Episode 16

Don't copy paste without my permission 🚫🚫✖️✖️✖️❎

#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_16
#by_fariha_muzaffar

سہان عزم اور ایزال کو ڈراپ کر کے واپس حذیفہ کی طرف آ گیا تھا شیزل اور نمیر بھی وہیں پر تھے ۔لان میں نیچے گھاس پر بیٹھے وہ سوچ رہے تھے کہ اب پروفیسر وجاہت کا مڈ ٹرم کا پیپر کیسے دینا ہے ۔سہان گھاس پر بازوؤں کا تکیہ بنائے سر کے نیچے رکھے آسمان کو گھور رہا تھا ۔شیزل اس کے پیٹ پر سر رکھ کر لیٹا تھا اور نمیر بیٹھا موبائل پر لگا ہوا تھا جبکہ حذیفہ موبائل پر آج نکاح کی تصاویر دیکھ رہا تھا ۔
اوئے نمیر تیرے پاس تو ہر مسلے کا حل ہوتا ہے بتا پیپر کیسے کریں گے کل ہم؟ ۔سہان  نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
ایک آئیڈیا ہے میرے پاس اگر تم لوگ عمل کرو تو ۔وہ فوراً سر اٹھا کر بولا ۔سرمئی آنکھوں کو زرا چھوٹا کیا ۔وہ تینوں سیدھے ہو کر اس کے قریب ہو کر بیٹھے ۔وہ ان کے کانوں میں گھس کر اپنا آئیڈیا بتانے لگا ۔جیسے جیسے وہ بول رہا تھا ان تینوں کے چہروں کے تاثرات بدلتے جا رہے تھے ۔
پکی بات ہے ناں کہ یہ آئیڈیا کام کرے گا؟ ۔شیزل سوچتے ہوئے بولا ۔
سو فیصد کام کرے گا نا کیا تو.... تم سب لوگ خود زمہ دار ہو گے مجھے مت کہنا ۔نمیر نے اپنے ہاتھ جھاڑ لیے ۔
چلو پھر ریڈی ہو جاؤ ۔سہان اٹھتے ہوئے بولا ۔نمیر بھی اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔
دو چار پشتو میں گالیاں ہی سکھا دے ۔سہان اس کی گردن کے گرد اپنا بازو لپیٹ کر دانت نکوستے ہوئے بولا ۔
عرشمان کو کال کروں؟ ۔نمیر نے گھورا ۔
رہن دے تو اس نے سارے نوٹس اکٹھے کر کے میرے ہاتھ میں دے دینے ہیں ویسے بھی مجھے تو دو نمبر پٹھان لگتا ہے مجال ہے اس نے کبھی پشتو بول کے بھی دکھائی ہو اور تو اور ہمیں کبھی پشاور بھی نہیں لے کر گیا ۔سہان ہاتھ جھلا جھلا کر بولا تو سب کا فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا ۔
****************
رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا اور وہ چاروں سہان کی بائیک پر بیٹھ کر پروفیسر وجاہت کے گھر کے سامنے پہنچ گئے تھے ۔سہان اور حذیفہ کچھ پیچھے ہی اتر گئے تھے جبکہ شیزل اور نمیر گیٹ کے سامنے جا کر رکے تھے ۔
سہان نیچے مرغا بنا دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اور حذیفہ تزبزب کا شکار لگ رہا تھا ۔
اؤئے چل چڑھ بھی جا اب ۔سہان نے کوفت زدہ لہجے میں اسے آواز دی ۔
آج ہی میرا نکاح ہوا ہے ابھی تو میرا نکاح کو جوڑا بھی میلا نہیں ہوا اور تم لوگ مجھے سر وجاہت کے ہاتھوں زبح کروانے کے لیے لے آئے ہو ۔وہ رونی صورت بنا کر بولا ۔
او ارسطو کی اولاد اگر کل ہمارا پیپر ٹھیک نا ہوا نا تو سر نے ہمارے کفن میلے کر دینے ہیں اس لیے بہتر ہے ابھی نکاح کو جوڑا پہن کر جا اور پیپر چوری کر کے لے آ ۔سہان حقیقتاً تپ گیا تھا ۔
اچھا اچھا جا رہا ہوں لیکن اگر میں واپس نا آ سکا تو میری میری نئی نویلی دلہن کو کہنا کہ میں اس کا انتظار کروں گا دوسرے جہان میں ۔
خود تو تو میری بد دعائیں لے کر جہنم واصل ہو گا ساتھ اپنی معصوم منکوحہ کو بھی لے ڈوبے گا ۔
نعرہ تکبیر ۔حذیفہ ہاتھ بلند کر کے بولا ۔
انسان بن کے جا ورنہ پروفیسر  وجاہت نے نعرہ تکیبر کی جگہ کلمہ شہادت کی صدائیں بلند کروا دینی ہیں ۔سہان اب اس کو اپنے بازؤں میں اٹھا کر زبردستی دیوار کے ساتھ چپکا رہا تھا کیونکہ حذیفہ کا اپنا ارادہ تو ساری رات باہر کھڑے ہو کر گزارنے کا تھا۔اللّٰہ کا نام لے کر وہ دیورا پر چڑھ گیا تھا ۔
*****************
سہان حذیفہ کو دیوار پر چڑھا کر خود شیزل اور نمیر کے پاس آ گیا ۔جو کھڑے چوکیدار سے باتیں کر رہے تھے۔
السلام علیکم خان بابا ام کو سہان کہتے ایں ۔وہ خان بابا کے سر سے ٹوپی اتار کر اپنے سر پر لیتا ہوا سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا جھک کر بولا ۔
اور ام کو شیر دل کہتے ہیں ۔خان بابا نے مسکرا کر کہا ۔
خان بابا ام کو ایک بات تو بتاؤ یہ جو امارا دوست اے اس کو ام کہتا اے کہ پشتو سکھا دے لیکن یہ حڈ حرام بہت ہے ۔ویسے حڈحرام کو کیا کہتے ہیں پشتو میں؟ ۔اس کی سوئی ابھی تک پشتو پر ہی اٹکی ہوئی تھی ۔
حد حرام ۔خان بابا نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔
لو یہ تو اردو والی ہی بات ہے ۔وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولا ۔
۔
حذیفہ چھلانگ لگا کر لان میں کود گیا ۔آرام آرام سے چلتا ہوا وہ آگے بڑھ رہا تھا ۔جب اس کے پاؤں کسی بہت ہی نرم اور گداز شے پر پڑا ۔
ارے واہ کتنی نرم گھاس اگائی ہے پروفیسر نے آہا مزہ آ گیا ۔وہ پاؤں اچھی طرح اس ہر رگڑتا ہوا مزے لے کر ہاتھ ہوا میں بلند کرتا ہوا بولا ۔لیکن یہ کیا یہ کچھ گیلا گیلا بھی اس کے پاؤں کو چھو رہا تھا اور یہ سانس لینے کی آواز۔حذیفہ جہاں تھا وہیں دم سادھ کر کھڑا ہو گیا ۔
اچانک کتے کی بھونکنے کی آواز اتنی زور سے گونجی کہ حذیفہ تو اپنی جگہ اچھلا ہی تھا باہر کھڑے وہ تینوں بھی اپنی جگہ اچھے خاصے جھٹکے کا شکار ہوئے تھے ۔
************
ایزال بالوں کا جوڑا بناتی ہوئی اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو گلاب کے پھولوں کی خوشبو نے اس کا استقبال کیا ۔ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا سفید گلابوں کا بکے اور ساتھ چاکلیٹس کی باسکٹ پڑی تھی ۔اور ان کے ساتھ ایک خوبصورت سفید رنگ کا کارڈ پڑا تھا ۔ایزال نے کارڈ نکال کر کھولا ۔
تیری جھکتی اٹھتی آنکھوں میں
اپنا عکس میں بھی دیکھ سکوں
جو لفظ ہیں قید دل میں میرے
کبھی تم سے میں وہ سب کہہ سکوں
میری چاہتوں میں میری راحتوں میں
میری دھڑکن نے بس تیرا نام لیا
تیری بے رخی سے تیری اداؤں سے
میں نے ہے بس تم سے پیار کیا
#گمنام
” سفید گلاب سیاہ بالوں پر لگانے کے لیے “۔
پورے کارڈ پر صرف یہ حروف لکھے تھے ۔بے شک اس کے لفظ سحر انگیز تھے جس نے بھی لکھے تھے ۔مگر کون تھا وہ؟ ۔وہ کارڈ وہیں رکھ کر چینج کرنے چلی گئی ۔چینج کر کے باہر نکلی تو باسکٹ سے ایک چاکلیٹ نکال کر کھاتی ہوئی لاؤنج می‍ں آ گئی ۔
اماں یہ پھول اور چاکلیٹس کہاں سے آئیں ہیں؟ ۔صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی ماں کو مخاطب کر کے پوچھا جو ٹی وی پر کوئی شو دیکھ رہیں تھیں ۔
پتا نہیں کورئیر آفس والے دے کر گئے ہیں نام نہیں لکھا کیا اوپر؟ ۔انہوں نے ٹی وی پر نظریں جمائے پوچھا ۔
نہیں نام تو نہیں لکھا لیکن خیر چاکلیٹس بھیج کر بڑا اچھا کیا اس نے جو بھی تھا میری ساری چاکلیٹس ختم ہو گئی تھیں ۔وہ چاکلیٹ کی آخری بائیٹ لے کر بے نیازی سے بولی ۔اور وہیں بی اماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ۔
کل تیرا تایا  آ رہا ہے کوئی ڈھنگ کے کپڑے پہن لینا پتر ۔بی اماں اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں تو اس نے نظریں گھما کر انہیں دیکھا ۔
وہ کیوں آ رہے ہیں؟ پھر سے اس نکھٹو بیٹے کے لیے آ رہے ہوں گے ۔اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا ان کا نام سن کر ۔
ایسے نا بول ہاں کر دے ویسے بھی ویاہ تو کرنا ہی ہے تجھے ایک نا ایک دن ۔بی اماں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا ۔
بی اماں بس کر دیں ایزال ہادی نام ہے میرا کوئی عام لڑکی نہیں ہوں میں جو کسی بھی ایرے غیرے کے کھونٹے سے چپ چاہ بندھ جاؤں گی ۔وہ غصے سے کہہ کر واپس اپنے کمرے میں آ گئی ۔
حد ہو گئی ہے لڑکی نا ہو گئی کوئی گائے بھینس ہی ہو گئی ۔وہ بڑبڑاتی ہوئی ایک اور چاکلیٹ اٹھا کر بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔
اوپر سے گمنام پتا نہیں کون ہے بندہ نام تو کوئی چج کا رکھ لیتا ہے ۔ایک اور دکھڑا یاد آیا تو وہ بڑبڑا کر رہ گئی ۔
***********
کتے کی آواز سن کر تو حذیفہ کے چودہ کی بجائے بیس پچیس طبق روشن ہوئے تھے ۔اس نے آؤ دیکھا نا تاؤ دیکھا چپل ہاتھ میں پکڑی اور لگا دی دوڑ باہر کی طرف ۔وہ آگے آگے تھا اور کتا اس کے پیچھے پیچھے ۔وہ تینوں تو ساییڈ پر ہو کر کھڑے ہو گئے تھے شامت بیچارے حذیفہ کی آئی تھی ۔پوری سوسائٹی میں بھاگتا پھر رہا تھا ۔شیزل نے فوراً موبائل نکال کر اس کی ویڈیو بنائی ۔سہان مزے سے اسے بھاگتا دیکھ رہا تھا ۔پھر اس کے پیچھے جا کر کتے کو اس کے پٹے سے پکڑا ۔
ہیلو ٹومی ۔پٹے سے پکڑ کر مسکرا کر اسے ہیلو کہا تو کتا بھی آرام سے کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا ۔حذیفہ وہیں زمین پر پھولی سانس کے ساتھ ڈھے گیا ۔
ٹومی کیوں بھاگ رہے تھے یقین کرو وہ تمہارے جیسا لگتا  ضرور ہے مگر وہ تمہاری نسل سے بلکل نہیں ہے ۔کتے کے پاس بیٹھ کر اس کو سہالتے ہوئے وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے اپنے کسی دوست سے ۔
تمہیں پتا ہے ہمارے محلے میں ایک ڈریگی رہتی ہے بڑی پیاری ہے تمہاری جوڑی اس کے ساتھ بہت پیاری لگے گی کیا کہتے ہو سیٹنگ کروا دوں تمہاری اس کے ساتھ؟ ۔کتا جو مزے سے بیٹھ کر اس کی باتیں سن رہا تھا فوراً سر ہاں میں ہلا گیا ۔
ارے واہ تجھے تو کتوں کی زبان بھی آتی ہے ۔شیزل نے ستائشی نگاہوں سے اسے دیکھا ۔
ہائے میرا یار، میرا دل، میرا جگر، میرا پھیپھڑا آج تو نا ہوتا تو میں تو اس کتے کا کینڈل لائیٹ ڈنر بن چکا ہوتا تو نے آج میری جان بچا کر بہت بڑی نیکی ہے ۔حذیفہ سہان کو پیچھے سے اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے شیریں لہجے میں بولا ۔سہان خوامخواہ میں ہی گردن سیدھی کرنے لگا تھا ۔
حذیفہ کو دیکھ کر کتے کی رال ایک بار پھر ٹپکی تھی اور پھر سے اس نے بھونکنا شروع کر دیا تھا ۔
ٹومی بری بات کہا نا سیٹنگ کروا دوں گا اس کو چھوڑ دو بس بہت بد مزہ گوشت ہے اس کا صرف چائے ہی نکلنی ہے اس کے جسم سے ۔سہان پھر سے اس کا سہلاتا ہوا پیار سے بولا تو کتا شانت ہوا ۔نمیر کتے کو خان بابا کے حوالے کر کے آیا ۔
قسم سے سہان آج تو نا ہوتا تو میں تو بغیر چائے پیے ہی اللّٰہ کو پیارا ہو جاتا کتے نے تو کھاتے وقت مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھنا تھا کہ آخری وقت میں تم چائے کا چھوٹا کپ پینا چاہتے ہو یا بڑا مگ ۔حذیفہ پھر سے اس کو چپکتے ہوئے بولا ۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے چلو اب کام تو تو نے کیا نہیں اب نکلیں یہاں سے اس سے پہلے کہ پروفیسر آ کر ہم سب کو اپنے کتے کی خوراک بنا دیں ۔بائیک کو کک مارتے ہوئے اس نے کہا اور بائیک کو ہواؤں میں اڑاتا ہوا لے جانے لگا ۔
*********
صبح یونیورسٹی پہنچ کر سب نے کتابوں کو رٹے لگانا شروع کر دیے تھے ۔زیادہ نہ لیکن تھوڑی بہت تیاری تو ان کی ہو گئی تھی ۔نو بجے سر وجاہت کی کلاس کا ٹائم ہوا تو سب لوگ کلاس میں چلے گئے ۔
وہ سب لوگ ایک دوسرے کے پیچھے بیٹھے تھے پیپر اتنا مشکل تو نہیں تھا مگر اتنا آسان بھی نہیں تھا ۔
چھی چھی او میسنی ۔سہان اپنے آگے بیٹھی امایہ کو دبی دبی آواز میں بلانے لگا ۔جس نے فوراً اس کا اشارہ سمجھ کر تھوڑی سائیڈ ماری اور پیپر کھسکا کر اس کے سامنے کیا ۔سہان فوراً اپنے پیپر پر لکیریں کھینچنے لگا ۔ایک شارٹ سوال کر کے اس نے اوکے کا سائن دیا ۔امایہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔اسی طرح پورے گروپ نے ایک دوسرے کی مدد کر کے پیپر مکمل کیا اور کلاس سے باہر آگئے ۔
سہان تو عادت سے مجبور تھا کہ بس پاسنگ مارکس جتنا ہی پیپر کرتا تھا۔کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ جب کم سے ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو زیادہ کا کیا کرنا ویسے بھی وہ اگر مکمل پیپر حل کر آئے تو ٹوپرز بیچارے کہاں جائیں گے ۔
سب لوگ کینٹین کی جانب آ گئے ۔امایہ رعنین کو بھی اپنے ساتھ لے آئی۔
رعنا تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ ۔نمیر نے رعنین کو دیکھ کر پوچھا ۔
وہ میں امایہ کے ساتھ آئی تھی جو لیکچر رہتے تھے وہ یہی کور کروا رہی ہے مجھے ۔رعنین سے تفصیل بتائی ۔
اچھا اچھا سہی ۔نمیر نے سمجھ کر سر ہلا دیا ۔
یہ لفنٹر تمہیں کیسے جانتا ہے؟ ۔امایہ نے ایک نظر نمیر پر ڈال کر رعنین کو دیکھ کر پوچھا ۔
میرا کزن ہے ہم اکٹھے ہی لاہور آئے ہیں ۔اور آپ لفنٹر کیوں بول رہی ہو نمیر کو وہ بلکل عام لڑکوں جیسا نہیں ہے ۔رعنین کو برا لگا تھا ۔
نہیں بس غلطی سے نکل گیا منہ سے ۔امایہ فوراً آنکھیں گھماتی بولی ۔اب وہ کیا بتاتی اسے کہ وہ خاص انسان کتنی بار اسے لائن مار چکا تھا ۔بیچاری معصوم رعنا کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے لوفر، لفنٹر، گھٹیا انسان نے ۔امایہ دل ہی دل میں سوچتی اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی گئی ۔
***********
جاری ہے

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top