Episode 5 " اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟ "
پاکیزہ موتی از اقراء عزیز
باب ۵ : " اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟ "
( And which of the favours of your Lord will you deny? )
اکتوبر کے مہینے کا آغاز تھا۔ اسی باعث کویت میں گرمی کا زور اب ٹوٹ چکا تھا۔ سورج کی روشنی ہلکے جامنی رنگ کے پردوں سے ٹکراتی ہوئی اسکے کمرے میں داخل ہورہی تھی۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوائیں موسم کو مزید دلکش بنا رہی تھیں۔ اور وہ اپنے کمرے میں صوفے کے ایک کونے پر بیٹھی سورۃ الرحمن کی تلاوت کر رہی تھی۔ دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی اور ماریہ اندر داخل ہوئی۔وہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔
"ارے ماری! بیٹھو نا! "حیات نے اسے یوں مسلسل کھڑے دیکھ کر کہا۔
"تم تلاوت کرو میں تمہیں سن رہیں ہوں۔" جواباً وہ مسکرا کر بولی۔ اور وہیں صوفے پر اسکے پہلو میں بیٹھ گئی۔
جبکہ حیات مسکراتے ہوئے ایک بار پھر تلاوت کرنے لگی۔
"شروع اللہ کے نام سے وہ جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
"الرحمٰن ( ۱ )
اسی نے قرآن کی تعلیم عطا فرمائی ( ۲ )
اسی نے انسان کو پیدا کیا ( ۳ )
اور اسی نے بولنا سکھایا ( ۴ )
سورج اور چاند پابند ہے ایک حساب مقرر کے ( ۵ )
اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کر رہے ہیں ( ۶ )
اور اسی نے آسمان کو بلند کیا۔اور قائم کیا میزان عدل ( ۷ )
تا کہ اس میں میزان میں حق سے تجاوز نہ کرو۔( ۸ )
اور صحیح تولو انصاف کے ساتھ اور تول کم مت کرو۔ ( ۹ )
اور اسی نے خلقت کیلیے زمین بچھائی۔ ( ۱۰ )
اور اس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں، جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں۔ ( ۱۱ )
اور اناج بھوسے والا اور خوشبودار پھول۔ ( ۱۲ )
اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ ( ۱۳ )
ماریہ حیات کو سننے میں اس قدر محو تھی کہ کب حیات نے قرآن پاک پڑھ کہ شیلف پر رکھا، اور کب اسکے برابر میں آ بیٹھی اسے پتہ ہی نہ چلا۔ پھر جیسے ماریہ نے چونک کر حیات کی طرف دیکھا۔
"حیات کیا تم جانتی ہو کہ تمہاری آواز تلاوت کرتے ہوئے کس قدر خوبصورت لگتی ہے۔" ماریہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
جواباً حیات بھی مسکرائی۔
"اچھا یہ بتاؤ تمہیں اس سورۃ کے بارے میں کیا سمجھ آیا۔مطلب اللہ تعالیٰ ہمیں کیا پیغام دیتے ہیں اس سورۃ میں؟ " وہ اپنی تھوڑی پہ انگلی رکھے پر سوچ لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی۔
" ہوں۔۔۔۔جانتی ہو ماریہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس سورۃ میں صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں انکی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔مگر لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اصل نعمت کیا ہے؟ لوگوں کی نظر میں یہ ہے کہ ان کے پاس جتنی بڑی چیز ہے، وہی نعمت ہے۔ جیسے کسی کے پاس گاڑی تو کسی کے پاس بنگلہ۔ جبکہ نعمت یہ نہیں ہوتی بلکہ نعمت تو ہر وہ چیز ہے جس کا اللہ نے قرآن میں بھی ذکر کیا ہے۔ جیسے سورج کی روشنی اور چاند اور ستاروں کا ہر رات بادلوں پر چھا جانا۔یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔کہ وہ ہمیں اندھیرے سے اُجالے میں ضرور لاتا ہے۔اگر یہ سورج نہ ہوتا تو ہم ساری زندگی اندھیرے میں بسر کر رہے ہوتے۔اور دن کی روشنی سے محروم رہ جاتے۔ تو کیا یہ دن اور رات کا نظام بھی اللہ کی سب سے بڑی نعمت نہیں؟ "
ماریہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
" بیشک یہ ہمارے رب کی بے شمار نعمتیں ہیں اور ہم انکا صحیح سے شکر ادا کرنا بھی نہیں جانتے۔" اس نے اداسی سے کہا۔
"اور اگر ہم کبھی کسی نابینا شخص سے بھی پوچھیں نا کہ تمہارے پاس آنکھیں نہیں تو کیا تم پھر بھی اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہو۔ تو وہ بھی کہے گا۔اسی رب نے مجھے ایک بہترین سماعت سے نوازا ہے اس نے مجھے چلنے پھرنے کی قوت سے نوازا ہے۔ تو کیا میں ایک چیز نہ ہونے پر اسکی باقی نعمتوں کو بھلادوں؟ کیا کوئی اتنا نا شکرا بھی ہو سکتا ہے؟ ہمیں تو کم از کم اس سے زیادہ اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہئے۔کیونکہ ہمارے پاس تو اسکی عطا کردہ سب سے خوبصورت نعمت آنکھیں بھی ہیں۔"
" کتنا نادان ہے انسان !اسکی دسترس میں چاہے لاکھ نعمتیں ہی کیوں نہ ہوں ایک ادھوری خواہش کی بناء پہ سب کی اہمیت گھٹا دیتا ہے۔ ایک لاحاصل کی امید پر کتنے حاصل ٹھکرا دیتا ہے۔"
حیات سر جھٹک کر اداسی سے مسکرائی تھی۔
"ویسے تمہیں نہیں لگتا تم کچھ بھول رہی ہو؟ " ماریہ نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔
"کیا؟ " جواباً اس نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اور وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولی۔
"یہی کہ ایک اچھا اور ایک سچا دوست بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ آج کل کے اس مفاد پرست دور میں ایک اچھے اور برے وقت کا ساتھی آپ کے ساتھ ہوتو آپ سے زیادہ خوش نصیب اور کوئی نہیں۔" ماریہ بے اختیار مسکرائی۔
"اور تمہاری صورت اس رب نے مجھے ایک اچھے دوست کی نعمت عطا کی ہے حیات جس پر میں اس کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہو گا۔"
جبکہ حیات نم آنکھوں سے مسکرادی۔
تبھی سبرینہ کی آواز پر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"اچھا اب چلو یار سبرینہ آنٹی کھانے پر بلا رہی ہیں۔ میں تو خاص آئی ہی ان کے ہاتھ کا کھانا کھانے تھی۔" ماریہ دھیرے ہنستے ہوئے بولی۔
اور حیات نے قدرے خفگی سے اسے دیکھا۔
"تو تم مجھ سے ملنے نہیں آئی تھی؟ "
"ارے! تم سے ہی ملنے آئی تھی مگر ان کے کھانے سے بھی ملنے کا دل کیا۔ تو سوچا دونوں سے ہی مل لوں۔" ماریہ نے معصومیت سے کہا تو وہ بے اختیار ہنس دی۔
"اچھا چلو بھوکڑ ہو تم پوری ماری۔"
"کیا تم نے مجھے بھوکڑ کہا؟ " ماریہ مصنوعی غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولی۔اور یونہی بحث کرتے کرتے وہ دونوں کمرے سے باہر آ گئیں۔
"کتنی دیر لگا دی تم دونوں نے۔۔ چلو آؤ اب کھانا کھا لو۔"
سبرینہ ان دونوں سے مخاطب ہوئیں۔ جو ہنوز اپنی بحث میں مصروف تھیں۔
"اور یہ کیا بچوں کی طرح لڑتی رہتی ہو؟ " سبرینہ نے خفگی سے انہیں دیکھا۔
"پھوپھو کچھ نہیں چھوڑیں اسے آپ بس کھانا کھائیں۔"
حیات نے جیسے بات ہی ختم کرنا چاہی۔
" آنٹی! آپ تو جانتی ہی ہیں کہ آپ کی بھتیجی کا مسئلہ ذرا دوسرا ہے۔" ماریہ نے اپنی انگلی سے حیات کے دماغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شرارت سے کہا۔
جس پر سبرینہ بھی سر جھٹک کر ہنس دیں۔ اور حیات جو پلیٹ میں دھرے چاول چمچ سے ادھر ادھر کر رہی تھی۔ اب خفا خفا نظروں سے ان دونوں کو دیکھنے لگی۔ کیونکہ وہ دونوں ابھی تک ہنس رہی تھیں۔
*************
مریم زینے اترتی ہوئی آئی اور لاؤنج میں نظر ڈالے بغیر ہی سیدھا کچن میں داخل ہوئی۔ پھر جیسے لمحے بھر کو ٹھٹک کر رکی کیونکہ ابھی وہ جو اپنے لیے فروٹ چاٹ بنا کر گئی تھی۔ وہ اب وہاں نہیں تھی۔
وہ کچن سے نکلتی ہوئی جیسے ہی لاؤنج میں آئی، اسکی نظر سامنے صوفوں کے عین وسط میں بیٹھے۔۔ ہاتھ میں فروٹ چاٹ کا باؤل پکڑے روحان پر پڑی۔
جبکہ آزر بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھا لیپ ٹاپ گود میں رکھے اس پہ کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔
مریم دندناتی ہوئی لاؤنج میں آئی اور ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
"ویسے ایک بات ہے روحان بھائی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، احمد انکل ایک بہت ہی اچھے اور نیک صِفت آدمی تھے۔ یہ آپ کس پر گئے ہیں؟ " وہ منہ بنا کر بولی۔
"میں پورا کا پورا اپنی بہن پر گیا ہوں۔"روحان نے اپنی بتیسی نکالتے ہوئے جواب دیا۔
جس پر مریم نے ایک خفا خفا نظر اس پر ڈالی اور پھر خود بھی سر جھٹک کر ہنسنے لگی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ روحان کی کوئی بہن نہیں ہے۔ لہذا وہ مریم کو ہی اپنی چھوٹی بہن سمجھتا تھا۔
جبکہ اسکی بات کا مفہوم بھی یہی تھا کہ اس کا اشارہ مریم کی جانب ہے۔
روحان ہمیشہ آزر کے گھر کو اپنا ہی سمجھتا تھا۔جبکہ اس گھر کا ہر فرد بھی اسے گھر کا فرد ہی سمجھتا تھا۔ جب ہی وہ بلا جھجک کوئی بھی کام کر لیتا تھا۔جیسے کہ ابھی مریم کے حصے کی فروٹ چاٹ کھانا۔
"کم از کم اس معاملے میں آپ مجھ پر تو ہرگز نہیں گئے۔" مریم نے جیسے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔ اور جواباً وہ بس ہنستا ہی چلا گیا۔
جبکہ آزر ہنوز کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا۔
"او مشین نما آدمی! کبھی ہنس بھی لیا کرو۔" روحان نے اسکی کمر پر ایک دھپ رسید کرتے ہوئے کہا۔ مگر آزر اسکی بات کا کوئی اثر لیے بغیر ہنوز لیپ ٹاپ کے کی پیڈ پر تیزی سے انگلیاں چلا رہا تھا۔ اسکے پاس ابھی کرنے کو اور بہت سے کام تھے۔
اتنے میں ہی مسز صدف عصر کی نماز ادا کر کے کمرے سے باہر آ ئیں۔جب روحان کا آخری جملہ انکے کانوں سے ٹکرایا۔
" روحان بیٹا تم ہی کچھ سمجھاؤ اسے ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے۔ میں تو کہتی ہوں بس اب اپنی بہو لے آؤں۔ "
مسز صدف صوفے پہ بیٹھتے ہوئے روحان سے مخاطب ہوئیں۔
" ارے آنٹی۔۔ نیک کام میں دیر کیسی۔" جواباً اس نے خوشگوار حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
" بیٹا وہی تو کہہ رہی ہوں، مگر آزر کو دیکھو اس سے تو جب بھی شادی کی بات کرو، دنیا جہاں کی بے زاری اس کے چہرے پہ چھاجاتی ہے۔ جیسے میں کسی اٹھائیس سال کے نہیں بلکہ اٹھارہ سال کے لڑکے کو شادی کا کہہ رہی ہوں۔ " انہوں نے خفگی سے آزر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
" ممی پلیز ابھی نہیں! " جواباً آزر نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اب صدف بیگم اور روحان احمد کو اس سے متعلق ایک بہترین موضوع مل چکا ہے۔ اور وہ تھا۔ " آزر کی شادی۔ "
"اچھا روحان تم بتاؤ کہيں اسے کوئی لڑکی تو نہيں پسند؟ " مسز صدف نے آزر کو مکمل طور پہ نظر انداز کرتے ہوئے روحان سے سوال کيا۔ وہ جانتی تھيں کہ وہ اس کا بہترين دوست ہے اور اگر ايسا کچھ ہے تو اسے يقيناً اس بات کا علم ہوگا۔
"آنٹی۔۔ يہ کھڑوس اور کسی کو پسند کر لے؟ ميں نہيں مانتا، ميں نہيں مانتا۔"
روحان نے باقاعدہ دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے ڈرامائی انداز ميں کہا۔ تو وہ بھی سر جھٹک کر ہنس ديں۔
اور ايک بار پھر آزر کی جانب متوجہ ہوئیں۔
" ديکھو آزر ميری ايک بات ياد رکھنا تمہيں اگر کبھی کوئی لڑکی پسند آئے بھی تو وہ پاکستانی ہونی چاہیئے۔ ميں کويت کی کسی لڑکی سے تمھاری شادی ہر گز نہيں کروں گی۔"
"خِلی وَلی امیّ " (leave it mummy)
آزر نے يہ کہتے ہوئے جيسے اس موضوع پہ بات ہی ختم کرنا چاہی ۔اور وہاں سے اُٹھ کر ليپ ٹاپ ہاتھ ميں تھامے اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گيا۔
جبکہ يہاں مسز صدف ،مريم اور روحان تاسف سے سر ہلاتے ہوئے اسے جاتا ديکھ رہے تھے۔
يااللہ!
کيا بنے گا اس کی ہونے والی بيوی کا؟
کيا بنے گا ميری ہونے والی بہو کا؟
کيا بنے گا ميری ہونے والی بھابھی کا؟
ان تينوں کی سوچوں کے زاويے اس ايک ہی بات کے گرد گھوم رہے تھے۔
*************
دوپہر کے کوئی دو بج رہے تھے ۔حيات اس وقت سبرينہ کو کويت کی ان ساری مخصوص جگہوں کے بارے ميں بتارہی تھی ۔جہاں جہاں وہ ماريہ کے ساتھ اب تک گئی تھی۔اور وہ مسکراتے ہوئے اسے سن رہیں تھيں۔ جبکہ حسن داؤد بھی وہيں بیٹھے اپنی پسندیدہ اردو ادب کی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ تبھی لائبہ اسکول سے آئی اور اسے ديکھتے ہی سبرينہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
"اللہ اکبر! کيا کرتی ہو لائبہ نور۔"
وہ غصے سے اٹھ کر اس کے پاس چلی آئيں۔
جو آئسکريم سے بھرا کپ ہاتھ ميں تھامے اپنے ساتھ ساتھ شايد اپنے کپڑوں کو بھی کھلا رہی تھی۔اس کے يونيفام کے اوپر جگہ جگہ آئسکريم لگی تھی ۔اور سبرينہ کو اسی بات پہ غصہ آرہا تھا۔
" جاؤ فوراً اپنے کمرے ميں اور يونيفام چينج کرو۔" سبرينہ نے سختی سے کہا ۔جس پر حيات نے انہیں خفگی سے ديکھا۔
"افوہ بس کريں پھوپھو۔۔ آئسکريم ہی تو ہے۔"وہ لائبہ کو اپنے ساتھ لگائے وہيں صوفے پر بيٹھ گئی اور اس کا چہرہ ٹشو سے صاف کرنے لگی۔
"لائبہ نور تو حيات نور کی جان ہے۔"
حيات نے اس کے سرخ وسفيد گال پر ہاتھ پھيرتے ہوئے کہا۔
جواباً لائبہ بھی کھکھلا کر بولی ۔
"حيات نور بھی لائبہ نور کی جان ہے"۔
"Because we both are Noor' Noor! "
اور لائبہ کے يوں کہنے پر دادا جان اور حيات دونوں بے اختیار ہنستے چلے گئے۔
"آج کل کے بچے بھی ماشاءاللہ!" حسن داؤد محبت سے اپنی چھوٹی سی نواسی کو ديکھتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
"حيات! تم نے تو اس کے لاڈ اٹھا اٹھا کر بگاڑ ديا ہے اسے۔ جب تم چلی جاؤگی تو يہ مجھے ہی تنگ کرے گی ۔" سبرينہ اداسی سے مسکراتے ہوئے بوليں ۔
کيونکہ حيات صرف دو مہينوں کے لئے کويت آئی تھی ۔اور جلد ہی اسے يہاں سے چلے جانا تھا۔
"حيات بيٹا !آپ يہاں خوش تو ہيں نا؟"
حسن داؤد صاحب نے اس سے استفسار کيا۔
"جی دادا جان مگر بابا کو بھی بہت مس کر رہی ہوں۔"وہ اداسی سے مسکراتے ہوئے بولی۔
حقیقتاً وہ يہاں واقعی بہت خوش تھی۔ يہاں اسے ماريہ جيسی اچھی دوست جو ملی تھی ۔اور يوں اتنے عرصے بعد دادا جان اور پھوپھو کے ساتھ رہنے کا موقع بھی ۔جبکہ لائبہ نور ميں تو اس کی جان تھی۔"
"ہوں۔تو اب آپ مزيد کچھ عرصہ يہيں رہیں گی۔"
دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جبکہ حيات اور سبرينہ حيرت سے انہیں ديکھ رہی تھيں ۔
"ہاں بيٹا صبح ہی ہمیں اصغر کا فون آيا تھا۔ اور اس نے بتایا کہ اسے اپنے بزنس کی اہم ميٹنگ کے سلسلے ميں آج دبئی جانا ہے۔ خیر سے اب تک تو وہ دبئی کی ليئے روانہ بھی ہو چکا ہوگا۔ "
اور یہ سن کے حیات کی آنکھیں حیرت سے مزید پھیل گئیں۔
" مگر دادا جان! بابا نے تو مجھے ایسا کچھ نہیں بتایا۔۔اور نہ ہی مجھے فون کیا۔ "
اس کا حیران ہونا بجا تھا۔ کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ اصغر حسن صاحب اسے اطلاع دئیے بغیر ملک سے باہر جاتے۔
" ہاں میں جانتا ہوں، مگر آپ جو اپنے موبائل کو خیر باد کہہ کر ناجانے کہاں چھوڑ آتی ہیں۔ " انہوں نے خفگی سے کہا۔
" اوہ! " حیات کو اچانک ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ جب سے کویت آئی تھی۔ اس نے کویت کی سِم خریدنے کی زحمت ہی نہیں کی تھی۔ اسے اپنے بابا سے بھی بات کرنی ہوتی تو گھر کے فون سے یا پھوپھو کے موبائل سے ہوجاتی تھی۔ اسے اپنی لاپرواہی پہ اب خفت محسوس ہورہی تھی۔
" اس نے سب سے پہلے آپ کو واٹس ایپ پر ہی فون کیا تھا، مگر آپ کا فون شاید بند تھا۔ تبھی اس نے ہمیں کال کی اور اس بات سے آگاہ کیا کہ وہ آج ہی دبئی کے لئیے روانہ ہورہے ہیں، لہٰذا جب تک وہ پاکستان واپس نہیں آجاتے آپ مزید کچھ عرصہ یہیں رہیں گی ہمارے پاس۔ " انہوں نے جیسے اسے تفصیل بتائی۔
" اوکے دادا جان! میں ابھی بابا کو فون کرلیتی ہوں، مگر وہ تو اس وقت فلائٹ میں ہوں گے۔ " اسے واقعتاً اپنی لاپرواہی پہ اب افسوس ہورہا تھا۔
" ارے بیٹا کوئی بات نہیں۔ اس نے کہا تھا وہ خیریت سے پہنچ جائے پھر خود ہی فون کرے گا۔ اب آپ پریشان نہ ہوں ٹھیک؟ " حسن داؤد صاحب نے شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
" ٹھیک۔ " جوابا وہ بھی دھیرے سے مسکرادی۔
**********
آزر اور روحان آج کویت نیشنل میوزیم آئے ہوئے تھے۔ آزر نے سر پہ پی کیپ لے رکھی تھی۔ اور آنکھوں پہ سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا۔ تبھی روحان اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔
" جانتے ہو اس وقت تمہیں دیکھ کر مجھے کیا لگ رہا ہے؟ "
کیا؟
" ایسا لگ رہا ہے۔۔ جیسے یہاں کوئی تمہیں پکڑنے مشن پر آیا ہو۔ "
روحان نے اس کے حلیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
" بلکل اور تمہیں دیکھ کے مجھے کیا لگ رہا ہے معلوم ہے؟ " وہ محظوظ ہوتے ہوئے بولا۔
کیا؟
" یہی کہ تمہیں تو کوئی بھیس بدلنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ پکڑنے والا تمہیں یونہی دیکھ کر ڈر جائے گا۔ " نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا گیا تھا۔
جواباً روحان نے اسے گھورنا ضروری سمجھا۔ اور وہ کوئی پانچ منٹ تک یہ کام کرتا رہا تھا۔
جبکہ آزر اس کے یوں مسلسل گھورنے پر جھنجلا کر رہ گیا۔
" انسان بنو روحان! "
" جن کا دوست کبھی انسان نہیں بن سکتا۔ " خوب ہنس کر وہ بولا تھا۔
" ایک تو وقار کو بھی یہی جگہ ملی تھی ملنے کے لئیے۔ " آزر نے بے زاری سے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ پہ بندھی رسٹ واچ کو دیکھا، جو اس وقت شام کے پانچ بجارہی تھی۔
" ہاں۔۔اب کیا تم سے ملنے کے لئیے تاج محل بنواتا وہ۔ " روحان جل کر بولا۔ اور وہ ناچاہتے ہوئے بھی دھیرے سے ہنس پڑا۔
پھر یونہی وہ دونوں آگے کی جانب بڑھ گئے۔
**************
وہ دونوں آج کویت ٹاورز آئی ہوئی تھیں۔ پھر انہوں نے یہاں سے کویت نیشنل میوزیم جانے کا پروگرام بنایا تھا۔
" کویت ٹاورز کویت شہر میں تین ٹاورز پہ مشتمل ایک گروپ کی شکل میں بنے ٹاورز تھے۔ جو کہ " فارس خلیج " پہ واقع خاصے اونچے اور نہایت ہی خوبصورت ٹاورز تھے۔ اور انہیں جدید کویت کا نشان اور علامت قرار ریا جاتا تھا۔ "
فارس خلیج، جنوبی مغربی ایشیا میں ایران اور جزیرہ نما عرب کے درمیان واقع خلیج ہے۔ یہ تجارتی نقطہ نظر سے دنیا کے اہم ترین آبی علاقوں میں شمار ہوتی ہے۔
اور اس وقت حیات اپنے کیمرے سے ان ٹاورز کی تصویریں بنانے میں مصروف تھی۔ جبکہ ماریہ تاسف سے سر ہلاتے اسے دیکھ رہی تھی۔
ان دو مہینوں میں اتنا تو وہ جان ہی گئی تھی کہ حیات کو یہ تاریخی مقامات خاصے ایٹریکٹ کرتے تھے۔ وہ قدرت کے حسین شاہکار اور ہر خوبصورت منظر کو اپنے کیمرے میں مقید کرلیا کرتی تھی۔
اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ دونوں کویت نیشنل میوزیم کے سامنے کھڑی تھیں۔
ماریہ نے اپنے ایک ہاتھ کو ہوا میں لہراتے ہوئے اور دوسرے ہاتھ کی مٹھی بند کئیے مائیک کی صورت منہ کے قریب لے جاتے ہوئے بلند آواز میں کسی نیوز کاسٹر کی طرح کہا تھا۔
" سو ویلکم ٹو دی کویت نیشنل میوزیم! " اور اس کے اس انداز پہ حیات بے اختیار ہنس دی۔
" ماری ہم کچھ جلدی نہیں پہنچ گئے؟ تم نے تو کہا تھا کہ میوزیم کا راستہ وہاں سے چالیس منٹ کا ہے۔ " حیات نے اپنے کیمرے میں آج کی بنائی گئی تصویریں دیکھتے ہوئے گویا استفسار کیا۔
" ہاں تو میڈم حیات نور! آپ سارا راستہ یہاں کے ہر منظر کو اپنے کیمرے میں مقید کرنے میں مصروف جو تھیں۔ " وہ قدرے خفگی سے بولی۔
اور وہ دھیرے سے مسکرادی۔
" ویسے جانتی ہو کویت میں یہ میری پسندیدہ جگہ ہے، اور سنا ہے اس میوزیم کی تاریخ خاصی دلچسپ ہے۔۔جبکہ یہ ایک الگ بات ہے کہ مجھے اس کے متعلق کوئی معلومات حاصل نہیں۔ " ماریہ نے کہتے ساتھ ہی ایک نظر حیات کو دیکھا۔ اور پھر دونوں بیک وقت ہنسنے لگیں۔
*************
" ہیلو! " روحان فون کان پہ لگائے بلند آواز میں کہہ رہا تھا۔ سیاحوں کا خاصا رش ہونے کے باعث شاید اسے مقابل کی آواز صاف سنائی نہیں دے رہی تھی۔
" آزر یہاں آواز صاف نہیں آرہی، میں ذرا کال سن کر آتا ہوں۔ "
" اوکے۔ " جواباً اس نے سر کو جنبش دیتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
روحان کے جانے کے بعد آزر یونہی ارد گرد کا جائزہ لیتے آگے بڑھ رہا تھا۔ تبھی اس کی نظر ان دو لڑکیوں پر پڑی جو شاید ہنستی ہوئیں اسی جانب آرہی تھیں۔
آزر نے دھیرے سے آنکھوں پہ لگے گلاسز اتارے۔
( آج پھر آگئیں کیا گھر میں کوئی بیٹھنے نہیں دیتا انہیں؟ یقیناََ گھر کے بچوں کو ڈراتی ہوں گی۔ )
وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوا۔
اور وہ دونوں اس کی موجودگی سے بے خبر اب اس کے برابر میں آ کھڑی ہوئیں۔
" واؤ! کس قدر خوبصورت ہے یہ۔ " حیات نے ستائشی نظروں سے اس میوزیم کی گول چھت اور باہر کے منظر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ جس کے داخلی دروازے ایک روایتی قلعہ کی طرح نظر آتے تھے۔
" ہاں۔۔ یہ میوزیم اندر سے اور بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ ابھی تو تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ " جواباََ ماریہ دبے دبے جوش سے بولی۔
" اچھا ماری! کچھ بتاؤ نا اس کے بارے میں کچھ تو علم ہوگا تمہیں۔۔آخر کو یہیں پیدا ہوئی ہو۔ " وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔ اور آزر جو ان سے چند قدم فاصلے پہ کھڑا تھا۔ ان کی یہ گفتگو اسے با آسانی سنائی دے رہی تھی۔
" یہ میوزیم تین اہم حصوں پر مشتمل ہے۔ ورثہ، آثارِ قدیمہ اور افلاک نما۔
افلاک نما جسے ہم انگلش میں " Planetarium " کہتے ہیں۔
یہ ایک فلکیاتی مشین ہے جو اپنے پرزوں کی حرکت سے ایک قائم بالحکم چھت پر سیاروں اور دیگر اجرام فلکی کی حرکات کی تصویر پیش کرتی ہے۔
" اس میوزیم کی تاریخ خاصی قابلِ ذکر ہے۔ اور یہ جگہ پہلے کویت کے " شاہی صباہ خاندان " کی رہائش گاہ تھی۔ فلاکا میں آثارِ قدیمہ کی دریافتوں نے یہ جگہ پسند کے اور انہوں نے ایوارڈ اور میوزیم ڈیپارٹمنٹ کو کویت شہر میں صباہ خاندان سے خریدا اور اسے قومی میوزیم میں تبدیل کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آرکیٹیکچرل پروجیکٹ اورمیوزیم کی منصوبہ بندی کے لئے تیار تھی، اس کی اصل تعمیر صرف 1981 میں شروع ہوئی تھی۔ "
اور وہ دونوں جو وہاں کھڑے کھڑے ہی اس میوزیم کی تاریخ میں پہنچ چکی تھیں۔ لمحے بھر کو وہاں خاموشی چھاجانے پہ، جیسے ایک دم ان کا سکتہ ٹوٹا تھا۔
ماریہ اور حیات نے سر اُٹھا کے اپنے برابر میں کھڑے اس شخص کو دیکھا۔ وہ آزر ہی تھا اور سامنے کسی غیر مرئی نقطے پہ نگاہیں جمائے میکانکی انداز میں انہیں یہ ساری معلومات فراہم کررہا تھا۔ اس نے سر پہ نیلی رنگ کی پی کیپ لے رکھی تھی۔ اور اس کا رخ سامنے کی جانب تھا۔
وہ ماریہ کے ذرا قریب کھسکی اور ہولے سر سرگوشی کی۔
" ماری! یہ تو بلکل مشینی انداز میں بول رہا ہے، جیسے وہ فون پہ بولتی ہے۔
" آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت مصروف ہے براہ مہربانی تھوڑی دیر بعد کوشش کریں۔ "
حیات نے باقاعدہ اس کی ٹون میں نقل اتارتے ہوئے کہا۔
اگلے ہی پل ماریہ کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔
جبکہ آزر بھی مسکرادیا۔
وہ حیات کی سرگوشی سن چکا تھا۔
" روحان جو کہتا تھا کہ اس میں الگ سے دو کان اور فٹ ہیں تو وہ ٹھیک ہی کہتا تھا۔ "
ماریہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے آزر سے گویا ہوئی۔
" واہ! میجر صاحب۔۔آپ کو تو خاصی انفارمیشن حاصل ہے اس جگہ کے بارے میں۔ کیوں حیات؟ " ماریہ نے جیسے اس کی تائید چاہی۔ جو اب لاتعلق سی وہاں کھڑی تھی۔
" ویسے اتنی بھی کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ تو کوئی بھی بتا سکتا تھا۔ " جواباً اس نے بے نیازی سے شانے اُچکاتے ہوئے کہا۔
جبکہ ماریہ نے تاسف سے ماتھے کو چھوا۔ گویا کہہ رہی ہو اس لڑکی کا کچھ نہیں ہوسکتا۔
( ویسے واقعی اس زکوٹا جن کو خاصی معلومات حاصل ہے اس جگہ کے بارے میں۔)
وہ دھیرے سے بڑبڑائی۔
اور ماریہ کے ساتھ ساتھ وہ زکوٹا جن بھی اس کی یہ بڑبڑاہٹ سن چکا تھا۔
" مادام! آپ کی اطلاع کے لئیے عرض ہے کہ یہ زکوٹا جن یہیں کا پیدا وار ہے۔تبھی خاصا انفارمیٹو بندہ ہے۔" وہ محظوظ ہوتے ہوئے بولا۔
تبھی حیات خفت محسوس کرتی یہاں وہاں دیکھنے لگی۔ جبکہ ماریہ اپنی مسکراہٹ دبائے ان دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی۔
" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں نے آپ کو زکوٹا جن کب کہا؟ "
حیات نے حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
اب اپنی شرمندگی چھپانے کے لئیے اپنا دفاع کرنا بھی تو ضروری تھا نا۔
" یہ تو میں نے بھی نہیں کہا کہ آپ نے زکوٹا جن مجھے کہا ہے۔ " نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا گیا۔
( مجھے زکوٹا جن کہہ رہی ہے، روحان ٹھیک ہی کہتا تھا۔ یہ بھی کسی ڈائین سے کم نہیں۔)
( اوہ خدایا! یہ واقعی انسان نہیں ہوسکتا۔ )
وہ بھی بس سوچ کر رہ گئی۔
جبکہ ماریہ نے بات کا رخ کسی اور ہی جانب جاتے دیکھا تو یک دم ان کے سامنے آگئی۔
" اوکے میجر آزر، اب ہمیں چلنا چاہیے۔ اللہ حافظ! "
وہ مسکراتے ہوئے حیات کو بازو سے دبوچے وہاں سے لے جانے لگی۔
*************
جاری ہے۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top