Episode 3 " !وہ اس راہ کے مسافر ہیں"
باب ۳ : " وہ اس راہ کے مسافر ہیں! "
ایک ماہ قبل :۔
پاکستان :۔
یہ جو مجاہد ہیں
یہ اس راہ کے مسافر ہیں
جہاں عرصے بیت جاتے ہیں
اپنوں سے ملے
اپنے ملک کے کوچوں پہ
جان نچھاور کرنے یہ آرہے ہیں
یہ جو مجاہد ہیں
ان کے حوصلے نہ ختم ہوں گے
ان کی وردی چاہے گرد آلود ہوجائے
مگر ان کے چہروں پر
وہ فتح کی چمک ہے
جس کا کوئی نعم البدل نہیں
یوں لگتا ہے جیسے
زندگی کی امنگ ابھی موجود ہے
چاہے فاتح کہلائیں
یا جام شہادت ملے
ہر جانب جیت ان ہی کا مقدر ہے
یہ جو جاگتے ہیں رات دن
انہیں نہیں کوئی ڈر نہ کوئی تھکن
یہ اس راہ کے مسافر ہیں
جو اپنے وعدوں کو یاد رکھیں گے
مرتے ہوئے بھی
وفاؤں کا پاس رکھیں گے
یہ جو مجاہد ہیں
یہ ایسی ہی راہ کے مسافر ہیں!
" آزر جہانزیب "
*************
" واہ واہ۔۔ یہ اس قدر خوبصورت نظم تم نے لکھی ہے؟ میں نہیں! مانتا میں نہیں مانتا! "
میجر روحان' میجر آزر کی ڈائری لئیے کچن میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
اسی پل پیچھے سے آتے کیپٹن اظہر بھی اپنی مسکراہٹ دبائے گویا ہوئے۔ " میں بھی نہیں مانتا! "
" ہاں تو نہ مانو۔ "
میجرآزر جو اس وقت چائے کپوں میں انڈیل رہے تھے' جواباً لا پرواہی سے بولے۔
"چلو ہم مان لیتے ہیں کہ تم ایک اچھے شاعر ہو۔"
روحان نے یہ جملہ اس قدر شاعرانہ انداز میں ادا کیا تھا کہ' وہ دونوں ہی دھیرے سے ہنس دیئے۔
اظہر اور روحان بہت اچھے سے جانتے تھے کہ یہ آزر کی عادت تھی۔ وہ ہر غم یا خوشی کے موقعے پر اپنے جذبات لفظوں کی صُورت اپنی ڈائری میں نقش کر لیا کرتا تھا۔ اور آزر کی ڈائری میں اسی طرح کی وطن کے لیے بہت سی نظمیں اور شاعریاں موجود تھیں۔
جبکہ اُس کی اپنے وطن کے لیے محبت اس کی ڈائری کے ہر ورق پہ خوبصُورتی سے واضح تھی۔
مگر وہ دونوں آزر کو چھیڑنے کا کوئی موقع بھلا کہاں ہاتھ سے جانے دیتے تھے۔
اس وقت وہ لوگ آزر اور روحان کے مشترکہ فلیٹ میں موجود تھے۔ اظہر بھی اکثر ان کے ساتھ رہا کرتا تھا۔
" تم لوگ جلدی چائے سے فارغ ہو تو پھر نکلتے ہیں۔ سر ہارُون کی کال آنے والی ہوگی۔"
وہ ان دونوں سے مُخاطب ہوا۔
جو ابھی تک خوش گپیوں میں مصرُوف تھے۔
جب میجر آزر فریش ہو کر لاؤنج میں آئے تو وہ دونوں بھی اپنے سفری بیگ پہنے تیار ہی کھڑے تھے۔
"چلو اب چلتے ہیں ویسے ہی بہت دیر ہوگئی ہے۔"
وہ ان دونوں سے کہنے لگے۔
جس پر کیپٹن اظہر نے ماتھے پر ہاتھ لے جاکر "یس سر" کہا۔
" ابھی تم ڈیوٹی پر نہیں' میرے گھر پر ہو اس لیے نو سر۔ یہاں صرف میں تمہارا بھائی ہوں۔"
جواباً وہ دھیرے سے مسکرا کر بولے تھے۔
اور کیپٹن اظہر بھی خوبصورتی سے مسکرادئیے۔
میجر آزر نے کیپٹن اظہر کو ہمیشہ ایک چھوٹا بھائی سمجھا تھا۔
جبکہ حقیقتاً ان دونوں کی محبت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کہ وہ حقیقی بھائی نہیں۔
اظہر بھی آزر کو دل و جان سے اپنا بڑا بھائی مانتے تھے۔
کیونکہ ان کا ماننا یہ تھا کہ اگر آج وہ آرمی میں تھے' تو صرف اور صرف میجر آزر کی وجہ سے۔
"میری وجہ سے کچھ نہیں ہُوا۔ یہ سب اللہ کی رضا سے ہوا ہے۔ تمہارے نصیب میں آرمی میں آنا اور تمہاری خواہش کا پورا ہونا ہی لکھا تھا۔" جواباً میجر آزر کہا کرتے تھے۔
آج وہ تینوں کچھ ضروری کام سے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔
لہٰذا اب انہیں ایڈمنسٹریٹو ایریا کی طرف روانہ ہونا تھا۔ جہاں آج ان کے سارے جوان فوجی جمع تھے۔
کل ان کے میجر رضا کا نکاح ہوا تھا' جس کی خوشی میں آج انہوں نے چھوٹا سا باربی کیو رکھا تھا۔
"ارے یار! کیپٹن فاروق کی چھوٹی بہن آمنہ کی بھی تو شادی ہے۔ ہمیں اپنی بہن کے لیے تحفہ بھی تو لینا ہے۔"
میجر روحان نے بے اختیار اپنے ماتھے کو چھوا۔
"یس سر! ابھی ہم مارکیٹ کی طرف ہی جارہے ہیں۔"
کیپٹن اظہر مُسکراتے ہوئے گویا ہوئے۔
وہ ہمیشہ ایسے ہی مُسکراتے رہتے تھے۔ وہ گہرے بھورے بال اور شہد رنگ آنکھوں والے نہایت دلکش نوجوان تھے۔ تئیس چوبیس برس کی عمر میں بھی ان کے چہرے پر بلا کی معصُومیت تھی۔
روحان نے خفگی سے ایک نظر اُن دونوں کو دیکھا۔ جو ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں وہ اسلام آباد کی ایک مشہور مارکیٹ کی ایک چھوٹی سی دکان میں موجود تھے۔ جہاں ایک قطار میں شیلف پر قرآن پاک نہایت ہی خُوبصورتی سے سجے تھے۔
"کیا تم بھی وہی سوچ رہے ہو اظہر جو میں سوچ رہا ہوں۔"
میجر آزر نے مسکراتے ہوئے' پُرسوچ انداز میں اُسے مخاطب کیا۔
بلاشبہ میجر روحان'میجر آزر کے ہم عمر اور بچپن کے دوست تھے۔ مگر ان کے نسبت میجر آزر اور کیپٹن اظہر کی سوچ کافی یکساں تھی۔
" یس سر! کیوں نہ ہم کیپٹن فاروق کی بہن کے لیے ایک قرآن پاک لے لیں۔ بھلا ایک بہن کی زندگی کے نئے آغاز میں اس کے بھائیوں کی طرف سے اللہ کے کلام سے حسین تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔"
اظہر کے کہنے پر آزر اور روحان نے بھی مُسکراتے ہوئے اس کی تائید کی۔
"بلکل! اظہر مجھے تمہاری سوچ پر فخر ہے۔"
میجر آزر نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
"سب آپ ہی سے سیکھا ہے بھائی۔"
جواباً کیپٹن اظہر مُسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
جبکہ میجر روحان ایک بار پھر منہ بنا کر رہ گئے۔
"میں تو جیسے یہاں ہُوں ہی نہیں۔ ہونہہ۔"
اور وہ دونوں ان کی شکل دیکھ کر ایک بار پھر ہنستے چلے گئے۔
اسلام آباد میں ہی انہیں بریگیڈیئر ہارون کا فون آیا تھا. انہیں جلد از جلد ایل او سی کی طرف روانہ ہونا تھا.
پورے ڈھائی گھنٹے بعد وہ لوگ وہاں پہنچ چکے تھے ..وہ تینوں کیپٹن فاروق کی جانب آئے تو میجر آزر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑا خوبصورت سا قرآن پاک ان کی طرف بڑھایا.
" فاروق! یہ ہم تینوں بھائیوں کی طرف سے اپنی چھوٹی بہن آمنہ کے لیے ایک تحفہ.. "
کیپٹن فاروق نے جیسے ہی وہ تحفہ دیکھا فرط جذبات سے ان کی آنکھیں نم ہوگئیں.
" بلاشبہ اس سے زیادہ حسین تحفہ میری بہن کو اس کی شادی پہ کوئی نہیں دے سکتا تھا۔"
"تھینک یو سو مچ سر !"
کیپٹن فاروق نے میجر آزر کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
"بس کر پگلے اور کتنا رلائے گا۔"
ان دونوں کی پشت کو دیکھتے ہوئے میجر روحان اپنے مخصوص ڈرامائی انداز میں کہنے لگے۔
اور وہ تینوں بے ساختہ ہنس دیئے.
کچھ دیر بعد وہ سب آرام کی غرض اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے تھے۔
**************
رات آٹھ بجے کا وقت تھا۔
اور اس لمحے وہ سب میجر رضا کو گھیرے بیٹھے تھے۔
جبکہ میجر روحان اپنی دلکش آواز میں میجر رضا کے لیے کوئی گیت گا رہے تھے۔
چٹا ککڑ بنیرے تے
چٹا ککڑ بنیرے تے
کاشنی دوپٹے والیے
منڈا صدقے تیرے تے
وہ سب مسکراتے ہوئے سن رہے تھے۔
جبکہ میجر رضا اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہے تھے.
کنڈا لگ گیا تھالی نوں
کنڈا لگ گیا تھالی نوں
اور پھر میجر رضا نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"اوہ بس کر یار۔۔ مجھے بہرہ کرنا چاہتا ہے کیا ..ابھی کل ہی تو میرا نکاح ہوا ہے۔"
جس پر سب کا فلک شگاف قہقہ فضا میں بلند ہوا۔
"جاؤ پھر میں نہیں گارہا تمہارے لیے کچھ۔۔" میجر روحان انہیں مصنوعی خفگی سے گھورتے ہوئے بولے۔
" سر آپ سب نے ایک بات نوٹ کی ہے؟ "
"جب سے میجر رضا کا نکاح ہوا ہے یہ موبائل میں ہی گُم رہتے ہیں.. "
کیپٹن فاروق نے شرارت سے کہتے ہوئے بات کا رخ ایک بار پھر میجر رضا کی جانب موڑ دیا.
اُن کی اس بات پہ سب ایک بار پھر ہنس دیئے.
البتہ میجر رضا نے ان سب کو محض گھورنے پر ہی اکتفا کیا۔
مگر کیپٹن فاروق ان کی گھوری کا اثر نہ لیتے ہوئے ایک با پھر کہنے لگے۔
"میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا'سر کے رنگ آج کل کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں.."
"نہیں میرے رنگ کو کیا ہوا، میں تو اب بھی بلکل ویسا ہی خوبصورت گندمی رنگت کا مالک ہوں..! "
جواباً انہوں نے بھی شرارت سے کہا۔
اور اس بار میجر رضا کا قہقہہ بھی ان سب میں شامل تھا۔
کیپٹن اظہر انگیٹھی پر بوٹیاں سیک رہے تھے.
اسی پل کیپٹن فاروق کسی ضروری کام سے اپنے خیمے کی طرف جانے لگے..اس وقت وہ لوگ اپنے خیموں سے کافی فاصلے پر بیٹھے تھے.
" فاروق! " میجر آزر نے انہیں پکارا تو انہوں نے پلٹ کر مسکراتے ہوئے ان کی جانب دیکھا.
"پانی لیتے آنا!"
" اوکے سر ! " وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتے اپنے خیمے کی طرف بڑھ گئے تھے.
کیپٹن فاروق کے جانے کے بعد کیپٹن اظہر نے توپوں کا رخ میجر روحان کی جانب کرتے ہوئے کہا۔
"سر پھر آپ کب کر رہے ہیں شادی؟ "
"ابھی تو بلکل نہیں میں اپنے وطن کی محبت کسی سے نہیں بانٹ سکتا."
جواباً میجر روحان نے کہا۔
" تو وطن کی محبت بانٹنے والی لے آئیں.."
سارے جوان شرارت سے کہنے لگے۔
اور اُن سب کا قہقہہ ایک بار پھر فضا میں بلند ہوا.
میجر آزر کو بھی بلآخر ایک شرارت سوجھی لہذا وہ ان سب سے مخاطب ہوئے.
" جوانوں کیوں نہ آج تم سب کو تمہارےپیارے میجر صاحب کی بچپن کی ایک بات بتاتا چلوں! "
سب نے" اوہ! یس سر !" کے نعرے لگانا شروع کردیئے.
جبکہ میجر روحان' میجر آزر کو ایسے گھور رہے تھے..
"جیسے کہہ رہے ہوں تمہارا بھی کوئی راز معلوم ہونے دو پھر دیکھتا ہوں.."
وہ سمجھ چکے تھے کہ اب میجر آزر ان سب کو کون سی بات بتانے والے ہیں.
مگر میجر آزر کا پورا ارادہ تھا..آج ان کا بچپن کا راز کھولنے کا۔
" جب یہ چھوٹا تھا..تو ایک دفع اس نے کلاس میں سب کو بہت تنگ کیا ..پڑھائی میں بلاشبہ یہ ایک بہت ہی اچھا اسٹوڈنٹ تھا ..مگر کسی کو تنگ کرنے سے باز نہیں آتا تھا۔"
آخر کار تنگ آکر مِس نے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
"روحان! تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ "
اِس نے نہایت ہی معصومیت سے جواب دیا۔
"دولہا.."
مس نے کہا میرا مطلب ہے کے تم بڑے ہوکر کیا حاصل کروگے.. جواباً یہ بولا.
"دلہن.."
مس نے کہا، " بدتمیز! بڑے ہوکر امی ابو کے لیئے کیا کروگے۔۔؟ "
معلوم ہے پھر اس نے کیا کہا؟
سب نہایت ہی دلچسپی سے میجر آزر کو سن رہے تھے..اس نے کہا.
" بہو لاؤں گا نا.."
" مس نے زچ ہوکر کہا آخر تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ "
جوابا اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا.. "شادی."
اور سارے جوان پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہنسنے لگے۔
"واہ! سر کیا بات ہے آپ کی." کیپٹن اظہر ہنستے ہوئے بولے۔
جبکہ میجر روحان اب شرمانے کی بھرپور ایکٹنگ کرنے لگے تھے۔
*************
خون دِل دے کر نکھارے گے رخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کی تحفظ کی قسم کھائی ہے
وہ سب ہنوز ویسے ہی خوش گپیوں میں مصروف تھے..کہ اچانک سامنے سے لیفٹینینٹ احمر بھاگتے ہوئے ان ہی کی جانب آرہے تھے.
ان کے چہرے پر پریشانی صاف واضح تھی۔
"سر سر! ایک بری خبر ہے۔" وہ پھولے ہوئے تنفس کے ساتھ کہہ رہے تھے..
میجر آزر اور میجر روحان سمیت سب فوراً وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی چٹھی حِس انہیں یہ پیغام دے رہی تھی کہ ضرور کچھ غلط ہے۔
" کیا ہوا احمر ؟ "
"سر! ہمیں ابھی ابھی یہ خبر ملی ہے کہ دشمنوں نے اس علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے' ہمیں جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا۔"
اور تبھی دور سے آتی فائرنگ کی آواز نے اُنہیں ہلا کر رکھ دیا۔
سب سے پہلا خیال انہیں یہی آیا تھا کہ کیپٹن فاروق یہاں موجود نہیں ہیں۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتے، میجر آزر سمیت وہ سب اسی جانب لپکے۔
وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے وہاں آئے مگر تب تک کیپٹن فاروق زمین پہ ڈھے چکے تھے۔
میجر آزر نے ان کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے ان کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔
وہ نیم وا آنکھوں سےانہیں دیکھ کر مسکرائے۔
" فاروق! تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔حوصلہ کرو۔"
میجر آزر نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا۔۔شدت ضبط سے ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
یہ منظران کے لئیے کس قدر تکلیف دہ تھا۔ یہ صرف وہی جانتے تھے یا ان کا اللہ!
مگر اس وقت انہیں حوصلے سے کام لینا تھا۔
" سر! " "آج...میرا...خواب...پورا...ہوگیا...مگر..آپ..لوگ...ہمت...مت...ہاریں...میں...آپ...سب...کی...فتح...کا...پرچم...وہاں..." انہوں نے اوپر آسمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
درد کی شدت سے الفاظ ان کے لبوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے۔
اور پھر میجر آزر کی ہی گود میں کلمہ پڑھ کر کیپٹن فاروق جام شہادت حاصل کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔
"میں قسم کھاتا ہوں فاروق دشمنوں کے قدم وہیں روک دوں گا. جہاں سے انہوں نے اپنے ناپاک قدم تمہاری طرف بڑھائے تھے."
میجر آزر نے ان کا بے جان چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں لیتے ہوئے کہا تھا۔
************
ہمتیں ابھی جھکی نہیں میرے حوصلے بلند ہیں
مجھے ہار جیت سے غرض نہیں میری جنگ تھی سو میں لڑگیا!
شہید کیپٹن فاروق کے جسد خاکی کو کچھ فوجی لے کر جا چکے تھے۔۔۔جب کہ میجر آزر اب ان سب جوانوں سے مخاطب تھے.
وہ جان چکے تھے کہ دشمنوں نے پیٹھ پیچھے حملہ انہیں اپنی راہ سے بھٹکانے کے لیئے کیا تھا۔
مگر اس وقت انہیں ہوش مندی سے کام لینا تھا..اور اب انہیں کیپٹن فاروق کی آخری خواہش بھی پوری کرنی تھی۔
"چاہے ہمیں اپنے وطن اپنے ملک کی جنگ اپنے خون سے ہی کیوں نہ لڑنی پڑے۔۔مگر مجھے پھر بھی یقین ہے، ہمیں کامیابی ضرور حاصل ہوگی چاہے غازی کہلائیں یا شہید۔"
" تو جوانوں !تیار ہو سب.."
" یس سر! " جواباً سب نے ایک ساتھ کہا۔
"نعرہ تکبیر اللہ اکبر!" سب نے بلند آواز میں نعرہ لگایا..اور اپنی اپنی پوزیشن سنبھالنے چل دیئے.
دشمن یک کے بعد دیگرے فائرنگ کررہے تھے ..مگر مقابل بھی پاک فوج تھی جن کے حوصلے بلند و بانگ تھے.
انہوں نے بھی جوابی فائرنگ کیں..اور بلآخر دشمنوں نے ان کے بلند حوصلوں، جمے قدموں اور مضبوط ہمتوں کے آگے فرار حاصل کرنے میں ہی عافیت سمجھی. کیونکہ ان کے کافی ساتھی اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے..لہذا ان کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔
رب کی زمین پر فساد پھیلانے والے دشمن' وطن کے ان بیٹوں کا کہ جن کی زبان پر ہی نہیں دلوں میں بھی اُن کا رب بستا ہے۔ بھلا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ یہ تو وہ مجاہد ہیں' جن کے دل فقط اپنے وطن کے تحفظ کے لیے دھڑکتے ہیں۔
"اور سلام ہو ان شہیدوں پر جنہیں نہ تو اپنی زندگی گزر جانے کا کوئی ملال ہوتا ہے' اور نہ ہی اپنی جوانی گزر جانے کا غم۔ بے شک یہ فاتح کہلائیں یا موت کو سینے سے لگالیں۔ ہر جانب جیت ان ہی کا مقدر ہے۔ کیونکہ یہ وطن کے پاسباں مر کر بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
پھر یہ تو ایسی ہی راہ کے مسافر ہیں! "
"اے شہید تجھے سلام ہو! "
آج وطن کے شہید بیٹوں میں ایک اور بیٹے کا اضافہ ہو چکا تھا۔
اب وہ تمام نوجوان اپنے رب کے آگے سر جھکائے، اپنی فتح کا پرچم لہراتے اس پاک ذات کا شکر ادا کر رہے تھے۔
جبکہ آسمان پر چاند اور تارے بھی ان کی مزید فتح و کامرانی کے لیے دعا گو تھے۔
*************
علی الصبح ہی میجر آزر اور میجر روحان کو ایک اہم میٹنگ کے باعث ہیڈ آفس جانا تھا۔
کچھ ہی دیر میں وہ لوگ وہاں موجود تھے۔
اور اس وقت وہ بریگیڈیئر ہارون کے سامنے ادب سے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔
جیسے کہ تمام جونیئر آفیسرز اپنے سینئر آفیسرز کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
"میجر آزر اینڈ میجر روحان!"
بریگیڈیئر ہارون اپنے مخصوص گمبھیر لہجے میں ان سے مخاطب ہوئے۔
"یس سر! "
انہوں نے ماتھے پہ ہاتھ لے جا کر انہیں سلام کیا۔
"مجھے تم لوگوں سے ایک بہت ہی اہم مشن کے متعلق بات کرنی ہے۔" وہ ایک بار پھر گویا ہوئے۔
" (آپریشن ضرب عضب) کے سلسلے میں ابھی پچھلے ہفتے ہمارے آفیسرز نے جس دہشت گرد گروہ کو پکڑا تھا، انکا ایک ساتھی اس وقت بچ نکلا تھا۔ جبکہ ہمیں کل ہی یہ خبر ملی ہے کہ وہ نوجوان دو دن پہلے ہی کویت فرار ہو چکا ہے' اور وہاں ایک نئی شناخت کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔"
لہٰذا میں نے بہت سوچ سمجھ کر اس مشن کیلیے تم دونوں کا انتخاب کیا ہے۔
" ویسے بھی تم تو بچپن سے کویت میں ہی رہے ہو' اور تم لوگوں کے گھر والے بھی وہیں رہتے ہیں۔
اسی بہانے کچھ عرصہ اُن کے پاس بھی رہ سکتے ہو۔ جبکہ میرا تو یہی خیال ہے کہ تم دونوں کو آج ہی کویت کیلیے روانہ ہوجانا چاہئے، اور مجھے پورا یقین ہے کہ تم دونوں کو اس مشن میں کامیابی ضرور حاصل ہو گی۔" وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
وہ دونوں جو بغور اُنہیں سن رہے تھے۔ کویت جانے کا سن کر میجر آزر کے چہرے پہ ایک عجب سی اداسی صاف واضح تھی۔
جو کہ بریگیڈیئر ہارون سے چھپی نہیں تھی۔
"سر آج؟ "
لمحے بھر کے توقف کے بعد ان دونوں نے حیرانی سے استفسار کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں آج ہی! میجر آزر میں جانتا ہوں تمہیں اور میجر روحان کو اپنے وطن سے بہت محبت ہے اور تم اس سے دور نہیں رہنا چاہتے' مگر کچھ ہی عرصے کی ہی تو بات ہے اور یہ مشن ہمارے ملک کیلیے ہی اہم ہے۔"
انہوں نے گہری سانس بھری۔
" اس ایک انسان کے پکڑے جانے سے بہت سی جانیں بچ سکتی ہیں۔ لہذا جتنا جلدی ہو سکے ہمیں اس آپریشن پر کام شروع کر دینا چاہئے۔
اور بیشک جب ہمیں ایک بہترین قابل آفیسر کی ضرورت ہو گی' ہم تمہیں ہی یاد کریں گے۔ "
" یس سر! "
اُن دونوں نے بھی جواباً انہیں سلام کیا' اور مسکراتے ہوئے انکی بات کی تائید کی۔
" اپنا خیال رکھنا۔" وہ ان دونوں کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے مسکرا کر کہہ رہے تھے۔
"چلو یار یہ مشن پورا کر کے ہمیں واپس یہیں آنا ہے نا' اور اسی کے خاطر تو جا رہے ہیں۔"
جیسے ہی وہ ہیڈآفس سے باہر نکلے' روحان نے آزر کا بجھا بجھا چہرہ دیکھ کر کہا۔
"ہوں! " جواباً آزر سر کو خم دیتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا۔
"اور ویسے بھی یاد ہے؟ بچپن میں ہمارے محلے والے ہمارے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟
آزر اور روحان تو ہمارے کویت کی رونق ہیں۔ تو پھر کیا خیال ہے؟ کویت کو اسکی رونق واپس نہ لوٹا دیں؟ "
روحان کے یوں پر جوش انداز میں کہنے پر وہ دھیرے سے ہنس دیا۔
اور اسی رات وہ دونوں کویت کیلیے روانہ ہو گئے تھے۔
مگر کون جانے؟ کہ شاید اب کی بار کویت کا یہ سفر آزر جہانزیب کی زندگی بدل دینے والا تھا۔
**************
مسز صدف اس وقت کچن میں کھانا بنا رہی تھیں۔ جبکہ مریم ابھی کچھ دیر پہلے ہی کالج سے آئی تھی۔
"مریم بیٹا چائے بنا دو۔ روحان آیا ہوا ہے۔ اور ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی نکال لو جب تک میں روٹیاں بنا رہی ہوں۔" وہ اس سے مخاطب ہوئیں۔ جو ابھی فریج سے پانی کی بوتل نکال رہی تھی۔
"کیا امی! میں نہیں بنا رہی چائے ابھی ہی تو کالج سے آئی ہوں۔" وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
جواباً مسز صدف نے اسے گھور کر اپنا بیلن والا ہاتھ دکھایا اور جو کام ماں کی ایک گھوری نے نہ کیا وہ ان کے ہاتھ میں پکڑے بیلن نے ضرور کر دیا تھا۔
"ارے امی! میں ابھی چائے بنا دیتی ہوں۔ اتنی اچھی بناؤں گی نا، کہ آپ دیکھئیے گا اب سے سارے محلے والے چائے پینے ہمارے گھر ہی آیا کریں گے۔" وہ نان سٹاپ بولتی چلی گئی۔
پھر چائے کا پانی چولہے پہ رکھ کر دھیرے سے بڑبڑانے لگی۔
"ایک تو یہ آج کل کی ماؤں کو پتہ نہیں ہر چیز فلائنگ کرنے کا اتنا شوق کیوں ہو گیا ہے۔۔ امی بیلن ہوا میں اچھالتیں اور میرے سر پہ آ کر انکا کیچ لگتا۔ اس سے اچھا یہی ہے کہ میں چائے بنا لوں۔"
اور وہ جو اسے بڑبڑاتا دیکھ رہی تھیں' اس سے پوچھنے لگیں۔
"کیا کچھ کہہ رہی ہو؟ "
"نہیں امی بس ایسے ہی منہ ہلا رہی ہوں۔" جواباً وہ جل کر بولی۔
جبکہ مسز صدف اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کرنے لگیں۔
*****************
آزر اپنے کمرے میں بیٹھا موبائل پر اپنی اور کیپٹن فاروق کی وہ تصویر دیکھ رہا تھا۔
جس میں دونوں کندھے سے کندھا ملائے مسکراتے ہوئے ایک ساتھ کھڑے تھے۔
اسے تصویریں بنوانا زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے یہ وہ آخری تصویر تھی جو آخری بار انہوں نے ایک ساتھ بنوائی تھی۔
"جانتے ہو فاروق! جب میں نے تمہیں آخری بار پکارا تھا تب تمہارے چہرے پہ میں نے ایک عجیب سی چمک محسوس کی تھی، جسے دیکھ کر مجھے لگ رہا تھا کہ میری آنکھیں چندھیا جائیں گی مگر تمہارے چہرے سے وہ چمک کبھی ختم نہیں ہو گی۔ یا شاید یہ اللہ کی طرف سے وہ عطا کردہ ' نور' تھا۔ جو ہر شہادت کا مرتبہ پانے والے کو ان کا رب شہید ہونے سے پہلے ہی عطا کر دیتا ہے۔"
وہ اداسی سے مسکرایا تھا۔
اور تبھی آزر کو کمرے کے باہر کسی کی آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے فوراً سائیڈ دراز کھول کر موبائل اس میں ڈالا اور اسٹڈی ٹیبل سے ڈائری اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لی۔
روحان جب اسکے کمرے میں داخل ہوا تو وہ چئیر پر بیٹھا ڈائری پہ کچھ لکھ رہا تھا۔
آزر اسطرح بیٹھا تھا کہ روحان کی جانب اسکی پشت تھی۔ روحان کو شرارت سوجھی اور وہ دبے قدموں اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔
"کیا بچوں والی حرکتیں کرتے رہتے ہو۔ اب آ ہی گئے ہو تو یوں میرے سر پہ کھڑے مت رہو۔"
آزر مصروف سے انداز میں بولا۔ سر ہنوز ڈائری پہ جھکا تھا۔
"ہو نا پھر فضول آدمی! تمہیں ہمیشہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ میں آیا ہوں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ تم میں الگ سے دو کان اور فِٹ ہیں۔"
وہ اپنے دانت پیستے ہوئے بولا۔
جبکہ اس کی بات پر آزر بے اختیار مسکرا دیا۔
اور پھر ڈائری بند کر کے اسکی جانب متوجہ ہوا۔
" کیونکہ جہاں تمہاری آمد ہوتی ہے۔ وہاں کے سکون میں ایک عجیب سا ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔"
وہ پُرسکون انداس میں کہہ رہا تھا۔
جواباً روحان نے خفگی سے اسے دیکھا۔
" ہاں تو ہر کوئی تمہاری طرح بد مزہ نہیں ہوتا۔ خاموش اور سنجیدہ۔ زندگی کو ہمیشہ انجوائے کرنا چاہئیے آزر۔ "
" کم از کم ویسے نہیں، جیسے تم کرتے ہو۔ "
آزر نے چہرے پہ بھرپور مسکراہٹ لئیے ایک بار پھر اسے جواب دیا۔
اور روحان بس تلملا کر رہ گیا۔
" ہاں میں تو کویت میں ڈکیتی کرتا ہوں نا۔۔ ہونہہ! " وہ جل کر بولا تھا۔ جبکہ آزر دھیرے سے ہنس پڑا۔
" ذرا دیکھو تو! جس کام کے لئیے آیا تھا۔ وہ بتانا تو بھول ہی گیا۔ " اچانک کچھ یاد آنے پر روحان نے بے اختیار اپنے ماتھے کو چھوتے ہوئے کہا۔
" وقار نے مجھے بتایا تھا کہ وہ جلال الدین نامی شخص ابھی پچھلے ہفتے یہاں اسے ایک مال میں نظر آیا تھا۔ "
" کیا واقعی۔۔مگ وقار نے کیسے؟ "
آزر نے اچنبھے اسے دیکھا۔
" وہ سب ہم بعد میں ڈسکس کریں گے، فی الحال ہمیں ابھی اور اسی وقت" ایوینیوز مال " جانا ہوگا۔ اب ہم وہاں جا کر ہی کچھ معلوم کرسکتے ہیں۔ "
" ہوں۔۔ٹھیک ہے۔" جواباً اس نے پرسوچ انداز میں کہا۔
اور پھر مسز صدف کی آواز آنے پہ وہ دونوں نیچے کی جانب چل دئیے۔
************
حیات اس وقت اصغر صاحب سے فون پر محو گفتگو تھی۔ ابھی اس نے فون رکھا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور ماریہ اندر داخل ہوئی۔
"مرحبا! مِس حیات نور! "
"مرحبا! مِس ماریہ عامر! "
جواباً حیات نے بھی مسکرا کر کہا۔
"حیات چلو آج میں تمہیں کویت کا سب سے بڑا اور خوبصورت مال دکھاتی ہوں دی ایونیوز مال
" The Avenues Mall"
ماریہ نے مسکرا کر فخریہ انداز میں کہا تھا۔
"صرف دکھاؤ گی؟ شاپنگ نہیں کرواؤ گی؟ "
جواباً وہ سنجیدگی سے ابرو اُچکا کر بولی تھی۔
اور حیات کے ایک بار پھر اس قدر سنجیدہ انداز میں کہنے پر دونوں ہی بیک وقت ہنس پڑیں۔
"وہ بھی کروا دوں گی تم چلو تو سہی۔"
ماریہ اسکا بازو دبوچے اسے کمرے سے باہر لے گئی۔
وہ دونوں جیسے ہی مال کے سامنے پہنچیں حیات نے گردن اٹھا کر ستائشی نظروں سے اس مال کو دیکھا۔ جبکہ ماریہ نے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ سجائے اسکی طرف دیکھا تھا۔
"میں نے کہا تھا نہ بہت خوبصورت مال ہے۔"
"ہوں ہاں! ٹھیک ہے پاکستان میں بھی بہت سے ایسے مال ہیں اس میں کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں۔" حیات نے بھی اپنے ملک کا دفاع کرنا ضروری سمجھا۔
"ہاں اور شاید تم یہ بھول رہی ہو کہ میں بھی پاکستان میں رہ چکی ہوں۔" ماریہ نے ہنستے ہوئے کہا۔حیات نے ایک نظر خفگی سے اسکی طرف دیکھا' اور ادھر ادھر گردن گھماتے ہوئے بولی۔
"اب اندر چلیں؟ یا ونڈو شاپنگ کروانے کا ارادہ ہے؟ "
پھر وہ دونوں مسکراتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گئیں۔
*****************
وہ دونوں جیسے ہی مال میں داخل ہوئیں۔ اسی لمحے ماریہ کی نظر ان کے عین سامنے کھڑے آزر پہ پڑی اور اسکے منہ سے بے اختیار نکلا۔
"حیات وہ دیکھو! یہ تو میجر آزر ہیں نا۔۔ جو اس دن ہمیں ریسٹورنٹ میں ملے تھے؟ "
حیات نے بھی اسکی نظروں کے تعاقب میں اس سمت دیکھا جہاں وہ کھڑا تھا۔ بلیو جینز پر سیاہ شرٹ میں ملبوس وہ شخص کافی ہینڈسم لگ رہا تھا۔
***************
آزر اور روحان اس وقت ایونیوز مال آئے ہوئے تھے۔
" آزر! اگر تم مجھے شاپنگ کروانا چاہ ہی رہے ہو تو کوئی مسئلہ نہیں' میں تمہارا دل رکھنے کیلئے زیادہ سے زیادہ شاپنگ کر لوں گا۔"
روحان اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا۔
"بک بک بند کرو اپنی' اور جو کام کرنے آئے ہو وہ کرو۔" جواباً آزر نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
ابھی وہ کچھ ہی قدم آگے بڑھے تھے کہ انہیں اپنے عقب میں کسی لڑکی کی آواز سنائی دی۔
"ہیلو آزر!"
روحان اور آزر نے ایک ساتھ پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا۔
*****************
جاری ہے
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top