شیرو کے مسئلے
یہ تب کی بات ہے جب ہماری کہانی کے ہیرو بہت چھوٹے سے تھے صرف سائز میں۔"۔۔زویار "
۔۔۔امی کی آواز پر اُسکی آنکھ کھلی۔۔۔۔وہ موٹا تازہ نیلی آنکھوں والا بہت ہی کیوٹ سا مگر بہت ہی نک چڑا سا بلّہ تھا ہاں جی وہ زويار کا بلہ شیرو تھا۔۔۔جسکی ڈیوٹی تھی روز ماسٹر آئسلولی کی آمد سے پہلے امی کی آواز سن کر زويار کو پارک سے گھر لے کر آنے کی۔۔۔
"کیا یار ایک تو پورے پاکستان میں ہر بلّے بلی کو چھوڑ کر انہیں میں ہی ملا تھا جو انکے صاحبزادے کو روز پارک سے پکڑ کر لائے اوپر سے وہ زویار بھی مجھے ہی سناتا ہے۔۔جیسے ماسٹر آئسلولی کو میں نے کہا ہے روز اسکو پڑھانے کے لئے ہنہ۔۔
وہ اپنی طرف سے برے برے منہ بناتا ہوا اٹھا پر ہمارے لیے تو وہ اتنے کیوٹ منہ تھے ہائے ۔۔۔۔وہ برق رفتاری سے پارک کی طرف گیا اور زويار کے پائوں سے لپٹ گیا یہ اشارہ تھا کہ چلو گھر آگیا موت کا پروانہ "
زويار نے منہ بسورا "کیا یار اتنا مزہ آرہا تھا ابھی ہی تو لڈو کی بینڈ بجا نے کا وقت آیا تھا تم بھی نہ شیرو غلط ٹائم پر آئے ہو۔۔"زويار روز ہی اس ٹائپ کے شکوے شیرو سے کرتا رہتا تھا
شیرو نے تنگ آکر پُوچھ ہلای "کتنا بڑا ڈرامے باز ہے پورے دو گھنٹے سے یہ اب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تمام عوام کی بینڈ بجا چکا ہوگا اور ابھی آخری پیس لڈو بچا ہوگا"
" وہ دونوں منہ بنا کر گھر پہنچے آگے ماسٹر آئسلولی اُنکا انتظار کر رہے تھے
زويار نے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا تو انہوں نے پلٹ کر دیکھا
زويار کی نظر بیساختہ اُنکی لال اسٹک پر گئی جسکو وہ ایک ہاتھ میں پکڑے دوسرے ہاتھ کی ہتیلی پر آہستہ آہستہ مار رہے تھے
یہ اشارہ تھا "بچو آج تو تو گیا"۔۔
اسنے لاپرواہی سے کندھے اُچکائے
وہ اطمینان سے ٹیبل کے گرد کرسی دھکیل کر بیٹھ گیا
ماسٹر آئسلولی نہایت سادہ طبعیت کے مالک تھے ان کے بقول انہیں علامہ اقبال یونیورسٹی سے صرف اسی لیے نکالا گیا کیونکہ وہ توتلے تھے
سر سے آدھے گنجے تھے آنکھوں پر موٹے چشمے چڑھائے رہتے تھے اور انکا لباس بھی سادہ شلوار قمیض ہی ہوتی تھی ہاتھ میں ہمیشہ لال اسٹک ہوتی تھی جو کہ ان کا انتخابی نشان تھی۔۔
"تاپی تھا ں ہے؟"انہوں نے کافی اکھڑے ہوئے لہجے میں پوچھا
"تاپی تو بھر لان میں ہے"زويار کے جواب پر شیرو نے بیزاری سے رُخ بدلہ
تاپی زويار لوگوں کا نیا مالی تھا اور شیرو کو اس سے بھی چڑ تھی کیونکہ وہ اس سے مغرب کے بعد گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتا تھا اُسے رہ رہ کر روزی کا خیال ستا رہا تھا جو کہ انکے پڑوس والے گھر میں رہتی تھی روزی سے شیرو کی پہلی ملاقات پارک کے راستے پر ہوئی تھی جب اُسے جنگلی کتوں نے گھیرا ہوا تھا اور شیرو نے اس معصوم گول گول آنکھوں والی سفید بلّی کی جان بچائی تھی ۔۔روزی کو یاد کر کہ اُسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ہی تھی کہ ماسٹر آئسلولی کی زور دار آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آگیا
"تاپی یو ادیٹ تاپی نتالو۔"وہ زويار کو روز طرح اپنی پہلی بات کا مطلب سمجھانے میں مصروف تھے زويار ہر روز ہی یہ بھول جاتا تھا کہ وہ تو توتلے ہیں ۔۔۔
**********************************
چلو زويار اور شیرو تم دونوں بھی تیار ہو جاؤ
امی جان نے دونوں کو کہا اور پھر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں
شیروں نے اس پر بہت برے برے منہ بنائے اور وہ بہت اداس تھا کیوں کہ اسے پورے دو ہفتوں کے لئے روزی سے دور رہنا تھا وہ لوگ زويار کے سب سے چھوٹے چچا کی شادی کے لئے راولپنڈی جا رہے تھے زويار بہت خوش تھا کیوں کہ پورے دو ہفتوں کے لئے سکول اور ماسٹر آئس لولی سے جان چھوٹ جائے گی۔۔۔
مزہ آئیگا آئیگا آئیگا ۔۔۔چلو شیرو تیاری کریں بھئی دلاور چچا کی شادی میں سبکو بڑا تنگ کرنا ہے کتنی آنٹیوں کا میک اپ چھپانا ہے اور کہاں چھپانا ہے کتنی لڑکیوں کی چوٹی کھینچ کے بھاگنا ہے اور کہاں چھپنا ہے سبکی پلاننگ بھی تو کرنی ہے۔۔۔زويار نے شیرو کو گود میں اٹھاتے ہوئے مزے سے کہا شیرو وہی بیزار شکل بنا کے اسے دیکھتا رہا جیسے کہہ رہا ہوں "تُجھے میں ہی ملا تھا اپنے شیطانی مشنز کا پارٹنر"۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°′°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اے باجی ذرا پیچھے ہٹ نا ۔۔۔مائی نے نگہت بیگم کو اپنی گھٹڑی مار کر پیچھے کیا اور خود جم کر اُنکے ساتھ بیٹھ گئی زويار جو یہ سب خاموشی سے دیکھ رہا تھا کچھ سوچ کر اٹھ کھڑا ہوا پھر اُسنے اپنے ہینڈبیگ سے چھوٹی سی کوئی چیز نکالی اور مُٹھی بند کر کے نگہت کے بائیں طرف جا کر معصومیت سے بیٹھ گیا نگہت اسے یوں خاموش دیکھ کر بہت حیران ہوئیں اور حیران سے زیادہ پریشان ہوئیں وہ زويار ابراہیم تھا جسکی خاموشی ارد گرد والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔۔۔سفر کچھ دیر کے لیے خاموشی سے گزرتا رہا نگہت نے ٹیک لگا لی اور آنکھیں موندلیں اتنے میں مائی نے جھک کر گھٹڑی کھولی ایک ۔۔۔دو۔۔۔ تین ۔۔۔۔آ آ آئی آئی۔۔۔۔۔چھپکلی ہائے میں مر گئی۔۔۔۔اے کی آاء؟؟؟؟۔۔۔پورے ڈبے میں عورتوں کی چیخ و پکار تھی سب اچھل اچھل کر ایک دوسرے کی گودوں میں چڑھ رہے تھے گٹھڑی میں کہیں سے چھپکلیاں کیڑے مکوڑے نمودار ہو رہے تھے نگہت نے ایک تیکھی نگھا اپنے شریف سے بیٹے پر ڈالی جو کھڑکی سے باہر دیکھنے میں ایسے مگن تھا جیسے اندر ہونے والے تماشے سے اسے کوئی غرض ہی نا ہو اور جب چیخیں حد سے زیادہ بڑھ جاتیں تو ایک لا پرواہ نظر اندر بھی ڈال لیتا مگر پھرسے کندھے اچکا کر باہر دیکھنے میں مصروف ہوجاتا۔
شیرو چیختی ہوئی عورتوں کو دیکھ کر افسوس سر جھٹک کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top