ لگا تھا جس پر لکھائی ہوئی شاہ زیب نے پاس کر کے اس پر پڑھنے کی کوشش کی
"Please drive slowly, you are someone's life. From Rabail Shah zaib "
"براۓ مہربانی گاڑی آہستہ چلائیں ، آپ کسی کی زندگی ہیں ۔بجانب رابیل شاہ زیب "
پڑھ کر شاہ زیب کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ۔۔
________________________
"ابھی ڈاکٹر نے کہا ہے آپ ریسٹ کریں تو اب اختیاط کریں " ہوسپٹل سے نکلتے ہوئے آکاش نے کہا
"اچھا " زری نے مختصر جواب دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گئی
"آپ بور ہو رہی ہیں " آکاش خود کو نظر انداز ہوتے دیکھ کر بولا
"نہیں تو بلکل نہیں " زری نے آکاش کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہا
"اچھا زری ایک بات پوچھوں آپ سے "
"ہاں بولو "
"آپ کا نکاح آپ کی پسند سے ہوا ہے " آکاش کے سوال پر تھوڑی خیران ہوئی تھی
"ہاں میری رضا مندی سی  ہوا ہے کیوں "
"کیوں کے عدیل سے آپ اکھڑی رہتی ہیں اس لئے۔۔ "
"ہاہا ۔۔ نہیں یارا وہ بس ہم بچپن سے ایک ساتھ رہے  ہیں نا تو بس اور ویسے بھی ریسپیکٹ اندر ہوتی ہے وہ جانتا ہے میں اس کی کتنی قدر کرتی ہوں  "
"ہاہا ۔۔ سہی ۔۔"
"اچھا تم بتاؤ کے تمھیں کوئی پسند ہے ۔۔ہمیں بھی تو ملوانا کبھی اس سے ۔۔" زری نے کہا
"نہیں میں ان سب سے دور ہی رہتا ہوں "
"ہا ۔۔ میرا معصوم کزن ۔۔ ویسے ایک بات کہوں " زری نے شرارت سی  کہا
"آپ کو پوچھنے کی ضرورت ہے میں نے تو ہمیشہ سنا ہے زری بہت باتیں کرتی ہے " آکاش نے ہنس کر کہا ۔۔ زری کلس کر رہ گئی
ادھر بھی بھانڈا پھوٹا ہوا ہے اسکا ۔۔ زری نے سوچا
"اچھا نا  بے عزتی تو نا کرو اب  یار "
"نہیں نہیں آپ کی تو یہ صفت ہے ۔۔ اچھا چپ کیوں کر گئیں بولیں نا "
"تم  بلکل عروا کے بھائی نہیں  لگتے " زری نے کہا جس پر آکاش مسکرآیا 
"کیوں "
"ویسے تو  وہ بھی خاموش رہتی ہے پر جب بولتی ہے  ہے تو دل جلانے والی باتیں کرتی ہے اور تمہارا  تو لہجہ ہی اتنا میٹھا ہے "
"اوہ ۔۔ مجھے  سمجھ نہیں آ رہا بہن کی برائی پر  شرمندہ ہوں یاں  اپنی تعریف پر خوش "
"دونوں " زری ہنس کر بولی
"چاۓ پیئیں گی " آکاش نے گاڑی روک کر پوچھا
"بل میں پے نہیں کروں گی " زری نے ہینڈز اپ کرتے  ہوئے کہا
"ہاہا ۔۔ میں ہی کروں گا چلیں آ جائیں " آکاش کہ کر گاڑی سے اترا زری بھی دروازہ کھول کر اتری
____________________
"زری کہاں ہے امی کب سے فون نہیں اٹھا رہی " عدیل نگہت بیگم کو فون کر کے پوچھ رہا تھا
"وہ آکاش کے ساتھ گئی ہے " نگہت بیگم نے کہا
"کیوں کدھر گئی ہے " عدیل نے تجسس سے پوچھا
"ڈاکٹر کے پاس اسے بخار تھا۔ تو آکاش آیا اور زری اس کے ساتھ چلی گئی "
"کیوں زری نے اسے بلایا تھا کیا " عدیل نے پھر تجسس سے پوچھا
"عدیل اس نے نہیں بلایا آکاش ویسے ہی آیا تھا ۔ پھر اسے پتا چلا کے زری بیمار ہے تو لے گیا اسے ساتھ " نگہت بیگم نے کلیر کر کے بتایا
"اچھا کب تک آئے گی فون کر کے پوچھا آپ نے اس سے "
"ہاں پوچھا تھا چاۓ پی رہے تھے تھوڑی دیر میں آ جاتے ہیں "
"کون ،کون زری اور آکاش " عدیل نے پوچھا

"عدیل ظاہر ہے وہ اس کے ساتھ گئی ہے تو اس کے ساتھ ہی چاۓ پئیے  گی نا " نگہت بیگم کو کوفت ہوئی
"اچھا جب گھر آئی تو اسے کہیں مجھے فون کرے " عدیل نے کہ کر فون بند کر دیا
_________________
اپسرا رابیل سے ملنے آئی تھی ۔ وہ دونوں اس وقت کچن میں تھیں ۔ رابیل اپسرا سے شاہ زیب کی پسند کا اچار گھوشت  بنانا سیکھ رہی تھی ۔ وہ دونوں اس وقت مصروف انداز میں کام کر رہی تھیں
"ایک بات کہوں رابیل " رابیل فریج سے ٹماٹر نکال رہی تھی جب اپسرا نے اسے مخاطب کیا
"ہاں ضرور " رابیل فریج بند کر کے مسکراتے ہوئے اپسرا کے پاس آئی
"تم آج کافی فریش لگ رہی ہو  " اپسرا جانچتی نظروں سے رابیل کو دیکھ کر بولی
جتنی محبت رابیل شاہ زیب سی کرتی تھی وہ شاہ زیب بھی نہیں جانتا تھا ۔ شاہ زیب رابیل کے لئے جو کچھ کرتا تھا اس سی اب رابیل کے اندر اطمینان تھا کے وہ اسے کبھی چھوڑے گا نہیں ۔ رابیل کو تو محبت بھی یک طرفہ تھی ۔ اور یک طرف محبت میں یہ ڈر تو ہٹا ہی ہے اگلا جب مرضی چھوڑ دے ۔۔بس اب رابیل کو لگنے لگا تھا شاہ زیب اسے کبھی نہیں چھوڑے گا
"اچھا جی ۔۔ شائد ہم کافی دنوں بعد ملے ہیں اس لئے تمھیں لگ رہا ہے " رابیل نے کٹ بورڈ نکال کر رکھا اور ٹماٹر اس پر کاٹنے کے لئے رکھے
"نہیں اب ایسی بھی بات نہیں ہے ۔ جب بھی کبھی ہم ملے ہیں ہمیشہ مجھے تم میں کچھ اداسی نظر آتی تھی جیسے کوئی ٹینشن ہے تمھیں ۔ جو کسی کو بتانا بھی نہیں چاہتی اور حل بھی  تلاش نہیں کر پا رہی "
"اپسرا تم کسی کو کیسے جج کر لیتی ہو " رابیل کو خیرانگی ہوئی
"میں جج  نہیں کرتی ۔بس تم میرے دل کے اتنے قریب ہو کے تم اگر پریشان ہو تو تمہارے  بتائے بغیر میں سمجھ جاتی ہوں "
"ہاں اب مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے " رابیل نے بھوریں اٹھا کر کہا
"اچھا تو اب بتاؤ کیا ہے وہ بات جو تمھیں پریشان کر رہی تھی "
"ہاہا ۔۔ یار ۔۔ بس کچھ مس انڈرسٹنڈنگز تھیں میرے اور شاہ کے بیچ جس کی وجہ سے تھوڑی پریشان تھی اور کچھ نہیں  ۔ تم تو جانتی ہو ہم لڑکیوں کے لئے یہ بات کتنی معنی   رکھتی ہے کے ہم سے کبھی کوئی ایسا کام نا ہو جس سے ہمارے رشتوں میں حلل پڑے ۔ " رابیل بات کرتے ہوئے یک دم سنجیدہ ہوئی
"کتنی عجیب بات ہے نا اپسرا ۔ اگر کسی لڑکی کو طلاق ہو جاۓ تو قصور کسی کا بھی ہو قصور وار لڑکی کو ہی ٹہرایا جاتا ہے ۔ لڑکا تو چند ماہ میں دوسری شادی کر لیتا ہے اور طلاق یافتہ لڑکی کا رشتہ کرتے ہوئے لوگ سو بار سوچتے ہیں۔ طلاق کی وجوہات الگ الگ جگہ سی پوچھتے ہیں ۔"
"کیوں کے یہ لوگ دین سے دور ہیں رابیل ۔ ہمارا مذہب تو اتنا خوبصورت ہے کے جو شخص طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کرے گا اسکو بہت اجر ملے گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ ہمارا آج کا معاشرہ علم والا تو بہت بنتا ہے مگر عمل سے قاصر ہے "  اپسرا کی بات پر رابیل نے سر اثبات میں ہلایا
"جانتی ہو اپسرا کتنی ہی ایسی لڑکیاں ہیں جو طلاق سے بچنے کے لئے سسرال والوں کے ظلم بھی سہ لیتی ہیں صرف  اس لئے کے ہماری بچیوں کو شرو ع سے یہ سیکھا  دیا جاتا ہے کے سسرال جاۓ گی تو تمہاری ڈولی مگر ادھر سے باہر صرف تمہارا جنازہ ہی نکلے گا تب تک   تمھیں ادھر ہی رہنا ہے ۔ اور اس چیز کا ہمار ے آج کے براۓ نام مرد کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ یہ نہیں سوچتے کے کسی کی بیٹی اپنا گھر بار چھوڑ کر آپ کے لئے آپ کے گھر آتی ہے تھوڑا سا اسکا ساتھ دے کر سسرال میں اس کے قدم جما دیں "
"تم بلکل سہی کہ رہی ہو ۔۔ لوگوں میں شعور ہی نہیں ہے۔  " اپسرا نے کہا تب ہی رابیل کے فون کی گھنٹی بجی ۔۔ 
رابیل چلتی ہوئی فریج کے پاس گئی اس نے جلدی میں فریج کے اوپر ہی فون رکھ دیا تھا ۔ فون  پر نظر ڈالی تو شاہ زیب کی ویڈیو کال تھی۔  رابیل نے مسکرا کر کال اٹٹنڈ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
_______________
آٹھویں قسط آپ کو کیسی لگی ۔ کومنٹس میں اپنی راۓ کا اظہار ضرور کریں ۔ ووٹ کرنا مت بھولیں ۔۔ جزاک اللہ خیر ۔۔۔
ایمان محمود ۔۔





Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top