آخری قسط

شاہ زیب نے رابیل کے کہنے پر گاڑی روک کر رابیل کو دیکھا
"کیا ہوا رابیل " شاہ زیب نے پوچھا
"شاہ گول گپے (اس نے گول گپے کے ٹھیلے کی طرف اشارہ کیا ) مجھے کھانے ہیں " بچوں سی ضد تھی
"رابیل کوئی حال نہیں ہے تمہارا پتا ہے میں ڈر گیا تھا کے پتا نہیں کیا دیکھ لیا تم نے " شاہ زیب رابیل کی عقل کو کوستا ہوا بولا
"اچھا نا چلیں مجھے کھلائیں " رابیل ضد پر تھی
"یار  یہاں کھاؤ گی کھڑے ہو کر " شاہ زیب کو خیرانگی ہوئی
"شاہ گول گپے ادھر ہی کھاتے ہیں اب اتریں ورنہ میں چلی جاؤں گی اور آپ اکیلے جائیے گا گھر " رابیل گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی اور کہ کر اتر گئی شاہ زیب نے بھی گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور اتر کر رابیل کے پیچھے بھاگتے ہوئے گیا 
"تم پاگل ہو " رابیل تک پوھنچ کر وہ بولا
"ہا۔۔۔(رابیل نے ہا کہتے ہوئے منہ کے آگے ہاتھ رکھا ) آپ کو ایک پاگل سے شادی کرنے سے پہلے کم از کم  سوچنا تو چاہیے تھا نا شاہ ویری بیڈ " کندھے اچکا کر وہ بولی
"کیا کروں دیر سے پتا چلا نا " شاہ زیب نے بھی کندھے اچکائے
"اگر جلدی پتا چل جاتا تو " رابیل نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ  کر مصنوعی غصے سے پوچھا
"تو۔۔۔اممم۔۔۔ کر لیتا کیوں کے اتنی پیاری اور کیوٹ لڑکی کو کوئی ریجیکٹ کیسے کر سکتا ہے " کہ کر وہ جلدی سے آگے بڑھ گیا
"یہ انسان مجھے خیران کرنے سے کبھی باز نہیں آئے گا " مسکرا کر رابیل خود کلامی کرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لی

____________________________
ہوا کافی زور سے چل رہی تھی بارش کے امکان لگ رہے تھے ۔ زری بازو باندھے ہوئے چھت پر ہلکی ہلکی واک کر رہی تھی۔ اندھیرا ہو رہا تھا ۔ عجیب پر سکون سا ماحول تھا ۔
جب اندر شور برپا ہو تو سکون حاصل کرنے کے لئے تنہائی خوبصورت ساتھی ہوتی ہے ۔
گھر والوں سے تھوڑی دیر بچ کر وہ چھت پر آ گئی تھی ۔ جیسی وہ ہو گئی تھی چند دن پہلے تو ایسی نہیں تھی۔ پر جب وہ وقت نہیں رہا تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ وقت بھی ٹھہر جاۓ وقت اچھا ہو یاں برا گزر تو جاتا ہے ۔ بالوں کو جوڑے میں باندھ کر کندھوں پر بڑی شال اوڑھ کر اس نے خود کو کور کیا ہوا تھا۔واک کرتے ہوئے وہ مڑی جب کسی سے اس کی زور دار ٹکر ہوئی۔۔ چوڑا مردانہ وجود ۔
"آہ۔۔۔"وہ کراہی
عدیل کے سینے سے  اس کا ماتھا  لگا تھا۔ وہ آنکھیں میچ کر ماتھا سہلاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹی ۔
"تم کب آئے" ماتھے پر ہاتھ رکھے اس نے عدیل کو دیکھ کر پوچھا
"جب سے تم اپنی سوچوں میں گم چکر کاٹ رہی تھی "
"بتانا تو چاہیے تھا میں ایک دم سے ڈر گئی تھی "
"اچھا یہ بات مجھے زری عدیل خان کہ رہی ہیں جو بڑی دلیر بنتی پھرتی ہیں " عدیل مسکرا کر بولا
"عدیل خان لگانا ضروری تو نہیں " زری نے اسے جتایا کے وہ اپنا نام زری کے ساتھ نا ہی جوڑے
"ضروری تو ہے اب آپ کی وجہ سے  میری آزادی جو ختم ہو گئی ہے " ہنسی دبا کر عدیل نے کہا
"آزادی ختم مطلب " زری نا سمجھی سے بولی
"مطلب اب لیٹ نائٹ باہر نہیں رہ سکتا کیوں کے بیگم گھر میں ہے انتظار کر رہی ہوگی یہ فکر بھی تو رہے  گی نا مجھے "
"اور تمھیں لگتا ہے میں تمہارا انتظار کروں گی ہہہ ۔۔ کیا سچ میں  " زری نے ابرو اچکا کر کہا
"ہمم ۔۔۔ مانو نا مانو پر کرو گی تو سہی "
"تم سے میرا سکون برداشت نہیں ہوا نا اگر تھوڑی دیر یہاں آ گئی تو ادھر بھی پیچھے آ گئے آپ کی مہربانی ہوگی مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز ۔ مجھے تھوڑی دیر کے لئے اس جھوٹ میں جی لینے دیا کریں کے میری زندگی میں تم نہیں ہو " ہاتھ جوڑ کر اس نے کہا ۔
عدیل کے تاثرات یک دم بدلے
"ہمم۔۔ ٹیک یور ٹائم " عدیل مجبورًا مسکرا کر بولا اور وہاں سے چلا گیا 
________________________________
گاڑی کھڑی کر کے شاہ زیب اترا اور رابیل کی طرف کا دروازہ کھولا رابیل مسکرا کر نیچے اتری ۔ گاڑی لاک کر کے وہ دونوں چلتے ہوئے ہال کے دروازے کی طرف آئے رابیل نے بیگ سے چابیاں نکال کر شاہ زیب کو دیں شاہ زیب لاک کھول رہا تھا جب چوکیدار نے ان کے پاس آ کر سلام کیا ۔ شاہ زیب نے مسکرا کر جواب دیا

"کیسی ہیں بی بی جی آپ " ادب سے اس نے کہا
"اللہ‎ کا شکر ہے چچا آپ کیسے ہیں " رابیل نے مسکرا کر جواب دیا
"جی اللہ‎ کا کرم ہے۔ صاحب جی آپ کو اور بی بی جی کو ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے " وہ چوکیدار تھا مگر رابیل کی جو حالت اس گھر سے جاتے ہوئے اس نے دیکھی تھی  اب رابیل ٹھیک تھی تو وہ سچ میں  خوش تھا ۔
شاہ زیب اور رابیل ساتھ میں لگتے ہی اتنے خوبصورت تھے کوئی ایک بھی ان میں سے ساتھ نا ہو تو دوسرا بھی ادھورا لگتا تھا
"بہت شکریہ " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا چوکیدار چلا گیا رابیل شاہ زیب کو دیکھ کر مسکرائی پھر دونوں گھر میں داخل ہوئے شاہ زیب کے پیچھے چلتے ہوئے آہستہ آہستہ رابیل ہال میں داخل ہوئی ۔ وہ ہال کی ایک ایک چیز کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے آج پہلی بار اس گھر میں داخل ہوئی ہو شاہ زیب نے رابیل کو دیکھا ۔ اس کے لئے رابیل کی حرکت تھوڑی عجیب تھی ۔
"کیا ہوا رابیل "
"کچھ نہیں " رابیل سر جھٹک کر مسکرائی
"کچھ تو ہوا ہے اس لیے اب بتاؤ کیا ہوا ہے " اس کے پاس آ کر شاہ زیب نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے۔
رابیل نے ٹھنڈی آہ بھری ۔۔
"آپ نہیں تھے تو یہ گھر بلکل خوبصورت نہیں لگ رہا تھا شاہ ۔ایک ایک چیز کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی اس گھر میں سکون نہیں مل رہا تھا مجھے اور آج جب آپ ساتھ ہیں تو ایک بار پھر سے یہ گھر مجھے اپنا گھر لگ رہا ہے شاہ ۔ ( لمبی آہ بھری )جانتے ہیں ایک عورت جب شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہے نا شاہ تو اس کی ہر بات اس کے شوہر سے شرو ع ہو کر اس پر ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح آپ کے بغیر مجھے  اپنا وجود بے معنی سا لگنے لگتا ہے ۔ میں آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں شاہ
I am nothing without you

۔ رابیل اپنے شاہ زیب کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ ہیں تو میں ہوں آپ نہیں تو میں کچھ بھی نہیں ہوں  " اسکی آنکھوں میں دیکھ کر رابیل کہ رہی تھی ۔ رابیل کی سچائی اسکی آنکھوں سے واضح تھی
اس کی محبت تھی ہی اتنی سچی ، پاک اور خالص ۔۔۔
"بہت پیار کرتی ہو مجھ سے " شاہ زیب بھی رابیل کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
"بہت " آہستگی سے رابیل نے کہا
"اچھا میں نے ایک بات سوچی ہے کیوں نا ہم اس گھر کو بدل دیں " شاہ زیب رابیل کا ہاتھ چھوڑ کر خوش دلی سے بولا
"مطلب " رابیل آنکھیں کھولے نا سمجھی سے بولی
"مطلب یہ کے تمہاری اس گھر کی چیزوں سے کچھ خاص اچھی یادیں نہیں جوڑی ہوئیں تو کیوں نا اس گھر میں کچھ تبدیلی کی جاۓ مطلب سیٹنگ چینج کریں گے ۔ نئی چیزیں لے کر آئیں گے ۔ٹھیک ہے "
"اوکے " مسکرا کر رابیل نے سر اثبات میں ہلایا
"اور یہ کام ہم مل کر کریں گے ہم دونوں ایک ساتھ مل کر نئی یادیں اس گھر میں بنائیں گے " اکسائٹمنٹ میں وہ کہ رہا تھا
"اچھا میں تمہارے لئے چاۓ بنا کر لاتا ہوں تم جا کر چینج کر لو اوکے " شاہ زیب کچن کی طرف جاتے ہوئے بولا  اور رابیل اسے دیکھتی رہ گئی ۔۔
کئی بار وہ سچ میں بہت عجیب ہو جاتا تھا کبھی بہت کھڑوس تو کبھی بہت ہی سویٹ ۔ اس کے یہ بدلتے رنگوں سے آشنا صرف رابیل ہی تھی کیوں کے وہ اس کی بیوی تھی۔ کبھی وہ اس سے جان چڑاتا تھا تو کبھی اس پر جان لٹاتا تھا ۔ کبھی اس سے دور بھاگتا تھا تو کبھی اس کی یادوں کے آگے ہار کر اس کے پاس واپس آ جاتا تھا ۔ وہ محبت کا اظہار نہیں کرتا تھا بلکہ وہ محبت جتاتا زیادہ تھا۔ اور رابیل کو یقین ہو گیا تھا کے شاہ زیب رابیل سے محبت کرتا ہے۔ وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے۔
رابیل چینج کر کے ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھی جب شاہ زیب ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوا ٹرے میں دو کپ رکھے ہوئے تھے رابیل شاہ زیب کو دیکھ کر مسکرائی
"بہت عجیب لگ رہے  ہیں آپ ایسے ۔۔ہاہاہا ہا ۔۔ میں نے کبھی وش نہیں کی کے آپ میرے لئے یہ سب کریں " اسکی ہنسی نہیں رک رہی تھی
"تو تم نے اور کیا وش کی ہے یہ ہی بتا دو میں تمہارے لئے وہ کر لوں گا ۔ اب تمھیں  خوش کرنا بھی تو ضروری ہے نا اتنا تنگ جو کیا ہے تمھیں ۔ اتنا روئی ہے میری جان میری وجہ سے " شاہ زیب ٹرے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا
"امم ۔۔ جو میں نے وش کیا ہے تھوڑا عجیب ہے " رابیل اپنے بالوں پر برش پھیرتے ہوئے بولی ۔
اس وقت اس نے کالا ٹراوزر اور وائٹ کرتا پہنا تھا ۔ نیچے چپل پہنے وہ عام سے حلیے میں تھی اور اب اپنے بالوں کو برش سے سنوار رہی تھی
"اچھا ایسا بھی کیا ہے ذرا بتاؤ تو "
"میں چاہتی تھی کے آپ مجھے بلکل فلمی سٹائل سے پرپوز کریں " ہنسی دبا کر رابیل نے کہا ۔
"بس اتنی سی بات ۔۔اچھا میں کوشش کرتا ہوں " وہ یک دم تیار ہو گیا
"رئیلی ۔۔ شاہ " رابیل نے جلدی سے  برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور شاہ زیب کی طرف متوجہ ہوئی
"یار کچھ اور وش نہیں کر سکتی تھی ۔ مجھ جیسے بندے سے کیا کیا کرواؤ گی " شاہ زیب کو شرم آ رہی تھی
"میں نے آپ سے کب کہا کریں ۔ رہنے دیں آپ سے یہ ہی امید کی جا سکتی ہے "
"ڈرامہ قئین رکو تو ۔۔۔" شاہ زیب پرپوز کرنے والے سٹائل سے نیچے بیٹھا رابیل ہنسی دبا کر کھڑی رہی
"امم۔۔" شاہ زیب نے ہاتھ اوپر اٹھا کر یہ شو کروایا جیسے اس کے ہاتھ میں پھول ہے ۔
"ارے یار میرے پاس تو پھول بھی نہیں ہے رکو (اس نے ایک نظر کمرے کے چاروں طرف دوڑائی ۔ کوئی نقلی پھول بھی نظر نا آیا تب اس کی نظر چاۓ پر پڑی ایک کپ اٹھا کر اس نے ہاتھ میں پکڑا ) اس سے گزارا کر لو کیوں کے میرے پاس پھول نہیں ہے " چاۓ کا کپ آگے بڑھا کر اس نے ایسے شو کروایا جیسے پھول دے رہا ہو کیوں کے وہ پرپوز کرنے والے سٹائل میں بیٹھا تھا اس وجہ سے رابیل نظر جھکا کر اسے دیکھ رہی تھی
"شاہ آپ بہت فنی لگ رہی ہیں " وہ ہنس کر بولی
"یار ایک تو اتنی مشکل سے کوشش کر رہا ہوں اوپر سے تم ہنس رہی ہو ہنسنا تو بند کرو نا "
"اچھا اوکے اوکے ۔۔بولیں " ہنسی دبا کر وہ کھڑی رہی
"رابیل مجھے تم سے یہ کہنا تھا کے میں یعنی شاہ زیب خان جو کے تمہارا شوہر ہے (وہ ساتھ میں ہاں میں سر ہلا رہا تھا رابیل ہنسی دباکر کھڑی اسے سن رہی تھی ) وہ تم سے محبت کرتا ہے اور آج اپنے ہاتھوں سے تمہارے لے چاۓ بنا کر لایا ہے پلیز پینا پسند کریں ۔ اور اپنے شوہر کی محبت کو قبول کریں "  چاۓ کا کپ آگے بڑھائے وہ بول کر خاموش ہوا رابیل نے چاۓ کا کپ پکڑا
"بہت شکریہ شاہ زیب خان " بول کر وہ یک دم زور سے ہنسی اور ہنستی چلی گئی
"کیا ہوا یار کیا تو ہے نا " وہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا
"ہاہا ۔۔ شاہ ۔۔آپ اتنے فنی لگ رہے تھے میں آپ کو بتا نہیں سکتی۔۔ہاہا ۔۔ ہفف۔۔۔" ہنس ہنس کر وہ کہ رہی تھی پھر شاہ زیب کو دیکھا جو منہ بنا کرکھڑا تھا
"کیا ہوا برا لگا آپ کو " رابیل نے پوچھا
"نہیں تو " شاہ زیب نے اپنا چاۓ کا کپ اٹھایا
"اچھا سنیں آپ میرا ایک پیغام میرے شوہر کو بھی دے دیں " چاۓ کا گھونٹ لے کر اس نے کہا
"کیا " شاہ زیب نے پوچھا
"کے وہ چاۓ بہت اچھی بناتے ہیں " کہ کر اس نے پھر کپ منہ سے لگایا
"ہمم۔۔ بس " شاہ زیب نے پھر پوچھا
"ہاں اور ایک اور بات کہ دیں "
"کیا " شاہ زیب نے پوچھا
"کے رابیل شاہ زیب خان یعنی کے ان کی بیوی بھی ان سے بہت محبت کرتی ہے " مسکرا کر رابیل نے کہا اس کی بات سے شاہ زیب کا چہرہ پھر سے کھل اٹھا
"وہ  جانتا ہے" مسکراتے ہوئے شاہ زیب نے کہا
______________________________
"صوفے پر سو کر تم کیا شو کرواؤ گے عدیل کے تم بہت اچھے ہو اور میں بہت بری " زری کمرے میں آئی تو عدیل کو دیکھا جو صوفے پر لیٹا فون استمعال کر رہا تھا
"نہیں میں  تم سے دور رہنا چاہ رہا ہوں  " نظر اٹھا کر اس نے زری کو دیکھ کر کہا اور پھر فون پر نظر جما لی
"مجھ سے دور کیوں میری موجودگی تمھیں اتنی بری لگتی ہے تو بتا دو "
"مجھے تمہاری نہیں تمھیں میری موجودگی بری لگتی ہے اس لئے کہا ہے " نظر فون پر مرکوز کیے اس نے جواب دیا
"اور میں نے ایسا کب کہا " زری نے پوچھا
"کہنے کو کچھ اور رہ کیا گیا ہے زری ۔ کہ تو دیا ہے بہت بار تم نے اور کس طرح سے کہتے ہیں "
"جو مرضی سوچو میں نے ٹھیکا نہیں لے رکھا تمہاری سوچ درست کرنے کا " کہ کر وہ اپنا بستر ٹھیک کرنے لگی بہت دیر  تک عدیل کی طرف سے جواب نا پا کر اس نے عدیل کو دیکھا وہ فون  استمعال کر رہا تھا ۔۔
"عدیل " آہستہ سے اس نے کہا مگر عدیل کی طرف سے جواب نا آیا ۔ زری کی آواز اتنی آہستہ سے  نکلی تھی کے عدیل کو سنائی ہی نہیں دی تھی
"عدیل۔۔۔" تھوڑی آواز اونچی کر کے اس نے پھر پکارا
"ہاں بولو " نظر فون سے اٹھاۓ بغیر اس نے پوچھا
"آئی ایم سوری " زری پھر آہستہ سے بولی مگر اب عدیل تک آواز پوھنچ چکی تھی
"ہیں ؟؟ کیا کہا " وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔
"مجھے معاف کر دو جو میں نے چھت پر تمہارے ساتھ بدتمیزی کی اور جانے کا کہ دیا " نظر جھکا کر اس نے کہا
"اٹس اوکے ۔۔" عدیل نے مسکرا کر جواب دیا اور پھر لیٹ گیا
"اچھا اگر تم اب غصہ نہیں ہو تو ادھر آ کر سو جاؤ ۔ "زری نے  کہا
"پھر تم رات کو جگہا جگا کے بولو گی عدیل جو میں نے ہمارے درمیان تکیہ رکھا ہے اس کو کروس کر کے تمہاری چادر میری سائیڈ کیوں آ رہی ہے ادھر کرو یہ میری سائیڈ ہے یہ وہ ۔۔تو ٹھیک ہوں میں ادھر ہی "
"اچھا نا اب نہیں کہوں گی۔ آ جاؤ " زری نے پھر کہا
"نہیں شکریہ میں ٹھیک ہوں " عدیل نے جواب دیا
"بھاڑ میں جاؤ " زری منہ بنا کر بولی اور لیٹ گئی
اور عدیل خود کو کوستا رہا کے کیوں اس نے زری کی بات نہیں مانی اس کا موڈ تھوڑی دیر ٹھیک تھا ہی تو مان ہی  لیتا بات ۔۔
_______________________
نماز سے فارغ ہو کر رابیل نے تلاوت کی اور پھر ناشتہ بنانے چلی گئی ۔ وہ اب نماز کی پابند ہو گئی تھی ۔  ناشتہ تقریباً بن گیا تھا ۔ جب شاہ زیب آواز دیتا ہوا باہر آیا

"رابیل ۔۔ رابیل " کچن میں اس کے پاس آ کر رکا

"کیا ہو گیا ہے  شاہ ۔۔ " رابیل اسے دیکھ کر بولی
"تم ادھر کیا کر رہی ہو " وہ نائٹ سوٹ میں ہی تھا ۔ ابھی ابھی اٹھا تھا ۔
"ناشتہ بنا رہی ہوں آپ کے لئے "
"یار رابیل میں چاہتا ہوں کے صبح اٹھتے ہی پہلے تمھیں دیکھوں اس لئے پلیز تم میرے اٹھنے سے پہلے باہر مت آیا کرو "

"ہاہا ۔۔ شاہ آپ بھی کبھی کبھی سچ میں عجیب باتیں کرتے ہیں " نظریں چرا کر وہ چیزیں سمیٹنے لگی ۔
اب وہ کیسے بتاتی کے ہر صبح جب اسکی آنکھ کھلتی تھی تو وہ بھی پہلی نظر شاہ زیب کے چہرے پر ہی ڈالتی تھی ۔
"ہاں عجیب ہی ٹھیک ہے پر تم آج کے بعد میرے اٹھنے تک میرے پاس ہی رہا کرو "
"اچھا اچھا ٹھیک ہے ۔ آپ فریش ہو جائیں آج زری اور عدیل کا معاملہ بھی  ٹھیک کرنا ہے بہت فکر رہتی ہے مجھے ان کی "  رابیل نے کہا
"اوکے سویٹ ہارٹ میں پانچ منٹ  میں آ رہا ہوں " مسکرا کر شاہ زیب نے کہا ۔۔
____________________
شاہ زیب ، عدیل ، زری اور رابیل ۔۔ رابیل لوگوں کے گھر حال میں بیٹھے تھے سامنے ٹیبل پر چاۓ کے ساتھ لوازمات پڑے ہوئے تھے ۔ شاہ زیب نے زری اور عدیل کو خود بلایا تھا تا کے دونوں طرف کی بات سن کر بات کی جڑ تک پوھنچا جاۓ ۔
چاۓ کے ساتھ باقی لوازمات بھی ٹیبل پڑ پڑے ہوئے تھے ۔ چاروں پہلے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہی پھر اصل بات پڑ آئے تا کے پروبلم حل کی جا سکے ۔
"تم بتاؤ پہلے عدیل کیا ہوا تھا ؟" شاہ زیب عدیل کی طرف متوجہ ہوا جو رابیل کے ساتھ بیٹھا تھا
"یار میں سویا ہوا تھا اور مجھے زری کا میسج آیا کے مجھے تمہاری ہیلپ کی ضرورت ہے جلدی آؤ اور .  "
"میں نے کب کیا میسج دیکھو عدیل اب بھی جھوٹ مت بولو سمجھے تم " زری نے اسکی بات کاٹی
"تم کیوں نہیں مان جاتی کے میسج کیا تھا تم نے یاں یہ ہی بتا دو کے کیوں کیا تھا " عدیل نے جواب دیا
"میں کیوں بتاؤں جب نا تو میں نے میسج کیا ہے اور نا ہی مجھے تمہاری مدد کی ضرورت تھی "
"تم نے کیا تھا یار میں پاگل ہوں کیا " عدیل کا لہجہ سخت ہوا
"چپ کرو گے تم دونوں پہلے دونوں طرف کی بات تو سننے دو "  رابیل نے سنجیدگی نے کہا تو دونوں چپ ہو گئے
"بولو آگے " شاہ زیب نے عدیل سے کہا
"میں اس کے کمرے میں گیا اور اس نے دروازہ کھولا پھر  اچانک عروا آ گئی اور  اس نے شور کرنا شرو ع کر دیا پھر جو ہوا سب کے سامنے ہی تھا  "
"لیکن جب یہ میرے کمرے میں آیا میں سو تھی دستک ہونے پر دروازہ کھولا تو یہ اندر آیا اور روم میں کچھ تلاش کرنے لگا ۔ میں تو نیند میں تھی کچھ سمجھ نا آیا تب ہی عروا نے آ کر سب کو بلا لیا میں میسج کیسے کر سکتی تھی میں تو سوئی ہوئی تھی "
"عدیل اگر تمھیں زری نے میسج نہیں کیے تو کس نے کیے تھے تم نے غور سے دیکھا نمبر زری کا ہی تھا نا " رابیل نے پوچھا
"ہاں اسی کا تھا میں یقین سے کہ سکتا ہوں " عدیل نے جواب دیا
"عدیل تمہارے پاس وہ میسج ہیں جو زری نے کے " شاہ زیب نے پوچھا
"نہیں یار میں نے واپس آ کر میسج دیکھے  تو ڈیلیٹ فرام ایوری ون (دونوں طرف سے ڈیلیٹ ) ہو چکے تھے "
"اوہ میسج ڈیلیٹ تھے تو اس کا مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہےکے  کسی اور نے میسج کیے ہوں " رابیل بولی
"کیسے موبائل زری کا ہے کسی اور کو پاسوورڈ بھی نہیں پتا تو کیسے کر سکتا ہے کوئی " عدیل نے کہا
"کیا مطلب کسی کو نہیں پتا میں اکثر سب میں بیٹھ کے موبائل استمعال کرتی ہوں لاک سب کے سامنے بھی کھول لیتی ہوں ہو سکتا ہے کسی نے دیکھ لیا ہو " زری نے جواب دیا
"امم ۔۔ بات تو ٹھیک ہے لیکن گھر والوں میں سے کوئی میسج کیوں کرے گا سوچنے کی بات تو  یہ ہے کے ادھر عروا کیسے آئی ۔۔ " شاہ زیب نے کہا
"وہ کہ رہی تھی کے پانی لینے آئی تھی " عدیل منہ بنا کر بولا
"لیکن عدیل اسکے ہاتھ میں تو پانی نہیں تھا جب کے میں خود جگ بھر کر اس کے کمرے میں رکھ کر آئی تھی " زری نے اچھل کر عدیل کو دیکھتے ہوئے کہا
"یار ہو سکتا ہے کے وہ جا رہی ہو " عدیل نے زری کی عقل کو کوسہ
"نہیں جاتی بھی تو بھی خالی جگ تو ہوتا نا  عدیل وہ کچن کی طرف سے آئی تھی اسکا رخ اسکے کمرے کی طرف تھا  جب اسنے آوازیں لگا کر سب کو بلایا " زری سوچتے ہوئے بولی
"ہو سکتا ہے پی کر آئی ہو " عدیل نے پھر کہا
"تو پھر یہ کہتی نا کے پی کر آئی ہے یہ کیوں کہا کے لینے جا رہی تھی جب کے اسکے ہاتھ میں نا تو خالی جگ تھا اور نا ہی بھرا ہوا " زری کو سمجھ آنے لگی تھی
"ویٹ اس وقت تمہارا موبائل کہاں تھا "  رابیل نے جلدی سے زری سے پوچھا
"میرا موبائل میرے پاس ہی ہو گا نا اور کہاں ہوگا " زری نے جواب دیا
"پھر کیسے ۔۔۔" اس سے پہلے کے شاہ زیب کچھ کہتا
"نہیں نہیں میرا موبائل اس رات باہر حال میں پڑا تھا ۔ میں نے ہال میں ٹیوی کے پاس رکھا تھا اور روم میں سونے چلی گئی تھی "  زری فر سے بولی
"تم پاگل ہو کوئی اپنا فون  ہال میں چھوڑ کر جاتا ہے کیا " عدیل کو غصہ آ رہا تھا
"میں دوست سے بات کر رہی تھی کے عروا مجھے آواز دینے لگی میں فون رکھ کر اسکے پاس گئی اسے تکیہ وغیرہ دیا جو لینے کے لئے اسنے مجھے بلایا تھا پھر کمرے میں چلی گئی یاد ہی نہیں رہا کے فون ہل میں پڑا ہے کیوں کے میں تھکی ہوئی تھی تو کمرے میں جاتے ہی سو گئی " زری نے پوری بات بتائی
"بس ہو گیا کلیئر یہ سب کیا دھرا عروا کا ہے اس نے تمھیں جان بوجھ کے بلایا اور تم لاپرواہی سے فون چھوڑ کر چلی بھی گئی ۔ یہ سب سوچا سمجھا پلان تھا " شاہ زیب نے کہا
"اس کا مطلب یہ سب عروا نے کیا ہے " زری بے یقینی سے عدیل کو دیکھ کر بولی
"جی اور میں اسکے ساتھ ملا ہوا نہیں ہوں " عدیل سنجیدگی سے زری کو دیکھ کر بولا ۔
"یہ بات مجھے پہلے کیوں سمجھ نہیں آئی " زری کو افسوس ہوا
"کیوں کے تم پاگل ہو ۔۔ " رابیل چڑ کر بولی
"کیا تم لوگ اسی وقت کلیئر نہیں کر سکتے تھے اسی وقت آپس میں بات چیت کر کے سب بات کلیئر کر لیتے " شاہ زیب کو خیرانگی ہوئی
"یہ میڈم کچھ بولتی تو نا اس نے رونا شرو ع کر دیا اور لڑنا شرو ع کر دیا اور عروا نے کسی کو کچھ سننے ہی نہیں دیا پھر سب میں اکیلے کیسے کرتا "  عدیل شاہ زیب کو دیکھ کر بولا
"لیکن مجھے بابا اور چچا جان پر خیرانگی ہے انہوں نے اس بات کو کلیر کرنے کے بجاۓ تم لوگوں کی شادی جلد بازی میں کیوں کی " رابیل کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا
"اس کا جواب تو وہ ہی دیں گے مگر اس سے پہلے ہمیں عروا سے سچ پوچھنا ہے اسکی زبانی " شاہ زیب نے کہا جس پر سب نے سر اثبات میں ہلایا
"تم دونوں اب آپس میں ٹھیک ہو جاؤ اور موڈ ٹھیک رکھا کرو " رابیل نے عدیل اور زری پر نظر  ڈالتےہوئے کہا
"میں تو پہلے ہی ٹھیک ہوں ان میڈم کو ہی پرابلم ہے " عدیل نے زری کو دیکھ کر منہ بنایا
"ان میڈم کو نا اسپیشل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے " رابیل مصنوعی غصے سے بولی
"تم بنو مت اب " زری نے منہ بنایا وہ ڈھیٹ ہوئی تھی ۔
"اچھا ہم اب چلتے ہیں گھر میں سب انتظار کر رہی ہوں گے " عدیل اٹھتے ہوئے بولا
"ہاں ٹھیک ہے اب میں عروا سے خود بات کر لوں گا ابھی تو ہمیں کچھ چیزیں لینے مال جانا ہے " شاہ زیب نے جواب دیا جس پر زری نے شاہ زیب کو آنکھیں نکالیں
"شاہ جانے والوں کو روکتے ہیں نا کے اپنے کام بھی بتا دیتے ہیں "

"یار تو وہ لوگ لیٹ ہو رہے ہیں اور ہم بھی " شاہ زیب مسکرا کر بولا
"اوکے اوکے ۔۔ ہم جا رہے ہیں اپنا خیال رکھئے گا " زری رابیل اور شاہ زیب سے ملی اور الوداعی کلمات کہ کر وہ چلے گئے ۔
_________________________
رابیل نے بےبی پنک کلر کا کرتا اور کیپری پہنی تھی ۔ اوپر بے بی پنک کلر کا ہی دوپٹہ کندھے پر پھیلا کر لیا تھا نیچے وائٹ پمپس پہنے ہوئے تھے ہلکا ہلکا میک اپ کیا ہوا اور بالوں کو کھول کر دونوں طرف سے آگے کیا ہوا تھا۔ سفید رنگت پر پنک کلر اٹھ رہا تھا وہ جو بھی پہنی تھی خوبصورت ہی لگتی تھی ۔ شاہ زیب جینز کے اوپر بلیک شرٹ پہنے ہوئے تھا اسکی شخصیت بہت سنجیدہ اور رعب دار تھی کے کوئی بھی اس سے بات کرتے ہوئے سو بار سوچتا ۔
وہ دونوں مال میں گھوم کر شوپنگ کر رہی تھے ۔ آج انہیں گھر کے لیے بہت کچھ لینا تھا ۔ سیٹنگ بدلنی تھی اور بہت سی نئی چیزیں بھی لینی تھیں ۔
"رابیل یہ چیک کرو کیسا ہے " براؤن کرتا اٹھاۓ شاہ زیب رابیل کے پاس آیا جہاں رابیل بھی اپنے لئے کپڑے دیکھ رہی تھی
"دکھائیں"  رابیل اس کے پاس آئی ۔۔ شاہ زیب نے اسکے ساتھ کرتے کو لگایا اور سامنے لگے شیشہ کی طرف دونوں نے دیکھا
"یہ کرتا اتنا خوبصورت نہیں ہے پر تم پر اچھا لگ رہا ہے " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا ۔
"اچھا ۔۔ ٹھیک ہے اور کچھ " رابیل ہنسی دبا کر بولی اور جوتوں کی طرف چلی گئی ۔۔ شاہ زیب اس کے پیچھے چلتا ہوا آیا۔
سینڈل اٹھا کر رابیل بیٹھ کر پہننے لگی جب شاہ زیب نے سینڈل پکڑے اور بیٹھ کر رابیل کو پہنائے
"شاہ کتنا عجیب لگتا ہے۔ نا کیا کریں نا ایسا " رابیل نے اس کے ہاتھ پرے کرتے ہوئے کہا
"جب تم میرے شوز اتار سکتی ہو تو میں کیوں نہیں " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا
"میں تو بیوی ہوں نا " رابیل اسے دیکھ کر بولی جو سینڈل بند کر رہا تھا
"اور ایسی کون سی کتاب پر لکھا ہے کے صرف بیوی ہی یہ سب کر سکتی ہے " شاہ زیب بھی کہاں سننے والا تھا
"یہ کتاب میں نہیں لکھا بلکہ مجھے خود ہی شرم آ رہی ہے شاہ "
"ہائے میری شرمیلی بیوی ۔ اگر تم شرما رہی ہو تو کل کو مجھے مت روکنا کسی اور کی خاطر تواضع کرنے سے " اٹھتے ہوئے وہ بولا
"آپ کسی اور کی طرف دیکھ کر بھی دکھائیں میرا پتا ہے نا " رابیل مصنوعی غصے سے بولی ۔۔ جس پر وہ دونوں مسکراۓ
دونوں نے ایک دوسرے کے لئے شوپنگ کی تھی اور کچھ گھر کی چیزیں لے کر وہ گھر کو ہو لئے ۔
____________________________
گھر آ کر زری کا رویہ تھوڑا بدلہ ہوا تھا ۔
اس نے کچن میں نگہت بیگم اور کلثوم بیگم کی۔ مدد بھی کروائی تھی  اور جب سے گھر آئی تھی غصہ بھی نہیں کیا تھا ۔ ورنہ کچھ دنوں سے وہ ہر نارمل سوال کا بھی غصے والا جواب ہی دیتی تھی ۔  لیکن اس نے کسی سے کوئی بات بھی نہیں کی تھی ۔ عدیل کام سے باہر گیا ہوا تھا ۔ جب سب گھر آئے تو مل کر انہوں نے کھانا کھایا ۔ عدیل زری کا رویہ بدلا ہوا دیکھ رہا تھا .  اس وجہ سے وہ جان گیا تھا کے زری اپنے رویے پر شرمندہ تھی ۔  اسی وجہ سے عدیل اب شوخا ہو رہا تھا اتنے  دن زری نے اسے تنگ کیا تھا اب اسکا بھی حق تھا کے وہ زری کو ایٹیٹیوڈ دکھاتا ۔
کمرے میں آ کر عدیل  صوفے پر تکیہ سیٹ کر رہا تھا جب زری کمرے میں آئی
"تم بیڈ پر سو سکتے ہو کوئی پابندی نہیں ہے " زری کی بات پر عدیل نے جلدی سے تکیہ اٹھایا اور بیڈ پر رکھ کر لیٹ گیا ۔
وہ پہلے ایک بار آفر مس کر چکا تھا اب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔  زری کو عدیل کی اس حرکت پر ہنسی آئی تھی ۔
لائٹ اوف کر کے وہ بھی آ کر سو گئی ۔۔ عدیل کو خیرانگی ہوئی زری نے نا تو اس کو سوری کیا تھا اور نا ہی یہ کہا تھا کے وہ شرمندہ ہے پر کیوں۔۔ عدیل کو زری کبھی سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔
_________________________
شاہ زیب آفس جا چکا تھا رابیل بیٹھی کپڑے سیٹ کر رہی تھی جب حال کے دروازے کی گھنٹی بجی ۔ ہاتھ میں پکڑا سوٹ وہیں بیڈ پر رکھ کر وہ کمرے سے باہر آئی ۔ دروازہ کھولا تو سامنے اپسرا کھڑی تھی ۔
"اوہ اپسرا " خوشی سے رابیل اچھل کر اس کے گلے لگی
"کیسی ہو تم " اپسرا رابیل کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی
"میں الحمداللہ بلکل ٹھیک ہوں تم کیسی ہو " رابیل اپسرا کا ہاتھ چھوڑ کر اپسرا کے سامنے والے صوفے پر بیٹھی اپسرا اور وہ اس وقت آمنے سامنے بیٹھی تھیں
"اللہ‎ تعالیٰ کا شکر ہے میں بھی ٹھیک ہوں اور تمھیں خوش دیکھ کر اور خوش ہو گئی ہوں " اپسرا مسکرا کر بولی رابیل نے مسکرا کر نظریں نیچے کر لیں ۔
"رابیل تمہاری اس دن حالت دیکھ کر میں تو بہت پریشان ہو گئی تھی یار ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کروں تم نے سچ میں پریشان کر دیا تھا "
"میں آج تمہارے گھر آنے ہی والی تھی تمھیں شکریہ کہنے " رابیل ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔ شائد وہ کنفیوز تھی ۔
"شاہ زیب بھائی آئے کب " اپسرا نے پوچھا
"دو دن پہلے ہی اور ہم پرسوں ہی یہاں آئے ہیں کل کام سے باہر چلے گئے تو آج آنا چاہ رہی تھی تمہاری طرف " رابیل نے بتایا
"تمھیں مجھے شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے رابیل ہم دوستیں ہیں اور دوستوں میں یہ سب نہیں ہوتا۔ "
"وہ بس ایک چھوٹی سی بات تھی شاہ زیب کام سے آوٹ اوف سٹی گئے تھے مجھے لگا مجھ سے ناراض ہو کر چلے گئے ہیں " رابیل نے پوچھے  بغیر ہی بتایا وہ نہیں چاہتی تھی کوئی شاہ زیب کو غلط سمجھے
"میں یہ نہیں کہوں گی تم بلا وجہ پریشان ہو گئی تھی کیوں کے میں جانتی ہوں جن سے ہم محبت کرتے ہیں نا  ان سے دور ہونے کا سوچ کر بھی ڈر  جاتے  ہیں اور جتنی تم شاہ زیب بھائی سے محبت کرتی ہو تمہاری آنکھوں میں صاف دکھائی دیتی ہے تو کوئی بات بھی یار ہوتا رہتا ہے   " اپسرا نے مسکرا کر کہا
"تم سناؤ احمد بھائی کیسے ہیں " رابیل نے بات کا رخ  بدلہ ۔۔۔۔۔۔
_________________________
"بڑی بات ہے آج شاہ زیب خان نے مجھے لنچ پر بلایا ہے خیریت " بیگ ٹیبل پر رکھ کر عروا شاہ زیب کے سامنے  والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی
وہ دونوں اس وقت ریسٹورانٹ میں موجود تھے جہاں شاہ زیب نے عروا کو بلایا تھا ۔ وہ آفس سے سیدھا ادھر ہی آیا تھا ۔
"کوئی خاص بات ہے کیا "عروا نے تجسس سے پوچھا
"خاص بات تو ہے پر تمہارے خوش ہونے والی نہیں ہے " عروا کی اکسائٹمنٹ دیکھ کر شاہ زیب نے جواب دیا ۔
شاہ زیب کبھی اس سے ٹھیک طریقے سے بات بھی نہیں کرتا  تھا اور آج اچانک لنچ پر بلانا عروا کو عجیب تو لگا تھا پر خوشی کچھ زیادہ ہی ہوئی تھی ۔
کیوں کے وہ جو جذبات شاہ زیب کے لئے رکھتی تھی اس لحاظ سے شاہ زیب کا محض اس سے بات کرنا بھی اس کے لیے غنیمت تھا ۔
عروا سوالیہ نظروں سے شاہ زیب کو دیکھ رہی تھی ۔
"کس طرح بول لیتی ہو اتنے جھوٹ تم " شاہ زیب نے پوچھا جس پر عروا نے نا  سمجھی سے کہا
"کیا مطلب "
"مطلب کے میں خیران ہوں کس طرح تم نے جھوٹ بول کر زری اور عدیل کو سب کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن تم اپنی کوشش میں ناکام رہی ہو عروا مائنڈ اٹ ۔۔" شاہ زیب سنجیدگی سے بولا
"تم کیسی باتیں کر رہے  ہو شاہ زیب عدیل اور زری کو سب کی نظروں میں گرا کر بھلا مجھے کیا ملے گا میں نے ایسا کیا کر دیا " وہ انجان بن رہی تھی
"یہ ہی تو سمجھ نہیں آیا کے تمھیں پرابلم ہوتی بھی تو رابیل سے ہوتی پر زری سے کیوں "
" خیر مجھے رابیل سے بھی پرابلم نہیں ہوتی مسٹر شاہ زیب خان ۔ " ابرو اچکا کر وہ بولی
"تمھیں میں نے سچ پوچھنے کے لئے نہیں بلایا تھا بس اس لئے بلایا کے پہلی بار تمہاری حرکت پر میں یہاں موجود نہیں تھا مگر اب تم نے کوئی بھی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا سمجھی تم " شاہ زیب اسے وارن کرتے ہوئے بولا
"تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو شاہ زیب " معصومیت چہرے پر لاتے ہوئے وہ بولی
"میں اتنا بچہ نہیں ہوں عروا۔ ۔خیر سمجھدار ہو ۔۔ اگلی بار سوچ کر ۔۔" نظریں عروا کے چہرے پر جمائے ہوئے اور ہاتھ جیب میں ڈال کر اس نے والٹ نکالا
"لنچ پر انوائٹ کیا تھا لنچ کر کے جانا " چند ہزار کے نوٹ نکال کر اس نے میز پر رکھے اور کھڑا ہو گیا
"مائی فٹ " اسے جاتا ہوا دیکھ کر عروادانت  چبا کر بولی۔۔
________________________
"میں نے تمہارے لئے پیزا آرڈر کیا ہے تمھیں پسند ہے نا " رابیل زری کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی
وہ دونوں رابیل کے گھر ہال میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اپسرا کے جانے کے بعد زری رابیل کے گھر آئی تھی ۔ کافی دنوں بعد وہ دونوں اس طرح ایک ساتھ تھیں جہاں ان کی باتوں میں دخل دینے والا کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔
"ہاں لیکن عرصہ ہی ہو گیا ہے اپنی پسند کے کھانے کھاۓ ہوئے " زری نے منہ بنایا
"کیوں عدیل کی پسند کے کھانے کھانا شرو ع کر دیئے ہیں کیا " رابیل اسے چھیڑتے ہوئے بولی
"شٹ اپ یار جیسے تم تو کچھ جانتی ہی نہیں ہو ۔ میرا اور عدیل کا ایسا رشتہ نہیں ہے کے ہم ایک دوسرے کی پسند نا پسند کا خیال رکھیں "
"کیوں زری ایک دوسرے کی پسند نا پسند کا خیال رکھنے کے لئے میاں بیوی کا رشتہ بہت بڑا ہے ۔ یہ تو رشتہ ہی ایسا ہے جس میں آپ کو ایک دوسرے سے جڑی ہر چیز سے محبت ہو جاتی ہے " رابیل کو خیرت ہوئی تھی
"ہم ویسے میاں بیوی نہیں ہیں رابیل " زری رابیل کو دیکھ کر بولی
"تو آپ دونوں کیسے میاں بیوی ہو ۔ اس رشتے کی قسمیں تو نہیں ہوتیں زری۔ میاں بیوی تو میاں بیوی ہی ہوتے ہیں  "
"رابیل تم جانتی تو  ہو میرے اور عدیل کے درمیان کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ "
"ہاں میں جانتی ہوں ٹھیک نہیں تھا پر کل جب سب کلیر ہو گیا تو تمھیں نہیں لگتا کے اب تم دونوں کی ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں ہے " رابیل نے کہا۔۔ زری کی طرف سے تھوڑی دیر خاموشی پا کر رابیل نے پھر پوچھا
"تم دونوں نے کل ایک دوسرے کے ساتھ سب کلیر نہیں کیا گھر جا کر "
"نہیں " نظریں چرا کر زری نے جواب دیا
"کیوں زری " رابیل کے ماتھے پر شکن آئی ۔
زری نے نظریں چرا لی تھیں مگر رابیل اسے ہی دیکھ رہی تھی
"کیا عدیل نے تم سے معافی نہیں مانگی " رابیل نے پھر پوچھا
"مانگتا رہا ہے وہ کافی بار مگر تم کچھ بھی کلیر نہیں تھا تو میں نہیں مانی " زری میز پر رکھے گلدان پر نظریں جمائے بول رہی تھی
"اور کل معافی نہیں مانگی پھر دوبارہ " رابیل نے پھر پوچھا
"تو تمھیں چاہیے تھا جب سب کلیر ہو گیا تو تم کل معافی مانگ لیتی اس سے "
"میں کیوں مانگوں  جب میں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے الٹا میں نے تو سب کچھ سہا ہے " زری رابیل کو دیکھ کر بولی
"تو عدیل کا کیا زری ۔ وہ بھی تمہارے جتنا ہی مظلوم ہے جتنا تم نے سہا ہے اتنا اس نے بھی سہا ہے پھر بھی وہ تم سے معافی مانگتا رہا اب وہ اس لئے نہیں مانگ رہا ہو گا کیوں کے وہ تم سے امید لگا رہا ہو گا کے تم اس بار اس سے خود بات کرو اس بار تم پہل کرو "  رابیل نے کہا جس اور زری خاموش رہی
"دیکھو زری۔ تمھیں کیا لگتا ہے کے میرے اور شاہ زیب میں شرو ع دن سے آج تک سب ٹھیک رہا ہے کیا ۔ کیا کبھی ہم ایک دوسرے سے ناراض نہیں ہوتے ۔ کیا شاہ زیب کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرتا جو مجھے نا پسند ہو یاں کیا میں ایسی کوئی حرکت نہیں کرتی جو اسے نا پسند ہو ۔۔نہیں بلکل نہیں ایسی بات ہرگز نہیں ہے زری ۔ ہمارے اندر بھی بہت بار غلط فہمیاں آ جاتی ہیں ہم بھی ایک دوسرے سے ناراض ہوتے ہیں ہم بھی گلے کرتے ہیں مگر ہم میں سے اگر ایک پہل نا کرے تو دوسرا کر لیتا ہے دوسرا نا کرے تو پہلا کر لیتا ہے ۔ اسی طرح ہمارا رشتہ چلتا ہے زری ۔ سب کچھ اتنا پرفیکٹ نہیں ہوتا جتنا ہم چاہ رہے ہوتے ہیں۔ " رابیل اسے سمجھانا چاہ رہی تھی۔ زری پھر سے گلدان کی طرف دیکھنے لگ گئی وہ رابیل سے نظریں نہیں ملا رہی تھی
"تو کیا تم چاہتی ہو میں خود اس سے معافی مانگوں اس کے لئے جس میں میری کوئی غلطی ہی نہیں تھی " سوالیہ نظروں سے زری نے رابیل کو دیکھتے ہوئے پوچھا
"نہیں میں چاہتی ہوں کے تم اس سے اپنے رویے کی معافی مانگو بس " رابیل نے کہا
"ہہ۔۔" زری نے رابیل سے آنکھیں پھریں جیسے اسے بات پسند نا آئی ہو
"زری جب رشتوں کو ہم چھوڑ نہیں سکتے تو ان کے سامنے جھک جانے سے آپ کی عزت کم نہیں ہوتی " رابیل نے آخری کوشش کی
"تمھیں نا کوئی فلاسفر ہونا چاہیے تھا " منہ بنا کر زری نے کہا اس کا انداز بتا رہا تھا کے وہ مان گی ہے
"ہاہاہاہا۔۔۔" رابیل کھل کے مسکرائی
"شاہ زیب بھائی کی قسمت اچھی ہے تم مل گئی ہو ورنہ ان کا بھی گزارا تمہارے علاوہ کسی کو کے ساتھ بھی ہونے والا تھا " زری نے بات کا رخ بدل دیا تھا
"اچھا جی ۔۔ " رابیل نسکرا کر بولی
"کہاں رہ گیا تمہارا پیزا منگواؤ جلدی بھوک لگی ہے مجھے " زری نے کہا
"بوکھڑ " کہتے ہوئے رابیل نے فون اٹھایا
____________________
جنید صاحب کے کہنے پر سب اکٹھے ہال میں بیٹھے تھے ۔ زری ،عدیل ، دادی جان ، عامر صاحب ، نگہت بیگم ، کلثوم بیگم سب ہال میں بیٹھے تھے جنید صاحب بھی موجود تھے ۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کلثوم بیگم سے صبر نا ہوا تو انہوں نے پوچھا
"آپ نے ایسے سب کو اکٹھا بٹھایا ہے کوئی خاص بات ہے کیا " جنید صاحب سے مخاطب ہو کر انہوں نے پوچھا
"ارے اس گھر کے تمام افراد کون سا پہلی بار اکٹھے بیٹھے ہیں ۔ آپ کو اتنا تجسس کیوں ہو رہا ہے " مسکرا کر انہوں نے جواب دیا ۔ وہ ایک وجیہہ انسان تھے ۔
"لیکن بھائی جان آپ نے ایسے جب بھی سب کو اکٹھا بلایا ہے تب کوئی نا کوئی  خاص بات ہی ہوتی ہے " عامر صاحب نے کہا
"ارے کیوں تجسس بڑھا رہے ہو بیٹا بتا دو اب " دادی جان سے بھی صبر نہیں ہو رہا تھا
"بس امی جان اس گھر میں کچھ دنوں سے سب ہی پریشان تھے تو میں نے سوچا آج مل بیٹھ کر باتیں کر لیں تھوڑا موڈ خوش گوار ہو جاۓ گا سب کا  " جنید صاحب نے کہا
"یہ تو بہت ہی اچھا کیا آپ جی بھائی جان " نگہت بیگم نے اتفاق کیا
"اور پھر اپنے بچوں سے بھی تو ہہت سی باتیں کلیر کرنی ہیں " جنید صاحب نے زری اور عدیل کو دیکھ کر کہا جو ساتھ بیٹھے تھے زری نظریں جھکاے ہوئے تھی اور عدیل ہال کی چیزوں کا بیٹھے بیٹھے جائزہ لے رہا تھا جنید صاحب کی بات پر دونوں ان کی طرف متوجہ ہوئے
"کیا مطلب " عدیل نے پوچھا
"مطلب یہ کے تم دونوں کو ہم پر گلا ہو گا کے اس رات جو کچھ بھی ہوا اس پر ہم نے آپ لوگوں کا ساتھ نہیں دیا اور الٹا آپ کی شادی بھی جلد بازی میں کر دی ۔ صفائی کا موقع بھی نہیں دیا لیکن تم دونوں اس کے پیچھے کی وجہ نہیں جانتے ۔(سوالیہ نظروں سے دونوں جنید صاحب کو ہی دیکھ رہی تھے )  بیٹا آپ دونوں ابھی جتنے بھی بڑے ہو جاؤ ہم جتنا تجربہ ابھی آپ لوگوں کا نہیں ہے ۔ بزنس فیلڈ میں ہمیں ہر طرح کے کلائنٹ سے ڈیل کرنا پڑتا ہے بہت سے نئے لوگ ہوتے ہیں جن سے ہم پہلی بار مل رہی ہوتے ہیں ہمارا تجربہ ہی ہمیں بتاتا ہے کے کیا ہم اس بندے پر یقین کر سکتے ہیں اور یہ کے اس پر یقین کر کے ہمیں کتنا فائدہ ہو گا تو میرے بچو جب ہم انجان لوگوں کو پہلی نظر میں پرکھ لیتے ہیں تو تم دونوں کو ہمارے سامنے بڑے ہوئے ہو ۔ ہم تم دونوں کو ہہت ہی اچھے سے جانتے ہیں ہم جانتے ہیں کے تم دونوں کس حد تک جا سکتے ہو ۔ عروا نے اس دن جو کچھ بھی کہا میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کے وہ سب جھوٹ ہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آیا تھا کے عروا نے یہ سب کچھ کیوں کیا ۔ اگر تو اسے غلط فہمی ہوتی تو وہ ہم سب کو نا بلاتی مگر جیسے اس نے سب کو اکٹھا کیا یہ سب کچھ ہی ایک  پلان لگ رہا تھا ۔ لیکن عروا ایسا کر کیوں رہی تھی یہ میں نہیں جانتا تھا ۔ اس وقت اگر تم لوگوں کا ساتھ دیتا تو عروا جس طرح کی ہے میں اسے بھی جانتا ہوں بڑے آرام سے وہ ہمارے بھائی کو ہمارے خلاف کر دیتی اور وجہ یہ دے دیتی کے وہ ہم پر بھروسہ کر کے اسے ہمارے پاس چھوڑ کر گئے اور ہم نے اسے بے عزت کر دیا " سب خاموشی سے جنید صاحب کی بات سن رہی تھے ۔ دو منٹ خاموشی کے بات انہوں نے پھر بات شرو ع کی .
"ہمارے بھائیوں کے اتفاق کی لوگ مثالیں دیتے ہیں میں عمر کے اس حصے میں آ کر اپنے بھائیوں کو دکھ نہیں دے سکتا ۔ اس لئے میں نے اس وقت خاموشی اختیار کی اور نا عروا کا ساتھ دیا اور نا ہی آپ دونوں کا ۔ لیکن شادی کا فیصلہ اس لئے کیا کےاگر وہ لڑکی کل کو باہر لوگوں کے سامنے یاں کبھی بھی کوئی اور الزام لگا دے تو ہم کچھ نہیں کر سکیں گے کیوں کے میں جانتا ہوں وہ ایک بار پلان نا کام ہونے پر دوبارہ کوشش ضرور کرتی اس لئے میں نے تم دونوں کی شادی ہی کروا دی تا کے کوئی بھی اس طرح  دوبارہ تم دونوں پر انگلی نا اٹھا سکے ۔ میں جانتا ہوں کے میرے اس فیصلے پر آپ دونوں کو دکھ ہوا تھا پر والدین سے بڑھ کر اولاد کی بہتری اس دنیا میں کوئی نہیں چاہتا تو اس وقت جو مجھے آپ دونوں کے بارے میں جو بہتر لگا میں نے کیا ۔ آج ہم سب ساتھ ہیں تو میں چاہتا ہوں اب سب کے اندر کے تمام گلے دور ہو جائیں ۔ مجھے اپنے گھر کے ہر فرد پر پورا بھروسہ ہے پھر بھی اگر آپ دونوں کو مجھ سے کوئی بھی گلا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں " جنید صاحب نے بات مکمل کی
"نہیں بابا آپ ایسا مت کہیں ۔ میں نہیں جانتی تھی آپ نے یہ سب سوچ کر ایسا قدم اٹھایا ہے ورنہ میں آپ سے کبھی بھی گلا نہیں کرتی ۔ آپ نے جو کیا جیسا کیا ٹھیک کیا ۔ "زری نے  کہا
"میں بھی تم دونوں نے اس لئے خفا رہی کیوں کےعروا آپ دونوں کے بارے میں کوئی نا کوئی بات کبھی کجھ تو کبھی نگہت کو کہ دیتی تھی ہمیں بد گمان کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر ہم نہیں ہوئیں بلکہ ہم دونوں تم دونوں کو منع کرتی رہیں کے ساتھ آنا جانا کم رکھا کرو کیوں کے میں جانتی تھی کے عروا کبھی آپ دونوں کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھا دے گے لیکن جب اس رات عروا نے ہمیں بلایا تو تم دونوں پر مجھے شدید غصہ آیا تھا کیوں کے جس بات کا ڈر تھا عروا نے وہ ہی کیا تھا اس وجہ سے میرا روئیہ تم دونوں کے ساتھ غلط رہا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے میں نے تم دونوں کو غلط سمجھا ہے " کلثوم بیگم نے بھی بتانا مناسب سمجھا ۔۔
"چلو اب آج سے مجھے ہماری بیٹی ایسے مرجھائی ہوئی نہیں چاہیے بس جیسے پہلے زری سے پورے گھر میں رونق تھی وہ رونق اب مجھے واپس چاہیے میرے بچو دوبارہ سے اس گھر کو پہلے جیسا بنا دو " دادی جان نے مسکرا کر کہا جس پر زری اٹھ کر ان کے گلے لگی
"میں پرایا ہوں کیا " عدیل بھی جلدی سے اٹھ کر آیا تو دادی جان نے اسے بھی مل کر دونوں کو ڈھیر ساری  دعائیں دیں
____________________________ 
گرے کرتا جس پر سفید پرنٹ ہوا تھا اور سفید ہی کیپری رابیل نے پہن رکھی تھی سفید دوپٹہ گلے میں ڈالا ہوا تھا ۔ بالوں کو ایک سائیڈ کر کے آگے کو کیا ہوا تھا۔۔ وہ شاہ زیب کا انتظار کر رہی تھی۔ آج اس نے شاہ زیب کی پسند کا کھانا بنایا تھا ۔ کچن صاف کرتے ہوئے وہ بار بار گھڑی پر ٹائم دیکھتی کافی ٹائم ہو گیا تھا شام کے وقت شاہ زیب آ جاتا تھا اور اب رات ہو چکی تھی ۔
رابیل نے موبائل دیکھا وہ ہمیشہ آفس سے نکلتے ہوئے رابیل کو میسج کر دیا کرتا تھا۔ مگر شاہ زیب کا ابھی تک میسج نہیں آیا تھا ۔ اس وقت تک وہ آفس میں کیسے ہو سکتا تھا رابیل کو پریشانی ہونے لگی ۔ اس نے شاہ زیب کو فون ملایا مگر اس کا نمبر بھی بند جا رہا تھا ۔ رابیل کو پریشانی ہونے لگی ۔  باہر جا کر چوکیدار سے پوچھا تو اسے بھی پتا  نہیں تھا ۔ وہ گھبرا کر کمرے میں آ گئی ۔
"کدھر رہ گئے ہیں آپ شاہ " شاہ زیب کی بد سائیڈ ٹیبل پر پڑی فوٹو کو دیکھ کر اس نے کہا
"کیوں پریشان کرتے ہیں آپ مجھے اتنا ہاں " فوٹو اٹھا کر پکڑ کے وہ بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی
"ایک تو آپ کی پسند کا کھانا بنایا اپر سے آپ مجھے اتنا انتظار کروا رہے ہیں آپ جانتے ہیں نا میں کتنا پریشان ہو جاتی ہوں آپ سے دور نہیں رہ سکتی میں شاہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں " شاہ زیب کی تصویر سے وہ باتیں کرنے لگی ۔۔
_____________________
عدیل صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا زری بیڈ اور بیٹھے اسے گھور رہی تھی ۔ آج تک کسی سے معافی مانگی نہیں تھی خاص طور پر عدیل سے تو کبھی بھی نہیں اور عدیل سے معافی مانگنے کا تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا لیکن وہ سچ میں اب روئیے پر شرمندہ تھی مگر معافی مانگنے میں اسے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی ۔
"مجھے تم سے بات کرنی ہے " ہمت کر  کے اس نے کہا
"ہمم ۔۔ بولو " لیپ ٹاپ سے نظر اٹھاۓ بغیر عدیل نے پوچھا ۔۔
زری خاموش رہی ۔۔ عدیل بھی آرام سے اپنا کام کرتا رہا ۔ اس نے دوبارہ پوچھا ہی نا کے کیا بات کرنی ہے ۔ زری غصے سے اٹھی اور عدیل کا لیپ ٹاپ بند کیا
"سنا نہیں تم نے بات کرنی ہے مجھے تم سے " ماتھے پر شکن ڈال کر وہ سنجیدگی سے بولی
"ہاں تو  بولو نا " عدیل بیٹھا ہوا تھا نظر اٹھا کر وہ پاس غصے میں کھڑی زری کو دیکھ رہا تھا ۔
"تمہارے پاس وقت ہی کب ہے کسی سے بات کرنے کا " زری نے جھٹکے سے لیپ ٹاپ اٹھا کر بیڈ پررکھا
"اوہ تو آپ کو میرا وقت چاہیے جی جی بولیں " عدیل ہنسی دبا کر بولا اور کھڑا ہو گیا
"منہ بند رکھو " زری چڑ کر بولی
"اچھا بولو " عدیل ہنسی دبا کر کھڑا تھا وہ جانتا تھا زری کو اس سے کیا بات کرنی ہے
"دیکھو تم آنکھیں نیچے کرو ایسے میں بول نہیں سکتی " زری نے حکم کیا
"اوکے اور کچھ " عدیل ہاتھ باندھ کر نظریں جھکا کر کھڑا ہو گیا
"اچھا نا تم اسمبلی میں تھوڑی کھڑے ہو سیدھے کھڑے ہو " زری کو غصہ آ رہا تھا
"اچھا ہاں اب بولو " عدیل بازو  سیدھے کر کے اسے دیکھ کر بولا
"اچھا آنکھیں تو نیچے کرو نا "
"یار تم نے خود تو کہا کے ویسے نا کھڑا ہوں تو اب کیا کروں " عدیل نا سمجھی سے بولا
"تم نا آنکھیں نیچے کرو پر ہاتھ ایسے ہی رکھو " زری نے کہا جس پر عدیل بے ویسا ہی کیا ۔ مگر زری سے پھر ہہی بولا نہیں جا رہا تھا
"اچھا ایسا کرو تم اپنا منہ دوسری طرف کرو میں پھر بتاؤں گی " زری کی بات پر عدیل کو بہت ہنسی آ رہی تھی مگر وہ اسے کنفیوز نہیں کرنا چاہتا تھا تو مڑ گیا
"دیکھو عدیل ۔۔ وہ نا ۔۔ پتا کیا ۔۔ دیکھو ایسا ہے کے " وہ اب بھی بول نہیں پا رہی تھی عدیل دوسری طرف منہ کے ہنس رہا تھا ۔۔
"ایسا ہے کے تم اپنے روئیے پر شرمندہ ہو ہے نا " اس کی طرف منہ کرتے ہوئے عدیل نے کہا
"ھف۔۔۔ ہاں " زری کی جیسے جان میں جان آئی
"بس اتنی سی بات تھی اور تم سے کہی نہیں جا رہی تھی "
"تو تمھیں پتا تھا تو چسکے کیوں مار رہے تھے " زری نے منہ بنایا
"دیکھ رہا تھا کے تم بول پاتی ہو یاں نہیں ۔۔ تمھیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ حالات ہی ایسے تھے کے تمہارا رویہ غیر یقینی نہیں تھا " عدیل نے کہا جس پر زری مسکرائی
"تھینک یو مجھے سمجھنے کے لئے " زری نے کہا
"نو نیڈ ٹو سے ۔۔" عدیل نے مسکرا کر کہا ۔
____________________________
شاہ زیب گھر داخل ہوا تو ہال کا دروازہ کھلا ہوا تھا یقیناً رابیل جب چوکیدار سے شاہ زیب کا پوچھنے گئی تھی اس وقت واپس آ کر پریشانی میں لاک کرنا بھول گئی تھی ۔ شاہ زیب سیدھا کمرے میں آیا جہاں اس کی نظر رابیل پر پڑی ۔
جو بیڈ پر ٹیک لگاۓ بیٹھے  ہوئے سو چکی تھی  ۔ کوئی فوٹو اس نے اپنے بازوں میں جھکڑ کر اپنے ساتھ لگائی ہوئی تھی بال آگے کو تھے جس وجہ سے کچھ لٹیں اس کے چہرے پر آئی ہوئی تھیں ۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ مسکراتے ہوئے شاہ زیب نے اپنا بیگ اور کوٹ صوفے پر رکھا اور رابیل کی طرف بڑھا ۔
اس کے ماتھے پر آئی ہوئیں لٹیں شاہ زیب نے پیچھے ہٹائیں ۔ رابیل کے چہرے پر بہت معصومیت تھی۔  اس کے چہرے سے نظر ہٹائی تو فوٹو پر  نظر پڑی جس کو اپنے ساتھ لگاۓ ہوئے وہ سو چکی تھی شاہ زیب نے آرام سے وہ فوٹو اس کے بازوؤں سے نکالی
فوٹو دیکھ کر شاہ زیب مسکرایا وہ شاہ زیب کی ہی فوٹو تھی ۔۔ کتنی محبت کرتی تھی وہ شاہ زیب سے جب اس کے پاس ہوتا تو اس سے ہی باتیں کرتی تھی اور جب وہ رابیل کے پاس نہیں ہوتا تھا تب بھی رابیل صرف اور صرف اسی کے بارے میں سوچتی تھی ۔۔۔ شاہ زیب نے پھر اس کے چہرے کو دیکھا اسی معصومیت سے وہ سو رہی تھی ۔ فوٹو سائیڈ ٹیبل پر رکھ  کر وہ اٹھا
"شاہ ۔۔۔" رابیل نے آنکھ  کھولتے ہی اسے پکارا ۔۔ آہٹ سے اسکی آنکھ کھل گئی تھی۔ شاہ زیب کے قدم رک گئے اس نے مسکرا کر رابیل کو دیکھا جو تیزی سے اٹھ کر اس کے پاس آئی

"شاہ۔۔ کہاں رہ گئے تھے آپ "
"میٹنگ میں لیٹ ہو گیا تھا . فون کی چارج ختم ہو گئی تھی تمھیں انفارم نہیں کر پایا سوری " شاہ زیب نے بتایا
"نہیں پلیز آپ سوری نا کہا کریں کوئی بات نہیں ۔ بس میں پریشان ہو گئی تھی "
"تو کیوں ہو جاتی ہو اتنی جلدی پریشان میری وائی فائی ۔۔ " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا
"مجھے حق ہے کے میں اپنے شوہر کے گھر دیر سے آنے پر پریشان ہو سکوں اچھا نا ۔۔" رابیل نے کہا جس پر شاہ زیب مسکرایا
"جب آپ سے دور ہوتی ہوں نا شاہ تو لگتا ہے میرا وجود ختم ہو جاۓ گا ۔ میں آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں شاہ  . " رابیل نے شاہ زیب کو دیکھ کر کہا
"رابیل آپ سے بہت محبت کرتی ہے شاہ " شاہ زیب کو دیکھتے ہوئے ہی اس نے کہا ۔
شاہ زیب سے محبت نے  اسے اتنا مظبوط تو کر ہی دیا تھا کے وہ بلا جھجھک اس سے اپنی محبت کا جب چاہے جیسے چاہے اظہار کر سکتی تھی۔
"میں اس دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں " شاہ زیب نے کہا جس پر رابیل مسکرائی
"اچھا یہ میری الماری میں رکھ دو "  شاہ زیب نے جیب سے پستول نکال  کر  رابیل کو پکڑائی
"آہ۔۔" رابیل کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی
"ی۔۔ یہ ۔۔۔ کیا ہے " رابیل سے بولا نہیں جا رہا تھا
"گن ہے رابیل کیا ہو گیا ہے " شاہ زیب نے آگے بڑھ کر خود الماری میں رکھتے ہوئے جواب دیا
"گ۔ ۔گ۔ ۔گن تو ہے پر ۔۔آ۔۔۔آ۔ ۔آپ کے پاس کیا کر رہی ہے "
"اوہو رابیل لسینس ہے میرے پاس اس کا سیکورٹی کے لئے رکھی ہوئی ہے ڈونٹ بی ووری " شاہ زیب نے جواب دیا
"اچھا چلو نا اب مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھاتے ہیں " کندھوں سے رابیل کو پکڑ کر وہ اپنے آگے کرتا ہوا اسے باہر لے آیا
"آپ اسے آج کے بعد گھر مت لانا شاہ مجھے ڈر لگتا ہے " باہر آتے ہوئے رابیل نے کہا
"اوکے مائی لوو ۔۔ نہیں لاؤں گا اب کھلا دو نا کھانا " شاہ زیب نے بات بدل دی۔۔
کھانا کھاتے ہوئے شاہ زیب مسلسل فون استمعال کر رہا تھا۔ رابیل کو یہ بلکل پسند نہیں تھا کے وہ جب اس کے پاس ہو تو کوئی اور کام کرے ۔۔
"کیا کر رہے ہیں دیکھ کر کھانا کھائیں " رابیل نے کہا
"ہاں ہاں کھا رہا ہوں " ایک ہاتھ سے چاول کی چمچ منہ میں ڈال کر دوسرے ہاتھ سے موبائل استمعال کرتے ہوئے شاہ زیب نے کہا
"آج زری آئی تھی " رابیل نے خوش ہو کر بتایا ۔۔ شاہ زیب نے کوئی جواب نا دیا وہ فون کی طرف متوجہ تھا ۔ وہ ایسا کرتا نہیں تھا آج پتا نہیں کیا کر رہا تھا
رابیل اٹھ کر برتن سمبھالنے لگی ۔ .
"کیا ہوا تم کھانا نہیں کھاؤ گی ۔ . " شاہ زیب نے رابیل کو دیکھ کر پوچھا
"بس کھا لیا " رابیل اوف موڈ میں ہی بولی
"اوکے میں بھی بس " شاہ زیب بھی اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں چلا گیا
رابیل نے غصے سے برتن سمبھالے اور کمرے میں آ گئی جہاں شاہ زیب ٹیک لگا کر فون استمعال کر رہا تھا رابیل کو دیکھ کر شاہ زیب نے مسکرا کر فون سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔۔
"تم چاۓ نہیں لائی بنا کر " خالی ہاتھ دیکھ کر شاہ زیب نے پوچھا
"آپ مجھے کمپنی دینے کے لئے پیتے ہیں اور میرا آج چاۓ پینے کا دل نہیں ہے اس لئے نہیں بنائی " بالوں کو پونی میں باندھتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا
"اوہ میڈم کا موڈ کیوں اوف ہو گیا ہے سب خیریت ہے نا "رابیل کبھی ایسے بات نہیں کرتی تھی جس طرح وہ ابھی کر رہی تھی اس لئے شاہ زیب نے پوچھا ۔۔ کیوں کے تھوڑی دیر پہلے تو اس کا موڈ بہت اچھا تھا
"کچھ نہیں ہوا میرے موڈ کو کیا ہو گا "
"کچھ تو ہوا ہے اب تم بتانا نہیں چاہتی یہ الگ بات ہے " شاہ زیب نے کہا
"ہاں نہیں بتانا چاہتی "رابیل جی سنجیدگی سے جواب دیا
"پکا نہیں بتانا "
"نہیں " رابیل نے جواب دیا
"سوچ لو " شاہ زیب نے مسکرا کر پھر کہا
"سوچ لیا " رابیل سپاٹ لہجے سے بولی ۔۔
شاہ زیب لیٹ گیا۔ رابیل تکیہ ٹھیک کر کے لیٹی تو کمبل شاہ زیب نے لیا ہوا تھا
"یہ کمبل مجھے دیں آپ دوسرا لے لیں " رابیل نے کہا
"نو ۔۔ مجھے یہ ہی چاہیے " شاہ زیب ہنسی دبا کر بولا
"شاہ مجھے یہ دے دیں پاس دوسرا پڑا ہے آپ وہ لے لیں "
"نہیں وہ تم لے لو "
"وہ آپ کا ہے تو آپ لیں مجھے میرا کمبل واپس کریں مجھے نیند آ رہی ہے " رابیل نے کہا
"نہیں میں نہیں دے رہا " شاہ زیب بھی اسے تنگ کر رہا تھا
"اوکے میں اٹھ کر صوفے پر ہی چلی جاتی ہوں آپ ایزی ہو جائیں " غصے سے اٹھ کر رابیل نے تکیہ اٹھایا اور صوفے پر آ کر رکھا
"اوہ واؤ تھینک یو سو مچ میں تو ایزی ہو کر سو جاؤں گا اکیلے " شاہ زیب اسے تنگ کرتے ہوئے بولا
"فائن سو  جائیں  " رابیل بڑ بڑائی اور صوفے پر لیٹ گئی ۔۔
وہ صوفے پر لیٹی ہوئی تھی شاہ زیب کا رخ اس کی طرف ہی تھا رابیل نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں لیکن شاہ زیب اسے دیکھ رہا تھا وہ شاہ زیب پر غصہ بلکل نہیں کرتی تھی مگر آج کر رہی تھی اور شاہ زیب کو اس وقت وہ بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔۔
"تم پکا ادھر ہی سونے والی ہو " شاہ زیب نے ہنسی دبا کر پوچھا
"میں سو چکی ہوں " آنکھیں بند ہی رکھے ہوئے رابیل نے جواب دیا
"اچھا سہی " شاہ زیب نے کہا اور پھر دو منٹ کے لئے دونوں میں خاموشی رہی
"ویسے رابیل تم کیا سپرے نہیں کرتی روم میں " شاہ زیب نے سوال کیا رابیل نے جواب نا دیا
"یار کاکروچ مارنے والے سپرے کا پوچھ رہا ہوں  کیوں کے صبح ہی میں نے صوفے کے پاس کاکروچ دیکھا تھا " شاہ زیب نے آنکھیں بند کر لیں اور رابیل کی آنکھیں نا صرف کھلیں بلکہ پہلے سے زیادہ کھل گئیں
اسے کاکروچ سے شدید ڈر لگتا تھا ۔ رابیل نے جواب نا دیا اسی حالت میں لیٹی  رہی ۔
"اور تم شائد صفائی بھی ٹھیک سے نہیں کرتی صوفے کے پیچھے سپائیڈر بھی دیکھا ہے میں نے آج " شاہ زیب کی بات پر رابیل اچھل کر اٹھی اور بیڈ کے پاس بھاگ کر آئی ۔۔
شاہ زیب مشکل سے ہنسی کنٹرول کیے ہوئے تھا
وہ جلدی سے آ کر بیڈ پر لیٹ گئی اور شاہ زیب سے کمبل بھی نا لیا البتہ اپنا کمبل اور تکیہ بھی صوفے پر ہی چھوڑ آئی تھی ۔۔
شاہ زیب نے آگے بڑھ کر اس پر کمبل دیا اور اپنا تکیہ اسکے ساتھ شئیر کیا
"اب بتاؤ کیا ہوا ہے ناراض کیوں ہو مجھ سے " شاہ زیب نے پوچھا تو رابیل نے اسکی طرف رخ کیا
"آپ مجھے اگنور کرتے ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا شاہ " رابیل نے معصومیت سے کہا
"اور تمھیں لگتا ہے کے میں تمھیں اگنور کر سکتا ہوں "
"کھانا کھاتے ہوئے آپ موبائل استمعال کر رہے تھے اور میری باتیں بھی نہیں سنیں آپ جانتے ہیں نا میں پورا دن آپ کا انتظار کرتی ہوں اور رات کو جب آپ آتے ہیں تو دن بھر کی باتیں کرتی ہوں اوپر سے اگر آپ اس وقت بھی فون استمعال کر کے مجھے ٹائم نہیں دیں گے تو برا تو لگے گا نا " رابیل کی بات پر شاہ زیب مسکرایا
"میں اس لڑکی کو کیسے اگنور کر سکتا ہوں رابیل جس کو مجھ سے میری دولت نہیں بلکہ صرف اور صرف میری محبت ، توجہ اور وقت چاہیے ۔ جو روز میرے آنے سے پہلے اتنی خوبصورتی سے میرے لئے تیار ہوتی ہے اور میرے منہ سے دو تعریف کے بول سن کر جس کی پورے دن کی تھکان اتر جاتی ہے میں اسے کیسے اگنور کر سکتا ہوں رابیل ۔۔ " شاہ زیب کے لہجے میں محبت تھی جو صرف رابیل کی تھی ۔۔ رابیل کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ۔۔
"جانتی ہو میں آج فون پر کیا کر رہا تھا "
"کیا " رابیل نے پوچھا
"ہمارے ٹکٹس کروانے  والا  تھا ہم گھومنے جائیں گے جس کنٹری تم کہو گی اوکے " شاہ زیب کی بات پر رابیل کی آنکھیں بی یقینی سے کھل گیں
"نہیں ۔۔ کیا سچ میں " رابیل نے بے یقینی سے پوچھا
"ہاں " شاہ زیب نے اثبات میں سر ہلایا
"آہ۔۔۔۔۔ شاہ ۔۔۔۔ تھنک یو تھنک یو تھنک یو سو مچ ہمیں کتنا ٹائم ساتھ گزارنے کو مل جاۓ گا "
"کیا تمھیں یہ خوشی نہیں کے تم کسی اور ملک جاؤ گی " شاہ زیب نے خیرت سر پوچھا
"مجھے کسی اور کنٹری جانے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے جس لمحے آپ میرے ساتھ ہوتے ہیں نا وہ پل میرے لئے سب سے قیمتی ہوتے ہیں پھر وہ ہمارے ملک میں ہوں یاں دوسرے "
"تم میرے لئے سب سے زیادہ قیمتی ہو " شاہ زیب نے اس کے ماتھے پر آئے بال پیچھے کے
"شاہ ہم پاکستان میں ہی گھومتے ہیں نا ۔۔ " رابیل نے پر جوش ہو کر کہا
"پاکستان میں کون سی جگہ پسند ہے تمھیں " شاہ زیب نے مسکرا کر پوچھا وہ ایک ہاتھ سے رابیل کے بال بار بار پیچھے کر رہا تھا
"ہم ناران چلتے ہیں ۔ آپ کو پتا ہے میری شرو ع سے خواہش تھی کے میں آپ کے ساتھ ناران جاؤں "
"اوہ گریٹ مجھے بھی بہت پسند ہے چلو اس ہفتے میں آفس کے کام ختم کر لوں نیکسٹ ویک کی تیاری کر لو اوکے " شاہ زیب کی بات پر وہ خوش ہو گئی
"انشااللہ " رابیل نے کہا ۔۔
____________________________
زندگی معمول کے مطابق چلنے لگی تھی گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ رابیل اور شاہ زیب میں انڈرسٹنڈنگ اور ہو گئی ۔ گلے شکوے دور ہونے کے بعد سے عدیل اور زری نے بھی اپنی زندگی کا آغاز ایک ساتھ کیا تھا ۔ پھر سے وہ رونق ان گھروں میں لوٹ آئی تھی جو پچھلے کچھ دنوں میں کھو سی گئی تھی ایک بے سکونی تھی تو عروا  کو تھی ۔ جب جب وہ وہ شاہ زیب اور رابیل کو ایک ساتھ دیکھتی تھی تو اس کا خون کھولتا تھا ۔ شاہ زیب عروا کی محبت سے زیادہ اس کی ضد رہا تھا اور یہ شرو ع دن سے تھا پہلے وہ شاہ زیب کو پسند کرتی تھی مگر جب سے زری نے  شاہ زیب کو عروا سے دور کرنا شرو ع کیا تھا تب سے وہ عروا کی ضد بن گیا تھا اسے حاصل کرنا ضروری سا لگنے لگا تھا اسے ۔۔ یہ ہی وجہ تھی کے جب رابیل سے  شاہ زیب کی  شادی بھی ہو گئی تب بھی عروا نے شاہ زیب کے  خواب نا چھوڑے  جب شاہ زیب کو حاصل کرنا مشکل لگنے لگا تو اس نے زری کو نشانہ بنایا ۔۔ اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی ۔ اب جب وہ عدیل اور زری کو ایک ساتھ خوش دیکھ رہی تھی تو اسے سکون نہیں مل رہا تھا . . .
__________________________
"عدیل بیٹا تم لوگ بھی پلان بناؤ گھومنے کا بیٹا نئی نئی شادی ہوئی ہے اپنی بیوی کو ذرا گھوما لو تا کے وہ بھی تھوڑی فریش ہو جاۓ " عامر صاحب نے اخبار سائیڈ پر رکھ کر سامنے بیٹھے عدیل سے کہا جو ٹی وی پر میچ دیکھ رہا تھا
"بابا آفس سے فری ہو لوں پھر چلیں گے " عدیل نے کہا
"اور یہ پتا نہیں کب فری ہو گان مجھے سچ میں پتا ہوتا نا تم اتنے بورنگ انسان ہو تو کبھی تم سے شادی نا کرتی " مصنوعی غصے سے بولتے ہوئے زری نے میز پر چاۓ کی ٹرے رکھی
"ارے تھوڑا لحاظ کر لو اب شوہر ہے تمہارا ذرا نہیں سوچتی یہ لڑکی جو منہ میں آتا ہے بول دیتی ہے " کلثوم بیگم تپ کر بولیں اور چاۓ اٹھائی وہ عدیل کے ساتھ ہی بیٹھی تھیں
"بیٹا لے جاؤ دیکھو رابیل اور شاہ زیب بھی جا رہے ہیں تم لوگ بھی فریش ہو جاؤ گے " دادی جان نے بھی کہا
"اچھا اچھا رابیل اور شاہ زیب واپس آ لیں پھر چلیں گے ۔ اگر میں بھی چلا گیا تو کام بہت بڑھ جاۓ گا آفس کا " عدیل نے بات سمبھالتے ہوئے کہا
"ہاں عدیل ٹھیک کہ رہا ہے زری بیٹا ۔ آج کل ویسے بھی آفس میں بہت کام ہے " جنید صاحب نے زری سے کہا تو وہ مسکرا کر رہ گئی اب کہتی بھی تو کیا ۔۔
"جیسے آپ کو ٹھیک لگے " زری نے مجبوری مسکراہٹ لائی . . . عدیل نے اس کی طرف دیکھا اورزری نے آنکھیں گھما کر دوسری طرف کیں عدیل بے  اختیار ہنسا . . کلثوم بیگم نے یک دم اسے دیکھا تو وہ چپ کر کے رہ گیا . . .
______________________
"رابیل ۔۔ رابیل ۔۔پرنسیس کہاں ہو " شاہ زیب نے گھر داخل ہوتے ہی رابیل کو آوازیں دینا شرو ع کر دیں ۔۔ مگر کوئی جواب نا آیا ۔۔
تو وہ کمرے کی طرف آیا رابیل سر ہاتھوں میں جهكڑ کر صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ رابیل کو ایسے دیکھ کر شاہ زیب تیزی سے اس کی طرف آیا
"رابیل آر یو اوکے ۔۔ کیا ہوا " شاہ زیب نے پریشانی سے پوچھا ۔ شاہ زیب کی آواز سن کر رابیل نے ہاتھ سر سے ہٹائے
"شاہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے " رابیل سست تھی ۔۔
"کیا ہوا ہے " شاہ زیب نے اس کے ماتھے پر ہاتھ لگایا ۔۔ بخار تو نہیں تھا ۔
"پتا نہیں سر گھوم رہا ہے میرا "
"چکر آ رہے ہیں " شاہ زیب نے پوچھا
"ہاں " رابیل نے جواب دیا
"کھانا کھایا تھا تم نےکیا  شائد بی پی لو ہوا ہو گا "
"نہیں کھانا نہیں کھایا کچھ کھایا بھی نہیں جا رہا "
"اچھا اٹھو ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں " شاہ زیب نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا
اور اسے کندھوں سے پکڑ کر سہارا دے کر باہر لایا گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کا دروازہ بند کیا اور پھر خود بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی ۔۔اور ہسپتال کے پارکنگ ایریا میں جا کر بریک لگائی ۔۔ گاڑی اوف کر کے وہ رابیل کو ہسپتال کے اندر لے کر گیا ۔۔۔
"شاہ زیب میں ابھی رابیل کی کنڈیشن کا کچھ کہہ نہیں سکتی لیکن یہ کمزور بھی کافی ہیں آپ ان کے کھانے پینے کا خیال رکھیں کچھ ٹیسٹ ہم نے لے لئے ہیں ۔۔ رپورٹس آنے میں ٹائم لگ جاۓ گا میں آپ کو فون کر کے رپورٹس کے لئے بلوا لوں گی " ڈاکٹر شاہ زیب کے دوست کی بیوی تھی اس نے کافی کو آپریٹ کیا تھا ۔۔ شاہ زیب رابیل کو لے کر گھر آ گیا ۔۔
________________________
"رابیل تم نے نا میری انسلٹ کروا دی ہے یار حد ہو گئی ہے " رابیل شاہ زیب کے ساتھ گھر داخل ہی ہوئی کے شاہ زیب نے کہا
"کیوں میں نے کیا کیا " بیگ ٹیبل پر رکھ کر وہ ہال میں صوفے پر بیٹھی
"کیا یار سب گھر والے سمجھیں گے میں تمہارا خیال نہیں رکھتا جو تم بیمار ہو گئی ہو ۔ تمھیں کمزوری  ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر بھی کھ  رہی تھیں کے تم ویک ہو گئی ہو " شاہ زیب کچن کی طرف جاتے ہوئے بولا
"ارے اس میں آپ کا قصور کدھر سے آ گیا شاہ ۔ اگر اپنے کھانے پینے کا خیال میں نہیں رکھوں گی تو اس میں آپ کی کیا غلطی ہے "
"پر اب تم ذمداری تو میری ہو نا " شاہ زیب کچن سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا جو آ کر اس نے رابیل کو پکڑایا ۔۔
رابیل نے مسکرا کر پانی کا گلاس شاہ زیب سے لیا اور پی کر اسے واپس کیا ۔۔
"تم چاۓ پیو گی " شاہ زیب گلاس واپس رکھنے گیا تو کچن سے ہی اونچی آواز میں بولا
"اگر آپ کی ہاتھ کی ہو گی تو ضرور پینا پسند کروں گی " رابیل نے جواب دیا ۔۔
شاہ زیب نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ چاۓ کے دو کپ لے کر کمرے میں گیا رابیل کمرے میں جا چکی تھی تو شاہ زیب بھی چاۓ ادھر ہی لے گیا ۔۔

"پتا اے شاہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کے آپ کے ساتھ کبھی میں اتنی فرینک بھی ہو جاؤں گی " کہتے ہوئے رابیل نے اس کے ہاتھ سے چاۓ پکڑی ۔۔
وہ بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھی تھی شاہ زیب بھی اس کے پاس آ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔۔
"تم ہمیشہ یہ کیوں کہتی ہو "
"کیوں کے آپ نے شادی سے پہلے مجھ پر اتنے رعب ڈالے ہیں کے مجھے بہت ہی زیادہ ڈر لگتا تھا آپ سے "
"ہاہا ۔۔اور اب نہیں لگتا " شاہ زیب نے پوچھا
"نہیں اب نہیں لگتا اب میں آپ کے ساتھ سب سے زیادہ کمفرٹیبل محسوس کرتی ہوں۔ آپ کے بغیر میں نے زندگی گزارنے کا کبھی سوچا بھی نہیں "
"کیوں خود کو میرا عادی بنا لیتی ہو رابیل کوئی بھی انسان آپ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے نہیں رہتا ۔ جب تم ایسی باتیں کرتی ہو نا کے تم میرے بغیر رہ نہیں سکتی تو مجھے ڈر لگتا ہے اور یہ سچ ہے "
" کیوں " رابیل نے پوچھا
"کیوں کے میں نہیں چاہتا تم مجھے اپنی عادت بناؤ ۔۔ رابیل اللہ‎ نا کرے اگر میں کبھی بھی تم سے دور ہوا تو تمھیں بے حد تکلیف ہو گی ۔۔"
"آپ مجھ سے دور نہیں ہوں گے شاہ۔ میں آپ کو کبھی کہیں نہیں جانے دوں گی ۔ آپ پر آنے والی ھر آفت کو پہلے آپ کی رابیل سے مقابلہ کرنا ہو گا "
"رابیل ایسے مت کہا کرو پلیز ۔۔ میں چاہتا ہوں میں ہوں یاں نا ہوں میری رابیل اتنی بہادر ہو کے اسکو خوش رہنے کے لئے میری  ضرورت نا پڑے وہ خود اپنے ساتھ ہی خوش رهنا سیکھ لے "

"آپ کے ساتھ میں مکمل ہوں اور مجھے آپ کے بغیر والی زندگی نہیں چاہیے " رابیل نے چاۓ کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا
"میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں رابیل ۔۔ " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا اور اپنا کپ سائیڈ پر رکھا ۔۔
شاہ زیب نے اس کی گود میں سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔ رابیل ہلکا ہلکا اس کے سر میں ہاتھ پھیر رہی تھی ۔
"شاہ ۔۔" رابیل نے اسے پکارا تو بند آنکھوں سے ہی اس نے جواب دیا
"ہمم ۔۔۔"
"آپ کو بے بی پسند ہیں " رابیل نے پوچھا ۔
شاہ زیب کی آنکھیں بند تھیں مگر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی
"بہت ۔۔۔" اس نے جواب دیا
"کیا۔۔۔ مطلب ۔۔بے بی گرل یاں بوائے " رابیل نے مسکراتے ہوئے پھر پوچھا
"دونوں " آنکھیں بند ہی تھیں وہ ایسے ہی اسے جواب دے رہا تھا
"سب سے زیادہ پیارے نام کون سے لگتے ہیں آپ کو " رابیل نے پھر سوال کیا
"لڑکی کے لئے آیت اور لڑکے کا شاہ زین " شاہ زیب نے فر سے  جواب دیا
"سو سویٹ " رابیل نے مسکرا کر کہا ۔۔
شاہ زیب خاموش رہا ۔۔ رابیل اسی طرح اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی اور اسے مسلسل دیکھ رہی تھی ۔۔
شاہ زیب وہ واحد انسان تھا جسے وہ سب سے زیادہ دیکھتی تھی ۔ ھر وقت اس کے بارے میں سوچتی تھی وہ ہوتا تھا  تو اسے دیکھتی تھی جب وہ نہیں ہوتا تھا تو اس کی تصویروں کو دیکھتی تھی ۔۔ اس نے اپنے دل میں صرف اور صرف شاہ زیب کو بسایا تھا جو اس کا شوہر تھا ۔۔ اس ایک شخص میں اس کی زندگی تھی وہ  شخص اس کی دنیا تھا ۔۔

"رابیل " شاہ زیب نے اسے آواز دی

"جی شاہ " رابیل نے پیار سے اس کی پہلی پکار پر ہی  جواب دیا

"میں تھوڑی دیر باہر گارڈن میں جا رہا ہوں " شاہ زیب اٹھتے ہوئے بولا
"کیوں شاہ کیا ہوا " رابیل نے پوچھا کیوں کے شاہ زیب کے چہرے پر یک دم اداسی چھا گئی تھی
"بس میں آ جاتا ہوں تھوڑی دیر میں " شاہ زیب نے کہا
"بتائیں تو پلیز شاہ " رابیل بے چینی سے بولی
"رابیل ۔۔ مجھے نا ۔۔۔ عبیرہ کی یاد آ رہی ہے ۔۔ میں تھوڑی دیر اکیلا رہنا چاہتا ہوں میں آ جاتا ہوں تھوڑی دیر میں " کتنے آرام سے اس نے کہ دیا تھا رابیل کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا

عبیرہ کا نام آج ایک بار پھر لے کر اس نے رابیل کی محبت کا چانٹا اس کے منہ پر مارا تھا ۔۔

"آپ کو جانے کی کیا ضرورت ہے میں خود ہی چلی جاتی ہوں ۔ کیوں کے چاہیے تو آپ کو تنہائی ہی نا ۔ میری غیر موجودگی تو آپ زحمت مت کریں " رابیل تیزی سے بیڈ سے اتری

"نہیں نہیں تم ریسٹ کرو میں چلا جاتا ہوں "

"نہیں شاہ میں پہلے بھی کافی بار اس  کمرے سے نکالی گئی ہوں اب مجھے فرق نہیں پڑتا " رابیل کی آنکھیں غصے سے لال ہو رہی تھیں
"کیا مطلب " شاہ زیب نا سمجھی سے بولا

اپنی ہی محبت سے مکرنا پڑا مجھے
جب دیکھا اسے روتے کسی اور کے لئے

"مطلب یہ کے ۔ میں بھی انسان ہوں جب چاہا اس لڑکی نا نام میرے سامنے لے لیتے ہیں آپ نے کبھی ایک بار بھی اس کا نام لیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کے میں آپ کی بیوی ہوں ۔ آپ سے محبت کرتی ہوں مجھے برا لگ سکتا ہے ۔ میں ہمیشہ برداشت کرتی رہی مگر کسی چیز کی حد بھی ہوتی ہے آخر ہے کیا وہ لڑکی کیوں وہ آپ کے حواسوں پر اب تک چھائی ہوئی ہے کیوں آپ اسے چاہ کر بھی بھول نہیں پاتے ۔۔ نہیں بھول پاتے تو نا بھولیں پر میرے سامنے اس کا نام لے لے کر میرے صبر کا امتحان کیوں لیتے ہیں آپ ہاں ؟؟ اگر آپ اس سے محبت کرتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کے میں بھی آپ سے محبت کرتی ہوں۔ " رابیل غصے سے بول رہی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگ گئے تھے مگر وہ بولتی گئی

جب کیا اس نے شریک
میری  محبت میں کسی اور  کو
تم معلوم ہوا یا رب
تو شرک معاف کیوں نہیں کرتا

"جب جب ہمارے بیچ سب ٹھیک ہونا شرو ع ہوتا ہے آپ اس لڑکی کو بیچ میں لے آتے ہیں اور پھر ایک بار میں آپ کے  دل میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہو جاتی ہوں۔ اگر اس سے اتنی محبت تھی تو مجھ سے شادی کیوں کی " رابیل نے غصے سے پوچا ۔۔
"تم سے شادی میں نے مجبوری میں کی تھی رابیل " شاہ زیب جو خیرت سے اسے دیکھ رہا تھا بولا
"تو اب کون سی مجبوری ہے اب اس مجبوری کو ٹھیک کر لیں ۔ کم از کم اب آپ کو کوئی روکے گا نہیں اب آپ اپنی مرضی کر سکتے ہیں اب فیصلہ کر دیں اگر میرا رہنا ہے تو صرف اور صرف میرا ہی رہنا ہے میں دوبارہ یہ سب برداشت بھی نہیں  کروں گی اور اگر آپ اسے نہیں بھول سکتے تو آپ جا سکتے ہیں " رابیل جذباتی پن میں بہت بری بات کر گئی تھی اسے کرنی بھی تھی وہ اب اس طرح اپنی زندگی بسر نہیں کر سکتی تھی
"تم ہوش میں تو ہو کیا کہی جا رہی ہو " شاہ زیب کو بھی اب غصہ آنا شرو ع ہو گیا تھا

دعوہ فقط یہ تو نہیں تھا کے تم میرے ہو
دعوہ تو یہ تھا کے ہم ایک دوسرے کے تھے
میں ہاتھ جوڑتی ہوں غلطی ہو گئی معافی دے دیجئے
مجھے علم ہی نہیں تھا آپ  کسی دوسرے کے تھے

"ہاں ہوش میں ہی ہوں میں ۔ میں تھک گئی ہوں شاہ ۔۔۔ مجھے ایسے انسان کے ساتھ نہیں رہنا جو دل سے میرا کبھی تھا ہی نہیں صبح تک فیصلہ کر لیں ۔۔ میں اس طرح کی زندگی نہیں گزار سکتی ۔" غصے سے کہ کر وہ جانے لگی تو ٹیبل سے ٹکراتے ٹکراتے بچی
"دیکھ کر چلو نا  " شاہ زیب بے اختیار بولا

انائیں اہم ہیں فل وقت
محبت پھر سہی جاناں

"آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے " رابیل نے غصے سے جواب دیا اور کمرے کا دروازہ جاتے ہوئے دھڑام سے بند کیا ۔۔۔ شاہ زیب دیکھتا ره گیا

درد کی ہے انتہا مسکرانا چاہیے
اور ہے اگر مجھ سے کوئی گلا تو جا سکتے ہیں جائیے
تنگ گلیوں کے تجربے رائگاں نا جائیں گے
دھوکہ ہے اچھا تجربہ ایک بار یہ بھی کھائیے
___________________
جب آپ کسی کے جواب کے منتظر ہوں تو اس وقت وہ انتظار کے لمحے کاٹنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ رابیل کے لئے بھی مشکل تھا ۔ ایک احساس تھا اس کی محبت کا ایک جذبہ تھا اسے پانے کا ایک عادت تھی اس کے ساتھ کی ۔
رابیل نے تو اپنا سب کچھ سچ میں شاہ زیب کے نام کر دیا تھا ۔۔۔۔ اس کا سب کچھ دائوں پر لگا تھا
اس وقت وہ غصے میں تھی اور شدید غصے میں . . . اتنے غصے میں شاہ زیب نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔ ٹیرس پر کھڑی وہ غصے کو کنٹرول کر رہی تھی شاہ زیب سے بد تمیزی وہ کر نہیں سکتی تھی اور نا مزید کچھ بول سکتی تھی کیوں کے اس سے  شاہ زیب کو دکھ پوھنچتا اور شاہ زیب خوش نا ہو تو رابیل کو خوشی کیسے مل سکتی تھی ۔۔
پتا نہیں شاہ زیب کیا سوچ رہا تھا اسے چھوڑ دے گا یاں نہیں ۔۔ رابیل کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا مگر اب وہ خود کو ھر فیصلے کے لئے تیار کر چکی تھی وہ اسے اپنا لے تو بھی ٹھیک اگر چلا گیا تو بھی رابیل اسے نہیں روکے گی وہ سوچ چکی تھی ۔ جب وہ دل سے اس کے ساتھ ہے ہی نہیں تو رابیل اس کا کیا کرے گی ۔ اسی  سوچ نے رابیل کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا تھا ۔ وہ جان چکی تھی جب تک عبیرہ شاہ زیب کے دل میں رہے  گی رابیل اس کی کبھی نہیں ہو پائے گی ۔

وہ میرے ساتھ تھا اور میں اداس تھا
اس میں بھی ایک بہت بڑا راز تھا
وہ سمجھتا تھا مجھے کچھ بھی دکھتا نہیں
دکھ جاتا تھا وہ اس کا خاص تھا

ٹی پنک کرتا اور وائٹ کیپری اس نے پہن رکھی تھی ۔ بال کھلے ہوئے تھے ۔۔جو ہوا کی وجہ سے اڑ رہے تھے ۔ پوری رات وہ چھت پر کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ چکر کاٹتی رہی ۔۔ وہ اسے لینے نہیں آیا تھا ۔ اور رابیل میں بھی کہیں نا کہیں تھوڑی انا آ چکی تھی۔ ۔ وہ خود ہرگز شاہ زیب کے پاس نہیں جانے والی تھی۔۔ ایک مسلسل فکر تھی اور وہ یہ کے شاہ زیب کا فیصلہ کیا ہو گا ۔۔ وہ آج تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔۔ وہیں کونے میں بیٹھ کر اس نے سر گھٹنوں پر جھکا لیا ۔ رونا کنٹرول کر کر کے اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔۔
صبح ہو چکی تھی رابیل وہیں کونے میں بیٹھی تھی ۔۔
کیا وہ سویا تھا ؟
کیا اب اٹھ گیا ہو گا ؟
کس طرح سویا ہو گا رات بھر یہ سوچے بغیر کے میں  یہاں ہوں ؟
اسے نیند آ گئی ہو گی ۔۔
بہت سی سوچیں رابیل کے دماغ میں تھیں جب کسی کے قدموں کی آہٹ رابیل کو محسوس  ہوئی ۔۔

"رابیل " آواز شاہ زیب کی تھی رابیل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔ وہ وائٹ شلوار کمیز پہنے ہوئے تھا۔

اس کی آنکھوں سے لگ رہا تھا شاہ زیب بھی رات بھر نہیں سویا تھا ایک عجیب سا اطمینان رابیل کے اندر شاہ زیب کے آنے سے آیا تھا ۔
"شاہ زیب نے آگے ہاتھ بڑھا کر اس کے سامنے کچھ کیا رابیل نے اس کی ہتھیلی پر نظر ڈالی وہ چابیاں تھیں ۔
لیکن کس چیز کیں ۔۔
چابی پر نظر پڑتے وہ کرنٹ کھا کر اٹھی ۔۔

"یہ کیا ہے " آنکھیں سرخ تھیں ۔۔
رابیل نے ایک بار ہتھیلی کو تو دوسری بار شاہ زیب کو دیکھ کر پوچھا
"چابییاں گھر کی ۔۔
بابا نے یہ گھر تمہارے نام کروایا تھا اس لئے تمھیں مبارک ہو " وہ کھڑا ہوا بولا
آج سچ میں رابیل کو محسوس ہوا کے پیروں تلے سے زمین کیسے نکلتی ہے ۔

"کک۔۔ کیا مطلب " اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔

"خوش رہو تم " شاہ زیب کہ  کر مڑا

دلایا تھا اگر بھروسہ تو پھر نبھانا چاہیے تھا
کس کے ہاتھ تھاما تھا ایسے تو نا چھڑانا چاہیے تھا
ناراضگی میں بھی امید یہ تھی کے تم سمجھا دو گے
بس روٹھا ہی تھا نا یار منانا چاہیے تھا

"کک۔۔ کہاں جا رہے  ہیں " رابیل نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کیا ۔۔
"تم نے ہی تو کہا تھا نا فیصلہ کرنے کے لئے ۔ تو لو کر لیا فیصلہ میں نے ۔ رابیل میں نے تمھیں سب سے پہلے اپنی بیسٹ فرینڈ سمجھا تھا بعد میں بیوی تمہارے سامنے میں ھر بات کر سکتا تھا جو کچھ  مجھ سے اور عبیرہ سے جڑی ہو مگر تم نے کیا کیا اتنا عرصہ اچھے بننے کا ناٹک کرتی رہی اور آخر اپنی اصلیت اور اپنا ظرف دکھا ہی دیا ۔ تم مجھے سمجھی ہی نہیں رابیل ۔ تم نے مجھے دھوکے میں رکھا " وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔
شاہ زیب کی آنکھوں میں دکھ تھا

آنکھوں کا رنگ لال ہوا تو باتیں کرنا بھول گئے
شہرِ دل پا مال ہوا تو باتیں کرنا بھول گئے
کب سے بارش کر رکھی تھی تم نے سی سوالوں کی
خود پر ایک سوال ہوا تو باتیں کرنا بھول گئے

"ناٹک ۔۔ شاہ۔۔ نن۔۔ ناٹک تو نہیں تھی میری محبت " رابیل کی آنکھیں بھر رہی تھیں

ہے نہیں اور ہاں سے کیا مطلب
ہم کو سودوضیاں سے کیا مطلب
تم اشارے نہیں سمجھتے کیوں ؟
ساری باتیں زبان سے کیا مطلب

"اور کیا تھا رابیل ۔تمہاری محبت ، محبت ہے اور میری محبت کیا ہے ہاں ۔ میں نے عبیرہ سے بہت محبت کی ہے رابیل اور اب تک کرتا ہوں وہ میرے دل و جان میں موجود ہے تم تو کیا کوئی بھی آ کر اسے مجھ سے دور  نہیں کر سکتی ۔۔ اس کی یادیں میرے لئے کافی ہیں وہ ہو یاں نا ہو ۔۔ پر ایک بات یاد رکھنا تم پر بھروسہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی مجھے تم پر  اعتبار ہی نہیں کرنا چاہیے تھے اس رشتے کو بہت پہلے ہی ختم ہو جاتا چاہیے تھا ۔۔ خیر ۔۔ مجھے دکھ ہے کے تم مجھے سمجھ نہیں پائی " غصے سے کہ کر وہ سیڑیوں کی طرف بڑھا ۔۔اور چلا گیا

اس نے کہاں الوداع میں نے کہا شکریہ
اس نے کہا میں چلا میں نے کہا تخلیہ

دو منٹ تک وہ اپنی جگہ ساکن رہی ۔۔ شاہ زیب کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔ وہ اسے کیا کچھ کہ گیا تھا ۔۔ وہ تو ایسی نہیں تھی ۔۔ ہوش میں آتے ہی اسے احساس ہوا کے شاہ زیب جا رہا ہے وہ تیزی سے آوازیں دیتی ہوئی نیچے کو بھاگی . . .

عجیب زمانہ ہے
لاحاصل کو روتا ہے
اور حاصل کو رلاتا ہے

"شاہ ۔۔ شش۔۔۔ شاہ " وہ ہال میں سے آوازیں دیتی ہوئی باہر نکلی ۔۔۔
وہ گاڑی سٹارٹ کر رہا تھا ۔۔۔
"شاہ ۔۔۔میری بات سنیں ایک بار میری بات سنیں " رابیل آوازیں دیتی ہوئی اس کی گاڑی کی طرف بڑھی ۔۔
شاہ زیب نے گاڑی سٹارٹ کر دی تب تک وہ اس کی گاڑی کے پاس پوھنچ چکی تھی۔۔
"شاہ میری بات تو سنیں " اس کی گاڑی کو ہاتھ لگاتے ہوئے رابیل نے کہا۔۔ وہ دروازہ پیٹ رہی تھی  مگر وہ نہیں رکا تھا ، اسے ترس بھی نہیں آیا تھا اور گاڑی سے اس کا ہاتھ دور ہوتا چلا گیا وہ چلا گیا تھا ایک بار پھر ۔۔

"شاہ ۔۔۔شاہ ۔۔۔  میری بات تو سنیں " وہ چلاتی رہی مگر جانے والے نے ایک نہیں سنی تھی

ایک بھرم تھا توڑنا ضروری تھا ؟
میری روح کو جھنجھوڑنا ضروری تھا ؟
انداز بدلتے رنگ بدلتے میں برداشت کر لیتی
مجھے اس طرح سے چھوڑنا ضروری تھا ؟

رابیل تو شاہ زیب کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی وہ کیسے رہے گی اس کے بغیر پہلے بھی وہ یہ جدائی سہ چکی تھی اب اس میں ہمت نہیں تھی کے وہ شاہ زیب کی جدائی سہے ۔ اس نے شاہ زیب سے کہا تھا کے وہ شاہ زیب کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ ہاں وہ نہیں رہ سکتی تھی اسے تو ایسی زندگی نہیں چاہیے تھی ۔۔۔ رابیل کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔۔
وہ جلدی سے گھر کی طرف بڑھی ۔۔ جو پہلی سوچ آئی تھی وہ کرنے کا فیصلہ اس نے سیکنڈ میں کیا تھا ۔ہال میں داخل ہوتے ہی اس نے کمرے کا رخ کیا ۔۔

رابیل  نے اسے اس وقت چاہا جب شاہ زیب  کا کوئی نا تھا اور اس نے رابیل کو اس وقت چھوڑا جب رابیل کا  اس کے سوا کوئی نا تھا ۔ رابیل نے اس کی عبیرہ کو بھولانے میں مدد کی تھی اور اس نے رابیل کو اپنی ہی جدائی کا دکھ دے دیا تھا ۔۔

غصہ رابیل پر طاری ہو  چکا تھا شاہ زیب اسکی انا کو ٹھس پوھنچا کر گیا تھا ۔ کمرے میں آتے ہی اس نے شاہ زیب کی الماری کھولی کپڑے ادھر ادھر کرنے پر رابیل کے ہاتھ وہ پستول لگ چکی تھی جو شاہ زیب لایا تھا ۔۔
بنا کچھ سوچے سمجھے رابیل نے وہ پستول اٹھائی ۔۔۔
اس کے ہاتھ کانمپ رہے  تھے ۔
غصے سے لال آنکھیں تھیں ۔
  رابیل نے آنکھیں بند کر کے پستول کو اپنی کن پٹی پر رکھا ۔۔ اسے چلانی تو کیا پكڑنی بھی نہیں آتی تھی مگر اس وقت اسے ہمت آ چکی تھی ۔۔ آنکھیں بند کر کے اس نے پستول کن پٹی کے پاس رکھی اس وقت صرف ایک ہی چہرہ اس کے سامنے آیا تھا اور وہ تھا شاہ زیب کا ۔۔۔۔
وہ اسے خود سے دور اور بہت دور جاتا محسوس ہو رہا تھا ۔

یک دم رابیل کا فون بجا ۔۔ شاہ زیب کا فون ہوگا سمجھ کر وہ ایک منٹ کو رکی اور جھک کر بیڈ سے فون اٹھایا ۔۔
فون پر ڈاکٹر تحریم کالنگ آ رہا تھا رابیل نے فون اٹینڈ کیا مگر خاموش رہی فون سپیکر اون کیا ۔ دوسرا ہاتھ اب بھی اسکی کن پٹی پر تھا ۔۔
"ہیلو رابیل ۔۔ بہت بہت مبارک ہو " ڈاکٹر تحریم کی خوش گوار آواز گھونجی ۔۔
رابیل کو کچھ سمجھ نا آیا

"تمہارے رپورٹس آ گئی ہیں۔ یو آر ایکسپیکٹنگ رابیل ۔۔ "ڈاکٹر تحریم نے خوشی سے بتایا ۔۔
رابیل کی گرفت پستول پر ڈھیلی ہوئی
"ہیلو ۔۔ ہیلو ۔۔ " کچھ جواب نا پا کر انہوں نے فون بند کر دیا
رابیل نے فون بیڈ پر پھینکا ۔۔۔
پستول پر گرفت ڈھیلی ہو چکی تھی رابیل نے یک دم زور سے پستول کو سامنے دیوار پر مارا
"نو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ چلاتے ہوئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی
"آہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ۔۔۔۔۔" سر کو ہاتھوں میں جھکڑ  کر  وہ چیخی
"میں یہ کیا کرنے جا رہی تھی ۔۔ اللہ‎ تعالیٰ میں کیا کرنے جا رہی تھی کیا میرے غصے نے مجھے اتنا کمزور بنا دیا تھا کے میں اتنا بڑا گناہ کرنے جا رہی تھی ۔ یہ تو حرام عمل ہے میں یہ کرنے جا رہی تھی اللہ‎ تعالیٰ مجھے معاف کر دیں مجھے معاف کر دیں۔۔ شکر ہے آپ نے مجھے بچا لیا ایسے عمل سے ۔ مجھے معاف کر دیں اللہ‎ تعالیٰ مجھے معاف کر دیں  " وہ ادھر ہی اونچا اونچا کہنے لگی ۔۔ اسے فوری طور پر ہی احساس ہو گیا تھا کے وہ کتنا بڑا گناہ کرنے جا رہی تھی اللہ‎ تعالیٰ نے ڈاکٹرتحریم کے ذریعے اسے اس گناہ سے بچا لیا تھا ۔ وہ بچ گئی تھی۔۔
کافی دیر وہ اسی طرح بیٹھی روتی رہی مگر کب تک ۔۔شاہ زیب واپس نہیں آنے والا تھا ۔۔۔۔ آنسو صاف کر کے وہ اٹھی اور اپنی الماری کی طرف  بڑھی ۔۔
بیگ رکھ کر اس نے کپڑے اندر رکھنا شرو ع کیے ساتھ شاہ زیب کے کپڑے پڑے تھے جو رابیل نے رکھے تھے ۔۔۔ رابیل نے ایک نظر ان پر ڈالی ۔۔

نہیں کرنا دل نے دوبارہ بھروسہ یار تیرا
نہیں سمجھا تو میرے دل کو
نہیں پیار سمجھ تجھے آیا
تھا جتناچاہا تجھ کو
اتنا ہی تو نے رلایا
ہم نے تو کی تھی دل سے وفا
پر تو نے کیسا صلا ہے دیا
نہیں کرنا دل نے دوبارہ
بھروسہ یار تیرا ۔۔۔

وہ اس گھر میں رک نہیں سکتی تھی اس گھر میں شاہ زیب کی یادیں تھیں جو اسے جینے نا دیتیں ۔ اسے جانا تھا اب وہ شاہ زیب کی یادوں کے ساتھ رہ کر اپنے آپ کو ہرٹ نہیں کر سکتی تھی ۔۔

چپ کیوں ہو تم بولو ذرا کیا مجھ سے چھپا رہی ہو
ملتے بھی مل کے بھی تم کہاں دور جا رہی ہو 
نہیں سن رہا  میری التجا تیرا دل بھی تیری طرح ہے
نہیں مانتا تجھے بے وفا میرا دل بھی میری طرح ہے
نہیں کرنا دل نے دوبارہ بھروسہ یار تیرا

بیگ چوکیدار کو کہ کر اس نے گاڑی میں ركهوايا اور اسے گھر کا خیال رکھنے کا کہ کر وہ گاڑی میں بیٹھی ۔ بارش ہونے لگ گئی تھی وہ اپنے والدین کے گھر پوھنچ چکی تھی گاڑی سے نکل کر اس نے بیگ نکالا ۔ پر آج ہمت نہیں تھی اندر جانے کی وہ وہیں گارڈن میں بیٹھ گئی ۔ بارش تیزی سے ہو رہی تھی اس کے بال بھیگ رہے تھے بے پروا ہو کر وہ وہیں بیٹھ گئی تھی ۔ ٹھنڈ بھی ہو رہی تھی مگر اسے جیسے کچھ بھی محسوس ہونا بند ہو گیا تھا ۔ آنسو بھی نہیں نکل رہے تھے وہ بس گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ خود کو اندر جا کر سب کو فیس کرنے کے لئے تیار کر رہی تھی ۔

مجھے دکھ نہیں کسی بات کا
تیری بے رخی ستائے
جو کہے سبھی تیرے لفظ تھا
تو نے کس طرح بھولائے
مجھے چھوڑ کے دل توڑ کے
تجھے کیا ملا بتا دے
نہیں مل رہا مجھ میں کہیں
مجھے خود سے تو ملا دے
ہم نے تو کی تھی دل سے وفا
پر تو نے کیسا صلہ ہے دیا
نہیں کرنا دل نے دوبارہ بھروسہ یار تیرا

گہرا سانس لے کر وہ اندر جانے کے لئے اٹھی ۔۔

_______________________
ہال میں بیٹھے سب ڈنر کر رہے تھے جب رابیل وہاں پوھنچی بارش کی وجہ سے وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی ۔ عدیل کی نظر دروازے پر پڑی جہاں رابیل کھڑی سب کو دیکھ رہی تھی ۔ اسے دیکھتے ہی عدیل کے چہرے پر کئی رنگ آئے کئی گئے ۔ وہ تیزی سے کرسی چھوڑ کر اٹھا
"رابیل کیا ہوا ہے تمھیں " تقریباً  بھاگتا ہوا وہ رابیل کے پاس پوھنچا سب نے مڑ کر اسے دیکھا
حال و بے حال وہ کھڑی تھی ۔ رنگ اڑا ہوا تھا ۔ آنکھوں میں نمی ، بال پوری طرح بھیگے ہوئے تھے ، دوپٹہ پھیلا کر چادر کی طرح کندھوں پر لیا ہوا تھا ۔ اس کی حالت دیکھ کر سب پریشان ہو گئے ۔
"کیا ہوا بتاؤ گی " عدیل نے اس کے کندھوں سے اسے جھنجھوڑا
سب پریشانی سے اٹھ کر رابیل کی طرف آئے
"شاہ زیب کدھر ہے " عدیل نے حال کے دروازے سے باہر کی طرف نظر دوہڑائی
"ارے اندر تو لاؤ میری بچی کو کیا ہو گیا ہے اسے " دادی جان نے کہا
تو زری اسے تھام کر ہال کے اندر لائی عدیل اس کا بیگ اٹھا کر لایا
"کیا ہوا رابیل " عامر صاحب نے پریشانی سے پوچھا
رابیل نظر جھکائے خاموش کھڑی رہی
"رابیل میرا شاہ زیب کہاں ہے بچے بتاتی کیوں نہیں ہو " کلثوم بیگم نے پریشانی سے پوچھا
"رابیل کچھ تو بولو " اس کی خاموشی سے تنگ آ کر نگہت بیگم نے زور دے کر بولا رابیل نے خالی نظروں سے نگہت بیگم کو دیکھا
"بولو بیٹا شاہ زیب کہاں ہے " جنید صاحب نے کہا
"چلا گیا " رابیل انہیں دیکھ کر بولی اس کے لہجے میں کوئی احساس نہیں تھا ھر احساس جیسے کہیں ختم سا ہو گیا تھا
"کیا مطلب کہاں چلا گیا رابیل " زری نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف مخاطب کیا
"دور ۔۔(ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا ) مجھے چھوڑ کر " آخری بات پر لہجے میں لچک آئی تھی

وہ جس کی سانس پر تحریر تھی حیات میری
اسی کا حکم ہے اب رابطہ نہیں کرنا

"تم ٹھیک تو ہو ایسے کیسے چلا گیا دور تمھیں چھوڑ کر کوئی بچا تھوڑی ہے " دادی جان نے کہا
"چلا گیا دادی مجھے چھوڑ گیا اب کبھی واپس نہیں آئے گا اس نے  کہا ہے " رابیل سنجیدگی سے بولی اس کی آنکھوں میں نمی تھی مگر وہ رو نہیں رہی تھی
"کیا ہوا کیا ۔کیوں چلا گیا کدھر چلا گیا آخر کچھ بتاؤ گی بھی تم کے نہیں " کلثوم بیگم کو مزید پریشانی ہو رہی تھی
"ہم دونوں ساتھ نہیں رہ سکتے تائی امی (اس نے گہرا سانس لیا ) اس لئے ہم نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے " بات مکمل ہوتے ہی اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے مگر وہ رو نہیں رہی تھی سپاٹ چہرہ تھا
پھر یوں ہوا کے حسرتیں پیروں میں گر پڑیں
پھر میں نے ان کو روند کر قصہ ختم کیا

"یا اللہ‎ خیر " سر تھام کر دادی جان صوفے پر ڈھے سی گئیں
"ایسے کیسے بیٹا کوئی تو وجہ ہو گی نا ایسے اتنا بڑا فیصلہ کرنا آسان تھوڑی ہے " عامر صاحب نے کہا
"بابا پلیز مجھ سے وجہ نا پوچھیں جب شاہ آئے آپ خود پوچھ لیجئے گا میں اس امتحان کے لئے بلکل بھی تیار نہیں ہوں  " رابیل کی آنکھوں میں آنسو تھے عدیل نے اسے اپنے ساتھ لگایا رابیل نے آنکھیں میچ لیں
"یہ کیا حرکت ہے رابیل شاہ زیب ایسے کیسے کر سکتا ہے تمہارے ساتھ اور کوئی لحاظ کرتا نا کرتا اتنا تو سوچتا کے اسکی اپنی بہن کی شادی تمہارے بھائی سے ہوئی تھی کمپرومائز ہی کر لیتا اتنا بڑا فیصلہ کر لیا اس نے " نگہت بیگم غصے سے بولیں
"امی کمپرومائز آپ کہ رہی ہیں ہم کمپرومائز کر لیتے ۔ جب سے شادی ہوئی ہے کمپرومائز ہی تو کر رہے ہیں کبھی وہ تو کبھی میں " وہ عدیل سے الگ ہو کر نگہت بیگم سے سنجیدگی سے مخاطب ہوئی
"آپ سب نے ہمارے فیصلہ ہم سے پوچھ کر کیے  ہی کب تھے " رابیل جنید صاحب کو دیکھ کر بولی
"ہم نے پوچھا تھا آپ سب سے " کلثوم بیگم نے جواب دیا
"تائی امی وہ پوچھا نہیں تھا آپ سب نے اپنے فیصلے ہم پر ڈالے تھے پوچھیں دادی جان سے کے انہوں نے کیسے منایا تھا شاہ زیب کو مجھ سے شادی کرنے کے لئے دیں جواب دادی جان آپ نے شاہ زیب سے زبردستی کی تھی یاں نہیں۔۔ آج اسی زبردستی کو وجہ بنایا ہے اس نے  " اب وہ دادی جان سے مخاطب ہوئی جو رابیل کی بات پر گہری سوچ میں ڈوب گئیں
"مجھ سے شادی پر شاہ زیب شرو ع سے ہی راضی نہیں تھے یہ بات میں شرو ع سے ہی جان چکی تھی ہم دونوں تو ایک دوسرے کے ساتھ کمپرومائز کر رہے  تھے کوشش کر رہے تھے ساتھ رہنے کی پتا ہے ایسا کیوں کر رہے تھے صرف اس لئے کے ہمارے ساتھ عدیل اور زری کا رشتہ بھی جڑا ہے آپ نہیں ان دونوں کے رشتے نے مجھے اور شاہ زیب کو ساتھ جوڑ کر رکھا ہوا تھا مگر اب مزید نہیں ۔ اب مزید اس تکلیف میں ،میں شاہ کو نہیں رکھ سکتی۔ الگ ہونا بہتر تھا ہم نے فیصلہ کر لیا ہے  " وہ رو دینے کو تھی
"رابیل نکاح کے بولوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے مجھے یقین تھا کے شاہ زیب کے دل میں تمہارے لئے محبت پیدا ہو جاۓ گی " دادی جان نے کہا
"ہاں ہوتی ہے طاقت۔ بہت ہوتی ہے ۔ لیکن دادی جان اگر وہ میرا ہوا تو لوٹ آئے گا اگر اس کے اندر میرے لئے محبت نہیں تو ہم الگ ہو جائیں گےاب جو فیصلہ ہو گا مجھے قبول ہو گا مگر پلیز پلیز اب مزید ہمارے لئے آپ سب مشکلیں مت بڑھائیں ہمارے فیصلہ کو تسلیم کر لیجئے گا پلیز " رابیل ہاتھ جوڑ کر بولی عامر صاحب نے محبت سے اسے اپنے ساتھ لگایا
"میرا بچہ " انھوں نے اس کے سر پر پیار دیا ان کی آنکھیں بھی نم ہو چکی تھیں
"بابا پلیز میرا ساتھ دیں " رابیل نے سر اٹھا کر ان کے آنسو صاف کے
"ہم تمہارے ساتھ ہیں رابیل بیٹا آگے فیصلہ کر کے ہم تم دونوں کے ساتھ زیادتی کر چکے ہیں اب نہیں کریں گے " جنید صاحب سے اسے تسلی دی
"تھینک یو سو مچ تایا ابا " رابیل مسکرائی
زری آگے بڑھ کے اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے گئی
________________________
کمرے میں زری نے اس کا بیگ رکھا رابیل بھی چلتے ہوئے اس کے ساتھ ہی آئی ۔۔
"آ جاؤ کھانا کھا لو تم " زری نے رابیل سے کہا
"نہیں زری مجھے بھوک نہیں " رابیل نے ٹالا
"رابیل پہلے تو تم چینج کرو پھر دل ہے یاں نہیں بس تم آؤ اور آ کر کھانا کھاؤ " زری نے آرڈر دیا
"یار میں بس اکیلا رہنا چاہتی ہوں زری پلیز ۔ بس آج رات ۔ پھر نہیں کہوں گی کبھی ایسا ۔ آج مجھے میری مرضی سے رہ لینے دو " رابیل منت کر رہی تھی
"کیا ہو گیا رابیل ایسے تو نا کہو ۔ دیکھو سب ٹھیک ہو جاۓ گا تم ریسٹ کرو اوکے " زری نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا اور پھر پیار سے اس کا ماتھ چوم کر چلی گئی . .

چھپائے چھپ نہیں سکتے سکتے
کچھ ایسے جذبات باقی ہیں
میری روح تک کو درد دے گئے
اب بھی تیرے الفاظ باقی ہیں
نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے
شائد تیرے ملنے کی آس باقی ہے

کپڑے چینج کر کے وہ کمرے میں آئی ۔ عجیب بے دلی تھی اس نے کپڑے بھی الماری میں نہیں رکھے تھے ۔ صرف ایک سوچ تھی کے وہ کہاں ہو گا ۔ نا جانے کیوں رابیل کے ساتھ شاہ زیب نے اتنا کچھ کر بھی دیا تھا تب بھی رابیل اس سے نفرت نہیں کر پا رہی تھی وہ اب بھی شاہ زیب کے ہارے میں ہی سوچ رہی تھی ۔۔ شیشہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے یس نے خود پر ایک نظر ڈالی ۔ اب اس کے ساتھ ایک اور زندگی جڑی تھی ۔ رابیل کو رونا نہیں تھا نہیں جو مذاق شاہ زیب اس کی محبت کا بنا کر گیا تھا رابیل وہ بھول نہیں سکتی تھی ۔ اسے جینا تھا ہنسی خوشی اپنے لئے نا سہی تو اپنی اولاد کے لئے آخر کب تک وہ شاہ زیب کے چھوڑ جانے کا دکھ مناۓ گی۔ سب گھر والوں کے سامنے وہ خ چکی تھی کے فیصلہ اس کی مرضی سے ہوا ہے اب وہ کسی کے سامنے کمزور نہیں پڑے گی ایک بار شاہ زیب کے سامنے وہ اپنا وقار کھو چکی تھی مزید نہیں ۔۔اسے خود کو بدلنا تھا وہ سوچ چکی تھی ۔۔

دل پر ایک قفل ہے کھولیں گے تو مر جائیں گے
ہم اگر زخمِ دل ٹتولیں گے تو مر جائیں گے
ہم میں جو زہر ہے وہ زہر اگلنے دو ہمیں
ہم اگر پیار سے بولیں گے تو مر جائیں گے
جس قدر نیند اکٹھی ہے میری آنکھوں میں
ایک ہی بار میں سو لیں گے تو مر جائیں گے

____________________
صبح نماز سے فارغ ہو کر بھی وہ کمرے میں ہی رہی تھی جب نیچے سب کی باتوں کی آواز آنے لگی تو وہ بھی کمرے سے باہر آئی ۔۔سیڑیاں اتر رہی تھی جب اس نے غور کیا کلثوم بیگم کے ہاتھ میں کاغذ تھے جن کو نگہت بیگم ، کلثوم بیگم ار زری غور سے پڑھ رہی تھیں دادی جان تجسس سے پاس کھڑی تھیں ۔
رابیل کو آتا دیکھ کر سب رابیل کی طرف متوجہ ہوئے ۔ رابیل کلثوم بیگم کے ہاتھ میں کاغذ دیکھ چکی تھی ۔ ایک خوف کی لہر رابیل کے اندر دوڑی تھی
"رابیل " زری تیزی سے اس کی طرف بڑی اور رابیل کو گلے لگایا
رابیل نا سمجھی سے دیکھ رہی تھی
"کیا ہے یہ " زری کو خود سے الگ کرتے ہوئے رابیل نے پوچھا
"یہ ڈاکٹر تحریم نے بھیجی ہیں رابیل تمہاری رپورٹس " کلثوم بیگم نے خوشی سے کہ کر رابیل کا ماتھا چوما
نگہت بیگم اور دادی جان  بھی خوشی سے رابیل کو ملیں ۔
"اچھا " رابیل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ رپورٹس پکڑیں
"تم جانتی تھی " نگہت بیگم کو خیرانگی ہوئی
"جی " رابیل نے رپورٹس دیکھتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا
"تو بتایا کیوں نہیں " کلثوم بیگم نے دوسرا سوال کیا
"مجھے بھی کل ہی پتا چلا " رابیل نے جواب دیا
"پھر بھی یہ فیصلہ کر لیا " نگہت بیگم نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا
"تب تک وہ مجھے چھوڑ کر جا چکا تھا " غصہ اسکی آنکھوں میں یک دم اتر آیا تھا۔ رابیل نے سنجیدگی سے جواب دیا
"مجھے فون دو زری میں خود بات کرتی ہوں اس سے " نگہت بیگم نے جلدی سے کہا اس سے پہلے کے زری جاتی رابیل نے ہاتھ سے اسے روکا
"نہیں ایک بار پہلے دادی جان اس کے میرے ساتھ شادی کے ساتھ کی بھیک مانگ چکی ہیں اب نہیں ۔ اگر وہ میرا ہوا تو خود لوٹ آے گا ورنہ سمجھ لیں کے وہ میرا تھا ہی نہیں " رابیل نے سپاٹ لہجے سے کہا
"رابیل تم اسکے بغیر کیسے رہو گی میں خود جانتی ہوں تم کتنی محبت کرتی ہو بھائی سے " زری نے کہا
"میری خوشی شاہ زیب کی محتاج نہیں زری ۔ اللہ‎ تعالیٰ نے مجھے خوش رہنے کی ایک بہت خوبصورت وجہ دے دی ہے ۔ " رابیل سنجیدگی سے بولی
"اور ہم سب کا کیا رابیل کیا اب پوری زندگی وہ اس گھر میں نہیں آئے گا " دادی جان جی سوال کیا
"آئے گا جب ھر جگہ جا کر دیکھے گا نا اور اسے سکون نہیں ملے گا تو وہ ادھر ہی آئے گا دادی جان وہ ادھر ہی آئے گا " ابرو اچکا کر اس نے جواب دیا
"تو تب تمہارا کیا بنے گا ہاں ؟ تم تمھیں لگتا ہے تمہاری محبت نہیں جاگے گی اس کے لئے " زری کو اب برا لگ رہا تھا
"محبت کیسی زری ؟؟ وہ محبت جس کے بدلے میں مجھے اتنی ذلالت ملی ہے جس کے بدلے میں میں نے  عزت ِ نفس تک کی قربانی دے دی تھی ۔ وہ محبت زری ؟ وہ محبت تو کل میں وہاں اسی گھر میں چھوڑ آئی تھی وہ محبت تو چھوڑ دی میں نے " بہت تحمل سے رابیل نے جواب دیا تھا

یہ تم سے کہ دیا کس نے
کے تم بن رہ نہیں سکتے
یہ دکھ ہم سہ نہیں سکتے
چلو ہم مان لیتے ہیں
کے تم بن ہم بہت روۓ
کئی راتوں کو نا سوۓ
مگر افسوس ہے جاناں
کے اب کے تم جو لوٹو گے
ہمیں تبدیل پاؤ گے
بہت مایوس ہو گے تم
اگر تم پوچھنا چاہو
کے ایسا کیوں کیا ہم نے
تو سن لو غور سے جاناں
پرانی اک روایت تنگ
آ کر توڑ دی ہم نے
محبت ! چھوڑ دی ہم نے

"چلو اب بس کرو ان باتوں کو لگتا ہے آج ناشتہ نہیں ملے گا " رابیل نے بات بدل کر منہ پر رونق لائی

"میں خود اپنی بچی کے لئے ناشتہ بناتی ہوں " کلثوم بیگم نے مسکرا کر کہا
______________________

زری اور رابیل کمرے میں بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں ۔ ایک ہفتہ ہو چکا تھا رابیل کو یہاں آئے ہوئے رابیل تو کیا کسی کی بھی شاہ زیب سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی آفس سے ہی پتا چلا تھا کے وہ کام ساتھ ساتھ ہینڈل کر رہا ہے ۔ محض یہ سن کر بھی رابیل کو قرار آ گیا تھا کے وہ ٹھیک ہے ۔
"بھائی کو مس کر رہی ہو " جب سے عدیل نے بتایا تھا کے شاہ زیب کا آفس ورکرز سے رابطہ ہے رابیل کے چہرے پر اداسی چھا گئی تھی جو زری نے محسوس کر لی تھی
"ہاں " رابیل نے جھوٹ نہیں کہا تھا اور سر اثبات میں ہلایا
"رابیل دیکھو میری جان ہم کہیں سے گزریں اور محض ان جگہوں سے ہی آپ کی اچھی یادیں جڑی ہوں تو سالوں بعد بھی وہاں سے گزرنے سے آپ کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور بھائی تو تمہارے شوہر ہیں تم دونوں نے وقت گزارا ہے ساتھ ایک ہفتے میں تو تم انہیں بھول نہیں پاؤ گی نا " زری نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا وہ بیڈ پر آمنے سامنے بیٹھی تھیں ۔ رابیل نے بیڈ سے ہلکی سی  ٹیک لگائی ہوئی تھی ۔

محبت سے توبہ کی پھر توبہ کی پھر توبہ کر کے توڑ دی
واہ ہماری توبہ پر توبہ بھی توبہ توبہ کر اٹھی

"میں تو شائد اسے پوری زندگی نا بھول پاؤں " رابیل کسی سوچ میں گم بولی

سنا ہے شوق نہیں رکھتے تم عشق کا
مگر یقین کرو برباد تم کمال کا کرتے ہو

"جانتی ہوں نہیں بھول سکتی "نظر  اس کے چہرے پر  مرکوز کیے ہوئے  زری نے کہا

"زری کوئی پوسٹ تو نہیں آئی میرے لئے ؟" رابیل نے آہستگی سے پوچھا
"نہیں تو کیوں کہاں سے پوسٹ آنی ہے " زری نا سمجھی سے بولی
"شاہ کی طرف سے " رابیل زری کو دیکھ نہیں رہی تھی اس کی نظر سامنے دیوار پر مرکوز تھی
"بھائی کی طرف سے کیوں "
"طلاق کی پوسٹ " رابیل کی آنکھیں برھنے لگی تھیں مگر وہ اسی طرح سنجیدگی چہرے پر لئے بیٹھی تھی
"اللہ‎ نا کرے رابیل ۔۔ ایسی باتیں مت کرو " زری یک دم بولی
"تمھیں اب بھی لگتا ہے ہمارے بیچ کچھ ٹھیک ہو گا " سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے زری کو دیکھا
"تم دونوں کے درمیان کچھ ہوا ہی نہیں ہے تم بس یہ سب نا سوچو مجھے پورا یقین ہے سب ٹھیک ہو جاۓ گا " زری کہ کر اٹھی
"تم ریسٹ کرو میں ڈنر کے لیے انتظام کر لوں "  کہ کر زری چلی گئی
________________
"زری " زری ہانڈی بنا رہی تھی جب کسی نے اسے آواز دی زری نے مڑ کر دیکھا
"تم "عروا کو اپنے سامنے پا کر زری کے ماتھے پر شکن آئی
"بات کرنی تھی تم سے " کچن میں داخل ہوتے ہوئے اس نے کہا
"مجھے تمہاری کوئی بکواس نہیں سننی دفع ہو جاؤ میرے گھر سے " زری غصے سے بولی
"زری پلیز " عروا نے سنجیدگی سے کہا
"ایک موقع دو پلیز " زری خاموش رہی
"زری میں جانتی ہوں تم مجھے بلکل پسند نہیں کرتی اور جب سے میری وجہ سے تمہاری شادی جلدی ہوئی ہے تم بلکل نفرت کرنے لگی ہو مجھ سے " عروا آہستگی سے کہ رہی تھی
زری نے چولہا بند کر دیا۔ بازو آپس میں باندھ کر وہ عروا کی بات سن رہی تھی
"زری تم سے مجھے پرسنل کوئی پرابلم نہیں تھی ۔ میں شاہ زیب کو پسند کرتی تھی اور ہمارے بچ کی رکاوٹ تم تھی ۔ رابیل اور شاہ زیب کی شادی میں سب سے بڑا کردار تمہارا ہے میں جانتی ہوں ۔ اسی وجہ سے بس تم سے عجیب چڑ ہو گئی تھی ۔ ہر وقت کوئی نا کوئی پلان بنایا تمھیں نیچا دکھانے کا مگر نہیں ہوا ۔۔ پھر اس دن جب آپ کے گھر رہی تو بس ایک پروپر پلان کر کے میں نے تمھیں سب کی نظر میں گرا دیا ۔ جو میں کرنا چاہتی تھی " عروا کی باتوں سے زری کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا جانتی سب کچھ وہ پہلے ہی تھی مگر عروا کی زبانی سن کر اسے اور غصہ آ رہا تھا
"لیکن ایک چیز جو تم سے بدلہ لینے کے بعد نہیں ملی وہ تھا سکون ۔ زری میں نہیں جانتی مگر جب سے تمہارے ساتھ یہ سب کیا ہے مجھے ایک رات بھی سکون کی نیند نہیں آئی ۔ یہ عجیب ہو گا مگر سچ ہے ۔ میں جو کرنا چاہتی تھی وہ کر بھی لیا مگر پھر بھی سکون نہیں ملا مجھے ۔ پھر احساس ہوا شائد تمھیں دکھ دیا اور تمہاری بدعا لگ گئی ۔ زری میں بدلہ لینے والی لڑکی نہیں ہوں پر شاہ زیب کو میں پانا چاہتی تھی بہت کوشش کی تھی مگر جب وہ مجھ سے چھن گیا تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا خود کو تسکین دینے کے لئے جو ٹھیک لگا کیا ۔ لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ یہ سب کبھی تم سے نا کہتی مگر بہت ضروری تھی میں چاہتی ہوں تم مجھے معاف کر دو تا کے میں اپنی زندگی سکون کی گزار سکوں ۔۔ میں سب کے سامنے یہ سب ایڈمٹ نہیں کر سکتی میرے لئے تمہارے سامنے بھی کرنا بہت مشکل تھا مگر ہمت کر کے کر لیا اس لئے چاہوں گی تم بھی گھر والوں سے بات نا کرنا ۔۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا " وہ انا پرست لڑکی آج زری سے معافی مانگ رہی تھی زری کو عجیب لگا تھا
"میرے بس میں ہوتا تو بڑی سے بڑی سزا دیتی پر تم نے جو اتنے دن بے سکونی میں نکالے ہیں اس سے بڑی سزا تمہارے لئے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔میں یہ تو نہیں کہ سکتی کے تمھیں معاف کر دیا کیوں کے میرے لئے اتنا آسان نہیں جو بھی تھا تمہار وجہ سے میں نے بہت تکلیف اٹھائی ھے ۔ لیکن میں یہ بھی نہیں کہوں گی کے یہ نا ممکن ہے کیوں کے تم نے مجھ سے معافی مانگ لی میرے لئے کافی ھے ۔۔ اس لئے تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں تم سے ناراض نہیں ہوں اور تمھیں معاف کر دیا ہے ۔ بس تم آئندہ کسی کے ساتھ بھی ایسا مت کرنا کیوں کے جس طرح آج تم نے صرف اپنی بے سکونی کی وجہ سے معافی مانگی اس کا مطلب یہ ہی ہے کے تم ایسی لڑکی نہیں ہو جوغلط کر کے سکون میں رہے تم میں ایک اچھی لڑکی چھپی ہے۔ آج کے بعد ایسی کوئی حرکت نا کرنا " زری نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا
"کبھی بھی نہیں ۔۔ تھینک یو یار " عروا آگے بڑھ کر زری کے گلے ملی  زری نے بھی پیار سے اسے اپنے حصار میں لیا یہ پہلی بار تھی جب وہ لوگ دل سے ایک دوسرے کو ملی تھیں ۔۔

____________________________

دو مہینے بعد

چھت پر کھڑی رابیل چاند پر نظر جمائے گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔

ادھورے چاند سے فریاد تو کرتا ہو گا
وہ مجھے زیادہ نہیں پر یاد تو کرتا ہوگا
بہت مصروف سہی وہ دن بھر پھر بھی
تنہائی کے کچھ پل میرے لئے برباد تو کرتا ہوگا

"ایک لمحہ میری زندگی کا ایسا نہیں گزرتا شاہ جس میں مجھے آپ یاد نہیں آتے ۔ جس میں آپ کو یاد کر کے رونے کو جی نہیں کرتا پر نہیں کر سکتی شاہ یہ سب کو بتا بھی نہیں سکتی ۔ کیوں کے اس بار بات محبت کی ہے آپ نے میری محبت کو مذاق سمجھا ہے میرے انا کو ٹھیس پوھنچائی ہے ۔ مجھے دکھ دیا ہے ۔۔ آپ نے مجھے دکھ دیا ہے شاہ بہت دکھ ۔۔ آپ تو شائد مجھے یاد بھی نہیں کرتے ہوں گے اگر کرتے تو لوٹ آتے پچھلی بار کی طرح ۔ آپ کو میری اتنی محبت دینے کے باوجود بھی مجھ سے محبت نہیں ہوئی ۔۔۔" اس نے ایک گہرا سانس لیا
"لیکن میں ٹھیک ہوں ۔ اگر نہیں ہوں تو بھی ہو جاؤں گی ۔ "گال پر گرا ہوا آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے سوچا
"ہاں شائد ٹھیک ہوں ۔۔" سب سے زیادہ  اذیت دہ لمحہ وہ ہوتا ہے جب سب سے زیادہ خود کو یقین دلانا پڑتا ہے کے ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔

پہلے تھی تیری جستجو دل کو
اب میں اپنی تلاش میں گم ہوں
لوگ پوھنچے یقین کی منزل تک
اب میں صرف کاش میں گم ہوں

"کبھی کبھی یقین نہیں ہوتا اتنی محبت ، توجہ ،اپنائیت ،وقت ،پروا اور کیئر کرنے کے بعد بھی بے وفائی ملے تو کیا کرنا چاہیے ۔ کہتے ہیں جب آپ کو اپنی محبت نا ملے تو اس کے ہو جاؤ جو آپ سے محبت کرتا ہے مگر آپ کو نا تو اپنی محبت ملی نا ہی آپ میرے ہوئے ۔۔ لیکن آپ نے تو مجھ سے محبت کا اظہار بھی کیا تھا پھر کیوں وقت آنے پر آپ نے ہم دونوں میں سے عبیرہ کو ہی چنا ۔۔ کیوں شاہ ؟؟" وہ خود سے ہی شاہ زیب سے سوالات کر رہی تھی اور خود ہی جواب تلاش کر رہی تھی ۔کوئی ایسا تھا بھی تو نہیں جس سے وہ اپنے دل کی باتیں کرتی ۔۔

ساری رات گزرتی ہے بس ان حسابوں میں
اسے محبت تھی ؟ نہیں تھی ؟ ہے ؟ نہیں ہے ؟

"آپ نے اچھا نہیں کیا آپ نے اچھا نہیں کیا ۔۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں " آنسو صاف کرتی ہوئی وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ اب اسے نیچے اپنے کمرے میں جانا تھا ۔۔۔

ٹوٹ کر گرتے رہے پلکوں سے آنسو رات بھر
دل کے سارے قرض اتارے آنکھوں نے رات بھر
_______________________
تلاش کر نا سکو گے مجھے پھر وہاں
غلط سمجھ کر تم چھوڑ آئےتھے مجھے جہاں

گرے کرتا وائٹ کیپری گرے شیفون کا دوپٹہ گلے میں ڈالا ہوا بالوں کی ڈھیلی پونی کیے ہوئے ہینڈ بیگ پکڑے وہ کمرے سے باہر آئی ۔۔اسے آج کچھ شاپنگ کرنی تھی ۔ وہ خود کو تھوڑا بزی اور فریش رکھنے کی ناکام کوششیں کرتی رہتی تھی ۔۔
"امی ۔۔ عدیل کہاں ہے " کمرے سے باہر نکلتے ہی اسے  نگہت بیگم ہال میں بیٹھیں نظر آ گئی تھیں
"کچھ پوچھ رہی ہوں آپ سے " جواب نا پا کر وہ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی ۔۔
دادی جان کی آنکھوں میں آنسو تھے  کلثوم بیگم اور نگہت بیگم انہیں خاموش کروا رہی تھیں
"دادی جان کیا ہوا آپ کو " رابیل ہینڈ بیگ تیزی سے صوفے پر پھینک کر ان کے پاس آئی
"کیا ہوا انہیں " نگہت بیگم اور کلثوم بیگم کو دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا
"شاہ زیب کا فون آیا تھا " نگہت بیگم کی بات پر رابیل کی دادی جان کے بازو پر گرفت ڈھیلی ہوئی۔۔ وہ انکا بازو تھام کر نیچے ہی بیٹھ گئی تھی
"کہ رہا تھا ملنے آ رہا ہے " کلثوم بیگم کی بات پر رابیل نے مکمل دادی جان کا بازو چھوڑ دیا اور اٹھیں
"کب " آنکھیں بھر گئی تھیں ۔۔ اس نے سپاٹ لہجے سے پوچھا
"آج کل میں " نگہت بیگم نے جواب دیا
"تو آپ رو کیوں رہی ہیں " دادی جان کو دیکھ کر رابیل نے پوچھا

" اسے ابھی تک تمہاری حالت کے بارے میں نہیں پتا کتنی خوشی کی خبر ہے کتنا خوش ہوگا وہ رابیل تم نے ہمیں کیوں منع کر رکھا ہے  " دادی جان نے رابیل کو دیکھ کر پوچھا جو ان لے بلکل سامنے کھڑی تھی
"ہو سکتا ہے اس خبر سے تم دونوں کے بیچ سب ٹھیک ہو جاۓ " نگہت بیگم نے کہا
"یہ ہی تو میں نہیں چاہتی امی کے وہ خوش ہو اور ہمارے بیچ سب ٹھیک ہو "
"لیکن کیوں " کلثوم بیگم پوچھے بغیر رہ نا سکیں
"اس نے مجھے طلاق کیوں نہیں دی آپ نے پوچھا نہیں اس سے " رابیل نے سوالیہ نظروں سے دادی جان کو دیکھا ۔۔ اسکی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں
"نہیں کیوں کے میرے خیال سے وہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا " دادی جان نے جواب دیا
"ایک کام کریں گی آپ " کلثوم بیگم سے اب وہ مخاطب تھی انہوں نے اثبات میں سر ہلایا
"شاہ سے  کہئے گا مجھے خلع دے دے "

تیرے عشق کے پانچ نقطوں سے  بھاری
میری انا کے نون میں ایک نقطہ ہے

"تم پاگل ہو گئی ہو " نگہت بیگم یک دم بولیں
"اور میں ایک ہفتے کے لئے اپنے دوسرے گھر چلی جاؤں گی وہ آرام سے یہاں آ کر رہ سکتا ہے " نگہت بیگم کی بات کو نظر انداز کر کے اس نے کہا
"کیا کرو گی اس سے الگ ہو کر اس گھر جا کر ہاں اس کے نام پر تو تمہاری آنکھیں بھر آتی ہیں سامنے ہوا تو سب بھول بھی جاؤ گی " نگہت  بیگم غصے سے بولیں
"یہ ہی تو بھی چاہتی۔۔ یہ ہی تو نہیں چاہتی کے کچھ بھولوں میں ۔۔ نہیں چاہتی کے وہ میرے سامنے آئے اور میں سب بھول کر اسے معاف کر دوں ۔ میں اسے معاف نہیں کر سکتی امی آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے " وہ چلائی
"وہ کہ رہا تھا تمھیں یاد کر کے روتا ہے " کلثوم بیگم آہستگی سے بولیں
"فرق نہیں پڑتا تائی امی رلانے والے روتے بھی ہیں " کہ کر رابیل نے اپنا بیگ اٹھایا اور تیزی سے باہر نکل گئی

سنا ہے وہ بہت روتا ہے میری یاد میں
ان آنکھوں کو حکم دیا رو لو حساب بعد میں
اور اتنی ہی محبت ہے تو لوٹ آؤ نا
کیا اتنا بھی دم نہیں میری فریاد میں

_____________________

کاش کے آپ سمجھ جاؤ کے آپ کا ہی انتظار ہے
اور یہ سمجھنا ضروری ہےکے بے انتہا پیار ہے
میں بے قرار ہوں آپ سکون میں ہو دکھتا ہے
لوگوں سے مت کہوں کے آپ کا دل بے قرار ہے

وہ یوں ہی ہال میں چکر کاٹ رہی تھی۔ شاہ زیب نے آج گھر آنا تھا اس لئے وہ اپنے دوسرے گھر جو اس کی شادی کا تحفہ تھا ادھر آ چکی تھی ۔ یہاں وہ کل رات کو ہی آ گئی تھی ۔ اس کی کنڈیشن ایسی تھی کے اسے اکیلا چھوڑنا ممکن نہیں تھا مگر وہ ضد سے یہاں آئی تھی یہ وعدہ کر کے ، کے شاہ زیب اگر آج ہی واپس نا بھی گیا تو وہ پھر بھی اس گھر آ جاۓ گی ۔۔ لیکن اب اسے بے قراری ہو رہی تھی جی چاہ رہا تھا کے جا کے اس بے وفا کو ایک بار دیکھ لے ۔۔ تسلی تو مل جاۓ ۔۔ مگر نہیں وہ جا نہیں سکتی تھی ۔۔ اس لئے ہال میں اکیلے وہ چکر کاٹ رہی تھی ۔ یہ محبت بھی عجیب چیز ہوتی ہے اسی بے وفا سے وفا کی امید لگاۓ بیٹھے رہتے ہیں کے کبھی نا کبھی تو ہمیں بھی تھوڑی محبت بدلے میں مل جاۓ گی ۔۔۔ گھبراہٹ ہونے لگی تھی وہ کچن سے پانی کا گلاس لائی ۔ ہال میں لگے صوفے پر بیٹھ کر پانی پی کر اس نے گلاس ٹیبل پر رکھا ہی تھا کے ایک جانی پہچانی آواز اس کے سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔
"رابیل " رابیل نے تیزی سے سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا

کیا کشش تھی کے مجھے چھوڑ کر جانے والا
دو قدم چلتا پھر مجھ سے لپٹ جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنکھیں مزید کھل گئی تھیں بے یقینی سے وہ اس کو دیکھ رہی تھی جو ایک بار پھر لوٹ آیا تھا ۔ وہ اس کے پاس لوٹ آیا تھا یاں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے لوٹا تھا رابیل کچھ سمجھ نا پائی وہ آہستگی سے اٹھی ۔
شاہ زیب چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔ رابیل چہرے پر سنجیدگی لئے اس کے سامنے کھڑی تھی ۔ اس وقت وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے ۔
"کیسی ہو " شاہ زیب نے پوچھا۔ رابیل بس اسے ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہی تھی کوئی جواب نا پا کر اس نے پھر پوچھا
"کیسی ہو "
جو لوٹ آئے تو کچھ کہنا نہیں
بس دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستوں میں خبر ہوئی
کے یہ راستہ کوئی اور تھا


وہ اس وقت لائٹ پنک کرتا اور سفید کیپری پہنے ہوئے تھی ۔ بال ڈھیلی پونی میں بندھے تھے البتہ شاہ زیب نے وائٹ شلوار سوٹ پہنا ہوا تھا۔
"کیوں آئے ہو " سپاٹ لہجے میں پوچھا گیا
"مجھے تو آنا ہی تھا " شاہ زیب کے لہجے میں نرمی تھی
"کیوں " رابیل نے پھر پوچھا
"رابیل مجھ سے غلطی ہو گئی "
"جانتی ہوں " رابیل نے فٹ سے جواب دیا
"کیا "
"یہ ہی کے مجھ سے شادی کی غلطی ہو گئی " رابیل نے جواب دیا
"نہیں رابیل مجھ سے غلطی ہو گئی جو میں چلا گیا "
"نہیں وہ غلطی نہیں تھی وہ سوچا سمجھا فیصلہ تھا " رابیل نے سنجیدگی سے کہا
"رابیل جن تم سے شادی ہوئی تب عبیرہ کو چھوڑے ہوئے محض چند ہفتے ہوئے تھے میں اس وقت ایک نئے رشتے کے لئے تیار نہیں تھا مگر گھر والوں کے زور دینے پر تم سے شادی کر لی پھر لگا تم سمجھو گی اور تم نے سمجھا بھی مگر رابیل اس دن جو کچھ  تم نے کہا اس بات کا مجھے برا لگا اور رابیل میں جانتا تھا تمہارے ساتھ رہ کر میں ہمیشہ تمھیں اسی طرح ہرٹ ہی کرتا رہوں گا "
"اور آپ  نے مجھے چھوڑ دیا " رابیل نے بات مکمل کی
"رابیل اس وقت یہ بہتر لگا میں نے کر دیا ۔ تمہارے ساتھ رہ کر تمھیں دکھ نہیں دے سکتا تھا رابیل ۔ اس لئے سوچا دور چلا جاؤں گا تا کے تم خوش رہو مگر نہیں رابیل دور رہ کر نا تو میں خوش تھا نا تم " وہ رو دینے کو تھا ۔

پہلے کہتے ہو کس بات کو بڑھا رہے ہو
اچھا چپ چپ کیوں روۓ جا رہے ہو
غلطی تمہاری تھی جان تو میری نکلی
ایسا تو نہیں یہ سب کر کے غلطی چھپا رہے ہو
اور گنوانا ہے تو لوگوں کو میراکیا ہوا گنواو
تم تو لوگوں کو میری غلطیاں گنوا رہے ہو


"میں خوش تھی یاں نہیں آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ نے جو کرنا تھا کر دیا اب مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا "
"رابیل پلیز یار ۔ تم تو مجھ سے محبت کرتی ہو کجھ کیسے چھوڑ سکتی ہو " شاہ زیب کی بات سے  رابیل کے جیسے زخموں پر نمک چڑکا گیا تھا

"محبت ؟ ۔۔ عورت جھکتی صرف اپنی پسند کے مرد کے آگے ہے اور موم بھی اسی کے سامنے ہوتی ہے۔ مرد چاہے تو اس عورت کے دل میں جگہ بنا کر دن کو رات اور رات کو دن بھی منوا سکتا ہے ۔ اپنی پسند کے مرد کے آگے وہ جھکتی اور جھکتی چلی جاتی ہے ۔ اپنی انا اور عزتِ نفس تک کا بھی مسئلہ نہیں بناتی ۔ لیکن وہ ہی مرد اگر اسکی بے عزتی کرے ، اسکو محبت کی وجہ سے ذلیل کر ڈالے ، روندھ ڈالے تو پھر وہ اتنی ہی سخت ہو جاتی ہے ۔ میں نے محبت کی بہت محبت کی آپ نے جب جب عبیرہ کا ذکر کیا میں نے کچھ نہیں کہا مگر میں بھی آپ کو اس کی وجہ سے پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی جب وہ جا چکی تھی تو وہ کیوں ہم دونوں کے بیچ آتی رہی۔ میری انا ہمارے رشتے میں کبھی نہیں آئی مگر تب مجھے محسوس ہوا کے محبت تو ضرور ہے مگر عزتِ نفس بھی بعض جگہ اور بہت ضروری ہوتی ہے " رابیل سخت لہجے میں بولی
"رابیل میں جانتا ہوں میں نے غلط کیا پلیز بھول جاؤ نا سب میری ہی غلطی تھی  "
"غلطی تھی شاہ کہیں نا کہیں غلطی تھی۔ چاہے وہ  آپ کی تھی یاں میری لیکن غلطی تو تھی ۔(بات کرتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ بڑھا کر باہر کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولی )وہ   عبیرہ تھی جو  آپ کی زندگی میں اپنی مرضی سے آئی تھی  لیکن میں  ؟ مجھے تو آپ خود اپنی مرضی سے لے کر  آئے تھے (غصے کے لہجے میں اب تھوڑی نرمی آئی تھی ۔) ۔ جب مجھے آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تب آپ میرے ساتھ نہیں تھے اور آج جب سب ٹھیک ہو رہا ہے تو آپ کہ رہے ہیں میں بھول جاؤں ۔" دکھ اس کے لہجے سے ظاہر تھا ۔ شاہ زیب کے لئے یقین کرنا مشکل تھا کے وہ اس رابیل کے سامنے کھڑا تھا جو اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی
"میں آپ کی بیوی ہوں گرل فرنڈ نہیں جسے آپ جب چاہیں چھوڑ جائیں  ۔۔ میری کوئی اہمیت ہی نہیں آپ کی زندگی میں ۔ جانتے ہیں انسان ٹوٹتا کب ہے جب اسے وہ ہی انسان زمین کا رستہ دکھا دے جس پر بھروسہ کر کے آپ نے اڑنا سیکھا ہو۔  میں نے آپ سے محبت کی ہر لمحہ آپ کو سوچا آپ ساتھ ہوتے تو خود کو مکمل محسوس کرتی تھی اور آپ ۔۔ آپ نے کیا کیا مجھے اکیلا چھوڑ گۓ یہ سچ بغیر کے میرا کیا ہو گا " آنکھوں سے آنسو نکل رہی تھے مگر لہجہ نرم نہیں تھا

امیدِ دل دبانے سے کچھ نہیں ہو گا
ہاتھ سے ہاتھ چھوڑانے سے کچھ نہیں ہوگا
جو کیا غلط تھا غلط ہی رہے گا
اپنی نگاہیں جھکانے سے کچھ نہیں ہوگا


"رابیل عبیرہ سے مجھے محبت تھی یاں نہیں میں نہیں جانتا مگر یہ جانتا ہوں کے تم سے مجھے بے انتہا محبت ہے  اس کے بغیر میں رہ رہا تھا مگر تمہارے بغیر ایک ایک دن سو سال کی طرح لگ رہا تھا رابیل بہت مشکل سے یہ دو تین ماہ میں نے نکالے ہیں ۔ تم کہتی ہو تم میرے بغیر کچھ بھی نہیں اصل میں تو میں تمہارے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں رابیل۔  آج کے بعد میں عبیرہ کا ذکر نہیں کروں گا مجھے آخری بار معاف کر دو رابیل پلیز ۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے " وہ محبت سے کہ رہا تھا

شعلہ تھا جل بھجا ہوں ہوائیں مجھے نا دو
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نا دو
جو زہر پی چکا ہوں تم نے ہی تو دیا تھا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نا دو
ایسا نا ہو کے کبھی پلٹ کر نا آ سکوں
ھر بار دور جا کر صدائیں مجھے نا دو
کب مجھ کو اعترافِ محبت نا تھا فراز
کب میں نے کہا تھا سزائیں مجھے نا دو

"اگر وہ آ گئی تو " رابیل کے لہجے میں اب لچک آ چکی تھی
"اب ہمارے پیچ کوئی نہیں آئے گا رابیل کوئی بھی نہیں " شاہ ضاب نے محبت سے کہ کر رابیل کو اپنے ساتھ لگایا ۔۔
رابیل کے آنسو شاہ زیب کی کمیز پر جذب ہو رہے تھے
"آج میں تمھیں کہوں گا رابیل پلیز مجھے کبھی بھی مت چھوڑنا پلیز ۔ شاہ زیب تمہارے بغیر کچھ بھی نہیں ہے رابیل ۔ "
"میں آپ کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گی شاہ کبھی بھی نہیں " رابیل کشاہ زیب سے اتنی محبت کرتی تھی کے اس سے زیادہ دیر ناراض رہ ہی نہیں سکتی تھی ۔۔
کہتے ہیں بھول جاؤ انہیں جنہیں آپ معاف نہیں کر سکتے اور معاف کر دو انہیں جنہیں آپ بھول نہیں سکتے ۔۔۔
رابیل نے بھی وہ ہی کیا تھا شاہ زیب کو وہ بھول نہیں سکتی تھی اس لیے اس نے معاف کر دیا تھا اور شاہ زیب نے بھی جھک کر اپنا رشتہ بچا لیا تھا ۔۔۔۔
_____________________

After two years ..

ہال میں سب بیٹھے ہوئے تھے یقیناً کسی کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ دادی جان اپنی تینوں بہوؤں کے ساتھ بیٹھ کر جیولر سے جیولری لے کر دیکھ رہی تھیں ۔ وہ وہیں ہال میں صوفے پر  بیٹھی ہوئی تھیں جہاں ان کے سامنے جیولر کچھ نئے ڈیزائن لے کر ان کو دکھانے لایا تھا ۔۔
دوسری طرف عدیل ، شاہ زیب اور آکاش ڈیکوریشنز کروا رہے تھے ۔ جنید صاحب ، عامر صاحب اور فیضان صاحب ضروری میٹینگ پر تھے ۔۔
رابیل چاۓ لے ساتھ لوازمات ٹرولی میں رکھے کچن سے ہال کی طرف زری کے ساتھ آ رہی تھی ۔۔
ایک طرف صوفے پر عروا بیٹھی تھی جسے پارلر والی مہندی لگا رہی تھی ۔
لائبہ دو بچوں سے ساتھ ہال میں کھیل رہی تھی ۔ ایک ڈیڈھ سال کا بچہ تھا اور دوسری چند ماہ کی بچی تھی جو ابھی صرف تھوڑی تھوڑی  کرالنگ کرتی تھی ۔۔۔

"رکو شاہ زین میں پکڑ رہی ہوں آپ کو " لائبہ تیزی سے بچے کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ ننھے ننھے قدم اٹھاتا رابیل کی طرف آیا ۔۔ ٹرولی کو ایک لمحے کو چھوڑ کر رابیل نے آگے بڑھ کر بچے کو اٹھایا ۔۔
"ما۔۔ما " بمشکل بچے نے کہا
"جی ماما کی جان " رابیل نے اسکے گال پر زور سے پیار دیا
"زری آ  جاؤ تم بھی مہندی لگوا لو نا اب " عدیل زری کی طرف آتے ہوئے بولا
"یار عدیل میں ابھی نہیں لگوا سکتی امل  تنگ کرے گی اور خراب کر دے گی مہندی " زری نے چھوٹی بچی کی طرف اشارہ کیا جو لائبہ کے ساتھ کھیل رہی تھی
"میری بیٹی اتنی معصوم ہے تم اس پر تو الزام مت لگاؤ سیدھا کہو تمہارا اپنا دل نہیں کر رہا میری بات ماننے کا " عدیل نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو اٹھایا
"اچھا۔۔ لگواتی ہوں پہلے دلہن صاحبہ تو لگوا لیں " زری بے عروا کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔ بدلے میں عروا بھی مسکرائی ۔۔
"شاہ اب چلیں گھر جا کر مہندی کی تیاری بھی کرنی ہے " رابیل شاہ زین کو اٹھاۓ ہوئے شاہ زیب کے پاس آئی ۔۔
زری سب کو چاۓ پکڑا رہی تھی
"چاۓ تو پی لو " شاہ زیب نے مسکرا کر شاہ زین کو رابیل سے لیا اور کہا
"نہیں مجھے نہیں پینی اب چلیں "
"اوکے " شاہ زیب نے سر اثبات میں ہلایا اور سب کو الوداع کہا
دادی جان کے کہنے پر عروا کی شادی کے سب فنکشنز اسی گھر میں تھے ۔۔ اس لئے سب اسی کی تیاریاں کر رہے تھے ۔۔۔
___________________
شاہ زین کو لے کر وہ گھر جانے سے پہلے پارک میں آ گئے تھے ۔ شاہ زین دوسرے بچوں سے ساتھ کھیل رہا تھا رابیل کو شاہ زیب پاس ہی واک لر رہے تھے .
رابیل نے بلیک سوٹ پہنا تھا جس پر تھوڑا تھوڑا کام ہوا تھا اوپر کالی ہی چادر کندھوں کے گرد لپیٹی ہوئی تھی جس کی کناریوں پر ریڈ کام ہوا تھا ۔ بلیک شرٹ بلیو جینز میں ملبوس شاہ زیب نے اپنے ہاتھ میں رابیل کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا وہ دونوں یوں ہی ساتھ چلتے ہوئے باتیں کر رہے تھے ۔۔
ایک سمارٹ سی لڑکی ، بالوں کو گولڈن ہائی لائٹس کیے ہوئے ، کیپری اور کرتا پہنا ہوا تھا بازو پر ہینڈ بیگ ، رنگ زیادہ گورا نہیں تھا بس درمیانہ تھا ہلکا ہلکا میک اپ کیے ہوئے وہ اچھی لگ رہی تھی ۔۔وہ لڑکی رابیل کو شاہ زیب کو گورتی ہوئی انہی کی طرف آ رہی تھی ۔۔
شاہ زیب رابیل کا ہاتھ پکڑے اسی کو دیکھتے ہوئے چل رہا تھا جب کے رابیل مسکراتے ہوئے سامنے دیکھتی ہوئی چک رہی تھی ۔ وہ لڑکی کافی دیر دے گور کر اب ان کے پاس آ رہی تھی رابیل نوٹ کر چکی تھی مگر اس نے شاہ زیب کو بھی بتایا تھا کیوں وہ نہیں جانتی تھی کے یہ لڑکی کون ہے ۔۔ جب وہ ان کے سامنے آ کر رکی تو رابیل کے قدم وہیں رک گئے ۔۔ شاہ زیب نے سیدھا ہو کر سامنے دیکھا
"شاہ زیب ۔۔ تم " وہ خوشی سے مسکرا کر بولی
"اوہ تم ۔۔" شاہ زیب نے رابیل کے ہاتھ پر گرفت مظبوط کی ۔۔رابیل نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا پھر شاہ زیب کو وہ سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا شائد شاہ زیب اسے پہچانتا تھا
"یہ ۔۔۔" اس لڑکی نے رابیل کی طرف اشارہ کیا
"یہ۔ ۔ یہ میری وائف ہے ۔۔ مسز رابیل شاہ زیب خان " شاہ زیب نے مسکرا کر رابیل کے کندھوں کے گرد اپنے بازو حمائل کیے اس لڑکی کی مسکراہٹ تھوڑی کم ہوئی
"اور رابیل یہ ہے عبیرہ میری یونیورسٹی میں پڑتی تھی " رابیل کو دیکھ کر شاہ زیب نے کشا جس پر رابیل نے چونک کر شاہ زیب کو دیکھا جو بلکل نارمل تھا پھر عبیرہ کو ۔۔ جسے آج وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی
"ماشاءالله تمہاری وائف تو بہت بیوٹیفل ہے " عبیرہ نے ہاتھ آگے بڑھا کر سلام کیا رابیل نے بھی مسکرا کر ہاتھ ملایا
"میرا بیٹا بھی محبت خوبصورت ہے وہ دیکھو ۔۔(شاہ زیب نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا جو کھیل رہا تھا ) شاہ زین " شاہ زیب نے مسکرا کر کہا
"واؤ ماشاءالله بہت پیاری فمیلی ہے تم لوگوں کی " عبیرہ نے مسکرا کر کہا
"تھینک یو " شاہ زیب نے کہا
"میں اپنے ہسبنڈ کے ساتھ اکثر یہاں آتی ہوں ابھی بھی وہ آئس کریم لینے گئے ہیں اور تمھیں دور سے دیکھا تو مجھے لگا شائد میرا وہم ہے لیکن وہم نہیں تھا سچ  میں تم ہی ہو " اب وہ وجہ بتا رہی تھی
"آہا ۔۔ سہی ۔۔ میں رابیل کے ساتھ یہاں واک کے لئے آیا تھا سوچا اسی بہانے ساتھ رہنے کا موقع مل جاۓ گا ورنہ کئی دنوں سے شادی کی تیاریاں کر رہے ہیں ٹھیک سے وقت نہیں دے پاۓ ایک دوسرے کو ۔ میری کزن کی شادی ہے نا تو اس کی تیاریاں ۔۔" شاہ زیب نے بتایا ۔۔وہ اب بھی مسکرا رہا تھا
"یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔ اچھا لگا آپ دونوں کو خوش دیکھ کر " عبیرہ نے کہا ۔۔ رابیل خاموشی سے عبیرہ کو دیکھ رہی تھی۔ شاہ زیب نے اب بھی اپنا  بازو اسی طرح رابیل کے گرد کیا  ہوا تھا
"ہاں جس کی اتنی خوبصورت اور میچور بیوی ہو وہ خوش ہی ہو گا اور میں بہت خوش ہوں رابیل کے ساتھ۔ الحمداللہ ۔۔ یہ میری زندگی کا  سب سے قیمتی رشتہ ہے جسے میں کھونا نہیں چاہتا " شاہ زیب اب جتا کر بول رہا تھا
"یہ تو بہت اچھی بات ہے " عبیرہ نے کندھے اچکائے
"اوکے تم اپنے ہسبنڈ کا انتظار کرو ۔ اپنا خیال رکھنا ۔۔ اللہ‎ حافظ " شاہ زیب کہ آگے بڑھ گیا
"اللہ‎ حافظ " عبیرہ نے بھی مسکرا کر کہا اور دوسری جانب چلی گئی ۔۔

ایک سکون سا رابیل کے اندر اترا تھا شاہ زیب کی طرف سے اب اسے خطرہ نہیں رہا تھا ۔ جس طرح رابیل کو شاہ زیب نے عبیرہ کے سامنے اہمیت دی تھی اس سے صاف ظاہر تھا کے رابیل کے علاوہ شاہ زیب کے دل میں اور کوئی بھی نہیں ۔ وہ صرف اور صرف رابیل کا تھا رابیل کی بے پناہ محبت اور چاہت نے شاہ زیب کو اس کا بنا دیا تھا ۔ اگر عبیرہ اپنی زندگی سے خوش تھی تو شاہ زیب بھی بہت خوش تھا ۔ رابیل کو اس کے صبر کا پھل مل گیا تھا ۔ شاہ زیب صرف اور صرف اس کا تھا ۔۔
شاہ زیب اور رابیل ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ شاہ زیب کو رابیل کی قدر ہونے لگی تھی اور اب وہ سچ میں اسے کبھی بھی کھونا نہیں چاہتا تھا ۔۔

دو قدم چل کر شاہ زیب اور رابیل ایم بینچ پر بیٹھ گئے وہ دونوں سامنے کھلتے ہوئے شاہ زین کو دیکھ رہے تھے  ۔۔ شاہ زیب نے اب بھی اپنا بازو رابیل کے گرد کیا ہوا تھا۔۔ شاہ زیب نے رابیل کو دیکھا ۔۔ شاہ زیب کے رابیل کی طرف دیکھنے پر رابیل نے بھی  شاہ زیب کو دیکھا  
"You're only mine "
(تم صرف میری ہو )
شاہ زیب نے مسکرا کر کہا
"And you are only mine "
(اور آپ صرف میرے ہو )
رابیل نے بھی مسکرا کر کہا
پھر اپنا سر شاہ زیب کے کندھے پر رکھا ۔۔ دونوں مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔

اسے کہنا
مکمل کچھ نہیں ہوتا
ملنا بھی نا مکمل ہے
جدائی بھی ادھوری ہے
یہاں اک موت پوری ہے
اسے کہنا
اداسی جب رگوں میں
خون کی مانند اترتی ہے
بہت نقصان کرتی ہے
اسے کہنا
بساط ِ عشق میں جب مات ہوتی ہے
دکھوں کے  شہر میں جب رات ہوتی ہے
مکمل بس
خدا کی ذات ہوتی ہے

_____________________
حرفِ آخر

کہتے ہیں جب ایک مرد ٹوٹے دل کی عورت کا دل جوڑنے میں اس کی مدد کرتا  ہے تو جب وہ عورت بہتر ہو جاتی ہے تو  وہ  اس مرد کو کبھی نہیں چھوڑتی اور اس سے وفاداری نبھاتی ہے ۔ مگر جب عورت کسی ٹوٹے ہوئے مرد کا دل جوڑنے میں مدد کرتی ہے اور مرد جب بہتر ہو جاتا ہے  تو وہ مرد اسی کا دل توڑ دیتا ہے اور اس سے بے وفائی کرتا ہے ۔۔ کچھ اسی بنیاد پر میں نے یہ کہانی لکھی تھی ۔ لیکن اس میں آخر پڑھنے کے بعد ایک چیز واضح کرنا چاہوں گی ۔ بے وفا پر نام نہیں لکھا ہوتا کے مرد بے وفا ہوتا ہے یاں عورت ۔ بے وفا کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔ عورت بھی بے وفا ہو سکتی ہے مرد بھی بے وفا ہو سکتا ہے ۔ بس کوشش کریں اگر آپ کوآپ کی محبت نہیں ملی تو جو آپ سے محبت کرتے ہیں ان کی قدر کر لیں اگر آپ ایک پاک رشتے میں بندھے ہوئے ہیں تو ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔چاہنے سے زیادہ چاہے جانے میں مزہ ہے ۔
اس ناول میں بہت سی چیزیں واضح کر کے لکھی گئی ہیں ۔ اگر آپ ایک رشتہ ازدواج میں ہیں تو تھوڑے ایکسپریسو بنو ۔ ایک دوسرے کی پروا ہے تو شو کرواؤ کے پروا ہے محبت ہے تو بتاؤ کے محبت ہے ۔ صرف ایک دوسرے سے امید مت رکھو خود ایک دوسرے کے دوست بنو تا کے آپ کو کسی نا محرم دوست کی ضرورت نا پڑے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔
بہت سے لوگوں کو شاہ زیب کا کردار برا بھی لگے گا بہت سے لوگ سوچیں گے کیسی شخصیت دکھائی بار بار چھوڑ جاتا ہے یہ کیسا ہیرو ہوا وغیرہ وغیرہ ۔۔ دراصل ہمیں ناول کی دنیا میں  ھر چیز مکمل دیکھنے کی عادت ہوتی ہے ہیرو ہے تو اس میں کوئی برائی نا ہو ہیروئن ہے تو اس میں کوئی برائی نا ہو پر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔۔
ھر لڑکا  اپنی زندگی کا ہیرو ہے ھر لڑکی اپنی زندگی کی ہیروئن ہے ۔ پر ہم سب پرفیکٹ نہیں ہوتے ہم سب میں بہت سی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں اور ہم سب خود کو اپنی خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں تو پھر کسی اور کو کیوں اس کی خامیوں کی وجہ سے چھوڑ دیں ؟ کیا ضروری نہیں کے ہم کسی کی خامیوں کو نظر انداز کر کے قبول کر لیں ۔ ہمیں ھر چیز میں مکمل کی تلاش ختم کرنی ہوگی کیوں کے مکمل کچھ نہیں ہوتا ۔۔ مکمل صرف اور صرف اللہ‎ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ۔
ایک چیز جو کومنٹس میں لوگ پوچھتے ہیں وہ یہ کے رابیل کیوں سہتی رہی سب کچھ ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا در اصل حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ ناول یک طرفہ محبت پر مبنی تھا اور یک طرفہ محبت ہے معنی اور بے مول ہی تو ہوتی ہے ۔۔
آپ سب نے ناول کو محبت محبت تھی بہت بہت شکریہ ۔۔ کمنٹس میں اپنی قیمتی راۓ کا اظہار ضرور کیجئے گا ۔ جلد آپ میرا اگلا ناول پڑھیں گے انشااللہ ۔ تب ٹک کے لئے اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیے گا ۔۔
جزاک اللہ‎ خیر ۔۔

آپ کی رائیٹر
ایمان محمود 

ختم شد ۔۔۔
__________________________
 


Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top