احساس تیسری قسط
وہ ابھی تک اپنی جگہ پر اسی حالت میں کھڑی تھی ۔ ارسلان نے ایمن سے مل کر پری کو نظر انداز کیاتھا لیکن کسی نے یہ نوٹ نہیں کیا سوائے پری اور ایمن کے کیوں کے باقی سب آپس کی باتوں میں مگن تھے ۔۔ مسز جہانزیب نے ارسلان کا ہاتھ پکڑا اور اسے ہال کی طرف لے آئیں ۔ سب نے اپنی اپنی جگہ سمبھال لی مگر پری اب تک ادھر ھی کھڑی تھی بلکل حیران ۔ایک ایسے شحص کو اپنے تایا کا بیٹا جاننا جس کو وہ بلکل پسند نہیں کرتی تھی اسکے لئے نا قابلِ یقین تھا ۔۔
"پری جھٹکا مجھے بھی لگا تھا پر اب بس کرو چلو "سب ہال میں بیٹھے تھے مگر ایمن جانے سے پہلے اسے ساتھ لینے آئ ۔
"ایمن یہ کیا یار "پری نے منہ بنایا
"تم نے اس سے تھوڑی بدتمیزی نہیں کی اب چپ کر کے چلو اس سے پہلے کسی کو شک ہو " ایمن بیچاری نے ہاتھ تو پری کا پکڑا تھا مگر دیکھ سب کو رہی تھی جو خوش گپییوں میں مصروف تھے
پری اور ایمن بھی سب کے پاس آ گئیں پری جہانگیر صاحب کے ساتھ بیٹھ گئی جو ارسلان کے سامنے بیٹھے تھے
"سب کا انٹرویو ہو گیا پر پری رہ گئی "ایمن نے چھیڑ ڈالی ۔۔پری نے اسے گھورا
"ارے ارسلان تم پری سے نہیں ملے یہ تمہاری واحد کزن ہے پریشے جہانگیر ۔ بابا جان کی بیٹی ۔ اور یاد رکھنا ہمارے پورے خاندان کی لاڈلی ہے یہ اگر تمہاری اس سے بن گئی تو فائدے میں رہو گے "سائرہ نے مسکرا کر کہا پری کی جھکی گردن اور جھک گئی
"مس پریشے "ارسلان نے کہا اور زیرِ لب مسکرایا
"ہاں باہر کے لوگ اسے مس پریشے ھی بلاتے ہیں مگر ہم سب پری کہتے ہیں "ارمان نے کہا جس پر پری کا دل کیا آج سب کی بولتی بند کروا دے یہ اس کی اپنی ھی ماری ہوئی شوہییاں تھیں جو وہ اپنا انٹرو دیتے وقت مارتی تھی
"تو میں آپ کو کس نام دے پکاروں "ارسلان نے مسکرا کر کہا(آج اس بندے کے دانت اندر نہیں ہوں گے ) پری نے سوچا ۔۔ ایسی مسکراہٹ جو ونر کرتا ہے جب وہ ون کرتا ہے
"جو آپ مناسب سمجھیں "وہ کہ کر اٹھ گئی اور کچن میں چلی گئی اس کے بعد وہ کھانے کے وقت ھی آئ مگر ارسلان کیا کسی سے کوئی بات نہیں کی ۔ مگر چور نگاہوں سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے
************************************
"کیا بات کر رہا ہے یار وہ تمہاری کزن ہے "فون سے کاشف کی آواز گھونجی
"ہاں یار وہ مس پٹر پٹر میری کزن ہے(یہ مل گیا پری کو نیا نام ) ۔۔ اور جانتے ہو آج میری وجہ سے میرے ھی سامنے اسکی بولتی بند تھی " ارسلان نے قہقہ لگایا (لگانا بنتا بھی تھا کیوں کے آج تک وہ چپ کر جاتا تھا پر پری نہیں پر آج سین کچھ الٹ تھا )
"میرے تو رگ رگ میں سکون اترا اسکو بھیگی بلی بنتے دیکھ کر ہاہاہاہا " ارسلان پھر بولا(اسکا دل کرتا تو چھلانگیں لگاتا )
"یار پتا چل گیا تمہاری کزن ہے اب ہم لڑکیوں کو ڈسکس کرنا بند کریں ؟" ہادی نے کہا جس پر ارسلان اور کاشف کو تپ چڑ گئی
یہ تینوں کانفرنس کال پر تھے جو ارسلان نے کی تھی ۔۔ ہادی پچھلے آدھے گھنٹے سے ان کے اونگ بونگ سن کر تنگ آ گیا تھا
"یار تجھے ھر لڑکی سے پرابلم ہے جا بہن بنا لے جا کر اسے ۔۔ نیچے کچن میں ہے کروا دوں بات "ارسلان ہادی کی عادت جانتا تھا وہ شرو ع سے لڑکیوں سے بھاگتا تھا بات کرتے کرتے اچانک اسکی نظر دروازے پر کھڑی پری پے پڑی جو ہاتھ میں ٹرے پکڑے نا جانے کب سے کھڑی تھی ۔۔ ارسلان کا فون نیچے گرتے گرتے بچا (کیا اس نے سب سن لیا تھا خیر سن لے سانو کی ) ارسلان نے سوچا
"میں اندر آ سکتی ہوں ۔۔ ویسے مجھے نہیں لگتا مجھے اجازت کی ضرورت ہے کیوں کے مینرز آپ کے تو میں دیکھ ھی چکی ہوں "وہ بات کرتی ہوئی اندر داخل ہوئی ارسلان نے فون آ ف کر دیا اب وہ موقع پے چوکا مارنے والی یہ بات کیوں جانے دیتی
"امی نے آپ کے لئے گرین ٹی بھیجی ہے انہیں لگ رہا ہے آپ کھانا کھا کر آ کے لیٹ گئے ہیں تو کھانا ہضم نہیں ہوا ہوگا(جیسے میرا نہیں ہوا تمھیں ادھر دیکھ کر ۔۔پری نے سوچا ) "پری نے ٹرے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھی اب شرمندگی کی باری ارسلان کی تھی ۔۔پری اندر اندر خوش تھی کے ارسلان کو ستانے کا موقع مل گیا تھا
"خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں نے آپ کی ساری گفتگو سن لی ہے "وہ کہ کر دروازے کی طرف بڑھی پھر کچھ یاد آنے پر مڑی
"اور شرمندہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں میں جانتی ہوں آپ آوٹ آف کنٹری سے آے ہیں آپ کو گرلز کی عزت کرنا نہیں آتی ،اکیلے رہنے کی وجہ سے آپ کو دوسروں سے بات کرنے کی تمیز بھی نہیں سو ڈونٹ ووری ڈیر کزن۔ اتنی سی بداخلاقی میں برداشت کر لوں گی ۔۔ گڈ بائے "اس نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلایا اور چلی گئی
ارسلان گہری سوچ میں ڈھوب گیا پہلی بار کسی نے اتنی مٹھی بے عزتی کی تھی۔کیا حاضر جواب لڑکی تھی کوئی بات مس نہیں کرتی تھی
************************************
مجھ جیسا جہاں میں نادان بھی نہ ہو
کر لے عشق جو کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو
کچھ نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے
بن میرے شائد آپ کی پہچان بھی نہ ہو
رونا یہی ہے کے اسے چاھتے ہیں ہم
۔جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ہو
"ایک سادہ سی موڈی لڑکی کب میرے دل میں اپنا گھر بنا گئی میں تو جان بھی نہیں پایا ۔ نہ کوئی دستک دی اور نہ ھی آہٹ محسوس ہونے دی۔ میں نہیں جانتا تھا کے وہ اتنی آسانی سے مجھے مل جائے گی ۔ ایک مال میں ملنے والی لڑکی میری زندگی میں کب سے اتنی اہمیت رکھنے لگی میں نہیں جان پایا ۔۔" اس نے پری کے بیشمار سکیچز بنائے تھے جن کو سامنے رکھ کر وہ ڈائری لکھ رہا تھا ۔۔ کمرے کی کھڑکی کھلی تھی ۔۔ باہر یقینًا بارش ہونے والی تھی ۔۔
"اب تم بہت جلد میرے گھر ہو گی پریشے ۔۔" وہ پری کا سکیچ دیکھ کر بولا ۔۔وہ اپنی محبت کو حلال نام دینا چاہتا تھا حلال طریقے سے اسے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا خواہش مند تھا ۔وہ اسکے سکیچز کو دیکھ رہا تھا
اچانک تیز ہوا کا جھونکا کھڑکی سے آیا اور سکیچز کمرے میں بکھر گئے۔۔اسے جیسے سب بھول گیا وہ جلدی سے اٹھ کر سمیٹنے لگا ۔۔ ھر جگہ کمرے میں پری کے سکیچز تھے
************************************
پریشے شاور لے کر نکلی تھی اور بال ڈرائی کر رہی تھی جب حسن کمرے میں داخل ہوا
"پری باہر بہت اچھا موسم ہے میں ہم دونوں کے لئے چائے لایا ہوں چلو پیتے ہیں باہر بیٹھ کر "حسن نے اسکی طرف چائے کا کپ بڑایا
"حسن بھائی میں کافی تھک گئی ہوں مگر ٹی سے انکار نہیں کر سکتی ہاہا چلیں "اسنے مسکراتے ھوۓ بالوں کو کیچر لگایا اور ٹی مگ حسن سے لیا ۔(چائےکے شوقین لوگوں کے لیے اتنا ھی کافی ہوتا ہے کے کوئی انکو چائے بنا دے )۔ وہ دونوں چلتے ھوۓ باہر آ گئے
بارش شرو ع ہو چکی تھی ہال سے نکل کر وہ انٹرینس سٹیرز پر بیٹھ گئے ۔ بارش کی تھوڑی تھوڑی بوندیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے ان پر بھی پڑ رہیں تھیں ۔
"ویسے آج مہر بانی کی خاص وجہ "پری نے چائے کا سپ لے کر کہا کیوں کے وہ جانتی تھی حسن ایسے تو مہربان نہیں ہوتا ضرور کوئی کام کروانا ہوگا
"ارسلان کے آنے کی خوشی میں "حسن مسکرا کر بولا
"ہاہا اوہ پلیز اتنی جلدی آپ فری بھی ہو گئے اس سے "وہ جانتی تھی حسن مذاق کر رہا تھا
"ویسے ہو تو گیا ہوں فری اس سے "
"ہاں کھانے کے دوران بھی کافی گپیں لگا رہے تھے آپ دونوں " پری نے اسے یاد کروایا کے وہ سب کچھ نوٹ کر رہی تھی
"ہاں وہ اپنے فرینڈ کا بتا رہا تھا ۔ میرے ساتھ ایک اور لڑکا جاب کرتا ہے نورالہادی تیمور وہ ارسلان کا بھی دوست ہے ارسلان نے بتایا ہے بس پھر اسی طرح کوئی نہ کوئی بات شرو ع ہو جاتی تھی "
پری کو اب پھر جھٹکا لگا تھا وہ ہرگز نہیں جانتی تھی کے ان لوگوں سے اتنا لمبا پالا بھی پڑھ سکتا ہے
"اوہ کیا حسین اتفاق ہے " وہ مجبورًا مسکرائی اتفاق وہ بھی حسین یہ اتفاق حسین ہرگز نہیں ہو سکتا تھا پری نے سوچا
"ویسے تم نے ٹھیک سے بات نہیں کی تمہاری خاموشی مجھے ہضم نہیں ہوئی ۔۔"حسن نے یاد آنے پر پوچھا کیوں کے پری اور خاموش یہ سچ میں عجیب تھا کیوں کے اسکی پرانی عادت تھی وہ بہت باتونی تھی کوئی بھی مہمان انکے گھر آتا تھا تو وہ لمبا لمبا انٹرو لیتی ہے
" بس ایسے ھی " پری نے اگنور کرنا چاہا
"ارسلان اچھا نہیں لگا تمھیں " حسن نے پری کو دیکھ کر کہا جو بارش کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی
"ہمم اچھا ہے " اس نے منہ بنا کر چائے کا لاسٹ سیپ لیا
"اچھا جی تو میڈم اب مجھے ایک بات تو بتائیں " وہ کام کی بات پر آیا پری نے اسکی طرف منہ کیا جیسے کہ رہی ہو شکر ہے جلدی یاد آ گیا
"جی جی بولیں "پری نے کہا
"یار بھابی لوگوں نے کون سی لڑکی میرے لئے پسند کی ہے " حسن نے کہا اور پری نے قہقہ لگایا
"ہاہاہاہا بھائی حد ہو گئی اس لئے آپ نے مجھے بلایا ہے " پری حیران ہوئی
"ہاں جی اور میں پاگل ہوں کے بارش میں تمھیں ھی لے کر آتا اور چائے بھی بنا کر دیتا " حسن نے اسے چھیڑا
"تو مسکینوں والی شکل تو نہ بنائیں ہاہاہاہا "پری بولی
"حد ہے اچھا میں نہیں بتاؤں گی بیٹھے رہیں اکیلے اوکے "وہ منہ بنا کر اٹھ گئی ۔۔ کیوں کے بھابی نے حسن کو بتانے سے خاص طور پر منا کیا تھا
************************************
"میں اندر آ سکتی ہوں بیٹا "مسز جہانزیب نے دروازہ ناک کرتے ھوۓ کہا
"اوہ امی ضرور پلیز آئیے نہ "ارسلان اپنے کپڑے الماری میں لگا رہا تھا ..
"لو جی میرے بیٹے نے آتے ھی کام سٹارٹ کر دیا ۔ آج ریسٹ کرو کل میں خود ساری سیٹنگ کر دوں گی " مسز جہانزیب بات کرتے ھوۓ سوفے پر بیٹھ گئیں ۔ارسلان بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا
"امی کوئی بات نہیں میں بچپن سے اپنے کام خود کرنے کا عادی ہوں میری عادتیں نہ بھیگاڑیں"وہ مسکرایا ۔۔
"عادت بگاڑنے کی کیا بات ہے بیٹا تم اب ادھر ہو ہمارے پاس اور یہاں بہت سے لوگ موجود ہیں تمھارے نخرے اٹھانے کے لئے " وہ ارسلان کو دیکھ کر بولیں جو زمین پر نظریں جما کر بیٹھا تھا
"اچھا اور کبھی مجھے آپ کو چھوڑنا پڑا تو پھر "وہ انکی طرف دیکھ کر بولا
"اللہ نہ کرے ایسا نہیں بولتے تمھیں بھیجنے کے لئے نہیں لاے ۔" دونوں کے بیچ تھوڑی دیر خاموشی رہی
"ایک بات کہنی تھی ارسلان (مسز جہانزیب نے بولنا شرو ع کیا ) بیٹا جب تم ابھی اس گھر میں نہیں آے تھے اور مجھے بتایا گیا تھا کے تم آ رہے ہو تو میں پریشان تھی اس لئے کیوں کے بیٹا میں نہیں جانتی تھی تم سے مل کر میں کیا رویہ اپناؤں گی۔ جن سے ہم محبت کرتے ہیں نہ ان رشتوں میں ہمیں شراکت گنوارا نہیں ہوتی ۔اپنی سگی ماں بچے کو اچھے پر ڈانٹے یاں برے پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا مگر اگر سوتیلی ماں بچے کی بہتری پر بھی اسے ڈانٹ دے تو لوگ تانا بنا دیتے ہیں یہ ھی وجہ ہے کے کوئی عورت اس مرد سے شادی نہیں کرتی جس کی پہلے شادی ہو چکی ہو اور بچے بھی ہوں 100 میں سے 40 فیصد ھی کرتی ہیں پھر چاہے ان بچوں کو ماں کی کتنی ضرورت کیوں نہ ہو ۔میں نہیں جانتی میں تمھارے حقوق پورے کر پاؤں گی یاں نہیں ۔ میں نہیں چاہتی تھی تم اس گھر میں اؤ لیکن جب میں نے دیکھا کے ارمان اور ایمن کو ایک دن میں گھر نہ ملوں تو ان کا جو حال ہوتا ہے مجھے احساس ہوا کے میرا ایک اور بیٹا بھی ہے جس کو میری بیحد ضرورت ہے۔ میں ھر کوشش کروں گی کے تمھیں اپنی ماں کی کمی محسوس نہ ہو بس تم مجھے ویسے ھی ماں سمجھنا جیسے ارمان اور باقی سب سمجھتے ہیں " انہوں نے بات مکمل کر کے ارسلان کو دیکھا
"اب تو آپ مجھے دھکے دے کر بھی نکالیں تو نہیں جاؤں گا " ارسلان نے مسکرا کر کہا مگر اسکی آنکھیں نم تھیں۔۔اموشنل ۔۔
"ایسا کبھی نہیں ہوگا پوری دنیا تمہارے خلاف ہو جائے مگر میں تمہارا ساتھ ہمیشہ دوں گی " انہوں نے پیار سے ارسلان کو دیکھا بات بات میں وہ کتنا بڑا وعدہ کر گئیں تھیں وہ نہیں جانتی تھیں
"پرومس "اسنے ہاتھ آگے کیا
"پکا والا "مسز جہانزیب نے ہاتھ ملایا ۔۔ ارسلان کی نم آنکھوں سے آنسو اب اسکے رخسار پر تھا مسز جہانزیب نے ہاتھ سے اسکا آنسو صاف کیا اور اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔ انکا دل سچ میں بڑا تھا سوکن کے بچے کو پیار کرنا مشکل ہوتا ہوگا مگر وہ سوکن کا بچا نہیں اسے اپنے شوہر کی اولاد سمجھ کر پیار کر رہی تھیں ۔۔ارسلاںن بھی نہ جانے کب سے ان رشتوں کی تلاش میں تھا اب وو الگ ہو کر بیٹھا
"آپ ابا جان سے بہت پیار کرتی ہیں "ارسلان نے بچوں سا سوال کیا
"بہت "انہوں نے جواب دیا
"اور مجھ سے "ارسلان کے سوال پے انہوں نے اسے دیکھا
"مجھے آپ کے ابا سے جڑے ھر رشتے سے محبت ہے " انہوں نے خوبصورتی سے جواب دیا کیوں کے وہ اسے اپنے شوہر کی اولاد تسلیم کر چکی تھیں اب جب حقیقت بدلی نہ جا سکے تو حقیقت برداشت کرنا ھی بہتر ہوتا ہے
سچ ہے جس سے محبت ہو اس سے جڑی ھر چیز سے محبت ہو جاتی ہے پھر وہ چاہے رشتے ھی کیوں نہ ہوں ۔۔ محبت تو سیکریفائز مانگتی ہے۔۔۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کے آج انہوں نے کتنا بڑا وعدہ ارسلان سے کیا تھا اور اس وعدے پر کس کس کو نقصان اٹھانا پڑے گا
************************************
"پریشے ۔۔۔ اٹھ جاؤ نہ "ایمن کی لاکھ کوششوں پر بھی جب وہ ہاں کیا ہے کر کے سو گئی تو ایمن نے اسکے اوپر سے کمبل ہٹا دیا
"یار ایمن کیا ہے کیوں صبح صبح تنگ کر رہی ہو سونے دو نہ "پری ایمن کی عادت دے واقف تھی وو خود تو سنڈے کو جلدی اٹھ جاتی تھی مگر آ کر پھر پری کو بھی اٹھاتی تھی تا کے سنڈے انکا خوب مزے کا گزرے
"میڈم صبح نہیں ہے دوپہر کا ایک بج رہا ہے "ایمن دور ہو کر بیڈ پے ھی بیٹھ گئی
"اوہ یار ایک تو سنڈے کو بھابی بھی نہیں اٹھاتیں "پری اٹھ کے بیٹھ گئی اور بال جوڑے کی طرح باندھنے لگی
"اچھا مجھے تم سے کام تھا اصل میں یہ بتانا تھا کے آج ہم سب سات بجے شام کو باہر جا رہے ہیں ہوٹل میں کھانا کھانے تو تم بھی ریڈ ی رہنا سب کزنز ہوں گے مزہ آے گا "ایمن نے اکسائٹیڈ ہو کر ہاتھ آگے کیا پری نے ہاتھ اس کے ہاتھ پے مارا
"یاہووو ۔۔۔ مزہ آے گا "پری اور ایمن تو صدا کی شوقین تھیں گھومنے پھرنے کیں
"اچھا ویسے خاص وجہ "پری نے پوچھا
"ہاں بھائی ارسلان پارٹی دے رہے ہیں ان کے گھر آنے کی خوشی میں " ایمن لے بتانے پر پری کا اچانک منہ بن گیا
"یار میں نے نہیں آنا پھر کیوں کے مجھے اس کے آنے کی کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی "پری نے بولا تو ایمن نے اسے گھورا
"اچھا جی خوشی نہیں ہوئی تو میڈم آپ کا ھی کیا دھرا ہے کس نے کہا تھا راہ چلتے لوگوں سے پنگے لو "
"ایمن اب تمہارا بھائی آ گیا ہے تو تم بھی اس کا ھی ساتھ دو گی نہ پھر "پری نے چھیڑا
"ہاہاہاہا یار تم تو میری بیسٹ فرینڈ ہو بس میں تو کہ رہی ہوں اگر بھائی بات نہیں دوہرا رہے تو تم بھی نہ کرو "ایمن نے وال کلاک پے نظر ڈالی
"اوکے یارا میں جا رہی ہوں تم بھی جلدی ریڈی ہو جانا اور نہ آئ تو میں نے اٹھا کے لے جانا ہے "وہ جلدی سے اٹھی اور بول لے باہر نکل گئی ۔۔ پری سوچ میں ڈوب گئی ارسل کا سامنا کرنا اسے مشکل لگ رہا تھا
************************************
"آپ کی میڈم اور کتنا لیٹ کریں گی ؟" ارسلان نے گاڑی کا ہارن دیا اور ایمن سے بولا جو ابھی ابھی فرنٹ سیٹ پر آ کر بیٹھی تھی
"آ جاتی ہے بھائی تھوڑا سا انتظار تو کر لیں " ارسلان اور ایمن گاڑی میں بیٹھے پری کا انتظار کر رہے تھے کار پری کے گھر کے سامنے کھڑی کی تھی کیوں کے وہ لوگ جانے والے تھے پر پری کی تیاری ختم نہیں ہوئی تھی ۔ اتنی دیر میں پری اپنے گھر سے نکلی ارسلان کی نظر یک دم اس پے پڑی اور ٹھہر سی گئی
بلیک کرتا ،بلیک ٹراوزر کے اوپر بلیک دوپٹہ جو اسنے گلے میں ڈالا تھا بلیک پمپس اور سلکی بالوں کو اسنے فرنچ چٹیا بنا کر چھوٹی ایک سائیڈ پے کر رکھی تھی کلا ئی میں بلیک گرلز واچ جو اسکی ہمیشہ سے عادت تھی واچ وہ ضرور پہنتی تھی ۔ ہاتھ میں صرف فون تھا میک اپ اسنے نہیں کیا تھا ہاں لیپ پے پنک لیپ سٹک لگائی تھی وہ سچ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ ۔۔گاڑی کے پاس پوھنچ کر اسنے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا اور بیٹھ گئی
"آپ لوگ گئے نہیں ابھی تک " بیٹھتے ھی اس نے کہا
"کیا مطلب "ایمن بولی
"مطلب مجھے لگا تھا آپ لوگ جا چکے ہو گے اور آپ لوگ تو میرا انتظار کر رہے ہیں "پری نے کہ کر باہر دیکھنا شرو ع کر دیا
"یار ایک سوری بول سکتی ہو تم" ارسلان نے چڑ کر کہا
"وہ کیوں "پری نہ سمجھی سے بولی
"وہ اس لئے کے ہم تمہاراہاف آور سے انتظار کر رہے تھے "ارسل نے بتایا
"تو میں نے تو نہیں کہا تھا کے آپ لوگ انتظار کرو مجھے لگا جا چکے ھوگے آپ لوگ اور ویسے بھی میرا جانا اتنا ضروری بھی نہیں تھا "پری نے بےفکری سے کہا ارسلان کا دل کیا کوئی چیز لے کر اس کے سر پے دے مارے
"ایمن نہ کہتی تو میں انتظار کرتا بھی نہ "
"اچھا قصور آپ لوگوں کا ہے آپ لوگوں نے سات بجے کا ٹائم دیا اور 6:30 ھی آ گئے تو میں تو ٹائم پر ھی تیار ہوتی نہ "پری نے کہا
وہ سر جھٹک کر رہ گیا
پری ،ایمن اور ارسلان ایک گاڑی میں گئے تھے جب کے ارمان عنایا کو لینے پہلے چلا گیا تھا کیوں کے کھانے کے بعد یں لوگوں کو شادی کے لئے شوپنگ پر بھی جانا تھا تو عنایا کو بھی اجازت مل گئی تھی
پورے راستے ان میں مزید کوئی بات نہ ہوئی ہوٹل جا کر عنایا اور ارمان بھی آ گئے اب سب بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے
۔۔پری اب بھی خاموش تھی عنایا کو بات ہضم نہ ہوئی
"یار پری تم کیوں چپ ہو " کھانا وہ لوگ کھا چکے تھے
"اوہ تو یہ بولتی بھی ہیں "ارسلان مسکرایا
"کیوں آپ کو نہیں پتا "ایمن نے ارسلان کو آنکھ مر کر کہا
"ہاہا میں کیسے بھول سکتا ہوں وہ سب "ارسلان نے کہا جس پر ارمان نے حیرانگی سے اسے دیکھا
"وہ سب کیا "ارمان نے پوچھا جس پر ایمن نے پوری روداد سنا دی
"اوہ یار حد ہو گئی ہے ہاہا پری تو یہ تھا وہ لڑکا جس کے بارے میں تم نے بتایا تھا مال میں لڑائی والا "ارمان کو بہت ہنسی آ رہی تھی
"اوہ تو میں تو بہت فیمس ہو گیا تھا "ارسل نے پری کو تنگ کرنا چاہا
"اچھا چھوڑو سب باتیں یار میں آج سچ میں پری تمھیں سوری کہنا چاہتا ہوں یار میں نے آج تک کسی سے ایسے بات نہیں کی تم نے روڈ طریقے سے بات کی تو میں بھی روڈ ہو گیا اب سب بھول جاؤ میں نے آج تک کسی کو۔ سوری نہیں کہا مگر آج میں تم سے کہ رہا ہوں آئ ایم سو سوری فار ایوری تھنگ " ارسلان نے التجا کی تھی
"اٹس اوکے میں بھی بہت روڈ بات کی آئ ایم سوری "پری نے معاف کر دیا کیوں کے ان کی لڑائی اتنی بڑی بھی نہیں تھی
"اچھا اب تم مجھے ارمان جیسا ھی سمجھنا فرینڈز "ارسل نے کہا
"امم ۔۔۔ اس موٹے آلو کی جگہ تو کوئی نہیں لے سکتا تمہاری اپنی جگہ ہو گی "پری نے مسکرا کر کہا
"ہاے شکر ہے لڑائی ختم ہوئی " ایمن نے کہا
"اور کیا تم میرے ہونے والے شوہر کو موٹا آلو بولتی رہتی ہو "عنایا نے ہنس کر کہا
"یار یہ بچپن میں بہت موٹا تھا بس تب سے ھی ہم اسے موٹا آلو کہتے ہیں ہاہاہا " پری نے عنایا کو وجہ بتائی
وہ سب اب اپنی خوش گپیوں میں مگن ہو گئے تھے
***********************************
"ارمان آپ نے مجھے اپنی شکل دیکھنے کے لئے بلایا ہے یہاں "عنایا تنگ آ کر بولی
وہ لوگ کھانے کے بعد شوپنگ پر آے تھے شادی میں دن بہت کم تھے مگر ارمان نے عنایا کو اس کی مرضی کی ایک عدد چیز بھی نہیں لینے دی تھی
"عنایا جی اب تو اس کی عادت ڈال ھی لیں آپ " ایمن مسکرا کر بولی
"یار ارمان عنایا کو پسند کرنے دو جو وہ لینا چاہتی ہے لے لے "پری نے ارمان کو کہا
"ہاں پری بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے "ارسلان نے ہاں میں ہاں ملائی
"اللہ خیر کرے یہ کیوں میری طرفداری کر رہا ہے ؟" پری نے سوچا
"یار چپ کرو تم لوگ ۔۔عنایا شادی تم مجھ سے کر رہی ہو ظاہر ہے میں تمھیں پسند ہوں تو میری پسند کی ہوئی چیزیں بھی تمھیں پسند ہوں گی اور ہونی بھی چاہیے "ارمان نے عنایا کو دیکھ کر کہا جس پر اسنے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا جیسے سوچ لیا ہو اب اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔پری سر جھٹک کر آگے بڑھ کر اپنے لئے کپڑے پسند کرنے لگی کیوں کے وہ جانتی تھی ارمان تو اپنی مرضی کی ھی شاپنگ کروائے گا
"پری تم ریڈ کلر لو تمھیں سوٹ کرے گا "ارسلان نے اس کے پاس کھڑے ہوتے ھوۓ کہا
"میری مرضی میں جو مرضی لوں " وہ غصے سے کہہ کر عنایا کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی ۔جب سے ارسلان سے اس کی صلح ہوئی تھی وہ اس سے زیادہ بات کر رہا تھا پری نے معاف کیا تھا مگر فرینک ہوتے ٹائم لگتا تھا
"یار عنایا جیسے ارمان اپنی من مانی کر رہا ہے نہ اگر میرا ہسبنڈ ایسا کرتا تو اسی وقت چھوڑ کے چلی جاتی "ارمان کو کپڑے سلیکٹ کرتے دیکھ پری کو غصہ آ رہا تھا
"آپ کو بھی دیکھ لیں گے مس پریشے "ارسلان نے مسکرا کر کہا
"مسلہ کیا ہے آپ کو بچ جائیں آپ مجھ سے "وہ چڑ کر بولی
اس کی بات پے عنایا ،ارسلان یک دم ہنسے
"ارمان میرے لئے جو پسند کریں گے مجھے پسند ہو گا " عنایا نے کہا جس پے پری نے اسے گھوری ڈالی کیوں کے تھوڑی دیر پہلے وہ خود ھی کہ رہی تھی کے اسکی مرضی نہیں پوچھی جا رہی اور اب ۔۔۔
"تمھیں بھوت سوار ہو گیا ہے فرمانبرار بیوی بننے کا "پری کہہ کر پیر پٹخ کر جیولری والی سائیڈ چلی گئی
************************************
نام تیرا میری زبان پے خود ھی آ جاتا ہے
جب کوئی مجھ سے میری آخری خواہش پوچھتا ہے
"کوئی انسان کس طرح آپ کے دل و دماغ پے قبضہ کر لیتا ہے اور آپ کو علم بھی نہیں ہوتا ۔ پہلے مجھے خواہش اس سے ملنے کی ہوتی تھی کے کہی نہ کہی راہ چلتے میں اسے دیکھ لو مگر اب خواہش اسے اپنی زندگی میں شامل کرنے کی آ گئی ہے میں جانتا ہوں اب میرے اور اس کے درمیان صرف چند رسموں کا فاصلہ جو رسمیں نبھا کر میں اب اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ میں اسے اپنی زندگی میں لا کر اپنی محبت کو ایک پاکیزہ نام دینا چاہتا ہوں" وہ اسی انداز میں روانی سے لکھ رہا تھا ۔۔۔جب اسکی نظر سامنے پڑے پریشے کے سکیچز پر پڑی
سنا ہے اتنی مدّت میں تو پتھر بھی بول پڑھتے ہیں
پھر تیری تصویریں مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتیں
اپنے خیالات کو وہ کاغذ کے پنوں پر اتار رہا تھا ۔۔
مگر اب اسکی نظر سکیچز پر ٹھہر گئی تھی
************************************
"میری پرنسیس کیا کر رہی ہے "ولید کمرے میں داخل ہوا پری نے اپنا ناول سائیڈ پے رکھا اور مسکرا کر سیدھا ہو کر بیٹھ گئی
"کچھ نہیں بس ناول پڑھ رہی تھی "پری نے مسکرا کر کہا
"آہا کون سا ناول مجھے بھی تو دکھاؤ "ولید نے ناول کی طرف دیکھتے ھوۓ کہا اور ساتھ ھی پری کے پاس بیٹھ گیا
"بس ایسے ھی بھائی آپ چھوڑیں۔ بتائیں کیا کر رہے ہیں آج کل مینز کام کیسا جا رہا ہے "
"کام الحمداللہ بہتر جا رہا ہے ۔ حسن جب سے کراچی گیا ہے میں تو بزی ہو گیا ہوں سب کام میرے اوپر آن پڑے ہیں شادی کی تیاریاں بھی اور آفس کا کام بھی ۔ خیر آفس کا کام تو اب ڈبل ہو گیا ہے ۔ ارمان صاحب بھی آفس آنا پسند نہیں کر رہے ۔اتنے بزی ہیں اپنی شادی کی تیاریوں میں " حسن کام کے سلسلے میں کراچی گیا تھا اور ارمان شادی کی تیاریوں میں لگا تھا جس کی وجہ سے ولید پر بہت کام آن پڑا تھا
"آہا ارمان اور گھر کے کاموں میں بزی ؟" پری خیران ہوئی
"ہاں جی پر اگر کام اسکی شادی کے ریلاٹڈ ہو تو "ولید نے کہا جس پر وہ دونوں مسکرائے
"پری تم سے ایک بات کرنی تھی تم جانتی ہو ہم سب تم سے کتنا پیار کرتے ہیں ابا کی فیملی کو ہم نے کبھی الگ نہیں سمجھا ہم سب ایک ھی فیملی ہیں۔ پرنسیس ہم سب ارسلان سے اٹیچ ھوۓ ہیں مگر ابھی شائد اتنے نہیں ھوۓ جتنے ہم سب آپس میں ہیں اگر ارسلان کا رشتہ ہمارے ساتھ یر طریقے سے گہرا ہو جائے تو ی تھنک یہ بہت فائدے مند ہوگا ہم سب کے رشتوں کے لئے " پری کو سمجھ نہیں آ رہا تھا ولید اسسے یہ باتیں کیوں کر رہے ہیں اس نے بس اثبات میں سر ہلایا
"پری تم سے ہم سب بہت پیار کرتے ہیں ۔ ایمن اور سائرہ بھی ہیں مگر تم سے سب بہت محبت کرتے ہیں۔ اپنے بھائیوں کی تو تم جان ہو نہ ۔۔ میں اتنا بھی چھوٹا نہیں تھا جب تم پیدا ہوئی تھی اور پھر امی بھی چھوڑ کر چلی گئیں میں نے تب ھی سوچ لیا تھا تمھیں کبھی بھی امی کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا اپنی پرنسیس بنا کر رکھوں گا اسی لئے میں تمہیں پری ین پرنسیس کہتا ہوں مجھے یقین ہے تم میری بات کبھی بھی نہیں ٹالو گی"
"جی بھائی میں ھر ممکن کوشش کروں گی کے آپ کی امیدوں پر پورا اتروں لیکن آج آپ کیوں ایسی باتیں کر رہے ہیں "پری پوچھے بنا رہ نہیں سکی
"ابا جان نے تمہارا رشتہ مانگا ہے ارسلان کے لئے "ولید کی بات پر پری کو لگا جیسے اسنے غلط سنا ہے اس نے حیرانگی سے ولید کو دیکھا
"ابا جان کو ہم سے پوچنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن بابا جان کو انہوں نے تمہاری رائے جاننے کا بولا ہے ہم نہیں چاھتے تمہارے ساتھ زبردستی کریں ۔پری ارسلان مجھے بہت پسند ہے ہینڈسم بھی ہے اور گھر کا بچا بھی تم ہمارے پاس ھی رہو گی "
"بھائی میں پڑنا چاہتی ہوں اور آپ کو چھوڑ کے کبھی بھی نہیں جانا چاہتی "اسسے بہانہ بھی نہیں بن پا رہا تھا
"پرنسیس ابا جان نے کہا ہے اگر پری چاہے تو شادی کے بعد بھی اپنے گھر ھی رہ سکتی ہے اور ابھی منگنی کرنی ہے تم جب اسٹڈی کمپلیٹ کر لو گی پھر شادی کا سوچیں گے "
"بھائی میں ۔۔۔۔"وہ کہنا چاہتی تھی لیکن کیا ؟ کیا بہانہ کرتی وہ جانتی کتنا تھی اسکو صرف چند دن ھی ھوۓ تھے مگر ارسلان کے ساتھ اسکا رشتہ جوڑ کر اس لے گھر والے مطمعین ہو جاییں گے وہ بس یہ سوچ رہی تھی
"پری ۔۔ مجھے تم پر مان ہے تم میری بات نہیں ٹالو گی "
"مجھے کوئی اعتراض نہیں بھائی " پری نے نظریں جھکا کر کہا۔۔
ولید نے اسے خوشی سے گلے لگایا
*******************
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top