Episode 1 to 5
#O mery Yar tu mera pyar
#episode_1
#by_fariha_muzaffar
#friendshipbasednovel
لاہور کی سب سے شاندار اور دنیا میں ایک بہترین ساکھ رکھنے والی پنجاب یونیورسٹی کیسے کیسے آئن سٹائن اور نیوٹن اپنے اندر چھپائے بیٹھی ہے یہ تو اس یونیورسٹی کی سیر کر کے ہی پتا چلے گا۔سیاہ مرسیڈیز ایک سو بیس کی رفتار سے یونیورسٹی کی پارکنگ تک پہنچی تھی اس کار کے وہاں پہنچتے ہی وہاں کھڑے انسانی وجود غائب ہو گئے تھے ۔ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر ایک طوفان باہر نکلا اور اس کے ساتھ والی سیٹ کا دروازہ کھول کر ایک اس سے بھی بڑا طوفان نکلا ۔بیگ کندھوں پر لٹکائے کار کو لاک کرتے دونوں ببل چباتے ہوئے شاہانہ چال چلتے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھنے لگے جہاں جہاں سے وہ گزر رہے تھے راستہ خالی ہوتا جا رہا تھا ۔کلاس کے سامنے پہنچ کر دونوں نے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور دروازہ ناک کر کے کلاس میں جھانکا جہاں پوری کلاس نشستوں پر بیٹھی پوری توجہ سے پروفیسر کی بات سن رہے تھے دروازہ ناک ہونے پر کئی گردنیں ایک ساتھ پیچھے کو مڑیں ۔ساتھ ہی پروفیسر کے چہرے پر لگی عینک نیچے کو کھسکی ۔
برخوردار کلاس کو سٹارٹ ہوئے پورے دس منٹ گزر گئے اور آپ اب تشریف لا رہے ہیں ۔پروفیسر صاحب نے طنز کے تیر برسانے میں بلکل دیر نہیں کی ۔
سر ہمیں اندر آنے کی اجازت تو دیں ہم آپ کو بتاتے ہیں ہم پر کیا قیامت ٹوٹی ہے ۔شکل پر ایسی مسکینیت طاری کی گئی کہ اصلی مسکین بھی اس کے سامنے دو نمبر لگیں۔
ابے کیا قیامت ٹوٹی ہے مجھے بھی بتا تا کہ میں بھی کوئی کہانی کی ٹانگ توڑ لوں ۔دوسرے نے بازو سے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا ۔مگر اسکی پرواہ کسے تھی ۔
سر وہ کیا خوب کہا ہے سہان تقی میر نے واہ واہ کریے گا زرا
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
واہ واہ واہ ۔کلاس میں واہ واہ کی صدا کی گونجی پروفیسر پوری توجہ سے اسکی دکھ درد بھری کہانی سن رہے تھے ۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ گفتگو کیا ہے
وہ ہاتھ بلند کر کے مست انداز میں شعر کی ہڈی پسلی ایک کر رہا تھا ۔
اسکی شاعری سن کر پروفیسر کے منہ سے بے ساختہ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون نکلا تھا ۔
بیٹا جی یہ میر تقی میر نام ہے اور شعر غالب کا ہے سہان تقی میر کا نہیں اور گفتگو نہیں جستجو کہا ہے شاعر نے۔انہوں درستگی کی ۔
آہ ہ ہ پروفیسر صاحب کیسی نا انصافی ہے اب سنانے والے کا شعر پر کوئی حق نہیں؟ میر تقی میر نے یہ شعر لکھا تھا اور سہان نے اپنی پھول جھڑتی زبان سے یہ شعر سنایا تو ہوا نا سہان تقی میر ۔اسکی منطق سن کر کلاس میں ایک قہقہہ گونجا ۔
خیر آپ تشریف رکھیے ۔پروفیسر صاحب سر ہلاتے واپس بورڈ کی جانب پلٹ گئے۔
پروفیسر صاحب آپ نے ہماری دکھی داستان تو سنی نہیں دیکھیں.... دیکھیں میرے اس مظلوم دوست کی شکل اس کی منگیتر اس کو دھوکہ دے چکی ہے آپکو پتا ہے یہ سارے راستے میرے کندھے پر سر رکھ کر روتا آیا ہے اور میں اس کو دلاسے دیتا آیا ہوں کہ نہیں سہان رونا نہیں مرد روتے نہیں... مگر یہ اپنی منگیتر کو بے وفا کہتا مطلبی کہتا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیتا.... بس سر میں آپ کو اتنا ہی بتا سکتا ہوں مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میری آنکھوں میں سے پانی نا چھلک پڑے اور بھرے مجمع میں میں رسوا ہو جاؤں ۔وہ کمال اداکاری سے اپنی آنکھوں کے خشک گوشوں کو صاف کرتا ہوا بولا اور سہان کی گردن کو پیچھے سے پکڑ کر گھما گھما کر بولا ۔سہان کا تو سر چکرانے لگا تھا۔
بے غیرت میری منگیتر یہیں بیٹھی ہے تو خود تو مرے گا ساتھ مجھے بھی مروائے گا حذیفہ کے بچے ۔سہان نے سنبھلتے ہی اس کے پاؤں پر پاؤں مار کر کہا تو وہ درد سے بلبلا اٹھا۔
آپ خاموشی سے اپنی نشست پر براجمان ہو جائیے اور براہِ کرم دوسروں کو پڑھنے دیجیے ۔پروفیسر صاحب ان کی باتوں کو یکسر نظر انداز کر کے گویا ہوئے ۔
وہ دونوں خاموشی سے جا کر Aish squad کی قطار میں خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔
ایک تو سر اتنی مشکل اردو بولتے ہیں یہ ششست کہہ رہے تھے کرسی کہہ دیتے بھلا ۔حذیفہ نے منہ بناتے ہوئے ایک شکوہ کیا ۔
شیزل ابھی کوئی کہہ رہا تھا کہ کسی کی منگیتر دھوکہ دے گئی ہے اسے اور مطلبی اور بے وفا اور کیا کیا کہا تھا؟ ۔عزم نے ساتھ بیٹھے شیزل کو مخاطب کیا ۔
ہاں سنا تھا میں نے بھی ایسے لوگوں کا تو سر قلم کر دینا چاہیے گستاخ، نافرمان کہیں کے ۔شیزل نظریں بورڈ پر جمائے بڑبڑایا ۔اسے کلاس سے باہر کھڑے ہو کر خود پر سٹینڈنگ آؤٹ سٹوڈنٹ کا تمغہ اپنے گلے میں ہار کی طرح نہیں سجانا تھا ۔
اے شیزل غدار خبردار جو تو نے میری اکلوتی منگیتر کے کان بھرنے کی کوشش کی ۔سہان نے کتاب زور سے اسکی گود میں پھینکی ۔پر شیزل کو تو کوئی فرق نہیں پڑا البتہ پروفیسر صاحب نے مڑ کر غصیلی نگاہوں سے پیچھے ضرور دیکھا تھا ۔
آپ دونوں کلاس سے باہر تشریف لے جائیے عجب کھلبلی مچا رکھی ہے ۔پروفیسر نے حذیفہ اور سہان کی طرف شہادت کی انگلی کرتے حکم جاری کیا ۔
پروفیسر صاحب میں تو نہیں تھا یہ سہان اور عرشمان کہہ رہے تھے کہ سر کا لیکچر انتہائی بورنگ ہوتا ہے چلو باہر چلتے ہیں ۔حذیفہ نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کب سے خاموش بیٹھے عرشمان کو بھی گھسیٹا ۔یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سہان اور حذیفہ پر کوئی بات آئے اور وہ شیزل اور عرشمان کو بخش دیں ۔
عرشمان نے کھا جانے والی نظروں سے ان دونوں کو دیکھا ۔
سہان فوراً تابعداری سے بیگ کندھے پر ڈال کر کھڑا ہو گیا ۔
سر ہم جائیں باہر؟ ۔حذیفہ بھی عرشمان، شیزل، عزم، ایزال اور امایہ کا بیگ کندھوں پر لٹکا کر کھڑا ہوگیا اور اجازت طلب نظروں سے پروفیسر صفدر کو تکنے لگا ۔
اپنا یہ بوریا بستر واپس رکھیں اور اپنی کتاب نکالیں آج آپ ہمیں اردو پڑھ کر سنائیں گے ۔پروفیسر ڈائز کے سامنے کھڑے ہو کر بولے تو حذیفہ کے اوسان خطا ہونے لگے ۔
پروفیسر صاحب ابھی تو آپ نے کہا باہر جائیں کلاس سے دیکھیں پروفیسر صاحب ہم بہت تابعدار بچے ہیں ہم آپ کی بات نہیں ٹال سکتے ہمیں جانیں دیں.... میرے موکل سخت ناراض ہو سکتے ہیں اس بات پر. سہان نے اپنی ہنسی کا گلا دباتے ہوئے کہا۔
پروفیسر صفدر اردو کے پروفیسر تھے جن کی شامت آئے روز حذیفہ اور سہان کے ہاتھوں آئی رہتی تھی مگر وہ بھی اپنے نام کے ایک تھے ان کی بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ابھی بھی ان کی کھسر پھسر سے تنگ آ کر انہوں نے کلاس سے باہر جانے کا کہا لیکن اپنے لیکچر کی بوریت کا سن کر ان کا پارہ آسمان کو چھونے لگا تھا ۔اسی لیے فوراً سے پیشتر انہوں نے اپنا فیصلہ بدلا ۔
ابھی بھی ہم ہی کہہ رہے ہیں کہ کتاب نکال کر پڑھ کر سنائیں۔پروفیسر صفدر کی آواز زرا بلند ہوئی وہ اب زچ ہونے لگے تھے ان کے ہاتھوں۔
سہان نے فرمانبرداری سے کتاب بیگ سے نکال کر کھولی ۔اس میں ایک صفحہ دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکیں ۔چہرے پر گہری مسکراہٹ رقص کرنے لگی ۔گلے کو کھنکارتے ہوئے اس نے ایک نظر سامنے دیکھا اور پھر عرشمان کو دیکھ کر آنکھ دبائی وہ سمجھ گیا تھا اب کیا ہونے والا ہے ۔
پڑوفیسر صاحب میڑا نام سہان عبداللّٰہ ہے میں بی ایش زولوجی میں پرھتا ہوں میڑے ابا کا نام عبداللّٰہ ہے وہ آڑمی میں ہیں وہ پہاری علاقوں میں ڑہتے ہیں ۔اس کیا سہان نامہ شروع ہوتے ہی کلاس میں قہقہوں کی برسات ہونے لگی ۔ہنس ہنس کر جہاں سب لوٹ پوٹ ہو رہے تھے وہیں پروفیسر صاحب کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا ۔
دفع ہو جائیں آپ ابھی میری کلاس سے ۔پروفیسر نے دھاڑ کر کہا تو Aish squad کی پوری قطار مکھیوں کی طرح اڑتے ہوئے کلاس سے باہر نکلی ۔باہر آتے ہی سب کے فلک شگاف قہقہے بلند ہوئے سب کے سب ہنستے ہنستے زمین پر بیٹھ گئے۔
اففففف کیا پکایا ہے سہان تم نے پروفیسر کو ۔ایزال نے پیٹ پر ہاتھ رکھ بمشکل کہا ۔ہنس ہنس کر اس کے پیٹ میں درد ہونے لگا تھا ۔
اور جو سر پکاتے ہیں اتنی مشکل اردو بول کر اوپر سے خود کو ہم کر بندے کو کنفیوز کر دیتے ہیں کہ ناجانے کتنی فوج اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔سہان نے بھی اپنے اندر کا ابال باہر نکالنے میں دیر نہیں کی ۔ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر اٹھاتے ہوئے سب گراؤنڈ کی جانب بڑھنے لگے ۔
جاری ہے ۔۔۔
دوسری قسط کل انشاءاللّٰہ❤️
***************
#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_2
#by_fariha_muzaffar
گراؤنڈ میں پہنچ کر نیچے گھاس پر بیٹھ کر سب نے ایک دوسرے کی شکلوں کو دیکھا جن پر دبی دبی ہنسی پھر سے قہقہوں میں بدل گئی۔
پانی کی بوتلیں نکال کر سب نے منہ سے لگائیں تو پانی بھی فواروں کی صورت باہر نکلنے لگا ۔
حذیفہ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر سب کو خاموش ہونے کا کہا ۔چپ ہو کر سب اس کی شکل دیکھنے لگے ۔
بھوک لگی ہے کسی کو؟ ۔سوالیہ نظروں سے سب کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
کیوں آج تیری بارات ہے؟ ۔عرشمان نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا۔
بارات ہی سمجھو.... آج حذیفہ نے ایسا کام کیا ہے جس پر تم لوگ غش غش کر اٹھو گے ۔حذیفہ نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا ۔
بد تمیز انسان غش غش نہیں ہوتا عش عش ہوتا ہے ۔ایزال نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔
تمہیں چاکلیٹ نہیں کھانی؟ ۔حذیفہ نے گھورا ۔
کھانی ہے نا حذیفہ تم بہتتتتتتت اچھے ہو ۔ایزال کی ٹون فوراً بدلی۔
تمہیں اگر میں کہوں ابھی رات کے بارہ بج رہے ہیں تو تمہیں کہنا چاہیے بارہ بج رہے ہیں اور تم میری اردو درست کرانے کی ناکام کوشش کر رہی ہو ۔حذیفہ کا انداز دیکھ کر پھر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔
دفع ہو جاؤ کمینوں جہاں مرضی جاؤ اب میرے پاس مت آنا ٹھونسنے کے لیے ۔وہ غصے سے پاؤں پٹختا وہاں سے اٹھ گیا ۔
اچھا اچھا پتا ہے نا غصہ حرام ہے میلا پالا بچہ آ جا ۔امایہ نے اٹھ کر اس کا بازو پکڑ کر واپس بیٹھایا ۔
ہو تو تم میسنی لیکن خیر ہو تو میری دوست نا بتا ہی دیتا ہوں تم لوگوں کو ۔وہ واپس اپنی جون میں آ گیا ۔
اچھا اب بک بھی ایویں ہیرو بن رہا ہے ۔سہان نے بھی مداخلت کی ۔
یہ دیکھو یہ کیا ہے؟ ۔حذیفہ نے ایک بیگ ان کے سامنے لہرایا ۔
یہ ہم ہیں یہ بیگ ہے اور تو ہمیں الو بنا رہا ہے گدھے ۔عرشمان نے بیگ اس کے ہاتھ سے جھپٹتے ہوئے کہا ۔
شکر کرو گے تم میرا شکر آج گرینڈ پارٹی ہونی ہے ہماری ۔حذیفہ ابھی بھی پوری بات بتانے پر امادہ نہیں تھا ۔
چل اوئے بس کر دے نیند آ رہی ہے دھوپ دیکھ کتنی اچھی اب سونے دے ۔شیزل نے گھاس پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا ۔
یہ بیگ علی کا ہے اور سہان اب تیرا اور تیرے موکلوں کا کام شروع ہو گیا ہے ہماری پیٹ پوجا کروانے کا ۔حذیفہ نے سہان کو مخاطب کیا ۔علی کو دیکھ کر عرشمان نے بیگ کو کمر کے پیچھے چھپا لیا ۔
میرا بیگ نہیں مل رہا کیا تم لوگوں کے پاس ہے؟ ۔ان کے پاس پہنچ کر اس نے سب کے چہروں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہمیں کیا پتا ہم تمہارے بیگ کے چوکیدار ہیں کیا؟ ۔ایزال نے ناک چڑھاتے ہوئے ناگواری سے کہا ۔
نہیں چوکیدار نہیں ہو چلتے پھرتے فتنے ہو تم لوگ مجھے پتا ہے میرا بیگ تم لوگوں کے پاس ہی ہے ۔وہ سخت لہجے میں گویا ہوا ۔
دیکھو علی اگر تم اپنا بیگ ڈھونڈنا چاہتے ہو تو میرے موکل تمہاری مدد کر سکتے ہیں لیکن تمہیں اس طرح ہمارے گروپ سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی میرے موکل بہت حساس ہیں بہت جلدی برا منا جاتے ہیں ۔سہان نے ہمدردانہ انداز اپنایہ ۔
اچھا ٹھیک ہے سوری لیکن میرا بیگ واپس کر دو پلیز ۔علی نے بھی مذاکرات کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔
بیگ تمہیں مل جائے گا لیکن اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ ۔حذیفہ بولا۔
کیا چاہتے ہو تم لوگ؟ ۔علی کے ماتھے پر پھر سے تیوری چڑھی ۔
سات کپ چائے دو چاکلیٹ اور سات سموسے ۔عزم فوراً بولی۔
ٹھیک ہے میں ابھی لے کر آتا ہوں۔وہ واپسی کے لیے پلٹا ۔
رکو وووووووووووووووووو تم ایسا نہیں کر سکتے ۔سہان نے اس کے بازو کو تھامتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا تو سب کے لیے اپنے قہقہے روکنا مشکل ہو گیا ۔
کیا ہوا ہے اب؟ ۔علی کی ناگواری اپنے عروج پر تھی ۔
میرا ایک موکل تمہارے ساتھ جائے گا کیا پتا راستے میں کہیں تمہیں بیگ مل جائے اور تم ہمیں ہمارا انعام دیے بغیر ہی فرار ہو جاؤ اس لیے میرا موکل تمہارے ساتھ جائے گا اور تم سارے راستے اس کو کمپنی دو گے وہ ایک منٹ بھی بور ہوا تو پھر جانتے ہو نا موکل کتنا برا منا جاتے ہیں.... اور ہاں ان کے بارے میں کسی کو بتانا نہیں ورنہ یہ وہیں کسی گٹر میں پھینک دیں گے تمہیں ۔سمجھ گئے نا میری بات؟ ۔سہان نے بات پوری کر کے علی کو دیکھا جس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا ۔
کک... کیوں.... تمہارے پاس موکل کہاں سے آئے ہیں۔؟ ۔علی کے لیے وہاں رکنا دشوار ہوتا جا رہا تھا ۔
یہ بڑے لوگوں کا بڑے لوگوں پر کرم ہوتا ہے چلو جاؤ اب اور میری ساری باتیں یاد رکھنا ۔موکل جناب چلیں اس بندے کا بیگ ڈھونڈنے کی ذمہ داری آپ کی ہے. ارے نہیں بور نہیں کرے گا بے فکر ہو کر جائیں۔وہ علی کے ساتھ بات کرتا کرتا اپنے پہلو میں دیکھ کر باتیں کرنے لگا جہاں بظاہر تو کوئی نہیں تھا مگر وہاں سہان کے موکل موجود تھے ۔
**************
علی بیچارہ یونیورسٹی کا کونا کونا پھر رہا تھا اپنے بیگ کی تلاش میں اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا تھا کہ وہ بول بول کر ڈھونڈ رہا تھا بیگ ۔کبھی زور زور سے ہنسنے لگتا تو کبھی آہستہ باتیں کرنے لگتا ۔اب موکل صاحب کو بور تھوڑی کرنا تھا ۔
علی تم کس سے باتیں کر رہے ہو؟ ۔پاس سے گزرتے ایک سٹوڈنٹ نے پوچھا ۔
مم... میں تو کسی سے باتیں نہیں کر رہا ۔
ابھی میں نے دیکھا تم باتیں کر رہے تھے کسی سے ۔وہ سٹوڈنٹ مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا ۔
ارے نہیں تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں تو نعت پڑ رہا تھا ۔وہ کہہ کر فوراً وہاں سے کھسک گیا ۔
پاگل ۔سٹوڈنٹ بھی سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا ۔
سوری موکل صاحب آپ کو برا تو نہیں لگا مجبوری ہے سہان نے منع کیا ہے نا کسی کو بتانا نہیں اس لیے جھوٹ بولنا پڑا لیکن آپ پلیز ان کو مت بتانا بور تو نہیں نا ہو رہے آپ؟ ۔وہ کینٹین میں داخل ہوتا موکل سے معافی کا طلبگار تھا ۔
اس کے اس طرح تنہا بولنے پر سب اس کو عجیب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔اس نے جلدی جلدی Aish squad کا لنچ ٹرے میں رکھوایا اور چائے کا بول کر وہاں سے بھی نکل گیا ۔
****************
ابھی تک Aish squad گراؤنڈ میں بیٹھا تھا ۔سہان کو پھر سے کوئی شرارت سوجھی اس کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔
امایہ تمہیں پتا ہے آج میں تمہارے لیے کچھ لے کر آیا ہوں ۔امایہ کو دوستانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔
اچھا بس تم لے ہی نا آؤ کچھ وہ بھی میرے لیے عزم سن رہی ہو نا تم میرے لیے لے کر آیا ہے کچھ تمہارا منگیتر ۔امایہ نے عزم کو گھسیٹا ۔
تو کیا ہوا اتنی اچھی دوست کے لیے میں کوئی گفٹ نہیں لا سکتا کیا؟ ۔سہان نے برا منا لیا تھا ۔ساتھ ہی عزم کو دیکھ کر آنکھ دبائی۔سب دلچسپی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔
اچھا کہتے ہو تو مان لیتی ہوں ورنہ تم پر مجھے ایک پرسنٹ بھی یقین نہیں ۔امایہ نے گویا احسان کیا ۔
اچھا چلو آنکھیں بند کرو ۔سہان کے پچکارنے پر وہ فوراً آنکھیں بند کر گئی ۔
اپنی پینٹ کی جیب سے ایک چھوٹا سا شاپر نکال کر وہ کھولنے لگا ۔سب اٹھ کر اس کے قریب آ گئے ۔شاپر کھول کر ایک فولڈ ہوا کاغذ نکالا ۔
کیا مصیبت ہے جلدی کرو ورنہ میں آنکھیں کھول رہی ہوں ۔امایہ نے کوفت سے کہا ۔
ایک منٹ بس ہو گیا ۔شیزل نے جلدی سے کہا ۔
کاغذ کو کھولا گیا تو ایزال اور عزم تو اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر وہیں اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کرنے لگیں عرشمان نے سہان کو روکنے کی ناکام سی کوشش کی ۔
کاغذ کو امایہ کے سر پر الٹ کر فوراً وہاں سے بھاگا ۔امایہ کو اچانک اپنے سر میں کھلبلی سی مچتی محسوس ہوئی۔امایہ کو آنکھیں کھولتے ہی اپنی بے و قوفی کا احساس ہوا ۔
ایک ہاتھ سے سر میں خارش کرتی دوسرے ہاتھ سے جوتا پکڑے وہ سہان کے پیچھے بھاگی ۔
کمینے انسان تم بہت گھٹیا ہو یہ ساری جوویں اپنے سر سے نکال کر میرے سر میں ڈال دیں تم نے سہان تمہیں تو اللّٰہ ہی پوچھیں ۔سہان کو پکڑ سے دور ہوتا دیکھ کر وہ روہانسی ہو گئی۔
ارے یہ اپنے سر سے نہیں نکالی بلکہ کل سارا دن لگا کر محلے کے بچوں کے سروں سے نکالی تھی دیکھو تمہارے لیے کتنی محنت کی میں نے ۔سہان نے دور سے چلاتے ہوئے کہا ۔
امایہ دونوں ہاتھوں سے سر میں زور و شور سے خارش کرتی کافی مضحکہ خیز لگ رہی تھی ۔عزم نے چھوٹی سی ویڈیو بنا کر ہمیشہ کے لیے اس لمحے کو قید کر لیا ۔
*******************
جاری ہے ۔
#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_3
#by_fariha_muzaffar
ارے واہ دیکھو امایہ سموسے آ گئے اب مارنا نہیں اچھا ورنہ تمہارا سموسہ بھی میں کھا جاؤں گا ۔سہان نے اس کا دھیان بٹانے کو کہا ۔اور کامیاب رہا علی ان کا لنچ لے کر وہاں پہنچ گیا تھا۔
اوئے نسو کھانا کھل گیا جے نسو اوئے۔حذیفہ نے ٹرے علی کے ہاتھ سے چھیننے کے انداز میں جھپٹی۔
یہ لو اپنا بیگ یہ میرے موکل نے ڈھونڈ لیا ۔سہان نے بیگ اس کی طرف اچھالا ۔اور سب سموسوں کی ٹرے پر ٹوٹ پڑے۔ابھی پیٹ پوجا کرنے کے بعد چائے جی کا انتظار ہونے لگا ۔جب انہیں ایک پیغام ملا۔
پرنسپل صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔طالبعلم نے پیغام دیا تو سب کی نظروں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
چلو جی حاضری لگوا آئیں ہمارے جگری دوست ہم سے اداس ہو گئے ہیں۔شیزل نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
سہان اور حذیفہ تم دونوں ذرا اپنے ایموشنز کو قابو میں رکھنا فضول بک بک نا کرنا ۔عزم نے دونوں کو وارن کیا۔
ارے دیکھو اپنے منگیتر سے کیسے بات کرتی ہے بھئی بے عزتی محسوس ہوتی ہے مجھے تھوڑی عزت کیا کرو میری ۔سہان نے آنکھیں دکھائیں۔
جو عزت کے قابل ہو اسی کی عزت کی جاتی ہے ہنہہہہہہہ۔عزم نے منہ بنایا ۔
چپ کرو یار سیریس ہو جاؤ۔عرشمان نے دونوں کو تنبیہ کی ۔اور پھر سب کے قہقہے گونجے ۔
اچھا اب سیریس بس بس ۔سہان نے ہنسی کو دباتے ہوئے کہا۔
پرنسپل آفس پہنچ کر سب چہروں پر معصومیت کے ماسک چڑھا لیے گئے۔دروازہ ناک کر کر اجازت ملنے پر سب اندر داخل ہوئے.۔
پرنسپل صاحب نے آنکھوں پر گول گول موٹے شیشوں والی عینک لگا رکھی تھی ۔کرسی پر بیٹھے وہ کافی سنجیدہ لگ رہے تھے ۔وہ باری باری اندر داخل ہو کر لائن بنا کر بازو پیچھے کمر پر باندھے سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔
پرنسپل صاحب نے عینک اتار کر سائیڈ پر رکھی اور ان سب کا جائزہ لینے لگے۔ہنکارہ بھرتے ہوئے بات کا آغاز کیا ۔
آج آپ کا ایک ہفتے میں تیسری دفعہ پرنسپل آفس میں حاضری لگوانے کا دن ہے؟ وجہ تو آپ لوگوں کو پتا ہی ہو گی ۔
جی الحمداللّٰہ کبھی غرور نہیں کیا ہمارا اپنا ہی گھر لگنے لگا ہے یہ اب۔حذیفہ نے بڑبڑاہٹ کی جسے سن کر سب کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ آ گئی۔ایزال نے ہاتھ سے اس کے بازو پر چٹکی کاٹی ۔
پروفیسر صفدر صاحب آئے تھے آپ لوگ ان کی کلاس میں کیا لینے جاتے ہیں جبکہ آپ لوگوں کا اردو سے دور دور تک کوئی تعلق واستہ نہیں ہے ۔پرنسپل صاحب بھرپور سنجیدگی سے جواب طلب نظروں سے انہیں دیکھنے لگے۔
سر ایسے نا کہیں اردو سے ہمیں بہت محبت ہے اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہمارے بڑے کہتے تھے قومی زبان کو مادری زبان کہتے ہیں اور مادری زبان مطلب ماں اور ماں سے آپ کا تعلق کیسے ٹوٹ سکتا ہے یہ تو ایک اٹوٹ بندھن ہے یہ تعلق تو جنموں جنموں کا ہے ۔حذیفہ بولا تو نان سٹاپ بولتا چلا گیا ۔سب نے چہروں پر مادری زبان کی محبت کی تصویر لگا لی ۔
جی سر ہم تو اردو زبان کی محبت میں وہاں کھینچے چلے جاتے ہیں ورنہ ہم تو اتنے معصوم ہیں کسی کو تنگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ایزال نے بھی حصہ ڈالا۔
آپ کی معصومیت کے چرچے تو پوری یونیورسٹی میں مشہور ہیں ۔پرنسپل صاحب نے طنزیہ نگاہوں سے سب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
سر یہ تو یونیورسٹی والوں کا پیار ہے ہم سے ۔عرشمان نے کہا ۔
بہر حال آپکو بغیر وجہ کے کسی دوسری کلاس میں جانے کا فائن دینا پڑے گا ابھی ۔انہوں حتمی لہجے میں کہا ۔
سر ہم تو اتنے غریب ہیں ہمارے پاس تو پیسے ہی نہیں ہوتے اور ہمارے پاس تو موبائل بھی نہیں ہے ہم ایک دوسرے کو چھٹیاں لکھ لکھ کر پیغام پہنچاتے ہیں ہم فائن کیسے دیں گے ۔سہان نے لاچاری سے کہا ۔
چھٹیاں نہیں چٹھیاں ہوتا ہے جاہل ۔ایزال نے درستگی کی ۔
دیکھا دیکھا سر آپ نے ہماری اردو بہت کمزور ہے ہم اس لیے پروفیسر صفدر کی کلاس میں گئے تھے اور الٹا انہوں نے ہماری شکایت لگا دی ۔عرشمان نے جلدی سے موقع دیکھ کر چوکہ مارا ۔
پرنسپل کا سر گھومنے لگا تھا ۔انہوں نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا ۔
آپ لوگ ابھی یہاں سے نکل جاؤ ۔انہوں نے زچ آتے ہوئے کہا ۔
وہ لوگ اپنی ہنسی دباتے ہوئے وہاں سے نکل آئے۔
افففف کتنی بری بات ہے سر صفدر نے ہماری شکایت جلدی سے پرنسپل سے لگا دی حالانکہ جانتے ہیں وہ کہ شکایت لگانا کتنی بری بات ہے ۔امایہ نے باہر نکلتے ہی کہا۔
میسنی دیکھو پرنسپل کے سامنے ایک لفظ نہیں بولی اور اب دیکھو کیسے پٹر پٹر زبان چل رہی اس کی ۔ایزال نے اس کی گردن کو اپنے بازو میں قید کیا تو وہ تڑپ اٹھی ۔
چھوڑو ایزال ایک تو تم اپنے مردانہ بازوؤں کو مجھ سے دور ہی رکھا کرو مہینہ مہینہ درد نہیں جاتی ۔امایہ نے اپنی گردن کو ہاتھ سے مسلتے اسے گھورا ۔
اتنی تم نازک رہ گئی ہنہ.۔ ایزال نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
چار دن کی زندگی ہے دو دن پرنسپل کے آفس میں زلیل ہوتے گزر جائیں گے اور دو دن ان کمینے دوستوں کے ہاتھوں زلیل ہوتے گزر جائیں گے کل ملا کر ذلالت ہی ذلالت لکھی ہے قسمت میں۔عرشمان نے شیزل کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے کہا ۔
جلدی جلدی چلو ورنہ پرنسپل آف اینیمل لائف کی جگہ پرنسپل آف آور لائف پڑھا دیں گے سر وجاہت ۔امایہ نے جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوئے کہا ۔
پرنسپل کے چکروں میں میری چائے جی بھی رہ گئی کوئی مجھے چائے پلا دو ورنہ میرا بلڈ پریشر لو ہو جائے گا ۔حذیفہ نے چکرانے کی اداکاری کرتے ہوئے دہائی دی ۔
اتنی تڑپ کبھی پڑھائی کے لیے بھی محسوس کر لیا کرو ۔امایہ نے چوٹ کی ۔
میسنی میں تمہیں کیسے بتاؤں میں ایک لمحہ بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا مجھے چائے دے دو ورنہ میں مر جاؤنگا..... مرجاؤنگا..... مرجاؤنگا.... ایک مٹھی بند کر کے پیشانی پر ٹکا کر وہ دہائی دینے لگا ۔
ہاہاہاہاہاہا سر وجاہت سے چائے پی لینا جا کر کلاس میں۔عزم نے قہقہہ لگایا۔
سر وجاہت بھی کوئی شیخوں کی اصلی والی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اپنی گاڑی میں تو پیٹرول ڈلواتے نہیں بیچارے سٹوڈنٹس سے دھکا لگوا کر گاڑی کو گھر تک پہنچتے ہیں مجھے چائے کیا خاک پلائیں گے ۔حذیفہ نے سر جھٹکتے دکھی لہجے میں کہا ۔
یونہی باتوں باتوں میں وہ لوگ اپنی کلاس تک پہنچ گئے تھے اور وہ واحد کلاس تھی جس میں ان سب کی زبانیں بولنے سے قاصر ہو جاتی تھیں پروفیسر وجاہت کا رعب ہی ان پر اتنا تھا ۔
***********************
کلاس لے کر وہ لوگ اب کینٹین کی طرف بڑھ گئے ۔وہ ساتوں ایک ساتھ چلتے تو لوگ رشک بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتے دوستی میں ان کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔
ویسے ایک بات ہے پروفیسر وجاہت ہیں بہت ہینڈسم ۔عزم نے سوچتے ہوئے کہا ۔
خوبصورتی کی بات مت کرو ۔سہان نے ناگواری سے اسے دیکھا ۔
کیوں؟ ۔عزم کی تیوری چڑھی ۔
اگر خوبصورت ہونے کے پیسے ملتے ہوتے تو میں بل گیٹس سے بھی ذیادہ امیر ہوتا ۔سہان نے گردن اکڑا کر کہا ۔
ہاں ویسے پھر میں دنیا کے سب سے امیر انسان کی بیوی ہوتی ۔عزم فوراً چشمِ تصور سے خود کو ایک شہزادی کے روپ میں دیکھنے لگی ۔
اور ہم سب سے ذیادہ امیر شخص کے دوست.۔ایزال نے بھی پرجوش ہو کر کہا ۔
اگر میں امیر ہوتا نا تو تمہیں چنتا اپنی بیوی بنانے کے لیے ہنہ اور تم لوگ غریبو ابھی امیر میں ہوا نہیں اور میرے پیچھے پڑ گئے ہو ۔ سہان کروفر سے کہتا ان سے دو قدم آگے ہوا ۔
ااوہو ہوہو ۔۔۔بڑی کوئی غلط فہمی ہے تمہیں ہینڈسم ہونے کی ہنہ..... اگر تم ہینڈسم لڑکوں کی لسٹ میں شامل ہو گئے تو پھر ہینڈسم بیچارے کہاں جائیں گے ۔عزم نے اپنا بدلہ ادھار چھوڑنے کا سوچا بھی نہیں ۔
موٹی عورت سوچ سمجھ کر بولو ابھی تو ساری زندگی تم نے میرے ساتھ گزارنی ہے ۔وہ بھی کہاں ادھار رکھتا تھا ۔
موٹی کس کو کہا ہے اور عورت؟ کہاں سے عورت لگتی ہوں؟ ۔عزم روہانسی ہو گئی ۔
خبردار سہان جو تم نے میری دوست کو موٹی کہا تو ۔امایہ نے بھی حصہ لیا ۔
اگر تمہیں اتنا ہی اعتراض ہے تو تمہیں کہہ لیتا ہوں مجھے تو کوئی مسلہ نہیں۔وہ بے نیازی سے کہہ کر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔لڑتے جھگڑتے وہ لوگ کینٹین پہنچے تھے ۔
*********************
جاری ہے
قسط پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔شکریہ!
اگلی قسط انشاءاللّٰہ جلد ہی آئے گی۔
***********
#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_4
#by_Fariha_muzaffar
کنٹین پر ہلڑ بازی کرنے سے فارغ ہو کر وہ لوگ واپس پارکنگ کی طرف بڑھنے لگے ۔عزم اور امایہ سب سے آگے چل رہی تھیں گیٹ کے پاس پہنچ کر انہیں سامنے سے دو لڑکیاں آتی نظر آئیں وہ اپنی باتوں میں مگن ہونے کی وجہ سے عزم اور امایہ کو نہیں دیکھ سکیں ۔امایہ تھوڑا آگے ہو کر گیٹ کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔
وہ دونوں لڑکیاں جیسے ہی گیٹ کے قریب پہنچیں امایہ کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی عزم بھی چمکتی نگاہیں شکار پر جمائے کھڑی تھی ۔
بھاؤؤؤؤؤ۔دونوں گیٹ سے اچانک نمودار ہو کر چلائیں تو وہ دونوں لڑکیاں بری طرح ڈر گئیں ہاتھوں میں پکڑی کتابیں دھڑم سے نیچے گریں ۔عزم اور امایہ کے قہقہے بلند ہوئے۔
بد تمیز...... تمیز نہیں ہے تم لوگوں کو ۔ایک لڑکی نے سنبھلتے ہوئے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا ۔باقی لوگ بھی پہنچ گئے تھے اور حیران ہو کر عزم اور امایہ کو دیکھ رہے تھے جو پاگلوں کی طرح ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ۔
دراصل تمیز اتنی استعمال کی ہے کہ اب ختم ہو گئی ہے تم لوگ تھوڑی ادھار دے دو نا ۔عزم نے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے کہا ۔ہنس ہنس کر اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا ۔
بد تمیز ۔وہ دونوں ان کو صلواتیں سناتی ہوئی وہاں سے نکل گئیں جبکہ امایہ ابھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی ۔
کیا کیا ہے تم لوگوں نے؟ عرشمان نے دونوں کو گھورتے ہوئے پوچھا ۔
ذیادہ کچھ نہیں بس بھاؤؤؤ کیا تھا ۔عزم نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔
تم لوگ جانتے تھے ان لوگوں کو؟ ۔ایزال نے پوچھا ۔
جانتے ہوتے تو بھاؤؤؤ کرنے کی ضرورت نہیں تھی انہوں نے ہمیں دیکھ کر ہی راستہ بدل لینا تھا ۔امایہ نے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے بمشکل بات کی ۔
کسی کو بخش دو یار ۔شیزل نے دونوں کا تاسف سے کہا ۔
کسی کو بخش دینا Aish squad کے اصولوں میں کہیں نہیں لکھا جو ہاتھ آتا ہے بس شروع ہو جاؤ اور اس بندے کی ایسی بینڈ بجاؤ کہ دوبارہ تمہیں دیکھتے ہی ال تو جلال تو کا ورد شروع کر دے ۔سہان نے بے نیازی سے کہا۔
کسی دن تو چڑھ گیا نا کسی اپنے جیسے کے ہتھے پھر پتا چلے گا دوسروں کو کیسے تنگ کرتے ہیں۔شیزل نے اسکو جیسے کچھ سمجھانے کی ناکام سی کوشش کی ۔
نا تو میرے جیسا کوئی اس دنیا میں ہے اور نا ہی کوئی پیدا ہو گا صرف ایک سہان کو ہی یہ دنیا برداشت کر لے یہ ہی بڑی بات ہے ۔
یہ وقعی سہی بات ہے پتا نہیں ہم تمہیں کیسے برداشت کر لیتے ہیں ۔امایہ نے پھر سے ٹانگ اڑائی۔
ہنہ یہ تو میں ہوں جو تم لوگوں کو برداشت کر رہا ہوں غریبوں شکر مناؤ سہان کا ۔وہ اتراتے ہوئے بولا ۔
بس تم لوگوں کو مقع چاہیے ہوتا ہے اپنی تعریفیں کرنا کا ۔عرشمان نے سہان کو دھموکہ جھڑتے ہوئے کہا ۔
اب تمہاری طرح ہر دوسرے دن کوئی لڑکی ہمیں آ کر پرپوز نہیں کرتی نا تو ہم خود ہی خود کو پرپوز کر کے خوش ہو لیتے ہیں تیرے جیسے قسمت بندہ کہاں سے لائے ۔۔۔آگے کڑیاں.... پیچھے کڑیاں..... ہر جگہ کڑیاں۔حذیفہ نے حسرت سے ہاتھ گھما گھما کر کہا ۔
سنیں ۔وہ سب اپنی ہی مستی میں پارکنگ کی طرف بڑھ رہے تھے جب ایک نسوانی آواز نے انہیں رکنے پر مجبور کیا ۔سب نے پلٹ کر دیکھا تو ایک خوبصورت سی لڑکی شلوار قمیض میں ملبوس بال کھلے چھوڑے چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیے عرشمان کو نرم نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔
لو جی ایک اور ہیر آ گئی...... کوئی بتائے اس کو کہ ہمارا یار رانجھا نہیں ہے یہ عرشمان ہے...... عرشمان ہے...... عرشمان ہے..... حذیفہ نے آہستہ آواز میں دہائی دی ۔
جی؟ ۔عرشمان سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھتا گویا ہوا ۔
وہ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا ۔اس نے جھجھکتے ہوئے کہا ۔بار بار نظر سہان اور حذیفہ پر جا رہی تھی مگر وہ نظروں کو پھیر لیتی ۔
جی پوچھیں۔عرشمان نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
وہ یہاں نہیں آپ سائیڈ پر آ سکتے ہیں؟ ۔وہ خود پر جمی سہان اور حذیفہ کی شرارتی نظروں سے حد درجہ کنفیوز ہو رہی تھی ۔
ارے ہم اپنے جوان جہان دوست کو تن تنہا وہ بھی دن دہاڑے سائیڈ پر بھیج دیں ایسا نہیں ہو سکتا کبھی نہیں.... ایسا کرنے سے پہلے تمہیں پہلے میری لاش سے گزرنا پڑے گا ۔حذیفہ نے عرشمان کی ڈھال بنتے ہوئے جوش سے کہا ۔
دیکھیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔لڑکی جھینپ سی گئی۔
تو سائیڈ پر ہو کر اپنی ڈرامے بازیاں کنٹینیو رکھ میں بات سن کر آتا ہوں۔عرشمان حذیفہ کو سائیڈ پر کرتا اس لڑکے کے ساتھ تھوڑے سے فاصلے پر جا کر کھڑا ہو گیا ۔
جی فرمائیے کیا پوچھنا چاہتی تھیں آپ؟ ۔عرشمان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی ۔لڑکی کو چہرہ پوری طرح اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھنا پڑتا اتنا لمبا قد جو تھا اس کا ۔
آپ کی یہ آنکھیں اصلی ہیں؟ ۔بلآخر اس نے سوال کر ہی لیا ۔
عرشمان کا دماغ بھک سے اُڑ گیا ۔کیا واقعی؟ وہ لڑکی صرف یہ سوال پوچھنے کے لیے اسے وہاں لے کر آئی تھی ۔
نہیں پلاسٹک کی ہیں چائنہ سے منگوائی تھیں کیا آپ کو بھی ایسی آنکھیں چاہیئں؟ ۔اس سے پہلے عرشمان کچھ بولتا سہان نے انٹری کے ساتھ لڑکی کو جواب دیا ۔
نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔آپ نے لینز تو نہیں لگائے؟۔وہ لڑکی کچھ نادم سی ہو گئی ۔
ارے میں کہہ رہا ہوں نا یہ پلاسٹک کی ہیں چائنہ سے خاص آرڈر پر بنوائی ہیں آپ لینا چاہتی ہیں تو بتا دیں سپیشل ڈسکاؤنٹ پر ملیں گی آپکو بلکہ آپ مجھے یہ بتائیں کیا آپ کے یہ بال اصلی ہیں یا عرشمان کی طرح چائنہ سے منگوائے ہیں اس نے بھی آنکھوں کے ساتھ ساتھ بال بھی چائنہ سے منگوائے ہیں۔سہان اس کے بالوں کو ہاتھ پکڑ کر دیکھ رہا تھا جو اوپر سے سیاہ اور نیچے سے سنہری تھے ۔لڑکی شرمندگی سے لال ٹماٹر ہو گئی ایک نظر غصے سے سہان کو دیکھا اور واپسی کا راستہ ناپا ۔
حد ہی ہو گئی ہے یار اب یہ بھی کوئی سوال پوچھنے والا تھا؟ ۔عرشمان کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا ۔اس کو لڑکیوں کی یہی بات سب سے بری لگتی تھی جو بلا وجہ اور بے تکے سوال لے کر ہر وقت اس کے سر پر سوار رہتی تھیں۔
سنو سنو سنو........ Aish squad کے پیارے پیارے باسیو سنو ۔..... کل سے عرشمان خان آفندی نے مکمل پردہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تالیاں تالیاں تالیاں۔سہان ہونٹوں کے گرد ہاتھوں کو گولائی میں رکھ کر اعلان کرنے لگا ۔عرشمان سمیت سب نے اچنبھے سے اسے دیکھا ۔
کیا بکواس کر رہا ہے؟ ۔عرشمان نے غصے سے اسے دیکھا ۔
تیری آنکھوں کی یہ نمکین مستیاں
آہ آہ آہ آہ
عرشمان نے روز روز کے پروپوزل سے تنگ آ کر ٹوپی والا برقعہ پہننے کا فیصلہ کیا ہے ۔سہان نے عرشمان سے تھوڑا دور ہوتے ہوئے کہا ۔مبادہ وہ حملہ ہی نا کر دے ۔
افففففف عرشمان تم کیسے لگو گے برقعہ پہنے ہوئے اور ہم تمہیں کیسے پہچانیں گے؟ ایک کام کرو ایک کوڈ رکھ لو تم وہ بولنا اور ہم تمہیں برقعے میں بھی پہچان لیں گے ۔حذیفہ نے پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ مشورہ بھی دیا۔جسے سن کر سب کے قہقہے بلند ہوئے ۔اور ساتھ ہی عرشمان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی ۔
کبھی تو سیریس ہو جایا کرو یار تم لوگ ۔عرشمان نے سر جھٹکتے ہوئے دونوں کو کہا ۔اور سب اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو کر اپنے آشیانوں کی جانب بڑھ گئے ۔
********************
سہان حذیفہ کو ڈراپ کر کے گھر پہنچا تو اس کی ماما اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔وہ ان کو لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کر بیگ کندھے پر لٹکائے ان کے ساتھ صوفے پر جا کر بیٹھ گیا ۔
اسلام و علیکم ماما ۔
وعلیکم اسلام آ گیا میرا بیٹا؟۔انہوں نے محبت سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا ۔
نہیں یہ آپکے بیٹے کا موکل بیٹھا ہے ۔سہان نے شرارت بھرے لہجے میں کہا ۔
سہان تم کبھی تو سیریس ہو جایا کرو ہر وقت یہی نان سیریس بیہیویر رہتا ہے تمہارا ۔انہوں نے خفگی سے اسے دیکھا ۔
اور میری عمر کے لڑکوں نے پورا گھر سنبھالا ہوتا ہے، جھاڑو، پوچھا، برتن دھونا، کپڑے، دھونا، روٹیاں بنانا سب کچھ آتا ہے انہیں ایک میں ہی نکما ہوں ہیں نا ماما چلیں ماریں مجھے میں ہوں ہی اتنا پیارا، اتنا خوبصورت اسی قابل ہوں کہ مجھے اس جرم پر مار ہی کھاتے رہنا چاہیے ۔سہان نے کمال اداکاری کرتے ہوئے بات گھمائی ۔
تم کبھی باز نہیں آ سکتے ۔اب کی بار انہوں نے مسکرا کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔وہ ہی تو تھا ان کے گھر کی رونق ۔ان کی زندگی کی رونق ۔
یونہی مسکراتے رہو ہمیشہ ۔انہوں نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
زندگی مسکرانے کے لیے ہے جو ہر وقت روتے رہتے ہیں وہ زندگی کو ضائع کر دیتے ہیں ۔اس نے مسکراتے ہوئے اپنی ماں کو دیکھتے کہا جو اس کی بات سے سو فیصد متفق تھیں۔
تم نے عزم کو میرا پیغام دے دیا تھا؟۔انہوں نے یاد آنے پر پوچھا۔
کونسا پیغام؟ ۔وہ چونک گیا تھا ۔
میں نے صبح تمہیں کہا تھا کہ اس سے کہنا رات کا کھانا وہ ہمارے ساتھ کھائے ۔ان کے ماتھے پر بل پڑے ۔
اوہ وہ تو بلکل میرے ذہن سے نکل گیا..... ویسے بھی ماما اس نے کون سا ایک ہی دن میں ہمارے گھر کا کھانا کھا کر موٹی ہو جانا ہے ۔وہ لاپرواہی سے کہتا اٹھ گیا۔
سہان ابھی اس کو کال کرو اور اس سے کہو کہ رات کو کھانا ہمارے گھر کھائے اور تم اسے پک کرنے جاؤ گے ۔انہوں نے غصے سے حکم صادر کیا ۔
ماما مجھے سمجھ نہیں آتا آپ میری ماما ہیں یا عزم کی میں نہیں جا رہا اس کو پک کرنے اور آپ خود کال کر لیں۔وہ ہاتھ گھماتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔پیچھے سے ضوبیہ تاسف سے اسے دیکھتی رہیں ۔
پتا نہیں یہ لڑکا کیا چاہتا پہلے ضد کر کے عزم سے منگنی کروائی اور اب اسے کال کرنے کا روادار نہیں ناجانے کیا مسلہ ہے اس کے ساتھ ۔وہ سوچ میں پڑ گئی تھیں کہ کہیں انہوں نے عزم کے حق میں کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر دیا ۔
تمام سوچوں کو جھٹکتی وہ اپنی بہن غزالہ کا نمبر ملانے لگیں سہان سے تو انہیں کوئی امید تھی نہیں انہیں خود ہی عزم سے بات کرنی تھی ۔
***********************
جاری ہے!
قسط پڑھ کر اپنی رائے کا اظہ
**********
#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_5
#by_fariha_muzaffar
شام چھ بجے کے قریب سہان اپنے کمرے سے لش پش ہو کر نکلا تھا ۔ضوبیہ نے حیران نظروں سے اسے دیکھا ۔اندر ہی اندر وہ خوش بھی ہو گئی تھیں۔وہ کچن میں پانی پینے کی غرض سے گیا تھا ۔
عزم کو لینے جا رہے ہو؟ ۔انہوں نے ناجانے کیوں پوچھ لیا ۔
نہیں ماما میں عرش کے پاس جا رہا ہوں۔وہ سنجیدگی سے گویا ہوا ۔
کیوں سارا دن تو ساتھ ہوتے ہو تم لوگ پھر اب کیوں جا رہے ہو جبکہ گھر پر مہمان آنے والے ہیں۔ان کو اب سہان پر غصہ آنے لگا تھا ۔
ماما دیکھیں میرے موکل ناراض ہو جائیں گے اگر آپ اتنا غصہ کریں گی تو.... ویسے بھی آپ اتنی خوبصورت ہیں آپ پر غصہ بلکل نہیں جچتا ۔وہ اب کافی نارمل موڈ میں لگ رہا تھا سنجیدگی ایک سیکنڈ سے زیادہ اس کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتی تھی اس لیے فوراً رفو چکر ہو گئی۔
سہان بات کو مذاق میں مت اڑاؤ تم کیا چاہتے ہو آخر؟ ۔وہ اس کی باتوں سے بہلنے والی نہیں تھیں۔
فلحال تو میں جانا چاہتا ہوں بائے بائے۔وہ لاپرواہی سے کہہ کر باہر آ گیا ۔ضوبیہ صرف تاسف سے سر ہلا سکی تھیں۔
پورچ میں پہنچ کر اس نے گاڑی کی بجائے موٹر سائیکل باہر نکالی ۔آج لاہور کی سڑکوں پر موٹرسائیکل پر اڑنے کو دل چاہ رہا تھا ۔
وہ موٹرسائیکل کو کافی سپیڈ سے چلا کر عرشمان کے گھر تک پہنچا تھا ۔جہاں حذیفہ پہلے سے موجود تھا ۔
*********.
شیزل نہیں آیا؟ ۔سہان نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر پوچھا ۔
نہیں۔حذیفہ نے کندھے اچکائے ۔
یہ غدار کبھی نہیں سدھر سکتا ۔سہان نے تاسف سے سر ہلایا اور شیزل کا نمبر ملانے لگا جو حسبِ توقع ناٹ رسپانڈنگ تھا ۔
چلو تم لوگ تو چلو میرے ساتھ ۔سہان نے موبائل کو جیب میں ڈال کر دنوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
جانا کہاں ہے؟ ۔عرشمان نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا ۔
میرے ایک دوست کی شادی ہے وہاں جانا ہے۔سہان نے نظریں ادھر اُدھر گھماتے ہوئے کہا ۔
لیکن اس حالت میں ۔حذیفہ کچھ تذبذب کا شکار ہوا ۔
نہیں میرا بھائی تو لپ اسٹک اور لائنر وغیرہ لگا لے ۔سہان نے موقع دیکھ کر چوٹ کی ۔
تو نے نہیں لگایا تو میں لگا کر کیا کروں گا ۔حذیفہ کہہ کر پورچ کی طرف بڑھ گیا ۔سہان اور عرشمان بھی اس کے پیچھے ہو لیے ۔
کچھ دیر بعد وہ تینوں لاہور کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہوئے پائے جا رہے تھے ۔
کہاں رہتا ہے تیرا دوست؟ ۔حذیفہ نے موٹرسائیکل کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا گلا پھاڑتے ہوئے کہا ۔
بس پہنچنے والے ہیں ۔سہان نے بھی اسی انداز میں کہا ۔
پچھلے آدھے گھنٹے سے تو یہی کہہ کر ہمیں لاہور کی سڑکوں پر گھما رہا ہے کمینے کوئی شادی ہے بھئی یا نئیں؟ ۔عرشمان نے بھی اس کی ٹانگ کھینچی ۔
لو یہ دیکھو پہنچ گئے ۔شادی ہال کے پاس پہنچ کر اس نے موٹرسائیکل کو آہستہ کر لیا ۔
عرشمان اور حذیفہ نے سکھ کا سانس لیا ۔موٹرسائیکل پارکنگ میں روک کر تینوں نیچے اترے ۔سہان شرٹ وغیرہ ٹھیک کر کے تینوں ہال کے داخلی حصے کی طرف بڑھے ۔جہاں کافی گہما گہمی تھی ۔
لگتا ہے ابھی کھانا نہیں کھلا؟ ۔سہان نے اندر جھانکتے ہوئے کہا ۔جہاں سب لوگ اپنے اپنے ٹیبلز پر آرام سے بیٹھے تھے ۔
تو سچ سچ بتا تیرے دوست کی ہی شادی ہے نا؟ ۔عرشمان نے مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
تم لوگوں کو مجھ پر یقین نہیں ہے؟ ۔سہان برا منا گیا تھا ۔
لو بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے تم پر تو ہم مر کی بھی یقین نا کریں ۔حذیفہ مذاق اڑانے والے انداز میں بولا تو سہان نے زور دار مکا اس کے پیٹ میں مارا ۔اور ہال کے اندر داخل ہو گیا ۔ان دونوں نے بھی اس کی ترجمانی کی ۔
اسلام و علیکم انکل! ۔اندر داخل ہوتے ہی اس نے انٹرنس پر کھڑے درمیانی عمر کے آدمی کو مسکرا کر سلام کیا ۔
وعلیکم اسلام! کیسے ہو بیٹا؟ ۔انہوں نے بھی اجنبی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا ۔
بلکل ٹھیک انکل ۔دولہا کافی پیارا لگ رہا ہے۔اس نے سٹیج پر بیٹھے دلہے کو دیکھ کر تبصرہ کیا ۔
میں نے پہچانا نہیں آپکو بچے؟ ۔بلآخر انہوں نے دماغ میں آنے والے سوال کو پوچھ ہی لیا ۔
ہم..... ہم...... ہم دلہے کے دوست ہیں دیکھ لیں انکل آپ نے ہمیں پہچانا ہی نہیں۔سہان نے ذبردستی مسکراتے ہوئے کہا ۔عرشمان اور حذیفہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ان کا شک یقین میں بدل گیا تھا ۔
دراصل میں امریکہ سے آیا ہوں نا اس لیے آپ کو پہچان نہیں سکا ۔آپ لوگ بیٹھیں کھانا کھا کر جائیے گا ۔انہوں نے بھی مسکرا کر کہا ۔
اور یم کرنے کیا آئے ہیں یہاں؟ ۔سہان نے دل ہی دل میں کہا اور سائیڈ پر لگے ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا ۔
تو اپنے دوست کو نہیں ملے گا؟ ۔عرشمان نے اسے موبائل پر انگلیاں چلاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔
کون سا دوست؟ ۔سہان معصومیت سے آنکھیں جھپکتے ہوئے بولا۔
کوئی انتہائی بے غیرت قسم کا انسان ہے تو ۔حذیفہ نے اس کو گھورتے ہوئے کہا ۔
یار مجھے ایک بات تو بتاؤ کیا تم لوگ خوش نصیب نہیں ہو جو فری میں شادی اٹینڈ کر رہے ہو نا کوئی سلامی کا رولا نا ہی کپڑوں کا آرام سے کھانا کھاؤ اور چلتے بنو۔سہان ان دونوں کے قریب ہو کر سمجھانے والے انداز میں بولا ۔
بہت شکریہ ہمیں خوش نصیبوں کی لسٹ میں شامل کرنے کے لیے ۔عرشمان نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔
آؤ وہ دیکھو ڈھول والا ڈانس کریں ۔سہان نے اٹھتے ہوئے عرشمان کو اور حذیفہ کو بھی گھسیٹا۔
تو ہی بن بیگانی شادی میں عبداللّٰہ دیوانہ ۔عرشمان نے اس کا ہاتھ جھٹکا ۔
اوئے میرے باپ پر نہیں جانا اچھا ۔سہان نے اس کو گھورا ۔
تیری اور حذیفہ کی اردو کا تو واقعی اللّٰہ ہی حافظ ہے یہ اردو کا محاورہ ہے گدھے ۔عرشمان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی حذیفہ اور سہان بھنگڑے کی بھیڑ میں پہنچ کر بھرپور دھمال ڈال رہے تھے ۔عرشمان اپنی ہنسی کو دباتے ہوئے ان کو دیکھنے لگا ۔
سب لوگ رک کر ان دونوں کی دھمال کو دیکھ رہے تھے ۔اور وہ دونوں ہر چیز سے بیگانہ بس بھگڑے میں مگن تھے ۔عرشمان نے موقع دیکھ کر وہاں سے کھسک لینے میں ہی عافیت جانی ۔
وہ باہر کی جانب بڑھ ہی رہا تھا جب اس کی کسی سے زور دار ٹکر ہوئی ۔عرشمان کو تو کچھ نہیں ہوا البتہ وہ نازک وجود گرتے گرتے بچا اگر بروقت عرشمان اس کا ہاتھ نا تھام لیتا تو وہ اب تک زمین بوس ہو چکی ہوتی ۔
دیکھ کر نہیں چل سکتی آپ؟ ۔عرشمان نے اس کو سنبھلتا دیکھ کر غصے سے کہا ۔
وہ.... سوری مجھے پتا نہیں چلا ۔وہ لڑکی کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی ۔
اتنا لمبا انسان کھڑا ہے آپ کے سامنے اور آپ کو پتا نہیں چلا حیرت ہے ویسے کھمبے نظر آ جاتے ہیں آپکو یا وہ بھی اس طرح آپ کی ٹکروں کا شکار ہو جاتے ہیں؟ ۔عرشمان کا غصہ ابھی بھی جوں کا توں تھا ۔
وہ لڑکی ہونق بنی ٹکر ٹکر اسے دیکھ رہی تھی ۔
چھپ چھپ کے یہ ملاقاتیں کرتے رہے ہائے ہائے ہائے ۔حذیفہ نے گنگناتے ہوئے انٹری کی ۔عرشمان نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھا ۔عرشمان کا دھیان بٹتا دیکھ کر وہ لڑکی وہاں سے اڑن چھو ہو گئی ۔
سہان بھی پھولی ہوئی سانس کے ساتھ وہاں پہنچا ۔
ہائے یار مزہ آ گیا حذیفہ میں تو کہتا ہوں تو بھی شادی کرا لے بھنگڑا ڈالنے کے پیسے مجھے دے دینا ۔سہان لمبے لمبے سانس لیتا ہوا بولا ۔
مجھے چھوڑ تو عرش کو دیکھ میسنا ہمیں بھنگڑے پر لگا کر ہیر کے ساتھ رانجھا بنا پھر رہا تھا ۔ہاتھوں میں ہاتھ لیے کھڑے تھے دونوں ۔حذیفہ نے بڑھا چڑھا کر جو بات بتائی تو عرشمان کی آنکھیں کھلی کھلی کی رہ گئی ۔
نا کر یار عرش اور وہ بھی کسی لڑکی کے ساتھ مجھے تو لگتا ہے جب دنیا کی ساری لڑکیاں ختم ہو جائیں گی تو یہ کسی ڈھانچے کے ساتھ ڈیٹ پر جائے گا وہی ڈھانچے جو دکانوں والوں نے اپنی دکان کے آگے رکھے ہوتے ہیں ۔سہان نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔
بند کر دو تم دونوں اپنی بک بک وہ تو بس ٹکر ہو گئی تھی ۔عرشمان نے تنگ آتے ہوئے کہا ۔
اووووووووو.... ہووووووو.... ہوووووووووو ٹکر ۔حذیفہ اور سہان دونوں نے مل کر ہوٹنگ کی تو سب کی نظریں ایک بار پھر ان دونوں کی طرف اٹھیں۔
تم لوگ بچ کر کیسے آ گئے؟ ۔عرشمان نے دونوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
لو ہم نے فری میں بھنگڑا ڈال دیا اس لیے انہوں نے ہم سے کہا ہے کہ اب تو ہم کھانا ضرور کھا کر جائیں۔سہان نے فرضی کالر جھاڑے ۔
چلو چلو کھانا کھل گیا ہے اس سے پہلے کہ وہاں رش ہو جلدی جلدی کھا لیتے ہیں اور ہاں ساری چیزیں کھانا پھر نا کہنا کہ ہماری حسرت ہی رہ گئی شادی کا کھانا کھانے کی ۔سہان نے دونوں کی تنبیہہ کی ۔
اور چائے بھی یار شادیوں کی چائے بڑی مزے دار ہوتی ہے قسم سے میں تو بوتل بھر کر ساتھ بھی لے کر جاؤں گا چائے ۔حذیفہ نے للچاتے ہوئے کہا ۔
ندیدے چل اب چائے کے چکر میں کھانا بھی رہ جائے گا ۔عرشمان نے کہا تو تینوں کھانے کی جانب بڑھ گئےاور ایسے پیٹ بھر بھر کر کھایا کہ دیکھنے والا یہی سمجھتا کہ شاید وہ سالوں سے بھوکے تھے ۔
اور جب چائے کی باری آئی تو حذیفہ نے سچ میں بوتل بھر کر ساتھ باندھ لی ۔اس کھانے کے لیے وہ دونوں سہان کا جتنا شکر ادا کرتے کم تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ شکر ادا کرتا کون؟ ۔
**********
عزم اور اسکی فیملی سہان کے گھر پر موجود تھی اور سہان کا کوئی اتا پتہ ہی نہیں تھا ۔عزم کا موڈ کافی خراب ہو گیا تھا ۔
خالہ جانی سہان کہاں ہے۔عزم نے پورا گھر دیکھ لینے کے بعد بلآخر ضوبیہ سے پوچھ لیا ۔
بیٹا وہ عرشمان کے ہاں گیا ہے کہہ رہا تھا کوئی ضروری کام ہے ۔ضوبیہ نے اپنی خفت کو چھپاتے ہوئے کہا ۔
اچھا ۔عزم نے مایوسی سے سر ہلایا اور موبائل پر اسکا نمبر ڈائل کیا ۔دو تین بار ملانے پر بھی جب اس نے کال رسیو نہیں کی تو وہ خاصی اپ سیٹ ہو گئی تھی ۔
ضوبیہ اس کے چہرے پر پھیلی بے چینی کو بھانپ گئی تھیں اور اندر ہی اندر اس سے نادم بھی تھیں ۔سہان نے ان کو پریشان کر دیا تھا اس کا رویہ کیوں عزم کے ساتھ بدل گیا تھا؟ ۔یہ ایک سوالیہ نشان تھا جو ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا تھا ۔
*****. *******
جاری ہے
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top