احساس
قسط نمبر 1:
اپنوں اور بیگانوں سے جڑے ارمان لکھتی ہوں
شوق ہے میرا میں جذبات لکھتی ہوں
تھی جو توقع اپنوں سے وابستہ
انکا ہوا کیا انجام لکھتی ہوں
کبھی جو کھل کر نہ برس پائے اشک
انکی دیکھی ہے جو برسات لکھتی ہوں
کر دیں ختم امیدیں تھیں جو دوسروں سے وابستہ
اپنے خالق و مالک پر کر کے بھروسہ کچھ الفاظ لکھتی ہوں
میرے شوق کا موازنہ نا کرنا شعروشاعری سے
سادہ سی لڑکی ہوں گمشدہ سے الفاظ لکھتی ہوں
مجھے معلوم ہے عنوان الگ ہے میرا
تم سودوضیاں کا احساس اور میں احساس لکھتی ہوں
جو لکھی ہر لڑکی کی داستاں تو بن گئی اک کہانی
رکھ کر اسکا اک عنوان نام "احساس " لکھتی ہوں
"السلام عليكم" سائرہ بھابی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں مگر بیڈ پر نظر ڈال کر وہ آگے بڑھیں اور بے سد پڑی لڑکی پر سے کمبل ہٹایا "گڈ مارننگ "
"آہا۔۔۔ بھابی تھوڑی دیر اور پلیز " پریشے نے کہہ کر دوبارہ کمبل اوپر لے لیا
"میری جان مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے پر آپ کے بابا اور بھائی جان لیٹ ہو جائیں گے آپ تو جانتی ہیں وہ آپ کے بغیر ناشتہ نہیں کرتے " سائرہ نے کمبل کو کھنچا
"آپ چلیں میں آتی ہوں" پریشے نے مسکرا کر کہا اور بال پونی میں باندھنے لگی
پانچ منٹ میں تیار ہو کر وہ نیچے آ گئ۔ وہ سیڑییاں اتر رہی تھی جب جہانگیر صاحب جو ناشتے کے ٹیبل پر اسکا انتظار کر رہے تھے انکی نظر اپنی اکلوتی بیٹی پر پڑی اور انکی نگاہ اس پر ٹھہر سی گئی ۔۔ اس نے ریڈ کرتا اور بلیک ٹراوزر پہن رکھا تھا بالوں کی پونی بنا کر آگے کاٹے گئے پف کو وہ پن لگا کر پیچھے کر رہی تھی وہ ہمیشہ پمپس پہنتی تھی اور آج بھی اس نے ریڈ پمپس پہنے تھے ۔ اس کے سیاہ بال زیادہ لمبے نہیں تھے مگر کمر ڈھک دیتے تھے ۔۔ جہانگیر صاحب نے اپنی بیٹی کو ہر خوشی دی تھی بس ایک ماں کی کمی تھی جو اسکی زندگی میں وہ کبھی پوری نہیں کر سکتے تھے ۔۔ وہ جب ہستی تھی، تو وہ ہستے تھے،دنیا ہستی لگتی تھی اور روتی تھی..۔۔تو انکی زندگی تھم جاتی تھی
"السلام عليكم ایوری ون " پری نے بابا جان کو پیار دیا اور بدلے میں اپنا گال آگے کیا اور انہوں نے بھی اسے پیار دیا۔ (پری ہمیشہ انکو پیار دے کر فوری طور پر اپنا گال بھی آگے کر لیتی تھی ) اور پھر اسنے حسن کے ساتھ والی کرسی سمبھالی بیٹھنے کی دیر تھی کے پری کو اچانک اپنے بازو پر چبھن محسوس ہوئی مگر اسنے اگنور کر کے بریڈ اٹھانے کے لئے ہاتھ آگے بڑایا ۔۔جب ایک بار پھر اسے چبھن محسوس ہوئی اب کی بار چبھن زیادہ تھی وہ چیخ اٹھی ۔۔۔۔
"حسن بھائی بس کریں حد ہو گئی ہے " وہ جانتی تھی یہ حرکت اسی کی تھی کیوں کے وہ آتے وقت سیفٹی پن اسکے ہاتھ میں دیکھ چکی تھی
"دیکھا بابا جان آتے ہی انکی فائٹ سٹارٹ ہو گئی ہے " سائرہ نے مصنوئی غصے سے کہا کیوں کے ناشتے کے ٹیبل پر انکی مارننگ۔۔ گڈ تب تک نہیں ہوتی تھی جب تک پری اور حسن کی لڑائی نا ہو جائے ویسے تو ان میں پانچ سال کا فرق تھا مگر لگتا نہیں تھا
"حسن اب تو باز آ جاؤ ڈاکٹر بن گئے ہو ۔۔اور خبردار میری پرنسیس کو کچھ کہا تو " ولید نے بھی اپنا حصّہ ڈالا
"بھائی آپ کو تو بس پری سے پیار ہے نا مجھ سے تو بس بابا محبت کرتے ہیں " حسن نے معصوم شکل بنائی کیوں کے ولید ہمیشہ پری کی سائیڈ لیتا تھا
"ہاں بابا جانتے ہیں نا انکا بیٹا اب پاگل ہو چکا ہے۔۔پڑھ پڑھ کر ۔۔" پری آنکھیں مٹکا مٹکا کر بولی جس پر سب ہنس دئیے حسن اور کسی کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اسنے اسامہ کو شکار بنا لیا جو ناشتہ کرتے وقت بحث کو انجوائے کر رہا تھا
"اوہ تمھیں زیادہ ہنسی آ رہی ہے " حسن اسامہ سے مخاطب ہوا
"چاچو آپ اور پھوپو ٹوم اینڈ جیری کی طرح لڑتے ہیں " اس سات سال کے بچے کی اس بات پر سب کھلکھلا کر ہنسے۔۔
"بیٹا تیری بہن نہیں ہے نا جب وہ آ کر تیرے حق پر ڈھاکہ مارے گی نا تو تم سے پوچھوں گا "حسن نے معصوم شکل بنائی ۔۔ اور جہانگیر صاحب نے اپنی اس خوش حال فیملی کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری ***********************************
"آنی میں نے تم سے کتنی بار کہا ہے اپنے منگیتر کو کہا کرو تمھیں لینے نا آیا کرے " یونیورسٹی سے نکل کر پری کی نظر عنایہ کے منگیتر پر پڑی جو اسے لینے آیا تھا اور پری کا پارا ہائی ہو گیا
"یار پری اگر تم میری بیسٹ فرینڈ نا ہوتی تو تمھیں بتاتی میں ۔جو تم ہر وقت میرے منگیتر کے پیچھے پڑی رہتی ہو" عنایہ نے ہنسی دبا کر کہا
"ہاں ہاں میری جان جیسے تم بڑے قصیدے پڑتی ہو نا اس کے "وہ باتیں کرتی ہوئیں عنایہ کے منگیتر کے پاس آ کر رکیں
"السلام عليكم "عنایہ نے انتہائی نرم لہجے میں کہا
"یار میں گھنٹے سے تمہارا ادھر انتظار کر رہا ہوں اور تم ہو کے آرام آرام سے آ رہی ہو ۔ادھر میرے گھر والے تمھارے گھر تمہارا انتظار کر رہے ہیں " وہ بھڑک اٹھا
"اوہ ہیلو مسٹر آرام سے بات کرو تمہارا گھر نہیں ہے یہ سمجھے " پری روڈلی بولی
"یار تم تو میرے منہ مت لگا کرو " اسنے پری کو کہا
"ہو کیا چیز تم ۔۔(پری نے کندھے اچکا ئے) جو تمھیں منہ لگاؤں ۔ " پری کے ماتھے پر شکن آئ
"میں فضول بحث نہیں کرنا چاہتا "
"وہ تم سے پیار سے بات کر رہی تھی تم ویسے ہی جواب دیتے نا ۔ اسی طرح میں ہر انسان سے تمیز سے بات کرتی ہوں پر تمھیں مجھ سے تمیز نہیں دینے ہوتی کیوں کے تم ڈیزرو نہیں کرتے " پری نے غصے سے کہا عنایہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا جو اس بات کا اشارہ تھا کے بس کرو ۔۔پری کی آواز اونچی تھی مگر وہ جتنا بھی غصے سے بول لے مگر اسکی آواز نرم ھی رہتی تھی۔۔
"چلیں ہمیں دیر ہو رہی ہے نا " عنایہ نے بچتے ہوے کہا
"میں بھی جا رہی ہوں " پری عنایہ کو دیکھ کر بولی اور اس کے منگیتر کو ایک گوری سے نوازتے ہوے چلی گئی
************************************
"بھابی۔۔ بھابی کہاں ہیں "آج اتوار تھی تو پری لیٹ اٹھی تھی اور اب دوپہر ہو چکی تھی وہ کمرے سے نکل کر نیچے آئ جب بھابی کو آواز لگائی
"خالدہ آپا بھابی کدھر ہیں " خالدہ (خانساماں ) کچن میں برتن دھو رہی تھیں جب پری کی آواز پر کچن کے دروازے کی طرف دیکھا
"وہ جی ارمان صاحب آئے ہیں انکے ساتھ باہر بیٹھی ہیں . . . . . " اس سے پہلے کے وہ اور کچھ کہتی ارمان کا نام سن کر وہ باہر کی طرف بھاگی
"چوّل انسان تم کب آئے انگلینڈ سے۔۔ ایسے چھو منتر ہو گئے تھے "پری کی آواز پر وہ دونوں جو بات کر رہے تھے انہوں نے پری کو دیکھا جو دور سے بولتی آئ تھی اور ان کے پاس پوھنچنے تک اپنی بات مکمل کر چکی تھی
"استغفار آپی اسکو کوئی اخلاقیات کا درس بھی دیں۔ ایسے بات کرتے ہیں؟ " ارمان نے ہنس کرپری کی طرف اشارہ کر کے سائرہ کو کہا
"میں جانتی ہوں یہ صرف تمھارے ساتھ ھی فری ہے اب چچا کی بیٹی کے ساتھ ساتھ بیسٹ فرینڈ بھی ہے تو بس بھگتو " وہ مسکرا کر بولیں
"آپی پکوڑے کیوں نہیں آئے ابھی تک "ارمان نے یاد آنے پر کہا
"اوہ خالدہ آپا بھی نا بہت لیزی ہیں میں دیکھتی ہوں " وہ کہہ کر اٹھ گئیں
"موٹے آلو تم یہاں ٹھوسنے آتے ہو " پری اب اسکی ٹانگ کھینچ رہی تھی آخر وہ کافی دنوں بعد ملے تھے
"میرے چچا کا گھر پلس میری بہن کا سسرال ہے " ارمان نے شوخ انداز میں کہا
"اور بھولو مت اس وقت تمھارے سامنے تمھاری بہن کی نند بیٹھی ہے " پری نے مذاق سے آنکھیں پھیریں
"ہاں پر تم ہو بہت غریب دیکھو تو کپڑا نہیں بچا جو بازو برائے نام لگائے ہیں"ارمان نے اسکی ہاف سے بھی سلیوز والی شرٹ کا مذاق بنایا
"حد ہو گئی ہے اور تم جو پھٹی پنٹ پہن کے آ گئے ہو وہ کیا "پری نے بھی اسے نہیں بخشا تھا
"مائی ڈیر اٹس فیشن " ارمان نے مسکرا کر فخر سے کہا
"ریلی ہمارا کتا ،کتا اور آپ کا کتا ٹومی " پری نے اس انداز سے کہا کے ارمان نے قہقہ لگایا
************************************
جہانزیب صاحب اور جہانگیر صاحب دو بھائی تھے ۔ بڑے بھائی جہانزیب صاحب کے تین بچے تھے سب سے بڑی بیٹی سائرہ اس سے چھوٹا ارمان اور پھر ایمن جب کے جہانگیر صاحب کے بھی تین ھی بچے تھے سب سے بڑے ولید جن کی شادی سائرہ سے ہوئی تھی پھر حسن اور پھر پریشے ۔ ان دونوں گھرانوں میں بےحد اتفاق تھا جہانگیر صاحب کی بیوی کی وفات پریشے کی پیدائش کے وقت ہوئی تھی اور جہانزیب صاحب کی بیوی نے اپنے دیور کے بچوں کو ماں بن کر پالا تھا ۔ بڑوں کا پیار بھرا رویہ دیکھ کر بچے بھی آپس میں محبت سے رهتے تھے ۔دونوں کے گھر ساتھ ساتھ تھے اور جہانزیب صاحب کے باغیچے میں ایک دروازہ تھا جو جہانگیر صاحب کے باغیچے میں کھلتا تھا
************************************
"میں اندر آ جاؤں؟؟ "سائرہ نے دروازہ نوک کر کے کہا
"بھابی میں نے منا کیا ہے نا آپ اجازت مت لیا کریں " پری نے عینک اتاری اور کتابیں سائیڈ پر رکھیں
"یہ لو دودھ اور ابھی پیو " سائرہ نے اسے دودھ کا گلاس پکڑایا
" اوکے اوکے جی ۔۔" پری مسکرائی سائرہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔پری حساس تھی اس لئے سب اسکا خیال رکھتے تھے اسے فیملی میں سب کی بےحد توجہ ملتی تھی ۔۔اس نے بھی ان سب کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا تھا ۔۔ سائرہ گم سم لگ رہی تھی
"کیا ہوا ہے بھابی مجھے بتائیں۔۔کوئی بات ہوئی ہے کیا " پری نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا
"کچھ بھی تو نہیں "
" کچھ تو ہے آپ مجھ سے نہیں چھپا سکتیں بھابی پلیز بتا بھی دیں " پری نے اصرار کیا
"تمھیں ایک بات بتانی تھی پر تم خاموشی سے پوری بات سننا پھر سوال کرنا " سائرہ نے پریشے کو دیکھا جو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی
"پرشے ۔۔ ابا جان (جہانزیب صاحب ) نے دو شادیاں کی تھیں ۔ابا جان کی دادا جان نے زبردستی شادی ابا جان کی کزن سے کروا دی تھی اور دادا جان کے سخت لہجے کی وجہ سے وہ انکو نہیں بتا سکے کے وہ کسی اور کو پسند کرتے ہیں۔ اپنی کزن سے شادی کے بعد بھی ابا جان اپنی محبت نہیں بھول سکے شادی کے ایک سال بعد ابا جان نے شہر میں دوسری شادی اپنی پسند سے کر لی مگر انکی فیملی کو اس بات کا علم نہیں تھا ۔دادا جان کی وفات کے بعد جب ان کی پہلی بیوی کے گھر بیٹا ہوا تو انکی بیوی کو علم ہو گیا کے ابا جان نے دوسری شادی بھی کر رکھی ہے ۔ ابا جان نے امی سے شادی کر لی مگر انکو شہر میں اپنے گھر رکھا جب کے انکی پہلی بیوی انکے گاؤں میں ھی تھی ابا جان کوشش کرتے تھے کے دونوں کے حقوق پورے کر سکیں ابا جان کی پہلی بیوی نے ابا جان سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا دادا جان کی جائیداد میں سے جو ابا جان کے حصّے آیا تھا ان میں سے آدھا انکی پہلی بیوی کو دیا گیا اور انکی بیوی کے کہنے پر ابا جان نے انکو طلاق دے دی انکی بیوی نے ان سے کہا تھا کے وہ اب اس گاؤں میں کبھی واپس نا آئیں ۔۔ ابا جان اپنی جائیداد بیچ کر شہر آ گئے اپنی دوسری بیوی کے پاس۔ اس طرح ابا جان نے مڑ کر کبھی بھی واپس جانے کی کوشش نہیں کی اور نا ھی اپنے بیٹے سے ملنے کی کیوں کے یہ سب انکی بیوی نے ھی کہا تھا۔ ان دونوں کے درمیان ایگریمنٹ ہوا تھا مگر اب ابا جان کو انکے وکیل نے بتایا ہے کے انکی پہلی بیوی یہ دنیا چھوڑ کر جا چکی ہے اور انکے بیٹے نے وکیل صاحب کو فون کر کے کہا ہے کے وہ پاکستان آ چکا ہے اب وہ اپنی ماں کی جائیداد بیچ کر واپس امریکا جانا چاہتا ہے جہاں وہ پڑھائی مکمل کرنے کے لئے گیا تھا۔ اب ادھر ھی رہنا چاہتا ہے ۔ اب ابا جان چاھتے ہیں کے انکا بیٹا انکے ساتھ رہے مگر امی نہیں مان رہیں اور امی کو صرف تم اور میں ھی منا سکتی ہیں " سائرہ نے بات مکمل کر کے پری کو دیکھا
" بھابی ابا جان نے پہلے بھی شادی کی اور ہم لوگوں کو پتا بھی نہیں چلا " پری کی بات پر سائرہ کو ہنسی بھی آئ اور غصہ بھی
"پاگل ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہوئی تو ہم لوگوں کو کیسے پتا ہونا تھا یہ تو اب مجھے امی نے بتایا ہے "
"پر امی کیوں نہیں مان رہیں " پری کو خیرانگی ہوئی کیوں کے وہ ایسی ہرگز نہیں تھیں
" یہ ھی تو سمجھ نہیں آتا امی تم سے بہت پیار کرتی ہیں اور تمھاری بات بھی مانتی ہیں تو اب تم میرے ساتھ مل کر مناؤ گی انکو "
" واؤ مطلب میرا ایک اور کزن آ جائے گا ہو ہوووو " پری نے مسکرا کر کلاپنگ کی
************************************
"پھوپو ۔۔ پھوپو " اسامہ آوازیں لگاتا ہوا کمرے میں داخل ہوا
"جی پھوپو کی جان " پری بال برش کرتے ھوۓ بنا مڑے بولی
"آپ کو ماما بلا رہی ہیں "
"اوکے میں بال برش کر لوں آتی ہوں " پری نے کہا
"اوکے ہم آپکا ادھر ھی انتظار کرتے ہیں " اسامہ نے کہا پری یک دم مڑی
"ہم کون ۔۔ آپ کے علاوہ کوئی نہیں یہاں " پری نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا
"اوہو پھوپو ہم مطلب میں ۔ پھوپو ہم خود کو خود ریسپیکٹ نہیں دیں گے تو کیسے کوئی دوسرا ہمیں ریسپیکٹ دے گا ۔۔ماما بھی غصّے میں کہتی ہیں نا اسامہ میں نے بکواس کی ہے؟ تو مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا " سات سال کے بچے کے منہ سے بڑی بڑی باتیں سن کر پری کو اس پر بےحد پیار آیا اسنے مسکرا کر جھک کر اسامہ کے گال پر پیار دیا اور اسامہ کی انگلی پکڑ کر باہر نکل گئی ۔شام کا وقت تھا خالدہ اور سائرہ کھانا بنانے میں مصروف تھیں پری اور اسامہ کچن میں داخل ہوئے
"السلام عليكم سوری بھابی لنچ کر کے سوئی تھی شام ہو گئی پتا ھی نہیں چلا اور آپ نے بھی نہیں اٹھایا " پری بات کرتے کرتے سٹول پر بیٹھ گئی
"کوئی بات نہیں میں جانتی تھی تم تھک گئی ہو گی کل دیر تک جو پڑتی رہی ہو " سائرہ ہانڈی میں چمچ ہلاتے بولی
"جی بھابی وہ ساتھ ساتھ تیاری کرنی پڑتی ہے پیپرز کی " پری نے خالدہ کے سامنے پری ٹوکری سے کھیرا اٹھایا جو اس نے سلاد کے لئے کاٹے تھے
"ماما آپ کو یاد ہے میں نے آپ سے کیا کہا تھا جب بھی پھوپو فری ہوتی ہیں آپ دونوں مجھے اگنور کر کے اپنی باتوں میں لگ جاتے ہو " اسامہ پیر پٹخ کر بولا
"او میرا بچہ " سائرہ نے اپنا ماتھا پٹخا
" پری اسکے اسکول کل پارٹی ہے بلیو ڈریس لا دو اس کے ساتھ جا کر میں بزی ہوں "
"جی جی بھابی ہم دونوں لے آتے ہیں " پری نے خوش گوار موڈ میں کہا اور اسامہ کو آنکھ ماری جیسے کچھ سمجھا رہی ہو
" اوہ ہیلو آنکھیں مت مارو خبردار جو آئس کریم کھانے گئے ٹائم سے گھر آ جانا ڈنر پر آپ لوگ ادھر ھی ہو " سائرہ انکی عادت سے بخوبی واقف تھی دونوں آئس کریم کے شوقین تھے
" اوکے اوکے بھابی میں بیگ لے کر آئ " پری کچن سے باہر بھاگی
*************************
"آپ یہ سوچیں بھی مت ولید بھائی میں ان کے گھر کبھی نہیں جاؤں گا " اس لڑکے کی بات پر ولید اور پریشان ہو گیا
"بابا جان چاھتے ہیں کے اپنی باقی کی زندگی میں وہ تمھیں اپنی آنکھوں کے سامنے رہتا دیکھیں تم مان کیوں نہیں لیتے " ولید نے اسے سمجھانے کی کوشش کی
" میں تمھیں اپنا بھائی مانتا ہوں اگر ہمیں ابا جان کی پہلی شادی کا پتا ہوتا ہم تمھیں کب سے اپنے پاس لے آتے ہمیں تو علم ھی نہیں تھا تم اب چلو ہمارے ساتھ میں پرومیس کرتا ہوں تمھیں کبھی فیل نہیں ہو گا کے تم اب ہم میں شامل ھوۓ ہو " ارمان نے بھی اسکو سمجھایا
" مجھے سوچنے کا وقت دیں " وہ لڑکا بس اتنا ھی بول پایا
"کتنا وقت ؟" ولید بولا
" دو دن کا "
" اوکے پھر میں تمھارے جواب کا انتظار کروں گا " ولید نے کہا اور پھر ارمان اور ولید اٹھ کھڑے ھوۓ
*************************
"یار ارسلان کتنی دیر ہے اور کیا لینا ہے تم نے " کاشف اسکے ساتھ پھر پھر کر تنگ آ گیا تھا
" اچھا نا بس میں بل کروا لوں چلتے ہیں پھر " ارسلان نے شرٹ پکڑ کر کہا
"ڈاکٹر ہادی آپ نے کچھ لینا ہے " ارسلان نے ہادی سے پوچھا جو موبائل میں گم تھا
"نہیں میں نے کل شوپنگ کی ہے ابھی " ہادی نے لمحے بھر کے لئے انکو دیکھ کر کہا اور پھر فون پر مصروف ہو گیا
" ویسے ایک بات بتاؤ کس سے لگے ہو موبائل پے کون ہے وہ حسینہ چھپے رستم " ارسلان نے اسکا موبائل کھینچنے کی کوشش کی
"یار تم اپنی فضول سی شاپنگ بھی خود نہیں کر پاتے مجھے ہسپتال سے فون اور میسج آ رہے ہیں" ہادی نے ارسلان سے کہا
" اچھا اب احسان کیا جتا رہے ہو " کاشف نے ہادی سے کہا
"چلو یار بل کرواؤ " کاشف اب ارسلان سے مخاطب ہوا
وہ لوگ پانچ منٹ بعد فری ہو کر مال سے جانے لگے ارسلان ،کاشف اور ہادی آپس میں مذاق کرتے ھوۓ نکل رہے تھے اسامہ پری کو کوئی بات سنا رہا تھا پری اسکی بات سن رہی تھی اور منہ بھی اس کی طرف ھی کیا ہوا تھا وو دونوں مال میں داخل ہو رہے تھے مال سے نکلنے کے لئے ارسلان نے دروازہ کھولا اور پری بات سنتے سنتے اندر داخل ہونے لگی جب ارسلان سے اسکی زور دار ٹکر ہوئی ارسلان کے شاپنگ بیگز اور پری کا ہینڈ بیگ نیچے گر گیا
ٹکر اتنی زور کی تھی کے پری اور ارسلان اپنا اپنا ماتھا سہلانے لگے
"پھوپو آر یو اوکے "دو منٹ تک جواب نا پا کر اسامہ نے کہا اور اسامہ کی بات پر پری کو جیسے ہوش آ گیا اور اسنے فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا
"بتمیز دیکھ کر نہیں چل سکتے تھے اتنی سخت لگی ہے ماتھے پر سوجن ہو گئی تو یہ منہ لے کر یونیورسٹی جاؤں گی " پری اونچی آواز سے بولی
"بتمیز دیکھ کر نہیں چل سکتی تھی ماتھا سوج گیا تو یہ منہ لے کر آفس جاؤں گا " ارسلان اسی کے انداز میں بولا
"یار ارسلان چلو ہمیں دیر ہو رھی ہے " کاشف نے کہا
"حد ہو گئی ہے میں کوئی فضول ہوں جو ٹائم ویسٹ کر رہی ہوں "پری کاشف کو ڈانٹنے لگ گئی
"دیکھو میں بحث نہیں کرنا چاہتا اوکے میں جانتا ہوں تم جیسی لڑکیاں شاپنگ کے بہانے بچے کو ساتھ لئے نکل جاتی ہیں ملنے ملانے "ارسلان نے لحاظ نہیں کیا تھا
"استغفار ۔ ایک تو غلطی کرتے ہو اوپر سے الزام بھی لگاتے ہو "پری کو بے حد برا لگا تھا
"ارسلان بس کرو میں کب سے آپ دونوں کو برداشت کر رہا ہوں کسی کے کریکٹر پر بات نہیں کرتے اور اگر کر ھی رہے ہو تو دیکھ لو کے تم اسے جانتے کتنا ہو " ہادی سنجیدگی سے بولا
"رہنے دیں جتنی کسی کی اوقات ہوگی وہ اتنی ھی بات کرے گا "پری نے آنکھ کے کونے پر آیا ننھا سا آنسو صاف کیا وہ بات ہادی سے کر رہی تھی مگر دیکھ ارسلان کو رہی تھی
"ارسلان چیزیں اٹھاؤ "ہادی نے کہا
ارسلان نے جھک کر اپنی چیزیں شاپنگ بیگ میں ڈالیں اور پری کا بیگ اسے پکڑایا وہ جھک کر چیزیں اٹھا رہا تھا بغیر اوپر دیکھے اسنے بیگ پری کو پکڑایا
"تم جھکے ھوۓ ھی اچھے لگتے ہو "پری نے بیگ پکڑتے ھوۓ کہا ارسلان نے مڑ کر اسے دیکھا
ہینڈ بیگ وائٹ تھا جس پر اسنے پنک سٹالر اسکی سٹرپ کے ساتھ باندھا تھا وائٹ ٹراوزر پر پنک شرٹ پہن کر اس نے بالوں کی ڈھیلی پونی کی تھی اور وہ سادگی میں بھی خوبصورت لگ رہی تھی
*************************
"آج میں ایک بہت خوبصورت لڑکی سے ملا بہت خوبصورت تھی وہ ۔ اسکے سیاہ بالوں کو اسنے ہلکا سا باندھ رکھا تھا اس نے وائٹ اور پنک کلر کا کنٹراس کیا ہوا تھا اور اس پر یہ رنگ کافی جچ رہے تھے ۔۔ ہماری پہلی ملاقات اتنی خوش گوار نہیں تھی۔۔ وہ اپنی میٹھی آواز کو سخت لہجے میں استعمال کر رہی تھی مگر پھر بھی وہ الفاظ جو ،جو اسنے ادا کیے اسکی زبان سے میٹھے لگ رہے تھے۔۔ جب وہ لہجہ سخت کیے بول رہی تھی تو صاف معلوم ہو رہا تھا وہ اپنے مزاج کے خلاف کام کر رہی ہے۔۔ کسی لڑکی کے کردار پر بات وہ کبھی بھی برداشت نہیں کرتی آج اسنے جس انداز سے سب سے چھپا کر آنسو صاف کیا وہ میں نے دیکھ لیا تھا ۔۔ نا جانے کیوں کسی کے ساتھ صدیوں رهنے سے بھی محبت نہیں ہوتی اور کسی سے ایک نظر میں پیار ہو جاتا ہے
اس طرح بھی کبھی محبت ہو
ان کہی ،ان سنی محبت ہو
جال نفرت کا ختم ہو جائے
رب کرے ہر گلی محبت ہو
"اسکی ایک عادت ہے وہ غصے میں اپنی آنکھیں مزید کھول لیتی ہے..وہ اتنی خوبصورت ہے کیا وہ خود جانتی ہے ۔۔" وہ اپنے سحر میں ڈوبا آنکھوں میں اس لڑکی کی تصویر لئے لکھی جا رہا تھا ۔۔
*************************
"ارمان یقین کرو میں نے آج تک کسی لڑکے سے اتنی بتمیزی نہیں کی مگر وہ لڑکا یہ ڈیزرو کرتا تھا "پری نے کافی کا سیپ لیا
"یار بس کر دو کیوں اس کے سارے گناہ بخشوانے ہیں ۔ جانتی ہو نا جب ہم کسی کی برائی کرتے ہیں تو اس کے گناہ ہمارے نامہِ عمال میں لکھ دیئے جاتے ہیں " ارمان نے اپنا کپ اٹھایا
"اچھا نا میں برائی تھوڑی کر رہی ہوں "پری نے روندو شکل بنائی
"ارمان بابا کی طبیعت کیسی ہے " سائرہ ان دونوں کے پاس آ کر رکی جو ہال میں برائے نام ٹی وی لگا کر اپنی باتوں میں مگن تھے
"بابا کے بخار میں کمی نہیں آ رہی آپی بس ایک ھی ضد ہے کے انکے بیٹے کو لے کر آئیں اب ولید بھائی نے ذمہ داری لی ہے۔ میں اور بھائی کل ملے اس سے اسنے دو دن کا وقت مانگا ہے " ارمان نے پوری روداد سنائی ۔۔سائرہ پری کی طرف متوجہ ہوئی
"پری میں نے تمھیں ایک کام کہا تھا چلیں "
پریشے سائرہ کی بات کو سمجھ گئی اور امی کو منانے جانے کے لئے اٹھ گئی
"چلیں بھابی " ۔۔ ہال سے نکل کر انھوں نے گارڈن کراس کیا اور گارڈن میں لگے دروازے سے وہ دونوں جہانزیب صاحب کے گھر داخل ہوئیں دو منٹ بعد وہ شہناز بیگم کے کمرے میں تھیں
"آج میری دونوں بیٹیوں کو فرصت مل گئی ماں کے پاس آنے کی " ایک 40 سے 45 سال کی خاتوں جن کو دیکھ کر انکی عمر کا ہرگز اندازہ نہیں ہوتا تھا ۔۔وہ شہناز بیگم تھیں جہانزیب صاحب کی دوسری بیوی
"امی ایسا تو نا کہیں میں ڈیلی یونی جانے سے پہلے آپ کو مل کر جاتی ہوں "پری انکے پاس آ کر بیٹھی
"ہاں گھڑی دو گھڑی آتی ہو "
"امی آپ کو ملے بغیر میرا دن گزر سکتا ہے کیا " پری نے ان کے شولڈر پر اپنا سر رکھا
"اچھا امی آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی"۔۔۔۔
پریشے اور سائرہ نے باری باری شہناز بیگم کو سمجھانے کی کوشش کی
"سائرہ یہ کہنا آسان ہے مگر سوکن کی اولاد کو پالنا اتنا ھی مشکل ہے ۔۔" شہناز بیگم نے سنجیدگی سے کہا
"امی ایک بات کہوں ۔ میرے نصیب میں میری سگی ماں کا پیار نہیں تھا اور نا ھی میں نے انہیں دیکھا ہے مگر آپ نے مجھے بہت محبت دی ہے مجھے کبھی اپنی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی اپنی اولاد سے زیادہ کرتی ہیں آپ میرا ۔۔ امی میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی ہم سب کو آپ کی ضرورت ہے تو کیا آپ کو نہیں لگتا کے آپ کے اس بیٹے کو بھی ماں کی ممتا کی ضرورت ہے وہ بھی آپ کی محبت کو پانا چاہتا ہو گا ۔ایک بار اسے اپنا لیں امی۔۔"پریشے نے آہستہ آہستہ بات مکمل کی
"پری اگر میں اس کے حقوق ٹھیک سے پورے نا کر پائی تو ؟"
"امی حقوق پوری کرنے کی آپ بس کوشش تو کریں پلیز "پری نے التجا کی
"مجھے فخر ہے میری تربیت پر "انہوں نے مسکرا کر پری اور سائرہ کو ساتھ لگایا
"پھر کیا سوچا آپ نے "سائرہ نے پوچھا
"بس اب اپنے بیٹے کا انتظار ہے "شہناز بیگم نے کہا ھی تھا کے سائرہ اور پری خوشی سے اچھل پڑیں
*************************"
"عنایا میں بس بک لے کر آ رہی ہوں تمھارے گھر یار " پری نے کہہ کر فون بند کیا اور بک سٹال کی طرف بھڑی ۔۔پری نے ایک بک اٹھا کر کھولی اور اس کے صفے الٹنے لگی۔۔ اچانک کسی نے تیزی سے آ کر اس سے کتاب کھینچی
"ایکسکیوز می میم مجھے یہ بک دیکھنی تھی میں نے دور سے دیکھ لی مگر مجھ سے پہلے آپ پہنچ گئیں "اس نے بک لے کر کھولی اور بولتا چلا گیا بات مکمل کر کے اس نے پری کی طرف دیکھا جو ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی
"تت۔۔تم "پری بمشکل بولی
"اوہ آپ میڈم آپ میرا پیچھا کرتی ہوئیں یہاں تک بھی آ گئیں "ارسلان نے ہنسی دبا کر کہا ۔۔ اچانک پری کو دوبارہ دیکھ کر وہ خیران تو ہوا تھا مگر اپنی خیرنگی وہ بخوبی چھپا گیا تھا
"اوہ۔۔ مسٹر "پری نے چٹکی بجائی جیسے نام پوچھ رہی ہو
"ارسلان "ارسلان نے مسکرا کر بتایا
"یس مسٹر ارسلان میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں ہے ۔۔ کے آپ کا پیچھا کروں آپ نے کس حق سے مجھ سے کتاب کھینچی اخلاقیات نہیں ہیں آپ میں ۔ آرام سے بھی مانگ سکتے تھے آپ " پری نے آہستہ مگر سخت لہجے میں کہا
"جو بک میں دو گھنٹے سے ڈھونڈ رہا تھا وہ آپ کے پاس تھی میں نے سوچا معذرت کر لوں گا "ارسلان بات کر رہا تھا جب کاشف کی آواز پر پلٹا
"یار ارسل بک ملی کیا "
کاشف اور ہادی ان کے پاس آ کر رکے پری کو دیکھ کر وہ دونوں بھی چونکے تھے
"میری بک دو "پری نے ہاتھ آگے بڑھایا
"یہ مجھے دے دو۔ مجھے ضرورت ہے "ارسلان نے بک نہ دی
"میں بتمیزوں پر احسان نہیں کرتی "بغیر نزاکت کے وہ سپاٹ لہجے میں بولی
"میم ۔۔آ۔۔"پری سمجھ گئی وہ نام پوچھے گا
"پریشے جہانگیر ۔۔ بٹ آپ مجھے میم ھی بولیں میں غیروں کو حق نہیں دیتی کے وہ میرا نام لیں " پری اپنے انداز میں بولی
"آپ یہ بک ہمیں دے دیں ہمیں اس کی بہت ضرورت ہے پلیز "کاشف نے کہا
"اپنے دوست کو بولو مجھے سوری کرے " پری کے کہنے پر ہادی نے ارسلان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
" آئ ایم سوری " ارسلان نے کہا مگر اسکی آنکھوں میں بیحد غصّہ تھا
"اٹس اوکے۔ "پری نے کندھے اچکائے
"اگر مجھے اس بک کی ضرورت نا ہوتی تو آج میں آپ کو اخلاقیات سیکھا کر ھی جاتا ۔۔ نیکسٹ ٹائم اگر موقع ملا تو بدلہ ضرور لوں گا تم سے "ارسلان ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا ۔۔
ہادی اور کاشف اس کے غصے کو جانتے تھے انھوں نے ارسلان کو ساتھ لیا اور وہاں سے چلے گئے
*************************
باقی انشااللّه اگلے ہفتے ۔۔
پڑھ کر اپنی راۓ کا اظہار ضرور کریں ۔۔...
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top