چوتھی قسط
میرا سوچنا تیری ذات تک۔۔
میری گفتگو تیری بات تک۔۔
نہ تم ملو کبھی مجھے۔۔
میرا ڈھونڈھنا تجھے پار تک۔۔
کبھی فرصتیں ملیں تو آ۔۔
میری زندگی کے حصار تک۔۔
میں نے جانا کے میں کچھ بھی نہیں۔۔
تیرے پہلے سے تیرے بعد تک۔۔
"اب اور انتظار نہیں کل ھی میں گھر والوں کو بتا دوں گا میں پری سے محبت کرتا ہوں اور اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔۔لیکن کیا یہ کرنا اتنا آسان ہوگا ۔کیا میں سب کو بتا پاؤں گا میں کسی سے محبت کرتا ہوں۔ کیسے؟ کیسے کروں گھر یہ بات ۔ لیکن اگر میں یہ گھر والوں کو نہ بتا پایا تو پری کو کیسے بتاؤں گا ۔کیا میں کبھی پری سے اظہار کر پاؤں گا ۔کیا یہ آسان ہوگا ۔نہیں میں اسے اپنی زندگی میں اسکی رضامندی سے شامل کروں گا اور شادی سے پہلے اسے کچھ بھی نہیں بتاؤں گا ۔ " وہ گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔ عجیب سی کشمکش تھی نہ جانے کیسے اب وہ اس چیز کا اقرار کرے گا کے ہاں اسے بھی محبت ہو سکتی ہے ۔پری اسکے دل میں اتر چکی ہے ۔
********************
"پریشے یار جلدی کرو شاپنگ کے لئے جانا ہے ۔ ابا جان کو بھی نہ جانے کیا جلدی ہے ایک تو ارسلان سے پوچھے بغیر رشتہ کر دیا اور اب کل ارمان کی مہندی ہے اور آج تم لوگوں کی منگنی " سائرہ ہینڈ بیگ کی زیپ بند کرتے ھوۓ بول رہی تھی پریشے جو روم سے نکل کر نیچے آ رہی تھی یک دم چونکی
"بھابی کیا مطلب ارسلان کو اس رشتے کے بارے میں علم نہیں ہے " عجیب سا خوف یک دم اسکے اندر جاگا تھا ۔ وہ زبردستی ارسلان پر مسلط کی جا رہی تھی
"ارے نہیں امی نے اس سے پوچھا تھا کے کوئی پسند ہے تو بتا دو مگر اس نے کہا کے وہ کسی کو پسند نہیں کرتا بس تو پھر کیا مسلہ ہے اور تم میں کیا برائی ہے وہ تو شکر کرے گا اسے تم مل جاؤ گی "سائرہ نے مسکرا کر کہا پری نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ٹیبل سے گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور سائرہ کے ساتھ باہر نکل گئی ۔تسلی اسے اب بھی نہیں ہوئی تھی لیکن وہ فل حال خاموش تھی ۔اور اس خاموشی کی وجہ اسکا بھائی تھا جس سے وہ بیحد محبت کرتی تھی اور اس کی پسند پے اسے اعتبار تھا ۔ یاں وہ بھی ارسلان کے لئے کچھ محسوس کرتی تھی اور خود ھی اس سے انجان تھی ۔۔ لیکن نہیں وہ اس وقت اتنا جانتی تھی کے ارسلان اسکے بھائی کی پسند تھا اور اسے اپنے فیصلے خود نہیں کرنے تھے وہ خود کو ابھی اس قابل نہیں سمجھتی تھی کے اپنے فیصلے خود کر سکے ۔ ارسلان کو اس نے معاف تو کر ھی دیا تھا اب وہ اس سے کسی طرح کی بھی ببد گمان نہیں تھی ۔
*********************
"ارسلان بھائی۔۔"ایمن کمرے میں داخل ہوئی
ارسلان جو ڈریسنگ کے آگے بال بنا رہا تھا بغیر منہ موڑے اس نے شیشے سے ھی اپنے پیچھے کھڑی ایمن کو دیکھا
"ہاں بولو "
"نیچے نور الہادی آئے ہیں آپ کے دوست " ایمن کی بات پر اب اسنے مڑ کر ایمن کو دیکھا
"اوہ شکر ہے ہادی آ گیا میں اسکی طرف ھی جانے والا تھا "ارسلان نے برش ڈریسنگ پر رکھا اور بھاگتا ہوا ہال میں گیا ۔ کمرے سے نکلتے ھی وہ ہال میں داخل ہوا ۔ہادی اسے دیکھ کر کھڑا ہوا
"یار سچ میں آج تو ماننا پڑے گا دل کو دل سے راہ ہوتی ہے "ارسلان اور ہادی ایک دوسرے کے گلے لگے۔ ارسلان نے اسے گلے لگاتے ھوۓ کہا
"ہاں تم سے ایک مشورہ کرنا تھا سوچا تم تو بزی ہو گے کیوں کے کل تمہارے بھائی کی شادی ہے تو آج میں ھی آ جاتا ہوں " ہادی بیٹھتے ھوۓ بولا
"بزی کل نہیں آج زیادہ ہوں ۔تمھیں ایک گڈ نیوز سنانی تھی سوچا مل کر سنا بھی لوں گا اور انوائٹ بھی کر لوں گا " ارسلان خوش تھا اور خوشی اسکے لہجے سے نظر آ رہی تھی
" اچھا پر مجھے تم سے مشورہ کرنا تھا میں تمہارے خود ملنے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا " ہادی نے کہا اور ارسلان نے اسکی ہنسی کے پیچھے چھپی خوشی کو بھی بھی محسوس کر لیا تھا
"ارے کیا بات ہے منگنی میری ہو رہی ہے اور خوش تم ہو " ارسلان نے مسکرا کر کہا
"کیا منگنی تمہاری ؟ کس سے ؟ کب ؟ تم نے بتایا نہیں " ہادی اس کی بات پے چونکا اس نے بہت سارے سوال اکٹھے پوچھے
"یار اسی لئے تو ملنے جا رہا تھا تم سے اور کیسے بتاتا بات کنفرم کر کے مجھے بھی رات کو ھی پتا چلا ۔گھر والوں کی مرضی ہے اور پتا نہیں گھر والے دل کی بات کو کیسے جان گئے " ارسلان نے ہادی کو بتایا
"اچھا تو کون ہیں پھر وہ خوش قسمت " ہادی اکسائٹیڈ ہو کر بولا ۔۔ فل ہال وہ ارسلان کی سننا چاہ رہا تھا
"پریشے " ارسلان نے مسکرا کر کہا اور ہادی کو لگا کسی نے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین چین لی ہے
"کون۔۔" اس نے بے یقینی سے کہا
"یار مس پٹر پٹر " ارسلان نے مسکرا کر کہا ۔۔ ہادی یک دم کھڑا ہوا ارسلان نے نوٹس نہیں کیا تھا کیوں کے وہ نیچے نظریں کیے بول رہا تھا
" پتا نہیں مجھے بھی وہ کب کیسے پسند آ گئی رات کو جب امی نے میرے لئے اسکو پسند کیا ہے یہ بات مجھے پتا چلی تو عجیب سی خوشی ہوئی جیسے بن مانگے سب مل گیا ہو " ارسلان بول رہا تھا مگر ہادی اب بھی بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا ارسلان نے اوپر دیکھا اور ہادی کو کھڑا پا کر خود بھی کھڑا ہو گیا ۔
"کیا ہوا یار کچھ تو بولو ۔۔" ارسلان اس وقت خوش تھا ورنہ وہ ہادی کا چہرہ با آسانی پڑھ لیتا
"کک کچھ نہیں مجھے کام یاد آ گیا " ہادی مشکل سے بولا
"اچھا آج میری اور پریشے کی منگنی ہے رات کو تم ضرور آنا۔۔۔"ارسلان پھر اسکےگلے لگا ۔۔ہادی کے لئے وہاں رکنا بہت مشکل تھا وہ بغیر کچھ بولے جانے کے لئے مڑا
"ہادی تمھیں کیا بتاناتھا وہ تو بتاؤ ۔۔یار سنو تو ۔۔ہادی ہادی ۔۔۔۔"ارسلان اسے پکارتا رہا مگر وہ نکل چکا تھا
*****************************
”پریشے کہنے کو تم میری بیسٹ فرینڈ ہو مگر مجھے پتا بھی نہیں چلنے دیا اور رشتہ بھی طے ہو گیا ۔چلو وہ تو ہضم ہو گیا مجھے پھر جناب نے میری مہندی سے ایک دن پہلے ھی منگنی رکھ لی۔ تا کے تمہاری واحد بیسٹ فرینڈ آ ھی نہ پائے ۔ جب میں کہتی تھی کوئ پسند ہے تو بتاؤ تب تو بڑا کہتی تھی جیسی میری پسند ہے ویسا لڑکا ملنا مشکل ہے اب بتاؤ“عنایہ اسکی منگنی کی رسم کے لیے نہیں آ سکتی تھی کیونکہ کل رات کو اسکی بھی مہندی تھی مگر اسنے کال کر کے پریشے کی کلاس لینا شروع کر دی تھی۔
”کول ڈاؤن آنی مجھے صفائ پیش کرنے کا موقع تو دو“پریشے بہت پیار سےبولی
”لو یہ ٗیہ جو تم اتنا میٹھا بولتی ہو نا مجھے پتا ہے اسی سے وہ ارسلان جی امپریس ہوۓ ہیں“عنایہ بھی آج اسکی کہا سننے والی تھی
”اچھا ہاں جیسے اس کے ساتھ میں نے بڑی خوشگوار باتیں کی ہیں ناں“اب کی بار پریشے
کو غصہ آرہا تھا۔ ”میم آپ پہلے بات کر لیں پھر میں میک اپ کرتی ہوں“
بیوٹیشن تنگ آ کر بولی۔کیونکہ اس نے جب سے میک اپ سٹارٹ کیا تھا
تب سے عنایہ کی کال آئ تھی”یار رک جاؤ ایک تو یہ میک اپ بھی عذاب ہے“پریشے کی عادت تھی غصہ کسی پر ہو نکالنا کسی اور پہ ہے
”ویسے بہت ہی بے شرم دلہن ہو تم۔ کل مہندی ہے تمہاری ۔ تھوڑی شرمیلی بنو یار تھوڑا روپ آۓ تم پہ بھی۔“پریشے اسے چھیڑتے ہوۓ بولی
”تم سے جتنا پوچھا ہے اتنا بتاؤ۔“عنایہ بولی
”فسٹ آف آل مائ ڈیر فرینڈ ارسل میری پسند نہیں ہے اسے ولید بھائ نے میرے لیے چوز کیا ہے۔ سیکنڈ میں نہ نہیں کر سکتی تھی بیکاز بھائ نے دوسرا آپشن نہیں چھوڑا تھا اینڈ تھرڈ اینڈ لاسٹ وہ اچھا انسان ہے اور شادی کے بعد پیار بھی ہو ہی جاۓ
گا“پریشے ٹھہر ٹھہر کر بولی۔
”واٹ یو مین ہو ہی جاۓ گا پریشے...“ عنایہ
بات کر رہی تھی کے پریشے نے کال آف کر دی
۔ ”یو پلیز کیری اون“
پریشے بیوٹیشن سے محاطب ہو کر آرام سے بیٹھ گئ
*****************************
جادوِعشق تھا کوئ اسکے ساتھ ہونے تک
وہ بچھڑ گیا آخر مجھ سے رات ہونے تک
کچھ اس کمال سے کھیلی اس نے عشق کی بازی
میں جیت سمجھتا رہا خود کی مات ہونے تک
اسنے داخل ہوتے ہی اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور کاؤچ پر بیٹھا
اسنے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں اپنی تھوڑی کے نیچے رکھ اور ہاتھوں کو آپس میں جوڑا۔ اسکی آنکھیں ضبط سے لال
ہو گیئں تھیں۔ ارسلان کی آواز اب تک اسکے کانوں میں گونج رہی تھی۔
”نو ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے محبت کی تھی اس سے وہ اتنی آسانی سے کسی اور کی کیسے ہو سکتی ہے“اسنے غصے سے اپنے پاس پڑا پانی کا جگ پھینکا۔وہ غصے میں تھا مگر اسکی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک رہے تھے
”کیوں پریشے ٬ کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا“وہ اب اٹھ کر اپنے رائٹنگ ٹیبل کے پاس آیا اور پریشے کی پینٹنگ جو اس نے بنائ تھی اسے اٹھا کر بولا
”پلیز کم بیک پریشے ۔ بھلے آج تک تم نے مجھ سے بات تک
نہیں کی مگر میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں۔تمہیں کسی اور
کے ساتھ دیکھنا میرے لیے ناممکن ہے میں آخر تک سوچتا رہا کہ میری محبت مجھے آسانی سے مل جاۓ گی مگر ایسا نہیں ہوتا ۔محبت کبھی آسانی سے نہیں ملتی ۔ محبت امتحان مانگتی ہے مگر میری محبت نے مجھ سے تو امتحان بھی نہیں مانگا ۔ تم نے میری محبت کو اپناۓ بنا ہی ٹھکرا دیا۔“
ہاتھ میں پکڑی پینٹنگ پر اسکے آنسو گر کر ضبط ہو رہے تھے ۔ وہ پینٹنگ اس کے سارے آنسو پی رہی تھی۔ اپنے اندر ضبط کر رہی تھی۔ بے
احتیار اسکی نظرسامنے ڈریسنگ کے شیشے پہ پڑی وہ خود کو شیشے میں غورسے دیکھ رہا تھا شائید اپنے اندر خامی تلاش کر رہا ہو
”آئ ہیٹ یو آئ ہیٹ یو نورالہادی ۔ تم ہار گیے اپنے ہی دوست سے۔ سب کچھ کھو دیاتم نے۔ تم نے پریشے کو نہیں اسکے ساتھ خود کو بھی کھو دیا ہے“وہ اپنےساتھ ہی چلا رہا تھا اچانک اسنے اپنی پرفیوم اٹھا کر دیوار پہ دے ماری اور
وہیں ڈریسنگ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔
*****************************
"ارسلان بھائی کیا ہو گیا ہے اتنے بے چین کیوں لگ رہے ہیں "ایمن ارسلان کے پاس اسٹیج پر آ کر بیٹھ گئی
"یار ہادی کو کال کر رہا ہوں آیا نہیں ابھی تک ۔پھر رسم شرو ع ہو جائے گی کاشف پاکستان سے باہر گیا ہے اور یہ جناب بھی نہیں آ رہے
"لیں مجھے لگا پری کے انتظار میں بے چین ہو رہے ہیں ۔ "ایمن نے منہ بنایا
"اب پری کا انتظار کیوں کروں میڈم زندگی میں آ تو چکی ہیں " ارسلان نے ہنسی کنٹرول کی
"اوہ ہیلو بھائی جان میری پری کی بے قدری نہ کریں ۔ بیسٹ فرینڈ ہے وہ میری اچھا نہ ۔" ایمن نے انگلی اٹھا کر ارسلان کو کہا
"ارے اس کی وجہ سے بھائی سے لڑائی کر رہی ہو ۔۔یاد رہے گا مجھے بہنا " ارسلان نے روندو منہ بنا کر ایمن کو دیکھا
"ہاہاہاہا بھائی آپ تو جان ہیں نہ میری "ایمن کھل کے مسکرائی
"ارے آ گئی پری " ایمن نے اینٹرانس کی طرف دیکھ کر کہا
پیچ فروک کے اوپر ایک سائیڈ پے دائیں طرف بال چٹیا بنا کر آدھے کرل کیے گئے تھے ۔۔ دوپٹہ ایک سائیڈ سے آگے کیا گیا تھا اور جس طرف سے بال آگے تھے اس طرف سے دوپٹہ پیچھے کیا گیا تھا ۔۔ میک اپ لائٹ سا تھا ۔ پری سائرہ کے ساتھ چلتی ہوئی اسٹیج تک آئ جہاں ارسلان پری کو دیکھتے ھی کھڑا ہو گیا پری سائرہ کے ساتھ اسٹیج پر چڑی ۔۔ ارسلان نے وائٹ شلوار کمیز پر پیچ ویسٹ کورٹ پہن رکھا تھا
سب کک نظریں ان دونوں پر مرکوز تھیں دونوں ساتھ اچھے لگ رہے تھے ۔۔
سائرہ نے پری کو اور مسز جہانزیب نے ارسلان کو انگوٹھی پکڑائی
اور ارسلان اور پری نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی ۔۔ اور سب نے زور دار تالیاں بجائیں ۔۔
********************
”ایمن جاؤ نا پریشے کو بلا کر لاؤ“سائرہ نے ایمن کو گھوری ڈال کر کہا جو ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رہی تھی۔”ایک تو پریشے کہیں بھی وقت پرنہیں پہنچتی “ایمن چڑ کر بولی
”اچھا زیادہ باتیں مت بناؤ اب جاؤ“ اب کی بار وہ غصے سے بولی تو ایمن منہ بنا کر باہر نکل گئ وہ چوڑیاں پہنتی ہوئ اپنے آپ میں مگن نکل رہی تھی اور سامنے سے ہادیاپنی سوچوں میں گم آ رہا تھا ان دونوں کی ٹکر ہوتے ہوتے بچی تھی
”اووو ایم ایم سوری“ہادی نے بوکھلا کر کہا
”اٹس اوکے میری غلطی ہے“ایمن منہ بنا کر بولی
”آپ کو پتہ ہے ارسلان کہاں ہے؟“ہادی بات ایمن سے کر رہا تھا مگر اس نے اپنی نظریں جھکائ ہوئ تھیں۔
”فکر مت کریں گھاس میں نہیں ملنے والے آپکو ہاہا اندر ہیں“ایمن نے اسکا مذاق بنایا
"تم ادھر کیسے ہاں تم تو مجھ سے بات ھی مت کرو "ارسلان بولتا ہوا اسکے پاس آیا
"یار ارسلان مجھے ضروری کام سے جانا پڑھ گیا تھا تمھیں بتا بھی نہیں پایا بہت معذرت " وہ دونوں آپس میں پگل گیر ھوۓ
"ارسلان بھائی میں پری کو بلا لاؤں "ایمن سائیڈ سے ہو کر جانے لگی
"نہیں روکو تم نہ جاؤ میں جاتا ہوں " ارسلان نے اسے روکا
"کیوں " وہ حیران ہوئی
"یار تم جا کر تیار ہو مہندی سٹارٹ ہونے والی ہے "ارسلان کی بات پے وہ سر جھٹک کر چلی گئی
"ہادی تم بیٹھو میں ابھی آیا "ہادی اسے جاتا دیکھتا رہا
مزاق بنایا۔
”پریشے ڈریسنگ کے آگے کھڑی دوپٹا سیٹ کر رہی تھی جب کسی کے ایک دم سے کمرے میں داخل ہونے پہ چونک کر ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئ دروازے کی طرف دیکھا تو ارسلان کو دروازے
کے پاس کھڑا ہوا پایا
”آ..آپ “پریشے کسی کے آنے پہ چونکی تھی مگر جب اس
نے ارسلان کو دیکھا وہ تھوڑی نارمل ہوئ مگر اب بھی اس کے اندر ایک عجیب سا خوف تھا۔
”دروازہ ناک کر کے آنا چاہیے تھا“پریشے ابھی تک ویسے ہی کھڑی تھی
”تم جب پہلی بار میرے کمرے میں داخل ہوئ
تب تم بھی بنا نوک کے ہی آئ تھی“ارسلان مسکراہٹ دبا کر بولا
”اور آئ تھنک اب میں بنا نوک کے بھی آ سکتا ہوں آفٹر آل ایم یورفیوچر ہزبینڈ“ارسلان اب اندھر داخل ہو کر کاؤچ پر بیٹھا۔
”اچھا ہوا جوآپ نے فیوچر کہہ دیا کیونکہ یہ فیوچر لفظ ہمارے اندر ایک دیوار پیدا کرتا ہے۔ ہمارے اندر ایک دیوار ہے جب آپ فیوچر ہزبینڈ سے ہزبینڈ بن جائیں گے تب ہی یہ دیوار آپ عبور کر سکتے ہیں۔یہ جو آجکل کے لڑکے منگنی کے بعد اپنا حق جتاتے ہیں نا آئ تھنک انہیں یاد رکھنا چاہیے منگنی کر کے بھی وہ نا محرم ہی رہتے ہیں ۔ محرم بننے کے لیے نکاح کرنا پڑتا ہے منگنی کے بعد اپناخق جتانا سراسر غلط ہے“وہ سنجیدگی سے کہہ کر مڑی اور ڈریسنگ
پر سے اپنا موبائل اٹھا کر باہر نکلنے لگی کے اچانک کسی نے اسکا بازو بہت زور سے پکڑا وہ مڑی
”لیو مائ آرم (میرا بازو چھوڑو).“وہ غصے سےبولی۔
”آئ ایم سوری میں نے تم سے کچھ غلط نہیں کہا تمہارا نظریہ الگ ہے بس“ارسلان نے اسکا بازو چھوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے بچوں کی طرح اپنے کان پکڑے
”اووو نو پلیز اٹس اوکے“وہ جھجک کر بولی
”اور میرا نظریہ نہیں ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ نامحرم جب تک ہمارے نکاح میں نہیں آتا وہ ہمارے لیے نا محرم ہی رہتا ہے۔ میں بھلے کوئ بہت دین دار لڑکی نہیں ہوں مگر ہر لڑکی کی طرح میں بھی نہیں چاہتی مجھے کوئ نامحرم ہاتھ بھی لگاۓ سو پلیز اگلی بار میرا ہاتھ یا بازو پکڑنے کی غلطی مت کیجیے گا ورنہ ردِعمل کی ذمہ دار میں نہیں ہوں گی“وہ کہہ کر رکی نہیں اور کمرے سے باہر نکل گئ۔ارسلان سر جھٹک کر رہ گیا ۔۔
ارسلان نے نورالہادی کو سپیشل انوئٹ کیا تھا کیونکہ وہ ارسلان کا بیسٹ فرینڈ تھا اور شادی ارسلان کے بھائ کی تھی۔ جب سے ارسلان پریشے کو لینےگیا تھا نورالہادی الجھا الجھا سا بیٹھا تھا۔ اسکے نگاہیں بھٹک بھٹک کر مین گیٹ کی طرف جاتی تھیں۔سائرہ٬ولید٬اسامہ٬جہانگیر صاحب سب ادھر تھےاورحسن تو دو دن سے آؤٹ آف کنٹری گیا تھاامپورٹنٹ کام سے گیا تھا جس کی
وجہ سے اسے شادی چھوڑ کر جانا پڑا۔ ہادی جان گیا تھا وہ گھر میں اکیلی ہے۔ایک عجیب سا خوف اسےبیٹھنے نہیں دے رہا تھا ۔جہانزیب صاحب کے گارڈن میں سے ایک دروازہ جہانگیر صاحب کے گھر نکلتا تھا۔ دونوں گھر ساتھ تھے جس کی وجہ سے دروازہ درمیان میں بھی لگایا گیا تھا۔ نورالہادی کی نظر اچانک سے
دروازے پر پڑی جہاں سے پری داخل ہو رہی تھی وہ ہاتھوں میں پھولوں کے گجروں کو ہاتھوں میں پہنے ھوۓ تھی ۔ گرین فروک پر بالوں کی چٹیا بنا کر سائیڈ سے آگے کو کی تھی ۔ میک اپ براۓ نام تھا ۔ مگر وہ اس میں بھی انتہا کی خوبصورت لگ رہی تھی۔ جس حساب سے وہ چلتی تھی اسکے نازک انداز سے وہ سچ میں پری لگتی تھی۔نورالہادی نے ایک دم سے نظریں نیچے جھکا لیں ۔ اب وہ ایمن کے پاس جا کر کھڑی کوئ بات کرنے لگی۔وہ نظریں جھکاۓ بیٹھا تھا کے اچانک کوئ اسکے پاس آ کر رکا
”ایم سوری یار تھوڑا لیٹ ہو گیا“ارسلان کرسی کھینچ کر بیٹھا
”ہاں میں بھی بس جانے ہی لگا ہوں“نورالہادی نے جواب دیا
”ہادی یار کیا ہوا ہے میں تمہارا رویہ نوٹ کر رہا ہوں کوئ پرابلم ہے“ارسلان نے اسکےہاتھ پر ہاتھ رکھا
”نہیں تو..“ اس سے پہلے ہادی مزید بہانہ بناتا ایمن انکے
پاس آ گئ اسکے ساتھ پریشے بھی تھی۔
”ارسلان آپکو سٹیج پر بلا رہے ہیں“
اسٹیج پر دلہے کے ساتھ مہندی کی رسم کی جا رہی تھی مہندی کیونکہ جوائنٹ نہیں تھی اس وجہ سے اسٹیج پر صرف ارمان۔تھا۔
“ارے بے شرم لڑکی ہونے والے ہزبینڈ کو نام سے نہیں بلاتے“ایمن نے اسے کہنی مار کر کہا
”ایکس کیوز می ۔ہونے والا بھول کر آپ کو ہزبینڈ ھی کیوں ہاد رہہ جاتا ہے۔ابھی ہماری منگنی ہوئ ہے محرم نہیں بن گیا وہ میرا“پریشے دبے دبے غصے میں بولی
”یہ میڈم تو مجھے لگتا ہے منگنی کے رشتے کو مانتی ہی نہیں“ارسلان کھڑے ہوتے ہوۓ بولاپریشے پیر پٹخ کر چلی گئ ارسلانبھی اس کے پیچھے اسٹیج کی طرف گیا ایمن کرسی کھینچ کر بیٹھ گئ
”آپ بورتو نہیں ہو رہے“کسی خیال کے تحت وہ ہادی سے محاطب ہوئ ایمن بھی بہت خوبصورتی سے تیار ہوئ تھی۔
”نو ناٹ ایٹ آل“اس نے مسکرا کر جواب دیا
”آپ پری کی باتوں کا مائنڈ مت کیجیے گا۔ اصل میں وہ ارسلان
بھائ کو ابھی ٹھیک سے جانتی نہیں وہ ولید بھائ سے بہت پیار کرتی ہے انکے کہنے پہ اس نے اس رشتے کے لیے ہاں کی ہے۔اب اسے بھائ ارسلان کو سمجھںنے میں وقت تو لگے گا نا اور ویسے بھی اسے نکاح سے پہلے منگیتر سے فرینک ہونا نہیں پسند ۔اب پتہ نہیں کیا بنے گا اس لڑکی کا“ایمن نے اسے ساری بات بتا دی ۔ہادی نے سر اٹھا کر اسٹیج پہ کھڑے ارسلان اور پریشے کو دیکھا
جو ارمان کے پیچھے کھڑے فوٹو بنوا رہے تھے ارمان آگے کرسی پر بیٹھا تھااس نے خود ہی ان دونوں کا میچ کیا ریڈ کرتے میں ملبوس ارسلان پری سےکسی طرح بھی میچ نہیں ہو رہا تھا۔ یہ صرف ہادی نہیں کوئ اور بھی دیکھتا تو یہ ہی کہتا۔ لیکن خوبصورت سے زیادی خوب سیرت ہونا ضروری ہے
ارسلان بھی خوبصورت تھا مگر پریشے اس سے کئ زیادہ خوبصورت تھی یہ اسکے کردار کی خوبصورتی تھی جو اس کو مزید خوبصورت بتا تی تھی۔
****************************
”لوگ دولہے کا ویٹ کر رہے ہیں اور دلہا صاحب کے نکھرے ہی ختم نہیں ہو رہے“ایمن چڑ کر بولی ۔وہ اور پریشے گھنٹے سے ارمان کو بلانے آئ تھیں مگر یہ جناب ابھی تک تیار نہیں ہوۓ تھے۔
”دیکھو ارمان جلدی کرو ورنہ یہ پہلی بارات ہو گی جس میں دلہا ہی شامل نہیں ہو گا “پریشے غصے سے بولی۔
”یار بس ہو گیا نا یہ شیروانی کے بٹن بند نہیں ہو رہے“ارمان کب سے بٹنزکے ساتھ الجھ رہا تھا۔
”تم ایسا کرو میرا لہنگا پہن لو ہاں“پریشے اسے تنگ کرنے
کے موڈ میں تھی
”ہہ فنی“ارمان نے منہ بنایا
”ویسے آپکے منگیتر بھی ابھی تک نہیں نکلے کمرے سے“ایمن اب پری سے محاطب تھی
”تو..“پریشے نے اسے آنکھیں نکالیں
”تو یہ کہ اسے بلاؤ“
”میں نہیں جا رہی“اسنے منہ بنایا
”پریشےمیں ولید بھائ سے کہہ دوں گی تم خوش نہیں ہو“ایمن نے اسے دھمکی دی
”تو بتا دو انھیں پتا ہے میں نے ہاں کی ہے مطلب میں راضی ہوں بس مجھ سے یہ چونچلے نہیں ہوتے“”اچھا میری جان سوسائٹی کے ساتھ موؤ کرناسیکھو“
ایمن نے اسکا کندھا تھپکا وہ چڑ کر باہر نکل گئ۔ارمان نے کمرے کے ساتھ ہی ارسلان کا کمرہ تھاپریشے نے دروازے کے پاس رک کر دروازہ ناک کیا
”آجاؤ“ارمان والٹ میں کچھ رکھ رہا تھا بنا دروازے کو دیکھ کر بولا
”کتنی دیر ہے آپکو“پریشے نے اندر داخل ہوتے ہوۓ کہا
”اوہو آج جناب آۓ ہیں گلی میں آج چاند نکلا“ارسلان نے ہنسی کنٹرول کر کے کہا
”چاند رات کو نکلتا ہے“وہ شرمندہ ہوئ تھی۔
”مگر میرا چاند تو ابھی نکل آیا ویسے شام تو ہونے ہی والی ہے“ارسلان ہار نہیں مانتا تھا
”میں نے پوچھا آپکو کتنی دیر ہے“
وہ اسی بات پر اٹکی تھی
”میں نے کل رات کو کچھ سوچا“
”ارسلان آپ مجھے نہیں بتائیں گے سب لیٹ ہو رہے ہیں ہوٹل پہنچنا ہے“پریشے اسے اگنور کر رہی تھی۔اتنی دیر میں کوئ ناک کر کے اندر داخل ہوا ارسلان کا رخ دروازےکی طرف تھا پریشے نے بھی منہ موڑ کر دیکھا اہمن اندر داخل ہوئ
”ایکسکیوز می٬ چلیں بھائ سب چلے گیے بس ہم تین رہہ گیے ہیں“ایمن جلدی میں تھی
”تم چلو ہم لوگ ابھی آ رہے ہیں “
”ہم لوگ کیا مطلب چلیں ابھی“پریشے نے ارسلان سے کہا
”ایمن سنا نہیں تم نے مجھے پری سے ضروری بات کرنی ہے تم جاؤ“ارسلان سنجیدگی سے بولا ۔ایمن پریشے پر ایک نظر ڈال کر باہر
نکل گئ کمرے کا دروازہ کھلا تھا پریشے بل کل دروازے کے پاس کھڑی تھی
”مجھے کل سے اس بات نے پریشان کر رکھا ہے پریشے کہ تم منگنی کے بعد سے مجھ سے اتنی کھچی کھچی کیوں ہو؟کیا تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو کیا تم کسی اورمیں انٹرسٹڈ ہو۔“ارسلان سنجیدگی سے بولا٬پریشے کا آگے ہی کھڑے کھڑے بی پی لو ہو رہا تھا وہ مزید گھبرا گئ
”ایسی کوئ بات نہیں ہے“اس نے ارسلان سے کہا اورسچ میں ایسی کوئ بات تھی بھی نہیں۔وہ ارسلان کے ساتھ خود کو ان سکیور فیل کرتی تھی
”میں کیسے مان لوں“
”آپکو ماننا پڑے گا“پریشے نے اسے دیکھا
”اوکے ایک شرط پہ“پریشے نے خیرانگی سے اسے دیکھا وہ نہیں جانتی تھی کیاشرط ہو گی پل میں اسکے اندر نا جانے کتنی غلط فہمیاں پیدا ہوئ تھیں وہ لڑ کھڑاتی آواز میں بولی
”کک کیا.“
”تم مجھ سے ڈر رہی ہو؟“ ارسلان نے اسے خیرانگی
سے دیکھا اسکے پسینے چھوٹ رہے تھے
”پریشے میں انسان ہوں یار کیا ہو گیا ہے تمہیں۔اوکے مت کرو مجھ سے بات تم میری فیونسی ہو تو میں تم سے فریلی
بات کرتا ہوں مگر تم“وہ پلٹا اب پریشے کی طرف اسکی پشت تھی وہ اس سے کافی فاصلے پر کھڑا تھا
”آپ نے شرط نہیں بتائ“پریشے آرام سے بولی
”بھاڑ میں گئ شرط ۔ یو آر ڈس گس ٹنگ “وہ غصے سے اس کے پاس سے نکل گیا
”چیپ گرل“کمرے سے باہر جاتے وقت ارسلان کے یہ الفاظ اسکے کانوں میں گونجے۔کتنا عجیب شحص ہے۔ پل پل روپ بدلتا ہے۔ کبھی لڑتا ہے کبھی بات کرنے کو ترستا ہے کیسے سمجھوں گی میں اسکو۔ اپنی سوچوں میں گم کھڑی رہی۔
*****************************
ایمن اور پریشے ایک سائیڈ ٹیبل پہ بیٹھی تھیں۔پریشے کا موڈ حاصاآف تھا ۔وہ ،ارسلان اور ایمن اکھٹے گاڑی میں آۓ مگر اس نے ارسلان سے گفتگو نہیں کی اور وہ بھی خاموش رہا۔اب بھی وہ جب سے ہوٹل پہنچا تھا نظر نہیں آیا تھا پریشے اپنی ہی سوچوں میں گم تھی ایمن اس کے پاس کھڑے گھنٹے سے کیا کیا کہہ رہی تھی وہ بےخبر تھی۔ حال میں تو وہ تب لوٹی جب ارسلان اور ہادی انکے پاس آکر رکے
”اسلام و علیکم “ہادی نے سلام کہا پریشے نے عادتاًمسکرا کے جواب دیا جبکہ ایمن نے خاصے خوشگوار لہجے میں اسے بیٹھنے کی دعوت دی
”میڈم کا موڈ ٹھیک نہیں ہوا کیا“ارسلان پریشے کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گیا۔پریشے نے اسے خیرت سے دیکھا
”کس کا ؟ یہ ٬یہ میڈم تو منہ پھولا کر بیٹھی ہیں آپ نے کیا کہا
ہے بتاؤ“ایمن ارسلان سے محاطب ہوئ
”پریشے میری طرف دیکھو بھائ نے کیاکہا“
ایمن نے پریشے کا ہاتھ پکڑا وہ جو ضبط کیے بیٹھی تھی سب کا لحاظ کیے بغیر رونے لگی اسکی حرکت اتنی غیر متوقع تھی کے ایمن ٬ارسلان٬ہادی تینوں خیرانگی سےاسے دیکھ رہے تھے
”پریشے کیا ہوا ۔ کسی نے کچھ کہا؟“ایمن اٹھ گئ اور پریشے
کے ہاتھ اسکی آنکھوں سے ہٹاۓ وہ جو روتے وقت اسنے آنکھوں کے آگے کرلیے تھے اور اسکے آنسو صاف کیے
”مجھے بتاؤ کیا ہوا ہےکسی نے کچھ کہا“ایمن
پھر سے پوچھنے لگی مگر وہ چپ تھی آنسو اب بھی اسکی آنکھوں سے ٹپک رہےتھے۔
”میری وجہ سے رو رہی ہو نہ پریشے ایم سوری میں نے تم پہ غصہ کیا۔ مجھے غصے میں کچھ بھی سمجھ نہیں آتا مجھے معاف نہیں کرو گی؟“ارسلان نےاپنے ہاتھ کانوں کو لگاۓ ۔ وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی ارسلان کرسی سے اٹھ گیا تو پریشے نے اسے
دیکھا ”میں یہاں کان پکڑ کر سِٹ سٹینڈ کروں گا۔پھر ہال میں بیٹھے لوگ مجھے جو مرضی کہیں جب تک معاف نہیں کرو گی بس نہیں کروں گا“ارسلان کہہ کر نیچے بیٹھنے
لگا کے پریشے جھٹ سے بولی
”نو نو پلیز میں نے معاف کر دیا“”ہاہہ تھینک یو پریشے “ارسلان خوشی سے اچھلا وہ نہیں جانتی تھی ارسلان کیسا شخص تھا مگر اسے سمجھنا
مشکل ہو گیا تھا ۔ پریشے کو اسکے ساتھ زندگی گزارنی تھی۔ کوئ بھی نہیں ۔۔انکی فیملی میں کوئ بھی ابھی تک ارسلان کو اچھے سے نہیں جان پایا تھا ۔ اور جوجانتا تھا نورالہادی وہ سب جان کر بھی خاموش تھا ۔ جانے کیوں سب جان کر بھی وہ کیوں کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا تھا۔ جانے کیوں....
*****************************
"پریشے کاش میں تمھیں یہ ڈائری پڑھا سکتا اور تمہیں بتاتا کب کب میں نے تمہیں اپنی زندگی میں لانے کا سوچا ہے ۔۔میں پوری رات اس وجہ سے نہیں سو پایا کے تم ارسلان کی وجہ سے روئی ہو۔ وہ بھی اس کے سامنے ۔ ارسلان کا تو میں نہیں جانتا مگر میں اس چیز کو برداشت نہیں کر پایا ۔۔ میں نہیں جانتا وہ تمہارے لئے غلط ہے یاں سہی میں بس اتنا جانتا ہوں تم کل اسکی وجہ سے روئی ہو اور میں تمھیں چپ بھی نہیں کروا پایا ۔۔کاش اس وقت مجھے یہ حق ہوتا تو میں تمہاری آنکھوں سے آنسو پونچھتا اور کوشش کرتا کے کبھی بھی تمہاری آنکھوں میں آنسو ہرگز نہ آئیں " وہ جب بھی پریشان ہوتا تھا تو ڈائری سے باتیں کرتا تھا یعنی ڈائری لکھتا تھا ۔۔ ڈائری پے لکھی الفاظ نور الہادی کے احساس تھے ۔۔ پوری رات وہ سو نہیں پایا تھا کیوں کے اسے پری کا روتا ہوا چہرہ نہیں بھول رہا تھا ۔۔ فجر پڑھ کر وہ جوگنگ کے لئے نکل گیا ۔۔ اور تقریبًا ایک گھنٹے بعد واپس لوٹا ہادی کمرے میں داخل ہوا ۔ مسز تیمور غصے سے کھڑی اسے دیکھ رہی تھیں۔
”کہاں گیے تھے؟“ماں کی روعب دار آواز پے وہ خیران ہوا۔
”کیا ہوا امّی آف کورس صبح صبح جاگنگ پہ گیا تھا۔“
”اچھا اور یہ میڈم کون ہیں۔آپکے پیچھے سےفون آ رہا تھا جناب“انھوں نے اسکا موبائل آگے بڑھایا۔نمبر دیکھ کر اسکا رنگ اڑگیا
”وہ۔۔وہ“اس سے بہانہ نہیں بن پا رہا تھا
۔”نورالہادی یہ لڑکی میرے گھر ہر گز نہیں آۓ گی۔یہ انتہائی بد تمیز اور بد سلیقہ لڑکی ہے“
”امّی کول ڈاؤن آپ ابھی بات نہیں جانتیں۔“اس نے انکے کندھوں پہ ہاتھ رکھا۔
”جو بھی ہو مجھے اب جاننا بھی نہیں ہے“
وہ کمرے سے باہر چلی گئیں انکا غصہ ایسے ہی ہوتا تھا ۔ غصہ کسی دو سرے پہ نہ نکلے وہ اپنے کمرے میں چلی جاتی تھیں۔
*****************************
”گڈ مارننگ“عنایہ نے چاۓ کا کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوۓ کہا
”یو ٹو“ارمان ٹاول سےبال صاف کرتا ہوا صوفے پہ بیٹھا۔
”شوگر۔۔۔ امم۔ ہاں ٹو سپون“عنایہ اسکے ساتھ آ کےبیٹھ گئ اور چاۓ مکس کرنے لگی
”تمہیں کیسے پتہ چلا میں ٹو سپون شوگر لیتا ہوں“
ارمان نے اسکے ہاتھ سے چاۓ پکڑی
”اب آپ تو اتنی لیٹ اٹھے میں نے صبح امّی سے آپ کی ساری پسند ناپسند اور کھانے کی مقدار سب کچھ پوچھا“
”مائ ڈیر وائف اتنی مکمل بننے کی کوشش مت کرو۔جو ہو جیسی ہو بہت اچھی ہو۔ اور ارینج میریج کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ میاں بیوی شادی کے بعد دو تین سال ایک دوسرے کو سمجھنے میں لگاتے ہیں۔ہاہا اور لڑائ کا موقع ہی نہیں ملتا
ورنہ لؤ میریج میں لڑکا لڑکی سب پسند نا پسند شادی سے پہلے ہی جان لیتے ہیں اور شادی کے بعد پھر لڑتے ہیں کیونکہ۔۔ اور کوئ کام جو نہیں ہوتا کرنے کے لیے۔“ارمان نے مسکرا کر اس سے کہا اور وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئ۔
”اچھا جی اسکا مطلب کے بس ارینج میریج ہی کرنی
چاہیے؟“عنایہ نے چاۓ کا کپ میز پر رکھتے ہوۓ کہا
”نہیں اب ایسی بھی بات نہیں ہے اگر پسند ہے تو ٹھیک ہے مگر یہ دن رات بات چیت کرنے والی لاجک مجھے پسند نہیں ہے۔ “
”اووو اچھا جی“عنایہ نے منہ بنایا
”ہاں اور پتہ ہے میں تمہیں کیوں کہتاہوں کہ جیسی ہو ویسی رہوکیونکہ جب آپ کسی کی پسندمیں ڈھلنے کے کیے جدوجہد کرتے ہیں تو اپنی بھی پہچان کھو بیٹھتے ہیں۔آپ جیسےہوتے ہو ویسے ہی رہناچاہیے کیونکہ جس نے آپکو پسند کرنا ہے اسی طرح ہی پسندکر لیتا ہے جیسے آپ ہوتے ہو۔ دوسروں کے لیے خود کو بدلنا نہیں چاہیے۔ اور ہاں سب سے بڑی بات مرد مکمل چیز سے جلد اکتا جاتا ہے عنایا ۔میں چاہتا ہوں تم چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرو اور میں تمہیں سمجھاتا رہوں۔ہمیشہ اور ہمیشہ۔“
ارمان کی بات سن کر اسکے اندر ایک عجیب سا خوبصورت احساس ہوا وہ کتنی پریشان تھی کہ کیسے مینج کرے گی اب سب آسان لگ رہا تھا ۔ وہ اٹھ کر جانے لگی کے ارمان کی آواز پہ پلٹی
”اور ایک بات تو امّی کو پتا ہی نہیں ۔۔میری نیئ پسند کے بارے میں وہ بھی نہیں جانتیں۔جانتی ہو کیا ہے میری نئ پسند“ارمان نے اس سے بیٹھے بیٹھے سوال کیا
”کیا“وہ کھڑی کھڑی بولی
”تم“ارمان نے اتنے نرم لہجے میں کہا وہ ٹھیک سے مسکرا بھی نہ سکی اور باہر نکل گئ
*****************************
”اسلام و علیکم “ارسلان اور سائرہ ہال میں بیٹھے تھے پریشے کو بلایا تو اس نے بھی آکر بیٹھتے ہوۓ سلام کیا۔
”پریشے ارسلان آیا ہے تمہیں لنچ کے لیے بلانے“
سائرہ بھابی اس سے مخاطب ہوئیں
”نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا میں نے ناشتہ لیٹ کیا
ہے“وہ ٹالنا چاہتی تھی
”پریشے۔۔ساتھ ایمن ،عنایہ اور ارمان سب ہیں بیٹا“بھابی
نے اسے بتایا اور ان سب کی وجہ سے وہ بھی ایگری ہو گئ
”میں دو منٹ میں چینج کر کے آتی ہوں“وہ اٹھ کر چلی گئ۔۔ ارسلان اسکا گاڑی میں بیٹھا ویٹ کر رہا
تھا۔
”ایمن اور باقی سب کہاں ہیں“ارسلان نے فرنٹ ڈور کھولا مگر وہ پچھلی سیٹپر بیٹھ کر بولی
”وہ جلدی نکل گئے “ارسلان نے اتنا ہی کہا اور اس کے بعد انکے
درمیان خاموشی رہی ہوٹل میں ٹیبل ارسلان نے آلریڈی بک کروایا تھا وہ دونوں اپنی اپنی کرسی کھینچ کر بیٹھے صرف دو کرسیاں آمنے سامنے لگیں تھیں
”باقی سب کہاں ہیں “وہ خیرانگی سے بولی
”پری میں نے جھوٹ کہا۔میں نے اور کسی
کو بھی آنے کا نہیں کہاسواۓ تمہارے“ارسلان نے جھجک کے کہا مگر پریشے سخت خیرت زدہ ہوئ
”ارسلان آپ نے مجھ سے جھوٹ کہا“وہ دکھ سے بولی
”اگر میں تم سے سچ کہتا تو کیا تم آتی نہیں ناں؟پریشے میں تمہیں سمجھنا چاہتا ہوں۔میں چاہتا ہوں ہمارے اندر انڈرسٹینڈنگ ہو تم کیوں نہیں سمجھتی ۔ تم مجھے غیر مت سمجھو پلیز۔“ارسلان نے التجا کی
”آپ نے جھوٹ کیوں کہا۔ چلیں ابھی مجھے گھر چھوڑیں کوئ دیکھے گا تو کیا سوچے گا سب غلط سمجھیں گے“وہ ضد پہ اڑ گئ تھی۔
”پریشے میرے ساتھ آئ ہو تو میری مرضی سے جاؤ گی“ارسلان نے لہجہ تھوڑا سخت کیا۔
”صرف دس منٹ دو مجھے بات مکمل کرنے دو“
”بولیے“
”پریشے تم مجھے پسند کرتی بھی ہو یاں نہیں“ارسلان کے سوال پہ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا
”اگر آپ ابھی کا پوچھ رہے ہیں تو نہیں۔شادی کے بعد ہو سکتا ہے آپ مجھے پسند آ جائیں۔نگر فل ہال میں آپ کے ساتھ بھائ کے لیے شادی کر رہی ہوں“وہ سپاٹ لہجےمیں بولی وہ جھوٹ نہیں بولتی
تھی چاہے اگلے کو سچ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ لگے
”پاگل لڑکی تھوڑی سا بھرم ھی رکھ لیتی“ارسلان خاصا ڈھیٹ ہوا تھا
”اور اگر شادی سے پہلے محبت ہو گئ تو“اس نے پھرسوال کیا
”اٹس امپوسبل“وہ بھی اس کی ٹکر کی تھی
” اگر ہو گئ تو“اس نے پھر پوچھا
”پھربھی میں اظہار نہیں کروں گی.. “
”کیوں“وہ خیران ہوا
”ارسلان میں ہر کام میں جنونی ہو جاتی ہوں۔آپ سب کی طرح چیزیں مجھے ایک حد میں اچھی نہیں لگتیں ۔مجھے جو چیز پسند ہو حد سے بڑھ کر پسند ہوتی ہے اور آپ تو جانتے ہوں گےحد
سے زیادہ کوئ چیز بھی اچھی نہیں ہوتی۔بچپن میں اپنی ٹیچر پسند آ گئ تھیں اور جب انکی پوسٹنگ ہوئ تو میں پانچ دن تیز بخا ر میں رہی کیونکہ میں انھیں بھول نہیں پا رہی تھی۔ مجھے جو چیز اپنا عادی بنا لے میں اسے کھو نہیں سکتی۔ اس لیے میں
کسی سے فرینک نہیں ہوتی سواۓ اپنے فیملی کے ۔ میں چاہتی ہوں جو میرا ہے بس میرا رہے مجھ سے چیزیں شئیر نہیں ہوتیں ۔ کیونکہ میں اکیلی بہن ہوں پورا خاندان مجھ سے محبت کرتا ہے شائد اسی وجہ سے میں چاہتی ہوں میرے لائف پارٹنرکی زندگی میں٬میں واحد لڑکی ہوں۔اس لیے میں ابھی آپکے بارے میں نہیں سوچ سکتی۔“ وہ کہ کر اٹھ کھڑی ہوئی ارسلان جانتا تھا اب وہ نہیں مانے گی تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
*****************************
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top