Episode 11 "غامِض "
پاکیزہ موتی از اقراء عزیز
باب ١١: "غامض" (پراسرار)
کوئی ہے جو میری پیروی کرتا ہے
میرے دماغ کی گہری سڑکوں میں
میں اس کے قدموں کی چاپ کو سنتا ہوں
بہت قریب سے، وہاں پیچھے سے
وہ جو میرے خیالات سے کھیل رہا ہے
وہ کوئی گستاخ سی آوازیں ہیں
جو مجھ سے دھیرے سے کہتی ہیں
اب اسے آزاد ہونے کی ضرورت ہے
اب اسے آزاد ہونے کی ضرورت ہے
وہ تاریک ہے کسی گہری رات کی مانند
وہ ایک ایسی راہ ہے اندھیری سرنگ کی سی
جہاں ایک سایہ ہے جو کسی کو
کبھی بھی دکھائی نہیں دیتا!
وہ غامض (پراسرار) ہے!
وہ راز پسند ہے!
تحریر: اقراء عزیز
************
وہ اوندھے منہ سڑک پہ گرتی اگر سڑک کے کنارے وہ اسٹیپ نہ ہوتا۔ مگر اس کا سر سامنے دیوار سے ٹکرایا تھا۔
"اوہ اللہ!" وہ درد سے کراہ کر رہ گئی۔
دیوار کا سہارا لیتے وقت اس کا بایاں ہاتھ بھی ذرا سا چھل گیا تھا۔ لمحے بھر کو تو اس کا دماغ جیسے شل سا ہو گیا تھا۔
وہ بمشکل اپنا دکھتا سر سہلاتے ہوئے سیدھی ہوئی۔
اسے اپنی کمر میں بھی ہلکا سا درد محسوس ہوا تھا۔ شاید سڑک کے اس پار کسی نے کوئی بھاری نوکیلی چیز کی مدد سے اسے دھکا دیا تھا۔
اسی باعث وہ سڑک کے دوسری طرف گر گئی تھی۔
تب ہی اسکی نگاہ سامنے پڑی اور بس ایک لمحہ لگا تھا اسے وہ منظر سمجھنے میں پھر وہ بدحواس سی وہاں آنے کی کوشش کرنے لگی۔
"اوہ یہ تو وہی انکل ہیں!"
اس کاپاؤں ٹھیک تھا' مگر جھٹکا لگنے کے باعث وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی چل رہی تھی۔
سڑک کے اس پار وہی بوڑھے آدمی تھے۔ جنہوں نے اس دن اس چور سے حیات کا پرس لینے میں مدد کی تھی۔
ان کی لاٹھی سڑک کے عین وسط میں پڑی تھی۔
یقیناً انہوں نے اس لاٹھی کی مدد سے ہی اسے سامنے کی جانب دھکا دیا تھا۔ اب اسے کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا۔
حیات نے بمشکل جھک کر سڑک سے وہ لاٹھی اٹھائی اور اس بوڑھے کی جانب آئی جو ابھی تک سڑک کے اس پار زمین پہ گرا تھا۔
مگر اب وہ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے وہ لاٹھی اس بوڑھے کی جانب بڑھائی۔
"انکل آپ ٹھیک ہیں؟ " وہ پریشانی و فکر مندی سے پوچھنے لگی۔
"ہوں۔۔" انہوں نے اسکی بڑھائی ہوئی وہ لاٹھی تھام لی تھی۔
مگر انہیں اب بھی کھڑے ہونے میں دقت پیش آرہی تھی۔
حیات کو بے پناہ شرمندگی محسوس ہوئی۔
اُس بوڑھے شخص نے اس کی جان بچانے کے خاطر اس عمر میں خود کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔
شدت جذبات سے اس نے کچھ جھجکتے ہوئے اپنا ہاتھ ان کی جانب بڑھایا۔
جسے اس بوڑھے نے یکسر نظر انداز کر دیا اور اپنی لاٹھی کی مدد سے بمشکل اٹھ بیٹھا۔
اسی لمحے ان دونوں نے دیکھا کہ سامنے سے وہ پٹھان تیز قدموں سے دوڑتا ہوا ان ہی کی جانب آرہا تھا۔ اس نے آج بھی سر پہ وہی پٹھانوں کی مخصوص ٹوپی لے رکھی تھی۔
وہ اب اس بوڑھے کے برابر میں آکھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"اباجان! اباجان! تم ٹھیک تو اے تمیں چوٹ تو نہیں آیا۔" وہ فکر مندی سے اپنے ابا جان سے پوچھنے لگا۔
"ہاں۔۔ہاں ٹھیک ہوں۔" اس نے ایک ہاتھ اٹھا کر کہتے ہوئے گویا اسے تسلی دی۔
"بی بی ! عمارا ابا جان نامحرم سے پردہ کرتا ہے ۔ اسی لیے تمارا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ "
اس خان صاحب نے حیات کا بڑھا ہوا ہاتھ دور سے ہی دیکھ لیا تھا۔
جواباً اس نے خفت سے سر جھٹکتے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے کو کیا اور اب اسے اس پٹھان پہ غصہ آنے لگا۔ جو پچھلی بار بھی اپنے ابا جان کو سڑک پہ تنہا چھوڑ گیا تھا۔
"خان صاحب!" وہ اس سے مخاطب ہوئی۔
اور وہ فواً بول پڑا۔
" عمارا نام ہے بادل خان ولد سمندر خان ولد۔۔۔"
"اچھا اچھا ٹھیک ہے۔" حیات نے دونوں ہاتھ اٹھا دئیے ۔ گویا اسکی چلتی ہوئی تیز گام کو روکنے کی کوشش کی۔
"ہاں تو بادل خان صاحب! آپ کو اپنے ابا جان کی کتنی فکر ہے؟"
"جتنی ام کو فکر اے اتنی کسی کو نہین ام جانتا اے۔" جواباً وہ گردن کو ذرا اُٹھا کر بولا تھا۔
"پھر ہمیشہ انہیں یوں سڑک پہ تنہا چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں آپ؟ اس عمر میں آپ کو ان کا خیال رکھنا چاہئیے۔ ماں باپ وہ نعمت ہیں جن کی قدر انسان کو ایک بار میں ہی کر لینی چاہئیے۔ کیوں کہ وہ پھر دوبارہ کبھی نہیں ملتے۔"
اس نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"بی بی ! ام کو اس قدر اے۔ تبھی بھاگا آیا اے۔ ویسے سارا قصور تمارا اے۔"
وہ خفگی سے بولا۔
جبکہ حیات کا منہ کُھل گیا۔ اسے اس پٹھان سے اس قدر صاف گوئی کی توقع نہیں تھی۔
"میرا قصور؟"
"ہاں۔۔تم دیکھ کر نہیں چل سکتا تھا؟ ہمارا ابا جان نے دیکھا کہ تم زور زور سے فون پہ بات کرتا سڑک پر چل رہا اے۔ اور پھر سامنے سے ایک گاڑی زور زور سے تماری طرف آرا ہے پھر میرا ابا جان بھی زور زورسے تماری طرف آیا کہ کہیں تمارا کام وہ گاڑی تمام نہ کر دے۔"
"بادل خان! کتنی بار کہا ہے فضول مت بولا کرو۔"
وہ بوڑھا یک دم اس پہ دھاڑا۔
"ابا جان! اگر آپ کو کچھ اوجاتا تو۔" جواباً بادل خان نے کسی ننھے بچے کی طرح اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر روہانسا ہوتے ہوئےکہا۔
"اگر ابھی ماریہ یہاں ہوتی تو یقیناً ان خان صاحب کی اس زور زور کی تکرار کا کوئی زور دار سا جواب ضرور دیتی۔"
وہ بس سوچ کر رہ گئی۔
"مگر مجھے کچھ نہیں ہوا بادل خان!"
وہ بوڑھا اب حیات کی جانب متوجہ ہوا۔
"آئی ایم سوری انکل!" حیات نے معذرت خوانہ انداز میں دھیرے سے کہا۔
"میری وجہ سے آپ کو۔۔۔"
اور اس بوڑھے نے وہیں اس کی بات کاٹ دی۔
"دیکھو لڑکی! بادل خان کی بات کا برا مت مانو۔ یہ تو بس یونہی کہتا رہتا ہے۔"
جواباً انہوں نے نرم لہجے میں کہا تھا۔
"نہیں آپ نے اس دن بھی میری مدد کی تھی جب وہ چور میرا پرس لے کر بھاگ رہا تھا اور آج بھی ۔۔آپ بھی میرے لئیے بالکل میرے دادا جان جیسے ہیں۔"
اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ بدقت ہلکا سا مسکرائے۔
جبکہ وہ بادل خان جو کب سے اپنی مسکراہٹ روکنے کی کوشش کر رہا تھا بے ساختہ ہنس پڑا۔
حیات نے اچنبھے سےاسے دیکھا۔
"ایک تو میں اس کے اباجان سے معذرت کر رہی ہوں اور یہ ہنس رہا ہے۔۔ہونہہ"
اُس نے ناک سکوڑ کر منہ دوسری جانب پھر لیا۔
حیات کے یوں منہ پھیرنے پہ بوڑھے سمندر خان کی نظر اس پہ پڑی اور اس کی مسکراہٹ ایک دم غائب ہوئی تھی۔
"ارے تمہارے سر سے تو خون نکل رہا ہے۔"
وہ جیسے ایک دم فکر مند لہجے میں بولے۔
حیات نے اپنے ماتھے کو چھوا۔ شاید دیوار سے سر ٹکراتے وقت اسے سر پہ یہ چوٹ لگی تھی۔
" نہیں۔۔نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔" اس نے قدرے نارمل انداز میں کہا۔ وہ اب ایک بوڑھے آدمی کا مزید کوئی احسان نہیں لینا چاہتی تھی۔
"بادل خان! جاؤ اپنی گاڑی سے فرسٹ ایڈ باکس (ابتدائی طبعی امداد کا ڈبہ) لے کر آؤ۔"
اس نے فوراً حکم صادر کیا۔
"اچھا جی اباجان۔"
وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا سامنے پارک کی ہوئی اپنی گاڑی کی جانب لپکا اور واپسی پہ اسکے ہاتھ میں وہ باکس تھا۔ جس میں مرہم لگانے کی دوائیں موجود تھیں۔
سمندر خان نے اس باکس میں سے ایک مرہم نکالا۔
پھر اپنے کرتے کی جیب سے ایک ٹشو نکال کر اس پہ وہ مرہم رکھا اور اسکی جانب بڑھایا۔
"یہ اپنے زخم پہ لگا لینا اس سے یہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔"
حیات نے خاموشی سے وہ ٹشو لے لیا جس پہ وہ مرہم کی ٹیوب رکھی تھی۔
"شکریہ انکل۔"
"ارے بی بی! ابھی تو تم نے کہا کہ امارا اباجان تمارے لیے تمارا داداجان جیسا اے۔۔تو اپنے دادا جان کو بھلا کون شکریہ کہتا اے؟"
وہ دبے دبے جوش سے چہکتے ہوئے بولا۔
"بادل خان اب ہمیں چلنا چاہئیے۔"
جواباً اسکے ابا جان نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
"ہاں ۔۔ہاں چلو اماں جان بھی گھر پہ امارا اور تمارا انتظام کر رہا او گا۔" اس نے اپنے ابا جان کو شرارت سے آنکھ ماری۔
جبکہ اس کی اس بات پہ سمندر خان نے اپنی لاٹھی اس کے پاؤں پہ رکھ کر دبائی
اور وہ بس "آہ او ای!" کرتا رہ گیا۔
حیات نے مسلسل یہ بات محسوس کی تھی کہ اس بوڑھے سمندر خان نے کافی دیر سے اپنا دایاں ہاتھ پیچھے کو باندھ رکھا تھا۔
اور پھر ان کی آواز پہ جیسے وہ چونکی۔
"شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں مگر اب کی بار احتیاط کرنا۔"
"ہوں جی!" جواباً وہ دھیرے سے بولی تھی۔
"زندگی بہت قیمتی ہے اسے یونہی ضائع نہیں کرتے، کم از کم خود سے جُڑے آپ کے اپنوں کے لیے ہی اپنا خیال رکھا کریں۔ کیونکہ حیات ہے تو سب کچھ ہے اور اگر حیات نہیں تو سمجھیں کچھ بھی نہیں۔"
انہوں نے نرم و شفیق لہجے میں کہا۔
اور اس نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔
"اب ہم چلتے ہیں ۔۔فی امان اللہ!"
وہ اب وہاں سے جانے لگے تھے۔ حیات بھی ابھی چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ کسی احساس کے تحت اس نے گردن موڑ کر پیچھے کی سمت دیکھا۔
جہاں چند قدم کے فاصلے پہ کھڑے بادل خان نے اپنے ابا جان کا دایاں ہاتھ تھامنا چاہا تو انہوں نے اسے فوراً پیچھے کو کر لیا۔
حیات کی نظر ان کے ہاتھ پہ پڑی اور وہ سانس نہیں لے سکی۔
ان کے سفید کُرتے کی آستین سرخ ہو گئی تھی۔ بالکل سرخ۔
جس میں سے خون کی چند ننھی بوندیں اب سڑک پہ اپنا نشان چھوڑ رہی تھیں۔
اس بادل خان نے ان کا وہ خون سے سرخ ہوتا ہاتھ بمشکل تھاما اور حواس باختگی کے عالم میں انہیں لے کر اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ اس بوڑھے کی درد سے ہلکی سے کراہ نکلی ۔
اور یہاں اسکی آنکھیں بے اختیار بھر آئیں۔
"اللہ اکبر!"
"اس کی اس معمولی سی چوٹ کے آگے وہ اپنا اتنا گہرا زخم چھپاگئے؟" وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
بھلا کیا اب بھی دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی ہے؟
اور لمحے بھر میں وہ اسکی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔
جبکہ وہ بس ڈبڈبائی آنکھوں سے سڑک پہ خون کی وہ ننھی سی بوندوں کو دیکھتی رہ گئی۔
"کیا میری۔۔۔میری وجہ سے؟"
اور اس سے آگے وہ سوچ نہیں سکی۔
اسی اثناء میں ماریہ دوڑتی ہوئی وہاں آتی دکھائی دی تھی۔ اس کا سانس پھول رہا تھا۔
"اوہ حیات! تم کہاں تھی؟۔۔میں تمہیں وہ موبائل شاپ کے باہر ڈھونڈ رہی تھی۔"
"اور یہ چوٹ۔۔چوٹ کیسے لگی تمہیں ؟"
وہ پریشانی و فکر مندی سے پوچھنے لگی۔
مگر اس کے وجود میں ذرا سی بھی جنبش نہ ہوئی۔
اور ماریہ نے سڑک پہ ایک طرف کو ہو کر ٹیکسی روکی۔ پہلے اسے اندر بٹھایا پھر خود اس کے ساتھ آبیٹھی۔
"تم بالکل اپنا خیال نہیں رکھتی ہو حیات نور!"
مگر فی الوقت وہ کچھ بھی نہیں سن رہی تھی۔ اس کا دھیان تو ابھی تک خون کی ان ننھی سرخ بوندوں پر تھا۔
***********
آزر نے گھر کی چوکھٹ پہ قدم رکھا تو وہاں مکمل خاموشی چھائی تھی۔ قدرے محتاط انداز میں اس نے لاؤنج اور کچن کی جانب دیکھتے ہوئے اردگرد کا جائزہ لیا گویا اس بات کی تسلی کی کہ اس وقت وہاں کوئی نہیں ہے اور پھر سیدھا اپنے کمرے کی سمت بڑھ گیا۔
کمرے میں پہنچتے ہی اس نے لیپ ٹاپ آن کیا تو اسکائپ پہ اظہر کی کال آرہی تھی اس نے گہری سانس لے کر کال اٹینڈ کی۔
"صد شکر آپ نے کال تو اٹینڈ کی۔ ورنہ مجھے تو لگا تھا کہ ویڈیو کال پہ بلانے کے لیے بھی پہلے آپ کو ایک فون کال کرنی پڑے گی۔"
اظہر نے خفگی سے کہا۔
"تم جانتے ہو تمہاری کال میں کبھی مسترد نہیں کرتا پھر بھی یہ کہہ رہے ہو؟"
جواباً آزر اطمینان سے کہتے ہوئے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ذرا پیچھے کو ہوا۔
جبکہ اسکے اس انداز پہ اظہر کی ساری خفگی جیسے کہیں غائب ہو گئی تھی۔
"اچھا یہ بتائیں وہاں سب کیسے ہیں؟"
"الحمد اللہ یہاں سب ٹھیک ہیں۔"
"Brother You remember? (Seed of Figs)"
"آزر بھائی آپ کو (انجیر کے بیج ) یاد ہیں؟"
اب کے اس نے قدرے سنجیدہ مگر رازدارانہ انداز میں کہا۔
"اوہ اظہر! تمہیں اچانک وہ کیسے یاد آیا؟"
جواباً آزر ہلکا سا مسکرایا۔
انجیر کا بیج میجر روحان، میجر آزر اور کیپٹن اظہر کے ایک میشن کا نام تھا۔ جسے انہوں نے (انجیر کے بیج) کے نام سے کوڈ ورڈ میں مخفی رکھا تھا اور اس کا علم صرف ان تینوں کو ہی تھا۔
"ہاں۔۔ وہ میں کیسے بھول سکتا ہوں۔"
اظہر بھی گویا گزشتہ دنوں کو یاد کرکے بے اختیار مسکرادیا۔
اس وقت ان دونوں کے چہرے پہ کسی فاتح کی سی چمک در آئی تھی۔ جو نہایت ہی خوبصورت تھی۔
اسی اثناء میں دروازے پہ دستک ہوئی اور آزر جانتا تھا کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے۔
ان تینوں میں سے جب بھی کوئی دو ایک دوسرے سے بات کرتے تھے تو تیسرے کو گویا خود بخود الہام ہو جاتا تھا۔
"اب آہی گئے ہو تو اندر بھی آجاؤ روحان۔"
آزر کی نگاہیں ابھی بھی لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ مرکوز تھیں۔
مگر وہ جانتا تھا روحان پچھلے چند لمحے سے وہیں.. اس کے کمرے کے باہر کھڑا اس کی اور اظہر کی باتیں سن رہا تھا۔
"آہی رہا ہوں۔۔تم سے اجازت تو نہیں مانگی میں نے۔ وہ تو اخلاقاً دروازے پہ دستک دے دیتا ہوں بس ہونہہ۔" روحان اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی منہ بناتے ہوئے بولا تھا۔
جبکہ اس کی یہ بات وہاں اظہر تک پہنچ چکی تھی اور وہ دھیرے سے ہنس پڑا۔
اب آزر اور روحان دونوں اظہر سے ویڈیو کال پہ محو گفتگو تھے۔
"ویسے آپ دونوں یہاں نہیں تھے تو میں یہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ چلو چند دنوں کے لیے مجھ پہ کوئی حکم چلانے والا نہیں ہو گا۔
اور میں ایک شدید سنگل آدمی کی طرح بے فکر رہورں گا۔
مگر نہیں مجھے لگتا ہے کہ میجر رضا نے بھی آپ دونوں کی ساری کسر نکالنے کی قسم کھا رکھی ہے۔"
اس نے خفا خفا سے انداز میں ناک سکوڑ کر کہا۔
اور وہ دونوں بے اختیار ہنس دئیے۔
" اسی لیے ہی تو رضا کو وہاں تمہارے پاس چھوڑ کر آئے ہیں۔" روحان نے بھی لبوں پہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ لیے کہا۔
"ویسے میں بھی کویت آنے کا سوچ رہا تھا اور چند دنوں میں مجھے لیو بھی مل جائے گی۔ لیکن۔۔"
وہ لمحے بھر کو خاموش ہوا۔
"لیکن؟"
ان دونوں نے اچھنبے سے لیپ ٹاپ کی اسکرین کی سمت دیکھا۔
جہاں اظہر کے چہرے پہ اب مسکراہٹ تھی۔
"لیکن پھر مجھے بے ساختہ کویت کی لڑکیوں کا خیال آگیا۔ اب شہد رنگ آنکھوں والا اظہر خالد وہاں قدم رکھے گا تو کویت کی آدھی لڑکیاں تو یونہی بے ہوش ہو جائیں گی نا۔" وہ شرارت سے مسکرایا۔
جبکہ آزر اور روحان نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا اور کچھ سمجھ کر سر ہلا دیا۔
"اوہ اظہر! اب تم اتنے بُرے بھی نہیں کہ لڑکیاں تمہیں دیکھ کر بے ہوش ہی ہو جائیں۔" انہوں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔
"آپ دونوں کی لغت میں بُرے سے مراد " حسین ترین" ہے یہ بات مجھ سے بہتر کون جانتا ہے؟" جواباً اس نے سینے پہ ہاتھ باندھے اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر اظہر کی اس بات پہ بیک وقت ان تینوں کے قہقہے وہاں گونجے تھے۔
***********
دن یونہی برق رفتاری سے گزر رہے تھے۔ ان چند دنوں میں مریم اکثر حیات سے ملنے فحیحیل آیا کرتی تھی۔
اسے اپنے کالج کا کوئی کام ہوتا یا کبھی کوئی اہم موضوع ڈسکس کرنا ہوتا تو وہ اسی کے پاس آتی۔
مگر پچھلے چار پانچ دنوں سے نہ تو وہ خود یہاں آئی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی فون آیا تھا۔
جبکہ یہ بات اب واقعتاً حیات کو پریشان کر رہی تھی۔
ابھی وہ سفید میکسی پہ ہم رنگ حجاب لیے اپنے کمرے سے باہر نکل رہی تھی۔
تب ہی یہاں لاؤنج میں پھوپھو فون پہ کسی سے محو گفتگو تھیں اور اسی لمحے انہوں نے الوداعی کلمات ادا کرکے ریسیور کریڈل پہ رکھا۔
" کیا ہوا پھوپھو آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں؟"
وہ بغور ان کے ستے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
"ہاں بیٹا۔۔۔بس وہ صدف بھابھی کا فون تھا۔ وہ بتا رہی تھیں کہ مریم کی طبیعت بہت خراب ہے ۔ دو دن سے اسے سخت بخار ہے۔"
"اوہ! یہ تو واقعی بہت پریشانی والی بات ہے۔۔ابھی میں کچھ دیر پہلے مریم کے متعلق ہی سوچ رہی تھی۔"
یہ سن کر وہ بھی فکر مند ہوئی تھی۔
"ہوں۔۔مجھے تو وہ کبھی نہ بتاتیں۔ اگر میں زور نہ دیتی۔۔مریم آئی جو نہیں اتنے دنوں سے ہمارے یہاں نہ ہی اس کا کوئی فون آیا۔"
جواباً وہ گہری سانس لے کر کہہ رہی تھیں۔
"پھوپھو۔۔ویسے آپ کو یہ کیوں لگا کہ اگر آپ نہ پوچھتیں تو صدف آنٹی آپ کو نہ بتاتیں مریم کی طبیعت کے بارے میں؟"
اس نے قدرے توقف سے پوچھا۔
اور اس کی بات پہ وہ ہلکا سا مسکرائیں۔
"کیونکہ میں انہیں سالوں سے جانتی ہوں۔۔۔اپنی پریشانیاں اور مسئلے وہ کبھی کسی کو نہیں بتاتیں۔ خواہ وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔"
جواباً وہ بدقت ہلکا سا مسکرادی۔
"یوں کرو حیات۔۔تم ڈرائیور کے ساتھ ابھی ان کے گھر چلی جاؤ۔ کیونکہ میں مریم کو جانتی ہوں وہ جب بھی بیمار ہوتی ہے تو بہت مشکل سے کوئی میڈیسن لیتی ہے۔"
"اوہ! مگر میں کیسے ان کے یہاں جا سکتی ہوں؟"
وہ بس سوچ کررہ گئی ۔ البتہ پھوپھو کے سامنے خاموش ہی رہی۔
"آزر ابھی چند دنوں کے لیے کویت سے باہر گیا ہے ورنہ مریم صرف اسی کی بات مانتی ہے۔ شاید آج کل میں آنے والا ہو گا۔ مگر جب تک صدف بھابھی وہاں تنہا ہیں۔ تم چلی جاؤگی تو انہیں کچھ مدد ہو جائے گی۔"
سبرینہ نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔
"اوکے پھوپھو! جیسا آپ کہیں۔ میں چلی جاتی ہوں ان کے یہاں۔"
جواباً اس نے دھیرے سے کہا۔
"چلو اچھا ہے وہ زکوٹا جن نہیں ہو گا تو کم از کم اس سے سامنا تو نہیں ہو گا۔ "
اس نے بے اختیار سوچا اور سر جھٹک کر باہر گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ کیونکہ اب اسے فروانیہ جانا تھا۔
***********
یہاں مسز صدف دروازے پہ حیات کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھیں۔
"میں بس اسی لیے سبرینہ کو نہیں بتا رہی تھی۔ اب اس نے تمہیں پریشان کر دیا نا۔" انہوں نے خفگی سے کہا۔
اور وہ بے ساختہ مسکرائی۔
"نہیں آنٹی! ایسی کوئی بات نہیں۔ مریم بھی میری بہن ہے ۔ اس کے لئے اتنا تو کر ہی سکتی ہوں میں۔"
"خوش رہو بیٹی!"
انہوں نے محبت سے اس کا گال تھپکا۔
وہ ان کے ساتھ کچن کی جانب چلی آئی۔ پھر ان کے بارہا منع کرنے کے باجود اس نے خود جلدی سے مریم کے لیے سوپ بنایا۔
اور مسز صدف سے اس کے کمرے کا پوچھ کر سیڑھیاں چڑھتی اوپر کی سمت بڑھ گئی۔
کہیں آج بھی غلطی سے اسی کمرے میں چلی جاتی تو۔۔ لہٰذا تصدیق کرنا بہتر ہے۔
آزر اور مریم کے کمرے کے درمیان ایک بڑی سی دیوار حائل تھی۔
البتہ دونوں کا کمرہ ایک ہی طرف کو تھا۔
یہاں مریم اپنے کمرے میں بیڈ پہ کمبل اوڑھے لیٹی تھی۔
ناجانے کیوں آج وہ کچھ افسردہ دکھائی دیتی تھی۔
اسی لمحے دروازے پہ دستک ہوئی اور حیات کو اندر آتے دیکھ کر مریم کا زردی مائل چہرہ ایک دم کھل اُٹھا۔
"حیات آپی!"
وہ ابھی اٹھنے ہی لگی تھی کہ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
"بیٹھی رہو مریم۔۔ اور یہ طبیعت کیوں خراب کر لی ہے تم نے اپنی۔ " اس نے سوپ سے بھرے پیالے کی ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں۔۔میں ٹھیک ہوں حیات آپی۔"
اس نے گویا اسے تسلی دی۔
"چہرہ دیکھو اپنا کتنا زرد ہو رہا ہے اور اتنا تیز بخار ہے تمہیں۔"
حیات نے اس کے ماتھے کو چھوتے ہوئے کہا جو کہ بخار کی شدت سے خاصا تپ رہا تھا۔
اور پھر اس نے سوپ کا پیالہ اٹھایا۔
"اچھا اب یہ گرما گرم سوپ پیو۔"
"مگر مجھے نہیں پینا سوپ۔"
جواباً اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
"آپی کہتی ہو مگر آپی کی بات نہیں ماننی ہے نا؟"
اب کے وہ قدرے خفا خفا سے انداز میں بولی تھی۔
"کیا یہ سوپ آپ نے بنایا ہے؟"
مریم نے گویا استفسار کیا۔
"ہوں۔" جواباً اس نے دھیرے سے سرہلایا اور یہ سن کر وہ کچھ شرمندہ سی ہوگئی۔
"اوکے پھر تو میں ضرور پیوں گی۔" اس نے سوپ کا پیالہ اس کے ہاتھ سے لیا۔
جبکہ حیات مسکرادی۔
"گڈ گرل۔۔اب اسکے بعد میڈیسن لو اور آرام کرو ٹھیک؟"
"ٹھیک۔" جواباً وہ بھی بے اختیار مسکرا کر بولی تھی۔
"اچھا یہ بتاؤ تمہاری میڈیسنز کہاں رکھی ہیں؟ "
"حیات آپی! وہ یہاں نہیں ہیں۔ ٹھہریں میں لے آتی ہوں۔"
وہ بیڈ سے اٹھنے لگی۔
"نہیں تم آرام کرو۔ مجھے بتاؤ کہاں رکھی ہیں۔ میں خود لے آتی ہوں۔" جواباً اس نے نرم لہجے میں کہا۔
"وہ ساتھ والے کمرے میں.. یعنی بھائی کے کمرے میں رکھی ہیں وہ میڈیسن جو میں لیتی ہوں۔ دائیں طرف والی سائیڈ دراز میں۔"
"اوہ! اس کمرے میں۔۔اب میں نے کہا ہے کہ میں لے آتی ہوں تو اسکا مطلب مجھے ہی جانا پڑے گا۔"
وہ خفت سے سوچنے لگی اور مریم کو آرام کا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
چند لمحے وہ یونہی شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا وہاں کھڑی رہی اور پھر حیات نے اس کمرے کے دروازے کو دھکیلا۔
دروازہ چرچراہٹ کی مگر ایک ناگوار آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔
اندر داخل ہوتے ہی اس نے لائٹ جلائی اور سامنے ہی بیڈ کے دائیں طرف والے دراز کی سمت چلی آئی۔ مگر یہ کیا۔۔۔یہ دراز تو لاک ہے ۔ وہ حیران ہوئی تھی۔
"بھلا میڈیسن والی دراز کو کون لاک کرتا ہے؟"
اس نے یہاں وہاں نگاہیں دوڑائیں اور سامنے ہی اسٹڈی ٹیبل والی دراز کھول کر دیکھی۔
"شاید یہاں رکھی ہوں۔"
جبکہ وہاں عین وسط میں بس ایک ہی چابی رکھی تھی۔ شاید یہ چابی اسی دراز کی ہوگی۔ اس نے کچھ جھجکتے ہوئے وہ چابی اٹھائی۔
"اوہ اللہ! میں جانتی ہوں کہ یہ حرکت اخلاق کے دائرے سے باہر ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہیں نا کہ میں یہ کیوں کر رہی ہوں۔"
وہ دل ہی دل میں اپنے رب سے ہمکلام ہوئی تھی۔
اور دائیں طرف والی دراز کھولنے لگی۔
حسب توقع وہ لاک کھل گیا تھا۔ سامنے ہی طبعی امداد کا ایک ڈبہ رکھا تھا۔ جس میں صرف میڈیسن وغیرہ رکھی دکھائی دے رہی تھیں۔
وہ دراز اندر سے خاصا بڑا لگتا تھا۔ یوں جیسے اس کے اندر ایک اور چھوٹا سا دراز بھی با آسانی بن سکتا تھا اور وہ میڈیسن کا ڈبہ نکالتے ہوئے ٹھٹک گئی۔
اسے لگا جیسے اس دراز کے اوپر کوئی سخت کھاردار چیز پہ اسکا ہاتھ لگا ہے۔
اس نے اسی جگہ پہ ہاتھ رکھ کر دوبارہ ٹٹولا تو وہ کوئی چھوٹ سا دروازہ لگتا تھا۔
اس نے اس کو ہلکا سا دھکیلا۔
اس عمل کے لیے حیات کو اپنا چہرہ اس دراز کی سمت قدرے جھکانا پڑا اور یہ گری تھی اس چھوٹے سے دراز کے دروازے میں سے ایک نیلے رنگ کی ڈائری۔
"اللہ اکبر!"
اس نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لئے۔ وہاں شاید الگ سے ایک چھوٹے سے دراز نما خفیہ جگہ تھی۔ جہاں کوئی بھی چیز بآسانی چھپائی جا سکتی تھی۔
جبکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہاں ایک ایسی خفیہ جگہ بھی ہو سکتی ہے۔
" کیسا عجیب آدمی ہے یہ؟ اب ایک ڈائری اس قدر خوفناک جگہ پہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ "
وہ خفت محسوس کرتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ البتہ وہ ڈائری اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی۔
" کیا لکھا ہو گا اس میں؟"
وہ سوچنے لگی۔
ایک بار پھر وہی فطری تجسس جاگا تھا۔
"نہیں۔۔ نہیں جو بھی لکھا ہو مجھے کیا۔"
اُس نے سر جھٹکا۔ مگر وہاں کون سا کوئی دیکھ رہا تھا۔ تب ہی حیات نے پہلا صفحہ کھولا۔
جس پہ بڑا سا ایک لفظ لکھا تھا۔ جو کہ شاید عربی لفظ تھا۔
"غَامِض۔" اس نے زیر لب دہرایا۔
"اسکا کیا مطلب ہوا؟"
"اف۔۔آخر میں کیوں سوچ رہی ہوں یہ سب۔"
اس نے خود کو ایک بار پھر سرزنش کی اور وہ ڈائری پھر سے اس خفیہ جگہ پہ رکھ کر دراز کو لاک لگایا۔ چابی اپنی جگہ پہ واپس رکھی اور لائٹ بند کرکے اُس کمرے سے باہر نکل آئی۔ پھر اس نے ایک سکون بھری سانس خارج کی۔
"اف اب میں اس خوفناک کمرے میں دوبارہ کبھی نہیں جاؤں گی۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی مریم کے کمرے کی سمت جانے لگی۔ جہاں وہ اسی کی منتظر تھی۔
"چلو مریم اب تم سوجاؤ ٹھیک؟ " وہ اسے میڈیسن دے کر آرام کرنے کی ہدایت کرنے لگی۔
"حیات آپی!" وہ ابھی وہاں سے جانے ہی لگی تھی کہ وہ بے اختیار پکار اٹھی۔
مریم کے پکارنے پہ اس نے پلٹ کر دیکھا اور بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیا۔
جہاں افسردگی چھائی صاف دکھائی دے رہی تھی۔
"کیوں اداس ہو؟" وہ اس کے روبرو بیٹھتے ہوئی بولی۔
"حیات آپی! مجھے لگتا ہے جیسے اللہ مجھ سے ناراض ہیں۔" جواباً اس نے جھکے سر سمیت کہا۔
"اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟" حیات نے اس کے چہرے کا رخ اپنی جانب کیا۔
"کیونکہ میں بہت غلطیاں کرتی ہوں۔۔میں بہت گناہ گار ہوں۔"
وہ جب بولی تو اسکی آواز بھرا گئی۔
"اوہ مریم! ہم میں سے کون ہے جو گناہ گار نہیں ہے؟" وہ اداسی سے بولی تھی۔
"انسان تو قدم قدم پہ غلطی کرتا ہے۔۔ گناہ کرتا ہے۔۔بہک جاتا ہے۔ مگر ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اگر وہ قدم قدم پہ تھامنے والے ہمارے رب۔۔ ہمارے اللہ ہمارے ساتھ نہ ہوتے تو ہم جیسے لوگوں کا کیا ہوتا؟"
مریم نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔
"پھر میں کیا کروں کہ اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوں؟"
اب کے اس کی آواز بے حد دھیمی تھی۔
" اللہ اپنے بندوں سے کبھی بھی یونہی ناراض نہیں ہوتے ۔۔مگر معاف اکثر یونہی کر دیتے ہیں۔ جیسے وہ کبھی ناراض تھے ہی نہیں۔"
اُس نے گہری سانس لی۔
"تم سے جو غلطی ہوئی ہے یا کوئی گناہ' تو اس کا ذکر صرف اللہ سے کرو اور اس کے لیے اللہ سے معافی مانگ لو۔ کیونکہ وہی اس دل کا مکین ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمیشہ ہمیں بہت دھیان اور خلوص سے سنتا ہے۔"
بات کے اختتام پہ وہ ہلکا سا مسکرائی۔
جواباً اس نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور وہ بھی نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
حیات اب مریم کے کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ مگر چند لمحے بعد دروازے کی اوٹ سے اس نے دیکھا تھا۔
مریم وضو کرکے جائے نماز بچھا رہی تھی۔ اب وہ سجدے میں جھکی بے آواز روتے ہوئے اپنے رب سے ہمکلام تھی۔
" کیا اگر ہم کسی لڑکی کو یہ کہیں کہ تم بہت بُری ہو، کیونکہ تم سے گناہ ہوا ہے خواہ وہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا مگر تم سے ہوا ہے تو کیا پھر وہ کبھی ہمت کر پائے گی کہ اپنے رب کے سامنے معافی مانگے؟ یا اسے یہ امید ہو گی کہ اللہ اسے معاف کردیں گے؟ یہی فرق ہوتا ہے جو انسان کو لمحوں میں زیر و زبر کر دیتا ہے، اگر ہم یہی بات کسی لڑکی کو اس امید کے ساتھ سمجھائیں کہ تم اللہ سے معافی مانگ لو۔۔بے شک وہ رحیم ہیں اور اگر تم اللہ پہ کامل یقین رکھتے ہوئے سچے دل سے توبہ کروگی تو کیا تمہیں لگتا ہے وہ تمہیں معاف نہیں کریں گے؟ اور پھر دیکھیں کہ دوبارہ اپنے رب سے جُڑ جانے کی یہ امید اس عورت کوکیسے موتی بنا دیتی ہے ایک قیمتی موتی۔۔پاکیزہ موتی۔ "
حیات سرجھٹک کر اداسی سے مسکرائی۔
وہ ابھی مریم کے کمرے سے کچھ ہی قدم آگے بڑھی تھی کہ اسے شدت سے ٹھنڈ کا احساس ہوا۔
اس وقت وہ ان کے گھر کی اوپری منزل پہ موجود تھی۔ جہاں ابھی زیرو پاورکا بلب جل رہا تھا۔
حیات نے آنکھیں سکیڑے سامنے کی جانب دیکھا۔ جہاں بالکونی کا دروازہ ذرا سا کھلا تھا۔
اسی باعث ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی۔
وہ آگے بڑھی اور کپکپاتے ہاتھوں سے بالکونی کا دروازہ بند کیا۔
اسی لمحے اس کے موبائل کی بیپ بجی۔
اس نے دوسرے ہاتھ میں پکڑے کلچ میں سے اپنا موبائل نکالا اور ماریہ کا مسیج دیکھ کے ہلکا سا مسکرائی۔
چند ایک باتوں کے بعد حیات کو بے ساختہ وہی عربی لفظ یاد آیا جو ابھی کچھ دیر پہلے اُس نے آزر کے کمرے میں اس کی ڈائری میں پڑھا تھا۔
اور اس نے ماریہ کو میسج لکھ کر بھیجا۔
"غَامِض لفظ کا مطلب کیا ہوتا ہے ماری؟"
وہ حیات نور ہی کیا جو بات کی تہہ تک نہ پہنچے۔
"It Means Mysterious!"
" اس کا مطلب ہے"پراسرار۔" جیسے کوئی راز پسند شخص۔"
ماریہ کا جواب فوراً آیا تھا۔
اس نے حیرت سے موبائل اسکرین کو دیکھا۔
اسی اثناء میں حیات کو بہت قریب۔۔اسکے پیچھے سے کسی کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی تھی۔
وہ بے ساختہ پلٹی مگر وہاں کوئی نہیں تھا اور پھر اسے سیڑھیوں کی جانب کوئی ہیولہ سا نظر آیا۔
وہ آزر تھا۔۔۔ہاں یہ تو وہی تھا۔
ان کے گھر سے زینے چڑھتے اوپر کے دائیں طرف دو کمرے تھے۔
جبکہ بائیں طرف وہ بالکونی تھی۔ جس کے باہر وہ اس وقت کھڑی تھی۔
وہ بالکونی کا دروازہ کھول کر اسکی اوٹ میں چھپ گئی کہ اب وہ اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
آزر نے اپنے کمرے کا دروازہ دھکیلا۔ پھر کسی احساس کے تحت گردن موڑ کر اردگرد کا جائزہ لیا اور اندر داخل ہوتے ہی کمرے کا دروزہ بند کردیا۔
حیات نے دروازے کی اوٹ میں سے ذرا سا جھانکا۔ اب وہاں کوئی نہیں تھا۔ اُس نے گہری سانس بھری اور وہاں سے باہر آگئی۔
"غَامِض۔۔۔ Mysterious"
اس کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتے ہوئے اس نے کہتے ساتھ ہی جھرجھری لی۔
پھر سر جھٹک کر نیچے کی جانب چلی آئی۔ کیونکہ اب اسے جلد از جلد گھر پہنچنا تھا۔
***********
یہاں اوپر وہ اپنا سامان رکھنے کے غرض سے کمرے میں آیا تھا۔
یونہی چلتے چلتے اس کی نگاہیں بے اختیار سائیڈ دراز کی سمت زمین پہ اوندھی پڑی اس تصویر پہ رکی۔
آزر گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھتے ہوئے وہ تصویر اٹھانے کے لیے جھکا اور اس تصویر کو دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔
یہ تصویر ان تینوں کی وہ واحد تصویر تھی۔ جس میں وہ ایک ساتھ کھڑے بہت شاندار لگ رہے تھے۔ درمیان میں شہد رنگ آنکھوں والا اظہر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس کے دائیں طرف آزر کھڑا تھا اور بائیں طرف روحان۔
آزر کے چہرے پر مبہرم سی مسکراہٹ تھی۔(جو کہ روحان اور اظہر کے بار بار "Smile Please" کہنے پہ بہت مشکل سے اس کے چہرے پہ آئی تھی۔ کیونکہ تصویر بنوانے سے چند لمحے پہلے وہ ان دونوں سے کچھ خفا خفا سا تھا۔) جبکہ روحان کے چہرے سے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی ہنس پڑے گا۔
یہ تصویر تب کی تھی جب آزر جہانزیب اور روحان احمد کیپٹن کے رینک پہ تھے جبکہ اظہر خالد لیفٹیننٹ کے رینک پہ۔
اس تصویر کو دیکھ کے وہ جیسے ماضی میں کھو سا گیا۔
پھر جیسے وہ لمحے بھر کو چونکا۔
"لیکن یہ تصویر یہاں آئی کیسے؟"
یہ تو اس کی ایک پرانی ڈائری میں تھی جو کہ اس نے بلکل الگ تھلگ جگہ پہ رکھی تھی۔
جس کا علم تو مریم اور ممی کو بھی نہیں تھا۔ پھر کون یہاں آیا تھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
دروازے پہ دستک ہوئی تو مریم نے دعا کرکے منہ پہ ہاتھ پھیرا اور جائے نماز اٹھائے وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسی لمحے آزر اندر داخل ہوا تھا۔
"بھائی!" آزر کو دیکھ کر اسکے چہرے پہ در آنے والی خوشی صاف نمایاں تھی ۔
"کیسی ہو گڑیا؟ ممی بتا رہی تھیں تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔"
وہ فوراً اس کے نذدیک چلا آیا اور فکر مندی سے اس کے ماتھے کو چھوتے ہوئے استفسار کیا۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔آپ پریشان مت ہوں۔"
جواباً وہ تسلی آمیز لہجے میں بولی تھی۔
"اپنا خیال رکھا کرو۔ جانتی ہونا میرے پاس صرف ایک ہی گڑیا ہے اور وہ ہو تم۔"
اس نے مریم کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
بھائی کی اس قدر محبت پہ جواباً وہ بے ساختہ مسکرائی تھی۔
" یہ بتائیں آپ کب آئے؟"
"میں بس ابھی کچھ دیر پہلے آیا ہوں۔" وہ بھی ہلکا سا مسکرادیا۔
اور پھر اچانک کچھ یاد آنے پہ اسے ایک بار پھر مخاطب کیا۔
"ویسے کیا میری غیر موجودگی میں میرے کمرے میں کوئی گیا تھا؟"
ذرا سرسری اندازمیں پوچھا۔
اور مریم نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"آپ کو کیسے معلوم؟"
اب کے آزر نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا تھا اور وہ لمحے بھر کو گڑبڑائی۔
یہاں نیچے وہ سیڑھیاں اترتے ہی سیدھے مسز صدف کے پاس کچن کی طرف آئی تھی۔
وہ چولہے پہ رکھے سالن کی دیگچی میں چمچہ چلا رہی تھیں۔
"آنٹی ! اب میں چلتی ہوں۔"
وہ کچن کی چوکھٹ پہ کھڑی دھیرے سے بولی۔
جبکہ وہ چمچہ وہاں رکھ کے تیزی سے اس کی طرف آئیں۔
"ابھی توآئی ہو بیٹا! آج تو کھانا کھا کے جانا۔"
جواباً انہوں نے خوش دلی سے کہا۔
"نہیں آنٹی پھر کبھی سہی۔"
وہ بدقت ہلکا سا مسکرائی۔
ان کے اصرار کے باوجود بھی اسے اب وہاں مزید رُکنا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔
ابھی وہ انہیں اللہ حافظ کرکے وہاں سے باہر ہی نکل رہی تھی کہ سامنے سیڑھیوں سے آزر اترتا دکھائی دیا۔ وہ اسے یکسر نظر انداز کئیے تیز تیز قدم اٹھاتی گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ تب ہی اس کا کہا گیا وہ جملہ حیات کی سماعت سے ٹکرایا تھا۔
"ممی کیا آپ جانتی ہیں۔۔کسی کی ذاتی چیزوں کا یوں بغیر اجازت جائزہ لینا ایک انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے۔"
اُس نے قدرے اونچی آواز میں بظاہر اپنی ماں سے کہا تھا۔
"ہاں بیٹا یہ تو ہے۔۔۔مگر تمہاری چیزوں کا جائزہ بھلا کون لے سکتا ہے؟ ورنہ تم اسے اخلاقیات پہ ایک لیکچر نہ دے دو۔"
جواباً مسز صدف نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
اور یہاں وہ تلملا کر رہ گئی۔
کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ آزر نے یہ یقیناً اسے سنانے کے لیے ہی کہا تھا۔
"اسے سب معلوم کیوں ہو جاتا ہے۔۔۔زکوٹا جن نہ ہو تو۔ "
پھر وہ غصے سے سر جھٹک کر تیزی سے وہاں سے باہر نکلی تھی۔
**********
یہاں روحان جو کسی ضروری کام سے آزر کے پاس آرہا تھا۔
چند قدم فاصلے پہ حیات کو وہاں گیٹ سے باہر نکلتے دیکھ کر ٹھٹک کر رُکا۔
"جن کے گھر میں ڈائین۔۔واہ امیزنگ!"
وہ خوشگوار حیرت سمیت سوچتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا۔
وہ گھر پہنچی تو پھوپھو اور دادا جان لاؤنج میں ہی بیٹھے تھے۔ انہیں سلام کرکے وہ اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔
گھر آتے آتے اس کا موڈ خاصا خراب ہو چکا تھا۔ اس شخص کو دیکھ کر ہمیشہ اسے غصہ ہی آیا تھا۔
مگر آج۔۔آج اسے اس پہ غصہ اور اس سے خوف دونوں بیک وقت آیا تھا۔ وہ تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹک کر ماریہ کو فون کرنے لگی۔
"کہاں تھی آج؟" وہاں ماریہ نے خفا خفا انداز میں کہا۔
"میں یہیں تھی۔ بس آج پھوپھا کے ان ہی کزن کے گھر گئی تھی۔"
جواباً اس نے سرسری انداز میں بتایا۔
"یہ وہی ہیں جن کے یہاں تم اس دن سبرینہ آنٹی کے ساتھ گئی تھی؟" گویا اس نے تصدیق چاہی۔
"ہوں۔"
وہ ماریہ کو پہلے ہی مسز صدف اور مریم کے متعلق بتا چکی تھی۔
"اوہ ایک منٹ حیات۔۔۔وہ میجر آزر تمہاری پھوپھو کے سسرالی رشتے دار ہیں ٹھیک؟ تو کہیں یہ تمہارے پھوپھا کے ان ہی کزن کے بیٹے تو نہیں۔۔یعنی مریم کے بھائی؟" وہ پُر سوچ لہجے میں بولی۔
اور یہ ہوا تھا اس کا موڈ مزید خراب۔
"ہاں ۔۔۔یہ وہی ہے۔" اس نے گہری سانس لے کر کہا۔
"دیکھا میرا اندازہ ٹھیک تھا۔" جواباً وہ چہکتے ہوئے بولی۔
چند ایک باتوں کے بعد اس نے الوداعی کلمات ادا کرکے کال کاٹ دی اور منہ بسورے بولی۔
"میجر آزر کی بہن نہ ہو تو۔"
**********
روحان ابھی آزر کے کمرے سے باہر ہی نکل رہا تھا کہ اسے اچانک کچھ یاد آیا۔
"آزر سنو!"
"ہوں بولو۔"
"وہ یہاں کیوں آئی تھیں؟"
اس نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔
"کون وہ؟" جواباً اس نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں پوچھا تھا۔
"یار وہی۔۔میرا مطلب ہے ڈائین۔"
وہ اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا تھا۔
"فضول آدمی!" اور یہ ہوا تھا اس کے منہ پہ دروازہ بند۔
روحان نے ایک نظر غصے بھری خفگی سے بند دروازے کو دیکھا۔
" اب میں نے کیا کیا؟" وہ بس خفت سے سرجھٹک کر رہ گیا۔
************
باقی آئندہ اِن شاء اللہ!
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top