Episode 9
ناول کو بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے.
#او_میرے_یار_تو_میرا_پیار
#by_fariha_muzaffar قسط_ نمبر _ 9
از فریحہ مظفر
یار امایہ تم میرے والی کو ڈریسنگ کلاسز کیوں نہیں دیتی ؟۔ مفت کی پارٹی سے فری ہو کر سہان نے امایہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا جو حسبِ معمول پرکشش مگر سادہ سوٹ میں ملبوس تھی ۔
کیوں میری ڈریسنگ کو کیا ہوا ہے ؟۔ عزم نے فوراً منہ بنایا ۔سہان اسکی ڈریسنگ پر کمپرومائز نہیں کرنا چاہتا تھا اور عزم اپنی ڈریسنگ چینج نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
اوئے کمینو نکلو یہاں سے سی آئی ڈی ٹیم تلاش کرنے نکل پڑی ہے ۔شیزل نے بیگ کو کندھے پر لٹکا کر بھاگنے کی تیاری پکڑتے ہوئے جلد بازی میں کہا ۔سب نے اپنے اپنے بیگ پکڑے اور وہاں سے بھاگے اب جس کو جہاں جگہ مل رہی تھی وہ چھپ گیا تھا ۔شیزل لڑکیوں کے کامن روم میں چھپاتھا ،سہان لائبریری کے شیلف کے پیچھے ،امایہ سر وجاہت کی کلاس میں گھس گئی تھی ۔ایزال اور عزم کینٹین پر جا کر نقاب کر کے بیٹھ گئی تھیں باقی بچا حذیفہ تو وہ کامن روم میں پڑا برقعہ اوڑھ کر سیڑھیوں میں بیٹھ گیا تھا ۔جبکہ لڑکیوں کا پورا گروپ ان کی تلاش میں دربدر ماری ماری دیوداس بنی پارو کی تلاش کر رہی تھیں ۔
حزیفہ نے سیڑھیوں میں بیٹھے ہوئے سہان کا نمبر ملایا ۔جدائی کہاں برداشت ہوتی تھی ان سے ۔
پارو میری مارو کہاں ہو تم پارو ؟۔ وہ دکھی دیوی جیسی آواز نکال کر خاصے ڈرامائی انداز میں بولا ۔
دیوداس مت پوچھو ۔۔میں ان موٹی موٹی کتابوں کے جال میں پھنس گئی ہوں دیوداس مجھے بچا لو یہ ریاضی کے بھیجے ہوئے الجبرا غنڈے ،اردو کے تمام رمانوی شاعر اور کیمسٹری کی گود میں پرورش پانے والے گینگسٹر فارمولے میری عزت کے پیچھے پڑے ہیں دیوداس مجھے بچا لو میری عزت کو صرف تم ہی بچا سکتے ہو ۔سہان نے کتاب کو چہرے کے سامنے کیے ہوئے دہائی دی ۔
پارو ۔۔۔پارو۔۔۔پارو ۔۔۔تم انتر منتر جنتر تلنتر پڑھ کر پھونکو میں اپنی پارو کو بچانے کے لیے ابھی اڈی اڈی آتا ہوں پارو ۔۔۔تم وہاں سے کہیں مت جانا پارو ۔۔۔میں یہاں سیڑھیوں میں بیٹھا ان کمینے لوگوں کے ٹھڈے کھا رہا ہوں پارو لیکن تم پریشان مت ہونا میں پارکنگ میں تمہاری گاڑی کے پاس ہوں پارو تم الجبرا غنڈوں ،رمانوی شاعروں اور گینگسٹر فارمولوں کا منہ توڑ کر گاڑی کے پاس آ جانا پارو ۔۔۔پارو تیرا ابا بڑا امیر ہے اپنے ابے سے بول مجھے بھی ایسی گاڑی دلا دے پارو تمہیں تمہارے دیوداس کے پیار کی قسم پارو ۔حذیفہ اپنے مطلب کی بات پر آ گیا تھا ۔
لفنٹر دیوداس مجھے یہاں سے نکل لینے دے پھر تیری غربت نکالتا ہوں ۔سہان دنت پیستے ہوئےکہا اور فون بند کر دیا ۔
سہان کی کال بند ہوتے ہی حذیفہ نے شیزل کو کال ملائی تھی ۔وہ کامن روم میں بیٹھا اب بیچارہ کیا کرتا ۔کال رسیو کر کے اس نے باریک آواز میں ہیلو کہا ۔
ابے کمینے تو نے اپنا جینڈر کب سے بدل لیا ہے ؟۔ حذیفہ پارکنگ میں پہنچ کر آزاد محسوس کر رہا تھا آرام سے انگڑائی لیتے ہوئی بولا ۔
مجبوری کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پرتا ہے بے غیرت میں نے تو بس جینڈر بدلنے کی ایکٹنگ کی ہے ۔شیزل کا بس نہیں چل رہا تھا اسے فون سے باہر نکال کر اس کی گردن مروڑ دیتا ۔
دیکھ تیری کال رکارڈنگ پر لگی ہے انکل کو سناؤں گا کہ تو کیسے ان کو گدھا بولتا ہے ۔حذیفہ بھی اپنے نام کا ایک تھا اپنا مطلب ہر بات سے نکالنا جانتا تھا وہ ۔
شرم نام کی چیز نہیں تجھ میں ،میں یہاں لڑکیوں کے کامن روم میں پھنسا ہوں اور تو وہاں اپنی رال ٹپکا رہا ہے ۔
ہاں تو کس نے کہا تھا فری کا کھانا پیٹ بھر بھر کے ٹھونس برے کامکا برا نتیجہ ہونہہہ۔وہ بلکل پھپھے کٹنی ماسیوں کی طرح منہ کے زاویے بگاڑ کر بولا ۔
میں تجھے کامن روم سے لکالتا ہوں لیکن ایک شرط پر ۔حذیفہ نے آفر کی ۔
بھونک کیسی شرط ؟۔ شیزل نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا ۔اب واقعی اسے گدھے کو باپ بنانا پڑنا تھا ۔
پہلے عزت سے بول ۔حذیفہ کی دوسری ڈیمانڈ ۔
جی جناب بھونکیے ۔وہ مسلسل آواز چینج کر کے بول رہا تھا اور اب اس کا بس نہیں چل رہا تھا سب کو چیخ چیخ کر بتاتا کہ ہاںمیں ہی ہوں شیزل جس نے اپنے صدا کے بھوکے دوستوں کے ساتھ مل کر مفت کا کھانا کھایا تھا میں ہی ہوںوہ گستاخ لیکن کیا کرتا چپ رہنے پر مجبور تھا ۔
میرا دس دن کا کھانا اور روز کے پندرہ کپ چائے تیری طرف سے ہوں گے ۔حذیفہ کی عجیب و غریب ڈیمانڈ پر اسے بلکل حیرت نہیں ہوئی تھی ۔ایک چائے کے دیوانے سے چائے کی ڈیمانڈ کے علاوہ اور کسی ڈیمانڈ کی توقع رکھنا بھی گناہ ہی ہوتا ہے ۔
ٹھیک ہے دربدر انسان تجھے چوہوں کی نسل میں ہونا چاہیے تھا ویسے ۔شیزل نےسرد آہ بھرتے ہوئے کہا ۔
دراصل تیرے آباؤ اجداد اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں نا اسی لیے تو چاہتا ہے کہ میرا تعلق بھی اسی نسل سے ہوتا اور پھر ہم دونوں تب بھی دوست ہوتے آخر میرے جیسے نایاب دوست قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں ۔وہ نان سٹاپ بولتا چلا جا رہا تھا ۔
ہو گئی تیری بکواس ختم تو آ جا اب ۔شیزل نے تنگ آ کر کہا ۔
نہیں میری جان ٹو بی کنٹینیوڈ مائی بکواس آفٹر چھوٹی سی بریک ۔اس نے کہہ کر قہقہہ لگایا اور کال بند کر دی ۔جیسے تیسے کر کے وہ شیزل کو وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔امایہ ،عزم اور ایزال کو بھی اکٹھا کر کے وہ لوگ یونیورسٹی سے نکلے تھے ۔
میسنی ویسے تم کیوں چھپی تھی تم لوگ تو تھے ہی نہیں ہمارے ساتھجب ہم کھانا لینے گئے تھے ۔سہان نے گاڑی میں بیٹھی امایہ کو پیارے سے نام سے بلایا ۔
ایک تو تم لوگ ہمارے یہ رنگ بھرنگے نام رکھنا چھوڑو اور تم لوگوں کے نام سے ہی ہم پہچانے جاتے ہیں اگر ہم لوگ انہیں مل جاتے تو ہماری درگت بن جانی تھی ان لڑکیوں کے ہاتھوں۔امایہ کی بجائے ایزال نے جواب دیا تھا ۔
ہاتھی کی ساتھی تم مجھے یہ بتاؤ تم ان دونوں کی اسسٹنٹ لگی ہو ؟یا جب ہم بلاتے ہیں تو یہ دونوں وقتی گونگیاں ہو جاتی ہیں جو تمہاری زبان چلنے لگتی ہے ؟۔ اب کی بار حذیفہ کی زبان میں کھجلی ہوئی تھی ۔
اوئے ان چڑیلوں کو چھوڑ تو دیکھ ہم کتنےمشہور ہیں پوری یونی میں یہ لوگ ہماری وجہ سے پہچانی جاتی ہیں ۔سہان خوش فہمیوں کی پل پر سوار ہو چکا تھا ۔
اوہیلو کن خوش فہمیوں میں مبتلا ہو ہماری بھی اپنی ایک پہچان ہے اچھا اور تم لوگ مشہور نہیں بدنام ہو ۔عزم نے تنک کر کہا ۔
بدنام ہونے کے لیے بھی تو نام کی ضرورت ہوتی ہے ڈئیر منگیتر اور میرے جیسے بدنام انسان کےساتھ تم بھی بدنام ہونے کے لیے تیار رہنا ہائے کتنا مزہ آئے گا تم بھی بدنام میں بھی بدنام ۔۔۔ہم دونوں بدنام بدنام ۔سہان نے آنکھیں اوپر کی جانب کر کے گویا بدنامی کو تصور کر کے مزے لینا شروع کر دیا تھا ۔عزم نے گھور کر اسے دیکھا تھا ۔
یار سب کچھ چھوڑو مجھے ایک بات کرنی ہے تم لوگوں سے ۔حذیفہ نے انکی بحث کو ختم کرنے کے لیے کہا ۔
کون سی بات کہیں تو گھر سے بھاگ کر شادی تو نہیں کر رہا دیکھ مجھے گواہ ضرور رکھنا مجھے بڑا شوق ایسی شادیاں دیکھنے کا ۔سہان پرجوش ہوتے ہوئے بولا ۔
فٹے منہ ہے تیرے یار میری منگنی اور نکاح ہے اتوار کو تم لوگوں کو انوائیٹ کر رہا ہوں ۔حذیفہ کی ملامتی نظریں سہان پر ٹکی تھی ۔
لوتیری منگنی تو ہو چکی ہے دو دو منگیتریں رکھ رہا ہے تو ؟سن لوعزم اگر اس نے دوسری منگنی کی نا تو میں بھی دوسری منگنی کروں گا ۔سہان کو تو گویا موقع مل گیا تھا ۔
ابے سالے بکواس بند کر پہلے صرف بات پکی ہوئی تھی اب باقاعدہ رسم کرنی ہے اتوار کو اور ساتھ نکاح تم سب کا آنا لازمی ہے ۔حذیفہ نے تفصیل بتائی ۔
اچھا ۔۔۔چل مینیو میری مرضی کا رکھنا ۔سہان حذیفہ کا سر کھانے میں مصروف ہو گیا ں اور لڑکیا اپنی باتوں میں اب ظاہر ہے لڑکیاں پاکستان اور انڈیا کے حالات پر تو بات نہیں کر سکتیں کپڑے اور جوتوں پر ہی ڈسکس کر سکتی تھیں سو وہ کر رہی تھیں ۔
٭٭٭٭
سہان آوارہ گردی کرنے کے رات کو گیارہ بجے کے بعد گھر آیا تو تمام لائیٹس آف تھیں ۔ماما پاپا دونوں اس کاانتظار کر کے سو گئے تھے۔ایک وہ تھا جس کے نخرے آج کل آسمانوں کو چھو رہے تھے ۔بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے ۔کچن میں جا کر دیکھا تو وہاںبھی کھانے لائق کوئی چیز موجود نہیں تھی ۔اس نے ایک بڑی سی پلیٹ میں آٹانکالا آدھا نیچے گرایا اور آدھا سلیب کے اوپر ۔نل سے ایک برتن میں پانی بھرا اور آتا گوندھنے لگا ۔۔۔آتا ک گوندھ رہا تھا وہ باکسنگ زیادہ کر رہا تھا ۔انگلیوں کو چپکا آٹا وہ نفاست سے اتار کر سلیب پر رکھ دیتا اور ایسے کرتے کرتے پلیٹ میں آٹا کم بچا تھا اور سلیب پر زیادہ پڑا تھا ۔تھک ہار کر اس نے میکرونی کا پیکٹ نکالا آٹا وہیں چھوڑ کر ۔دو چار برتن پکڑے ارے بھئی پریشان کیوں ہو رہے ہیں ظاہر ہے ہمارے سگھڑ لڑکے نے میکرونی بنانی تھی ۔اب میکرونی کو ابال کر کیا کرنا تھا یہ تو وہ جانتا نہیں تھا سو اس کو بھی وہیں چھوڑا اور کچن میں تباہی مچا کر لاؤنج میں آ گیا ۔سہان عبداﷲ جہاں ہوتا تھا وہاں بربادی ہی بربادی ہوتی تھی آبادی نہیں ۔اور وہ کچن کو برباد کرنے کے بعد گاڑی کی چابی لے کر گھر سے نکل آیا ۔
٭٭٭
یار پتا نہیں سہان کو کیا ہو گیا ہے وہ بہت اگنور کرتا ہے مجھے ۔عزم ایزال سے ویڈیو کال پر بات کرتے ہوئے افسردگی سے بولی ۔
دیکھو عزم لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن ابھی تم اس سے کلئیر کٹ بات کرو اگر اس کا رویہ تم سے ایسا ہی رہا تو اسسے کہہ دو کہ تمہیں اس سے شادی نہیں کرنی ۔ایزال نے کہا ۔
میں اس سے یہ نہیں کہہ سکتی ایز میں تمہارے جتنی بہادر نہیں ہوں ۔اداسی ابھی تک اس کے لہجے میں پنہاں تھی ۔
بہادر بنو عزم اپنے لیے ابھی سٹینڈ نہیں لو گی تو پھر ساری عمر پچھتاؤ گی اگر وہ تم سے محبت نہیں کرتا تو یہ رشتہ تم لوگوں کے درمیان ابھی تک کیوں قائم ہے ؟۔ایزال کا پارا ہائی ہونے لگا تھا ۔
ایز پتا نہیں وہ مجھ سے محبت کرتا ہے یا نہیں لیکن میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں اس کے بغیر میں اپنی زندگی تصور بھی نہیں کر سکتی ۔وہ بے بسی سے بولی ۔
ایزال لب بھینچ کر خاموش ہو گئی تھی ۔ایک سوچ اسکے دماغ میں ادھم مچانے لگی تھی ۔
ایزال نے کال ڈسکنیکٹ کی تو عزم اٹھ کر اپنے لمبے سیاہ بال پونی سے آزاد کر کے کنگھی کرنے لگی ۔اسکی عادت تھی وہ اپنے بال کھول کر سوتی تھی ۔ابھی وہ بال برش کر کے لائیٹس آف کر کے لیٹی ہی تھی کہ اچانک اسے کھڑکے کا احساس ہوا ۔رات کے بارہ بجے کھڑکی پر دستک کی آواز سے عزم کے پسینے چھوٹنے لگے تھے ۔وہ دم سادھے آنکھوں کو پورا کھولے کھڑکی کو گھورنے لگی ۔اچانک اسے کھڑکی پر کوئی سایہ نظر آیا ۔اس کے بچے کھچے حواس بھی خدا کو پیارے ہونے لگے ۔وہ خود میں سمٹ کر لیٹ گئی اور آیت الکرسی پڑھنے لگی ۔لیکن دستک بڑھنے لگی تو اس نے بلآخر ہمت کی اور لحاف سائیڈ پر کر کے وہ کانپتی ہوئی ٹانگوں سے چلتی ہوئی کھڑکی تک آئی اور پردہ دھیرے دھیرے سائیڈ پر کیا ۔
خڑاؤووووووووووں ۔اچانک ہی وہ زور سے کھڑکی کے ساتھ زور سے لگا اور اس کے ساتھ ہی چپک گیا ۔
آاااااااااا بچاؤ وووووووووووووو۔عزم کی چنگھاڑتی ہوئی چیخ کمرے میں گونجی ۔سہان کھڑکی کے ساتھ الٹا بندر کی طرح چپکا ہوا کسی جن کی طرح لگ رہا تھا ۔عزم اپنی آنکھوں کے سامنے دونوں ہاتھ رکھے ڈری سہمی کھڑی تھی ۔
او شوگر میلن کھڑکی کھولو ورنہ اگلے دو منٹ تک میں نیچے گر چکا ہو ں گا ۔سہان نے کھڑکی بجا کر کہا تو عزم نے چونک کر ہاتھ آنکھوں سے ہٹائے اور آنکھیں پھاڑے کھڑکی کے ساتھجا کر کھڑی ہوئی ۔
سہان بندر ،چھپکلے تم،تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو ؟۔وہ آنکھیں پھاڑے حیرت سے پوچھ رہی تھی ۔
کھڑکی کھولو یار میں تو گرنے لگاہوں بس ۔سہان نے منت کی ۔عزمنے جلدی سے کھڑکی کھولی اور اس کا ہاتھ تھام کر اندر کھنچا ۔الٹا لٹکا ہونے کی وجہ سے وہ دھڑم کر کے اندر گرا تھا لیکن عزم کے ہاتھ تھامنے کی وجہ سے بچت ہو گئی ۔
دیکھ لو شوگر میلن تم سے ملنے کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا ہے مجھے ۔زمین پر گرے ہوئے وہ کراہتا ہوا بولا ۔
تو کس نے کہا تھا یوں بندروں کی طرح آؤ کبھی کوئی انسانوں والی حرکتیں بھی کر لیا کرو بندر ۔وہ خفگی سے اسکو گھورتے ہوئے بولا۔
میری شوگر مجھ سے خفا تھی میں منانے بھی نہیں آتا ۔وہ اسکو نرم نگاہوں سے تکتے ہوئے بولا ۔عزم اسکی نظروں سے پزل ہونے لگی تھی ۔سہان کی عادت تھی وہ اکیلے میں عزم کو ہمیشہ شوگر میلن کہہ کر ہی بلاتا تھا ۔
یار کچھ کھلا ہی دو قسم سے بڑی بھوک لگی ہے چوہے دوڑ رہے ہیں پیٹ میں ۔وہ اپنی بے ساختہ نطروں کا رخ بدلتے ہوئے بولا۔
جھوٹے بندر تم تو کہہ رہے تھے کہ مجھے منانے کے لیے آئے ہو سیدھی طرح بتاتے خالہ نے جوتے مار کر گھر سے نکالا ہے ۔وہ آئینے کے سانے کھڑی ہو کر بالوں کی چٹیا بنانے لگی ۔
نہیں جی اچھی خاصی عزتہے میری گھرمیں وہ تو بس دل چاہ رہا تھا تم سے ملنے کو ۔وہ نظریں ادھر ادھر گھماتا بے نیازی سے گردن اکڑا کر بولا ۔
آہاں جیسے میں تو جانتی ہی نہیں کتنی عزت ہے تمہاری ۔وہ طنزیہ بولی۔
اب اینڈرایسٹیمیٹ نا کرومیری عزت کو اچھا ۔وہ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھ چکا تھا ۔
اچھا میں کھانا لے کر آتی ہوں گرم کر کے ۔وہ دوپٹہ سیٹ کر کے کمرے سے باہر نکل گئی۔سہان اس کا جاتا دیکھتا رہا ۔اس کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی تصویر پر نظر پڑتے ہی وہ اٹھ کر اس کے پاس گیا اور ہاتھ میں تھام لیا ۔
میری شوگر میلن ۔مسکرا کر وہ بڑبڑایا اور واپس رکھ دی ۔
وہ اسکی شوگر میلن تھی ۔
اور وہ اسکا بندر تھا ۔
٭٭٭
عرشمان کمرے میں اپنے بیڈ پر ایک گولڈن رنگ کا باکس رکھے بیٹھا تھا جس میں سے چند چیزیں سامنے بکھری تھیں ۔ایک تصویر کو تھامے وہ اداس نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
کیا کچھ نہیں چھینا زندگی تم نے مجھ سے ؟۔وہ زیرِلب بڑبڑایا اور تصویر واپس رکھ دی ۔ایک اور تصویر تھامی تو بے ساختہ مسکراہٹ لبوں پر رقص کرنے لگی ۔وہ کی تصویر تھی ۔
Aish squadہ
یہ دوستی میری زندگی ہے ۔ہمیشہ ایسے ہی مسکراتے رہو کمینو ۔
٭٭٭
اگلےدن یونیورسٹی پہنچ کر انہیں خبر ملی تھی کہ پیر کو سر وجاہت نے مڈٹرم کا پیپر رکھ دیا تھا ۔اب کیا تھا سکویڈ کی تو جان پر بن گئی تھی اتوار کو حذیفہ کو نکاح تھا اور پیر کو پیپر ۔سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئیں تھیں ۔
یار کیا کریں گے اب پیپر کی تیاری کریں گے کیسے ؟۔ امایہ نے ناخن چباتے ہوئے پریشانی سے کہا ۔
لو ہم ایسی چھوٹی موٹی ٹینشن لینے کے لیے نہیں بنے پیپر تو میرے ڈائیں ہاتھ کی مارہے ۔سہان نے لاپرواہی سے ہاتھ جھلا کر کہا ۔
بس بس اتنا تو لائق فائق ۔عرشمان نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
تجھے کوئی شک ہے میری ذہانت پر ؟۔ وہ گھورتے ہوئے پوچھنےلگا ۔
نہیں مجھے پورا پورا یقین نے تیری نالائقی پر ۔عرشمان نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا ۔
چھوڑوتم لوگ آج واپسی پر مال چلتے ہیں شاپنگ لیے بےے غیرتو میری شیروانی بھی لینی ہے ابھی ۔ حذیفہ جو جب سے خاموشی سے ان کی بکواس سن رہا تھا تنگ آ کر بولا ۔
اؤئے ہوئے چیک تو کرو کیسے آگ لگی ہے اسے دلہا بننے کی واہ بھئی شیروانی پہنے گا تو منہ دیکھا اپنا شیروانی والا ۔سہان اس کا منہ پکڑ کر ادھر ادھر گھماتے ہوئے ہاتھ جھلا جھلا کر مصنوعی ستائش سے بولا ۔
ابے چھوڑ سالے شیروانی پہننے والوں کے منہ پر کیا ہیرے لگے ہوتے ہیں جو میرے منہ پر نہیں لگے۔حذیفہ اس کا ہاتھ جھٹک کر غصے سے بولا ۔
لو ہیروں کی کیا بات کرتے ہو وہ تو حسین و جمیل ہوتے ہیں جب کے تو ۔۔۔۔آہہہہ ترس آتا ہے مجھے بھابھی پر بیچاری بھابھی ۔سہان مزید اس کو تپانے کے موڈ میں تھا ۔
اور بھابھی بیچاری پتا نہیں کیسے اس کو برداشت کرے گی مجھے تو لگتا ہے بھابھی نے ساری زندگی چائے والی دیگ کے سامنے ہی بیٹھے رہنا ہے ۔اب کی بار شیزل نے چوٹ کی تھی ۔
تو تم کیو ں جیلس ہو رہے ہو بھئی میری بیوی میرے لیے چائے نہیں بنائے گی تو کیا تو بنائے گا ہنہ ۔حذیفہ نے بھی لٹھ مار انداز میں جواب دیا ۔
اور میں کیا سوچ رہا ہوں اگر بھابھی کو پتا چل گیا کہ تو پہلے شکیلا ،جمیلا ،انیلہ کے ہاتھوں کی چائے پپیتا رہا ہے تو پھر؟۔سہان تو پتا نہیں کون سے بدلے نکال رہا تھا ۔
بے غیرتو بس کر دو کیوں بیچارے دلہے کو تنگ کر رہے ہو ۔عرشمان میدانِ جنگ میں اپنے یار کو بچانے کے لیے کودا تھا ۔
٭٭٭٭
ایزال ،امایہ اور عزم ان چاروں کو چھوڑ یونیورسٹی چھوڑ کر خود شاپنگ کے لیے نکل آئیں تھیں ۔امایہ امیوں کی طرح ہر چیز کے ساتھ میچنگ کر کر کے چیزیں خرید رہی تھی ۔اب وہ اچھرہ میں بیٹھی چنا پٹھورا سے لطف اندوز ہو رہی تھیں ۔
یار اشوہ کے گھر چلیں ؟۔ عزم نے کھانے کے ساتھ مشورہ دیا ۔
نہیں یار اچھا نہیں لگتا ابھی ہم اس سے پہلے ملے نھی تو نہیں اور حذیفہ کو پتا چلا تو وہ ہمارے گلے دبا دے گا ۔امایہ نے کہا ۔
تم چھوڑو اس کو تم لوگ جلدی جلدی ختم کرو ہم لوگ چلتے ہیں ہو سکتا ہے اسکی بھی کوئی شاپنگ رہتی ہو کرنے والی ہم ہی ہیلپ کروا دیں گے ۔ایزال نے جلدی جلدی کھانے کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے کہا ۔تینوں نے اپنا کھانا ختم کیا اور اشوہ کے گھر کے لیے روانہ ہو گئیں ۔اشوہ چونکہ حذیفہ کی کزن ہی تھی اس لیے وہ حذیفہ کی ماما سے ان کے گھر کا اڈریس لے کر وہاں پہنچ گئی تھیں ۔ان کے ڈرائینگ روم یں بیٹھی تینوں اردگرد کا جائزہ ے رہیں تھی جب اشوہ وہاں آئی ۔
اسلام و علیکم ۔بلیک شلوار قمیض پہنے سنہری بالوں کو کھلا چھوڑے تیکھے نین نقوش کی حامل دودھیان رنگت والی اشوہ پہلی ہی نظر میں کسی کو دیوانہ کرنے کی اہلیت رکھتی تھی ۔تینوں کھڑی ہو کر باری باری ملیں تھیں ۔اور تینوں حذیفہ کی پسند پر حیران اور خوش تھیں ۔
ہم تینوں حذیفہ کی دوست ہیں ۔امایہ نے بات کاآغاز کیا ۔
جی حذیفہ ا کثر بتاتے ہیں آپ لوگوں کے بارے میں ۔وہ دھیمے لہجے میں بولی ۔
میسنہ کہیں کا پہلے سے سیٹنگ کی ہوئی تھی اور ہمیں بتایا بھی نہیں ۔ایزال نے تو گویا قسم کھا رکھی تھی ان کو ذلیل کروانے کی عزم کے ٹہوکا دینے پر بھی وہ باز نہیں آئی تھی ۔اشوہ نے اپنی مسکراہٹ کو بمشکل قابو کیا تھا ۔
تمہاری شاپنگ ہو گئی نکاح کی ؟۔ ایزال نے لحاظ کو بھیجا بھاڑ میں اور آپ سے سیدھا تم پر آ گئی ۔
نہیں وہ تو پھوپھو ہی لے کر آئیں گی نکاح کا جوڑا اور جیولری وغیرہ ۔اس نے سادگی سے جواب دیا ۔
ٹھیک ہے لیکن ابھی تو تم ہمارے ساتھ جا رہی ہو ہماری شاپنگ مکمل کروانے ۔ایزال نے اپنا فیصلہ سنایا ۔
لیکن۔اشوہ نے انکار کرنا چاہا ۔
لیکن ویکن کچھ نہیں بس تم چل رہی ہو ہمارے ساتھ اور سنو اپنے سیاں جی کو نا بتانا ابھی کہ ہم لوگ آئے ہوئے ہیں ۔عزمنے نصیحت کی تو وہ سر ہلا کر اپنی چادر لینے چلی گئی ۔
تم دونوں کچھ شرم کر لو پہلی دفعہ ملی ہیں ہم اس سے اور کیسے تم لوگ بول رہی تھیں ۔امایہ نے دونوں کو گھورا تو دونوں نے کندھے اچکا دیے ۔
٭٭٭٭
جاری ہے ۔۔۔۔
اگلی قسط جلد انشاءاللّٰہ....
قسط پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں...
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top