Episode 9 (خاطرات گذشتہ" (حصہ دوم "

پاکیزہ موتی از اقراء عزیز

باب ٩ : " خاطرات گزشتہ! " (حصّہ دوم)
(ماضی کی یادیں)

اس ہوٹل کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے وہ حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہو۔ وہاں موجود لوگ بھی خاصے کم تعداد میں دکھائی دیتے تھے۔
وہ اب مطلوبہ کمرے تک پہنچ چکے تھے۔
زین اسے وہیں چھوڑ کر اندر کمرے میں جا چکا تھا. جبکہ حیات باہر کھڑی اسکا انتظار کر رہی تھی۔
اگر شام کا وقت نہ ہوتا اور وہ ذرا سی بھی بہادر ہوتی تو خود ہی گھر واپس چلی جاتی۔
ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ بے ساختہ سامنے والے کمرے سے آتی اس آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔
اس کمرے کا دروازہ بند ہونے کے باوجود آواز بہت صاف اور واضح تھی۔ وہاں کوئی نہایت ہی خوبصورت آواز میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔
آج سے پہلے اس نے اپنے دادا جان یا بابا کے علاوہ کبھی کسی مردانہ آواز میں ایسی تلاوت نہیں سنی تھی۔
تلاوت کرنے والے کے انداز سے ہی وہ کوئی عربی لگتا تھا' یا شاید اُسکا عربی پڑھنے کا انداز اس قدر خوبصورت تھا کہ سامنے والے کو اپنی جانب متوجہ ضرور کرسکتا تھا۔
وہ شاید سورۃ التوبہ کی تلاوت کر رہا تھا۔

جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کے پیروی کی۔ اللہ ان سے راضی۔ اور وہ اللّٰہ سے راضی۔ اور اللہ نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ ﴿۱۰۰﴾

حیات وہیں کھڑی بغور اس کی تلاوت سن رہی تھی۔ اُس لمحے اسے صرف ایک وہی آواز سنائی دے رہی تھی۔
اے محبوب! ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو ستھرا اور پاکیزہ کرتے ہو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ﴿۱۰۳﴾

کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقے خود اپنی دست قدرت میں لیتا ہے۔ اور بے شک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ ﴿ ۱۰۴﴾

اچانک وہاں سے اس کا دھیان اُس کمرے سے کسی کانچ نما چیز کے ٹوٹنے کی آواز نے بھٹکایا تھا۔
وہ اس شخص کی تلاوت کو سننے میں اس قدر محو تھی' اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کتنی دیر سے ایک ہی پوزیشن میں یہاں کھڑی ہے۔
حیات نے جیسے ہی اپنا رخ پھیرا' نیچے زمین پہ پڑی شیشے کی کرچیوں کو دیکھ کر اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ جو کہ اسی کمرے سے آئی تھیں جہاں زین گیا تھا۔
زین کو اب اُس کمرے میں گئے کافی دیر بیت چکی تھی۔
حیات چند لمحے متذبذب سی وہیں کھڑی رہی اور پھر اس نے لرزتے ہاتھوں سے اس کمرے کے دروازے کو دھکیلا۔
دروازہ چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔ اندر ہر سوں اندھیرا تھا۔
آہ!!
اسکے پیر میں بھی شاید کانچ چبھا تھا۔ کمرے میں چھائی تاریکی دیکھ کے اسکا دل عجیب سی بے چینی اور خوف میں گھرنے لگا۔
ابھی اس نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا تھا کہ اسکے عقب میں زور سے دروازہ بند ہونے کی اور کلک کے ساتھ لاک لگنے کی آواز آئی تھی۔
وہ ایک دم گھبرا کر پلٹی۔
اس سے پہلے کہ وہ دروازے تک پہنچتی کمرے کی ساری بتیاں جل اُٹھی تھیں۔
" میں نے کہا تھا نا۔۔ ہماری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ "
یہ آواز۔۔۔۔ ہاں یہ آواز وہ پہچان سکتی تھی. مگر یہ لہجہ۔۔یہ لہجہ تو اس زین سے یکسر مختلف تھا۔ جس سے وہ ابھی اس کمرے میں آنے سے پہلے ملی تھی۔
حیات نے گردن اُٹھا کر دیکھا۔ وہ سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ جبکہ داخلی دروازے پہ ایک گلدان ٹوٹا ہوا پڑا تھا۔
جس کے ٹوٹنے کی آواز سن کر ہی حیات نے یہاں آنے کی غلطی کی تھی۔
بلکہ ایک سنگین غلطی۔ جو وہ اب کر چکی تھی۔
وہ اب بھی بت بنی وہیں کھڑی تھی۔ تب ہی زین کو اپنی جانب آتے دیکھ کر جیسے اسے ہوش آیا تھا۔
" یہ۔۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔ آپ۔۔ نے تو کہا تھا۔۔۔آپ یہاں کسی کلائنٹ سے ملنے آئے ہیں۔ اور یہ دروازہ۔۔۔ دروازہ بند کیوں کیا ہے۔"
حیات کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔ اس کے منہ سے بے ربط جملے ادا ہو رہے تھے۔
" جھوٹ کہا تھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا ویسے تو تم یہاں نہیں آؤ گی۔ مگر تم جیسی معصوم سی لڑکی اس کانچ کے ٹوٹنے کی آواز پہ ضرور متوجہ ہوگی اور پھر یہ دیکھنے یہاں آئے گی کہ مجھے اس کمرے میں گئے ہوئے اتنی دیر کیوں بیت گئی۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ تم معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ بیوقوف بھی ہوگی۔ "
وہ اطمینان سے کہتے ہوئے ایک قدم مزید آگے بڑھا۔
اور وہ نا محسوس سے انداز میں پیچھے ہٹتی جا رہی تھی۔
" جانتی ہو تمہارے باپ نے اس رشتے سے انکار کرکے بالکل اچھا نہیں کیا۔ " وہ تمسخر سے مسکرایا۔
" انکار۔۔۔تو کیا بابا نے رشتے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر اس شخص نے مجھے جھوٹ بول کر یہاں کیوں بلایا۔" وہ خوف سے برف بنتی جا رہی تھی۔
" زین کرمدار سب کچھ برداشت کر سکتا ہے۔ مگر اسے کوئی ریجیکٹ کرے یہ وہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔"
" پلیز ! مجھے جانے دو۔۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ " اسکی آواز بھرا گئی۔
"ٹھیک ہے! تم اپنے بابا سے ابھی اسی وقت خود فون کر کے کہو گی کہ تم اس رشتے پہ رضا مند ہو اور صرف مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو' تو ہی یہاں سے واپس جاؤ گی۔" زین نے لائیٹر سے سگریٹ جلاتے ہوئے کہا۔ وہ اب اس کے عین سامنے آ رُکا۔
حیات مزید کچھ سوچے سمجھے بغیر دروازے کی جانب لپکی۔
ابھی وہ دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ زین نے آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ میں پکڑے جلتے لائیٹر سے آگ کا نکلتا شعلہ حیات کے چہرے کے قریب کیا۔ اسی پل اُس کے لبوں سے بے ساختہ چیخ نکلی۔
" آگ۔۔۔ آگ!" اور پھر وہ وحشیانہ انداز میں چلانے لگی۔
اس کے یوں چیخنے پر ایک لمحے کے لئیے زین بھی گھبرا گیا تھا۔
یہ سب وہ صرف حیات کو خوفزدہ کرنے کے لئیے کر رہا تھا۔ مگر شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ حیات کو Pyrophobia (Fear Of Fire) ہے۔
اسے بچپن سے ہی آگ سے ڈر لگتا تھا۔ اس نے اپنا لائیٹر بند کر کے اسکے چہرے کے سامنے سے ہٹایا، اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا۔
حیات نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا گلدان اس کے شانے پہ دے مارا۔ وہ لڑکھڑا کر ذرا پیچھے ہوا اور وہ فوراً دروازہ کھول کر باہر کو بھاگی۔
حیات ابھی دو قدم آگے بڑھی ہی تھی کہ سامنے والے کمرے سے اسی تلاوت کرتی آواز سے ایک بار پھر اسکے بھاگتے قدم وہیں رک گئے۔
پھر اس آیت کے وہ چند آخری الفاظ اس کے کانوں سے ٹکرائے تھے۔ جس نے اسے وہیں منجمد کر دیا۔
"اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو پاکیزہ رہتے ہیں۔"
سورۃ التوبہ۔۔ ﴿۱۰۸﴾
وہ سُن سی کھڑی رہ گئی۔
کیا وہ اب بھی پاکیزہ تھی؟
حیات کو جیسے بے ساختہ اپنے گالوں پہ نمی سی محسوس ہوئی۔ اسے پتا ہی نہیں چلا کہ اسکی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
"ہاں وہ تو اب بھی ویسی ہی پاکیزہ حیات تھی۔ جیسی اس کمرے میں جانے سے پہلے تھی اور یہ بات وہ اور اُس کا اللہ جانتے تھے۔"

" بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اسکی رضا مندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گر جانے والی کھائی کے کنارے پر رکھی کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ میں لے گری اور خدا ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔" ﴿۱۰۹﴾

اب وہ آواز آنا بند ہو گئی تھی۔ شاید وہ شخص اپنی تلاوت مکمل کر چکا تھا۔
اور اسی لمحے حیات کو اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ زین کو اسی سمت آتے دیکھ کر حیات کے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی۔
اس سے پہلے کہ زین اپنا ہاتھ اسکی جانب بڑھاتا۔
اُسی سامنے والے کمرے سے جہاں ابھی کچھ دیر پہلے تلاوت کی آواز آ رہی تھی۔
ایک تیئس، چوبیس برس کا بھورے بالوں والا نوجوان باہر نکلا اور اس نے زین کے بڑھتے ہوئے ہاتھ پر ایک زوردار مکا رسید کیا۔
زین کراہ کر پیچھے ہٹا۔ شاید وہ شخص حیات کی چیخ سن کر ہی باہر آیا تھا۔
" شرم نہیں آتی تمہیں۔۔ کیا کر رہے تھے تم ذلیل انسان۔ عورت کی عزت کرنا سیکھو ورنہ ساری زندگی عزت کے لئیے ترستے رہ جاؤ گے۔ "
اس نوجوان نے زین کو کالر سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔
حیات حواس باختگی کے عالم میں وہاں سے بھاگی تھی۔
اس نے اپنی چادر کا ایک حصہ اچھی طرح منہ پر لپیٹ لیا تھا اور ہوٹل کی حدود سے باہر نکلتی چلی گئی۔
اس نے اس شخص کو نہیں دیکھا تھا۔ مگر وہ دل ہی دل میں اس کی ممنون تھی۔
اور اس رب کی شکر گزار۔۔ جس نے آج اسکی حفاظت کیلیے اس شخص کو محافظ بنا کر بھیجا تھا۔
چند لمحے بعد وہ بھاگتے بھاگتے اب ایک قریبی پارک کے سامنے آ رکی۔ فی الحال وہ اپنے بابا کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ مردہ قدموں سے چلتی ہوئی وہاں تک آئی اور ایک کونے میں درخت کے تنے سے سر ٹکا کر بیٹھ گئی۔
حیات کی نظر بے اختیار سامنے ایک آٹھ، نو سالہ بچی پر پڑی جو سفید اسکارف سر پہ لپیٹے اپنی ہم عمر ایک دوسری بچی کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی۔
اسکے سنہری بالوں کی ایک لٹ بار بار اسکارف سے باہر اسکے چہرے پر آرہی تھی۔
جسے وہ دھیرے سے ہنستے ہوئے پیچھے کر لیتی تھی۔ اچانک ہی اذان کی آواز پہ وہ متوجہ ہوئی اور اذان ہونے کے بعد ہی وہ وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر سامنے رکھی باسکٹ میں سے جائے نماز نکال کر وہاں بچھائی اور نماز پڑھنے لگی۔
وہ یک ٹک اسکے اس عمل کو دیکھ رہی تھی۔ جو اب سجدے میں جا رہی تھی۔
اسکی نظروں کے سامنے بے ساختہ وہ منظر لہرایا۔ جب وہ چھوٹی تھی اور اکثر یونہی دادا جان کے ساتھ پارک آیا کرتی تھی۔
اس لمحے وہ بھی اپنی ہی ایک ہم عمر بچی کے ساتھ فٹ بال کھیلنے میں مصروف تھی۔ جب دادا جان نے اُسے پکارا۔
" حیات! یہاں آؤ۔"
" جی دادا جان." وہ بال ہاتھ میں پکڑے ان کی جانب بھاگتی ہوئی آئی۔ بھاگنے کی وجہ سے سانس پھولنے سے اسکے گال مزید سرخ ہو گئے تھے۔
" بچے نماز کا وقت ہو رہا ہے۔ جاؤ پہلے نماز پڑھ لو پھر اپنی دوست کے ساتھ کھیلنا۔ ٹھیک؟ "
انہوں نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
" جی بس تھوڑی دیر اور کھیل لوں؟ ورنہ وہ ناراض ہو جائے گی نا۔"
وہ معصومیت سے بولی جس پہ وہ دھیرے سے مسکرادئیے۔
" اسکی مخلوق کی ناراضگی سے بچنے کیلیے خالق کو ناراض نہیں کیا جاتا میرے بچے۔ "
" مگر دادا جان آپ نے تو کہا تھا کہ ہم جن سے محبت کرتے ہیں وہ ہم سے یوں ناراض نہیں ہوا کرتے؟ " اسکی بھوری آنکھوں میں حیرت در آئی۔
" تو اس کا مطلب تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتی ہو؟ " وہ ایک بار پھر ہلکا سا مسکرائے۔
اس نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔
" حیات! محبت صرف کہنے سے نہیں ہوتی بلکہ اس پہ عمل بھی کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ محبت اور اعتبار سب سے پہلے اللہ کے ساتھ ہونا چاہئیے۔ اس دنیا میں لوگ آپ کو صرف اپنے فائدے کے لئیے چاہتے ہیں، جبکہ وہ اللہ ہے جو آپ کو صرف آپ کے فائدے کے لئیے چاہتا ہے' تو کیا ہم اسکی بے لوث محبت کے بدلے میں اسے تھوڑی سی بھی محبت نہیں دے سکتے؟
کتنا ہی اچھا ہو اگر ہم نماز اور قرآن کو صرف اپنا فرض سمجھ کر ہی نہیں، بلکہ اپنے اللہ کی محبت میں پڑھنا شروع کر دیں۔ " وہ سر جھٹک کر بولے۔
حیات ان کی باتوں کو بغور سن رہی تھی۔
حسن داؤد صاحب جانتے تھے کہ وہ ابھی یہ سب سمجھنے کی صرف کوشش کر رہی ہے۔ مگر وہ جلد یہ سب خود اپنے دل سے اللہ کی محبت میں کرے گی۔
" اور ہمارا اللہ بہت رحیم ہے۔ وہ اپنے بندے سے ہونہی ناراض نہیں ہوا کرتا۔ انسان خطا کا پتلا ہے..مگر ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ ایسا کوئی عمل نہ کریں جو اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ ہو اور پھر اللہ ہم سے ناراض ہو۔ یاد رکھنا میرے بچے! چاہے کوئی انسان ناراض ہی کیوں نہ ہو جائے، مگر اس کی وجہ سے اللہ کو کبھی ناراض مت کرنا۔ کیونکہ اس رب سے زیادہ دنیا میں کوئی آپ سے محبت نہیں کرتا۔ "
" اوکے دادا جان اب میں پہلے نماز پڑھوں گی۔۔اور پھر کھیلوں گی."
انہوں نے نرمی سے اسکا گال تھپکا۔
جبکہ وہ مسکراتے ہوئے بال بینچ پہ رکھ کر وہاں آئی' جہاں اسکی وہ ننھی سی دوست اس کی منتظر تھی۔
وہ اب اس بچی سے کچھ کہہ رہی تھی۔
اور پھر دادا جان نے دیکھا کہ حیات اور وہ ایک ساتھ سامنے سبزے پہ جائے نماز بچھائے نماز پڑھ رہی تھیں۔ جس پہ وہ بے اختیار مسکرا دئیے۔

**************

وہ منظر دھندلا گیا مگر آنسو اسی طرح اس کے چہرے پہ لڑھکتے رہے۔
" میں تو اللہ سے محبت کرتی ہوں نا؟ پھر۔۔ پھر میں کیسے اس شخص کی باتوں میں آکر اس سے ملنے چلی آئی۔ کیا ایک نا محرم پہ یقین کرنا ٹھیک تھا؟ اللہ کے یقین کا کیا؟ اگر میں اس سے مانگتی، تو کیا وہ میری مدد نہ کرتا؟ جو کام وہ ناپسند کرتا ہے، وہ میں نے کیوں کیا؟ مجھے یوں تنہا کسی سے ملنے نہیں آنا چاہیے تھا۔ میں نے اللہ کو ناراض کر دیا۔ " وہ سر گھٹنوں میں دئیے بے آواز رو رہی تھی۔
کچھ لمحے مزید یونہی خاموشی سے بیت گئے۔ اچانک ہی اسے اپنے جھکے سر پہ کسی کا شفقت بھرا لمس محسوس ہوا۔
حیات نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ ایک بوڑھی سن رسیدہ عورت تھی۔ جو کہ نرم اور شفیق نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" کیوں رو رہی ہو بیٹی؟" اب وہ اس کے سامنے بینچ پر بیٹھ گئیں، جو ابھی تک درخت کے سائے میں بیٹھی تھی۔
جیسے اس گھنے تناور درخت کا سایہ اسے دنیا والوں کی نظروں سے چھپا لے گا۔
" نہیں میں رو نہیں رہی تھی، ہوا سے شاید آنکھ میں کچھ چلا گیا تھا۔ بس! "
وہ اُن سے نظریں چرا گئی۔
" تمہیں ایک حدیث سناتی ہوں۔ " انہوں نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔
" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے رحمت کا فرشتہ ہم سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔ " ( سنن الترمزی : 1972)
حیات نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھا۔
وہ جانتی تھی انہوں نے یہ اسے یہ حدیث اس لیے ہی سنائی ہے۔ کیونکہ وہ ان سے جھوٹ بول رہی تھی کہ وہ رو نہیں رہی تھی۔
آنسو وہ چیز ہیں جو چھپائے نہیں چھپتے۔۔ یا تو ہماری سرخ ہوتی آنکھیں یہ بھید کھول دیتی ہیں یا پھر ہولے ہولے لرزتا وجود۔
" اکیلی آئی ہو؟ " انہوں نے نرم لہجے میں ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
" جی۔ " جواباً وہ فقط اتنا بولی۔
" میں اور میری نواسی یہاں روز آتے ہیں۔ وہ میری نواسی ہے سفید اسکارف میں۔"
انہوں نے مسکراتے ہوئے اسکی جانب اشارہ کیا۔
یہ وہی بچی تھی جسے دیکھ کے حیات کو بے ساختہ اپنا بچپن یاد آیا تھا۔
وہ بچی اب دعا کیلیے ہاتھ اٹھا رہی تھی۔ اتنی کم عمری میں اس قدر پُر سکون انداز میں نماز ادا کرتے ہوئے اُس نے پہلی بار کسی کو دیکھا تھا۔
" تمہیں آج پہلی بار یکھ رہی ہوں یہاں۔"
ان بوڑھی اماں کی آواز پہ وہ چونکی۔
" ہوں۔۔ جی میں پہلے یہاں کبھی نہیں آئی۔" وہ دھیرے سے بولی اور ایک بار پھر اپنا سر گھٹنوں میں دئیے ناجانے کیا سوچنے لگی۔
" ہوں۔۔ تو کیا تم راستہ بھٹک گئی ہو بیٹی؟ " انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
" نہیں مجھے اپنے گھر کا راستہ یاد ہے۔ "
اُس نے جھکے سر سمیت ہی جواباً سادگی سے کہا۔
" میں تمہارے گھر کے راستے کی بات نہیں کررہی۔ میرا مطلب ہے کہ لوگ تو بہت سے راستے بھٹک جاتے ہیں۔ تم کون سا راستہ بھٹک گئی ہو دین کا یا دنیا کا؟ "
حیات نے سر اٹھا کر اچنبھے سے انہیں دیکھا۔
جن کے چہرے پہ اب بھی وہی نرمی بھرا تاثر تھا اور لبوں پہ مبہم سی مسکراہٹ۔
" میں آپ کی بات سمجھی نہیں اماں جی۔ "
میں تمہیں سمجھاتی ہوں بیٹی۔۔دیکھو یہاں ہمارے پاس دو راستے ہوتے ہیں، ایک ہوتا ہے
" دنیا کا راستہ " اور ایک ہوتا ہے " دین کا راستہ۔" بعض اوقات انسان ان دو راستوں میں سے کسی ایک کو منتخب نہیں کرپاتا۔
اور جب منتخب کرلیتا ہے، تو کبھی نہ کبھی اس کی زندگی میں ایسی گھڑی ضرور آتی ہے کہ وہ بیچ راہ میں بھٹک کر رہ جاتا ہے۔ اگر وہ دین کو چھوڑ کر دنیا کے راستے کا انتخاب کرتا ہے' تو وہ دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ اس میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر اسے واپسی کا راستہ بے حد دشوار لگتا ہے۔ یا پھر شاید وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی سعی ہی نہیں کرتا، اور بس اس دنیا میں بھٹک کر رہ جاتا ہے۔ "
وہ گہری سانس بھر کر کہنے لگیں۔
" پھر آتا ہے دین کا راستہ۔۔جہاں انسان دنیا کو پیچھے چھوڑ کر اپنے رب کی طرف قدم قد چلتا آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر بعض اوقعات اپنے دنیا میں کئیے گئے برے اعمال کی وجہ سے بھٹک کر رہ جاتا ہے۔ پھر جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے۔ اس وقت اسے لگتا ہے کہ اگر وہ اللہ سے معافی مانگے گا تو وہ معاف نہیں کریں گے۔ وہ ناراض ہوگا تو ہمارے منانے سے راضی نہیں ہوگا۔ جبکہ یہ سب ہم خود سے سوچ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اس انسان میں اللہ کی رسی تھامنے کی چاہ ہوگی۔ تو اگلے قدم میں اللہ خود اسے تھام لے گا۔ "
" دین کا راستہ آغاز میں جتنا بھی مشکل ہی کیوں نہ لگے۔ مگر اس کی منزل صرف اللہ اور اس کی محبت ہے۔ جو سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین ہے۔ "
" تو کیا دین اور دنیا میں بھی یہی فرق ہوتا ہے؟ "
چند لمحے خاموش رہنے کے بعد جب وہ بولی تو اس کی آواز بے حد دھیمی تھی۔
" دین اور دنیا کی مثال روشنی اور سائے کی مانند ہے۔ جب کسی انسان کے آگے روشنی ہوتی ہے تو اس کا سایہ ہمیشہ پیچھے دکھائی دیتا ہے، اور جب روشنی پیچھے پڑتی ہے تو اس کا سایہ ہمیشہ آگے دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح دین روشنی ہے اور دنیا سایہ، دین کو آگے رکھوگے تو ایک دن دنیا خودبخود پیچھے آئے گی اور اگر دین کو پیچھے رکھوگے تو دنیا تمہیں خود سے آگے بھاگتی دکھائی دے گی۔ جبکہ وہاں آپ تہی داماں رہ جاتے ہیں. خالی ہاتھ۔.اور پھر آپ نہ دین کے رہتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے! "
حیات نے آنسوؤں سے بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اللہ نے اس عورت کو شاید اس کی مدد کے لئیے ہی یہاں بھیجا ہے کہ وہ نا امید نہ ہو، اور اگر وہ اپنے اللہ سے سچے دل سے توبہ کرے گی تو وہ اسے معاف کردے گا۔
شاید اُن چند لمحوں کے لئیے وہ دین کا راستہ بھٹک ضرور گئی تھی۔ مگر بھولی ہرگز نہیں تھی۔
تبھی تو اس کے اللہ نے اس کی حفاظت کی تھی اور اسے کسی بھی قسم کی برائی سے بچالیا تھا۔
" اور بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ "
اسے بے اختیار کچھ دیر پہلے اس اجنبی شخص کی آوز میں پڑھی گئی قرآن کی وہ آیت یاد آئی تھی۔
اسی اثناء میں وہ سفید اسکارف والی چھوٹی بچی بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئی۔ جو غالباً ان اماں جی کی نواسی تھی۔
" نانو۔ "
"جی نانو کی جان! " انہوں نے محبت سے اس کے گال چومے۔
" نانو اب گھر چلیں۔ مغرب کاوقت ہونے والا ہے۔ دیکھیں اندھیرا بھی ہورہا ہے۔ " اس نے افق پہ چھائے نیلنگے بادلوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
" ہاں بچے۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔
پھر اس کی جانب متوجہ ہوئیں۔
" یہ میری نواسی ہے ہادیہ نور۔"
" بہت پیارا نام ہے ماشاء اللہ! "
جواباً حیات نے بھی دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور نرمی سے اس بچی کا دایاں گال تھپکا۔
" چلو بیٹی اب میں چلتی ہوں۔ اللہ حافظ! ہمیشہ خوش رہو۔"
بوڑھی سن رسیدہ عورت نے بینچ سے اٹھتے ہوئے اس کے سر پہ شفقت سے اپنا ہاتھ پھیرا۔
اب وہ ان دونوں کو خود سے دور جاتے دیکھ رہی تھی اور وہ تب تک انہیں یونہی دیکھتی رہی۔ جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے۔
اس نے ہتھیلی کی پشت سے اپنے آنسو رگڑے، اور وہاں سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کیونکہ نماز کا وقت ہورہا تھا۔ اور اُس لمحے اس نے خود سے ایک وعدہ کیا تھا۔
" اب وہ اللہ سے معافی مانگے گی۔ وہ اپنے اللہ کو راضی کرلے گی۔ اسے ناراض نہیں رہنے دے گی اور تاعمر یونہی اپنے حجاب کی حفاظت کرے گی۔ دنیا کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے اللہ کی محبت میں۔ جو کہ بچپن سے ہی اس کے دل میں موجود تھی. بس اسے ذرا سی مزید کھوجنے کی ضرورت تھی۔ "
اور اسی دن وہ ایک کمزور حیات سے ایک مضبوط حیات نور بن گئی تھی۔
جس کا ہر عمل صرف اور صرف اپنے اللہ کے لئیے ہوگا۔
آج اس کے دادا جان کی کہی گئی بات سچ ہوگئی تھی۔

************

زین خالی الذہنی کے عالم میں ہاتھ میں پکڑے کافی کے مگ سے نکلتے دھوئیں کے مرغولے فضاء میں اُڑتے دیکھ رہا تھا۔
زندگی کو مذاق سمجھنے والا یہ نوجوان کب اس کہانی کا ایک ایسا کردار بن کر سامنے آئے گا۔ کسی کو کیا پتہ تھا۔
یہی سوچتے ہوئے وہ زخمی سا مسکرایا۔
اسی لمحے آغا کرمدار عجلت میں سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آیا۔
ابھی وہ باہر کا رخ کرنے لگا تھا کہ ایک دم زین پہ نظر پڑتے ہی اس کے قدم باہر جانے کے بجائے خوبخود اس کی جانب بڑھ گئے۔
جو ناجانے کتنی دیر سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا تھا۔
" زین! تمہاری کافی ٹھنڈی ہورہی ہے۔"
آغا نے ٹیبل پہ اپنی انگلی کی پشت سے دستک دیتے ہوئے اسے متوجہ کیا۔
" ہوں۔" جواباً وہ دھیرے سے فقط اتنا بولا۔
" کیا بات ہے زین۔۔ تین دن سے نوٹ کررہا ہوں۔ تم بلکل ہی غائب دماغ رہنے لگے ہو اور نہ ہی کسی بات کا ٹھیک سے جواب دیتے ہو؟ "
آغا نے فکرمند لہجے میں استفسار کیا۔
سامنے والے کمرے کے باہر کھڑی سیمل یہ منظر نہایت ہی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر جتنی فکر اپنے بھائی کی کرتا ہے۔ اتنی شاید کسی کی بھی نہیں کرتا۔
" نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ سب آپ کا وہم ہے بھائی۔ "
جواباً اس نے کافی کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔
جو کہ اب بلکل ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ جسے شاید وہ اپنے بھائی کے سامنے خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش میں زہر مار کر پی رہا تھا۔
" آر یو آل رائیٹ۔ " آغا نے نرمی سے کہتے ہوئے اس کے شانے پہ اپنا ہاتھ رکھا۔
" یس۔۔ آئی ایم فائن۔ " وہ بدقت ہلکا سا مسکرایا۔
" اگر کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاٶ تم جانتے ہو کہ۔۔" آغا نے مزید کچھ کہنا چاہا کہ زین نے وہیں درمیان میں اس کی بات کاٹ دی۔
" کہ آپ سب ٹھیک کردیں گے۔ "
اور اس کے یوں کہنے پہ وہ بے اختیار مسکرادیا۔
" ہاں۔۔تمہارے لئیے میں سب ٹھیک کردوں گا۔ " وہ اس کا کندھا تھپک کر اپنے ایک بازو پہ کوٹ لٹکائے باہر کی جانب بڑھ گیا۔
جبکہ زین کی نظروں کے سامنے وہ دو روز پہلے والا منظر کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔
" نہیں۔۔وہ اپنے بھائی کو ہرگز کچھ نہیں بتائے گا۔ اگر اس نے یہ ذکر کیا کہ وہ حیات سے ملنے گیا تھا۔ اور جو اس نے کیا' پھر اس کا بھائی زین کو تو جو کہے گا وہ بعد کی بات۔ مگر اپنے چھوٹے بھائی کو کسی بھی قسم کے الزام سے بچانے کے لئیے وہ سب ے پہلے حیات کا منہ بند کروانے کی کوشش کرے گا۔ وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ آغا کرم دار ہے۔ "
مگر میں اس معصوم لڑکی کو مزید کوئی تکلیف نہیں دے سکتا۔ اس نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔
کون جانے؟ ان پچھلے اڑتالیس گھنٹوں میں ایسا کیا ہوا تھا جو زین کرم دار کو یوں لمحوں میں شرمندہ کرگیا تھا۔۔۔کہ آج وہ اپنے کئیے پہ سر جھکائے نادم کھڑا تھا۔

*************

وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ ایک موتی آنکھوں سے ٹوٹ کر تکئیے میں جذب ہوا تھا۔ گزرے چار سالوں کا یہ سفر وہ ایک بار پھر تنہا طے کر آئی تھی۔
ہماری زندگی میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن سے صرف ایک بار ملنے پر بھی وہ ہمارے ذہن کی اسکرین پہ نقش ہوکر رہ جاتے ہیں۔
جیسے۔۔ وہ بوڑھی اماں جی اور اُن کی پیاری سی نواسی۔
حیات نے بے اختیار سوچا۔
اور وہ اجنبی شخص جس کی تلاوت نے اس کے اندر ایک عجیب سا احساس پیدا کیا تھا۔ جس نے انجانے میں ہی سہی اُس لمحے اسے صحیح اور غلط کا فرق واضح کردیا تھا۔
مگر اب وہ ایک مضبوط لڑکی تھی۔ وہ حیات نور تھی۔
اُس نے اداسی سے مسکراتے ہوئے اپنے آنسو صاف کئیے۔
" حیات! "
سبرینہ کی آواز آنے پہ وہ ایک دم چونکی۔
" اوہ! آج تو انہوں نے فروانیہ جانا تھا۔۔ یقیناً پھوپھو اتنی دیر سے اسی کا انتظار کررہی ہوں گی۔ "
یہی سوچتے ہوئے وہ ایک گہری سانس لے کر کمرے سے باہر نکلی تھی۔

**************

وہ لوگ فروانیہ کے علاقے کے اُس چھوٹے سے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ جہاں ہلکے سرمئی رنگ کے گیٹ کے ساتھ سنہرے رنگ کی تختی لگی تھی۔ جس پہ " مرحوم جہانزیب ابراہیم " لکھا تھا۔
"فروانیہ" کویت کا ایک بہت ہی خوبصورت شہر تھا۔ جہاں زیاده تعداد میں کویتی رہا کرتے تھے یا پھر اونچے طبقے کے دوسرے اور بہت سے ممالک کے لوگ۔
اسی لمحے داخلی دروازہ کھلا اور سامنےایک درمیانی عمر کی عورت کھڑی مسکرا رہی تھی۔ گو کہ حیات جانتی تھی وہ پاکستانی ہیں۔ مگر اُن کی میدے جیسی سفید رنگت سے اُسے وہ واقعی ایک عربی خاتون لگی تھیں۔
انہوں نے حیات اور سبرینہ کا نہایت ہی گرم جوشی سے استقبال کیا تھا۔ دادا جان کی طبیعت آج کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ اسی باعث وہ گھر پہ آرام کر رہے تھے۔
"کیسی ہو سبرینہ؟ "مسز صدف ان کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھیں اپنائیت سے پوچھ رہی تھیں۔
"میں ٹھیک ہوں بھابھی۔۔۔آپ کیسی ہیں؟ "
" کتنے عرصے بعد آئی ہو اس بار۔ شاید تم تو بھول ہی گئی ہو کہ تمہاری کوئی بھابھی بھی رہتی ہے یہاں۔ "
مسز صدف نے محبت بھرے خفا خفا سے انداز میں کہا۔
"ایسی بات نہیں ہے بھابھی۔۔اب تو آ گئی ہوں نا۔ "
جواباً وہ بے ساختہ مسکرا کر بولی تھیں۔
تب ہی مسز صدف کی نظر اس پہ پڑی جو کہ سبرینہ کے دائیں طرف والے صوفے پر بیٹھی تھی۔
"یہ حیات ہے نا؟ ماشاءاللہ کتنی بڑی ہو گئی ہے۔ "
"ہوں۔" سبرینہ مسکرائیں۔
" آخری بار تمہاری شادی پہ دیکھا تھا اسے۔ جب شاید یہ چار سال کی تھی۔ " انہوں نے محبت و اپنائیت سے کہتے ہوئے اسکا گال تھپکا۔
جواباً وہ بس ہلکا سا مسکرائی۔
اسی پل مریم لاؤنج میں داخل ہوئی۔
اور سبرینہ کو دیکھتے ہی وہ چہکتے ہوئے انکے پاس چلی آئی۔
"سبرینہ چاچی..! " گو کہ مریم کے بابا جہانزیب اور سبرینہ کے شوہر اسفند چچا زاد بھائی تھے۔ مگر وہ انہیں بچپن سے ہی چاچی کہہ کر پکارتی تھی۔
مریم سبرینہ سے ملنے کے بعد حیات کے پاس آئی اور بہت ہی گرم جوشی سے اسے گلے لگایا۔
جس پہ لمحے بھر کو تو وہ حیران رہ گئی۔
اور پھر اسے بے اختیار ماریہ کی ممی سے ہوئی پہلی ملاقات یاد آئی۔ صد شکر اِنہوں نے گلے ہی لگایا ہے۔ کم از کم اس کے گال تو نہیں چومے۔ وہی یہاں کے رہنے والے لوگوں کی اپنی محبت ظاہر کرنے کا مخصوص انداز۔
" حیات آپی! آپ میرے ساتھ آئیں۔ " مسز صدف اور سبرینہ کو باتوں میں مصروف دیکھ کے مریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر اُس کا ہاتھ پکڑ کر راہداری سے گزرتے ہوئے اسے لاؤنج کے سرے پہ لے آئی۔
حیات نے ستائشی نظروں سے ارد گرد کاجائزہ لیا۔ اس گھر کو جس نے بھی ڈیکوریٹ کیا تھا۔
وہ واقعی کمال کاذوق رکھتا تھا۔ اُس نے بے اختیار سوچا۔
لاؤنج سے باہر دیکھیں تو وہاں ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ سامنے ہی دونوں اطراف میں خوش رنگ پھول پودوں کے گملے رکھے تھے اور داخلی دروازے کے دوسری سمت اوپر ایک تخت سا بنا تھا۔ جہاں وہ پنجرہ رکھا گیا تھا۔ جس میں ایک خوبصورت سا طوطا تھا۔
وہ دونوں اسی سمت چلی آئیں۔
" یہ طوطا کتنا پیارا ہے۔"
وہ اُس طوطے کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے ہولے سے مسکرائی۔
اسے بچپن سے ہی ایسے پرندے بہت پسند تھے۔ خاص طور پہ طوطے اور کبوتر وغیرہ۔
" ویسے یہ طوطا بھائی کا تھا۔ مگر جب وہ پاکستان میں ہوتے ہیں تو میں ہی اس کی دیکھ بھال کرتی ہوں۔ ایسے یہ ہم دونوں کا طوطا ہے۔" و
مریم عادت سے مجبور نان سٹاپ بولتی چلی گئی۔
" ویسے وہ پاکستان سے بہت کم ہی کویت آتے ہیں۔" یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پہ ذرا سی افسردگی چھاگئی' جو کہ حیات سے چھپی نہیں تھی۔
" اچھا پاکستان میں کیوں؟ " اُس نے یونہی سرسری سے انداز میں پوچھا۔
" وہ پاک آرمی میں ہیں۔۔۔ہی از میجر! "
" مگر اب کی بار انہوں نے کہا ہے کہ وہ زیادہ دنوں کے لئیے آئے ہیں۔ کیونکہ میں نے ان سے کہا تھا نا اس لئیے۔" اب کے وہ چہکتے ہوئے بولی تھی۔
جواباً وہ بھی دھیرے سے مسکرائی۔ مریم کی باتوں سے صاف واضح تھا کہ وہ اپنے بھائی سے کس قدر محبت کرتی ہے۔۔ اور دنیا کی ایسی کون سی بہن ہوگی جو اپنے بھائی سے محبت نہ کرتی ہو۔
پھر بھائی بہن کا رشتہ تو ہوتا ہی انمول ہے۔ اس رشتے کا بھی کوئی مول نہیں ہوتا۔
البتہ اسے ایک بہت عجیب لگی تھی۔ جب مریم کا بھائی آرمی میں ہے تو ان کی فیملی یہاں کیوں رہتی ہے۔۔ یہ لوگ پاکستان کیوں نہیں رہتے؟
وہی خود کو ایک سائیکالوجسٹ سمجھنے کے ناطے فطری تجسس۔
اور مریم کی آواز پہ وہ ان تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹک کر ایک بار پھر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
"جانتی ہيں حيات آپی۔۔ اس طوطے کا نام بھائی نے"حيات "رکھا ہے۔"
وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی۔
اس نے اچنبھے سے مريم کو ديکھا اور پھر ہنس پڑی۔
" حيات کيوں ؟ "
يہ بھی ان کا اپنا راز تھا۔۔مگر ميرے بارہا پوچھنے پہ انہوں نے ايک بار ذکر کيا تھا کہ بچپن ميں انہيں ايک بھوری آنکھوں والی معصوم سی بچی ملی تھی۔ جن سے وہ پہلی بار ملے تھے۔ مگر بھائی کا کہنا تھا کہ وہ بھی اس طوطے کی طرح پٹر پٹر بولتی تھی اور اس کا نام بھی حيات تھا۔ "
وہ دھیرے سے ہنستے ہوئے بولی۔
ویسے ايک وجہ اور بھی ہے اس طوطے کا نام يہ رکھنے کی۔
"اور وہ کيا؟ " اب کے حيات نے قدرے دلچسپی سے پوچھا۔
" کيونکہ بھائی کا کہنا ہے کہ نام کا اثر صرف انسانوں پہ ہی نہيں ۔بلکہ جانوروں اور پرندوں پہ بھی ہوتا ہے۔ کيونکہ وہ بھی اللہ تعالی کی ايک مخلوق ہيں' تو ميں اس کا نام حيات رکھوں گا۔ تاکہ اسے لمبی حيات ملے يعنی لمبی زندگی۔"
جبکہ وہ ایک بار پھر ہلکا سا مسکرادی۔
"تمہاری باتوں سے تو لگتا ہے کہ تمہارے بھائی بہت عجیب ہيں۔ "
" اونہوں ۔۔وہ عجیب نہيں ہيں۔
"He is Different"
اسی لمحے سبرينہ نے حيات کو آواز دی۔
جس پہ اس طوطے کی بھی ٹيں ٹيں شروع ہوگئی تھی۔
مريم اور حيات نے بيک وقت ايک دوسرے کو ديکھا۔ پھر دونوں بے اختیار ہنس پڑيں۔
وہ دونوں اندر آئيں تو مسز صدف کھانے کا اہتمام کر رہی تھيں۔
مريم نے اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے کپکيکس پيش کئيے۔ جبکہ مسز صدف نے خالص کويتی بريانی اور وہی کويت کی چند مخصوص ڈشز تيار کی تھيں۔
کھانا بہت ہی خوشگوار ماحول ميں کھايا گيا تھا۔
کھانے کے کچھ دير بعد وہ سب لاؤنج ميں بیٹھی تھيں ۔جب مسز صدف نے مريم کو مخاطب کيا۔
" مريم ! جاؤ بيٹا جب تک حيات کو گھر دکھا لاؤ۔"
" جی امی۔" جواباً وہ مسکرا کر بولی۔
اُس وقت وہ اور حيات ان کے گھر کی اوپری منزل پہ موجود تھيں۔
اس سے پہلے کہ وہ اسے اپنے کمرے کی سمت لے کر جاتی۔
لاؤنج ميں رکھا لينڈ لائن فون بج اٹھا۔
"آہ! ايک تو يہ ليڈيز آج اتنے عرصے بعد ملی ہيں ۔انہیں اپنی باتوں ميں فون کی بجتی گھنٹی کہاں سنائے دے گی۔ مجھے ہی ديکھنا ہوگا۔"
مریم نے ايک سرد آہ بھر کر کہا۔
" حیات آپی۔۔ آپ جب تک ميرے کمرے ميں جا کر بیٹھیں ۔ميں بس ابھی آئی۔"
وہ دھیرے سے ہنس کر کہتے ہوئے نیچے جاتی زينوں کی جانب بڑھ گئی۔
جبکہ حيات وہاں کھڑی مسکراتے ہوئے اس کی پشت دیکھتی رہ گئی۔ اسے واقعی کويت میں رہنے والے يہ پُر خلوص لوگ بہت اچھے لگے تھے۔ کيونکہ ان کے دل خوبصورت تھے۔
"پاکستانی کويتی جو تھے۔" اس نے بے ساختہ سوچا۔
ہر بات پہ اپنے ملک کا دفاع کرنا حيات نور پہ فرض جو تھا۔
تب ہی اس کی نظر سامنے ان دو بيڈ رومز پہ پڑی۔
مريم نے اسے اپنے کمرے ميں بیٹھنے کا کہا تھا۔اب ان دونوں ميں سے اس کا کمرہ کون سا ہے؟
ان ميں سے ايک کمرے کا دروازہ نيم وا تھا۔جس ميں سے ہلکی سی ذرد روشنی جھلک رہی تھی۔
اب اسے وہ یہیں رکنے کا کہہ کر گئی ہے تو کيا اچھا لگے گا اگر وہ نیچے چلی جائے؟
" یہی مریم کا کمرہ ہوگا۔ "
کچھ سوچ کر اس نے دروازے پہ ہلکی سی دستک دی۔ شايد وہاں کوئی نہيں تھا۔
اس نے دروازے کو دھکيلا تو وہ کھلتا چلا گيا۔ وہ ايک سادہ مگر خوبصورت سا بيڈروم تھا۔
بظاہر مريم کو ديکھ کر لگتا نہيں تھا کہ وہ اس قدر نفاست پسند اور سادہ طبيعت کی مالک ہے۔
سامنے ہی ايک اسٹڈی ٹيبل رکھی تھی۔ جس پہ ايک ڈائری بھی رکھی نظر آرہی تھی اور اس ميں سے کوئی کاغذ یوں جھلک رہا تھا۔ جيسے ابھی نیچے جا گرے گا۔
حيات نے آگے بڑھ کر اس کاغذ کو ڈائری ميں واپس رکھا۔ تب ہی سامنے کھلے صفحے پہ اس کی نظريں جيسے ٹھہر سی گئیں۔
اسے شاعری کچھ خاص پسند نہيں تھی اور نہ ہی اس نے کبھی اس میں دلچسپی لی تھی۔ مگر وہ پھر بھی يہ نظم پڑھنے لگی۔

**************

باقی آئندہ اِن شاء اللہ!

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top