The Rising Sun
مارچ کا مہینہ اپنی نوخیزی پر ہے اور ہمیشہ کی طرح موسم بہار اپنے جوبن کی بہاریں لوٹا رہی ہے۔
اسی موسم کی ایک تازہ صبح 1955 ماڈل کی کیڈلک سیریز 62 کی ایک کار قائد اعظم ہاؤس( اسٹاف فلیگ ہاؤس) سے خیابان بدر کی سبک گام شاہراہِ سے ہوتی ہوئی مائی کلاچی برج سے اتر کر وزیر مینشن کھارا در کی جانب رواں دواں تھی ۔
کار کی پچھلی نشست پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح تشریف فرما تھیں وہ وزیر مینشن میں رک کر گزرے ہوئے وقت کو کچھ دیر کے لئے دوبارہ جینا چاہتی تھیں۔
وہ آہستگی سے اپنے بھائی محمد علی جناح کی خالی نشست پر براجمان ہوگئیں ۔دھیرے سے اپنا سر کرسی کی پشت پر ٹک ماضی کی یادیں زہن کے پردہ اسکرین پر سیل رواں بن گئیں ۔
کس طرح انکا بچپن اسی گھر میں ہنستے کھیلتے گزرا کس طرح وہ چھوٹے سے صحن میں سائیکل چلایا کرتیں اور بھیا سے فرمائش کرکے چاکلیٹ کھاتی تھیں۔
آج سے تقریبا اسی( 80) سال پہلے مارچ ہی کا مہینہ تھا جسکی تئیس تاریخ سنہ 1940 کو قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی ۔ایسا خطہ زمین منزل ٹھرا جہاں مردوزن کو وہ تمام انسانی حقوق بن مانگے ملنے والے تھے جن کے وہ صدیوں سے متلاشی تھے ۔
گو کہ پھر پاکستان تو معرض وجود میں آگیا مگر منزل کی سمت ایک طویل سفر ہنوز باقی ہے۔
وقت جوں گزرتا گیا زندگی کا سفر بھی آگے بڑھتا چلا گیا۔
پچھلے برس دنیا بھر میں کرونا کی وبا پھوٹ پڑی۔ تقریباً ایک سال تو نفسا نفسی کے عالم ہی میں گزر گیا مگر صدشکر اب اسکا مؤثر علاج سامنے آچکا ہے۔
کرونا کی ویکسین لگنا شروع ہوگئی ہے۔
وزیر مینشن سے کار پھر روانہ ہوئی، سول ہسپتال کے قریب پہنچی تو انکی کی نظر ڈاؤ میڈیکل اینڈ ڈینٹل ہسپتال کی پر شکوہ عمارت پر پڑی۔اس کو دیکھ کر انکے لبوں پر دلاآویز مسکراہٹ پھیل گئی ۔دل کے بند دریچوں میں احمد ڈینٹل کالج کلکتہ کی پرچھائیاں لہرانے لگیں جہاں سے انہوں BDS کی تعلیم مکمل کی تھی۔
انہوں نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ کار ڈاؤ ڈینٹل (Dental Hospital )ہسپتال پر روک لے ۔
محترمہ نےایک نظر اپنی گھڑی پر ڈالی۔ویکسینیشن کے لیئے مقررہ وقت میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔
وہ اطمینان سے ہاتھ میں قائد اعظم کی چھڑی لیئےکار سے اتریں اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتیں پرشکوہ عمارت کے اندر داخل ہوگئیں ۔
انہیں ایسا خوشگوار احساس ہونے لگا جیسے وہ سینئر کیمبرج کی وہ طالبہ ہیں جس کا ابھی چند ہی روز پہلے شاندار نتیجہ آیا تھا اور آج وہ اپنے بھائی جان محمد علی جناح کے ہمراہ کالج میں داخلہ کیلئے آئی ہوئی ہے۔محترمہ کو یوں اچانک اپنے درمیان پا کر تمام عملہ اور طلبہ و طالبات حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی۔
مادر ملت کو یہ جان کر خوشگوار حیرت اور مسرت ہوئی کہ میڈیکل کے شعبہ میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔وہ لڑکیوں کی اس قابلیت اور اعلیٰ کارکردگی ہر بہت خوش ہوئیں ۔
انہوں نے اپنے پرس سے پیسے نکالے اور کاوئنر پر کھڑے ہوکر خود طبی معائنہ کی پرچی بنوائی۔
ہاوس آفیسر ڈاکٹر فرخ نے انکے دانتوں کا معائنہ کیا ۔فاطمہ جناح کو اس دھان پان سی لڑکی میں اپنا عکس دکھائی دیا انہوں نے مسکرا کر اسے بتایا کہ میں بھی ڈینٹیسٹ ہوں اور میں نے بمبئی میں کچھ عرصہ اپنی زاتی پریکٹس بھی کی تھی۔دوبارہ آنے کا وعدہ فرما کر انہوں نے پیدل ہی سول ہسپتال کا رخ کیا ۔ جہاں مادام رتھ فاؤ بیگم رعنا لیاقت علی خان اور بلقیس ایدھی بیچینی سے انکی منتظر تھیں۔
مادر ملت چند دنوں سے محسوس کررہی تھیں کہ لوگ کرونا ویکسینیشن سے گبھرا رہے ہیں۔اسی لیئے انہوں نےعوام کے خدشات دور کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا وہ یہ ویکسین خود لگواکر قوم کو پیغام دیں کہ ویکسین بالکل محفوظ اور ناگزیر ہے۔۔
آج انکی سول ہسپتال آمد اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
سول ہسپتال پہنچنے پر مادام رتھ فاؤ نے انہیں انتہائی محبت اور شفقت سےآگے بڑھ کر گلے لگا لیا۔مادام رتھ فاؤ تو جزام کے مریضوں سے بھی نہیں گھبراتی تھیں کرونا تو انکے خیال میں کوئی شے ہی نہ تھا۔ دوسرے معززین نے بہرحال احتراماً اور SOP,'s پر عمل کرتے ہوئے سینہ پر ہاتھ رکھ کر سلام پیش کیا۔
مادر ملت نے متانت اور محبت سے ان سب کو جواب دیا۔
ویکسینشن کے موقع پر تمام ملکی و غیر ملکی میڈیا کے نمائندے موجود تھے۔کیمروں کی چکا چوند میں ویکسینیشن کا عمل مکمل ہوا ۔
ڈاکٹر نے یہ تاریخی فریضہ سر انجام دیا۔
اسی اثنا میں مادر ملت کی سیکریٹری مسز فرگوسن نے یاد دلایا کہ آج عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر گورنر ہاؤس میں خواتین کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے والی خواتین مدعو ہیں ۔مادر ملت کو اس جلسے کی صدارت کرنی ہے۔۔
محترمہ فاطمہ جناح فورا ہی اسٹاف فلیگ ہاؤس روانہ ہوگئیں تاکہ کچھ دیر آرام فرماکر شام کو منعقد ہونے والی کانفرنس کیلئے تازہ دم ہوسکیں۔
مگر انکی کار جب صدر میں لکی اسٹار کے قریب سے گزری تو عجیب و غریب منظر دیکھا۔نیم عریاں لباس میں ملبوس چند لوگ اودھم مچا رہیں تھیں چند منچلے بھی انکے ہمراہی تھے۔۔وہ مختلف پلے کارڈز اٹھائے عورتوں کے حقوق کے لئے کئے جانے والی مارچ کے خلاف نعرہ زن تھیں۔
محترمہ نے ڈرائیور کو کار روکنے کا اشارہ کیا اور ان پلے کارڈز کو بغور پڑھنے لگیں۔جیسے جیسے وہ انکو پڑھتی گئیں چہرے پر ناگواری اور تاسف نمایاں جھلکنے لگا۔
انہوں نے اپنی سیکٹریری کو ہدایات کیں کہ وہ یہاں ٹھہر کران سے خطاب کرنا چاہتی ہیں۔مادر ملت کی ہدایت پر سیکٹریری مسز فرگوسن نے مختلف شخصیات کو بھی فون کرکے متعلقہ مقام پر فوری پہنچنے کی ہدایات جاری کیں۔
کچھ ہی اثناء میں پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر گورنر سندھ محترمہ خوش بخت شجاعت٫ وزیر اعلی آصفہ بھٹو ٫آئی جی سندھ محترمہ شرافت خان اور وزیر قانون فروغ نسیم وغیرہ یکے بعد دیگرے مادر ملت کے ہمراہ مودبانہ انداز میں کھڑے دکھائی دیئے۔
ملکہ ترنم نور جہاں اپنی بنارسی ساڑھی کا پلو سنبھالتے خراماں خراماں جلسہ گاہ تک آتی دکھائی دیں۔میڈم نور جہاں کی نگاہ جب بہیودہ پوسٹرز پر پڑی تو انہوں نے شرما کر ساڑی کے پلو سے اپنا منہ چھپا لیا۔
اس ساری پیشرفت کو دیکھ کر مظاہریں کے شرکاء میں بیچینی پھیل گئی۔آورہ لڑکے کھسکنا شروع ہوگئے۔آرگنائزرز کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔انہیں اپنا مذموم پلان چوپٹ ہوتا دکھائی دیا۔
ماحول پر ایک سکوت طاری ہوگیا۔
اس سکوت کو ایک نحیف مگر رعب دار آواز نے چیر کر فضا میں ارتعاش سا پیدا کردیا .
مادر ملت گویا ہوئیں!
میری عزیز بھائوں اور بہنوں !
میں صرف سات آٹھ سال کی تھی جب ہمارے والد کا انتقال ہوگہا۔ہمارے بڑے بھائی محمد علی جناح نے ہمیں باپ بن کر پالا ۔ہماری پرورش کی۔میں ڈینٹل سرجن بنی پھر پریکٹس کی۔قوم کو ضرورت پڑی تو سیاسی جد وجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہوئی تاکہ ہم مسلمان قوم اپنے غصب شدہ حقوق حاصل دوبارہ کرسکے ۔
ہم مانتے ہیں کہ برصغیر کے معاشرے میں عورت کو اپناجائز مقام پانے کیلئے مردوں سے زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ہم ایک Male Dominating Society میں رہتے ہیں۔ اسکے اثرات کو زائل ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ یہی پسماندہ اور فرسودہ سوج معاشرے میں عورتوں اور انکے جائز حقوق کے درمیان حائل ہے۔جیسے جیسے معاشرے میں تعلیم شعور و آگہی پھیلے گی۔یہ حقوق عورت کو بآسانی ملنا شروع ہو جائیں گے۔اس ہی کیلئے ہماری جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔۔
انہوں نے گورنر خوش بخت وزیر اعلیٰ آصفہ بھٹو اور دیگر کی طرف نگاہ ڈال کر کہا کہ یہ خواتین آج اس مقام پر اپنی تعلیمی و سیاسی جدوجہد کے بعد پہنچی ہیں ۔
مجمع میں موجود نوجوان لڑکیاں یہ گفتگو سنکر دم بخود رہ گئیں۔
ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا اور وزیر قانون فروغ نسیم کو فوری قانون سازی کی ہدایت جاری کی کہ عورت کو اسکے بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔بچیوں کی تعلیم سرکار کی زمہ داری ہو۔ وراثت کا قانون اس قدر سہل کردیا جائے کہ صرف موت کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانے پر متعلقہ جائداد وارثین کے نام خود بخود تقسیم ہوکر منتقل ہوجائے ۔
جیسے ہی یہ میٹینگ برخاست ہوئی ۔
فضا میں خود بخود جلترنگ سی بجنے لگی۔
میڈم نور جہاں کی سریلی آواز سمندر کی لہروں سے ٹکرا کر فضا میں چار سو پھیل گئی اور دور پہاڑوں کی بلندوبالا چوٹیوں کو چھو کر واپس پلٹی اور پھر پورے پاکستان میں ایک ہی نغمہ کی گونج سنائی دینے لگی۔
ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں !!!
قوموں کی عزت ہم سے ہے۔ !!!!
مادر ملت نے آسمان کی طرف دیکھا دور نیلے بادلوں کے سائے میں قائد اعظم دھیرے دھیرے مسکراتے ہاتھ ہلاتے دکھائی دیئے۔
مادر ملت کی پلکیں آنسوؤں سے بوجھل ہوگئیں مگر یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔آج انکے بھائی کا خواب پورا ہوگیا تھا۔
1955 ماڈل کی کیڈلک سیریز 62 کی کار ایک بار پھر اسٹاف فلیگ ہاؤس کی طرف اپنے آخری سفر کیلئے روانہ یوگئی۔
This is my entry for the Women's Day contest being held by AmbassadorsPK
This is my first attempt at writing something in Urdu, so please excuse any typos and spelling errors.
Happy Women's Day! 💞
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top