Episode 2 " !پاسباں"

پاکیزہ موتی از اقراء عزیز

باب ۲ : " پاسباں! "




صبح صادق کا وقت تھا۔۔ وہ پارک میں بیٹھی تھی۔ علی الصبح کا یہ منظر نہایت ہی دلکش اور نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے اپنی جانب آتے ہوئے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔


وہ قدم قدم چلتا اس ہی کی سمت آرہا تھاکہ اچانک ہی ایک دھماکہ ہوا۔ ہر طرف شور برپا ہونے لگا۔ ہر سوں آگ پھیلنے لگی۔ لوگ منظر سے غائب ہونے لگے۔ سوائے اس کے اور سامنے آتے اس شخص کے۔اور پھر وہ بھی آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہونے لگا۔ اب وہاں کوئی نہیں تھا۔


ہر طرف خون تھا۔صرف خون۔۔۔وہ مضطرب انداز میں ادھر سے ادھر بھاگ رہی تھی۔اچانک اسے سامنے زمین پر کوئی بے سدھ پڑا وجود نظر آیا۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے اس کا چہرہ اپنی جانب کیا۔


وہ خون میں لت پت شخص وہی تھا۔ یا خدا! یہ تو وہی تھا۔نہیں۔۔ایسا نہیں ہوسکتا


ایک دبی دبی سی چیخ اس کے حلق سے نکلی۔ اور وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ اس نےخوفزدہ ہو کر کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑائی۔


وہ وہاں تنہا تھی۔


"یا اللہ! یہ کیا ہو رہا ہےمیرے ساتھ۔ایک بار پھر ایسا خواب۔۔تو تو۔۔کیا وہ واقعی مصیبت میں ہے کیا یہ سچ ہے.. اوہ نہیں۔ "


آنسو بے اختیار ہی پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکل آئے۔


اس نے بھیگا چہرہ اوپر اٹھایا تو بے ساختہ اس کی نظر سامنے دیوار پر لگےفریم پر ٹھہر سی گئی۔ جہاں خوبصورت سنہری حروف میں لکھا تھا۔


"بے شک اللہ کے ذکر میں ہی دلوں کا سکون ہے۔" (القران)


" بے شک! "


اس نے دھیرے سے اپنے لبوں کو خم دیا' اور بیڈ سے اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی۔


فجر کا وقت ہو رہا تھا۔ اب وہ سر پر چادر باندھے نماز ادا کر رہی تھی۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بے اختیار ہی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر اس کی ہتھیلی پہ گرا۔


"یااللہ! میں تو بہت گناہگار ہوں۔ میں نے رحمٰن اور رحمٰن کے بندے دونوں کو ناراض کر دیا۔ مجھے معاف کر دیں اللہ۔"


پھر وہ قرآن پاک کھولے وہیں دو زانوں بیٹھ گئی۔


اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ،اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ (۴۲)


(میں نے بھی تو سچ کا یقین نہیں کیا تھااور خود کو حق بجانب سمجھا تھا)۔


وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھی۔



اور نماز پڑھا کرو اور زکوۃ دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔


( ۴۳)



یہ کیا(عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کئے دیتے ہو، حالانکہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو۔کیا تم سمجھتے نہیں؟ ( ۴۴)



اور رنج و تکلیف میں اللہ سے مدد لیاکرو اور بے شک نماز گراں ہے، مگر ان لوگوں پر گراں ہے،مگر ان لوگوں پر (گراں نہیں) جو عجز کرنے والے ہیں۔ (البقرہ۔ ۴۵)


(تو کیا مجھے صبر کرنا چاہئیے؟)


وہ اپنے آنسو پونچھتی' وہاں سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اللہ سے باتیں کر کے اس کے دل کو کچھ سکون حاصل ہوا تھا۔


" ہاں بابا کہتے تھے۔۔ "صبر ایک ایسی سواری ہے جو کبھی کسی کو گرنے نہیں دیتی نہ کسی کے قدموں میں اور نہ کسی کی نظروں میں۔"


" ہاں.. اب میں ہمت سے کام لوں گی۔ بے شک! میرا اللہ بہتر کرنے والا ہے۔ "




**************




آزر مسز صدف کو ڈھونڈتے ہوئے کچن میں آیا تو وہ اپنا سر پکڑے بیٹھی تھیں۔


وہ اُنہیں یوں اپنا سر تھامے دیکھ کر فوراً ان کی طرف لپکا۔


"کیا ہوا ممی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟"


وہ مضطرب انداز میں ان کے ماتھے کو چھوتے ہوئے بولا۔


" ہاں بیٹا میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ہلکا سا سر درد تھا بس۔ "


" ممی! کیا ضرورت ہے آپ کو کام کرنے کی چھوڑیں آپ سب میں کر لوں گا۔"


"تم کرو گے اچھا لگتا ہے؟ اپنے چھ فٹ دو انچ کے بیٹے سے میں کھانا پکواؤں؟" وہ قدرے خفگی سے بولی تھیں۔


اور وہ بے اختیار مسکرا دیا۔


" شاید آپ بھول رہی ہیں پہلے بھی آپ کا یہ چھ فٹ دو انچ بہت اچھا کھانا بناتا تھا۔"


"ہاں بیٹا لیکن تم ابھی ہی تو پاکستان سے آئے ہو۔"


" اب میں آپ کی ایک بھی نہیں سنوں گا بس آپ آرام کریں۔"


وہ ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے انہیں ان کے کمرے میں لے آیا۔


وہ نہ نہ کرتی رہ گئیں مگر وہ کہاں سننے والا تھا۔ پھر وہ انہیں آرام کرنے کی تاکید کرکے کمرے سے باہر نکل آیا۔


وہ ابھی کچن میں ہی تھا جب روحان وہاں چلا آیا۔


"کیسا ہے میرا صدیقی؟ " (صدیقی عربی میں دوست کو کہتے ہیں۔)


روحان ہمیشہ اسے تنگ کرنے کے لیے صدیقی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔


جواباً آزر جل کر کہتا۔


" تم مجھے میرا اصل نام بھلا دو گے صدیقی بول بول کر۔"


"پاکستان میں جب وہ اسے صدیقی کہہ کر مخاطب کرتا تو کوئی نہ کوئی اس سے ضرور پوچھتا' " بیٹا کیا تمہارا نام صدیقی ہے؟ "


جبکہ روحان ہنس ہنس کر دوہرا ہو جاتا۔


" میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیا کام تھا جو فون پر کہہ رہے تھے۔"


وہ مصروف سے انداز میں بولا۔


اس وقت روحان اس کے مقابل آیا تو اس کی نظر آزر کے چہرے پر پڑی۔


"صدیقی تم رو رہے ہو؟"


روحان دل پر ہاتھ رکھے ڈرامائی انداز میں بولا۔


جبکہ وہ آزر کو پیاز کاٹتے دیکھ چکا تھا۔


"دیکھ تو رہے ہو کیا کر رہا ہوں ڈرامے باز۔" وہ اسے اچھی طرح جانتا تھا۔ اس لئے یونہی پیاز کاٹتے ہوئے اس پر ایک نگاہ ڈالے بغیر ہی بولا۔


"ہاں مجھے معلوم ہے ہماری فوجیانی بہت اچھا کھانا پکاتی ہے۔"


" روحان! بک بک بند کرو اپنی۔"


آزر نے خفگی سے اسے دیکھا۔


جبکہ روحان ایک بار پھر اپنی ہنسی ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔


" اچھا یار مجھے مارکیٹ جانا تھا۔ چلو تو پھر بتاتا ہوں کیا کام ہے۔"


"اچھا ٹھیک۔۔ چلتے ہیں۔"





*****************




آزر اور روحان حسب معمول الشہید پارک کی طرف والے راستے سے ہی گزر رہے تھے۔ کہ اس کی نظر پارک میں لڑتے ہوئے اُن دو بچوں پر پڑی۔ بے اختیار ہی اس کے قدم اسی جانب بڑھ گئے۔


"ارے ارے! یہ تم دونوں لڑ کیوں رہے ہو؟ " آزر ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہوئے نرمی سے ان سے مخاطب ہوا۔


" یہ کہتا ہے میں غریب ہوں اس لئے میں ان کے ساتھ نہیں کھیل سکتا۔" ان دونوں میں سے ایک چھوٹا بچہ روتے ہوئے بولا۔


آزر نے ایک نظر اس روتے ہوئے بچے کو دیکھا اور ایک نظر اس بچے کو جو دکھنے میں اس سے کچھ بڑا لگتا تھا۔


پھر وہ وہیں گٹھنوں کے بل ان دونوں کے نزدیک بیٹھ گیا۔


" اچھا تمہارا نام کیا ہے؟"


وہ اب اس چھوٹے بچے سے پوچھنے لگا جو مسلسل روئے جارہا تھا۔


"عمر" وہ روتے ہوئے بولا۔


" اور تمہارا نام؟ "


اب کے وہ دوسرے لڑکے سے پوچھ رہا تھا۔


"علی۔" وہ بھی فوراً بولا۔


"ماشاءاللہ کتنے پیارے نام ہیں تم لوگوں کے۔"


اتنے میں عمر بولا۔۔


" بھائی میں غریب ہوں تو کیا یہ میرا قصور ہے؟ میرا کوئی دوست کیوں نہیں ہے۔


"


وہ چھوٹا بچہ اس قدر معصومیت سے یہ سوال کر رہا تھا۔ کہ آزر کا دل اسے یوں دیکھ کر بے اختیار دُکھا تھا۔


" نہیں عمر تم غریب نہیں ہو، اور آج سے میں تمہارا دوست ہوں۔" وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا تھا۔ جبکہ عمر بے اختیار مسکرادیا۔


"ویسے کیا تم دونوں کو معلوم ہے یہ نام کن کے تھے؟ "


آزر کے پوچھنے پر دونوں نے جھٹ سے اثبات میں سر ہلایا۔


" ہمارے صحابہ کرام (رضی اللہ تعالٰی عنہہ ) کے نام تھے۔"


اس نے ایک گہری سانس لی اور پھر بولا۔


" کیا تم لوگوں کومعلوم ہے کہ حضرت علی(رضی اللہ تعالٰی عنہہ ) ہمیشہ دوستی کی مثال قائم کرنے پر یقین رکھتے تھے۔۔۔ چاہے دوست غریب ہی کیوں نہ ہو، وہ ہمیشہ کبھی کسی کو خود سے کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ اور ہمیشہ کسی غریب کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے۔"


" تو تم بتاؤ علی کیا ہمیں اسے یہ نہیں سیکھنا چاہئے کہ ہم کبھی کسی کو خود سے کمتر نہ سمجھیں؟ وہ تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہہ تھے۔ ہم تو پھر اللہ تعالٰی کے معمولی سے بندے ہیں۔"


وہ اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔


" میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا علی! قسمت پہیے کے چکر کی مانند گھومتی ہے۔ جو کبھی اوپر جاتا ہے تو کبھی نیچے آتا ہے۔ تم جب بھی اوپر آؤ تو نیچے والوں کا ہاتھ تھام لو کیونکہ اگلے چکر میں تمہیں بھی ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔"


" لہٰذا زندگی میں کبھی کسی کو خود سے کمتر نہ سمجھو اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کا سبب بنو۔ "


علی جو سر جھکائے آزر کی بات سن رہا تھا۔ اب سر اٹھا کے نم آنکھوں سے اثبات میں سر ہلاتے بولا۔


" سوری بھائی۔میں بہت برا ہوں۔میں نے عمر کا دل دکھایا۔"


"نہیں علی کوئی برا نہیں ہوتا۔غلطی تو سب سے ہوتی ہے لیکن اچھا انسان وہی ہے جو اپنی غلطی وقت پر مان لے۔جیسے ابھی تم نے مان لی۔تو تم بھی اچھے ہوئے نا۔"


آزر نے اس کا سر تھپکا۔


علی مسکراتے ہوئے عمر کے پاس چلا آیا۔


"آئی ایم سوری عمر! آج سے تم میرے دوست ہو اور اب ہم ہمیشہ ساتھ کھیلیں گے۔ فرینڈز؟ "


علی نے اپنا ہاتھ عمر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔


جسے عمر نے بخوشی تھام لیا۔


"اوکے فرینڈز۔"


" یہ ہوئی نا اچھے بچوں والی بات۔ پھر تو آپس میں لڑائی نہیں کرو گے؟"


آزر نے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوئے پوچھا۔


جس پر دونوں نے اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔


"کبھی نہیں.. پرامس! "


آزر وہاں سے جانے لگا کہ عمر بھاگتا ہوا ایک بار پھر اس کے پاس آیا۔


اور اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔


" تھینک یو سو مچ بھائی! آپ بہت اچھے ہیں۔"


"تم بھی بہت اچھے ہو عمر۔"


جواباً اس نے بھی محبت سے کہا۔


"یہ چیز میرے عزیز۔" روحان جو کب سے کھڑا یہ ساری کاروائی دیکھ رہاتھا ۔آزر کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولا


جبکہ آزر اس کے انداز پر دھیرے سے ہنس دیا۔


"ویسے ایک بات ہے میرا دوست خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی ہے۔"


آزر جو مسکراتے ہوئے اس کی بات سن رہا تھا۔ دھیرے سے بڑبڑایا خوبصورت؟


"اللہ اکبر! روحان کبھی تو اپنی بکواس بند رکھا کرو۔"


اب کے اس نے محض گھورنے پر اکتفا کیا۔


مگر روحان کہاں باز آنے والا تھا۔ وہ جواباً ہنستا ہی چلا گیا۔


کچھ ہی دیر میں وہ لوگ الکبیر سٹریٹ پر موجود تھے۔ وہیں روحان کو کچھ کام تھا۔ سو وہ آزر سے مخاطب ہوا۔


" آزر! میں یہاں سے ایک کام نپٹا کر پانچ منٹ میں آتا ہوں جب تک تم وہ سامنے اورینٹل ریسٹورنٹ سے کچھ کھانے کو پارسل کروا لو۔۔ مجھے بھوک لگی ہے پلیز۔"


" کیا مسئلہ ہے روحان ہم یہاں کھانے تو نہیں آئے تھے۔" جواباً اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔


" یار چلے جاؤ۔۔میں بس آتا ہوں پانچ منٹ میں۔"


" اچھا ٹھیک ہے مگر جلدی۔"


وہ اسے تاکید کرتا خود بھی جلدی سے ریسٹورنٹ کی طرف بڑھ گیا۔


آزر نے جوں ہی ریسٹورنٹ میں قدم رکھا۔ اس کی نظر عین سامنے میز کی قطار میں وسط میں بیٹھے اُن دو لڑکوں پر پڑی۔ جو موبائل ہاتھ میں لئے سامنے بیٹھی لڑکیوں کی ویڈیو بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ نا جانے وہ ایسا کیوں کر رہے تھے۔مگر اسے ان لڑکوں پر سخت غصہ آرہا تھا۔


اور جوں ہی آزر نے اپنا رخ اس سمت کیا اس کی نظر ان لڑکوں کی میز کے سامنے بیٹھی ان دو لڑکیوں پر پڑی۔


ایک لمحے کے لیے تو وہ ششدر رہ گیا۔


وہ حیات اور ماریہ تھیں جو ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ یہ جانے بغیر کہ کوئی کب سے انہیں اپنی نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا۔


آزر نے مزید کچھ سوچے سمجھے بغیر اپنے قدم ان کی طرف بڑھا دئیے۔


وہ ان کی میز کے عین سامنے کچھ اس طرح کھڑا ہوا تھا' کہ پیچھے بیٹھے ان لڑکوں کو صرف آزر کی پشت دکھائی دے رہی تھی۔اور یہی تو وہ چاہتا تھا۔


جبکہ ان دونوں میں سے ایک نوجوان دھیرے سے بولا۔


"یہ کون دیوار بن کے کھڑا ہو گیا؟ "


جواباً دوسرے نوجوان نے لاتعلقی سے شانے اُچکا دئیے۔


"اسلامُ علیکم! مادام کیسی ہیں آپ؟ "


وہ حیات سے مخاطب ہوا۔


ان دونوں نے اس کی آواز پر نگاہیں اٹھا کر دیکھا۔


ان کے میز کے بالکل سامنے اسے یوں کھڑا دیکھ کر حیات نے ایک ناگوار نظر اس پر ڈالی۔ مگر آزر کو اس کی یہ بے نیازی اچھی لگی تھی۔


" ناجانے کیوں اسے لگاتھا جو لڑکی اس سے اس قدر بے رخی برت رہی ہے وہ ہر مرد سے ایسا ہی رویہ رکھتی ہو گی' اور یہی بات اسے اچھی لگی تھی۔"


" وعلیم السلام! " جواباً وہ بس اتنا بولی۔


جوں ہی ماریہ نے سوالیہ نظروں سے حیات کو دیکھا۔ اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے قدرے نارمل لہجے میں آزر کا تعارف کروایا۔


" ماریہ! یہ میجر آزر جہانزیب ہیں۔۔پاکستان سے آئے ہیں۔ پھوپھو کے سسرالی رشتے دار ہوتے ہیں۔"


بس ماریہ نے جوں ہی دیکھا اور سُنا کہ وہ میجر ہیں اور پاکستان سے ہیں تو اس نے بھی جھٹ سے اپنا تعارف کروایا۔


"مرحبا! میجر آزر میں ماریہ عامر ہوں۔حیات کی دوست۔"


"مرحبا مس ماریہ!" آزر نے بھی سر کو خم دیتے ہوئے جواباً سلام کیا۔


"کیا آپ جانتے ہیں میں بھی پاکستانی ہوں۔اور میں تو پاک فوج کی بہت بڑی فین ہوں۔۔ میری ہمیشہ سے ایک خواہش تھی کہ میں اپنی زندگی میں اپنے وطن کے کسی فوجی سے' اس پاسباں سے ضرور ملوں جو ہمارے ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور جن کے ہوتے ہوئے پاکستان میں لوگ ہر رات سکون و چین کی نیند سوسکتے ہیں۔"


فرط جذبات سے وہ کہتی جا رہی تھی۔


جواباً آزر مسکراتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔


" تو کیا آپ کی یہ خواہش کبھی پوری ہوئی؟ "


"ہوئی نہیں تھی پر آج ہو گئی۔"


ماریہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔


"اوہ رئیلی !That's good "


جواباً آزر نے بھی خوبصورتی سے مسکراتے ہوئے کہا۔


اس سے قبل ماریہ مزید کچھ کہتی یا اُسے ساتھ بیٹھنے کی آفر کرتی۔


حیات نے اپنا پاؤں پوری قوت سے ماریہ کے پاؤں پر رکھ کر دبایا۔


وہ بلبلا کر اپنی جگہ سے اچھلی اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔


آؤچ۔۔۔!"


"


آزر جو اپنے موبائل کے تھرتھرانے کی آوز پر جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا موبائل ٹٹول رہا تھا۔


اس کا موبائل ٹٹولتا ہاتھ رک گیا۔ وہ ذرا حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔


"اوہ۔۔۔شاید بلی تھی میز کے نیچے۔"


اس کے یوں متوجہ ہونے پر ماریہ چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے واپس اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔


فی الحال اس نے صرف حیات کو گھورنے پر ہی اکتفا کیا تھا۔


آزر زیر لب بڑبڑایا۔ " بلی؟ "


کویت میں بلیاں اکثر سڑکوں پر زیادہ تعداد میں پائی جاتی تھیں۔


" مگر ماریہ بی بی کو کون بتائے اس بند ائیر کنڈیشن ریسٹورنٹ میں بھلا بلیوں کا کیا کام؟ "


آزر بھی کچھ جلدی میں تھا۔۔ لہٰذا ان کی اس حرکت کو وہ نوٹ نہیں کر سکا۔


وہ انہیں خدا حافظ کہتا وہاں سے جانے لگا کہ کسی خیال کے تحت وہ ان لڑکوں کی جانب سے گزرا۔ اور بالکل غیر محسوس انداز میں اس نے اس نوجوان کے موبائل پکڑے ہاتھ پر ہاتھ مارا تھا۔


اسی لمحے اس کا موبائل زمین پر جاگرا۔ اپنے موبائل کی سکرین کو یوں کرچیوں میں بٹتا دیکھ وہ لڑکا ہکابکا رہ گیا۔


پھر جب اسے ہوش آیا تو وہ آزر کی پشت کو غصے سے دیکھتے ہوئے عربی میں زور سے چلایا۔


"رجل خجول"


" ( گھٹیا انسان ) ! "


جبکہ آزر چہرے پر دلکش مسکراہٹ سجائے باہر کی سمت بڑھ گیا۔ وہ اپنے پیچھے اس نوجوان کی آواز سن چکا تھا۔


باہر آتے ہی آزر نے روحان کو اپنے روبرو پایا تو اچانک اسے یاد آیا کہ وہ کس کام سے ریسٹورنٹ گیا تھا۔ البتہ وہ تو نہیں لیکن ایک اور کام وہ ضرور کر آیا تھا۔ سو وہ مطمئن تھا۔


"تم تو غالباً کھانا پارسل کروانے نہیں گئے تھے؟ "


روحان نے اس کے خالی ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔


"ہاں یار! کھانا ریڈی نہیں تھا یہاں چلو آگے کسی ریسٹورنٹ سے لے لیں گے۔"


آزر نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔


اور روحان کو تو گویا آگ ہی لگ گئی۔


" میجر آزر یہاں اس ریسٹورنٹ میں کیا آپ جاگنگ کرنے گئے تھے؟" وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔


"اونہوں۔۔ویسے آئیڈیا برا نہیں ہے۔البتہ جاگنگ کے لیے یہ ریسٹورنٹ کچھ زیادہ چھوٹا نہیں لگتا؟ " اب آزر کی باری تھی اسے چھیڑنے کی۔


اللہ اکبر!!


"میجر آزر جہانزیب تو آج یہ ثابت ہوا کہ تم ایک انتہائی ڈھیٹ آدمی ہو۔"


روحان دانت پیستے ہوئے غصے سے بولا۔


"تم پر ہی گیا ہوں۔ میجر روحان احمد۔" جواباً آزر بھی لبوں پر دل جلا دینے والی مسکراہٹ لیے بولا۔


ایسے ہی تھے وہ دونوں غصے میں یا بہت زیادہ خوشی کے موقع پر وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنے پورے نام سے مخاطب کیا کرتے تھے۔


"یا اللہ! کیا یہ ڈھیٹ آدمی صرف میرے لیے ہی تھا؟"


روحان افق پر دیکھتے ہوئے دھیرے سے بڑبڑایا۔ پھر خود ہی ہنس دیا۔ اور آزر کے پیچھے لپکا جو اب سڑک پر لوگوں کے ہجوم میں دور ہوتا جا رہا تھا۔


یہاں ریسٹورنٹ میں ماریہ اپنا پاؤں سہلا رہی تھی۔


" میجر آزر کی وجہ سے تمہارا لحاظ کر لیامیں نے۔۔ ورنہ تم نے تو میری ہڈی توڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔" ماریہ دبے دبے غصے سے بولی۔


اور وہ تو ایسے بیٹھی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔


پھر وہ معنی خیز لہجے میں استفسار کرتے ہوئے بولی۔


" ویسے یہ ہینڈسم تھے کون؟ "


(ہینڈسم ہونہہ پورا زکوٹا جن ہے کہیں بھی پہنچ جاتا ہے۔) وہ دل ہی دل میں خود سے ہمکلام تھی۔


"تمہارے بھائی تھے۔" جواباً حیات نے جل کر کہا۔


"واٹ؟" ماریہ منہ پر ہاتھ رکھے اتنی زور سے چیخی کہ ریسٹورنٹ میں بیٹھے آدھے نفوس ان ہی کی جانب متوجہ ہوتے حیرانی سے انہیں تکنے لگے۔


جنہیں حیات نے پلکیں جھپکاتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے کہا۔


" Continue please!!


"


تو وہ کندھے اُچکاتے ایک بار پھر کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔


جبکہ حیات بس اسے گھور کر رہ گئی۔


" مجھے تو ممی نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ میرا اتنا ہینڈسم بھائی بھی ہے۔ "


اور اس کے اس قدر شاکڈ انداز میں بولنے پر وہ بے اختیار ہنس دی۔


"ماری تم پاگل ہو! "


"اور تم میری سردار! "


اس نے بھی جل کر جواب دیا۔


"آپ کو شرم تو نہیں آئی ہوگی مس نور آپ کا بس چلے تو دنیا کے سارے لڑکوں کو میرا بھائی بنا دیں۔" وہ غصے میں اسے مِس نور ہی کہہ کر مخاطب کرتی تھی۔


"نہیں خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں کوئی ایک تو ہوگا اس دنیا میں جو تمہارا بھائی نہیں ہو گا۔"


حیات نے بھی اس قدر سنجیدگی سے کہا۔ کہ پہلے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسنے لگیں۔


جبکہ ریسٹورنٹ میں بیٹھے نفوس ایک بار پھر ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔


اور اب کی بار انہیں شبہ نہیں یقین ہو گیا تھا' کہ یہ دونوں لڑکیاں واقعی پاگل ہیں۔


کیونکہ وہ ابھی تک ہنس رہی تھیں۔




*****************





دن برق رفتاری سے گزر رہے تھے۔ اسے کویت آئے اب ایک مہینہ ہونے کو تھا۔ وہ آج کافی دنوں بعد دادا جان کے پہلو میں بیٹھی ان سے محو گفتگو تھی۔


"ہمیں تو بھول ہی گئی ہیں آپ حیات! "


دادا جان شکایتی لہجے میں بولے۔ ان کا اشارہ آج کل ماریہ اور حیات کے گھومنے پھرنے کی طرف تھا۔ جس پر حیات کھلکھلا کر ہنس دی۔


"نہیں دادا جان آپ کو کیسے بھول سکتی ہوں۔"


وہ ان کے کندھے پر سر رکھے مسکراتے ہوئے بولی۔


حسن داؤد نے بھی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔


"ہماری بیٹی کو یہاں مزہ تو آرہا ہے نا؟ "


"جی دادا جان بہت زیادہ! " جواباً وہ چہکتے ہوئے بولی۔


"الحمداللہ ورنہ ہم تو یہی سوچ رہے تھےکہ آپ کو یہاں کے لوگ اچھے لگیں گے بھی کہ نہیں۔"


انہوں نے بے ساختہ لبوں پہ آتی مسکراہٹ روکی۔


"دادا جان آپ بھی نہ۔ ویسے یہاں کے لوگ تو بہت اچھے ہیں' اور میں بھی۔" جواباً وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی۔


" آخر پوتی کس کی ہیں۔"


وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے۔


" آف کورس میری دادی کی۔"


حیات ایک بار پھر اپنی مسکراہٹ دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی۔


جبکہ دادا جان نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت رسید کرتے ہوئے کہا۔ " شریر۔"




***************




آزر اور روحان اس وقت ظہر کی نماز ادا کرنے الکبیر مسجد آئے تھے۔ الکبیر مسجد کویت کی سب سے بڑی اور سفید گنبد والی نہایت ہی خوبصورت طرز سے بنی مسجد ہے۔ وہ لوگ مسجد کی جانب بڑھ رہے تھے۔ کہ آزر کی نظر بینچ پر بیٹھے اس نوجوان پر پڑی اسے وہ شخص شناسا سا لگا۔ بینچ پر بیٹھے شخص نے جیسے ہی اس سفید شلوار قمیض میں ملبوس دراز قد دلکش نوجوان کو اپنی جانب آتے دیکھا تو ایک نظر اپنے ہاتھ میں پکڑی سگریٹ پر ڈالی اور اسے زمین پر اچھال دیا پھر پیروں تلے روندنے لگا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا آزر کو سگریٹ سے سخت چڑ تھی۔


آزر اب اس کے نزدیک آکے رکا۔ وہ شخص ان کا ایک بچپن کا کلاس فیلو حیدر تھا۔


"کیسے ہو حیدر؟"


وہ اس سے مصافحہ کرتے ہوئے مخاطب ہوا۔


" میں بالکل ٹھیک۔ تم کیسے ہو آزر۔۔ پاکستان سے کب آئے؟ "


"الحمداللہ میں خیریت سے ہوں۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی آیا ہوں۔"


آزر نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا۔ وہ حیدر کو مسجد کے باہر سگریٹ اچھالتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ اور اسے اس کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری تھی۔ مگر اس نے تحمل سے حیدر کو سمجھانا زیادہ بہتر سمجھا۔


" دیکھو حیدر میں نے یہاں تمہیں سگریٹ اچھالتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور ایک بات کہوں سگریٹ نوشی ویسے ہی ہماری صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ جہاں یہ تمہیں آدھے فیصد راحت بخشتی ہے۔ وہیں آدھے فیصد یہ تمہیں اندر سے کھوکھلا کرنے کا کام بھی کرتی ہے۔ اور ویسے بھی مسجد جیسی پاک جگہ پر کم ازکم تمہیں اس سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ "


آزر نہایت ہی دھیمے اور نرم لہجے میں اسے سمجھا رہا تھا۔


مگر حیدر کو شاید اسکا یہ کہنا اچھا نہیں لگا تھا۔


" ہاں تو تم ہمیشہ مجھے سمجھانے کیوں آجاتے ہو؟ "


" سب جانتا ہوں تم بہت نمازیں پڑھتے ہو۔ کیا ثابت کرنا چاہتے ہو، مجھے سمجھا کر کہ تم ایک بہت ہی اچھے کردار کے مالک ہو۔ تم جیسے لوگ اپنے خاندان سے ہفتوں اور مہینوں دور رہتے ہی اسلئیے ہو تاکہ اپنی بے جا خواہشوں کو تکمیل دے سکیں۔"


حیدر زہر خند لہجے میں کہہ رہا تھا۔


اور اس لمحے روحان کو آزر پر شدید غصہ آرہا تھا۔ جو جواباً بت بنا خاموش ہی کھڑا تھا۔


حقیقتاً افسوس تو اسے بھی بہت ہوا تھا کہ حیدر اس کی بات کو کتنا غلط رخ دے رہا تھا۔ لیکن وہ صبر سے کام لینا جانتا تھا۔


روحان سے اب مزید برداشت نہ ہوا اور وہ حیدر کے مقابل آگیا۔


"ہاں مسٹر حیدر بالکل ٹھیک کہا تم نے ہم جیسے لوگ اپنے خاندان سے دور رہتے ہی اسی لیے ہیں کہ اپنی خواہشوں کو تکمیل دے سکیں۔ لیکن کیا تم جانتے ہو ہم جیسے لوگوں کی اور تم جیسے لوگوں کی خواہش میں کیا فرق ہوتا ہے؟"


آزر اس کا بازو پکڑ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہا تھا۔


لیکن بات اب اس کے دوست کے کردار اور ان کی وطن سے محبت کی تھی۔ جس پر بہتان روحان ہرگز برداشت نہیں کر سکتا تھا۔


" ہم جیسے لوگوں کی خواہش ہمارے وطن اور اس کے لوگوں سے شروع ہو کر ان ہی پر ختم ہوتی ہیں۔ جبکہ تم جیسے لوگوں کی خود غرض اود نا جائز خواہشیں ہمیشہ "خود" سے ہی شروع ہو کر "خود" ہی پر ختم ہوتی ہیں حیدر۔ "


اور حیدر اچھی طرح جانتا تھا کہ روحان کا اشارہ کس طرف تھا۔ حیدر بہت سی بری سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اور یہ بات آزر اور روحان سے چھپی نہیں تھی۔ آزر اکثر اسے سمجھانے کی کوشش کرتا۔ مگر سب بے سود۔


جواب میں حیدر ہمیشہ اس کی تائید کرتا اور کہتا کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔


جبکہ آزر بات ہی ختم کر دیتا۔ البتہ وہ یہ بات جانتا تھا کہ حیدر اتنی آسانی سے ماننے والا نہیں۔


جبکہ اب روحان کے یہ سب بولنے پر حیدر غصے سے سر جھٹکتا وہاں سے چلا گیا۔


وہ دونوں تاسف سے سر ہلاتے ہوئے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔


آزر نے گہری سانس لی اور روحان کی جانب متوجہ ہوا۔ اسے محسوس ہوا جیسے اسکی آنکھوں میں موتی چمک رہے ہوں۔


"روحان! " آزر نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھنا چاہا۔


جسے اس نے فوراً جھٹک دیا۔


"روحان! میری بات تو سنو." اب کے وہ بے بسی سے بولا۔


"کیا سنوں؟ تم اس کے سامنے گونگے بہرے کیوں ہو گئے تھے؟ اس نے کیا نہیں کہا تمہارے بارے میں تمہارے کردار کے بارے میں۔۔ یہاں تک کہ تمہاری نمازوں کے بارے میں اور تمہاری وطن سے محبت کے بارے میں؟ پھر بھی تم اس سے ہمیشہ نرمی سے کیوں پیش آتے ہو؟جبکہ وہ تمہاری عزت کی پرواہ کئے بغیر کچھ بھی بول کر چلا جاتا ہے۔ کیوں خاموش تھے تم بولو آزر؟"


روحان کا غم و غصے سے برا حال تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی جا کر حیدر کا گلا دبا آئے۔


"اتنی محبت کرتے ہو مجھ سے؟" جواباً آزر نے قدرے سنجیدہ انداز میں کہا۔


"یہ مزاق کا وقت نہیں ہے۔"


وہ مصنوعی خفگی سے بولا تھا۔


جبکہ آزر نے ایک گہری سانس لی۔


" دیکھو روحان اگر میں اپنے کردار کے بارے میں یا اپنی نمازوں کے بارے میں کوئی وضاحت دیتا۔۔تو ہوسکتا ہے شاید وہ یقین کر لیتا لیکن تم بتاؤ کیا اس کا مجھے کوئی فائدہ ہوتا؟ "


آزر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔


" کیا مطلب؟ "اس نے نا سمجھی سے کہا۔


"مطلب یہ کہ میں اپنی نمازیں نہ تو کسی کو دکھانے کے لئے پڑھتا ہوں اور نہ ہی کسی کو یقین دلانے کے لئے۔ میرے نزدیک سب سے اہم میرے رب کی رضا ہے۔ اگر میرے اللہ کی نظر میں۔۔۔میں ایک اچھا مسلمان اور ایک محب وطن انسان ہوں تو مجھے کسی کو کوئی دلیل یا کوئی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ "


اب وہ سینے پہ ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔


روحان نے ایک خفا خفا نظر اس پر ڈالی اور جواباً بس اتنا ہی بولا۔


"تم تو خاموش ہی اچھے تھے۔"


اور آزر دھیرے سے ہنس پڑا۔


" اچھا چلو اب نماز کا وقت نکل رہا ہے۔"


یہ کہہ کر وہ مسجد میں اندر کی جانب بڑھ گیا۔


جبکہ روحان وہیں کھڑا مسکراتے ہوئے اسکی پشت کو دیکھ رہا تھا۔


" کیا آدمی ہے یہ.. خاموش رہتا ہے تو بلکل خاموش۔۔ اور بولنے پر آتا ہے تو مقابل کے پاس کوئی جواب نہیں چھوڑتا۔ "


************

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top