Episode 15

Don't copy paste my novel 🚫🚫✖️✖️🚫✖️🚫

#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_15
#by_fariha_muzaffar

حذیفہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچا ۔سہان لنگڑاتا ہوا تھوڑا سا آگے ہوا ۔کیا ہوا ہے تم لوگوں کو؟ ۔حذیفہ سہان کو سہارا دیتے ہوئے فکرمندی سے بولا ۔اسکے حقیقتاً پسینے چھوٹ رہے تھے ۔دوسری طرف عرشمان نمیر اور شیزل کو تھام کر اندر لے آیا۔
بس کیا بتائیں بہت بری طرح ایکسیڈینٹ ہوا ہے ۔سہان نے کراہتے ہوئے کہا ۔اس کا سفید سوٹ خون سے رنگ چکا تھا ۔
کہاں ہوا ایکسیڈینٹ؟ اور پکڑا کیوں نہیں تم لوگوں نے اس کو؟ اپنی حالت دیکھو تم لوگ چلو ہاسپٹل چلتے ہیں ۔حذیفہ کی پیشانی پر غصے سے بل پڑے پھر ان کی جگہ فکرمندی نے لے لی ۔
نن.... نہیں تمہارا نکاح ہے چلو تم سٹیج پر چل کر بیٹھو ہمارا کیا ہے پھر چلے جائیں گے ہاسپٹل ۔نمیر نے اپنے ماتھے ہر رومال رکھا جو آدھا سرخ ہو گیا تھا ۔
بھاڑ میں گیا نکاح تم لوگ اٹھو ابھی چل رہے ہیں ہم ہاسپٹل میرے لیے سب سے زیادہ اہم تم لوگ ہو ۔حذیفہ اپنی بات پر بضد تھا جبکہ سب لوگ حق دق بیٹھے ان سب کو دیکھ رہے تھے ۔
حذیفہ تم چلو سٹیج پر ان کے زخم میں دیکھتا ہوں ۔عرشمان اس کا کندھا تھپک کر بولا ۔ان تینوں نے نظروں کا تبادلہ کیا ۔
ایسے کیسے جاؤں ۔حذیفہ منمنایا ۔عرشمان نے زبردست گھوری سے نوازا ۔عزم، ایزال اور امایہ بھی ان کے پاس آ گئیں ۔
کیا ہوا ہے سہان؟ ۔عزم اسے دیکھتے ہی رونے والی ہو گئی تھی ۔اور دوسری جانب سہان کے دل میں ایسی کھلبلی مچی تھی کہ بسسسسس ۔
ہوش والوں کو کیا خبر بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجیے پھر سمجھئیے زندگی کیا چیز ہے

ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں
آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے

بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کی شاعری
جھکتی آنکھوں نے بتایا مےکشی کیا چیز ہے

ہم لبوں سے کہہ نا پائے حالِ دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے

اور سہان عبداللّٰہ اس کے لمبے گھنے بالوں پر مر مٹا تھا ۔اور یہ مر مٹنا اسے بھاری پڑا تھا ۔وہ عزم کے بالوں میں کھویا ہوا تھا اور عرشمان اس کے کپڑوں پر لگے رنگ کو پہچان چکا تھا ۔
شرم نامی کوئی چیز ہے تم لوگوں میں؟ ۔عرشمان نے غصے سے تینوں کو گھورا تو سہان ہوش میں آیا ۔عرشمان کے غصے کا گراف آسمان کو چھونے لگا تھا ۔
سہان نے ایک خفا نظر اس پر ڈالی ۔
مذاق کیا ہے ہم نے تو ۔وہ منمنایا ۔
کوئی موقع دیکھ لیا کرو تم سہان باز آ جاؤ بہت جوتے پڑیں گے تمہیں ۔وہ اب زرا نرمی سے بولا ۔
اچھا نا جو بھی ہے تم لوگوں نے میری جان نکال دی تھی ۔حذیفہ سہان کو گلے سے لگا کر بولا اور زور سے بھینچا اور ساتھ عرشمان کو بھی کھینچا اب وہ پانچوں ایک دوسرے سے لپٹے کھڑے تھے ۔سب لوگوں نے مسکرا کر ان کو دیکھا تھا کچھ ان کی دوستی پر آنکھیں بھی نم کر چکے تھے ۔
کیسی انوکھی شادی ہے جس میں دلہا دلہن کی بجائے اپنے دوستوں کے ساتھ پیار و محبت کا اظہار کر رہا ہے ۔کسی نے اونچی آواز میں کہا تو سب نے ہی قہقہہ لگا دیا ۔
جہاں سہان عبداللّٰہ ہو وہاں کچھ بھی نارمل نہیں ہو سکتا ۔سہان فوراً گردن باہر نکال کر بولا ۔جس پر ایک اور قہقہہ گونجا ۔
چل اوئے نکاح نامے پر جا کر جلدی سے دستخط کر مجھے چھوارے کھانے ہیں تیرے نکاح کے ۔سہان نے حذیفہ کو تقریباً دھکا دیتے ہوئے کہا ۔حذیفہ ہنستا ہوا سٹیج کی جانب بڑھ گیا ۔
اشوہ پر نظر پڑتے ہی وہ ایک بار پھر تھم گیا تھا ۔
دل کی دھڑکن اسے دیکھتے ہی اس کے نام کی تسبیح کرنے لگی تھی ۔وہ قدم قدم چلتا ہوا اس کے پہلو میں آ کر بیٹھ گیا نظریں تھیں کہ اس پر سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں ۔
نکاح خواں نے نکاح شروع کروایا ۔دونوں نے نکاح نامے پر دستخط کر دیے دل و جان سے ۔سب نے ان کی دائمی خوشیوں کی دعا مانگی ۔
حذیفہ کو اشوہ مل گئی تو گویا پوری کائنات ہی مل گئی ۔
وہ اسکی پہلی چاہت تھی... پہلی محبت تھی.... پہلی خواہش تھی ۔
اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا ۔اشوہ نے گڑبڑا کر حذیفہ کو دیکھا ۔جو پہلے ہی مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا ۔
ایک ہی دل ہے کتنی بار لوٹو گی ظالم حسینہ ۔وہ اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا ۔
پلیز ہاتھ چھوڑیں کوئی دیکھ لے گا ۔وہ ہاتھ کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی ۔
کوئی دیکھتا ہے دیکھ لے اب تو ہاتھ پکڑ کر عمر بھر ساتھ نبھانے کا پرمٹ حاصل کر چکا ہوں ۔وہ اس کے قریب جھک کر بولا آنکھوں میں شرارت واضح تھی اشوہ گھبرا کر زرا دور کھسکی ۔
میں سوچ رہا ہوں ماما سے رخصتی کی بات بھی آج ہی کر لیتا ہوں ۔وہ پھر اس کے قریب ہو کر بیٹھا ۔
کیا؟ کیوں؟ لیکن پہلے ایسے کوئی بات نہیں ہوئی تھی آپ ایسا نہیں کریں گے ۔اشوہ اس کی طرف دیکھتی منت کرتے ہوئے بولی ۔
ایک شرط پر میں تمہاری بات مانو‍ں گا ۔سیدھے ہوتے ہوئے اس نے کہا ۔
کیسی شرط؟ ۔وہ فوراً بولی ۔
تم مجھے ابھی آئی لو یو بولو گی ۔سامنے دیکھتے ہوئے وہ مزے سے بولا ۔تو اشوہ تقریباً رونے والی ہوگئی تھی ۔وہ خاموشی سے آنکھیں نیچے جھکا گئی ۔
بولو بھی شرط منظور ہے یا میں ماما پاس جاؤں؟ ۔حذیفہ نے دھمکی دی ۔
وہ آئی۔.... آئی... اس نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا ایزال اس کی طرف آ رہی تھی اسے ڈھارس ملی ۔
کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ ۔ایزال ساتھ پڑے سنگل صوفے پر بیٹھتی ہوئی مسکرا کر پوچھنے لگی تو حذیفہ نے ٹھنڈا سانس لیا ۔
ایزال میں تھک گئی ہوں پلیز مجھے کمرے میں لے چلو ۔وہ جلدی سے بولی تو حذیفہ نے صدمے کی سی کیفیت میں اسے دیکھا ۔
اس چیٹنگ کا حساب تم سے لوں گا میں مسز حذیفہ ۔حذیفہ جھک کر اس کے کان میں بولا ۔
کیا کہہ رہے ہو تم دلہا بن کر بھی تمہیں چین نہیں ہے ۔ایزال نے گھرکا ۔تب ہی سہان اور باقی سب بھی سٹیج پر پہنچ گئے ۔
ارے بھابھی کہاں جا رہی ہیں ابھی تو فوٹو شوٹ رہتا ہے ۔سہان اشوہ کو کھڑا ہوتا دیکھ کر بولا تو مجبوراً اشوہ کو واپس بیٹھنا پڑا اب دو گھنٹے تک ان کا فوٹو شوٹ چلنا تھا ۔
***********
ہیلو میں ڈائریکٹر نبیل ۔ایک درمیانی عمر کے آدمی نے ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا ۔سہان نے اچنبھے سے اسے دیکھا ۔
ہیلو اور مجھے سہان عبداللّٰہ کہتے ہیں ۔وہ بے نیازی سے کہہ کر سامنے دیکھنے لگا جہاں عزم اپنا فوٹوشوٹ کروا رہی تھی ۔
کیسے ہیں آپ؟. وہ ابھی بھی مسکرا کر اس سے پوچھ رہا تھا ۔سہان نے اکتا کر اسے دیکھا ۔
بہت خوبصورت، حسین، سندر، سوشیل، ہینڈسم اور چارمنگ ہوں اور کیا تعریف کروں اپنی ۔وہ پھر کندھے اچکا کر سامنے  دیکھنے لگا۔ڈائریکٹر نے قہقہہ لگایا ۔
آپ دلچسپ بھی ہیں میں آپ کو اپنے ڈرامے کے لیے کاسٹ کرنا چاہتا ہوں ۔اس نے گویا اس کے سر پر بم پھوڑا تھا ۔
سہان عبداللّٰہ کے ساتھ مذاق کرنے والی مخلوق بہت پچھتاتی ہے ۔وہ ناک سکوڑ کر بولتا بہت پیارا لگا تھا ۔
میں مذاق نہیں کر رہا میں وقعی آپ سے امپریس ہوا ہوں اور آپ کو اپنے نئے ڈرامہ میں لیڈنگ رول دینا چاہتا ہوں ۔اب کی بار وہ سنجیدگی سے بولا۔سہان نے امپریس ہونے والی بات پر گردن کو سیدھا کیا ۔
یہ بات میرے دوستوں کے سامنے بولو گے؟ ۔وہ چمکتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولا ۔
کون سی بات؟ ۔نبیل الجھا ۔
یہی کہ تم مجھ سے امپریس ہوئے ہو ۔وہ اسے گھور کر بولا تو نبیل نے اپنی ہنسی دبائی ۔وہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب بھی تھا ۔
***********

دیکھو لڑکیو مجھے شرافت کے ساتھ اپنی بیوی سے ملنے دو ۔حذیفہ پچھلے پندرہ منٹ سے ان کا سر کھا رہا تھا جو دروازہ بند کیے ظالم سماج بنے آگے کھڑی تھیں ۔
ہیں یہ شرافت کون ہے اور اسے تم بھابھی سے کیوں ملوانا چاہتے ہو؟ ۔سہان نے حیران ہو کر اسے دیکھا ۔
تیرا چاچا ہے پہلے یہ کم تھیں جو اب تو بھی آ گیا ہے سر کھانے کے لیے مجال ہے جو کوئی ایک بھی میری سائیڈ پر ہو ۔حذیفہ خفگی سے بولا ۔
کیوں روکا ہوا ہے تم لوگوں نے ملنے دو اسے ۔عرشمان نے ان کے قریب کھڑے ہوتے ہوئے ان کو گھورا ۔
دیکھو عرشمان جب تک یہ ہمیں پیسے نہیں دے گا اشوہ سے نہیں مل سکتا ۔ایزال دونوں ہاتھ کمر پر ٹکا کر بولی۔کسی نے چور نگاہوں سے اسے دیکھا ۔وہ آج اپنے عام حلیے سے بلکل مختلف لگ رہی تھی ۔جینز اور شرٹ کی جگہ اس نے پنک اور سلور رنگ کا لہنگا چولی پہن رکھا تھا اور بالوں کو جوڑے میں باندھنے کی بجائے کمر پر کھول رکھا تھا البتہ چہرے پر میک اپ کے نام پر صرف لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی ۔اس کا حسن سادگی میں بھی کامل تھا ۔
حذیفہ دو دو روپے دے کر جان چھڑا ویسے بھی صدقہ نکل جائے گا ۔سہان نے اپنا مشورہ دیا ۔
او ہیلو دو دو روپے اپنے پاس رکھو ہمیں پورے بیس ہزار چاہیئں ۔عزم نے سہان کو گھور کر اپنی ہتھیلی حذیفہ کے آگے کی ۔
حذیفہ بیچارہ اپنی خالی جیب کو ٹٹول کر رہ گیا مگر کچھ نہیں ملا ۔
اچھا ادھار کر لو لڑکیو پھر لے لینا ابھی نہیں ہیں میرے پاس ۔حذیفہ نے ہاتھ جوڑے ۔
ٹھیک ہے مگر لکھ کر دو یہ بات ۔امایہ نے فوراً پین اور پیپر اسکے سامنے کیا تو اس نے فوراً لکھ کر دے دیا ۔اور کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔جہاں اشوہ بیڈ کے کنارے پر بے چین سی بیٹھی تھی ۔حذیفہ اپنی آنکھوں کو سیراب کرتا قدم قدم چلتا اس کے پاس آیا ۔اور اسکے سامنے نیچے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا ۔
مسز حذیفہ ۔وہ اس کے ہاتھوں کو تھام کر مسحور کن انداز میں بولا اور سرخ مخملی ڈبیا اپنی جیب سے نکال کر کھولی جس میں ایک خوبصورت دل کی شکل میں بنی انگوٹھی تھی  ۔اشوہ کی لانبی پلکیں شرم سے  مزید جھک گئیں۔حذیفہ نے انگوٹھی اس کی انگلی میں ڈالی ۔
آپ کو پتا ہے میری بہت خواہش تھی مجھے گفٹ میں انگوٹھی ملے جیسے سالار سکندر نے دی تھی ۔وہ انگوٹھی کو گھماتے ہوئے ۔
یہ سالار سکندر کون ہے؟ ۔حذیفہ نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا ۔
ہائے آپ کو سالار سکندر کا نہیں پتا؟ ۔اشوہ ساری شرم بالائے طاق رکھ کر حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے چلائی ۔
نہیں ہے کون یہ سالار سکندر؟ ۔حذیفہ نے اس دلہن کو دیکھا جو اپنے دلہے سے کسی پرائے مرد کی باتیں کر رہی تھی ۔
ہائے اللّٰہ آپ کو تو سالار سکندر کا ہی نہیں پتا ۔آپ اسی دنیا کے باسی ہیں نا؟۔وہ روہانسی ہو گئی تھی ۔
نہیں ایلینز کی دنیا کا باسی ہوں ۔حذیفہ نے منہ کے زاویے بگاڑے اور دھپ سے اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا ۔
سچی اسی لیے آپ کے کان اتنے بڑے بڑے ہیں آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے کتنا شوق تھا ایلینز سے ملنے کا ۔اشوہ اس کی طرف مڑ کر اس کے کان کھینچتے ہوئے بولی حذیفہ نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا ۔سارے رومانس کا قیمہ بنا دیا تھا اس کی نئی نویلی بیوی نے اشوہ نے اسکی حالت دیکھ کر قہقہہ لگایا ۔
میں کچھ سننے آیا ہوں بہت مشکل سے جان چھڑائی ہے ان چڑیلوں سے ۔حذیفہ نے  اس بات کو بھلا کر محبت بھرے لہجے میں کہا ۔
ہیں؟ یہ چڑیلیں کن کو بول رہے ہیں آپ؟ ۔اشوہ کی پلکیں اٹھیں اور حذیفہ کےدل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔
وہی تینوں جو باہر کھڑی تھیں بھلا اپنی بیوی سے ملنے کے لیے پیسے کیوں دوں ان کو میں ۔وہ حد درجہ خفا تھا ان سب سے ۔

آپ... آپ میری دوستوں کو چڑیلیں بول رہے ہیں؟ ۔اشوہ کو ایک اور صدمہ لگا ۔
لو جی کر لو گل اپنے نئے نویلے شوہر کو تم ایلینز کی دنیا کا باسی بول رہی ہو اور دوستوں کو چڑیلیں کہنا برداشت نہیں ہوا ۔حذیفہ پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔جہاں سہان شیزل اور نمیر دروازے کے ساتھ کان لگائے کھڑے تھے حذیفہ سے ٹکر ہوتے ہوتے بچی ۔حذیفہ نے تند نگاہوں سے ان کو دیکھا اور لان کی جانب بڑھ گیا ۔
بڑی ہی کوئی ٹھنڈی قسمت ہے ذیفی کی ۔سہان ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگاتے ہوئے اس کے پیچھے لپکا ۔
********************
سب مہمان رخصت ہو چکے تھے بس ان کا گروپ وہاں لان میں ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا ۔عرشمان بھی وہاں سے جا چکا تھا ۔چائے کا سپ لیتے ہوئے حذیفہ کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔
یار میں تو سوچ رہا ہوں کل سر وجاہت کا پیپر کیسے کریں گے میری تو بلکل کوئی تیاری نہیں اور سر نے نمبر بھی نہیں دینے ۔شیزل نے منہ بنا کر کہا  ۔
اتنے دن تو تھے تم لوگ تیاری کر سکتے تھے ۔امایہ جھٹ سے بولی ۔نمیر اس کے سامنے بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔
اتنے دن کہاں تھے صرف تین دن تھے ۔سہان نے تین انگلیاں اٹھا کر ہوا میں لہرائیں ۔
پھر بھی اگر تم لوگوں کی نیت ہوتی تو تم لوگ تیاری کر سکتے تھے ۔ایزال نے کہا ۔
ارے پروفیسر خود تو چلا گیا مگر اپنی نکی نکی چیلیاں یہاں چھوڑ گیا جو وقفے وقفے سے اپنے مفت لیکچر جھاڑتی رہتی ہیں  ۔سہان نے ان دونوں پر چوٹ کی ۔پروفیسر وہ عرشمان کو کہتا تھا ۔
بد تمیز چیلیاں کن کو بول رہے ہو ۔امایہ نے پاس پڑی ٹرے اٹھا کر اس کی کمر میں ماری ۔
میسنی عورت اپنے یہ ہتھیار مجھ پر مت آزمایا کرو اپنے اس پر آزمانا جس بیچارے کی قسمت تمہارے ساتھ پھوٹے گی ۔سہان اپنی کمر سہلاتے ہوئے کن اکھیوں سے نمیر کو دیکھ کر بولا ۔

قسمت کیوں پھوٹے میرا شہزادہ کالے گھوڑے پر بیٹھ کر اپنی شہزادی کو لینے آئے گا ۔امایہ نے آہستہ سے بڑبڑاہٹ کی جو سب ہی نے سن لی تھی ۔
ہاں کالے گھوڑے پر بیٹھ کر اپنی قسمت کالی کرنے آئے گا ۔سہان نے قہقہہ لگا کر ساتھ نمیر کو بھی تھپڑ جھڑا جو اچانک افتاد پر بوکھلا گیا تھا ۔گھوڑوں کا تو وہ دیوانہ تھا یعنی کہ سہی بندی کے ساتھ اس کے دل نے پنگا لیا تھا ۔مگر کالا گھوڑا نہیں تھا اس کے اسطبل میں ۔
اوئے دیوداس بس کر دے نکاح ہو گیا ہے تو رخصتی بھی ہو جائے گی ایک دن ۔شیزل نے حذیفہ کے کندھے کو تھپک کر کہا تو ان کی طرف متوجہ ہوا ۔
رخصتی کا غم نہیں ہے ظالمو
وہ آہ بھرتے ہوئے بولا ۔
غم تو اس بات کا ہے کہ بیوی نے منہ تک نہیں لگایا ۔سہان نے اس کا جملہ مکمل کیا اور اور ساتھ سب نے قہقہہ لگایا ۔
چلیں اب کافی ٹائم ہو گیا ہے ۔عزم نے سہان کو دیکھ کر کہا ۔سب لوگ جانے کے لیے اٹھ گئے ۔سہان عزم اور ایزال کو لے کر باہر نکل گیا حذیفہ اور شیزل بھی ان کے پیچھے پیچھے نکل گئے ۔جبکہ امایہ اپنی سینڈل کے سٹریپس بند کرنے میں مگن تھی ۔نمیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔امایہ سینڈل بند کر کے اٹھی تو سامنے اسے بیٹھا دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔پھر اسے نظر انداز کرتی آگے بڑھنے لگی ۔نمیر اٹھ کر اس کے ہم قدم ہوا ۔
آپ کو گھوڑے پسند ہیں؟ ۔اس کے ساتھ چلتے ہوئے سوال کیا ۔
ہاں لیکن گدھے بلکل نہیں پسند ۔وہ ایک نظر اس کے سراپے پر ڈال کر تندہی سے بول کر آگے بڑھی ۔
مجھے بھی گھوڑے بہت پسند ہیں ۔وہ مزید بولا ۔
تمہیں لائن مارنے کے لیے کوئی اور نہیں ملی کیا؟ ۔امایہ رک کر سینے پر بازو باندھ کر اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔نمیر اس کے سوال پر ہکا بکا رہ گیا ۔
یقین کریں آپ پہلی لڑکی ہیں ۔وہ منمنایا ۔
اور اس کے بعد کتنی لڑکیوں کی باری ہے؟ ۔وہ اس کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی ۔
پہلے بھی آپ کی بعد میں بھی آپ کی ۔وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں دکھیتے ہوئے اعتماد سے بولا ۔
ایک کام کرو وقت نکال کر زہر کھا کے مر جاؤ لفنٹر کہیں کا ۔وہ غصے سے تن فن کرتی یہ جا وہ جا ۔
مر تو گیا ہوں دل و جان سے آپ پر ۔وہ بے بسی سے مسکرا کر رہ گیا ۔
*************************
جاری ہے
اگلی قسط جلدی ان شاء اللّٰہ

قسط پڑھ کر اپنے رائے ضرور دیں 😊😊😊

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top