Episode 12

Don't copy paste 🚫✖️✖️✖️✖️✖️

#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_12
#by_fariha_muzaffar
بیڈ شیٹس کو ہاتھ میں تھامے اس نے دانت نکوستے ہوئے شیزل کو دیکھا اور ایک بیڈ شیٹ اس کی طرف اچھالی ۔دونوں نے بیڈ شیٹس کو کھولا اور اپنے اوپر تان لیا یوں کہ وہ پورے کے پورے اس میں چھپ گئے تھے اور بیڈ کے اوپر چڑھ کر ناچنے لگے ۔نمیر ڈھولکی چھوڑ کر اپنا پیٹ پکڑ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا دونوں کے عجیب و غریب قسم کے سٹیپس اگر کوئی کوریوگریفر دیکھ لیے تو یقیناً  خود کشی کرنا اپنا فرض سمجھتا ۔حذیفہ چائے کی ٹرے ہاتھ میں تھامے کمرے میں داخل ہوا تو دونوں نے ٹارزن کی طرح چھلانگ لگا کر اس پر حملہ کیا ۔
بھاؤوووووووووووووووووووووووو۔دونوں ایک ساتھ اتنی زور سے چلائے تھے کہ کان کے پردے پھٹتے پھٹتے بچے تھے ان کے ۔حذیفہ کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے آدھی چائے سے بھر گئی تھی کپوں سے چائے چھلکنے کی وجہ سے ۔

کتو بھونکنا ہے تو گلی میں جاؤ مجھ پر کیوں حملہ کر رہے ہو؟ ۔اپنے زرد پڑتے چہرے کے ساتھ حذیفہ غصے سے چلایا ۔
ناچو بھئی ناچو میرے یار کی شادی ہے
او میرے یاررررر کی شادی ہے
او میرے یاررر کی شادی ہے
حذیفہ کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے دونوں پھر سے بیڈ پر چڑھ کر ڈانس کرنا شروع ہو گئے تھے ۔
جو تم لوگوں نے میرے کمرے کا حال کر دیا ہے نا یقیناً مجھے کل رات فٹ پاتھ پر سونا پڑے گا ۔وہ اپنے کمرے کی بکھری بکھری حالت کو دیکھ کر گویا صدمے میں ہی چلا گیا تھا ۔کہاں وہ اپنے کمرے میں ایک بھی چیز آگے پیچھے برداشت نہیں کرتا تھا اور کہاں اس کے دوست جو اپنے ساتھ ساتھ طوفان بھی ساتھ لائے تھے ۔چائے جو بچی تھی سب نے پی اور جہاں بیٹھے تھے وہیں لیٹ گئے ۔شیزل اور نمیر نیچے میٹرس پر لیٹے تھے جبکہ عرشمان صوفے پر اور سہان اور حذیفہ بیڈ پر لیٹے تھے ۔تھوڑی ہی دیر میں سہان کے کھراٹوں کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔حذیفہ بیچارہ پلٹیاں مار مار کر تھک گیا تو کبڈ سے روئی نکال کر اپنے کانوں میں دے دی پھر کچھ افاقہ ہوا اور وہ سو گیا ۔

********
رات کا نا جانے کون سا پہر تھا جب حذیفہ کی آنکھ کھلی تو بیڈ پر وہ تنہا لیٹا تھا اس نے اردگرد دیکھا مگر سہان نظر نہیں آیا واش روم کی لائیٹ بھی آف تھی وہ فکر مند ہونے لگا کہ آدھی رات کو سہان کہاں جا سکتا ہے وہ بھی بغیر بتائے؟ ۔اس کا نمبر ڈائل کرنے لگا تو اس کے موبائل کی رنگ ٹیون کمرے میں ہی گونجنے لگی ۔اس نے آواز کا تعین کیا تو آواز بیڈ کے نیچے سے آ رہی تھی ۔جہاں سہان الٹا لیٹا سو رہا تھا اور پوری جگہ اپنی ٹانگیں پھیلا کر گھیر رکھی تھی ۔
حذیفہ نے اسے دیکھ کر تاسف سے سر ہلایا ۔
یا اللّٰہ بس اس گدھے کو انسان بنا دے ۔وہ ہاتھ اٹھا کر دل ہی دل میں دعا مانگ کر واپس اپنی جگہ پر لیٹ گیا ۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کبھی گدھے بھی انسان بنے ہیں؟ ۔کیا کبھی کتے کی پونچھ بھی سیدھی ہوئی ہے؟ نہیں ناں؟ تو پھر سہان کیسے سدھر سکتا ہے؟ ۔ویسے بھی ایک سہان تو ہر کسی کی زندگی میں ہونا چاہیے ہے نا؟ ۔
*****.    ***
فجر کی اذان ہو رہی تھی جب سہان رینگتا ہوا بیڈ کے نیچے سے نکلا اور انگڑائی  لیتا ہوا کھڑا ہوا ۔بیڈ پر حذیفہ لیٹا سو رہا تھا ۔نیچے شیزل آڑھا ترچھا لیٹا سو رہا تھا ۔عرشمان اور نمیر دونوں ہی کمرے سے غائب تھے ۔وہ واش روم وضو کرنے چلا گیا ۔وضو کر کے نکلا تو وہ دونوں ابھی تک سازو سامان بیچ کر سو رہے تھے ۔سہان کی آنکھیں چمک اٹھیں شیطانی دماغ میں منصوبہ بناتا وہ کچن کی جانب چلا گیا ۔فریج سے دو انڈے نکالے ان کو توڑا اور ان کی زردیاں نکال کر ایک چمچ میں رکھیں پھر آرام آرام سے چلتا ہوا واپس کمرے میں آیا ۔پہلے حذیفہ کو دیکھا پر شیزل کو ۔شیزل کی طرف بڑھ کر وہ اس کے پاس پہنچ کر نیچے بیٹھا اور اس کے کھلے  منہ کو دیکھا ۔
بیٹا تو آج کے بعد منہ کھول کر نہیں سوتا ۔دماغ میں سوچتے ہوئے وہ مزے لینے لگا ۔
چمچ کو احتیاط کے ساتھ اس کے منہ میں انڈیل دیا ۔شیزل نے مزے کے ساتھ پہلے زبان کے  ساتھ چکھا جب تھوڑی سی زردی کھا لی تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور ساری کی ساری زردی باہر نکال پھینکی ۔
یخخخخخ تھو ۔کھانستے ہوئے اس نے پاس بیٹھے سہان کو دیکھا جو ہنس ہنس کر پاگل ہو رہا تھا ۔
گندے شودے کمینے یہ.... یہ کیا ڈالا تھا میرے منہ میں؟ ۔غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے اس نے پوچھا ۔شور کی آواز سن کر حذیفہ کی بھی آنکھ کھل گئی ۔جو اب ہونق بنے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔
اوئے گالی دے کر وضو نا خراب کر اور اٹھو اچھے بچوں کی طرح نماز پڑھو اٹھ کر ۔ہنسی کو روک کر وہ بولا۔
قسم سے سو شیطان مرے ہوں گے پھر تو پیدا ہوا ہو گا ۔حذیفہ نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے اپنی رائے دی ۔
اپنے بارے میں کیا خیال ہے نیک پروین؟ ۔وہ بھی ڈھیٹوں کا سردار تھا بانچھیں پھیلا کر بولا اور جائے نماز بچھا لی ۔

نیک پروین کے بچے تو نماز پڑھ لے پھر نکالتا ہوں تیرے جن ۔حذیفہ بلبلا اٹھا تھا اس نئے ملنے والے لقب پر ۔پاؤں پٹختا ہوا واش روم کی جانب بڑھ گیا جبکہ شیزل زبان ہونٹوں پر پھیر کر کچی زردی کے زائقے کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

******************
فجر قضا ہوئی تو نیلگوں افق پر زرد سورج کی شاہی آمد ہوئی۔اس کی آمد پر تمام کرنیں زمین کی سطح سے ٹکرائیں اور روشنیوں کی پھوار زمین والوں کے حوالے کر گئیں ۔اس تبدیلی پر تمام انسان پرجوش ہو گئے ۔ہر کوئی اپنے کاموں پر جانے کی تیاری پکڑنے لگا ۔سہان نماز پڑھ کر واپس گھر آ گیا تھا ۔ضوبیہ کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھیں ۔انہوں نے ایک نظر سہان کو دیکھا پھر اپنے کام میں مشغول ہو گئیں ۔وہ سیٹی بجاتا ہوا سیدھا کچن کی طرف ہی آ گیا ۔ابھی وہ کچن کے اندر پاؤں رکھنے ہی والا تھا کہ ضوبیہ چلا اٹھیں ۔
خبردار.... خبردار جو تم نے کچن میں اپنا قدم رکھا تو ۔وہ بیلنا اٹھائے خونخوار نظروں سے اسے گھور رہی تھیں ۔
اوکے اوکے..... اپنا یہ جنگی ہتھیار تو پیچھے کریں..... یقین کریں میں ابھی شہید نہیں ہونا چاہتا ابھی تو میں نے شادی کرنی ہے.... میرے بچے یتیم ہو جائیں گے ورنہ پیدا ہونے سے پہلے ہی ۔وہ ہاتھ اوپر اٹھا کر دو قدم پیچھے ہو کر دکھیاری آواز میں بولا ۔
جو تم اس دن کچن کا حال کر کے گئے تھے نا بھولا نہیں مجھے پورا دن لگا کر کچن صاف کیا تھا میں نے ۔وہ واپس اپنی جگہ پر جا کر روٹی بیلنے لگیں ۔
میں   نے تو بس کھانا بنانے کی کوشش کی تھی.... ایک مجھ کنوارے بیچارے کی اس گھر میں کوئی عزت ہی نہیں ناجانے کب ہو گی میری شادی ۔وہ رونے کی اداکاری کرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
جو تمہاری حرکتیں ہیں نا اگلے دس سال بھی نا کرواؤں میں تمہاری شادی ۔وہ پیچھے سے بڑبڑا کر رہ گئیں تھیں ۔
*****
ماما میرے کمرے کی صفائی خود کروائیے گا اور ہر چیز ترتیب سے رکھ دیجیے گا پلیز ۔ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے حذیفہ نے نائلہ کو مخاطب کیا ۔
کروا دوں گی جانتی ہوں کیا حشر ہوا ہو گا تمہارے کمرے کا ۔وہ مسکرا کر تسلی آمیز لہجے میں بولیں ۔
ویسے سہان بھائی مجھے لگتا ہے شیطان کی کمپنی میں رہتے ہیں اف اللّٰہ ماما صبح انہوں کچے انڈے کی زردی شیزل بھائی کو کھلا دی ۔حذیفہ کی چھوٹی بہن ہنستے ہوئے بولی ۔
گڑیا وہ شیطان کی کمپنی میں نہیں رہتا بلکہ شیطان بھی سہان سے کلاسسز لیتا ہے۔حذیفہ نے سر جھٹک کر کہا اور بیگ کندھے پر لٹکا کر کھڑا ہو گیا ۔
اوکے ماما اللّٰہ حافظ صفائی یاد سے کروا دیجئے  گا خود اپنی نگرانی میں. وہ ان کو یاد دہانی کروا کر وہاں سے نکل گیا ۔موبائل پر نوٹیفیکیشن آیا تو اس نے دیکھا ۔
ہائے ناجانے تم مجھے کب ملو گی میری پیاری دوست ۔حسرت بھری نگاہوں سے سکرین کو دیکھتے ہوئے بولا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا ۔
******
لڑکیو آج عہد کرو کے اپنے حق کے لیے لڑو گی چاہے جو مرضی ہو جائے کبھی بھی ہار نہیں مانو گی..... ایک عورت کبھی بھی کمزور نہیں ہوتی... بہادری میں عورت کا کوئی مقابلہ نہیں ۔ایزال گراؤنڈ میں درخت کے نیچے چار پانچ لڑکیوں کو لیے بیٹھی لیکچر دے رہی تھی سب ہی خاموشی سے دم سادھے اس کی بات سن رہی تھیں ۔
آج تم لوگ مجھ سے وعدہ کرو کے کبھی کسی کو اپنا حق کھانے نہیں دو گی ۔اپنا ہاتھ آگے کیے وہ ان سے عہد مانگ رہی تھی آہستہ آہستہ سب نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیے ۔
نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر ۔اچانک آنے والی مردانہ آواز پر سب نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا ۔
او ہیلو ادھر.... اوپر.... ادھر دیکھو ۔درخت پر الٹا لٹکے وہ ان کو اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا ۔سب نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا ۔جہاں وہ بندروں کی طرح لٹکا ہوا تھا ۔
پاکستان!
زندہ آباد ۔اس کے پاکستان کہنے پر سب نے جواباً نعرہ لگایا تو ایزال نے گھور کر سب کو دیکھا ۔سب سہان کے اترنے تک وہاں سے غائب ہو چکی تھیں ۔اپنی درگت تھوڑی نا بنوانی تھی انہوں نے ۔

مس پاکستان کیسا رہا تمہارا لیکچر؟ ۔وہ ایزال کے پاس پہنچ کر پوچھنے لگا ۔
تم نا آتے تو بہت اچھا رہتا ۔وہ بھی دانت نکال کر بولی ۔
ایک تو اتنے جوشیلے نعرے لگوائے اوپر سے تم باتیں سنا رہی ہو ہاتھی کی ساتھی اٹس ناٹ فئیر ۔وہ منہ بناتے ہوئے بولا ۔
تم مجھے ایک بات تو بتاؤ۔دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے ایزال نے اپنے نام کو اگنور کر کے اسے کہا۔
کیوں مس پاکستان میں..میں بلکل چغلیاں نہیں کروں گا تمہارے ساتھ دوسری لڑکیوں کی یہ شغل تم عورتوں کو ہی مبارک ہو میں کیوں ایویں ہی جہنم میں تم لوگوں کے  ساتھ جلتا پھروں ۔وہ اس کو گھورتے ہوئے بولا تو ایزال نے ایک زور دار مکا اس کو مارا ۔
ایک تو تم فضول بہت بولتے ہو میں ایک سیریس بات کر رہی ہوں تم سے۔ وہ اس کو ڈپٹتے ہوئے بولی ۔
اچھا چلو بولو میں بلکل خاموش ہوں اب ۔وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اس کو سننے کے لیے کھڑا ہو گیا ۔
تم عزم کو اگنور کیوں کرتے ہو؟ ۔وہ سنجیدہ نگاہوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی ۔
سہان نے انگلی ہونٹوں سے نیچے کی پیشانی پر بل ڈالے ۔
تم سے کس نے کہا؟ ۔وہ بھی سیریس ہو گیا تھا ۔
کسی نے بھی نہیں میں نے محسوس کیا ہے بس ۔وہ کندھے اچکا کر نارمل سے لہجے میں بولی ۔
میں کیوں اگنور کروں گا اسے؟ ۔وہ بھی اس کے انداز میں کندھے اچکا کر بولا ۔اور پلٹ گیا ۔ایزال نے اس کی ہڈی کو پیچھے سے کھینچا ۔جس کی وجہ سے اسے جھٹکا لگا تھا ۔
اس کا خیال رکھا کرو محبت کرتی ہے تم سے وہ ۔مسکرا کر اسے کہا تو سہان نے بھی سر ہلا دیا ۔
اچھا نہیں کیا عزم تم نے میرے ساتھ ۔دانت پیستا ہوا وہ کلاس کی جانب بڑھ گیا تھا ۔دماغ ابھی بھی کچھ کھچڑی کی دیگ بنا رہا تھا ۔
******************
امایہ کتابیں ہاتھ میں پکڑے سیاہ سوٹ میں ملبوس پیروں میں سیاہ ہی کھسہ پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب اچانک کسی سے زور دار تصادم ہونے پر اس کے چودہ کیا چوبیس طبق روشن ہوئے تھے ۔اور کتابیں ساری زمین بوس ہو گئیں۔
آنکھیں ماتھے پر رکھ کر چلتے ہو کیا؟ نظر نہیں آتا؟ ۔وہ غصے سے دیکھتے ہوئے بولی ۔وہ جو مدہوش ہو کر اسے دیکھ رہا تھا ہوش میں آتے ہی ماتھے کو چھو کر دیکھا ۔
نن.... نہیں میری آنکھیں تو بلکل ناک کی سائیڈز پر ہیں جیسے آپ کی ہیں لیکن آپ کی آنکھیں زیادہ خوبصورت ہیں ۔اس کے پتا نہیں کیوں پسینے چھوٹ رہے تھے اس نے کیا کہا تھا اسے خود بھی سمجھ نہیں آیا ۔نیچے بیٹھی کتابیں اٹھاتی امایہ نے ناگواری سے اسے دیکھا ۔

ان آنکھوں کا استعمال کرتے ہوئے ناک کی سیدھ میں دیکھ کر چلا کرو ورنہ کسی دن بلائنڈ ہاسپٹل چھوڑ آؤں گی تمہیں ایڈیٹ ۔غصے سے تن فن کرتی وہ کلاس کی طرف بڑھ گئی ۔
بلائینڈ ہاسپٹل نہیں کارڈئیک ہاسپٹل جانے کی ضرورت ہے اب تو مجھے ۔بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ دلکشی سے مسکرا کر بڑبڑایا ۔
بے خودی بے سبب نہیں سہان
کچھ تو ہے جس کی وجہ سے مسکرایا جا رہا ہے
سہان نے شعر کی ہڈی پسلی ایک کرتے ہوئے اپنی انٹری دی ۔نمیر بلکل الرٹ ہو گیا اور بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے اس سے زیادہ ضروری کام تو کوئی اور ہے ہی نہیں ۔
ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو وہ بد روح تھوڑی ہے جو اڑے گی وہ دیکھ وہاں جا رہی ہے ۔اس کی گردن کو پکڑ کر اس طرف گھمایا جس طرف امایہ جا رہی تھی ۔
کک..... کس کی بات کر رہے ہو میں تو دیکھ رہا تھا کہ آج موسم کتنا پیارا ہے ۔وہ سٹپٹا کر وضاحت دینے لگا ۔
سہان عبداللّٰہ کے ساتھ گیم کھیلنے کی کوشش نا کرنا بچے ہو ابھی تم... میں اڑتی چڑیا کے پر گن لوں یہ تم لوگوں کی حرکتیں تو پھر میری آنکھوں کے سامنے میرے ناک کے نیچے ہیں ۔وہ کالر جھاڑ کر طمطراق سے بولا۔
ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے اچھا وہ تو بس ان کی کتابیں نیچے گر گئی تھیں اور میں نے اٹھانے میں مدد کر دی ۔وہ ایک اور جھوٹ گڑھتے ہوئے بولا ۔
آہاں ان کی کتابیں واہ بھئی لکھوا لے نیمر خان تو زن مریدی کے رکارڈ توڑے گا ۔وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔نمیر بیچارہ بس خجل سا ہو گیا اپنی جگہ پر ۔
*****************
امایہ دروازہ ناک کر کے سر وجاہت کے آفس میں آئی جہاں پروفیسر وجاہت اور ان کے سامنے ایک سٹوڈنٹ بیٹھی تھی ۔
جی امایہ بیٹا آ جائیں ۔انہوں نے نرم لہجے میں اسے اندر آنے کی اجازت دی۔وہ سر ہلا کر اندر داخل ہوئی اور پروفیسر کے اشارے پر کرسی پر براجمان ہو گئی ۔
امایہ بچے دراصل میں نے آپ کو ایک کام کے لیے بلایا ہے ۔وہ تمہید بانھتے ہوئے بولے۔
جی جی سر بولیں نو ایشو ۔امایہ فوراًبولی(ایویں تھوڑی امایہ کا نام میسنی رکھا تھا) ۔
یہ رعنین ہیں آپ کی جونئیر دراصل ان کی شروع والی کچھ کلاسسز کسی وجہ سے مس ہو گئی تھیں اور اب ایکسٹرا کلاسسز دینا ٹیچرز کے لیے کافی دشوار ہے تو اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے آپ کا ہی خیال آیا کہ آپ ان کی مدد کر سکتی ہیں اپنا روزانہ کچھ وقت دے کر انہیں ۔پروفیسر نے تمام صورتحال اس کے سامنے رکھی تو وہ خوشدلی سے مسکرا دی ۔
نو پروبلم سر میں ضرور ان کی مدد کروں گی ۔رعنین پر ایک نظر ڈال کر اس نے پروفیسر سے کہا ۔
دیٹس گڈ مجھے فخر ہے کہ آپ جیسے سٹوڈنٹس ہماری یونیورسٹی کا حصہ ہیں ۔بس ان کو اپنے گروپ سے بچا کر رکھیے گا ۔نرم لہجے میں کہتے ہوئے انہوں نے گویا اسے نصیحت کی تھی ۔امایہ ان کی بات پر بس مسکرا ہی سکی ۔
گروپ والوں سے رعنین کو بچا کر رکھنا کسی محاذ سے کم نہیں تھا ۔
وہ دونوں اٹھ کر آفس سے باہر آ گئیں ۔
آپ کا نام بہت پیارا ہے ۔رعنین اس کو دیکھ کر بولی ۔
تھینکیو اور تمہارا نام بھی بہت پیارا اور یونیک ہے ۔امایہ نے بھی جواباً تعریف کرنا اپنا فرض سمجھا ۔
میرے دا جی نے رکھا تھا اس کا مطلب ہے نعمت ۔رعنین نے تفصیل بتائی ۔
نام کے ساتھ ساتھ مطلب بھی بہت پیارا ہے ۔اچھا میں رعنا بول سکتی ہوں تمہیں ؟ ۔امایہ بلکل دوستانہ انداز میں بولی ۔
جی بلکل ۔اس نے مسکرا کر خوشدلی سے اجازت دی ۔
گڈ ہو گیا اب مجھے یہ بتاؤ کتنے لیکچر مس ہوئے ہیں تمہارے؟ ۔وہ اس سے تفصیل پوچھتے ہوئے کنٹین کی جانب بڑھ گئیں ۔
****************
جاری ہے.......
کیسی لگی ایپی؟ ۔
پیارے ریڈرز میں ناں بھول گئی تھی کہ میں ناول بھی لکھتی ہوں اور ایپی بھی دینی ہے 🤦‍♀️کل ہی یاد آیا اور جلدی جلدی لکھ دی اب جیسی لکھی گئی گزارا کر لیں ناراض ہوئے بغیر 🙏
آپکی کی بھلکٹر رائیٹر😢😇

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top