Episode 8 (خاطرات گذشتہ " (حصہ اول"

پاکیزہ موتی از اقراء عزیز

باب ۸ : " خاطرات گذشتہ! "
(ماضی کی یادیں! )

( حصّہ اول )

حیات کی آنکھوں کے سامنے بار بار اندھیرا چھا رہا تھا اور پھر اسے زور کا چکر آیا تھا۔ اس نے بمشکل پاس پڑی میز کے کونے کو تھاما اور خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ مگر اس میز کے کونے پہ ایک چھوٹا سا شیشہ پڑا تھا ۔ جو اس کے میز تھامنے سے زمین پہ جاگرا اور ایک چھناکے کی آواز کے ساتھ وہ شیشہ کرچیوں میں بٹ گیا۔ اسکے پاؤں میں بہت زور سے وہ کانچ چبھا تھا۔
دکھ، درد ،تکلیف، اذیت ، کیا نہیں تھا؟ جو اس نے اس وقت محسوس کیا تھا۔ مگر یہ درد اس کانچ کے چبھنے کا نہیں تھا۔ یہ تو کسی اپنے کو کھو دینے کا درد تھا۔ وہ درد جو صرف وہ اور اس کا رب ہی جانتے تھے۔
وہ ساکت نظروں سے بس اس زمین پہ پڑے شیشے کے ٹکڑوں کو دیکھ رہی تھی۔ اسے اتنی تکلیف اس کانچ کے چبھنے سے بھی نہیں ہورہی تھی۔ جتنی اس شیشے کی کرچیوں کو دیکھ کر ہورہی تھی۔
"رشتے اور شیشے دونوں انسانی غفلت کے باعث ٹوٹتے ہیں مگر انسان یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ شیشے کا متبادل شیشہ تو مل جاتا ہے۔ مگر رشتے کا متبادل رشتے کبھی نہیں ملتے۔"
وہ اپنا سرگھٹنوں میں دئیے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"انسان اتنا ناشکرا کیوں ہے اللہ؟"
اور یہی انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی چیز یا انسان کی قدر تب ہی کرتا ہے جب وہ اسکے پاس نہیں ہوتی یا جب وہ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ مگر کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ کھودینے کے بعد ہی اس کی قدر آئے؟ آخر ہم پہلے ان لوگوں کی قدر کیوں نہیں کرتے اللہ جب وہ ہماری زندگی میں موجود ہوتے ہیں؟
وہ بے آواز آنسو بہاتے ہوئے اپنے رب سے ہمکلام تھی۔
چند لمحے مزید یونہی خاموشی سے بیت گئے۔ اس نے سراُٹھا کر خالی خالی نظروں سے اس کمرے کو دیکھا اور پھر وہ مردہ قدموں سے کھڑی ہوئی تھی۔
صبح کے چار بج رہے تھے۔ وہ اسی بے ترتیب حلیے میں تھی اور اسکے پیروں میں کانچ چبھنے کی وجہ سے اب خون نکل رہا تھا۔
مگر وہاں پرواہ کسے تھی؟ اگر پرواہ تھی تو صرف اس بات کی کہ اسے وہاں جانا ہوگا۔ ہاں اگر وہ ابھی نہیں گئی تو پھر کبھی نہیں جاسکے گی۔
وہ لڑکھڑاتی ہوئی دروازے تک آئی اور پھر کسی خیال کے تحت بمشکل خود کو سنبھالے کمرے میں واپس آئی تھی۔ پھر وہ اسٹڈی ٹیبل تک آئی اور اسکے اوپر والا دراز کھولا۔ سامنے ہی ایک نیلے رنگ کی ڈائری رکھی تھی ۔اُس نے اس ڈائری کو کسی قیمتی متاع جان کی طرح اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور اسکا ایک ورق کھولتے ہی وہ اپنا ضبط کھو بیٹھی۔ وہ اب ہچکیوں سے رورہی تھی۔
پھر وہ یونہی آنسو بہاتے اپنے کمرے سے نکلی۔ اُس نے نم آنکھوں سے ایک نظر سامنے اُن بند دروازوں کو دیکھا۔ اور پھر وہاں سے باہر نکلتی چلی گئی۔
ٹیکسی سے ائیر پورٹ تک کے راستے وہ کیسے آئی؟ اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ وہ بس اب سامنے دیکھتی ائیرپورٹ پہ چلتی جارہی تھی۔ بلکہ نہیں وہ تو کہیں بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔ اسکے ہاتھ میں صرف وہ ڈائری تھی۔ جسے وہ اب کھونا نہیں چاہتی تھی۔
اسے لگ رہا تھا جیسے ساری آوازیں آنا بند ہوگئیں ہوں۔
اور اسکی سماعت میں صرف ایک ہی آواز تھی جو اسے سنائی دے رہی تھی۔
"آپ سے مل کر خوشی ہوئی مِس حیات، آپ کو ہمارا کویت کیسا لگا؟ "
نہ وہ کچھ دیکھ رہی تھی اور نہ کچھ سن رہی تھی ۔ وہ بس سیدھی چلتی جارہی تھی۔
"مادام! ہمیشہ ایک سائیڈ دیکھ کہ آگے کی کہانی خود سے اخذ نہیں کرنی چاہئیے ، کیونکہ اس دنیا میں انسان دھوکہ دینے اور دھوکا کھانے دونوں میں ماہر ہے۔"
کچھ ہی دیر میں اسکی فلائٹ کا اعلان ہونا تھا۔ وہ اسی طرح روتے ہوئے جہاز میں بیٹھی تھی اور اس آخری جملے نے سب کچھ ختم کردیا تھا۔
" تو پھر دعا کیجئیے مِس حیات نور! خدا کرے کہ اب کی بار میں جاؤں تو کبھی لوٹ کر نا آؤں، اور آپ کی اس دعا پہ آمین میں خود کہوں گا۔"
اسکے ذہن میں یہ الفاظ گردش کررہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا اسے سانس نہیں آرہی، اسکادم گھٹنے لگا تھا۔
" نہیں، نہیں، میں نے کبھی ایسی کوئی دعا نہیں کی تھی۔"
" یا اللہ! آپ تو جانتے ہیں میں نے کبھی ایسا نہیں چاہا تھا۔"
وہ اب ایک بار پھر یونہی سسکیوں سے رونے لگی تھی۔
کون جانتا تھا؟ یہ حیات کے لئیے چند گھنٹوں کا سفر نہیں تھا ۔بلکہ یہ سفر تو اس کے لئیے صدیوں کے برابر تھا۔
پچھلی بار جب وہ کویت سے گئی تھی۔ تب وہ کسی اپنے کو کھو چکی تھی۔
اب کی بار اس میں کسی اپنے کو کھو دینے کا حوصلہ نہیں تھا۔
نہیں تھا اس میں اتنا حوصلہ۔۔

***********

آزر وہاں سے نکلتے ہی سامنے ایک دوسری شاپ کی طرف آیا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا' روحان وہیں موجود ہوگا۔ روحان جب بھی اس کے ساتھ کسی شاپنگ مال آتا تھا۔ اس کا صرف ایک ہی کام ہوتا تھا۔ وقت گزاری کے لیے وہاں موجود دکانوں میں اردگرد کی چیزوں کا جائزہ لینا اور پھر دُکان دار کو پاگل کرکے شاپ سے باہر واپس آنا۔
"یہ چیز یہاں کیوں رکھی ہے؟وہاں کیوں نہیں رکھی۔"
"یہ جوتا یہاں کیوں ہے اسے وہاں ہونا چاہئیے تھا۔"
"اس پہ اتنے دینار کی چٹ کیوں لگائی ہے یہ تو اس سے کم قیمت کا ہے۔"
"ایسا کام کیوں کرتے ہو کہ لوگ تمہاری دُکان پہ آنا چھوڑ دیں۔ شرم نہیں آتی تمہیں؟"
اور اس دُکاندار نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
"بھائی معاف کردو اور تمھیں جو لینا ہے مفت میں یہاں سے لے لو۔"
" نہیں نہیں، تمھیں معلوم نہیں مفت میں کوئی چیز لینا کتنا گناہ ہے۔ تم مجھ سے گناہ کروانا چاہتے ہو ؟" روحان نے صدمے سے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
"اللہ اکبر! "
اور وہ آدمی بس اپنا سر پکڑ کر رہ گیا۔
روحان جب اپنی مسکراہٹ دباتا وہاں سے باہر نکلا تو آزر کو اپنے روبرو پایا۔
"ارے اتنی جلدی فارغ ہو گئے تم؟" وہ اسکے کندھے پہ ایک دھپ رسید کرتے ہوئے بولا۔
"ہاں! تو کیا تمہاری طرح یہاں وقت برباد کرتا رہوں۔" جواباً آزر نے لاپرواہی سے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔
"اور تم تو جیسے اس آدھے گھنٹے میں پاکستان گھوم کر آگئے ہو ہے نا؟" روحان بھی جل کر بولا تھا۔
"اور کیا کیا ہے تم نے اس دُکاندار کے ساتھ؟" آزر نے ایک نظر اس دُکاندار کو دیکھا جو بیچارہ ابھی تک اپنا سر پکڑے بیٹھا تھا۔
"میں نے کیا کیا ہے؟ میں تو یہاں کھڑکی خریداری کررہا تھا بس۔۔"
" I mean Window Shopping You know! "

روحان نے اپنی پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ اور یہ کہتے ہوئے وہ اس وقت دنیا جہاں کا عظیم معصوم لگ رہا تھا ۔
" بہت غلط بات ہے روحان۔ تم کب باز آؤ گے؟ جب دیکھو ہر کسی کو پریشان کرتے رہتے ہو اور کوئی کام نہیں ہے تمہارا۔" آزر نےا سے غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔
اور تب ہی حیات اُن سے چند قدم کے فاصلے پہ موجود اس شاپ سے باہر نکلی تھی۔
روحان کی نظر جیسے ہی اس پہ پڑی تو وہ فوراً بولا۔
" ارے یہ تو وہی ڈائین ہیں۔ یہ اتنے غصے میں کہاں جا رہی ہیں؟ کیا کسی کا خون کرنے؟"
اس نے کچھ سوچتے ہوئے آزر سے پوچھا۔
"تم خود ہی جا کر پوچھ لو۔" اب کے آزر نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا حیات جسکا خون کرنے کی غرض سے نکلی ہے۔ وہ تو اس سے چند قدم فاصلے پہ ہی کھڑا ہے۔
"اور آئندہ انہیں ڈائین مت کہنا۔ حیات نور نام ہے ان کا۔"
"اوہ! تو موصوف کو نام بھی معلوم ہے۔ کیا تم پہلے سے جانتے ہو انہیں۔" روحان نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
اور آزر جانتا تھا اگر وہ اسے نہیں بتائے گا تو روحان یہاں سے گھر تک کے راستے اسے سکون سے رہنے نہیں دے گا۔
"ہوں ۔۔جانتا ہوں۔ یہ سر حسن داؤد کی پوتی ہیں۔"
اور یہ لگا تھا روحان کو جھٹکا۔
"کیا کہا تم نے؟ یہ سر حسن داؤد کی پوتی ہے؟" وہ جو پہلے پاک فوج میں بریگیڈئیر رہ چکے ہیں اور اب کافی عرصے سے ریٹائر ہیں۔ وہی سر حسن جو ہمیں پاکستان میں بھی ملے تھے اور اب کویت میں رہائش پذیر ہیں۔" روحان جیسے ان کے متعلق ساری تفصیل بتا کر اس بات کی تصدیق چاہ رہا تھا۔
"ہاں۔۔ ہاں وہی سر حسن داؤد۔" آزر نے دھیرے سے سر کو خم دیتے ہوئے کہا۔
"میں نہیں مانتا! " روحان نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
"وہ تو اتنے پر خلوص شخصیت کے مالک ہیں اور ان کی یہ پوتی ۔ ہر وقت ناک پہ غصہ ، لگتا ہے سرخ مرچیں زیادہ کھاتی ہیں۔" اس نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
"بک بک مت کرو زیادہ اور گھر چلو۔" آزر نے خفگی سے اسے دیکھا اور پھر وہ دونوں یونہی بحث کرتے ہوئے ریمال مال سے باہر نکل گئے۔

*************

حیات ہمیشہ کی طرح اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جو کہ کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ جبکہ ماریہ اس کے بیڈ پہ بیٹھی پچھلے بیس منٹ سے اسے یوں کمرے کا چکر کاٹتے دیکھ رہی تھی۔حیات نے ابھی کچھ دیر پہلے اپنے ساتھ مال میں پیش آنے والا واقعہ مختصراً اسے بتادیا تھا۔
البتہ اس پورے قصے میں وہ اس دُکاندار کی شوہر والی بات گول کر گئی تھی۔
"کس قدر ڈھیٹ آدمی ہے وہ شخص۔میرا بل ادا کرکے وہاں سے غائب ہو گیا، تاکہ میں پریشان ہوتی رہوں۔ اب میں کیا کروں۔ کل تو جمعہ بھی ہے ساری مارکیٹ بند ہوگی۔ ورنہ میں کوئی دوسرا ڈریس خرید لیتی۔"
" اوہ خدایا! " اسکا غم و غصے سے بُرا حال ہورہا تھا۔
بس کردو حیات اب میں تھک گئی ہوں، اسکے نام گنتے گنتے۔ ماریہ نے ایک بار پھر اپنی انگلیوں کی پوروں پہ وہ سارے نام گن کر بتائے جو حیات پچھلے بیس منٹ میں لے چکی تھی۔
" کھڑوس میجر، ڈھیٹ آدمی، زکوٹا جن۔۔ وغیرہ وغیرہ۔"
اب اسکا اصلی نام بھی بتا دو ۔ وہ بے بسی سے بولی۔
جس پہ حیات نے غصے بھری خفگی سے اسے دیکھا۔
" تمہیں یہی نہیں معلوم کہ اتنی دیر سےمیں کس شخص کی بات کر رہی ہوں؟ "
" تم نے نام ہی نہیں لیا، تو کیسے معلوم ہوگا۔"
جواباً ماریہ معصومیت سے بولی تھی۔
"وہی میجر آزر جہانزیب کی بات کر رہی ہوں۔" وہ منہ بگاڑتے ہوئے بولی۔
جبکہ ماریہ کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔
"افوہ حیات! اپنے منہ کے ساتھ ساتھ تم تو انکا نام بھی بگاڑ رہی ہو۔"
اب کے جواباً وہ خاموش ہی رہی۔
"اور یہ تم اتنی دیر سے ان جیسے معصوم اور ڈیسنٹ آدمی کی بات کررہی تھی۔"
"وہ اور معصوم ہر گز نہیں۔" وہ بس غصے سے سرجھٹک کر رہ گئی۔
"اچھا یار! اب کبھی اگر وہ ملیں گے تو تم ان کو ان کے پیسے واپس لوٹا دینا ٹھیک۔۔"
ماریہ نے پُر جوش انداز میں اسے تجویز پیش کی۔
"وہ شخص دوبارہ میرے سامنے نہ ہی آئے یہی اچھا ہے۔۔ورنہ اس کا تو اللہ ہی نگہبان ۔"
"اور ایک بات میں جانتی ہوں حیات۔ تم جب انہیں وہ پیسے واپس لوٹاؤگی تو وہ ہر گز نہیں لیں گے۔ کیونکہ وہ ایک بہت ہی معصوم اور ڈیسنٹ۔۔۔"
اور اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی حیات نے صوفے پہ رکھا کشن اسکے منہ پہ دے مارا۔
"ماری چڑیل!"
اور جواباً وہ بڑی مہارت سے کشن کیچ کرتے ہوئے ہنستی چلی گئی۔
جبکہ حیات اب کمرے سے باہر جا چکی تھی۔

************

آزر ابھی ابھی جمعہ کی نماز ادا کرکے گھر آیا تھا۔ سفید شلوار سوٹ میں وہ ہمیشہ کی طرح ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔ وہ صرف جمعہ کی نماز کے لیے ہی خاص طور پہ شلوار قمیض پہنا کرتا تھا۔ ورنہ اس کامخصوص حلیہ وہی جینز اور شرٹ ہوتا تھا۔
بھورے بال ماتھے پر گر رہے تھے۔جنہیں وہ ایک ہاتھ سے پیچھے کر رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے چابی گھمائے وہ مسکرا تے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوا۔
پھر وہاں کسی کو نہ پا کر وہ کچن میں چلا آیا۔ جہاں مریم ہاتھوں میں کوکنگ گلوز پہنے اوون سے کوئی ڈش نکال رہی تھی۔
"مرحبا گڑیا!" سلام کرتے ہوئے وہ اسکے برابر میں آکھڑا ہوا تھا۔
"مرحبا بھائی! " جواباً وہ بھی مسکرائی ۔
" کیا کر رہی ہو؟ " وہ دلچسپی سے دیکھتے ہوئے ذرا آگے کو ہوا۔
"کپ کیکس بنا رہی ہوں۔" وہ فریج میں سے کریم کا پیکٹ نکالتے ہوئے مصروف سے انداز میں بولی۔
"ارے واہ! مجھے معلوم ہے مریم کہ تم اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی ہو، پھر بھی میرے لیے اتنا سب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔" وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اس سے گویا ہوا۔
" خبر دار بھائی! جو آپ نے انہیں آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو۔۔ یہ کپ کیکس میں صرف مہمانوں کے لیے بنا رہی ہوں۔" وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔
جبکہ آزر نے یہ پوچھنے کی بالکل زحمت نہیں کی تھی کہ کون سے مہمان؟
"ٹھیک ہے پھر میں آنکھیں بند کرکے کھا لیتا ہوں۔"
وہ مسکرایا اور اپنا ہاتھ ان کپ کیکس کی طرف بڑھایا۔
تب ہی مریم نے ایک بار پھر مصنوعی خفگی سے اسے گھورا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔ نہیں لگاتا ہاتھ اب ایسے مت گھورو۔" اب کے وہ بھی خفا ہوا تھا۔
اور وہ کیک پہ کریم لگاتے ہوئے بے اختیار مسکرادی۔
"اچھا انگلی لگالوں؟ " یہ کہتے ہی آزر نے ٹرے میں رکھے ایک کپ کیک کے کریم والے حصے کو اپنی انگلی کی پوروں سے چھوا اور وہی انگلی پہ لگی کریم مریم کی ناک پہ لگادی۔ پھر اس کی شکل دیکھ کر وہ ہنستا چلا گیا۔
جبکہ مریم منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی اور جب اسے سمجھ آیا تو وہ زور سےچلائی۔
"بھائی۔"
اس نے اپنی ناک کو کوکنگ گلوز پہنے ہاتھوں سے چھوا جس کے چھونے سے کریم مزید اسکی ناک پہ پھیل گئی اور وہ ایک بار پھر چلائی۔
" بھائی۔۔ آپ کو تو میں بعد میں دیکھوں گی۔"
مگر جب تک آزر وہاں سے غائب ہو چکا تھا۔
مریم نے خفگی سے کچن سے باہر نکلتے اسے سیڑھیوں سے اوپر جاتے دیکھا، اور پھر خود بھی سر جھٹک کر ہنس دی۔
" بالکل روحان بھائی کا اثر آگیا ہے ان پہ بھی۔"

*************

پاکستان :۔

کرم دار ولا میں ایک سکوت سا چھایا ہوا تھا۔ اور اس سکوت کو کسی کے قدموں کی آہٹ نے توڑا تھا۔ سامنے سے ایک شخص اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے، اور ہاتھ میں بریف کیس پکڑے گھر میں داخل ہوا۔ وہ دھیرے سے چلتا ہوا آیا اور اوپر اپنے کمرے کی سمت جاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھنے ہی لگا تھا کہ کسی احساس کے تحت ٹھٹک کر رُکا۔ صوفے پہ نیم دراز شخص کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں پہلے الجھن ابھری۔ پھر ایک دم وہ خوشگوار حیرت سے اسکی جانب چلا آیا۔
"بھائی !"
اُس نے دھیرے سے پکارا۔
صوفے پہ نیم دراز شخص کی آنکھیں بند تھیں۔
اسی لئے شاید وہ تصدیق چاہ رہا تھا کہ اس کا بھائی جاگ رہا ہے یا نہیں۔
"زین! " آغا اسکے پکارنے پہ فوراً سیدھا ہوا اور صوفے سے اُٹھ کر نہایت ہی گرم جوشی سے اپنے بھائی کو گلے لگایا۔
"بھائی آپ واپس کب آئے؟" وہ اب اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
" کل رات ہی آیا ہوں بس۔ " جواباً وہ دھیما سا مسکرایا ۔
"تم بتاؤ کہاں تھے صبح سے؟"
"جی بھائی بس کل عدالت میں ایک مقدمے کی پیشی ہے۔ اسی سلسلے میں کچھ کام تھا تو صبح جلد ہی چلا گیا تھا۔"
زین بھی ہلکا سا مسکرایا۔
اسکے چہرے سے تھکن صاف نمایاں تھی۔ آغا کرم دار نے بہت ہی محبت سے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا۔
جو اس وقت تھری پیس سوٹ میں ملبوس، وکیل کی مخصوص جیٹ بلیک ٹائی لگائے، اور کچھ اپنی پرسنالٹی کی وجہ سے ہینڈسم دکھائی دیتا تھا۔
"اور سناؤ وکیل صاحب کیسا چل رہا ہے سب؟ "
آغا نے زین کے کندھے پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"یہاں تو سب ٹھیک چل رہا ہے بھائی۔ آپ بتائیں کویت میں کیا کام تھا آپ کو؟ "
زین نے یونہی سرسری سے انداز میں اس سے پوچھا۔
جبکہ آغا نے چونک کر اسے دیکھا۔پھر وہ ہلکا سا مسکرایا۔
" بس یوں سمجھ لو ایک بہت ضروری کام تھا۔ جس کی شروعات کرنے گیا تھا۔"
کچھ تو تھا اسکی مسکراہٹ میں جو اس وقت زین کو بہت عجیب لگا تھا۔ جسے اس نے صرف اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا۔
"زین اب تم اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔ میں تمھارے لیے وہیں چائے بھجواتا ہوں۔"
آغا مسکراتے ہوئے ایک بار پھر اس سے گویا ہوا۔
"تھینک یو بھائی۔" جواباً زین نے ممنونیت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹک کر اوپر اپنے کمرے کی سمت جاتے زینوں کی جانب بڑھ گیا۔
وہ آج واقعی بہت تھکن محسوس کررہا تھا۔ بہت زیادہ۔
اور آغا تب تک اسے سیڑھیوں سے اوپر جاتا دیکھتا رہا۔ جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔

***********

وہ ڈریسنگ ٹیبل کے قد آور آئینہ کے سامنے کھڑی بالوں میں برش کررہی تھی۔ پھر اُنہیں جوڑے کی شکل میں باندھ کر وہ اب اپنے چہرے کے گرد اسکارف لپیٹنے لگی۔ حجاب لینے سے پہلے وہ ہمیشہ یونہی اپنے بالوں میں برش کیا کرتی تھی۔ دفعتاً دروازے پہ آہٹ ہوئی۔ حیات نے پلٹ کر دیکھا۔
سبرینہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اسے دیکھ کر مسکرائیں ۔
جامنی اور سیاہ رنگ کے امتزاج کی میکسی پہ سیاہ رنگ کا حجاب پہنے وہ بنا کسی سنگھار کے واقعی بہت اچھی لگ رہی تھی۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو۔" سبرینہ نے محبت سے اسکے میک اپ سے مبرا سادہ سے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"جانتی ہو حیات! عورت کی سادگی میں ہی اسکی خوبصورتی چھپی ہوتی ہے۔ اور چھپایا انہی چیزوں کو جاتا ہے جن کا کوئی مول ہوتا ہے۔ جیسے ایک سیپ میں چھپا موتی۔ اسی طرح جو عورت خود کو ڈھانپ کر رکھتی ہے' دنیا والوں کی نظر میں چاہے وہ خوبصورت ہو نہ ہو.. مگر اللہ کی نظر میں اس کی یہ حیا ہی اسکی خوبصورتی ہوتی ہے۔" جواباً اس نے مسکراتے ہوئے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا ۔
اسے سبرینہ کی یہی باتیں ہمیشہ اچھی لگتی تھیں۔
" اپنے حجاب کو کبھی مت چھوڑنا حیات! "
اُن کی اس آخری بات پہ اس کی آنکھوں میں یک دم نمی در آئی۔ جسے وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی چھپا گئی تھی۔
"کبھی نہیں پھوپھو! کیا کوئی اپنی شناخت بھی چھوڑ سکتا ہے؟"
اور سبرینہ نے مسکراتے ہوئے نرمی سے اس کے رخساروں کو چھوا۔
" چلو اگر تم تیار ہو جاؤ تو تھوڑی دیر تک باہر آجانا پھر ہم چلتے ہیں۔"
جواباً وہ بدقت ہلکا سا مسکرائی اور بس سر ہلا کر رہ گئی۔
سبرینہ اب کمرے سے جا چکی تھیں۔ جبکہ موجود تو حیات بھی وہاں نہیں تھی۔
کب سے ضبط کئیے آنسو بلآخر اسکے رخساروں پر بہہ نکلے.
" ماضی کی کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے مٹا دینا چاہتا ہے۔ مگر اس وقت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ماضی کے اس حصے کو بھلانے کی صرف کوشش ہی کرسکتا ہے..اس ماضی میں سے اپنا کردارکبھی نہیں مٹا سکتا! "

***********

چار سال قبل :۔

" حیات! "
سترہ، اٹھارہ سالہ حیات جو کہ لاؤنج میں بیٹھی اپنے کالج کا کوئی کام کر رہی تھی۔
اصغر حسن صاحب کی آواز پر چونک کر اُن کی جانب متوجہ ہوئی.
"جی بابا۔"
اصغر صاحب نے اخبار تہہ کرکے سائیڈ پہ رکھا اور مسکراتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئے.
"ادھر آؤ بچے۔۔ یہاں بیٹھو. "
انہوں نے اپنے برابر میں خالی نشست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ بھی مسکراتے ہوئے ان کے پاس آ بیٹھی اور اپنا سر انکے کندھے پر ٹکادیا.
"حیات مجھے آپ سے ایک بہت ہی ضروری بات کرنی ہے بیٹا۔"
"جی بابا میں سن رہی ہوں۔"
اُس نے سر اٹھا کر بغور انہیں دیکھا تھا۔ اصغر صاحب کے چہرے کے تاثرات سے وہ کچھ اخذ نہیں کرپارہی تھی کہ وہ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔
وہ چند لمحے خاموش رہے، اور پھر انہوں نے گہری سانس لے کر تمہید باندھی۔
"بیٹا تمہارے جو انکل حدید ہیں۔ ان کی ایک شناسا فیملی سے تمہارے لیے پروپوزل آیا ہے اور وہ لوگ آج ہی ہمارے یہاں آنا چاہ رہے ہیں۔ "
اُس نے گردن اوپر اٹھائی۔ کچھ دیر پہلے والی مسکراہٹ اسکے چہرے سے ایکدم معدوم ہوچکی تھی۔
اُس نے ایک بار پھر اپنی گردن جھکالی۔
اصغر صاحب اسکی پریشانی بھانپ گئے تھے۔ بچپن سے ماں سے محرومی کے باعث وہ حیات کی حساس طبیعت سے اچھی طرح واقف تھے۔
پھر ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی۔ ابھی تو اسے پڑھنا تھا اور اپنے خواب پورے کرنے تھے۔
اصغر صاحب نے بھی حیات کو ہمیشہ اس معاملے میں سپورٹ کیا تھا۔ مگر وہ بہت گہری سوچ رکھنے والے انسان تھے۔
وہ ہمیشہ مستقبل کا سوچ کر ہی کوئی فیصلہ لیا کرتے تھے۔ حیات اُن کی اکلوتی اولاد تھی اور وہ اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔
تب ہی وہ اسکے بہترین مستقبل کے لیے ہی اس رشتے کے متعلق سوچنے پر مجبور تھے.
کیونکہ پچھلے سال ہی انہیں ہارٹ اٹیک آیا تھا۔ چونکہ اٹیک مائینر تھا تو وہ جلد صحت یاب ہوگئے تھے۔ جبکہ حیات اب تک اس بات سے لاعلم تھی۔ پھر حسن داؤد صاحب بھی سبرینہ کی وجہ سے کویت میں رہائش پذیر تھے.
اور یہاں اسلام آباد میں وہ اور حیات تنہا تھے۔ اسی باعث وہ اسکے آنے والے مستقبل کو لے کر مزید فکر مند ہوگئے تھے۔
"بابا آپ ابھی سے مجھے خود سے دور کرنا چاہتے ہیں."
وہ بہت دھیرے سے بولی تھی۔
بے ساختہ اس کی آنکھوں میں نمی درآئی.
"حیات۔۔ میں تمہاری مرضی سے ہی کوئی فیصلہ کروں گا۔ اگر تم نہیں چاہتیں تو ٹھیک ہے .مگر حدید کہہ رہا تھا وہ لوگ اچھے ہیں۔ میں اس رشتے پر ایک بار غور ضرور کروں۔ ابھی وہ لوگ منگنی یا نکاح کریں گے۔ باقی فیصلہ آپ کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہی ہوگا۔ "
انہوں نے شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
"اور یہ کبھی مت سوچنا کہ میں تمہیں خود سے دور کرنا چاہتا ہوں .میرے لیے تو تم ہی میرا سب کچھ ہو حیات نور۔ "
" میرے لیے بھی آپ ہی میرا سب کچھ ہیں بابا۔ "
وہ نم آنکھوں سمیت کہتی' بدقت ہلکا سا مسکرائی۔
اور پھر مزید کچھ کہے بنا وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی. جبکہ اصغر صاحب اسے وہاں سے جاتے دیکھ کر محض ایک گہری سانس لےکر رہ گئے.

************

حیات نے کچھ حد تک اس رشتے کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔ اسکے لیے اپنے بابا سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔
وہ جانتی تھی انہوں نے اس کے لیے بہت سوچ سمجھ کر ہی یہ فیصلہ کیا ہوگا۔ مگر نا جانے کیوں وہ اب بھی مطمئن نہیں تھی.
وہ لوگ اصغر صاحب سے مل کر جا چکے تھے.
کرم دار خان کی ڈیتھ ہوچکی تھی اور ان کے دو ہی بیٹے تھے.
آغا کرمدار اور زین کرمدار
آغا انتیس، تیس برس کا ایک باوقار مرد تھا اور اسکی بیوی سیمل نہایت ہی حسین عورت تھی.
جبکہ ان کی ایک دو سالہ بیٹی زویا تھی۔
حیات کے لیے آغا کرمدار کے چھوٹے بھائی "زین کرمدار" کا پروپوزل آیا تھا۔
جو اُن دنوں لاء کے آخری سال میں تھا۔
اصغر صاحب کسی اہم میٹنگ کے سلسلے میں آج جلد ہی آفس چلے گئے تھے۔
حیات نے کل تک اپنے بابا کو اس رشتے سے خوش اور مطمئن دیکھا تھا اور اسے یقین تھا کہ آج اس کے بابا زین کے آنے والے پروپوزل کے لیے یقیناً ہاں کر چکے ہوں گے۔
وہ انہی تمام سوچوں میں گم تھی کہ اچانک لاؤنج میں رکھا لینڈ لائن فون بج اُٹھا۔
"ہیلو! اسلام وعلیکم! " ایک انجان سی بھاری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
"وعلیکم السلام!"
حیات نے حیرت سے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
آواز اجنبی تھی۔
"کیا میں مس حیات نور سے بات کر سکتا ہوں؟" اب کے ایک بار پھر نرم لہجے میں کہا گیا۔
اس نے اچنبھے سے ریسیو کو دیکھا۔
" میرا نام آپ کیسے جانتے ہیں۔"
وہ اپنے ازلی معصومانہ اندازمیں بولی۔
اور وہاں وہ شاید ہلکا سا مسکرایا تھا۔

"میں زین ہوں۔ زین کرمدار۔"
شاید مقابل کو یقین تھا کہ اتنا ہی تعارف کافی ہے۔
اسلیئے مزید کچھ نہ بولا۔
اور جواباً حیات خاموش رہی۔ نام سے تو وہ پہچان گئی تھی کہ یہ وہی زین ہے۔ جس کا چند دنوں پہلے اُس کے لیے پرپوزل آیا تھا۔
اس کا مطلب بابا واقع رضا مند ہیں۔ تب ہی تو اس شخص نے ان کے گھر فون کیا ہے۔ ناجانے کیوں اس کا دل بے اختیار بھر آیا۔ ابھی وہ فون رکھنے ہی لگی تھی کہ وہ کہہ اُٹھا۔
" کیا ہم کچھ بات کر سکتے ہیں"
جواباً وہ ناچاہتے ہوئے بھی بول پڑی۔
"جب بابا نے اس رشتے سے رضامندی دے ہی دی ہےتو آپ مجھ سے ابھی کیوں بات کرنا چاہتے ہیں."
قدرے دھیمے لہجے میں بولی تھی۔
"آپ مجھ سے ایک بار مل لیں۔ میں آپ سے ہمارے رشتے کے متعلق ہی کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔" چند لمحے کی گہری خاموشی کے بعد وہاں سے کہا گیا۔
زین کی اس بات پر حیات گھبرا کر رہ گئی۔
جب آغا کرم دار کی فیملی اس کا باقاعدہ پرپوزل لے کر آئی تھی۔ تب وہ زین کو ایک بار دیکھ چکی تھی۔ مگر اب تک وہ اس کے لیے ایک اجنبی ہی تھا، تو وہ بھلا ایسے کیسے کسی انجان شخص سے مل سکتی تھی؟
" نہیں یہ مناسب نہیں ہے۔"
" صرف ایک بار میڈم! یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے پلیز۔۔"
" ٹھیک ہے پھر میں بابا کے ساتھ آؤں گی۔" وہ کچھ سوچ کر بولی۔
اور وہاں وہ ایک بار پھر خاموش ہو گیا، شاید اس کی اس بچگانہ بات پہ حیران ہوا تھا۔
"یہ ہمارے مستقبل کا فیصلہ ہے، وہاں آپ کے بابا کیا کریں گے؟ "
" یااللہ! میں کیا کروں وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی اور پھر ایک روشنی کا کوندا سا اس کے ذہن میں لپکا۔ ناجانے کیوں وہ ذہنی طور پر ابھی اس رشتے کے لیے تیار نہیں ہوئی تھی، تو کیو ں نہ وہ اس شخص سے مل کر ہی اس کو سمجھائے کہ وہ اس رشتے سے انکار کر دے؟ اور یہ معاملہ ہی ختم کردے۔ اس طرح وہ اپنی پڑھائی بھی سکون سے مکمل کر سکے گی اور بابا بھی ہرٹ نہیں ہوں گے۔
یہی سوچ کر بلآخر اس نے زین سے ملنے کی ہامی بھر لی تھی۔
"اوکے ٹھیک ہے۔۔ مگر ہم صرف اِس موضوع پہ بات کریں گے۔"
وہ مضطرب سےانداز میں بولی۔
" ٹھیک ہے۔۔پھر شام چار بجے شارپ۔ جگہ میں آپ کوبتا دوں گا۔"
اور پھر حیات نے کھٹ سے فون رکھ دیا۔ دل کی دھڑکنیں ابھی تک تیز چل رہی تھیں۔
آج اس نے پہلی بار یوں کسی مرد سے بات کی تھی۔
بات کرنے سے تو ایک مہذب انسان لگتا تھا۔ شاید وہ اُس کی بات سمجھ جائے۔۔۔شاید!

*************

یہ ماہ دسمبر کی اسلام آباد کی نہایت ہی ٹھنڈی سہ پہر تھی۔ حیات نے ٹیکسی سے اُُتر کر چند قدموں کے فاصلے پہ واقع اس ہوٹل کو دیکھا۔ زین نے اسے کہا تھا کہ یہاں اس کی کسی سے اہم میٹنگ بھی ہے۔ لہٰذا اس نے حیات کو بھی کچھ دیر بعد یہیں آنے کو کہا تھا۔
اس نے سیاہ چادر سے مکمل طور پہ خود کو ڈھانپ رکھا تھا۔
وہ ہمیشہ یونہی خود کو ڈھانپ کر گھر سے نکلتی تھی۔
ہوٹل کا بیرونی گیٹ سامنے تھا۔
وہ ٹھنڈ سے ٹھٹھر رہی تھی۔ کچھ یہ سوچ کر بھی کانپ رہی تھی کہ یوں کسی اجنبی سے ملنا ٹھیک ہے؟ یا اسے واپس چلے جانا چاہئیے۔۔ بمشکل وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس ہوٹل میں داخل ہوئی۔
سامنے ہی لابی میں ایک طرف لگے صوفوں میں سے ایک صوفے پہ زین بیٹھا، کسی سے محو گفتگو تھا۔
بات چیت کے انداز اور حلیے سے وہ شاید ہوٹل کامینیجر لگتا تھا۔
"سر آپ کا کام ہو گیا ہے۔ کیا آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت ہے؟" وہ منیجر مسکراتے ہوئے زین سے مخاطب تھا۔
"نو تھینکس، یومے گو ناؤ " ( نہیں شکریہ ، اب آپ جا سکتے ہیں۔)
زین نے حیات کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر جواباً اس منیجر سے کہا۔
حیات کا دل کیا وہ واپس پلٹ جائے۔ مگر اسی وقت اس نے زین کو اپنی سمت آتے دیکھا۔
"السلام وعلیکم میڈم!" وہ اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا تھا۔
"وعلیکم السلام! " اس نے دھیرے سے سلام کا جواب دیا۔
"کیا ہم یہاں بیٹھ سکتے ہیں۔" چند لمحے بعد بھی حیات کو ایک ہی پوزیشن میں کھڑے دیکھ کر زین نے سامنے لگے صوفوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی آگے بڑھ گیا۔ جبکہ وہ بھی اس کے پیچھے چلی آئی۔
حیات اب اس کے مقابل والے صوفے پہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
وہ مینیجر اب وہاں سے جا چکا تھا۔
" آپ کو جو بات کرنی ہے۔ جلدی کریں پلیز۔"
وہ مضطرب انداز میں اپنے گود میں رکھے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
" مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے۔ جیسے آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں؟ "
زین نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
جو گردن جھکائے بیٹھی ابھی تک ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔ ناجانے یہ سردی کی شدت کی وجہ سے تھا یا کچھ اور۔
"میں ۔۔ ہاں مگر پہلے آپ کہیں۔"
"میری بات آپکی بات سے زیادہ ضروری نہیں ہو گی۔ سو پلیز! آپ کہیئے جو کہنا چاہتی ہیں۔"
زین کی اس حوصلہ افزائی پہ وہ بمشکل ہمت مجتمع کر کے دھیرے سے کہنے لگی۔
" میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ میں ابھی ذہنی طور پر اس رشتے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں فی الحال صرف اپنی پڑھائی مکمل کرنا چاہتی ہوں اور کچھ نہیں چاہتی۔" اس نے وہی کمزور سی دلیل پیش کی جو وہ سارے راستے سوچتی آئی تھی۔
"اس لیئے پلیز آپ۔۔۔ آپ اس رشتے سے انکار کر دیں ۔ کیونکہ میں ایسا نہیں کر سکتی۔ ورنہ میرے بابا ہرٹ ہوں گے۔"
اس نے اب کے نظریں اُٹھا کر سامنے دیکھا۔ زین مکمل طور پہ اس ہی کی جانب متوجہ تھا۔
حیات نے ایک بار پھر نظریں جھکا لیں۔
"ہوں ۔۔۔ تو آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں آپ کے فادر کو اپنی طرف سے اس رشتے سے انکار کر دوں۔۔۔رائٹ؟"
زین نے ابرو اُچکا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
اور حیات نے جھکے سر سمیت دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔
اس نے ابھی کچھ کہنے کے لیئے لب کھولے ہی تھے کہ سیل فون کی بجتی گھنٹی نے اُن دونوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔
زین نے جیب میں رکھا سیل فون نکالا اور کال ریسیو کی۔
"ہاں' ٹھیک ہے۔ اوکے۔۔آپ انتظار کیجیے۔ میں وہیں آ رہا ہوں۔"
پھر فون پہ الوداعی کلمات کہہ کر رابطہ منقطع کر کے وہ ایک بار پھر حیات کی جانب متوجہ ہوا۔
" مجھے اب جانا ہوگا۔"
وہ ایک دم وہاں سے جانے کے لیئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
"ہماری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔" زین پُر سکون انداز میں کہتے ہوئے خود بھی وہاں سے کھڑا ہوگیا اور اس کے عین سامنے آ رُکا۔
"دیکھئیے۔۔ میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ میں یہاں اسی ہوٹل میں ایک اہم میٹنگ کے سلسلے میں آیا ہوں۔ سو بس یہیں اوپر والے کمرے میں میرا ایک کلائنٹ میرا ویٹ کر رہا ہے۔ اس سے مل لوں، پھر میں خود ہی آپ کو گھر ڈراپ کر دوں گا۔"
" نہ ۔۔ نہیں۔ میں خود ہی چلی جاؤں گی۔ شکریہ۔"
حیات نے یہ کہتے ساتھ ہی میز سے اپنا پرس اُٹھایا۔
"آر یو شیور کہ آپ چلی جائیں گی؟" اُس نے ایک گہری سانس لی۔
"دیکھئیے آج کل کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ بس آدھے گھنٹے کی بات ہے۔ آپ یہاں نیچے لابی میں میرا انتظار کر سکتی ہیں یا چاہیں تو اوپر روم کے باہر میرا انتظار کریں۔" نرم لہجے میں کہتے ہوئے اس نے ہاتھ پہ بندھی رسٹ واچ پہ وقت دیکھا۔
وہ تو ٹیکسی میں بھی ملازمہ کے ساتھ آئی تھی اور اب تو شام ہونے کو تھی۔
حیات چند لمحے متذبذب سی وہیں کھڑی رہی۔ اس نے ارد گرد نظریں دوڑائیں تو سامنے لگے صوفوں پہ اسے ہرطرف نوجوانوں کا گروپ ہی دکھائی دے رہا تھا۔
"اوکے۔" اُس نے چند لمحے کی خاموشی کے بعد کچھ سوچ کر متفق انداز میں اثبات میں سر ہلایا۔
پھر زین کے ساتھ اوپر والے کمروں کی سمت جاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔

************

اصغر حسن صاحب اس وقت اپنے آفس میں بیٹھے کسی گہری سوچ میں گم دکھائی دیتے تھے۔
"بے شک ! اللہ بہت عظیم ہے، اس نے مجھے کسی بڑی غلطی سے بچا لیا۔ ورنہ میری حیات کا کیا ہوتا۔۔" یہ سوچتے ہوئے انہوں نے ریوالونگ چئیر کی پشت سے اپنا سر ٹکا لیا۔ انہوں نے حیات کو ابھی تک اپنے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا تھا کہ وہ کرمدار خان کی فیملی کو اس رشتے سے انکار کر چکے ہیں۔
البتہ وہ یہی سوچ کر گھر سے نکلے تھے کہ واپسی پہ اسے اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔
اُن کی آنکھوں کے سامنے بے ساختہ وہ رات والا منظر لہرایا۔

************

کل رات کا منظر:۔

اصغر حسن صاحب نے کرمدار خان کی فیملی کو ابھی تک کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا تھا۔ وہ اپنی بہن اور بابا سے پوچھ کر ہی کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔
اس لمحے وہ لاؤنج میں بیٹھے اپنی چھوٹی بہن سبرینہ سے حیات کے آنے والے پروپوزل کے متعلق ہی گفتگو کررہے تھے۔
"ہاں سبرینہ میں تمہیں زین کی تصویر بھیج رہا ہوں۔ تم دیکھ لو لڑکے کو اور بابا جان کو بھی دکھا دو۔ تب تک میں فون ہولڈ رکھتا ہوں۔"
وہ مسکراتے ہوئے مدھم سے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
"ٹھیک ہے بھائی۔۔ میں ابھی دیکھتی ہوں۔"
وہاں بھی فون پہ سبرینہ کی آواز سے یہ لگ رہا تھا کہ شاید وہ مطمئن اور خوش ہیں۔
"انہیں بے اختیار حیات کے بچپن میں کسی سے کی گئی ایک بات شدت سے یاد آئی تھی۔ مگر وہ جانتی تھیں اب یہ ممکن نہیں۔۔ کیونکہ ہمیشہ ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم سوچتے ہیں۔ اور ان کی خوشی تو صرف اور صرف حیات کے اچھے مستقبل میں ہی تھی۔
مگر کون جانے؟ کہ اب کیا ہونے والا تھا۔
یہاں کویت میں۔۔ سبرینہ اصغر صاحب کی بھیجی ہوئی وہ تصویر دیکھ رہی تھیں۔ تصویر میں موجود اس سیاہ آنکھوں والے ہینڈسم نوجوان سے ہوتے ہوئے ان کی نظر اسکے ساتھ موجود ڈنر سوٹ میں ملبوس اس آدمی پر پڑی۔ جو مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کے کندھے پہ ہاتھ رکھے کھڑے تھے اور اس شخص کو دیکھ کر سبرینہ ایک دم ساکت رہ گئیں۔
ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، انہیں اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ۔۔۔کیا جو وہ دیکھ رہی تھیں وہ سچ تھا؟
اور ایک دم وہ صوف پہ ڈھے سی گئیں۔ جبکہ موبائل ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر صوفے کے ایک کونے پہ جاگرا۔
حسن داؤد صاحب نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے یہ منظر دیکھا اور فوراً سبرینہ کی جانب بڑھے۔
"سبرینہ کیا ہوا بیٹی ؟" انہوں نے مضطرب انداز میں ان کا شانہ ہلایا۔
مگر وہ اب بھی اسی پوزیشن میں تھیں۔
اور تب ہی حسن داؤد کی نظر صوفے پہ دھرے انکے موبائل پہ پڑی۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کہ جیسے ہی دیکھا تو اس پہ وہی تصویر کھلی تھی۔ جو کچھ لمحے پہلے سبرینہ دیکھ رہی تھیں اور ایک لمحے کے لیے تو وہ بھی چکرا کر رہ گئے۔
یقین تو انہیں بھی نہیں آرہا تھا کہ یہ۔۔ یہ وہی شخص ہے۔
فون سے آتی ہیلو کی آواز پہ حسن صاحب کا سکتہ ایک دم ٹوٹا۔
انہوں نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا اور اصغر صاحب کی آواز ایک بار پھر فون پہ ابھری۔
"ہیلو سبرینہ۔"
"ہیلو اصغر! " حسن صاحب کی دھیمی سی آواز فون پہ گونجی۔ ناجانے کیوں اصغر صاحب کو وہ ٹھیک نہیں لگے تھے۔
"بابا جان سب ٹھیک ہے نا؟ "
" اصغر کیا تم جانتے ہو جس لڑکے سے تم حیات کا رشتہ طے کرنے جارہے ہو وہ کون ہے؟ اور جو تصویر تم نے ابھی سبرینہ کو بھیجی ہے اس تصویر میں اسکے ساتھ کھڑا وہ شخص کون ہے؟ " وہ ایک گہری سانس لے کر بولے تھے۔
اصغر صاحب کو شدت سے اب کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔
"بابا جان۔۔ کون ہے یہ۔۔۔ میں نے تو حدید کے کہنے پہ اس رشتے کے متعلق سوچا تھا۔ وہ میرا بہترین دوست ہے اور میں جانتا ہوں وہ جانتے بوجھتے ایسا کوئی کام نہیں کر سکتا۔"
"اصغر ۔۔ میری بات دھیان سے سنو۔ یہ وہی کرم دار خان ہے جس کی وجہ سے اسفند تمھارے بہنوئی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اسکی وجہ سے اسفند کی ڈیتھ ہوئی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ تمہاری بہن اپنے وطن سے دور یہاں کویت میں آباد ہے۔ کیونکہ وہ شخص نہیں چاہتا تھا یہ لوگ پاکستان آئیں۔ وہ پاکستان میں اپنا ایک مقام بنانا چاہتا تھا۔ جو وہ اتنے عرصے میں بنا چکا تھا۔ پھر بھلا حدید کیسے جان سکتا تھا۔ وہاں تو وہ ایک کامیاب بزنس مین کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جبکہ اُس کا اصل صرف ہم جانتے ہیں۔"
اور وہاں اصغر صاحب کو لگا تھا۔ جیسے ان کا سر کسی نے بھاری سیل سے کچل دیا ہو۔ ان کے اعصاب شل ہو گئے تھے۔
جیسے کچھ دیر پہلے سبرینہ کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح اصغر صاحب کو بھی اپنی سماعت پہ یقین نہیں آرہا تھا۔
"اصغر !"
اپنے بابا کی آواز پر وہ چونکے اور ایک بار پھر انکی جانب متوجہ ہوئے۔ اب کے ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں تھیں۔
"بابا جان یہ۔۔ یہ وہ کرم دار تھا۔ زین اس کا بیٹا ہے۔"
"یااللہ! مجھ سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہو گئی۔ کیسے ہو گئی اتنی بڑی غلطی۔"
"بیٹا سنبھالو خود کو۔ تمہارا کوئی قصور نہیں۔ اسفند کی فیملی میں سے تم صرف جہانزیب کو جانتے تھے۔ کرم دار کو تو تم نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ پھر کیسے پہچانتے تم اسے۔"
"ویسے کرم دار اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اسکا انتقال جیل میں ہی ہو گیا تھا جب وہ اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہا تھا۔"
"کیسے سنبھالوں بابا جان۔۔ اس گھٹیا شخص کی وجہ سے سبرینہ میری بہن اتنا عرصہ ہم سے دور رہی اور اسفند اس دنیا سے چلا گیا۔"
جواباً حسن داؤد صاحب صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر گویا ہوئے ۔
"اصغر اللہ کا شکر ادا کرو۔ تم نے ابھی اسکے بیٹے سے حیات کی منگنی نہیں کی۔ میری پوتی کو اللہ ہمیشہ اپنا حفظ و امان میں رکھے۔"
"میری حیات کا خیال رکھنا۔"
اور ابھی وہ فون پہ الوداعی کلمات ادا کر رہے تھے کہ تب ہی حیات کمرے سے باہر آئی تھی۔
مگر تب تک وہ فون رکھ چکے تھے۔ جبکہ وہ کچن کی جانب بڑھ چکی تھی۔
صد شکر کہ حیات نے اُن کی باتیں نہیں سنی۔ فی الحال وہ اسے کسی بات سے آگاہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
کچھ باتیں راز ہی رہیں تو اچھا ہے۔ مگر اس وقت وہ نہیں جانتے تھے کہ بعض اوقعات کچھ راز بھی بہت مسئلوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

***********

یہاں زین موبائل ہاتھ میں پکڑے کچھ ٹائپ کرتے ہوئے مسلسل مسکرا رہا تھا۔
آغا جو کہ ابھی کسی کام سے گھر آیا تھا۔ اسے یوں مسکراتے دیکھ کے ٹھٹک کر رکا۔
"زین۔" اس نے دھیرے سے پکارا۔
مگر وہ ہنوز موبائل میں مگن تھا۔
کوئی جواب نہ پا کر وہ اسکے نزدیک چلا آیا۔
"زین! " اب کے زین نے سر اٹھا کہ دیکھا۔
اپنے بھائی کو یوں سامنے کھڑا دیکھ کر زین کے مسکراتے لب سمٹے۔
"جی بھائی۔"
" یہ تم اتنا مسکرا کیوں رہے ہو۔"
آغا نے جانچتی نظروں سے بغور اسکا جائزہ لیا ۔
"کچھ نہیں بھائی۔۔بس ایسے ہی۔" اس نے خشک لبوں پہ زبان پھیری ۔
"اُن لوگوں نے تمہارے رشتے سے انکار کردیا ہے اور تم۔۔۔تم یہاں آرام سے بیٹھے مسکرا رہے ہو۔"
آغا نے افسوس سے اسے دیکھا۔
"جانتے ہو کتنی ذلت کی بات ہے یہ ہمارے لیے کہ تمہیں۔۔ یعنی کرمدار خان کے بیٹے کو انہوں نے ریجیکٹ کردیا۔" آغا نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
" مجھے فرق نہیں پڑتا۔" جواباً اس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
جبکہ آغا غصے سے لب بھینچ کر رہ گیا۔
شاید اسے اپنے چھوٹے بھائی سے اس قدر احمقانہ جواب کی امید نہیں تھی۔
"تمہیں فرق نہیں پڑتا' کیونکہ تم ایک انتہائی احمق انسان ہو۔ مگر مجھے فرق پڑتا ہے اور اس انکار کی وجہ تو میں معلوم کرہی لوں گا۔" آغا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے باہر نکلتا چلا گیا۔
جبکہ یہاں زین بس سرجھٹک کر رہ گیا اور ایک بار پھر موبائل پہ کچھ ٹائپ کرنے لگا۔

*************

جاری ہے۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top