احساس پانچویں قسط
”اوو تو اگر تم میری عادی ہو گئ تو“ ارسلان نے پھر پوچھا
”تو ایسا نہیں ہو گا“لہجہ سحت تھا
”پریشے اپنی اس عادت کی وجہ سے تم خود کو خسارے میں رکھو گی “ارسلان اسے سمجھا رہاتھا
”آپکو لگتا ہے منگنی کے بعد روز نہ ملنے سے مجھے خسارہ ہو گا“وہ خیران ہوئ۔۔
”پریشے اب میں ایسا نہیں کہہ رہا“وہ اکتا گیا
”اچھا میں تمہارے لیے آئسکریم منگواتاہوں۔تمہاری فیورٹ“وہ اسے خوش کرنا چاہتا تھا۔۔اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا
”مجھے گھر جانا ہے ابھی“وہ اٹل تھی۔ارسلان کا موبائل بار بار بج رہا تھا
”فون اٹھا ہی لیں ارجںنٹ ہو گا“پریشے کے
کہنے پہ اس نے فون اٹھایا اور دو منٹ کے بعد واپس آیا ”چلو“وہ اس کے جانے کے بعد پھر بیٹھ گئی تھی پھر اسکے کہنے
پہ فورًا پھر سے اٹھ کھڑی ہوئ۔آدھے کھنٹے بعد ارسلان نے گاڑی روکی تو وہ حیران ہوئ
”یہ کس کا گھر ہے۔ ہم تو گھر جا رہے تھے کدھر لے آۓ آپ مجھے“وہ پریشانی
سے گاڑی سے باہر نکلی ارسلان نے گاڑی لاک کی”مجھے نورالہادی سے کام ہے دو
منٹ لگیں گے تم اسکی امّی کے پاس بیٹھنا اچھا لگے گا“وہ گھر کی طرف بھڑ گیا
پریشے اسکے ساتھ اندر چلی گئ۔نورالہادی پریشے کو دیکھ کر چونکا پھر وہ ارسلان کو
ساتھ لے کر روم میں چلا گیا اور ملازمہ مسز تیمور کو بلانے گئ وہ وہی ہال میں بیٹھی
ویٹ کر رہی تھی جب ایک وجیہہ عورت پریشے کی طرف آئ۔اپنا دوپٹا بہت
خوبصورتی سے انھوں نے سر پہ لے رکھا تھا وہ انھیں دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئ
”اسلام و علیکم“اس نے سلام کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا وہ فیملی سے باہر کبھی گئ نہیں
تھی تو باہر کی عورتوں سے ہاتھ ہی ملا کر ملتی تھی انھوں نے بھی ہاتھ ملایا اور اسے
بیٹھنے کا کہا”کیا نام ہے بیٹا آپکا“وہ بہت میٹھا بولتی تھیں۔”پریشے٬پریشے جہانگیر“اس
نے مسکرا کر کہا”اچھا لیکن اب تو مسز ارسلان بن گئ ہو نا“وہ بھی مسکرا کر بولیں
”نہیں آنٹی ابھی شادی نہیں ہوئ ہماری“وہ جھجک کے بولی”مطلب تم دونوں
کا نکاح ہوا ہے نا بس رخصتی ہی رہتی ہے “وہ سمجھ کر بولیں”نہیں آنٹی ہمارا نکاح
تو نہیں ہوا بس منگنی ہوئ ہے“”اوو آپ دونوں اکٹھے آۓ مجھے لگا شاید“اور اس لمحے
پریشے کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جاۓ جس بات سے بچتی تھی وہ
ہی ہوا۔انھیں لگ رہا تھا کے وہ اپنی مرضی سے اسکے ساتھ گھومنے نکلی ہے۔ کتنی
شرمندگی کی بات تھی یہ اسکےلیے۔”آنٹی ایک گلاس پانی ملے گا“اس کے ہونٹ
خشک ہو گیے”میں ایک منٹ ائ“وہ اٹھ کر کچن کی طرف گیں پریشے نے نا جانے
کتنے آنسو اپنے اندر اتارے۔دو منٹ بعد وہ ملازمہ کے ساتھ آئ ملازمہ نے
پانی اور بہت سے لوازمات اور چاۓ ٹیبل پہ رکھی۔”کیا کرتی ہو آجکل پریشے“
وہ پر سکون ہو کر بیٹھیں”ابھی پڑھ رہی ہوں“اسنے پانی کا گلاس رکھا۔
”شادی کب کرو گی“انھوں نے پھر پوچھا”ابھی نہیں “وہ مسکرا کر بولی”امّی کا کیا
نام ہے“انکے سوال پہ یک دم اسکی آنکھیں بھر آئیں”میری پیدائش کے وقت وہ
فوت ہو گئیں۔“”اوو بیٹا سوری میں نہیں جانتی تھی“”اٹس اوکے“”بیٹا تمہاری
امّی نہیں ہیں میں بس تمہیں ایک بات سمجھانا چاہتی ہوں۔پریشے منگیتر بھی نا
محرم ہی ہوتا ہے بیٹا ۔ہمارے مذہب میں نامحرم کے سامنے بغیر پردے کے جانے
سے بھی منع کیا گیا ہے۔یہ منگنی والے رواج تو ہم لوگوں نے نکالے ہیں۔ہمارا
معاشرہ منگنی کو بھی اب نکاح کی طرح سمجھنا شروع ہو گیا ہے بتاؤ کیا منگنی کے
بعد آپکو ہنڈریڈ پرسینٹ یقین ہوتا ہے کہ آپکی شادی اسی انسان سے ہو گی۔ منگنی
تو کسی بھی چھوٹی سی وجہ سے بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ شروع میں ہمیں لگتا ہے منگیتر سے
بس فون پہ رابطہ رکھنے میں کیا حرج ہے بس بات ہی تو ہو گی پر جانتی ہو شیطان پہلے
آپ سے یہ غلط کام کرواتا ہے اور جب آپ بات چیت شروع کر دو تو شیطان
اور بھی بہت کچھ کروا سکتا ہے جب برائ کی طرف ایک بار جاؤ گے تو وہ اپنی طرف
آپکو کھینچتی جاۓ گی پھر بڑے سے بڑا گناہ بھی آپکو بڑا نہیں لگے گا اور پتا ہے جب
ہمیں گناہ کر کے بھی اپنے گناہ کا احساس نہیں ہوتا نا تو ہمارا ضمیر مر جاتا ہے۔
آجکل کے لڑکے لڑکیوں کو فیونسی سے رابطے میں رہنے میں برائ نہیں لگتی پھر جب
کسی وجہ سے اسی سے شادی نہیں ہو پاتی تو کتنا مشکل ہوجاتا ہے اس کو بلانا ۔۔پر کیوں
اس میں غلطی اپنی ہی ہے نا انکی ۔۔انھوں نے شادی سے پہلے ہی اپنے فیونسی کے
ساتھ مل کر ہزاروں خواب سجاۓ ہوتے ہیں جنہیں بلانا انکے لیے مشکل ہو جاتا
ہے۔جانتی ہو انکی زندگی کو مشکل کون بناتا ہے (وہ خاموشی سے بس انکو دیکھ رہی تھی ) وہ خود۔ اپنے نفس پہ قابو پا کر
اگر انسان حلال طریقے سے کسے کو اپناۓ تو وہ کبھی شکوہ نہیں کرتا ۔ میں تمہیں
ہرٹ نہیں کرنا چاہتی بس سمجھایا ہے شاید میرا فرض تھا“انھوں نے اپنی بات مکمل
کی پریشےنے گردن جھکا لی اور اب اسے لگ رہا تھا وہ سر اٹھا کر انھیں
جواب نہیں دے پاۓ گی۔بہت دیر خاموشی کے بعد وہ بولی ”تھینک یو آنٹی“وہ با دقعت مسکرائ
*****************************
"ارسلان کہاں گئے تھے بیٹا " وہ ہال میں داخل ہوا مسز جہانزیب نے اسے بلا لیا
"امی کام تھا ہادی سے اسکی طرف گیا تھا " وہ انکے پاس آ کے بیٹھ گیا
"اچھا کافی اچھا لڑکا ہے ہادی " انھوں نے مسکرا کر کہا ۔۔کیوں کے وہ ارمان کی شادی پر اس سے مل چکی تھیں
"ہاں جی۔۔ میرے ہر اچھے کام میں میرا ساتھ دیتا ہے "
"ارسلان بھائی جملہ ہے ھر کام میں میرا ساتھ دیتا ہے ۔پھر اچھا برا کیا ہوا " عنایا جو پاس بیٹھی پکس دیکھ رہی تھی بولی
" اچھے کام میں جملہ قابلِ غور ہے ۔۔صرف اچھے کام میں ھی ساتھ دیتا ہے ۔برے میں بڑا بھائی بن کر ڈانٹتا ہے ۔ " ارسلان نے وضاحت کی مسز جہانزیب جوابًا مسکرائیں
"یہ کیا دیکھ رہی ہیں بھابی " ارسلان نے اس کے ہاتھ سے البم لیا
"یہ شادی کی پکس آ گئی ہیں وہ ھی دیکھ رہے ہیں "
"ایمن پری کو بھی فون کرو آ کے دیکھ لے۔" مسز جہانزیب نے ایمن کو کہا جو صوفے پے بیٹھی فون میں مگن تھی
"امی اسی سے بات ہو رہی ہے ۔ کہیں گئی تھی کہ رہی ہے ابھی آئ ہوں سر میں بہت درد ہو رہا ہے نہیں آ سکتی "
"یا اللہ خیر کیا ہو گیا زیادہ درد تو نہیں ہے ۔۔ضرور کوئی ٹینشن لی ہو گی اس نے ۔ کیوں کے ٹینشن میں ھی سر درد کرتا ہے اس کا " وہ پریشان ہو گئیں
"امی وہ آپ کی سگی بیٹی بھی نہیں ہے پھر بھی آپ کو اس کی نیچر کا بہت حد تک اندازہ ہے " ارسلان نے کہا ۔۔کیوں کے وہ تو جانتا تھا کے پریشے کے سر درد کی وجہ اسی کی حرکت تھی جو آج وہ اسے آئس کریم کھلانے لے گیا تھا
" ارسلان بیٹا وہ بچپن سے میرے پاس ھی رہی ہے ۔میں نے ماں کی طرح ھی پالا ہے اسے اور مائیں اپنے بچوں کو بہت اچھے سے جانتی ہیں ۔"
"ارسلان بھائی اپنا فون دیں تھوڑا کام ہے " ایمن نے اسے مصروف دیکھ کر فون مانگا
"ہاں لے لو " ارسلان پکس دیکھتے ھوۓ بولا ۔۔دو منٹ بعد ایمن نے اسکا فون واپس کیا تو اس کے چہرے پے عجیب سی خوشی تھی
"گائز میں آپ کے لئے چاۓ بنا دوں " ایمن بولی
" اوہ نیکی اور بک بک " ارمان نے اسے چھیڑا
"ارمان بھائی نیکی اور پوچھ پوچھ ہوتا ہے " ایمن نے غصے سے کہا
"لیکن تم تو بک بک ھی کر رہی ہو نہ " ارمان نے ہنسی دبا کر کہا
"شٹ اپ " ایمن غصے سے بول کر چلی گئی
"امی سمجھا لیں اسے ایک تو بھائی بولتی ہے اوپر سے بد تمیزی کرتی ہے " ارمان نے منہ بنایا ۔۔جس پے عنایا اور ارسلان نے قہقہ لگایا
***************************
"پریشے ۔۔ اٹھ جاؤ ڈنر کر لو " سائرہ نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ھوۓ کہا ۔۔ پری کی طرف نظر ڈالی جو آنکھوں کے آگے بازو رکھے سوئی تھی
"پری۔۔" اس نے پری کو جگایا مگر جب اس نے سائرہ کو دیکھا تو سائرہ جان گئی کے وہ سوئی نہیں تھی
"طبیعت ٹھیک ہے نہ تمہاری "
" ہاں بھابی بس سر میں درد ہے تھوڑا۔"
" اوہ چلو ڈنر کر لو پھر میڈیسن لے لینا ۔ نیچے حسن بھی کب سے تمہارا ویٹ کر رہا ہے " سائرہ نے اسے بتایا
" حسن بھائی کب آئے" وہ یک دم فریش ہو گئی
" تھوڑی دیر پہلے ھی ۔۔" سائرہ کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی پری بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل کر نیچے ہال کی طرف گئی
" حسن بھائی ۔۔۔۔" وہ بولتے ھوۓ تیزی سے سیڑییاں اتر رہی تھی ۔۔ "پری پھوپو آرام سے گر جائیں گی ۔" اسامہ نے کہا
حسن اسے دیکھ کر اٹھ گیا تھا پری نے سیڑییاں عبور کیں اور اپنے بھائی کے گلے لگی . . . حسن ارمان کی شادی سے پہلے سے گیا تھا اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کے وہ کچھ دنوں کے لئے کہیں گیا ہو اور پری نے پہلے کبھی اسے اتنا مس بھی نہیں کیا تھا مگر اس بار جب وہ گیا تو پری کی پیچھے سے منگنی بھی ہو گئی تھی اور اس نے اپنے دوسرے بھائی کو بہت مس کیا تھا ۔۔۔اب ارسلان کی حرکت پے وہ سیڈ تھی مگر حسن کے آتے ھی فریش ہو گئی تھی
"ویسے دیکھیں تو پھوپو اور چاچو کو کیسے ٹوم اینڈ جیری کی طرح لڑتے ہیں اور پھر جب چاچو گئے تو پھوپو نے انہیں کتنا مس کیا " اسامہ نے کہا جس پر پری اور حسن مسکرائے
"ویسے تم تو مجھ سے بات ھی نہ کرو نہ " حسن بیٹھتے ھوۓ بولا
"کیوں میں نے کیا کیا " وہ نا سمجھی سے بولی
"”تم کوگوں نے میرا ویٹ نہیں کیا ۔ ایک ہی اکلوتی بہن ہو میری نا رشتے کے معاملے میں مجھ سے پوچھا اور نہ منگنی کے
بارے میں “حسن تھوڑے غصے میں لگ رہا تھا۔
”ولید بھائ نے آپ کوفون پر بتایا تھا نا“پریشے نے کہا
”ہاں بتایا تھا پر تب جب تمہاری منگنی تھی۔ پریشے آپ لوگوں نے اتنی جلد بازی کیوں کی ہے۔ تھوڑا انتظار تو کر لیتے ہم لوگ ابھی ارسلان کو ٹھیک سے جانتے تک نہیں ہیں ۔ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوۓ اسے آۓ اور بہن کا رشتہ طے کر دیا اسکے ساتھ ایسے فیصلےجلد بازی میں نہیں کیے جاتے“حسن اسے دیکھ کر بولا رہا تھا پریشانی اسکے چہرے پہ صاف نظر آ رہی تھی
”بھائ سب ولید بھائ کی مرضی سے ہوا ہے ۔ بابا کو بھی انھوں نے ہی ایگری کیا اور مجھے بھی“وہ آہستگی سے جھجک کر بولی
”میں کچھ نہیں جانتا۔ اگر ولید بھائ نے سب کیا ہے۔ تو ان کی ہی ذمہ داری ہے“وہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا
”آآآآ بھائ آپ ٹینشن مت لیں “پریشے نے اسے تسلی دی۔
حسن کو برا لگا تھا۔ پریشے کے منگنی کر دی گئ اور وہ بھی اس شخص سے جسے انکی فیملی میں آۓ ابھی چار دن نہیں ہوۓ تھے۔۔
"حسن تم کب آئے" مسز جہانزیب ہال میں داخل ہوتے ھوۓ بولیں
"السلام عليكم بس تھوڑی دیر ھی ہوئی ہے " حسن ان سے ملا
"واسلام ۔۔پری طبیعت کیسی ہے تمہاری ۔۔" مسز جہانزیب اس کی طرف بڑئیں
"میری طبیعت کو کیا ہوا ہے امی آپ کو کس نے کہا " پری نے خیرانگی سے پوچھا
" ایمن نے بتایا کے تمہارے سر میں درد ہے "انکی بات پے پری بی ایمن کو گوری ڈالی جو ہنسی دبا کر بیٹھی تھی
"امی ایسی بات نہیں ہے اس ٹائم تھوڑا درد کر رہا تھا ابھی ٹھیک ہے "
" چلو ہم تو تمہاری تیمار داری کرنے آئے ہیں " عنایا نے مسکرا کر کہا ۔۔ارمان حسن سے باتوں میں مگن ہو گیا ۔۔پری نے ایک نظر سب کو دیکھا ارمان ، ایمن ، عنایا ، مسز جہانزیب سب آئے تھے مگر وہ نہیں آیا تھا جسے آنا چاہیے تھا ۔ اسے اس کا نہ آنا برا لگا تھا مگر پھر یہ سوچ کر رہ گئی کے آج اس نے بھی بہت بےعزتی کر دی تھی اس سے ۔
*****************************
"نورلھادی کمرے میں اتنا اندھیرا کیوں کیا ہے " مسز تیمور دودھ کا گلاس لئے کمرے میں داخل ہوئیں
" امی آپ بھی کبھی کبھی عجیب سوال پوچھتی ہیں رات کے گیارہ بجے بھی لائٹس آف نہ کروں " وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔مسز تیمور نے لائٹ اون کر دی تھی ۔۔
"ہاں پر تم سو تو نہیں رہے تھے نہ " وہ جانچتی نظروں سے بولیں
"امی بس نیند نہیں آ رہی تھی "
"ارے وہ کیوں "
"بس ایسے ھی اچھا بتائیں آج مجھ غریب کو کیسے یاد کر لیا "
"ہاہا ڈرامے نہ کرو۔۔ جیسے آگے تو میں تمہیں یاد ھی نہیں نہ کرتی ۔ سوچا آج خود تمھارے لئے دودھ لے جاتی ہوں اور بتا بھی آؤں کے تمہارے ابو نیکسٹ ویک آ رہے ہیں " وہ بیڈ پر اوپر ہو کر بیٹھ گئیں
" اوہ دیٹس گریٹ " وہ انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا
"بیٹا ایک بات پوچھوں " وہ اسکے بالوں میں ہلکی ہلکی انگلیاں پھیر رہی تھیں
" امی ایک بھی ہزار پوچھیں "
" ہاہا زیادہ فلمی نہ ہو " انھوں نے ہلکی سی تھپکی اسکے سر پے لگائی
" اچھا ارسلان اور پریشے کی لاو میرج ہوئی ہے کیا "
" نہیں امی فیملی کی مرضی کی ہے "
" اچھا ایک بات کہنی ہے اگر تم ارسلان کو سمجاؤ تو ۔۔" انھوں نے کہا جس پر ہادی نے اثبات میں سر ہلایا
"ارسلان کو کہا کرو اسے ایسے باہر لے کر نہ پھرا کرے ۔۔وہ بچی مجھے کافی ان کمفرٹیبل لگ رہی تھی "
"اچھا امی " وہ بس اتنا ھی بول پایا اب اور کیا بتاتا کے وہ بھی اسی وجہ سے نہیں سو پا رہا کے ارسلان اسے زبردستی لایا تھا وہ اب پری کی نیچر سے کافی حد تک واقف ہو چکا تھا اور جانتا تھا کے پری خود نہیں آئ ہو گی وہ ضرور کسی بہانے سے ھی لایا ہوگا ۔۔ارسلان تھوڑا اوپن مائنڈ رکھتا تھا مگر پری آج کی جنریشن کی ہو کر بھی یں سب چیزوں کو فضولیات کا نام دیتی تھی
"امی ایک بات پوچھوں "
" ہاں بولو میری جان " وہ محبت سے بولیں
"ایک طرفہ پیار کبھی کامیاب نہیں ہوتا کیا ؟ کیا اسے منزل نہیں ملتی ؟ "
"ایسا نہیں ہوتا بیٹا ۔ اگر محبت میں پاکیزگی ہو تو وہ آپ کو ضرور ملتی ہے " وہ اسی طرح اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھیں
"مگر اگر وہ کسی اور کا ہو جائے تو کیا یہ سمجھا جائے کے آپ کی محبت میں پاکیزگی نہیں تھی ؟" وہ آنکھیں بند کیے اپنے دل کی باتیں کر رہا تھا
"پھر اس بات پر راضی ہو جانا چاہیے کے وہ محبت آپ کے حق میں بہتر نہیں تھی ۔۔" وہ سمجھ کر بولیں
"تم سو جاؤ اب "
"نورلھادی اسے بھول جاؤ " مسز تیمور نے اٹھتے ھوۓ کہا
"جب کوئی آپ میں خون کی طرح جذب ہو جائے ، اسے بھولایا نہیں جا سکتا " وہ ان کو دیکھ کر بھولا
"پوری زندگی ہے بیٹا اکیلے نہیں کٹے گی "
"آپ کو کس نے کہا میں اکیلا ہوں ۔میں اکیلا نہیں ہوں ۔میری تنہائی ،اسکی یادیں اور یہ احساس میرے ساتھ ہیں اور میرے لئے یہ ھی کافی ہے " اس نے بات مکمل کر کے آنکھیں موند لیں ۔ مسز تیمور نہیں جانتی تھیں کے وہ کون ہے مگر ہادی کی باتوں سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کے وہ کسی سے بہت محبت کرتا ہے اور یہ بھی کے اسکی محبت یک طرفہ ہے ۔۔۔
*************************
وہ فریش ہو کر بال ڈرائ کر رہی تھی جب اسکے موبائل پہ میسج آیا وہ جانتی تھی میسج کس کا ہو گا اور میسج پڑھ کر وہ مسکرائ تھی البتہ اس نے جواب نہیں دیا تھا اور میسج بھیجنے والے یعنی ارسلان کو بھی علم ہو چکا تھا کے وہ اسے جواب نہیں دے گی۔ ارسلان نے ان کے ملنےکے بعد سے روٹین بنا لی تھی ہر
صبح پریشے کو ایک خوبصورت سی پوئٹری بھیجتا پھر دن بھر کے کام کرتا مگر ساتھ ساتھ اسے میسج پر بتاتا رہتا۔ جب اسے پہلی بار میسج وصول ہوا تھا تو وہ نہیں جانتی تھی کہ کس کا نمبر ہے مگر واٹس ایپ پہ اسکی ڈی پی سے وہ اسے پہچان گئ
تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا ارسلان کو اسکا نمبر کس نے دیا مگر اسے خیرت نہیں ہوئ تھی کیونکہ یہ جو منگنی کا ٹیگ انکو لگ گیا تھا اسکی وجہ سے سب کزنز ان کے معاملے میں زیادہ ہی فریلی سوچنے لگے تھے۔ وہ اپنے روم سے نکل کر نیچے ہال میں آئ۔ ناشتہ کرنے کے لیے وہ ابھی بیٹھی ہی تھی کہ پھر سے اسکا موبائل بجا اس نے اگنور کیا اور ایک بار پھر اسکا موبائل بجا۔حسن اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔پریشے نے فورًا اپنا موبائل اٹھا کر چیک کیا
”میں نے ناشتہ کر لیا ہے آفس کے لیے نکل رہا ہوں“ارسلان کا پیغام تھا
”اوکے باۓ مائ لؤ“دوسرا پیغام پڑھ کر بے احتیار اسکے منہ سے ”استغفراللہ“نکلا
حسن نے پھر پریشے کو دیکھا مگر اس بار اس نے گھوری ڈالی تھی
”پریشے کوئ دوست تنگ کر رہی ہے کیا“سائرہ بھابی نے پوچھا
”نن نہیں تو“وہ بوکھلا گئ
”اچھا پھر چھوڑو فون کو۔ مجھے کھانے کے دوران باتیں اور فون یوز کرنا بلکل نہیں پسند“ولید نے کہا وہ سر جھکا کر روٹی کا نوالہ توڑنے لگی۔
*****************************
”عنایہ میں خود نہیں جانتی اسے میرا نمبر کس نے دیا ہے“پریشے یونی سے واپسی پر سیدھا عنایہ کے پاس آئ آفٹر آل اپنے بیسٹ فرینڈ سے مشورہ کرنا تھا اسے پوری روداد سنا کر وہ اَک گئ تھی
”اچھا تو تم اسے کہہ دو کہ تمہیں نیکسٹ ٹیکسٹ نہ کرے “عنایہ بن داس ہو کر
بولی
”عنایہ میڈم یہ جس نے بھی اسے نمبر دیا ہے نا میرا پتہ چلے مجھے میں نے چھوڑنا نہیں اسے“وہ غصے سے بولی اتنے میں اسکا موبائل پھر سے بجا پریشے نے منہ چڑایا عنایہ اکسائٹڈ ہو کر اس کے پاس آئ
”میں آفس سے نکل رہا ہوں پندرہ منٹ تک آ جاؤں گا“ارسلان کا پیغام پڑھ کر پریشے نے غصے سے موبائل بیڈ پر پھینکا
عنایہ ایسا ہنسنا سٹارٹ ہوئ کے اسے چپ کروانا مشکل ہوگیا
”ہاہاہاہا دیورانی جی دیورجی تو پکے والے عاشق نکلے ہف“عنایہ ہنس ہنس کر صوفے پر بیٹھی وہ دونوں اس وقت عنایہ کے بیڈ رو م میں تھیں
”شٹ۔۔۔“پریشے بولنے ہی لگی تھی
کہ مسز جہانزیب کو دیکھ کر چپ ہو گئ وہ کمرے میں داخل ہوئیں۔
”پریشے جانا مت کھانا بن گیا ہے اور عنایہ ارسلان کا فون آیا تھا کے کھانا بنا دوں تو اسے دوبارہ کال کرو کب تک آۓ گا میں تھوڑی بزی ہوں ۔ جلدی پوچھو کب تک آۓ گا“ مسز جہانزیب نے کہا
”پندرہ منٹ تک“عنایہ نے ایک دم سے کہا
”تمہیں کیسے پتہ“وہ حیرت سے بولیں
”وہ پریشے..“اس سے پہلے کہ وہ سیدھی سادھی منہ پھٹ کچھ بولتی پریشے نے اسے ٹوکا
”وہ۔۔وہ۔۔ابھی آنی کو فون آیا تھاارسلان کا“پریشے نے کہامسز
جہانزیب مسکرا کر چلی گئیں۔
”ہا.... پریشے تم نے جھوٹ کہا“عنایہ نے اسے چھیڑا
”تم جیسی دوست ہو تو دشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔میں جا رہی ہوں اس سے پہلے کے جناب آئیں“پریشے کہہ کر تیزی سے نکل گئ۔
*****************************
ہادی کا فون بجا اور میسج دیکھ کر وہ چونکا۔ انجان نمبر سے ایسا میسج کسی کو بھی خیران کر سکتا تھا۔نورالہادی کبھی بھی انجانےنمبر کا رپلائ نہیں کرتا تھا۔ ویسے تو ایسی احتیاط لڑکیاں برتتی ہیں مگر اسے لگتا تھا جسے اس سے بہت ضروری کام ہوگا وہ اسے خود ہی فون کر لے گا۔ اگر میسج کرے گا بھی تو پہلے نام بتاۓ گا۔ یہی وجہ تھی کہ ارسلان اور کاشف نے اسے لڑکی بن کر کئ بار میسج کیے مگر انہیں کچھ حاصل نا ہوا بعد میں انھوں نے خود ہی ہادی کو بتا دیا۔اب بھی نورالہادی کو انکی ہی شرارت لگ
رہی تھی۔
”نورالہادی آجاؤ باہر بہت اچھا موسم ہے چاۓ پئیں اکھٹے“مسز تیمور اندرداخل ہوئیں۔
”اچھا چلیں“ہادی کھڑا ہو گیا
”چاۓ تم بناؤ گے نورالہادی“
مسز تیمور مسکراہٹ دبا کر بولیں
”امّی آپ جانتی ہیں نا مجھ سے چاۓ نہیں بنتی“
”کوشش کر سکتے ہو“
”آگے بھی بہت کوشش کی ہے نا نہیں بنتی اب کیا کروں“
”تو پھر ایک چاۓ بنانے والی لے آؤ“وہ جو کہنا چاہتی تھیں کہہ گئیں
”لیں دو توہیں نا کھانا بنانے کے لیے اور کتنی چاہیے“وہ نا سمجھی سے بولا
”میں کام والی کی بات نہیں کر رہی “انھوں نے اپنے بیٹے کی عقل کو کوسا
”پھر“ہادی خیران ہوا
”دیکھو اب تو تم ڈاکٹر بھی بن گیے اب مجھے تمہاری شادی کرنی ہے“وہ پیارسے بولیں ۔اس وقت انکی آنکھوں میں بیٹے کے شادی کے ہزاروں ارمان تھے۔
”پر مجھےنہیں کرنی“ہادی نے مسکرا کر جواب دیا
”دیکھو نورالہادی تم مجھے ٹال
نہیں سکتے۔ کب تک میں اکیلی تمہیں سنبھالوں گی میرے بھی ارمان ہیں کاش میری بھی بہو ہوتی اور میں اس سے لڑتی“انھوں نے کیا تو مزاق مگر ہادی اپنی ہنسی
کنٹرول نا کر پایا
”ہاہاہاہا....امّی سچ میں آپ کو بہو لڑنے کے لیے چاہیے“وہ ہنسی
بمشکل کنٹرول کر کے بولا
”رہنے دو نورالہادی تم نہیں سمجھو گے یہ تو مزاق ہے مگر
بیٹا میں چاہتی ہوں تم سیٹل ہو جاؤ“وہ سنجیدگی سےبولیں
”ادھوری محبت میں زندگی برباد نہیں کی جا سکتی اپنے لیے نہیں تو ان کے لیے جی لینا چاہیے جو ہمیں دیکھ کر جیتے ہیں“مسزتیمور کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیئں ہادی انکے آخری جملےپہ غور کرنے لگا
”کیا امّی سب جانتی ہیں“اس نے خود سے پوچھا۔
*****************************
”پریشے جانا امپورٹنٹ ہے بیٹا“جہانگیر صاحب نےاسےسمجھایا
”بابا آپ سب اکھٹے تو مت جائیں نا“وہ رندی آواز میں بولی
”پریشے بچی مت بنو اتنی ضد تو اسامہ نہیں کرتا جتنی تم کرتی ہو۔ہماری مجبوری ہے جانا“حسن غصے سے بولا
”بھائ آپ تو رہنے دیں آپ کا رویہ بہت روڈ ہے میں نوٹ کر رہی ہوں“وہ بھی غصہ ہو گئ
”اچھا تو کیوں میرا رویہ روڈ ہے بتاؤ“حسن کا لہجہ سخت ہو گیا
”ہہ رہنے دیں“پریشے نے منہ بنایا
”حسن میری پرنسس سے آرام سے بات کرو۔پرنسس
آپ جانتی ہو نا ہمارا گاؤں جانا ضروری ہے زمینوں کا کچھ کام کروانا ہے اس لیے ہم سب کا وہاں موجود ہونا ضروری ہے“
ولید نے حسن کو ڈانٹا اور پریشے کو پیار سے سمجھایا
”تو بڑے ابا ہی کیوں جا رہے ہیں انکے گھر سے ۔ ارمان اور ارسلان کیوں نہیں جا رہے“پریشےبولی
”پرنسس بڑے ابا کی ضرورت ہے ارسلان اور ارمان کا وہاں کام نہیں ہے اور بس دو دن کی بات ہے پھر ہم آ جائیں گے تب تک آپ لوگ بڑے ابا کے گھر رہنا“ولید نے اسے سمجھایا
”اوکے بٹ جسٹ دو دن “اس نے دوانگلیاں کھڑی کر کے جہانگیر صاحب کو کہاتو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا
”پھوپو ڈونٹ ایکٹ لائک آ کِڈ“اُسامہ جو گھنٹے سے خاموش تھا بولا
”ہاں تم جوہو بڑے دادا ہم میں سے“پریشے مسکرا کر بولی
”چلو بھئ نکھرے ختم ہوۓ تو کھانا کھا لو“سائرہ مسکرا کر بولی سب اٹھ کھڑے ہوۓ
*****************************
”پریشے چلو یار لنچ کرنے چلنے ہیں کہیں“ایمن نے اسکے ہاتھ سے موبائل کھینچا
”ہاں یار دو دن کے لیے ہمارے پاس ہو وہ بھی تم فون سے چپکی ہو“عنایہ ہنس کر بولی پریشے نے اسے گھورہ
”اہم اہم ایمن پانی لانا“عنایہ نے مزاق میں کھانسا
ایمن پانی لینے چلی گئ
”تم جانتی ہو ارسلان مجھے بے تکے ایس ایم ایس کر کےتنگ کرتا ہے پھر جان بوجھ کر ایمن کے سامنے لگی ہوئ تھی“پریشے نے اسے
ڈانٹا
”ہاہا یار مزاق تھا نا اچھا بتاؤ تو دیور جی گھر کب تک آئیں گے“عنایہ بولی
”تمہارا دیور انتہائی ڈھیٹ ہے دن رات خود ھی میسج کرتا ہے میں ادھر ہوں۔۔ اُدھر ہوں۔میں تو اسے رپلائ تک نہیں کرتی مگر وہ ڈھیٹ انسان باز آنے والا تھوڑی ہے اب بھی بن بلایا مہمان ٹپک رہا ہے ۔میسج آیا ہے جناب کا کہ آج آپ آئ ہیں تو میں جلدی آؤں گا“پریشے نے عنایہ کو بتایا ۔۔
”ہاہاہاہا یار بڑا فرمانبردار بندہ ہے“عنایہ ہنس کر بولی
”میں نے بھائ ارسلان سےکہا ہے وہ ہمارے لیے پیزا لا رہے ہیں“ایمن اچھل کر بتانے آئ
”واٹ“عنایہ بھی خوشی سے اچھلی اور پریشے سر پکڑ کر بیٹھ گئ
*****************************
”اسلام و علیکم“موبائل فون بجا نورالہادی نے فون اٹھا کر میسج چیک کیا
وہ ہی ان ناؤن نمبر تھا۔پچھلے دو دن سے اس نمبر سے بے شمار عزل اور شعرو شاعری والے میسیجز آۓ تھے مگر ہادی نہیں جانتا تھا یہ کس کا نمبر ہے۔
”کون ہیں آپ“تنگ آ کر آج اس نے رپلائ کیا
”جن کی خاطر ہم جی رہے ہیں جناب پوچھتے ہیں آپ ہیں کون“پھر سے میسج ریسیو ہوا ہادی جانتا
تھا جو کوئ بھی ہو اتنی آسانی سے نام نہیں بتاۓ گا اس نے موبائل فلائٹ موڈ پہ لگا دیا اور کام میں مصروف ہو گیا
*****************************
”ارسلان کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا“پریشے نے عنایہ سے پوچھا جو ڈنر کی تیاری کر رہی تھی
”پتا نہیں مجھے بھی اسکا موڈ آف لگا اب دیکھو آتے ہی ہمیں پیزا
دے کر سونے چلا گیا لنچ بھی نہیں کیا اور اب ڈنر ٹائم ہوگیا“عنایہ پریشانی سےبولی
”میں نے کبھی اسے ایسے دیکھا نہیں“عنایہ نے پریشے کو دیکھ کر کہا
”میں فریش ہو کے آتی ہوں“پریشے کچن سے باہر نکل گئ
”میں ہی اس بیچارے کے ساتھ برا کرتی ہوں کتنا کرتا ہے وہ میرا چلو محبت نہ سہی مگر اسے ایسے ٹھکرانا نہیں چاہیے وہ اچھا انسان ہے۔ میں آج کے بعد اسے کبھی تنگ نہیں کروں گی“
وہ خود سے ہی باتیں کرتی ہوئ روم میں چلی گئ ۔۔ وہ فریش ہو کر باتھ روم سے نکلی کے ایمن بھاگ کر اندر داخل ہوئ
”پری....“وہ جو گم سم سوچ میں گم صوفے
پر بیٹھی ایمن کی آمد پر یک دم چونکی
”ہف ایمن آرام سے یار ڈرا ہی دیا“
”اچھا اچھا چلو نا اتنی نازک مت بنو ارسلان بھائ کو تنگ
کرتے ہیں“ایمن نے اس سے کہا
”کیوں کیسا تنگ“وہ نا سمجھی سے بولی۔ایمننے اسے پلان بتا یا وہ بھی چاہتی تھی ارسلان پہلے جیسا فریش رہے اور ویسے بھی شرارتوں میں وہ اور ایمن شروع سے ساتھی تھیں وہ ایمن کےساتھ اسکے پلان میں شامل ہو گئ۔۔
پریشے اور ایمن ارسلان کے کمرے میں داخل ہوئیں کمرے کی لائٹس آف تھیں ارسلان بیڈ پر لیٹا تھا ایمن نے اپنے ہاتھ میں پکڑا جگ ارسلان کے اوپر انڈھیل دیا پریشے نے فورًا لائٹس آن کیں ارسلان جھنجھلا کر اٹھا اور بیڈ سے چھلانگ لگا کر نیچے اترا ایمن اور پریشے کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا
”تم پاگل ہو ایسے بھی کوئ کرتا ہے کیا“ارسلان نے ایمن کو دیکھ کر غصے سے کہا ایمن نے ارسلان کے پیچھے کھڑی پری کو دیکھا تو ارسلان نے بھی مڑ کر دیکھا
ارسلان کا غصہ یک دم مسکراہٹ میں بدل گیا
”تم ۔۔ادھر“ارسلان اس سے بات کر رہا تھا مگر وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی وہ اتنے حوبصورت انداز سے ہونٹوں کے آگے ہاتھ رکھ کر مسکرا رہی تھی کہ ارسلان کی نظر اس پہ ٹھہر گئ
”آئ ایم سوری “وہ اب بنسی کنٹرول کر کے بولی
”ایمن اگر یہ پانی میرے کان میں چلا جاتا تو۔ ایسے مزاق نہیں کرتے خاص طور پہ سوۓ ہوۓ بندے کو نا اونچی آ واز سے اٹھاتے ہیں اور نا ہی پانی گراتے ہیں “ارسلان دھیمے لہجے میں ایمن کو سمجھا رہا تھا
”اچھا اچھا نیکسٹ ٹائم نہیں کریں گے ایسا ۔ ڈنر ٹائم
ہو گیا ہے آ جائیں اب“ایمن کہہ کر نکل گئ پریشے بھی جانے لگی کے ارسلان کی بات پر رکی
”میں ڈنر نہیں کروں گا بتا دینا باہر“ارسلان نے پریشے کر کہا
”آپ نے لنچ بھی نہیں کیا۔“پریشے رخ موڑے بغیر بولی
”آپ کو فکر ہو رہی ہے“ارسلان نے پوچھا
”آپ کو ویک نیس ہو جاۓ گی“پریشے اسی طرح کھڑی تھی۔
”میری طبیعت سیٹ نہیں ہے اوپر سے ایمن نے جگا دیا“ارسلان بال ٹھیک کرتا ہوا بیڈ پہ بیٹھا
”کیا ہوا“پریشے کے لہجے میں پریشانی تھی
”شائد بخار ہو رہا ہے
ریسٹ کروں گا ٹھیک ہو جاۓ گا“وہ پھر سے لیٹ گیا
”آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا اووو میں کیسے جج نہیں کر پائ آپ کو بخار ہے ویٹ میں میڈیسن لاتی ہوں“وہ
کہہ کر تیزی سے باہر نکل گئیں
*****************************
”دیکھو مجھے فون مت کرو جا کر خود ارسلان سے بات کر لو۔آئندہ مجھے فون کیا ۔تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہو گا“ہادی نے غصے میں کہہ کر فون آف کر دیا
”ایک تو پتہ نہیں رانگ نمبر تنگ کر رہا ہے اوپر سے یہ میڈم مجھے فون کر کے اریٹیٹ کر رہی ہیں۔“ہادی نے موبائل بیڈ پہ پھینکا۔۔
*****************************
”سائرہ بھابھی ارسلان کو میڈیسن دے دیں “پریشے کو خود جانا مناسب نہ لگا اس نے سائرہ بھابھی کے ہاتھ میڈیسن اور کھانا ارسلان کے کمرے میں بھیج دیا۔ اور آدھے گھنٹے بعد اب وہ ان کے پاس ارسلان کا پوچھنے آئ تھی۔
”ہاں وہ تو میں اسی وقت دے آئ تھی میں اُسامہ کو ہوم ورک کروا ہی ہوں ہالف آور بعد تم پلیز اسے دودھ گرم کر کے دے آنا“وہ اسامہ کو کاپی پکڑاتے ہوۓ بولیں
”کیوں آج دن کو کام نہیں کیا اس نے“پریشے نے اسامہ کودیکھا
”ارمان ماموں کے ساتھ باہر آئس کریم کھانے گیا تھا تو لیٹ ہو گیا“اسامہ نے وضاحت کی
”عنایہ کو کہہ دوں“ پریشے نے بھابھی سے پوچھا
”عنایہ ابھی فری ہو کے روم میں گئ ہے تم ہی دے آنا کوئ بات نہیں کزن تو ہے ہی تمہارا“سائرہ نے مسکرا کر کہا
”اچھا“پریشے کہہ کر ایمن کے کمرے میں آئ
”یہ کیا کرتی رہتی ہو تم آج کل فون پہ“پریشے کو ایمن کا ہر وقت موبائل پکڑے رکھنا زہر لگتا تھا
”یار پری بندے کی سہیلیاں بھی تو ہوتی ہیں “ایمن بولی تو پریشے نے کشن اٹھا کر اس کی طرف پھینکا جس کی وجہ سے ایمن کا فون اس کے ہاتھ سےچھوٹ گیا
”اٹھو ارسلان کے لیے دودھ گرم کرو اور اسے دے کر آؤ“پریشے مزے سے صوفے پر بیٹھ گئ
”نو نیور میں اپنی شام کی بے عزتی نہیں بھولی“ایمن منہ بنا کر بیٹھ گئ
”اچھا تم قابل تو ویسے بے عزتی کے ہی ہو“پریشے اٹھ کر باہر چلی گئ۔۔۔دودھ گرم کر کے گلاس میں ڈالنے تک وہ سوچتی رہی کے کیسے کسی اور کو بھیجے ۔ پتا نہیں اسے عجیب سا ڈر لگتا تھاپھر خود کو سمجھا بجھا کر وہ دودھ کا گلاس ٹرے میں رکھے ارسلان کے روم میں داخل ہوئ دروازہ کھلا تھا ارسلان سامنے بیڈ پے لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا اس نے ناک کرنا مناسب نا سمجھا
”یہ آپکے لیے“اس نے دودھ بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا”ارسلان نے ایک نظر اس پہ ڈالی۔پنک ٹراؤزر کے اوپر پنک کرتا پہنے وہ کھڑی تھی اسکا رنگ کپڑوں سے میچ ہو رہا تھا بالوں کر ڈھیلی چٹیاں بنا کر آگےکوکی تھی دوپٹا مفلر کر طرح عادتًا گلے میں لیا تھا۔ارسلان جب بھی اسے دیکھتابس دیکھتا ہی رہہ جاتا تھا
پریشے ارسلان کی مکمل توجہ اپنی طرف دیکھ کرگھبرائ
”میں چلتی ہوں“کہہ کر وہ نکلنےلگی کہ
”رکو“ارسلان نے اسے روکا وہ وہی کھڑیرہی ۔
”اس دن جس وجہ سے میں تمہیں لنچ پر لے کر گیا تم نے وہ وجہ جانی ہی نہیں “ارسلان بیڈ سے نیچے
اتر کر کھڑاہوا
”جیکیا وجہ تھی“ارسلان اب ان میں کافی حد تک گل مل گیا تھا جس کی وجہ سے پریشےکی جھجک کم ہوگئ تھی
”بیٹھو“ارسلان نےصوفےکی طرف اشارہ کیا
”میں لیٹ ہو جاؤں گی“ پریشے وہاں سے جانا چاہتی تھی
”پری پلیز صرف دو منٹ میری بات سن کے چلی جانا پلیز کیا اتنا بھی بھروسا نہیں ہے“ وہ زچ ہو گیا
”ٹھیک ہے“وہ صوفے پر بیٹھ گئ
”پریشے میں نہیں جانتا تم میرے بارے میں کیا فیل کرتی ہو مگر میں چاہتا ہوں تم مجھ سے ایک بار صرف ایک بار اظہارِمحبت کر دو صرف میری تسلی کے لیے ورنہ مجھے لگے گا تم کسی اور
کو پسند کرتی ہو“ارسلان نے بات مکمل کر کے پریشے کو دیکھا غصے سے اسکا چہرہ مزید سرخ ہو گیا تھا
”آپ کو اگر لگتا ہے کہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں تو لگے
مجھے پروا نہیں ہے ۔میں ہرگز آپ سے فضول گفتگو نہیں کرنا چاہتی ۔اچھا ہوا جو اس دن آپ نے ہوٹل میں مجھ سے یہ بات نہیں ورنہ“پریشے کہہ کر اٹھی ساتھ ہی ارسلان بھی اٹھ کھڑا ہوا
”ورنہ کیا“وہ اب بھی آرام سے بول رہا تھا۔
”ورنہ میں رِنگ آپکے منہ پے مارتی“وہ کہہ کر جانے لگی کے ارسلان نے اسکا بازو پکڑا وہ غصے سے مڑی اور ایک زور دار تھپر ارسلان کے منہ پر مار
ا”میں نے آپ کو وارن کیا تھا مجھے ہاتھ مت لگانا مگر آپ باز نہیں آۓ۔ میں نے کہا تھا اگر نیکسٹ آپ نے یہ حرکت کی تو انجام کی ذمہ دار میں نہیں ہوں گی“وہ کہہ کر نکلنے ہی لگی تھی کے ارسلان نے دروازے کے آگے اپنا بازو ٹکا کر راستہ بند کر دیا
”جب تک تم مجھ سے نہیں کہو گی تمہیں مجھ سے پیار ہے تب تک تم باہر نہیں جا سکتی۔کیا مانگا کیا ہے میں نے بس پیار کے بدلے پیار۔میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تم مجھے اگنور کرتی ہو۔بے شک تمہیں مجھ سے محبت نہیں مگر تم آج کہو گی کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے “ارسلان بضد تھا
”تم زبردستی نہیں کہلوا سکتے“پریشے کی آنکھوں میں آنسو آگیے مگر اسکا لہجہ نرم نہیں تھا
”ٹھیک ہے پھر ادھر ہی کھڑی رہو“ارسلان نے کہا
”ارسلان آپ نے مجھ سے یہ بات کرنی تھی تو پہلے بتاتے میں کبھی آتی ہی نہ“وہ اب اپنے آنسو روک نہ پائ
”پریشے کہو ارسلان آئ لؤ یو“ارسلان پریشے کو نہیں دیکھ رہا تھا مگر بازو ویسے ہی رکھے کھڑا تھا
”ارسلان پلیز “وہ تھوڑا اونچی بولی
”شش خاموش بس جو کہا وہ کہو اور جاؤ“ارسلان ضد پر تھا
”ارسلان آئ“اور اس سے آگے نہیں کہہ پائ اتنا ہی کہا کے ارسلان نے بازو نیچے کر لیا وہ شائد آگے سننا چاہتا تھا مگر پریشے نے موقعے کا فائدہ اٹھا یا اور وہاں سے بھاگ کر باہر نکل گئ
وہ بھاگ کر ایمن کے کمرے میں داخل ہوئ اور سیدھا باتھ روم میں چلی گئ۔باتھ روم ممیں داخل ہوتے ہی اس نے ٹیب کھول دی اور بہت زور زور سے رونے لگی
”کیوں گئ میں اندر مجھے نہیں جانا چاہیے تھا۔اس نے بلایا مگر میری غلطی تھی جومیں گئ“وہ روتے ہوۓ خود سے باتیں کر رہی تھی اور نہ جانے کتنی دیر ادھر روتی رہی ۔
”پریشے آر یو اوکے“جب پریشے کمرے میں داخل ہوئ ایمن کمرے میں موجود نہیں تھی مگر اب شائد وہ آ گئ تھی
”پریشے کیا ہوا“ایمن نے باتھ کا دروازہ بجایا۔پریشے نے اپنا منہ دھویا اور بال ٹھیک کر کے باہر آئ دروازہ کھلنے پر ایمن دروازے کے آگے سے ہٹی
”کیا ہواتھا“پریشے بیڈ پر بیٹھی ایمن پریشانی سے جلدی جلدی اس کے پاس آکر بولی
”کچھ نہیں بس ایسے ہی“پریشے فورًا لیٹ گئ اور کمبل اپنے اوپر اوڑھ لیا۔
”پریشے بتاؤ تو“ ایمن اسی طرح کھڑی تھی
”ایمن میری طبیعت نہیں ٹھیک پلیز مجھے سونے دو“
اتنا ہی بول کر اس نے آنکھیں بند کر لیں
”آئ لؤ یو سو مچ“ایمن بھی اسکے پاس لیٹ گئ ۔وہ جب بھی ایمن کے گھر آتی تھی دونوں کزنز اکھٹے سوتی تھیں۔
*****************************
”نورالہادی تمہیں فون کالز آج کل کچھ زیادہ نہیں آنے لگیں“مسز تیمور ہادی کو ہال میں داخل ہوتے دیکھ کر بولیں وہ اپنے کمرے میں فوں سننے گیا تھا
”امّی دوست کا فون تھا“نورالہادی انکے پاس آ کے بیٹھ گیا
”پہلے تو دوست کا فون میرے سامنے سن لیتے تھے“مسز تیمور نے تفتیشی نگاہوں سے ہادی کو دیکھا
”امّی کچھ پرسنل تھا پلیز کیا ہو گیا ہے آپکو“ہادی اکتا کر بولا
”مجھے کیا ہو گا جب شادی کی بات کروں تو نہ کر دیتے ہو۔ پھر چھپ کر کمرے میں فون سنتے ہو۔میرے پاس پانچ منٹ بیٹھو تو تمہیں ہزاروں میسیجز آنے لگتے ہیں ۔اب بھی وجہ نہ پوچھوں“مسز تیمور سنجیدگی سے بولیں”اوکے اوکے سوری وقت
آنے پہ سب بتاؤں گا ڈونٹ وری“اس نے انکے ہاتھ پیار سے چومے
”تمہیں سمجھنامشکل ہے“وہ منہ بنا کر بولیں ہادی نے بس مسکرانے پے اکتفا کیا
*****************************
”مے آئ کم ان“ارسلان نے کمرے کا دروازہ ناک کیا۔ پریشے جو کسی سوچ میں گم تھی یک دم چونکی ۔ وہ صوفے پے بیٹھی تھی ارسلان کو دیکھ کر کھڑی ہو گئ مگر جواب نہ دیا
”اندر آ سکتا ہوں“ارسلان نےپھر سے پوچھا
”نہیں “پریشے نے سنجیدگی سے کہا
”ہوپ فلی تم میرے بارے میں سوچ رہی تھی رائٹ“منع کرنے کے
باوجود وہ کمرے میں داخل ہوا۔پریشے نے جواب نہ دیا ارسلان نے اسکی طرف دیکھا پریشے کی آنکھیں سوجی ہوئ تھیں
”تم روئ ہو“ارسلان نے خیرت سے پوچھا وہ اب بھی خاموش تھی
”پری پلیز یار تم کل میرے سامنے روئ اور پوری رات میں سو نہیں پایا “وہ بیٹھتے ہوۓ بولا پریشے اب بھی خاموش کھڑی تھی۔
”پریشے کل کے لیے معافی مانگنے آیا ہوں“اب اس نے آنے کی وجہ بیان کی پری نے اس کی طرف دیکھا
”کس بات کی معافی؟“وہ جانتی تھی مگر پھر بھی اس نے پوچھا
”کل میں نے تمہیں تنگ کیا پلیز مجھے معاف کر دو ۔میں صرف چاہتا تھا تم ایک بار مجھے کہو کے تم مجھ سے پیار کرتی ہو مگر تم نہیں مانی۔میں نے ضد کی غلط کیا مگر میرا اتنا حق تو ہے نا تم پے“ارسلان کھڑا ہو کر اس کے سامنے آیا
”میں معاف کر دوں تاکہ آپ پھر ایسا کریں۔میرا اعتبار توڑ دیا آپ نے۔ کتنا ڈر گئ تھی میں ۔“وہ بولتی چلی گئ۔ارسلان اسے دیکھتا رہا ۔پریشے نے وہ ہی کل رات والا سوٹ پہنا تھا مگر دوپٹا اس نےپھیلا کر لیا تھا اور بال اب بھی ویسے ہی چٹیا میں بندھے تھے۔
ارسلان نے وائٹ شلوار سوٹ پہنا تھا۔
”پری معاف کر دو میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں“ارسلان نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے
”پلیز ان سب کے ضرورت نہیں"
”اچھا تو میڈم چاہتی ہیں میں سٹ سٹینڈ کروں چلو وہ بھی ٹھیک ہے“وہ بچوں کی طرح کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کرنے لگا ”اٹس اوکے ٬اٹس اوکے“پریشے اسے روکنا چاہتی تھی اور وہ معافی کے بغیر نہیں رکتا تو اس نے اسے معاف کر دیا
”ویسے تھپڑ کافی سخت مارا تھا آپ نے“ارسلان مسکرا کر کہہ کر چلا گیا۔پریشے بھی مسکرا کر رہ گئ۔وہ دن بدن بدل رہا تھا۔ کبھی حد سے اچھا تو کبھی حد سے برا۔مگر جب بھی وہ اس سے معافی مانگتا وہ کبھی بھی شرماتا نہیں تھا۔ جو جتن کرنے
پڑیں کر کے اسے راضی کرتا تھا۔ پریشے ارسلان کو رپلائ کرتی بھی نہیں تھی مگر وہ اسے پل پل کی خبر دیتا تھا پریشے کو اس کی محبت پر یقین ہونے لگا تھا۔ پری
نے اپنا موبائل اٹھایا اور ٹائپ کیا
”ایم سوری ٹو“ ارسلان کو سینڈ کر دیا اور وہ مسکرا کر باہر نکل گئ
********************
"ڈاکٹر ہادی کہاں غائب ہیں آج کل آپ " ارسلان اس کے پاس آ کر کھڑا ہوا ۔ ہادی اسی کا انتظار کر رہا تھا
"اچھا ہوا تم نے زیادہ دیر نہیں کی ورنہ میں تمھیں دوبارہ کال کرنے ھی والا تھا " ہادی نے ارسلان کو دیکھ کر کہا
" یار ہادی صبح سے پتا نہیں کتنی کالز کر چکے ہو تم ۔ایسی بھی کیا آفت آن پڑی تھی "
" اچھا جیسے جناب کو کچھ پتا نہیں ہے نہ ۔ اگر میں کالز نہیں کرتا نہ تو وہ آفت اب تک تمہارے گھر ہوتی یہ تو میں ہوں جو اسے روک لیا کے میں تم سے پہلے بات کروں گا اسی سلسلے میں کالز کر رہا تھا " ہادی نے بتایا
" یار اسے بولو تم سے صبر نہیں ہوتا تھوڑا میں مینیج کر رہا ہوں نا سب " ارسلان کو غصّہ آ گیا
" مسٹر ارسلان جہانزیب میں اب آپکا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ جب تک ممکن تھا مینے تمہارا ساتھ بھی دیا اور سمجھایا بھی مگر تمہیں کچھ سمجھ نہیں آتا لہٰذا آج سے میرا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے سمجھے " ہادی نے دو ٹوک کہا
" ہادی یار کچھ دنوں کی بات ہے جہاں اتنی دیر ساتھ دیا کچھ دیں سہی پلیز میں مینیج کر لوں گا جلد ھی "
" ارسلان میں تمہاری مدد ہرگز نہیں کرنا چاہتا " ہادی کا لہجہ تھوڑا اونچا ہوا
" یہ میری ورکنگ پلیس ہے مائی یہاں بحث نہیں کر سکتا صرف دو ہفتے کا وقت ہے تمہارے پاس " ہادی اور ارسلان اس وقت ہسپتال کے گراؤنڈ میں کھڑے تھے یہ وہ ھی ہسپتال تھا جہاں ہادی جاب کرتا تھا ان دونوں کو آتے جاتے لوگ دیکھ رہے تھے جو کے ہادی کو مناسب نہیں لگ رہا تھا
" اوکے آئ ول ٹرائی مائی بیسٹ " ارسلان نے اس سے ہاتھ ملایا
************************
پری ، سائرہ اور اسامہ اب تک مسٹر جہانزیب کے گھر تھے ۔ سب ہال میں بیٹھے گپیں لڑا رہے تھے ۔ پری ایک سائیڈ پے ایمن کے ساتھ بیٹھی تھی۔ ایمن کب سے ڈائری لکھنے میں مگن تھی ۔اچانک سائرہ کی نظر اس پر پڑی
"ایمن تم کیا کر رہی ہو کب سے " سائرہ نے کہا مگر ایمن تو ڈائری لکھنے میں کچھ زیادہ ھی بزی تھی ۔۔ سائرہ اور پری نے خیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر پری نے کچھ سوچ کر عنایا کو آنکھ ماری ۔۔ پری نے اٹھ تک جھپٹ کر ایمن سے ڈائری کھینچی اور عنایا نے ایمن کو پکڑ لیا تا کے وہ ڈائری واپس نا لے سکے
" ہمیں بھی تو پڑنے دو کیا لکھا جا رہا ہے " عنایا نے ہنس کر کہا
"پری یہ غلط ہے چھوڑو عنایا مجھے چھوڑو ۔۔ پری کسی کی پرائیویسی چیک نہیں کرتے " ایمن چلا چلا کر بول رہی تھی "ہاہاہاہا پرائیویسی تو بیٹا اب ہم دیکھیں گے " سائرہ بھی پری کے ساتھ بیٹھ گئی
" ہائے ایمن تم کب سے دکھی شاعری کرنے لگی ۔۔۔ظالم ۔۔" پری نے ڈائری کے پیجز کو آگے کرتے ھوۓ کہا
" ہائے میں صدقے جاؤں خیریت تو ہے نا بچے " سائرہ نے اسے چھیڑا
"ایمن کو کہیں لوو تو نہیں ہو گیا " عنایا نے کہا جس پے ایمن نے اسے گھوری سے نوازا وہ واقعے ھی منہ پھٹ تھی ۔
"ضروری نہیں جو لڑکیاں دکھی شاعری کریں وہ بیمارِ عشق ہوں کچھ ماؤں کی ڈانٹ سن سن کر بھی دکھی شاعری کرنے لگتی ہیں " ارمان جو شائد ابھی ابھی آفس سے آیا تھا اور عنایا کی بات سن چکا تھا بولا ۔۔
سائرہ ،عنایا اور پری سب کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا مگر جب ارمان کی نظر ایمن پر پڑی تو وہ گھوری ڈالے کھڑی تھی
"یار کل ھی فیس بک پے پڑا تھا آج کام آ گیا "
"اچھا میں نے بھی کل ھی جان سہنا کی لڑائی دیکھی تھی مجھے لگتا ہے وہ بھی آج کام آ جائے گی " ایمن کہتے ھوۓ پاس پڑا پانی کا جاگ اٹھا کر ارمان کی طرف بڑی۔۔
ایمن نے ارمان لی طرف پانی پھینکا ھی تھا کے وہ آگے سے ہٹ گیا اور ارسلان جو ابھی ابھی ہال میں داخل ہوا تھا سارے کا سارا پانی ارمان کے ہٹ جانے کی وجہ سے ارسلان پر گر گیا
"ایمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے ٹھیکا لیا ہے کیا مجھ پے پانی پھینکنے کا " ارسلان مصنوعی غصّے سے بولا
"تو آپ کون سا شرنک ہونے لگے ہیں " پری کے منہ سے یک دم نکلا اسنے اپنے منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا
"ہاہاہاہا کم آن ارسلان یہ ھی تو فیملی کے مزے ہیں " سائرہ نے کہتے ھوۓ اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا
" آئ نو مائی سیس میں تو بس ایمن کو ڈرا رہا تھا " اسکی بات پر ایمن اور پری کی سانس بھال ہوئی
"اچھا میں چینج کر کے آتا ہوں "
"تم بیٹھو ۔۔اور ایمن تم جا کے ارسلان اور ارمان کے لئے پانی لے کر آو اور پری تم جا کر ارسلان کا شلوار سوٹ نکالو " سائرہ نے ان دونوں ویلیوں کو ہدایت کی ۔۔ اور وہ دونوں دم دبا کر بھاگیں
پریشے نے ارسلان کے کمرے میں قدم رکھا ایک خوبصورت خوشبو
کمرے میں چار سُو پھیلی تھی۔ وہ اپنے دھیان چلتی ہوئ گئ اور الماری کھولی۔کوئ شرٹ پریس نہیں تھی اسنے ایک شرٹ اٹھائ اور باہر نکل گئ۔
”ہف چلو خود ہی کر دیتی ہوں“ادھر ادھر دیکھنے پر اسے کوئ نظر نہ آیا۔ خود ہی استری آن کر کے اس نے شرٹ استری کرنی شروع کر دی۔ گرم استری سے جب وہ ہولےہولے شرٹ استری کر رہی تھی تو ہلکی ہلکی وہی خوشبو جو ارسلان کےکمرے سے آ رہی تھی شرٹ میں سے بھی آ رہی تھی...استری کرتے ہوۓ جس ہاتھ میں استری تھی اسکا وہ ہاتھ رکا پریشے نے استری سٹینڈ پر ٹکائ اور شرٹ اٹھا لی۔اس شرٹ میں سے اب بھی ہلکی ہلکی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ اس خوشبو میں کھو گئ اسنے دونوں ہاتھوں سے پکڑی شرٹ اپنے نزدیک کی ۔ابھی پریشے اس شرٹ کی خوشبو میں کھوئ ھی تھی کے کسی نے اسے کندھے سے پکڑ کے ہلایا
”ایکس کیوز می؟ “ایمن نے پریشے کو ہلایا پریشے نے بنا کچھ سوچے سمجھے مڑ کر اسے دھکا دیا اور جب دیکھا ایمن ہے تو شرمندہ ہونا تو بنتا تھا
”اوو تم“وہ جیسے خوش میں آئ
”ہاں اور کسے ہونا چاہیے تھا؟“ایمن خیرانگی سے بولی
”کسی کو بھی نہیں “وہ فر سے بولی
”اچھا سچی سچی بتاؤ بھائ کی شرٹ کو ساتھ لگاۓ کیوں کھڑی تھی؟“ اوو تو ایمن اسے جانے کب سے دیکھ رہی تھی وہ خاصی ڈھیٹ ہوئ
”ک..ک۔۔کچھ نہیں “پریشے بمشکل بولی
”اس صدی میں شرٹ مل جاۓ گی“ ارسلان نے آتے ہوۓ کہااور ان دونوں کے پاس آ کر رکا
”یہ میں پریس کرنے کے لیے لائ تھی“ایمن استری بند کرنے لگی۔۔ پریشے نے ارسلان کو شرٹ پکڑائ
”اب تم نے پریس کی ہے پہنوں گا تو خراب ہو جاۓ گی“ارسلان نے دلکش انداز میں مسکرا کر کہا ۔۔ پریشے مسکرائ اور اس کی وجہ وہ نہیں جانتی تھی۔۔ وہ تو کبھی بھی ارسلان سے فری نہیں ہوتی
تھی۔۔ مگر پھر بھی نہ جانے کیوں۔۔۔
”اچھا بھائ آپ پرفیوم کون سا یوز کرتےہیں“ایمن مسکراہٹ دبا کر بولی
”لیڈیر“ارسلان نے الٹ جواب دیا
”پلیز نا بی سیریس“پریشے نے ایمن کو آنکھیں نکالی مگر نہیں وہ کہاں سنتی تھی کسی کی۔۔
”کیوں“ارسلان نے پوچھا
”پریشے کو بڑی پسند آئ ہے“ایمن نے پری کے کندھے سے اپنا کندھا پٹخا
”ہا... مم.. مجھے نہیں..میں“پریشے سے بات نہ بنی وہ تیزی سے وہاں سے چلی گئ۔۔۔
*****************************
”تیمور آپ نورالہادی ہادی سے بات کریں نہ اب تو شادی کر لے ویسے بھی ڈاکٹری تومکمل ہو گئ ہے نہ اس کی“مسز تیمور نے اپنے شوہر سے کہا جو آج ہی بیرونِ ملک سے واپس آۓ تھی ابھی وہ سب کھانے کے ٹیبل پہ موجود تھے۔۔ ہادی چاول کی چمچ کھانے کے لیے اٹھانے لگا کے ماں کی بات سن کر چمچ پلیٹ میں رکھ دی
”امّی میں تنگ آ گیا ہوں آپکی روز روز کی بحث سے۔۔ جب مجھے کرنی ہوئ شادی کر لوں گا“وہ چڑ کر بولا ۔۔ شادی کی
بات اسکے بہت سے زخم تازہ کر دیتی تھی ۔۔
”ہادی کیا غلط کہا تمہاری امّی نے“مسٹر تیمور ایک اچھی پرسنالٹی کے مالک تھے چہرے پر تھوڑی سنجیدگی لیے وہ اپنے انداز میں بولی۔۔ ہادی نے پھر سے کھانا سٹارٹ کر دیا”تمہارے
سب فرینڈز کی شادی ہو گئ ہے بس تم ہی “مسز تیمور کو اسکا رویہ بہت برا لگا تھا
"امی میرے کسی دوست کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی " ہادی نے بات کلیر کی
"اچھا تو تم بھی نہیں کرو گے جب تک انکی نا ہوئی تو " وہ بھی کہاں ہار ماننے والی تھیں
"ابو مجھے لگتا ہے میں چالیس کا ہو گیا ہوں " ہادی نے اپنے والد کو دیکھ کر آنکھ ماری
" ہاں اب تو مجھے بھی یہ ھی لگتا ہے " وہ دونوں ہنسے ۔۔۔
" ہاں بناؤ میرا مذاق باپ بیٹا ۔۔خود تو آپ کی کمپنی کے لئے ہادی ہے نا میری تو وہ ھی بیٹی ہوگی نا " وہ اموشنل بلیک میل کرتی ہوئیں برتن اٹھانے لگیں
********************
پڑھ کر رائے کا اظہار ضرور کریں
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top