Episode 14

Don't Copy paste My novel 🚫✖️🚫✖️🚫✖️🚫

#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_14
#by_fariha_muzaffar
عرشمان فریش ہو کر ٹاول سے بال رگڑتا آئینے کے سامنے آ کھڑ ہوا ۔ٹاول کو بیڈ پر اچھال دیا ۔اور برش پکڑ کر ماتھے پر بکھرے بالوں کو سلجھانے لگا ۔جب نظر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی فریم شدہ تصویر پر پڑی جس میں ایک بارہ سالہ سبز آنکھوں والا لڑکا مسکرا کر اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا اور اس کے بابا غصے سے اسے گھور رہے تھے ۔آنکھوں میں اچانک تکلیف سی ابھرنے لگی تصویر کو اپنے ہاتھ میں تھام کر اس نے اپنے لب اس پر رکھ دیے ۔دل کا بوجھ تھا کہ بڑھتا چلا جا رہا تھا آنکھوں میں سرخی اترنے لگی تھی ۔
ماما ۔لبوں سے سسکی نکلی اور ایک آنسو ٹوٹ کر تصویر کے اوپر گرا ۔
بری بات مانی روتے نہیں آپ تو ماما کے بہادر بیٹے ہو ۔ایک آواز اچانک سماعت سے ٹکرائی ۔اس نے نظر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا مگر وہاں تو کوئی نہیں تھا ۔وہ جو محبت بھرا لمس تھا وہ جو چاہت سے بھرپور وجود تھا وہ تو آج سے بارہ سال پہلے ہی اس دنیا سے چلا گیا تھا اپنے مانی کو اکیلا چھوڑ کر ۔وہ کتنا رویا تھا اس دن جس دن خون میں لت پت اپنی ماں کے وجود کو دیکھا تھا وہ بچہ تھا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا ۔اور ماں تو اس کی کل کائنات تھی بابا ہمیشہ اس سے کہتے تھے ۔مانی آپ بابا سے پیار نہیں کرتے؟ ۔اور وہ مسکرا کر کہتا وہ بابا سے پیار کرتا ہے مگر مما سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہے کیونکہ وہ اس کا خیال رکھتی ہیں اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلاتی ہیں اس کے بال بناتی ہیں ۔اور بابا ہمیشہ مسکرا کر سر جھٹک دیتے تھے ۔لیکن جس دن اس نے اپنی ماں کے مردہ وجود کو دیکھا تھا اس دن سے وہ اپنے بال خود بنانے لگا کھانا بھی خود کھا لیتا تھا ۔ہاں مگر اس کا بچپن اس کی ماں کے ساتھ ہی مر گیا تھا۔اس دن وہ بڑا ہو گیا تھا وہ چیزوں کو پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے لگا تھا اور سنجیدگی عرشمان خان آفندی کی شخصیت کا خاصا بن گئی تھی ۔تصویر کو واپس رکھ کر اس نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا ۔وہ خود کو کچھ یاد کروا رہا تھا ۔ایک آگ تھی جو اس کے اندر لگی تھی اس آگ کو اسے بجھانا تھا ۔بہت جلد اس آگ کو کسی اور کے سینے میں جلانا تھا ۔سفید ٹی سرٹ پہنے سیاہ ٹراؤزر پہنے وہ بیڈ پر بیٹھ کر اب شوز پہننے لگا تھا ۔شوز پہن کر اپنے کمرے سے نکل کر ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرے کمرے کا دروازہ ناک کر کے وہ اندر داخل ہوا ۔کمرے میں پھیلی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی وہ چلتا ہوا سٹڈی ٹیبل تک آیا ۔
بابا آپ تیار نہیں ہوئے ہمیں چیک اپ کے لیے جانا ہے ۔وہ ان کو فائل میں سر دیے بیٹھا دیکھ کر خاصا مایوس ہوا حالانکہ وہ پہلے ہی ان کو تیار ہونے کا کہہ کر پھر خود فریش ہونے گیا تھا ۔
کیوں پریشان ہوتے ہو میں خود ایک ڈاکٹر ہوں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں ویسے بھی بلکل ٹھیک ہوں میں ۔وہ فائل سے نظریں ہٹا کر آنکھوں پر لگا چشمہ اتار کر سٹڈی ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولے ۔
اسی بات کا تو افسوس ہے کہ آپ خود ایک ڈاکٹر ہیں اور پھر بھی اپنا خیال نہیں رکھتے چلیں فوراً اٹھیں اور ریڈی ہو جائیں ۔وہ خفگی سے کہتا ان کے آگے کھلی فائل بند کرنے لگا ۔انہیں ناچار اپنی جگہ سے اٹھنا پڑا ۔وہ جانتے تھے عرشمان کتنا ضدی تھا اپنی بات منوا کر ہی دم لے گا ۔
بہت ضدی ہو تم مانی ۔وہ کہتے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئے جبکہ وہ سٹڈی ٹیبل پر پڑی تصویر کو کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھنے لگا ۔
*********************
حذیفہ کی جھاڑ پونچھ ہو چکی تو وہ دونوں گاڑی میں آ کر بیٹھے ۔حذیفہ نے اپنے موبائل پر آنے والے نوٹیفکیشن آن کیے تو حق دق رہ گیا ۔اور غصے سے سہان کو دیکھا۔
یہ تو نے اپلوڈ کی ہیں؟ ۔موبائل کی سکرین اس کی طرف گھماتے ہوئے پوچھا ۔بلکہ سو فیصد تو نے ہی  کی ہیں تیرے علاوہ وہاں تھا ہی کون یہ اچھا نہیں کیا تو نے میرے ساتھ سہان ۔اس کا جواب سنے بغیر وہ منہ بناتا ہوا بولا ۔
دیکھ میں نے تو تیری بھلائی کا سوچ کر ہی اپلوڈ کی تھیں ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے یہاں ہر دوسرا انسان اپنی شادی کی تصویر فیسبک پر اپلوڈ کرتا ہے اور مشہور ہو جاتا ہے میں نے سوچا میرا دوست بھی تھوڑا مشہور ہو جائے ۔وہ معصومیت چہرے پر طاری کرتے ہوئے بولا ۔
رہنے دے مجھے نہیں چاہیے یہ سستی شہرت ہنہ ۔وہ اپنی تصویروں کے نیچے بونگے بونگے کمنٹس پڑھ کر کافی تپ گیا تھا کینہ توز نگاہوں سے اسے گھورا ۔لائیکس تو ویسے کافی آ گئے ہیں ۔دل ہی دل میں تھوڑی تھوڑی خوشی بھی ہوئی ۔

دوسری طرف لڑکیوں نے اشوہ کے گھر ڈیرہ جمایا ہوا تھا ۔ڈھولکی رکھے اس کے سیاں جی کے نام گیت گائے جا رہے تھے ۔اور وہ تھی کہ کھلتی ہی جا رہی تھی ۔خوشی ہی ایسی تھی اس کا من پسند شخص چند گھنٹوں بعد ہمیشہ ہمیشہ اس کا ہو جائے گا ۔اس کے نام پر اس کی مہر لگ جائے گی ۔اسے تو اپنی خوش نصیبی پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا ۔اس کے ہاتھوں پر حذیفہ کے نام کی مہندی لگا دی گئی تھی ۔ایک ہتھیلی پر” حذیفہ کی دلہن "لکھا گیا جبکہ دوسری ہتھیلی پر ایک خوبصورت سا دل بنا کر اس میں لکھا گیا” حذیفہ کی اشوہ “۔وہ محویت سے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھ رہی تھی جب موبائل کی ٹیون بجی ۔حذیفہ کا میسج تھا ۔
اشوہ بات سنو ۔اشوہ نے حیرت سے اس کے میسج کو دیکھا ۔جی؟ ۔مہندی خشک ہو گئی تھی اسی لیے وہ آرام سے میسج ٹائپ کر کے سینڈ کر سکتی تھی ۔رپلائی دے کر وہ سب کے درمیان سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی ۔
کمرے کی بالکنی میں آ کر اس نے مسکرا کر آسمان کو دیکھا جہاں چاند تو نہیں تھا مگر پھر آسمان خوبصورت لگ رہا تھا ۔آج ہر احساس ہر چیز خوبصورت لگ رہی تھی ۔
اپنی تصویر تو سینڈ کر دو ۔میسج کے اینڈ پر ایک دل والا ایموجی لگایا گیا تھا وہ مسکرا دی اور میسج ٹایپ کرنے لگی ۔
وہ کس لیے کیا گمشدگی کا اشتہار چھپوانا ہے؟ ۔میسج سینڈ کر کے وہ رپلائی کا انتظار کرنے لگی ۔
ہاں اشتہار تو چھپوانا ہے مگر اپنے دل کی گمشدگی کا جو ایک چور نے چرا لیا ہے ۔فوراً رپلائی آیا ۔
تو ایف آئی آر درج کروائیں ناں اشتہار کی کیا ضرورت؟ ۔
ایف آئی آر تو صبح درج کراوؤں گا نا اور ساتھ اس چور کو ساری زندگی کے لیے اپنے نام کر لوں گا یہ چوری میرے دل کو بھا گئی ہے ۔محبت سے بھرپور میسج کو دیکھ کر اشوہ کی آنکھیں ایک لمحے کو نم ہوئیں ۔ابھی وہ سکرین کو دیکھ ہی رہی تھی کہ حذیفہ کی ویڈیو کال آنے لگی ۔اس کی کال کاٹ کر اشوہ نے وائس کال کی ۔
کیوں اتنے بے صبرے ہو رہے ہیں؟ ۔چھوٹتے ہی اس نے خفگی سے پوچھا ۔
یار تصویر چھوڑو تم ایک کپ چائے پلا دو قسم سے تمہارے ہاتھ کی چائے پینے کو بہت دل کر رہا ہے ۔وہ لجاجت سے بولا تو اشوہ کو اس کے انداز پر ہنسی آئی ۔
صبح نکاح ہے ہمارا اور اس وقت آپ کو کوئی یہاں نہیں آنے دے گا اب چائے نکاح کے بعد ملے گی ۔وہ اپنے ہونٹوں کو دانتوں کے ساتھ کترتے ہوئے بولی ۔
یار سب کو چھوڑو تم ایک کپ چائے لے کر آؤ ۔حذیفہ کی آواز اپنے اتنے قریب سے سن کر اشوہ تقریباً اچھل ہی پڑی ۔وہ اس کے بلکل قریب اسکے پیچھے کھڑا تھا ۔
آپ یہاں؟ ۔وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی چہرے کی رنگت زرد پڑ گئی تھی ۔
بلکل اپنی ہونے والی زوجہ سے ملنے اور ایک چائے پینے آیا ہوں ۔اپنی نظروں کے حصار میں اس کا چہرہ رکھتے ہوئے بولا تو اشوہ کے چہرے پر سرخی پھیل گئی ۔گندمی رنگت پر ہلکا سا میک اپ کیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔وہ سادہ مزاج کی لڑکی حذیفہ کے دل کی ملکہ تھی ۔
میں ابھی لاتی ہوں چائے ۔وہ اس کی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی اسی لیے پلٹتے ہوئے بولی ۔مگر حذیفہ نے اس کا بازو اپنی مضبوط گرفت میں لیا ۔
یہ میں تمہارے لیے لے کر آیا تھا۔ایک شاپر میں گجرے تھے جو وہ اسے دکھا رہا تھا ۔اشوہ کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں ۔اپنے ہاتھ میں اس کا نرم ہاتھ پکڑ کر گجرے اس کے بازوؤں میں ڈالے ۔
تھینک یو  سو مچ آپ جانتے ہیں نا مجھے گجرے کتنے پسند ہیں ۔وہ اپنے بازوؤں کو دیکھ کر پرجوش ہوتے ہوئے بولی ۔حذیفہ نے اپنی نظروں کا رخ بدلا ۔اشوہ کمرے  کا دروازہ اچھی طرح بند کر کے چائے بنانے کچن میں چلی گئی ۔حذیفہ کے موبائل کی بیل بجنے لگی ۔افلاطون کالنگ لکھا آ رہا تھا ۔اس نے کال رسیو کی ۔
کہاں ہو اتاولے دلہے؟ ۔چہکتی ہوئی زندگی سے بھرپور آواز اس کے کانو‌ں میں گونجی ۔
ایک ضروری کام سے آیا ہوں آتا ہوں تھوڑی دیر میں ۔وہ کان کھجاتا ہوا بولا ۔
جانتا ہوں جو تو ضروری کام سے گیا ہوا ہے نا جلدی باہر دفع ہو بھابھی کے گھر کے باہر کھڑا ہوں میں ۔وہ اس کو ڈپٹتے ہوئے بولا ۔
میں نہیں آ رہا چائے پی کر آؤں گا  اب حذیفہ نے منہ کے زاویے بگاڑے ۔
آتا ہے یا میں آؤں اندر پھر چائے کا تو پتا نہیں جوتے ضرور پڑےیں گے تجھے سسرال والوں سے ایڈوانس والے زن مرید ۔وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا مجال تھی جو ایک لمحہ انہیں سکون لینے دیتا ۔
آ رہا ہوں کمینے تیری شادی ہو گی نا تو گن گن کر بدلے لوں گا تجھ سے ۔حذیفہ پاؤں پٹختا ہوا آگے بڑھا اور بالکنی سے چھلانگ لگا کر نیچے اتر گیا۔
ارے یہ کہاں گئے؟ ۔اشوہ چائے لائی تو کمرے میں کوئی نہیں تھا وہ کپ لے کر بیڈ پر بیٹھ گئی اور سائیڈ ٹیبل پر پڑا ناول اٹھا کر پڑھنے لگی اور خود چائے پیتے ہوئے لطف اندوز ہونے لگی ۔
*********
آسمان پر پھیلی جامنی چادر ہٹنے لگی اور پرندے اللّٰہ ہو کی صدا بلند کرتے اپنی منزل کہ طرف نکل پڑے ۔صبح کا روح پرور منظر انسانی وجود کو تازگی کا احساس دلاتا تھا ۔ہلکی ہلکی ہوا نے زندہ دلانے شہرِ لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے کر خوش قسمتی کا اعزاز بخشا ۔ایسے میں پارک میں جاگنگ کرتے وہ چار لوگ ایک دوسرے سے ریس لگائے ہوئے تھے ۔
اوئے کہاں گئے تیرے ستر چکر؟ ۔حذیفہ نے پارک میں بنے سنگی بینچ پر بیٹھتے ہوئے سہان کو ایک تھپڑ رسید کرتے ہوئے پوچھا ۔
پورے پورے اسی چکر لگائے ہیں میں نے ۔سہان کالر جھاڑ کر بولا ۔
اہاں میری ان گنہگار، گستاخ اور نافرمان آنکھوں نے تو صرف اسی میں سے پانچ چکر لگاتے دیکھا ہے لگتا ہے رات کو خوابوں میں تو جوگنگ کرتا رہا ہے ۔حذیفہ مزاق اڑاتے ہوئے بولا ۔
میرا چھوڑ اپنا بتا بھابھی آئیں تھی کیا خواب میں؟ ۔سہان فوراً رازدرانہ انداز میں اس کے قریب کھسکتے ہوئے بولا ۔
زیادہ پرسنل ہونے ضرورت نہیں ہے ابھی یاد ہے مجھے رات کو تو نے کیا کیا تھا میرے ساتھ ۔حذیفہ نے اسے پرے دھکیلا اور اٹھ کر پھر جوگنگ ٹریک پر دوڑنے لگا جہاں نمیر اور شیزل دوڑ لگا رہے تھے۔
مجھے پتا تھا تو بدل جائے گا اللّٰہ جی اپنے لامحدود خزانوں میں سے ایک کوئی ڈھنگ کا دوست ہی مجھے دے دیں ۔وہ منہ بسور کر ہاتھ اٹھا کر اونچی آواز میں بولا ۔
جیسی تیری شکل ہے نا تجھے ہم مل گئے ہیں یہی تیرے لیے خوش قسمتی ہے ۔حذیفہ بھی جواباً چلایا ۔
ایک دن یہی شکل دیکھنے کو ترسو گے تم لوگ کمینو ۔وہ منہ بسور کر بڑبڑایا اور واپسی کے لیے قدم بڑھا دہے ۔
*****************
حذیفہ کے گھر کے لان میں ہی نکاح کے ایونٹ کا انتظام کیا گیا تھا جس کی ڈیکوریشن کا کام مکمل  تھا اور مہمانوں کی آمد بھی ہونے لگی تھی  ۔ سہان، شیزل اور  نمیر اس وقت حذیفہ کے کمرے میں موجود تھے ۔حذیفہ روئل بلو کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس بال سیٹ کیے تیار کھڑا تھا ہلکی ہلکی داڑھی اس کی گندمی رنگت پر بہت بھائی تھی ۔وہ عام تھا مگر پھر بھی وہ بہت خاص تھا کیونکہ وہ حذیفہ تھا ۔اس وقت بھی وہ ایک مکمل اور وجیہہ شخص لگ رہا تھا جس کی آنکھوں میں محبت کے دیپ روشن تھے ۔وہ بیڈ پر بیٹھا ان تینوں کو دیکھ رہا تھا جو ہر دوسرے منٹ بعد ایک دوسرے کو دھکا دے کر آئینے کے سامنے سے ہٹا کر خود کھڑے ہو جاتے تھے ۔ابھی بھی سہان نمیر کو دھکا دے کو خود آنکھوں پر سیاہ گوگلز لگا کر گنگنانے لگا تھا ۔
تینوں کالا چشمہ جچدا اے
تیرے گورے گورے مکھڑے تے
او کالا چشمہ جچدا اے
تیرے گورے گورے مکھڑے تے
اپنے چہرے سے اتار کر حذیفہ کی آنکھوں پر گلاسسز لگائے جو منہ لٹکائے بیٹھا تھا ۔نمیر  نے اس کے ہٹنے پر شکر کیا ۔
ویسے بتایا نہیں میں کیسا لگ رہا ہوں؟۔سہان نے اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا ۔سفید کف والا سوٹ پہنے بالوں کو اوپر کو کھڑا کیے آنکھوں میں مخصوس دل کو بھا جانے والی چمک اور تیکھی ناک سفید رنگت وہ دلکش اور حسین مرد تھا تھوڑا لاابالی تھا وہ سب سے الگ تھا کیوں کہ وہ سہان عبداللّٰہ تھا اور یہی الگ پن اسے سب میں نمایاں بناتا تھا ۔
سوری ٹو سے دلہا میں ہوں اور تعریف کا حق دار بھی میں ہی ہوں ۔حذیفہ نے رخ موڑ کر ناراضی سے کہا ۔
الے الے الے کاکے کو بلا شوق ہے تعلیف کلوانے کا؟ ۔اپنی اس لعنتی شکل کو آئینے میں دیکھ پتا لگ جائے کیسا لگ رہا ہے تو میں بتا کر اب تیرا دل نہیں توڑ سکتا ۔سہان نے اس کی تھوڑی کو دائیں بائیں ہلاتے ہوئے کہا تو حذیفہ نے تڑخ کر اسکا ہاتھ جھٹکا ۔
لعنتوں کے سارے گولڈ میڈل تیرے گلے میں پڑیں  گے سہان ۔حذیفہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا اور اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگا ۔
ارے دلہے میاں کہاں جا رہے ہو ابھی تمہاری آمد کا سندیسہ نہیں آیا ۔اس کا بازو تھام کر ڈرامائی انداز میں بولا ۔
اللّٰہ کہاں رضیہ کو غنڈوں میں پھنسا دیا آپ نے؟ ۔وہ شکوہ کناں نگاہوں سے اوپر کو دیکھتا اللّٰہ سے مخاطب ہوا ۔
رضیہ نہیں بیٹا اپنے سائیز کے حساب سے تو رضایا لگتا ہے ۔سہان چوٹ کرتا فوراً کمرے سے باہر کی جانب بھاگا ۔حذیفہ بس اپنی جگہ تلملا کر رہ گیا ۔جبکہ نمیر اور شیزل اپنی ہنسی کا گلا دبانے میں تقریباً ناکام ہو گئے تھے اور وہ بھی سہان کے پیچھے فوراً کمرے سے فرار ہوئے ۔

********************
سب مہمان آ چکے تھے چونکہ نکاح حذیفہ کے گھر پر ہو رہا تھا تو لڑکی والے بھی پہنچ گئے تھے ۔امایہ، ایزال، اور عزم بھی پہنچ گئی تھیں ۔حذیفہ کو دیکھتے ہی وہ اس کی طرف آئی تھیں ۔
واہ بھئی چوہے آج تو بڑے ہینڈسم لگ رہے ہو ۔ایزال نے تعریف کرنے میں بلکل دیر نہیں کی تھی ۔
تھینک یو میں تو ہمیشہ ہی خوبصورت لگتا ہوں تم نے نوٹ آج کیا ہے ۔وہ اتراتے ہوئے بولا ۔
کہہ لو کہہ لو آج جو مرضی آج کی ساری گستاخیاں تمہیں معاف آج کا دن تمہارا ہے ۔عزم دل بڑا کرتے ہوئے بولی ۔
ویسے حذیفہ ایک بات ہے تم ہمیشہ اتنے پیارے لگ سکتے ہو اگر تم فیشل روٹین سے کرواتے رہو ۔امایہ نے بھی دانت نکالتے ہوئے کہا یہ بات تو حذیفہ کے دل پر لگی تھی ۔
نیچرل بیوٹی کہتے ہیں اسے ہنہ ۔حذیفہ نے برا منایا ۔
تینوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے قہقہہ لگایا ۔
بائے دا وے باقی تینوں نظر نہیں آ رہے؟ ۔عزم نے نظریں گھماتے ہوئے پوچھا ۔
عرش تو آ رہا ہے اس سے میری بات ہوئی ہے اور سہان نمیر اور شیزل کو لے کر پتا نہیں کہاں مر گیا ہے ۔حذیفہ بھی بے چین ہوا ۔
اچھا چلو ہم اشوہ سے مل کر آتے ہیں ۔وہ تینوں کہہ کر چلی گئیں تو حذیفہ بھی گیٹ کے پاس آ گیا ۔وہ تینوں پتا نہیں کہاں غائب ہو گئے تھے ۔تب ہی عرشمان اسے اندر آتا دکھائی دیا ۔
السلام وعلیکم کیا حال ہے دلہے میاں؟ ۔حذیفہ سے بغل گیر ہوتا ہوا مسکراتے ہوئے بولا ۔
بلکل فٹ تم سناؤ کہاں بزی تھے کل سے؟ ۔حذیفہ نے ناراضی سے پوچھا ۔پاس سے گزرتی لڑکیوں نے عرشمان کو جی بھر کر دیکھا حذہفہ کے گھورنے پر جلدی سے وہاں سے رفو چکر ہوئیں۔
بس کچھ نہیں یار پتا تو ہے بابا کی طبیعت کا ویسے اتنا سکون کیوں ہے یہاں؟ ۔عرشمان کو سکون کھٹک رہا تھا ۔
سکون ہی ہو گا نا سہان جو نہیں ہے پتا نہیں کہاں دفع ہو گیا ہے ۔حذیفہ کا پھر پارہ ہائی ہوا ۔
یہیں کسی کی شامت بلانے گیا ہو گا اور کہاں جانا ہے اس نے ۔عرشمان بھی سر جھٹک کر بولا ۔دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سٹیج پر آ کر بیٹھ گئے اور خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے ۔
**************
اشوہ سلور رنگ کی کام والی بھاری میکسی پہنے چہرے پر ہلکا میک اپ کیے بالوں کو آگے دائیں کندھے پر ڈالے نظریں جھکائے شرمائی شرمائی سی بیٹھی تھی ۔
یار قسم سے اشوہ تم بہتتتتتتت پیاری لگ رہی ہو ۔امایہ کوئی دسویں بار کا کہا جملہ دوبارہ بولی ۔
اشوہ بس مسکرا دی ۔
اچھا آؤ اچھی سی سیلفی لیتے ہیں ۔عزم موبائل کا فرنٹ کیمرہ آن کر کے آگے کھڑی ہوئی اور چاروں کی مسکراتی ہوئی سیلفی لی ۔پھر اشوہ کے مختلف اپنی مرضی کے پوز بنوا بنوا کر فوٹو شوٹ کرتی رہی ۔
یار بس کرو ابھی فوٹوگرافر نے بھی فوٹو شوٹ کرنا ہے اشوہ ابھی سے تھک جائے گی ۔امایہ اشوہ کو بیٹھاتے ہوئے عزم کو منع کرنے لگی ۔
فوٹوگرافر نے بڑے پوز بنوانے ہوتے ہیں مہندی اور چوڑیوں کی نمائش کروانی ہوتی ہے بس ۔عزم منہ کے زاویے بگاڑتی ہوئی بولی ۔
مہندی سے یاد آیا اپنی مہندی تو دکھاؤ اشوہ ۔ایزال اس کے نرم ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے بولی جن پر مہندی کا گہرا رنگ آیا تھا ۔
لگتا ہے حذیفہ تم سے بہت محبت کرتا ہے دیکھو کتنا پیارا کلر آیا ہے ۔ایزال نے محبت سے اس کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
اللّٰہ کرے وہ ہمیشہ تم سے محبت کرتا رہے اور تم دونوں ایک آئیڈیل کپل بنو ۔امایہ نے اس کے ماتھے کا بوسا لیتے ہوئے دل سے دعا دی ۔اتنے کم وقت میں اشوہ سے اتنی گہری انسیت ہو گئی تھی ان تینوں کو جیسے وہ سالوں سے ایک دوسرے کو جانتی ہوں ۔
کمرے کا دروازہ ناک ہوا اور اشوہ کی ماما اندر داخل ہوئیں ۔
بیٹا آ جائیں اشوہ کو لے نکاح خواں انتظار کر رہے ہیں ۔وہ نرمی سے کہہ کر چلی گئیں ۔تو وہ تینوں اور اس کی کزنز سرخ دوپٹے کے سائے میں اسے سٹیج تک لے آئیں ۔حذیفہ تو اس پر نظر پڑتے ہی سٹیچو ہو گیا تھا ۔دل تو جیسے تھم گیا تھا آنکھیں ساکت ہو گئی تھیں دنیا کا سارا حسن حذیفہ کو اشوہ میں سمٹا نظر آیا ۔
اوئے ہاتھ پکڑو ۔ایزال کے اسے جھنجھوڑنے پر اسے ہوش آیا اور اشوہ کا ہاتھ تھام کر سٹیج پر چڑھنے میں مدد کی ۔
دونوں ساتھ بیٹھے بہت خوبصورت لگ رہے تھے بلکل ایک آئیڈیل کپل ایزال نے دونوں کو سرما لگا کر نظر بھی اتار دی تھی ۔
نکاح کا وقت ہو رہا تھا مگر سہان لوگوں کا کوئی اتا پتا ہی نہیں تھا ۔حذیفہ نکاح خواں کو انتظار کرنے کا کہہ کر عرشمان کے ساتھ گیٹ پر آ گیا ۔مگر وہاں بھی دور دور تک ان کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔
حذیفہ بیٹا آ جاؤ دیر ہو رہی ہے ۔اس کے پاپا تیسری بار اسے بلانے آ گئے تھے ۔
پاپا آپ پلیز تھوڑا سا انتظار کر لیں وہ تینوں آئیں گے تو نکاح کروں گا میں ۔حذیفہ جھنجھلاتے ہوئے بولا ۔اسے اب فکر ہونے لگی تھی ان میں سے کوئی کال بھی رسیو نہیں کر رہا تھا ۔
ان کو جانے کی ضرورت کیا تھی پتا بھی ہے وقت کم ہے مگر مجال ہے جو یہ اپنی کرتوتوں سے باز آ جائیں۔عرشمان غصے سے ٹہلتا چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا ۔
تب ہی گیٹ کے سامنے سہان کی گاڑی آ کر رکی ۔وہ تینوں انہیں نظر آگئے تھے ۔ان کی جان میں جان آئی تھی ۔سہان گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا دوسری طرف سے نمیر اور پچھلی طرف سے شیزل نکلا ۔مگر یہ کیا تینوں خون سے لت پت تھے ۔
تینوں کے کپڑوں کی حالت بری ہوئی تھی ۔حذیفہ کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی ۔عرشمان تو سکتے میں ہی چلا گیا تھا ۔

************************
جاری ہے
اگلی قسط جلد ان شاء اللّٰہ
کیسی لگی ایپی؟ ۔کیا ہوا ہے ان تینوں کو مجھے تو رونا آ رہا ہے اب بھنگڑا کون ڈالے گا؟ ۔ہائےےےےےےےے آئی ایم ویری دکھی 😭😭😭😭😭😭😭😭

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top