Episode 7 "!تعارف و تاثر "
پاکیزہ موتی از اقراء عزیز
باب ۷ : " تعارف و تاثر! "
وہ لڑکا اور لڑکی جو ابھی تک ہونقوں کی طرح اُسے بھاگتا دیکھ رہے تھے. ایک دم ہوش کی دنیا میں واپس آئے اور جیسے ہی انہیں سمجھ آیا کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے. وہ ایک جھٹکے سے اٹھے اور اُن کے پیچھے لپکے.
" ذلیل آدمی! تم نے میرے ابا کو فون کردیا۔" وہ لڑکا روہانسا ہوتے ہوئے چلایا تھا۔
مگر جب تک روحان اُن کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا.
وہ دونوں بھاگتے بھاگتے اب پارک سے کافی دور آچکے تھے. پھر وہ سڑک کے کونے پہ رکھی ایک بینچ پر بیٹھ گئے.
"کتنے منحوس انسان ہو تم۔۔ یہ رشتے کروا رہے تھے ہے نا؟ "
آزر طنزیہ لہجے میں بولا۔
"ہاں بلکل! رشتے ہی تو کروا رہا تھا. وہ دونوں میاں بیوی تو تھے نہیں. ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور ویسے ہی یوں بنا منگنی شادی کے گھوم رہے تھے. تو بس اب ان دونوں کے ابا کو معلوم ہو گیا ہے' تو وہ جلد از جلد ان کا کہیں رشتہ کر دیں گے. پھر چٹ منگنی اور پٹ بیاہ! " روحان بڑے مزے سے پُر جوش انداز میں اسے اپنی کارکردگی کا نتیجہ بتا رہا تھا.
" بہت ہی فضول حرکت کی ہے ویسے تم نے..پچھلی دفعہ بھی یہی کیا تھا. ا ُس لڑکے کی تصویر کسی اور لڑکی کے ساتھ لے کر اُس کی منگیتر کو سینڈ کردی تھی. "
آزر نے اسے گھورتے ہوئے کہا.
آزر تب کی بات کررہا تھا. جب پچھلے سال وہ دونوں کویت آئے تھے. اور تب بھی روحان نے ایسی ہی ایک حرکت کی تھی.
" وہ اس کی منگیتر نہیں، " لڑکی دوست " یعنی گرل فرینڈ تھی۔ "
جواباً روحان نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
" جو بھی ہے ان کی منگنی ہونے والی تھی۔ جو کہ صرف تمہاری وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔
کب باز آؤگے اپنی ان حرکتوں سے؟ "
" جینٹل مین کہتا ہے جو دل کہے وہ کرو۔ "
" جینٹل مین کہتا ہے یا روحان احمد؟ "
" ایک ہی بات ہے۔ " جواباً ا س نے گویا ناک سے مکھی اڑائی۔
" ہوں۔۔مگر جینٹل مین کی جگہ دی ڈیول کہوگے تو زیادہ اچھا لگے گا۔ " آزر محظوظ ہوتے ہوئے بولا۔
" ویسے تم جو ہیلپ لائن نمبر بورڈ پر لکھ کر آئے ہو، اگر تمہیں کسی نے لعن طعن کرنے کے لئیے فون کرلیا تو؟ "
" وہ نمبر تو میرا تھا ہی نہیں، ہیلپ لائن نمبر کے طور پہ میں اظہر کا نمبر لکھ آیا ہوں، اور غالباً وہ لڑکا اور لڑکی کویتی تھے۔ بلفرض اگر وہ فون کر بھی لیں۔ تو پاکستان میں بیٹھے کون سا اُسے عربی سمجھ آنی ہے۔ "
کہتےساتھ ہی روحان کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔
جبکہ آزر چند لمحے سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہا۔ اور پھر دھیرے سء ہنس دیا۔
اسے روحان سے ہر فضول کام کی اُمید تھی۔
" اچھا چلو اب۔۔ورنہ آنٹی تمہیں چراغ میں ڈھونڈنا شروع کردیں گی۔ "
" ہائے میرا جِن بیٹا کہاں گیا۔ "
" بک بک بند کرو۔ "
اور روحان ہوا میں کبھی ایک پاؤں لہراتا تو کبھی دوسرا پاؤں لہراتا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔
" روحان اس کےلئیے کسی آفت سے کم نہیں تھا۔ وہ ہر کسی کی مدد کے لئیے کھڑا ضرور رہتا تھا۔ مگر جہاں سے وہ مدد کرنا شروع کرتا تھا وہاں اس شخص کا قصہ ہی تمام ہوجاتا تھا۔ "
آزر مسکراتے ہوئے اس کی پشت کو دیکھ رہا تھا۔ جو انسان اس کے لئیے سب سے بڑھ کر تھا۔ اس کا دوست۔ اس کا سب کچھ۔
***********
مریم ابھی کالج سے گھر آئی تھی۔ جب مسز صدف فون پہ کسی سے محو گفتگو تھیں۔ جبکہ وہ ان سے کھانے کی فرمائش کررہی تھی۔ جواباً انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا۔
تبھی آزر گھر میں داخل ہوا۔
" بھائی! کیا آپ جانتے ہیں۔ امی پچھلے آدھے گھنٹے سے یونہی فون پہ لگی ہیں، میں کہتی تھی آپ کو اتنا بیلنس نہ ڈلوایا کریں ان کے موبائل میں۔ بگڑ جائیں گی۔ مگر میری یہاں سنتا کون ہے؟ "
مریم ایک ہاتھ کمر پہ رکھے، جبکہ دوسرے ہاتھ کو نچا نچا کر بول رہی تھی۔
آزر نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا۔ جو ہنوز فون پہ بات کرنے میں مصروف تھیں۔ اور پھر اپنی مسکراہٹ دباتا مریم کی جانب متوجہ ہوا۔
" ہاں۔۔مریم بلکل ٹھیک کہتی ہو، میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ تمہارے اور ممی کے موبائل میں کریڈٹ نہ ہی ڈلوایا کروں۔ تمہیں جو کام ہو بلا جھجک میرا موبائل استعمال کرلینا ٹھیک؟ "
اور اس کی بات پہ مریم کا منہ حیرت سے کُھل گیا۔
" ہاہ! بھائی کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ اب آپ ایسے کریں گے امی کے ساتھ؟ پابندیاں لگائیں گے ان پہ؟ اب وہ بیچاریں فون پہ بھی بات نہ کریں؟ بھلا کوئی ایسا بھی کرتا ہے؟ ویری سیڈ بھائی۔۔ویری سیڈ۔ "
وہ تاسف سے سرہلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" اور یہ ہوتا ہے تھالی کا بینگن! " جواباً آزر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
" اگر میں یہ بولتا کہ میں صرف ممی کے موبائل میں کریڈٹ نہیں ڈلوارہا۔ تو تم فوراً کہتی ہاں بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں بھائی۔ مگر میں نے ساتھ میں تمہارا نام اسی لئیے ہی لیا تھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا۔ پھر تم فوراً بات ہی بدل دو گی۔ "
جبکہ وہ خفگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" بہت ہی کھڑوس میجر ہیں آپ بھائی۔۔یہاں بھی اپنی پلاننگ نہیں چھوڑتے۔ "
" عادت سے مجبور یو نو! "
وہ کندھے اُچکا کر کہتا وہاں سے جانے لگا۔
اور مریم محض منہ بنا کر رہ گئی۔
************
حیات اور حسن داؤد صاحب آج کافی دنوں بعد چہل قدمی کرنے الشہید پارک گئے تھے۔ اور ابھی وہ پارک سے ہی واپس لوٹی تھی۔
ایک نگاہ خالی پڑے لاؤنج میں ڈال کر وہ سبرینہ کو ڈھونڈتے ہوئے کچن میں داخل ہوئی۔ حسبِ عادت وہ کام میں مصروف تھیں۔
" پھوپھو! یہ کیا آپ ہر وقت کام میں لگی رہتی ہیں، مجھے بول دیا کریں جو کام ہو۔ "
وہ ارد گرد پھیلے سامان کو دیکھ کر خفا ہوئی۔
" کوئی بات نہیں بیٹا۔۔تم چند مہینوں کے لئیے تو یہاں آئی ہو۔ اب کیا تم سے کام کرواؤں گی میں۔اور ویسے بھی مجھے کام کرنا اچھا لگتا ہے۔ "
وہ اب چکن کی بوٹیاں کاٹ رہی تھیں۔
" ہوں۔۔اس کا مطلب آپ مجھے مہمان سمجھتی ہیں؟ "
وہ اداسی سے بولی تھی۔
" ارے نہیں میری جان! تم تو میری بیٹی ہو حیات۔ "
جبکہ وہ خفگی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
" اچھا چلو تم بھی میرا ہاتھ بٹا دو۔ اب خوش؟ " وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں۔
انہوں نے اب چکن کاٹ کر ایک سائیڈ پہ رکھ دی تھی۔
" بہت خوش۔ " اب بتائیں کیا کیا کرنا ہے؟ وہ آستین کلائی سے ذرا اوپر کرتے ہوئے بولی۔
" چکن کی بوٹیاں تو میں نے کاٹ دی ہیں۔ تم ایسا کرو۔ جب تک یہ سبزی کاٹ لو۔ " انہوں نے ٹوکری میں پڑی سبزی کی طرف اشارہ کیا۔
اور خود چولہے پہ رکھی دیگچی میں چمچہ ہلانے لگیں۔
" اوکے۔" اس نے ٹوکری میں رکھی چند سبزیاں نکالیں اور چھری سے کھٹا کھٹ، کٹنگ بورڈ پہ انہیں کاٹنے لگی۔
" حیات! " اچانک ہی کچھ یاد آنے پر انہوں نے اسے مخاطب کیا۔
" جی پھوپھو۔ " اس نے اب سبزیاں کاٹ کر ایک طرف رکھ دیں۔ اور ان کی جانب متوجہ ہوئی۔
" مجھے ابھی یاد آیا۔ صدف بھابھی کا فون آیا تھا۔ انہوں نے ہمیں اپنے گھر ڈنر پہ مدعو کیا ہے۔ اور تمہارے لئیے تو مجھے خاص طور پہ تاکید کی ہے کہ تمہیں ضرور لے کر آؤں۔ " وہ مسکراتے ہوئے اسے بتارہی تھیں۔
" صدف بھابھی بہت ہی نیک دل، اور پر خلوص خاتون ہیں۔ وہ تمہارے انکل کے کزن جہانزیب کی بیوی ہیں۔ میری شادی کے بعد جب میں کویت آئی تھی۔ اسفند کے بزنس کی وجہ سے ہم یہیں سیٹلڈ تھے۔تب میں یہاں بلکل اکیلی تھی۔ تمہارے انکل تو کام کے سلسلے میں زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتے تھے۔ اس وقت صدف بھابھی نے میرا بہنوں کی طرح ساتھ دیا تھا۔ جہانزیب بھائی اور اسفند میں بھی آپس میں بہت محبت تھی۔ انہیں دیکھ کے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ حقیقی بھائی نہیں، بلکہ کزنز ہیں۔ "
اور وہ نہایت ہی دلچسپی سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ کیونکہ شادی کے بعد کویت میں رہنے کے باعث سبرینہ پاکستان کم ہی آیا کرتی تھیں۔ لہٰذا وہ حیات سے کافی عرصے بعد یوں باتیں کررہی تھیں۔
" پھوپھو! اسفند پھوپھا اور جہانزیب انکل تو بزنس پارٹنرز بھی تھے نا؟ "
" ہوں۔۔بزنس پارٹنرز بھی تھے۔ اور بہت خوش رہتے تھے دونوں ایک ساتھ۔ اُن کی دوستی بھی مثالی تھی۔ " انہوں نے مسکرا کر کہا۔
اور جواباً وہ بھی بے ساختہ مسکرائی۔
اُس نے دادا جان کے منہ سے اکثر اسفند پھوپھا اور ان کے کزن جہانزیب کی مثالی دوستی کے قصے سن رکھے تھے۔
سبرینہ اب دیگچی کے نیچے چولہا بند کررہی تھیں۔
" اور ان کے کوئی تیسرے کزن بھی تو تھے۔ جو ان کے ساتھ بزنس میں تھے۔ کیا نام تھا ان کا۔۔ہاں کرم دار انکل! "
وہ پُرسوچ انداز میں بولی۔
اور اس کے اس جملے پہ سبرینہ کے چہرے کی مسکراہٹ ایک دم پھیکی پڑی۔ ماضی کی کچھ تلخ یادیں اس ایک نام سے جیسے ایک بار پھر تازہ ہوگئی تھیں۔
" ہوں۔ " انہوں نے مختصراً جواب دیا۔
ان کے چہرے کی زرد پڑتی رنگت دیکھ کر حیات ایک دم فکرمند ہوئی تھی۔
" آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے پھوپھو؟ "
وہ ان کے ماتھے کو چھوتے ہوئے بولی۔
" ہاں، میں بلکل ٹھیک ہوں۔ "
اُنہوں نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
" نہیں۔۔آپ مجھےٹھیک نہیں لگ رہیں۔ چلیں اب آپ آرام کریں۔ " وہ اُن کا ہاتھ پکڑے انہیں زبردستی ان کے کمرے میں لے آئی۔
" ارے بیٹا! میں ٹھیک ہوں۔" وہ کہتی رہ گئیں۔
مگر وہ بھی حیات نور تھی۔ جو ہمیشہ اپنی ہی منواتی تھی۔
پھر انہیں دوائی دے کر، اور آرام کرنے کی ہدایت کر کے وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
اندر سبرینہ بیڈ کی پشت سے سر ٹکائے، ماضی کویاد کئیے بے آواز رورہی تھیں۔
جبکہ یہاں حیات اس بات سے بے خبر تھی۔
************
علی الصبح ہی وہ اور روحان آج پھر کسی ضروری کام سے کویت شہر گئے تھے۔ ابھی وہ روحان کو چھوڑ کر سیدھا گھر آیا تھا۔ اُس نے بیل بجائی اور تبھی دروازہ کُھلا۔
سامنے ہی اپنی ماں کا مسکراتا چہرہ دیکھ کے آزر کی دن بھر کی تھکن جیسے کہیں غائب ہوگئی تھی۔
اس کی ممی، مسز صدف درمیانہ عمر کی نہایت ہی سادہ اور خوبصورت سی خاتون تھیں۔ اور اس وقت بھی انہوں نے حسبِ عادت نفاست سے سر پہ دوپٹہ لے رکھا تھا۔
" آگئے بیٹا کتنی دیر کردی کہاں تھے۔۔اور روحان تہاے ساتھ نہیں آیا؟ " انہوں نے اسےتنہا دیکھ کے استفسار کیا۔
گیٹ سےاندر داخل ہوتے ہی وہاں ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ وہ راہداری سے گزرتے ہوئے لاؤنج میں چلا آیا۔
" نہیں ممی۔۔وہ آنٹی کو کچھ کام تھا۔ اسے راستے میں ہی ان کا فون آگیا تھا۔ اس لئیے ابھی اُسے اُس کے گھر چھوڑ کر آیا ہوں۔ "
یہ چھوٹا اور خوبصورت سا بنگلہ مسز صدف اور آزر نے مل کر ڈیکوریٹ کیا تھا۔ لاؤنج میں آرائش کا ہرسامان نہایت ہی عمدہ اور نفیس تھا۔ اُدھر ایک طرف کریم رنگ کے صوفے رکھے تھے۔ سامنے ہی امریکی طرز پہ بنا کچن تھا۔ جبکہ لاؤنج اور کچن کے عین وسط میں ڈائیننگ ٹیبل رکھی تھی۔
" اچھا چلو ٹھیک ہے بیٹا۔۔تم بیٹھو، میں بس ابھی کھانا لگارہی ہوں۔ " وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر مریم کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
" مریم۔۔مریم! " مسز صدف اسے پکارتی ہوئیں اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
اور مریم جو ٹی وی کے سامنے بیٹھی بڑے انہماک سے ٹام اینڈ جیری کاٹون دیکھ رہی تھی۔ انہیں وہاں دیکھ کر ایک دم سیدھی ہوئی۔
" اللہ اکبر! مریم۔۔یہ کیا تم اس عمر میں بھی ہر وقت ٹام اینڈ جیری کارٹون دیکھتی رہتی ہو۔ " وہ غصے میں اسےدیکھتے ہوئے، کہہ رہی تھیں۔
" پیاری امی! ٹام اینڈ جیری دیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ " وہ مسکرائی تھی۔
" اور میرے غصے کی بھی کوئی عمر نہیں، کبھی بھی آ سکتا ہے۔اسلئیے فوراً باہر آؤ۔ "
یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئیں۔
اور مریم نا چاہتے ہوئے بھی ٹی وی آف کرکے وہاں سے باہر جانے لگی۔
" ایک تو یہ امی بھی نا۔ موبائل استعمال کرو تو مسئلہ، ٹی وی دیکھو تو مسئلہ۔ یا اللہ! میں کہا جاؤں؟ "
وہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دھیرے سے بڑبڑائی۔
جبکہ مسز صدف نے وہاں سے گزرتے ہوئے، اس کی یہ بڑبڑاہٹ با آسانی سن لی تھی۔
آخر وہ بھی آزر جہانزیب کی ماں تھیں، جو بلا کی سماعت رکھتا تھا۔
" فی الحال تو یہاں کچن میں آؤ اور میرا ہاتھ بٹاؤ۔ " وہ اطمینان سے بولی تھیں۔
اور یہاں مریم پیر پٹختی کچن کی جانب بڑھ گئی۔
*************
آج ہفتے کا دن تھا۔ اسی باعث مریم آج گھر پہ تھی۔ کویت میں اسکول اور کالج کی چھٹی جمعہ اور ہفتہ کے دن ہوا کرتی تھی۔ وہ زینے اترتی ہوئی آئی۔ اور لاؤنج سے گزرتے ہوئے، سیدھا کچن میں داخل ہوئی۔ چونکہ اس کا کمرہ اوپری منزل پہ تھا۔ تو سیڑھیاں اترتے ہی سامنے لاؤنج نظر آتا تھا۔ البتہ وہاں سے کچن کا منظر دکھائی نہیں دیتا تھا۔
آہٹ پہ مسز صدف نے پلٹ کر دیکھا۔
" ارے واہ! میری بیٹی آج خود ہی اُٹھ گئی۔ آج تو واٹر الارم بھی نہیں بجایا تھا میں نے۔"
" امی! " وہ خفگی سے انہیں دیکھتے ہوئے بولی۔ اور ان کے برابر میں آ کھڑی ہوئی۔
" ناشتہ بنارہی ہیں، میں کچھ ہیلپ کردوں۔" کہتے ساتھ ہی وہ فریزر میں سے انڈے نکالنے لگی۔
" بیٹا انٹر نیٹ تو ٹھیک چل رہا ہے نا؟ " وہ ویسے ہی روٹیاں پکاتے ہوئے، مصروف سے انداز میں پوچھ رہی تھیں۔
" جی وہ تو بلکل ٹھیک چل رہا ہے مگر۔۔۔امی! " بات سمجھ آنے پہ وہ ایک بار پھر خفا ہوئی تھی۔
جبکہ مسز صدف دھیرے سے ہنس دیں۔
" میں جانتی ہوں، میرا بچہ بہت کام کرتا ہے۔" انہوں نے پیار سے ا س کے رخسار کو چھوا۔
اور مریم بے اختیار مسکرادی۔
ایسی ہی تو ہوتی ہیں مائیں۔۔نہ خود زیادہ دیر بچوں سے ناراض رہ سکتی ہیں، اور نہ ہی بچوں کو ناراض رہنے دے سکتی ہیں۔
لاؤنج میں رکھے لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجنے پہ مسز صدف چولہا بند کرتیں، کچن سے باہر نکل گئیں۔
تبھی مریم کی نظر اچانک سامنے سنک پہ رکھے برتن دھوتی، ارم پہ پڑی۔ جو کہ ان کی ملازمہ تھی۔ مسز صدف اپنے گھر کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرنا پسند کرتی تھیں۔ مگر پچھلے ایک مہینے سے ان کے جوڑوں میں درد کی وجہ سے آزر کے بارہا کہنے پہ انہوں نے ناچاہتے ہوئے بھی ملازمہ رکھ لی تھی۔ مگر وہ صرف گھر کی صفائی کرتی تھی۔ کچن کا کام اور کھانا بنانا، وہ سب مسز صدف خود ہی کیا کرتی تھیں۔
" ارم! تم تین دن سے کام پر نہیں آرہی تھیں۔اور کچھ بتایا بھی نہیں؟ " وہ برتن دھوتی ملازمہ سے مخاطب تھی۔
" مریم بی بی! میں نے تو فیس بک پہ سٹیٹس اپڈیٹ کردیا تھا۔ کہ آئی ایم گوئنگ ٹو گاؤں فور تھری ڈیز۔" ارم نے ذرا شرماتے ہوئے جواب دیا۔
اور مریم منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" تم فیس بک پر ہو ارم! "
" ہاں بی بی جی۔۔میں آپ کے پاس ایڈ نہیں؟ میں نے تو جی ایڈ کیا تھا آپ کو۔" وہ حیرت سے بولی۔
" ہاں۔۔ایک ارم رانی کی ریکویسٹ آئی تھی۔ مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ تم ہو۔" جواباً اس نے شانے اُچکاتے ہوئے کہا۔
" اوہ جی۔۔میں نے تو آزر بھائی کو بھی ریکویسٹ بھیجی تھی۔" وہ ایک بار پھر شرمائی۔
وہ آزر سے عمر میں لگ بھگ چھ، سات برس بڑی تھی۔ مگر اسے ہمیشہ بھائی کہہ کر ہی مخاطب کرتی تھی۔
اور مریم نے نفی میں سر ہلاتے اسے دیکھا۔
" کیوں بنایا ہے تم نے فیس بک پہ اکاؤنٹ؟ جانتی ہو کتنی بری بات ہے یہ؟ اور کتنا وقت برباد ہوتا ہے اس پہ؟ اس لئیے بنایا ہے نہ تم نے اکاؤنٹ تاکہ تمہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے ہے نا؟ "
" نہیں مریم بی بی! سب بناتے ہیں تو میں نے بھی بس۔" وہ منمنائی۔
" اچھا۔۔اچھا ٹھیک ہے اب اپنا کام کرو۔" اس نے بے نیازی سے ہاتھ جھلا کر کہا۔
ایک گھر میں وہی تو تھی۔ جس پہ مریم کی خوب چلتی تھی۔
اور ارم ہمیشہ اس کی سنتی بھی تھی۔
پھر کچھ یاد آنے پہ مریم فوراً کچن سے باہر کی جانب لپکی۔
" سب سے پہلے تو اس ارم رانی کو بلاک کرتی ہوں۔" وہ زینے چڑھتے ہوئے دھیرے سے بڑبڑائی۔
پھر بنا دستک دئیے آزر کے کمرے میں داخل ہوئی۔
اور وہ جو الماری میں سے کوئی فائل نکال رہا تھا۔ مریم کے یوں آندھی طوفان کی طرح ا سکے کمرے میں داخل ہونے پہ حیران رہ گیا۔ پھر الماری کے پٹ بند کئیے، اس کی جانب متوجہ ہوا۔
" کیا ہوا مریم؟ "
" بھائی! جلدی سے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھولیں۔"
" وہ تو میں نے کافی عرصے سے نہیں کھولا۔"
جواباً اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔
" اب کھولیں۔۔اور جلدی سے اس ارم رانی کی ریکویسٹ ڈیلیٹ کریں۔" وہ اس کے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بڑے مزے سے بولی تھی۔
" اللہ اکبر! مریم میں ایک بہت ہی۔۔" وہ کچھ بولنے ہی لگا تھا ،کہ مریم نے درمیان میں اس کی بات کاٹ دی۔
" معصوم اور ڈیسنٹ آدمی ہوں۔۔ہے نا؟ " وہ محظوظ ہوتے ہوئے بولی۔ اُس نے آج پھر آزر کا ہمیشہ کا کہا گیا جملہ اسی کے انداز میں دہرایا تھا۔
" ہاں۔۔ بلکل۔" وہ دھیرے سے سر کو جنبش دیتے ہوئے مسکرایا تھا۔
" ویسے کون ہے یہ ارم رانی؟ "
" اپنی ملازمہ یہ ارم۔۔اس نے فیس بک پہ اکاؤنٹ بنایا ہے۔ اور بڑے مزے سے بول رہی تھی، میں نے آزر بھائی کو بھی ریکویسٹ بھیجی ہے۔" وہ منہ بسورے بولی۔
اور وہ دھیرے سے ہنس پڑا۔
" میں ابھی جا کر اسے بلاک کرتی ہوں، اور آپ بھی کردیں۔ ورنہ وہ سب کام چھوڑ چھاڑ کے ہر وقت ہماری آئی ڈی میں تانک جھانک کرتی رہے گی۔ "
وہ بولتی جارہی تھی۔ اور وہ ہنستا جارہا تھا۔
" بہنا۔۔تم پاگل ہو، ناجانے کیا کیا سوچتی رہتی ہو۔ " وہ اپنی بہن کی اس معصومیت بھری سوچ پہ بے اختیار مسکرادیا۔
مگر مریم اور آزر دونوں نہیں جانتے تھے۔ کہ جانے انجانے میں وہ ٹھیک ہی کہہ گئی تھی۔
*************
وہ آزر کے کمرے سے نکلتی ہوئی، سیدھے اپنے کمرے میں آئی تھی۔ بھلا ایسی کوئی بات تھی جو وہ آزر کو نہ بتائے؟ وہ مسکراتے ہوئے ڈریسنگت ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی۔ اور جیسے ہی اس نے اپنے ڈریسنگ ٹیبل کے نیچے والا دراز کھولا تو اس میں رکھے اس چھوٹے سے کارڈ پہ نظر پڑتے ہی اس کی مسکراہٹ یک دم غائب ہوئی۔
ہاں شاید ایک بات تھی۔ جو اس نے آزر کو اب تک نہیں بتائی تھی۔
وہ سب سے راز رکھ سکتی تھی۔ مگر اپنے بھائی سے نہیں۔
" میں بھائی کو جلد ہی بتادوں گی۔ اور ان سے پوچھوں گی کہ اس شخص نے ہمارے بابا کے بارے میں ایسا کیوں کہا تھا؟ "
وہ یہ سوچتے ہوئے خود کو مطمئن کررہی تھی۔
مگر وہ جانتی تھی، کہ وہ اب بھی غیر مطمئن ہے۔
************
سبرینہ اپنے کمرے میں بیٹھیں کچھ گفٹس پیک کررہی تھیں۔ دفعتاً دروازے پہ دستک ہوئی۔ اور حیات اندر داخل ہوئی۔
" حیات آؤ بیٹا۔"
سبرینہ کی اس کی جانب پشت تھی۔ سو وہ پلٹے بغیر ہی بولی تھیں۔
" پھوپھو! آپ کو کیسے معلوم ہوجاتا ہے کہ میں ہوں؟ جبکہ آپ نے تو مجھے دیکھا بھی نہیں تھا۔"
وہ مسکرا کر کہتے ہوئے، ان کے پہلو میں آ بیٹھی۔
" ماؤں کو کبھی بھی اولاد کو دیکھ کر کچھ نہیں بتانا پڑتا۔ وہ بنا دیکھے ہی اس کی خوشبو سے پہچان لیتی ہے کہ یہ اس کی اولاد ہے۔" انہوں نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
جبکہ ان کی اس قدر محبت پہ حیات کی آنکھوں میں نمی سی در آئی تھی۔ جسے وہ چھپاگئی۔
پھر دھیرے سے مسکرادی۔
سبرینہ اس وقت اٹھارہ سال کی ہونے کو تھیں. جب حیات پیدا ہوئی تھی. وہ بھی اپنے ماں باپ کی ایک ہی بیٹی تھیں. اس لئیے وہ حیات کو بہنوں کی طرح چاہتی تھیں. وہ تین سال کی تھی جب اسکی ممی مسز صائمہ کی ڈیتھ ہوگئی تھی. اور یہی وجہ تھی کہ حسن داؤد صاحب اور سبرینہ حیات سے بے حد محبت کرتے تھے. سبرینہ نے اس کی پھوپھو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی ماں اور بہن دونوں کا فرض نبھایا تھا. پھر تئیس برس کی عمر میں سبرینہ کی شادی ہو گئی. اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ کویت میں رہنے لگیں. حیات چھ سال کی عمر سے ہی سبرینہ کی کمی کو محسوس کرنے لگی تھی. جو کہ چند ماہ کے لیئے ہی سہی، مگر کویت آکر پوری ہوگئی تھی.
"حیات! بیٹا وہ شاپنگ بیگز اٹھا کر دینا وہاں سے."
سبرینہ کی آواز پر وہ چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوئی۔ پھر مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی.
"اچھا پھو پھو! آپ یہ گفٹس کس کے لیے پیک کر رہی ہیں؟ " وہ چند شاپنگ بیگز انہیں پکڑاتے ہوئے بولی.
"بیٹا میں نے تمہیں بتایا تھا نا۔ صدف بھابھی نے ہمیں اپنے یہاں ڈنر پہ مدعو کیا ہے اور کل ہم ان کے گھر جائیں گے. تو بس یہ اُن لوگوں کے لیے کچھ تحائف ہیں."
" کویت میں یہ ایک طرح رواج ہوتا ہے. مہمان میزبان کے گھر جاتے ہیں تو کچھ لے کر جاتے ہیں. چاہے وہ کوئی چھوٹی سی چیز ہی کیوں نہ ہو." وہ ہلکا سا مسکرائیں۔
"مگر پھوپھو میں تو پاکستان سے کوئی ایسی خاص چیز بھی نہیں لائی جو انہیں تحفے میں دے سکوں۔"
وہ قدرے توقف سے بولی.
"حیات ان کو تحفہ تم دو یا میں ایک ہی بات ہے بیٹا."
"نہیں پھوپھو۔۔ میں کیا ان کے یہاں خالی ہاتھ جاتے اچھی لگوں گی؟ " اب کے وہ خفا ہوئی تھی.
اور سبرینہ جو ان بیگز میں سے چند پیکٹس نکال کے پیک کرنے لگی تھیں. ایک دم جیسے کچھ یاد آنے پہ انہوں نے بے اختیار اپنے ماتھے کو چھوا.
" یااللہ! دیکھو ذرا میں صدف بھابھی اور ان کے بیٹے کے لیے تو شاپنگ کر آئی. مگر ان کی چھوٹی بیٹی کے لیے تو میں نے کچھ لیا ہی نہیں. پتا نہیں میں کیسے بھول گئی."
" پھوپھو کو تو ویسے ہی آج اتنے کام ہیں، اب وہ کہاں دوبارہ مارکیٹ جائیں گی۔ میں ہی چلی جاتی ہوں۔" یہی سوچ کر حیات اپنی ساری خفگی بھلائے ان سے پوچھنے لگی۔
" پھپھو اگر آپ کہیں تو میں مارکیٹ جاکر ان کی بیٹی کیلئے کوئی تحفہ لے آتی ہوں۔ آپ مجھے بتادیں کیا لاؤں؟ "
" ہاں بیٹا یہ تو بہت اچھی بات کہی تم نے۔ بلکہ اپنی پسند سے ہی کوئی اچھا سا گفٹ خرید لینا، اور اسے اپنی طرف سے ہی دینا۔"
جواباً سبرینہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
" اوکے پھر میں ابھی ہی چلی جاتی ہوں۔"
وہ بھی مسکراتی ہوئی ان کے کمرے سے باہر نکل گئی۔
آج ماریہ نہیں تھی اسی لیے پھوپھو نے اسے ڈرائیور کو ساتھ لے جانے کو کہا تھا۔ اس کی ماریہ سے بات ہوچکی تھی۔ ابھی وہ اپنی خالہ کے یہاں گئی ہوئی تھی۔اور رات کو اس کے یہاں آنے کا کہہ رہی تھی۔ ماریہ کی مصروفیت کے باعث اب اسے تنہا ہی جانا تھا۔
وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھی۔
" ریمال مال لے چلو۔ "
" یس میڈم! " ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسٹئیرنگ سنبھال لیا۔
ریمال مال فحیحیل کا ہی ایک نہایت خوبصورت سا مال تھا۔ شام ہونے کے باعث دکانوں کی شیشے کی دیواروں سے جھلکتی زرد روشنیاں باہر کی سڑک کو روشن کیئے ہوئے تھیں۔
وہ ہمیشہ کی طرح اپنا حجاب درست کرتی مال میں داخل ہوئی۔ اور شاپنگ کی غرض سے مطلوبہ دکان کی جانب چلی آئی۔
یہ ایک لیڈیز بوتیک تھا۔ جہاں ہر قسم کے رنگ برنگی قیمتی ملبوسات موجود تھے۔
حیات کو ایک گلابی رنگ کی میکسی پسند آئی تھی۔ جس کے اوپری حصے پر سفید موتیوں کا نفیس سا کام تھا۔ پھوپھو نے اسے مال آنے سے پہلے بتایا تھا کہ صدف آنٹی بیٹی کی عمر تقریباً سترہ یا اٹھارہ سال ہے۔
" ہاں اس کی عمر کے حساب سے یہی ٹھیک رہے گی۔" وہ مسکراتے ہوئے سوچنے لگی۔
تبھی اسکی نظر سامنے لگی ایک جامنی رنگ کی میکسی پر پڑی۔ جو کہ دور سے دیکھنے میں اسے کافی اچھی لگی تھی' لہٰذا وہ کچھ سوچ کر اسی جانب بڑھ گئی۔
***********
آزر آج ہی پاکستان سے واپس آیا تھا۔ مریم کی سالگرہ کا دن قریب تھا۔ آزر ہر سال اسے کوئی واچ وغیرہ ہی تحفے میں دیا کرتا تھا۔ جبکہ اب کی بار مریم نے اپنی ممی سے کوئی خوبصورت سے ڈریس کی فرمائش کی تھی۔ جو کہ آزر کو ہی پوری کرنی تھی۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سے اپنی بہن کی ہر خواہش خود ہی پوری کرنا چاہتا تھا۔ اور آج اس کے لئیے گفٹ خریدنے کی غرض سے وہ ریمال مال آیا تھا۔
" اب بھلا مجھ جیسے سیدھے سادھے آدمی کو ان لڑکیوں کی شاپنگ کا کیا علم؟ "
وہ بیچارگی سے سوچتے ہوئے بولا۔
تبھی اسکی نظر سامنے ایک لیڈیز بوتیک پہ پڑی۔ شاید یہیں سے کچھ مل جائے۔ یہی سوچ کر وہ اس جانب کا ُرخ کئیے آگے بڑھ گیا۔
***********
حیات کو وہ جامنی رنگ کی میکسی پسند نہیں آئی تھی۔ چونکہ اسکا سائز کافی بڑا تھا۔ اسی لئے وہ وہی گلابی رنگ کی میکسی خریدنے کی غرض سے گاہے بگاہے نظریں گھماتی اسی سمت چلی آرہی تھی۔ ابھی وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ اس نے ایک دراز قد نوجوان کو اسی ڈریس کی جانب ہاتھ بڑھاتے دیکھا۔
" یا اللہ! " وہ بھاگتی ہوئی وہاں آئی۔
" رکیں۔۔ رکیں۔ "
اس کی آواز پہ اس نوجوان کا بڑھتا ہاتھ رکا۔ وہ ذرا سا سیدھا ہوا اور پھر اسکی جانب گھوما۔
(یہ آج پھر آگئی؟) وہ کندھے اُچکاتے ہوئے دھیرے سے بولا۔
" مادام کیا کچھ کہا آپ نے؟ "
اور حیات جانتی تھی کہ وہ اسکی آواز سن چکا تھا۔
" دیکھیے مسٹر...." اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی آزر نے اسکی بات وہیں کاٹ دی۔
" آزر....نام ہے میرا۔۔آزر جہانزیب! " وہ بڑی سادگی سے بولا تھا۔
" مجھے پتہ ہے مگر....." اور آزر نے ایک بار پھر درمیان میں اس کی بات کاٹ دی-
" اوہ تو اس کا مطلب آپ کو میرا نام یاد تھا۔"
اب کے وہ مسکرایا تھا۔
" یہ کیا آپ اِدھر اُدھر کی باتیں کررہے ہیں؟ اب جو میں کہہ رہی ہوں وہ سنیں۔ یہ ڈریس میں خرید رہی ہوں اور خبردار جو آپ نے اسے ہاتھ لگایا۔" وہ دبے دبے غصے سے بولی۔
جبکہ آزر اب اس میکسی کو اٹھا چکا تھا۔
" مگر پہلے یہاں میں آیا ہوں۔"
" نہیں میں آئی تھی، اور میں یہی لوں گی۔"
وہ بھی فوراً بولی۔ اور میکسی کے دوسرے کونے سے ہینگر کو مضبوطی سے تھام لیا۔
" شرم تو نہیں آرہی اپنے سے دس سال چھوٹی گرل فرینڈ بنارکھی ہے۔ (استغفراللہ) "
حیات نے دھیرے سے کہتے ساتھ ہی جھر جھری لی۔
" آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہیں کہ یہ میں اپنی گرل فرینڈ کیلئے لے رہا ہوں؟" وہ نہایت ہی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
بھلا وہ بھی کوئی بات تھی جو آزر جہانزیب سے چھپی رہتی؟
" کیونکہ یہ لیڈیز بوتیک ہے۔ تو غالباً آپ کسی لڑکی کیلئے ہی شاپنگ کرنے آئے ہیں۔ اور وہ آپ کی کوئی دوست ہی ہوسکتی ہے۔" وہ بھی بے نیازی سے شانے اُچکاتے ہوئے بولی۔
" ہوں...دوست تو ہے۔" وہ ہلکا سا مسکرایا۔
( اللہ! یہ کتنا ڈھیٹ آدمی ہے میرے سامنے اعتراف کررہا ہے کہ وہ اِس کی دوست ہے۔)
مگر آزر کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
" پھر بھی مادام! ہمیشہ ایک سائیڈ دیکھ کر آگے کی کہانی خود سے اخذ نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس دنیا میں انسان دھوکا دینے اور دھوکا کھانے دونوں میں ماہر ہے۔"
حیات نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس دن ماریہ نے بھی اسے یہی کہا تھا۔ جب وہ آزر کو برا بھلا کہہ رہی تھی، اس نے خفت سے سر جھٹکا۔
" دیکھیں میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتی بس مجھے یہی ڈریس چاہیے آپ دوسرا لے لیں۔" حیات نے ہینگر کے کونے پہ اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا۔
" مجھے بھی یہی ڈریس لینا ہے۔ ویسے آپ بھی دوسرا لے سکتی ہیں۔"
(اب میں کیا کروں، جب مریم کا فیورٹ کلر یہی ہے۔ اور یہ ضدی لڑکی ہے کہ..) آزر نے بھی غصے سے سر جھٹکا۔
" آپ کو تو اپنی دوست کو دینا ہے نا؟ پھر آپ کچھ بھی لے سکتے ہیں۔ مگر مجھے بس یہی چاہئیے۔"
اور آزر نے اس کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی ہینگر کا کونا چھوڑدیا۔ جبکہ وہ میکسی حیات کے ہاتھ میں آگئی۔ اُس کی آنکھیں بے اختیار چمکیں۔
" ٹھیک ہے آپ یہ لے سکتی ہیں۔" وہ اتنا کہہ کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔
(آج یہ انسان کیسے بن گیا؟ ) حیات حیران سی ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔
جبکہ آزر سامنے سے ایک ڈریس لے کر اب کاؤنٹر کی سمت بڑھ رہا تھا۔
" کتنے ہوئے بھائی؟ " وہ اب دکاندار سے مخاطب تھا۔
جواباً دکاندار نے مطلوبہ رقم بتائی۔ اور وہ والٹ سے پیسے نکالنے ہی لگا تھا کہ کسی احساس کے تحت اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔
جہاں حیات ہنوز اسی پوزیشن میں کھڑی تھی۔
اس کی نظریں بھی بے اختیار اسی جانب اٹھیں، تو وہ اپنے حیرت بھرے تاثرات چھپائے...ایک بار پھر سنجیدہ ہوگئی۔
وہ اب اپنی نظروں کا رخ حیات کی جانب کرتے ہوئے شاید دکاندار سے کچھ کہہ رہا تھا۔
(کیا یہ میری طرف دیکھ کر کچھ کہہ رہا ہے؟) وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
آزر نے دکاندار کو پیسے دیئے اور مسکراتے ہوئے وہاں سے باہر نکلتا چلا گیا۔
تبھی حیات کندھے اُچکاتے ہوئے کاؤنٹر کی جانب آئی۔
" بھائی کتنے ہوئے؟ "
" میڈم آپکا بل تو پے ہوچکا ہے۔"
وہ مسکرایا۔
" کیا۔۔کس نے، کب؟ "
" ابھی آپ کے شوہر نے ہی بل پے کیا تھا۔ وہ بھوری شرٹ اور بلیک جینز والے ہینڈسم سے آپ کے شوہر ہی تھے نا؟ "
وہ دکاندار اب بھی مسکرا رہا تھا۔
حیات نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔ اور بس ایک لمحہ۔۔ایک لمحہ لگا تھا اسے سمجھنے میں کہ وہ بھوری شرٹ والا ہینڈسم، وہی زکوٹا جن تھا۔
" اوہ اللہ! " حیات نے اپنا سر پکڑ لیا۔
میں کیوں نہیں سمجھی کہ اس نے پلٹ کر مجھے کیوں دیکھا تھا۔
" اف۔۔ اف! " اس کا بس نہیں چل رہا تھا، کہ ابھی جا کر اس شخص کا گلا دبا آئے۔
" کیا یہ آپ سے انہوں نے خود کہا ہے؟ " اس نے دو ٹوک انداز میں اس دکاندار سے پوچھا۔ اب کے اس کا اشارہ شوہر والی بات کی طرف تھا۔
" نہیں میم انہوں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا مگر میں سمجھا شاید وہ آپ کے شوہر.."
اور اس نے تیزی سے اس دکاندار کی بات کاٹ دی۔
" اب کی بار جب وہ آئیں، آپ ان کو یہ پیسے واپس کردیجئے گا۔ کیونکہ یہ میں نے خریدا ہے اور یہ لیں اسکی پے منٹ۔" اس نے اپنے پرس سے چند نوٹ نکالے اور اس کی جانب بڑھائے۔
" معذرت میم! مگر اس کا بل ادا ہوچکا ہے۔ لہٰذا میں آپ سے یہ پیسے نہیں لے سکتا۔" دکاندار نے تحمل سے اسے جواب دیا۔
مگر وہ اس کی کہاں سن رہی تھی۔
" ٹھیک ہے پھر رکھیں اپنا ڈریس۔" حیات نے غصے سے وہ شاپنگ بیگ کاؤنٹر پہ پٹخا۔
اور اب کے وہ دکاندار بھی گھبرا گیا۔
" میڈم! بل کی ادائیگی کے بعد یہاں کسٹمرز کا سامان رکھنا ممنوع ہے۔ یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے۔ آپ بات کو سمجھیں۔"
" اچھا ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے۔" وہ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے، قدرے نارمل لہجے میں بولی-
اب اس ڈھیٹ آدمی کی غلطی کی سزا اس بیچارے دکاندار کو کیا دینا؟ یہی سوچ کر وہ ہاتھ میں شاپنگ بیگ تھامے اس دکان سے باہر نکلتی چلی گئی۔
ماریہ ٹھیک کہتی تھی اگر اسی طرح چلتا رہا تو واقعی اُن دونوں میں سے کسی ایک کی Mummy کچھ عرصے بعد کویت میوزم میں ضرور نظر آئے گی۔
" آزر جہانزیب تمہارا تو اب اللہ ہی نگہبان۔" وہ غصے سے بڑبڑائی تھی۔
" یہ آج کل کے میاں بیوی بھی نا۔ ذرا سی اَن بَن کیا ہوجائے، سِرے سے ایک دوسرے کو میاں بیوی ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔"
وہ دکاندار بھی خود کلامی کرتے ہوئے، سر جھٹک کر مسکرا دیا۔
***********
جاری ہے۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top