Episode 10 " کون ہے وہ؟ "
پاکیزہ موتی از اقراء عزیز
باب ١٠ : " کون ہے وہ؟ "
ذرا دیکھو تو!
میرے راستے کھوگئے کہیں
بس ایک لمحے میں
میری زندگی ہوئی
ایک کبوتر کی مانند
یہ کیا ہوگیا دیکھتے دیکھتے
ذرا دیکھو تو!
بس اب ایسے دیکھتے ہی دیکھتے
سیاہی کے قطرے پھیل گئے ہر سوں
اور سارے خوبصورت قلم ٹوٹ گئے
بس ایک لمحے میں
صفحے بھی ختم ہوتے چلے گئے
اور خالی خوشبو رہ گئی
دیکھتے ہی دیکھتے
ذرا دیکھو تو!
***********
" ذرا دیکھو تو! "
حیات نے زیرِ لب دہرایا۔ اور اُداسی سے مسکرائی۔
اُسے شاعری کبھی سمجھ نہیں آیا کرتی تھی۔ مگر ناجانے کیوں آج وہ اِن اشعار کے لکھے گئے لفظوں میں اپنے جذبات محسوس کررہی تھی یا شاید وہ خود اُن لفظوں کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔
ابھی وہ یونہی ڈائری ہاتھ میں لئیے کھڑی تھی۔ دفعتاً اسے دروازے پہ کسی کی آہٹ محسوس ہوئی۔
وہ ایک دم پلٹی تو وہ ڈائری بے اختیار اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے فرش پر جا گری۔
**********
آزر جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سر جھکائے سڑک کنارے چل رہا تھا۔
جب سیل فون کی بجتی گھنٹی نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔
وہ موبائل کی اسکرین کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا۔ جہاں اظہر کالنگ جلتا بجھتا دکھائی دے رہا تھا۔
" مرحبا اظہر! کیسے ہو؟ "
یہاں میں پریشانی سے سوکھ سوکھ کر کانٹا ہوگیا ہوں۔ اور آپ کتنے آرام سے کہتے ہیں مرحبا۔ " اُسکی خفا خفا سی آواز سنائی دی۔
وہ اب سڑک کے ایک کونے میں قدرے سنسان جگہ پہ کھڑا تھا۔
" وہاں سب ٹھیک تو ہے نا؟ " آزر نے محتاط انداز میں پوچھا۔
" جی۔۔یہاں تو سب ٹھیک ہے۔ " اُس کے اس اچانک سوال پہ وہاں وہ شاید حیران ہوا تھا۔
" تم بھی نا اظہر! پھر تمہیں پریشانی کس بات کی ہے؟ "
اب کے آزر نے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
" صبح سے آپ کو فون کررہا ہوں۔۔ مگر آپ نے ایک بار بھی میری کال ریسیو نہیں کی۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ آپ میری' یعنی اظہر خالد کی کال ریسیو نہ کریں۔ پھر میرے لئیے تو یہ پریشانی والی بات ہی ہوئی نا۔ "
" کیا کہہ رہے ہو؟ تم نے مجھے فون کیا تھا۔۔کب؟ " وہ جتنا حیران ہوتا کم تھا۔
کیونکہ اسے آج صبح سے اظہر کے نمبر سے کوئی فون نہیں آیا تھا۔
" جائیں میں آپ سے بات نہیں کررہا۔ روحان بھائی کو فون دیں۔ اور یہ اُن کا سیل فون آپ کے پاس کیا کررہا ہے۔۔آپ فون اٹینڈ نہیں کررہے تھے' تبھی میں نے اُن کے نمبر پہ فون کیا۔ جسے آپ نے فوراً اٹینڈ کرلیا۔ "
" روحان کا فون۔۔تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا اظہر؟ "
" آج میں نے مان لیا! کہ آپ واقعی بہت ڈھیٹ آدمی ہیں۔ "
آزر نے اچنبھے سے فون کو دیکھا۔
" بک بک مت کرو! "
اور بس ایک لمحہ لگا تھا۔ آزر کو سمجھنے میں' کہ یہ حرکت کس کی ہوسکتی ہے۔
روحان احمد!
" ابھی جب ہم پچھلے ہفتے پاکستان آئے تھے۔ تمہیں یاد ہے تب تمہارا موبائل روحان کے پاس تھا اور ہمارے کویت آنے کے بعد تم نے اب مجھے کال کی ہے ٹھیک؟ "
" ہاں۔۔میں نے اپنا موبائل انہیں ٹھیک کروانے کو دیا تھا۔ اس میں کچھ مسئلہ ہورہا تھا۔ " جواباً اظہر نے پُرسوچ لہجے میں کہا۔
" یقیناً یہ حرکت اسی فضول آدمی کی ہے۔ وہ مسئلہ ٹھیک کرنے کے بجائے اسے انجوائے کرتا ہے۔ اُس نے تمہارے کانٹیکٹس میں اپنا اور میرا نام ریپلیس (Replace) کردیا ہے۔ میرے نمبر پہ اپنا نام اور اپنے نمبر پہ میرا نام سیٹ کرکے۔ "
آزر نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا۔
جبکہ وہاں اظہر اسکی بات پہ ہنستا چلاگیا۔
" روحان بھائی بھی اپنے نام کے ایک ہی ہیں۔ "
" اور تم ایک نمبر کے پھوہڑ ہو۔ " آزر نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
"مجھے پھوہڑ مت کہیں۔ "
" ٹھیک ہے۔۔نہیں کہتا تمہیں پھوہڑ۔ " وہ اطمینان سے کہتے ہوئے ایک بار پھر سڑک پر چلنے لگا۔
" آپ کو تو رات کو دیکھوں گا' ویڈیو کال پہ آئیں ذرا آج۔ "
اُس نے غصے سے دانت کچکچائے۔
" کیپٹن اظہر! " آزر نے قدرے رعب دار لہجے میں اسے پکارا۔
" اس وقت میں اپنے دوست اور بھائی سے بات کر رہا ہوں۔ لہٰذا آپ وہاں مجھ سے یوں گھنٹوں کی دوری پر بیٹھے اپنا کوئی حکم نہیں چلاسکتے میجر آزر! " وہاں وہ ڈھٹائی سے مسکرایا تھا۔
جبکہ یہاں آزر نے فون کو گھورا۔
پھر الوداعی کلمات کہہ کر رابطہ منقطع کردیا' اور بے اختیار مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔
" یہ اظہر بھی نا! "
************
ماریہ ابھی مارکیٹ سے کچھ سامان لینے گھر سے نکلی تھی۔ آج اُس کے ساتھ حیات نہیں تھی' تو تنہا جانا کتنا عجیب لگ رہا تھا۔ اُسے ہر جگہ اسکے ساتھ جانے کی عادت جو ہوگئی تھی۔ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سڑک پہ چلتے ہوئے وہ ہلکا سا مسکرائی۔
ابھی وہ چند قدم مزید آگے بڑھی تھی کہ بلا ارادہ ہی اسکی نظریں سامنے سے آتی ایک درمیانہ عمر کی عورت پہ پڑیں۔ جن کے ہاتھ میں چند تھیلے تھے اور وہ اپنا سر تھامے بمشکل چلنے کی کوشش کررہی تھیں۔
پھر ماریہ نے دیکھا کہ اُس عورت کو زور کا چکر آیا تھا۔ اُن کے ہاتھ سے سارے تھیلے زمین بوس ہوگئے تھے۔
اس سے پہلے کہ وہ نیچے گرتیں.. وہ تیزی سے آگے بڑھی اور اُن کا ہاتھ تھام کر انہیں سہارا دیا۔
" آنٹی! آپ ٹھیک ہیں؟ "
"ہاں بیٹی' میں ٹھیک ہوں۔ " جواباً انہوں نے کمزور سی آواز میں کہا۔ وہ نیم بیہوشی کی حالت میں لگ رہی تھیں۔ ماریہ اب واقعتاً پریشان ہوگئی تھی۔
اب وہ اپنی نظروں کے سامنے ایک بے ہوش عورت کو سڑک پر یوں تنہا کیسے چھوڑ سکتی تھی؟
اُس نے مضطرب انداز میں یہاں وہاں نگاہیں دوڑائیں تو اسکی نظر سامنے ایک اسٹور پہ پڑی۔
" آنٹی آپ یہاں بیٹھیں۔۔میں ابھی آتی ہوں۔ "
وہ انہیں اپنی گاڑی کی طرف لے آئی۔ جو اُس نے چند قدم کے فاصلے پہ ہی پارک کی تھی۔ انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر وہ خود تیزی سے اُس اسٹور تک گئی۔
واپسی میں اسکے ہاتھ میں پانی کی ایک چھوٹی سی بوتل تھی۔
وہ ابھی تک یونہی نڈھال سی بیٹھی تھیں۔
ماریہ نے پانی کے چند قطرے اُن کے چہرے پہ ڈالے تو اُن کی نیم وا آنکھیں ذرا سی مزید کُھلیں۔
اُس نے سکون سے ایک گہری سانس لی۔
"بیٹی۔۔ تم پریشان مت ہو۔ میں چلی جاؤں گی۔ " وہ اُس کو گاڑی اسٹارٹ کرتے دیکھ کر بولی تھیں۔
" نہیں آنٹی! آپ بس مجھے راستہ بتادیں۔ میں چھوڑ دیتی ہوں آپ کو آپ کے گھر تک۔ "
وہ دھیرے سے مسکرائی۔
اس کے بہت کہنے پر بھی جب مسز احمد ڈاکٹر کے پاس چلنے کو تیار نہ ہوئیں' تو ماریہ نے گاڑی ان کے گھر کی سمت جاتی سڑک کی جانب موڑ دی۔
انہوں نے اسے راستہ سمجھایا اور کچھ دیر میں وہ اس اپارٹمنٹ کی عمارت کے سامنے کھڑی تھیں۔
ماریہ نے انہیں سہارا دے کر ان کے اپارٹمنٹ کے دروازے تک پہنچایا۔
اس نے بیل بجائی تو سامنے سے دروازہ کُھلا اور ایک شخص باہر آیا۔
" امی آپ ٹھیک ہیں؟ " اپنی ماں کا ہاتھ اُس لڑکی کے ہاتھ میں دیکھ کر وہ فکرمند لہجے میں پوچھنے لگا۔
" ہاں روحان۔۔میں ٹھیک ہوں۔ بس راستے میں ذرا سا چکر آگیا تھا۔ تم پریشان مت ہو۔ "
انہوں نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
" کوئی ٹھیک نہیں لگ رہیں' یقیناً ایک بار پھر آپ کا بی پی لو ہوگیا تھا۔ اسی لئیے آپ سے کہتا ہوں کہ اکیلے باہر مت جایا کریں۔ "
اس نے خفگی سے کہتے ہوئے اُن کے ہاتھ سے وہ سامان لیا اور تب ہی اسکی نظر اپنی ماں سے ہوتی ہوئی اُس لڑکی پہ پڑی جو حیرت سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
اُن دونوں کی نظروں کے سامنے بے ساختہ وہ مال والا منظر گھوم گیا۔
جبکہ اسکے دیکھنے پہ ماریہ نے نظروں کا رُخ فوراً پھیر لیا۔
ا" س بچی نے میری بہت مدد کی ہے بیٹا۔ کوئی اپنا بھی یوں نہیں کرتا۔ "
مسز احمد نے مسکراتے ہوئے ماریہ کو محبت بھری نظروں سے دیکھا۔
" نہیں آنٹی! یہ تو میرا فرض تھا۔ " جواباً وہ بھی بدقت ہلکا سا مسکرادی۔
ماریہ کے انکار کرنے کے باوجود مسز احمد اسے اپنے ساتھ اُن کے گھر کے اندر لے آئی تھیں۔
" تم یہاں بیٹھو۔۔میں بس ابھی آتی ہوں۔ " وہ اسے ڈرائینگ روم کی سمت لے آئیں۔
" نہیں آنٹی۔۔ پلیز! ابھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔آپ آرام کریں۔ میں اب چلتی ہوں۔ "
وہ اپنے ہاتھ پہ بندھی گھڑی پہ وقت دیکھتے ہوئے بولی۔ جو اس وقت شام کے چھ بجارہی تھی۔
"ایسے نہیں جانے دوں گی تمہیں۔ کم از کم چائے تو پی کر جاؤ بیٹی۔ " وہ محبت بھری خفگی سے بولیں اور مزید اسکی کچھ سنے بغیر کچن کی جانب بڑھ گئیں۔
جبکہ ماریہ پریشان سی وہیں کھڑی رہ گئی۔
آج اسے جلدی گھر پہنچنا تھا۔ چونکہ آج حیات بھی اسکے ساتھ نہیں تھی تو وہ بلکل تنہا تھی۔
اتنے میں روحان کمرے میں سامان رکھ کر باہر واپس آیا تو اسے وہاں یوں ایک ہی پوزیشن میں کھڑے دیکھ کر گلا کھنکھارتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔
" سیرئسلی! ہمارے گھر کے صوفوں میں بم نہیں رکھے۔ لہٰذا آپ یہاں بیٹھ سکتی ہیں۔ "
اُس نے ڈرائنگ روم میں رکھے صوفوں کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
" کیا معلوم۔۔وہ بھی رکھے ہوں۔ " وہ دھیرے سے بڑبڑائی۔
"جی۔۔کیا کچھ کہا آپ نے؟ "
" جی نہیں۔" جواباً وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔ یعنی یہ روحان کے لئیے اشارہ تھا کہ اب وہ دوبارہ اسے مخاطب کرنے کی غلطی نہ کرے۔
مگر روحان احمد اور خاموشی ایک ساتھ؟ ہو ہی نہیں سکتا۔
" ویسے آپ کے اس عمل سے مجھے واقعتاً بہت خوشی ہوئی۔ مگر میں نہیں جانتا تھا کہ۔۔۔" وہ لمحے بھر کو رُکا۔
ماریہ نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ اب کے وہ واقعی سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔
وہ جو سوچ رہی تھی کہ اب وہ یقیناً اُسکا شکریہ ادا کرے گا کہ اس نے اسکی امی کی مدد کی۔۔اور اس بات کے لئیے وہ اُس کا ممنون ہے۔
تو وہ غلط تھی۔
وہ روحان احمد تھا جو کہ کبھی کوئی سیدھی بات نہیں کرسکتا تھا۔ البتہ وہ ہر سیدھی چیز کو ٹیڑھا کرنے میں ماہر تھا۔
اور اسکے اگلے جملے پہ ماریہ کے چہرے پہ آنے والی مسکراہٹ ایک دم غائب ہوئی۔
" مگر میں نہیں جانتا تھا کہ ایک چڑیل بھی اس قدر نرم دل کی مالک ہوسکتی ہے۔ " وہ ہلکا سا مسکرایا۔
" آپ نے مجھے چڑیل کہا۔ " اُس نے بے ساختہ اپنے کُھلتے ہوئے لبوں پہ ہاتھ رکھ لیا۔
" نہیں۔۔میں نے چڑیل کو چڑیل کہا۔ " وہ محظوظ ہوا تھا۔
" اور آپ کیا ہیں۔۔بھوت۔ "
" مگر بھوت خوبصورت تو نہیں ہوتے۔ " وہ معصومیت سے بولا۔
" آج کے دور میں جب بچے راتوں کو سوتے نہیں ہوں گے۔۔ تو یقیناً اُن کی مائیں انہیں یہی کہہ کر سُلاتی ہوں گی کہ سوجاؤ بچوں ورنہ روحان آجائے گا۔" وہ غصے سے سر جھٹک کر بے اختیار بولتی چلی گئی۔
جبکہ وہ اپنی مسکراہٹ دبانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
اور ماریہ عامر کو تو ویسے بھی وہاں سے نکلنے کا بہانہ چاہئیے تھا۔ سو وہ مزید بنا کچھ کہے غصے سے پلٹی اور تیز تیز قدم اُٹھاتی وہاں سے باہر نکلتی چلی گئی۔
" ارے میڈم! رکئیے میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ "
اسکے اس شدید ردِ عمل پہ لمحے بھر کو روحان بھی گڑبڑاگیا تھا۔
تب ہی فوراً دروازے کی جانب لپکا۔ مگر تب تک اسے دیر ہوچکی تھی اور پھر یہ ہوا تھا اسکے منہ پہ دروازہ بند۔
" میں تو ابھی سچ میں شکریہ ادا کرنے لگا تھا۔ "وہ خفیف سا ہوکر رہ گیا۔
" اب امی کیا سوچیں گی۔ "
اسی پل مسز احمد کچن سے باہر آئی تھیں۔ اُن کے ہاتھ میں ایک ٹرے موجود تھی۔ جس میں چائے کے دو کپ رکھے تھے۔
" ارے کہاں گئی وہ بچی۔۔" ماریہ کو وہاں نہ پاکر وہ حیرت زدہ سی بولیں۔
" وہ۔۔وہ تو چلی گئیں امی! " اُس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
" یقیناً تم ہی نے کچھ کیا ہے روحان؟ " وہ مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
" نہیں امی۔۔کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میں نے کچھ کیا ہوگا؟ " یہ کہتے ہوئے وہ ایک عظیم دکھی انسان لگ رہا تھا۔
" مجھے لگتا نہیں ہے بیٹا۔ مجھے یقین ہے کہ تم ہی نے کچھ کیا ہے۔ ورنہ وہ یوں نہ جاتی۔ "
انہوں نے خفگی سے اسے گھورا اور ٹرے میز پر پٹخنے کے سے انداز میں رکھ کر وہاں سے آگے بڑھ گئیں۔
جبکہ وہ وہاں تنہا بیٹھا رہ گیا۔
پھر ٹرے میں رکھا چائے کا کپ ہاتھ میں لیتے ہوئے دھیرے سے بڑبڑایا۔
" کیا سچ میں میری وجہ سے گئی ہے ؟ "
*************
حیات نے جھک کر وہ ڈائری اُٹھائی اور جیسے ہی وہ سیدھی ہوئی تو مریم کو اپنے روبرو کھڑے پایا۔
"حیات آپی! آپ یہاں ہیں۔۔میں آپ کو وہاں ڈوھونڈ رہی تھی۔"
"کیا یہ نظم تم نے لکھی ہے مریم؟ " وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
اور وہ ہلکا سا مسکرائی۔
" کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ میں لکھ سکتی ہوں؟ " وہ اُلٹا اُسی سے پوچھنے لگی۔
" ہوں۔۔اسکا مطلب میں نے ٹھیک سوچا تھا۔ یہ نظم تم نے نہیں لکھی۔ " اُس نے سنجیدگی سے کہا۔
پھر لمحے بھر بعد دونوں ایک ساتھ ہنس پڑیں۔
" ویسے یہ کمرہ بھائی کا ہے' تو یہ ڈائری بھی انہی کی ہے اور یہ نظم بھی انہوں نے ہی لکھی ہے۔ " وہ مسکراتے ہوئے اسے بتارہی تھی۔
جو یہ سُن کے خفیف سی ہوکر رہ گئی تھی کہ وہ اتنی دیر سے جس کمرے میں تھی۔ وہ مریم کا نہیں بلکہ اُس کے بھائی کا کمرہ تھا۔
" اوہ آئی ایم سوری! مجھے نہیں معلوم تھا۔ "
" کوئی بات نہیں حیات آپی! یہ بھی آپ کا اپنا ہی گھر ہے۔۔جب تک بھائی نہیں ہیں' ہم یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ ویسے بھی مجھے اپنے کمرے سے زیادہ بھائی کا کمرہ پسند ہے۔ " وہ بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بڑے مزے سے بولی۔
اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔
وہ اُس شخص کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ مگر ناجانے کیوں وہ سوچ رہی تھی۔
اسے اچانک ایک بار اپنے دادا جان کی کہی گئی وہ بات یاد آئی تھی۔ "گہرائی ہمیشہ اُن ہی باتوں میں ہوتی ہے' جو بہت اونچا مقام رکھتی ہوں۔ "
" کون ہے وہ؟ " جو اتنی معصوم اور گہری باتیں کرتا ہے۔ جو لفظ اسکی شاعری میں تھے۔۔اُن سے یوں لگتا تھا جیسے کوئی معصوم بچہ اپنی دلی خواہشوں کا اظہار کررہا ہو۔
پھر اپنی ہی سوچ پہ وہ خفگی سے سر جھٹک کر رہ گئی۔ " آخر کون ہے وہ؟ "
" کوئی بھی ہو مجھے کیا؟ "
اور یہاں مریم ایک بار پھر باتوں کا سلسلہ شروع کرچکی تھی۔ جبکہ وہ مسکراتے ہوئے اسے سن رہی تھی۔
************
آزر جب گھر پہنچا تو اسے کچن سے کسی کے باتیں کرنے کی اور ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ شاید ممی اور مریم ہوں گی۔
یہی سوچ کر وہ لاؤنج میں نظر ڈالے بغیر سیدھا اپنے کمرے کی سمت جاتی زینوں کی جانب بڑھ گیا۔
ابھی اس نے ڈور ناب پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ کسی کے کھلکھلانے کی آواز پہ وہ ٹھٹک کر رُکا۔
" یہ آج گھر میں ہو کیا رہا ہے؟ اگر مریم اور ممی نیچے تھیں تو اب یہاں کون ہے؟ "
اور پھر اُس نے سر جھٹک کر دروازے کو دھکیلا تو سامنے ہی اسے مریم بیٹھی نظر آئی۔ اُس کا رخ سامنے تھا۔
جبکہ حیات مریم کے بائیں طرف بیٹھی تھی۔ سو اُس وقت وہ آزر کو نظر نہیں آئی تھی۔
مریم کو یوں ہنستے دیکھ کر وہ کچھ حیران سا اندر چلا آیا۔ جبکہ وہاں اپنے بھائی کو دیکھ کر اسکی ہنسی کو کچھ بریک لگا تھا۔
" بھائی آپ آگئے۔ " مریم کی آواز پہ اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا۔
تب ہی آزر کی نظر بھی اپنی بہن کے بائیں طرف بیٹھی اس لڑکی پہ پڑی۔ اور وہ دونوں ہی لمحے بھر کو ساکت رہ گئے تھے۔
آزر کو اتنی حیرت حیات کو اُن کے گھر میں دیکھ کر نہیں ہوئی تھی۔ جتنی اُس وقت اُن دونوں کو وہاں اپنے کمرے میں دیکھ کر ہوئی تھی۔
حیات کے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ جس شخص کے بارے میں اب تک مریم سے سنتی آرہی تھی اور جو وہ خود اسکے متعلق سوچ رہی تھی۔ وہ۔۔وہ آزر جہانزیب ہوسکتا ہے۔
اُسے یکایک کل کا بوتیک والا منظر یاد آیا اور بے اختیار ہی سنجیدگی کی جگہ غصے نے لے لی۔
اُسے اپنی اُن تمام سوچوں پہ اب افسوس ہورہا تھا۔
جبکہ اگلے ہی پل آزر خود کو قدرے نارمل کرچکا تھا۔ لہٰذا اُن دونوں کے تاثرات مریم نے نوٹ نہیں کئیے تھے۔
اس دوران وہ اس بات سے یکسر انجان آزر کی ڈائری کے صفحے پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔ پھر ڈائری بند کرکے اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔
" بھائی! یہ حیات آپی ہیں۔ سبرینہ چاچی کی بھتیجی۔ " وہ اب اسے حیات کا تعارف کروانے لگی۔
" مرحبا! " وہ اُسے سلام کرتے ہوئے مریم کی جانب بڑھا۔
" اور یہ دیکھیں بھائی۔۔یہ میکسی مجھے حیات آپی نے تحفے میں دی ہے۔" وہ چہکتے ہوئے اسے وہ میکسی دکھانے لگی۔ جو حیات نے اسے یہاں آنے کے بعد دی تھی۔
وہ ایسی ہی تھی' ہر بات اسی وقت اپنے بھائی کو بتانا تو جیسے اس پہ فرض تھا۔
آزر نے ایک نظر اُس میکسی کو دیکھا اور پھر حیات کو جو اب اسکی جانب سے رُخ پھیرے بیٹھی تھی۔
" آپ کی چوائس اچھی ہے مِس نور!"
وہ بظاہر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ مگر یہ تو اُن دونوں کو (حیات اور آزر) معلوم تھا کہ ویسے وہ اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کررہا تھا۔
کیونکہ بلواسطہ یا بلاواسطہ ایک طرح سے حیات کا مریم کو دیا گیا تحفہ آزر کی طرف سے ہی تھا۔
یہی سوچتے ہوئے وہ بس لب بھینچ کر رہ گئی۔
پھر دھیرے سے وہی بڑبڑائی۔ جو جملہ وہ اُس شخص کو دیکھ کر ہمیشہ غصے میں کہا کرتی تھی۔
" آزر جہانزیب! تمہارا تو اللہ ہی نگہبان۔ "
" ویسے بھائی۔۔شاعری اچھی کرلیتے ہیں آپ۔ " مریم نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔
" حیات آپی! آپ بھی یقیناً یہی سوچ رہی ہوں گی نا کہ کیا ایک کھڑوس میجر بھی ایسی شاعری کرسکتا ہے۔ " مریم نے اسکی تائید چاہی۔
وہ جو اپنے ہی خیالوں میں گُم تھی۔ مریم کی بات پہ بے دھیانی میں اسکے منہ سے بے اختیار نکلا۔
"ہوں"
اور مریم اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کرنے لگی۔
" نہیں۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔" بات سمجھ آنے پہ وہ جیسے خفیف سی ہوکر رہ گئی تھی۔
" ڈائری مجھے واپس دو مریم۔ " آزر نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
جبکہ وہ ہلکا سا مسکرائی۔
" بلکل نہیں۔ "
"مریم! یہ مجھے دو۔ " وہ اُس سے ڈائری لینے کے لئیے آگے بڑھا۔
اسی پل مریم نے وہ ڈائری بیڈ کی جانب اُچھال دی۔ جو کہ سیدھے حیات کی گود میں آ کر گری۔ اور اس سے پہلے کہ آزر اسے کچھ کہتا۔
مسز صدف کی آواز پر مریم ہنستے ہوئے کمرے سے باہر کو بھاگی۔
آزر چند لمحے یونہی کھڑا رہا کہ اب حیات اسے وہ ڈائری واپس کرے گی۔
مگر اسے یونہی بیٹھے دیکھ کر وہ دھیمے انداز میں اُس سے گویا ہوا۔
" مِس..! کیا یہ ڈائری آپ اپنے ساتھ لے کر جانے کا ارادہ رکھتی ہیں؟ "
اُس کی آواز پہ وہ جیسے ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور اچانک سے یوں اُٹھی کہ اسکی گود میں رکھی ڈائری ایک بار پھر نیچے فرش پہ جا گری۔
حیات نے چاروں اور نظریں گُھما کر دیکھا۔ مریم اب وہاں نہیں تھی۔ اس کا مطلب ابھی۔۔ابھی وہ یہاں تنہا تھی۔
کسی نامحرم کے کمرے میں۔
یہ سوچ کر ہی اسکا چہرہ ایک دم سفید پڑنے لگا۔
پھر وہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھے ایک جھٹکے سے اُس کمرے سے باہر بھاگی تھی۔ اُسکی آنکھوں میں بے ساختہ نمی در آئی تھی۔
مگر حیات کو کون بتائے کہ ہر شخص زین کرم دار نہیں ہوتا۔۔۔ مگر شاید ہر کوئی آزر جہانزیب بھی نہیں ہوسکتا تھا۔
***********
جبکہ یہاں اُس کے اس عمل پہ آزر اُلجھ کر رہ گیا تھا۔
" انہیں اچانک کیا ہوا؟ " پھر وہ سر جھٹک کر اپنی ڈائری اُٹھانے کے لئیے جُھکا۔
آج شاید پہلی بار وہ ہر بات سُن لینے اور لمحوں میں سمجھ لینے والا آزر جہانزیب۔۔۔حیات نور کی سوچ کو نہیں سمجھ پایا تھا۔
اسکے اس عمل کے پیچھے چھپے راز کو نہیں جان پایا تھا۔
حیات جب یہاں نیچے لاؤنج میں آئی تب تک وہ خود کو قدرے نارمل کرچکی تھی۔
وہ حیات نور تھی۔۔اسے اپنے غم چھپانے آتے تھے۔ جسے وہ صرف اور صرف اپنے اللہ کے سامنے عیاں کرنا چاہتی تھی۔ نہ کہ دنیا والوں کے سامنے۔
وہ سب اب بھی لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ مسز صدف اور سبرینہ آزر کے بچپن کی باتیں کررہی تھیں۔ تب ہی سبرینہ کہنے لگیں۔
" آپ کو یاد ہے بھابھی جب آزر اور حیات کے بچپن میں ہم نے سوچا تھا کہ اُن کا۔۔"
حیات کو وہاں آتے دیکھ کر وہ لمحے بھر کو خاموش ہوگئیں۔
" کیا ہوا پھوپھو! " وہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لئیے اُن کے مقابل صوفے پر آبیٹھی۔ جہاں مریم بیٹھی تھی۔
جبکہ سبرینہ سے آگے مزید کوئی بات نہ بن پڑی۔
" ہاں سبرینہ۔۔مجھے یاد ہے تم تب کی بات کررہی ہو نا۔ جب تمہاری شادی میں آزر اور حیات چھوٹے تھے اور دونوں ہی بلکل کم گو تھے۔ کسی سے بات نہیں کیا کرتے تھے اور شاید تمہاری شادی میں ہی یہ دونوں پہلی بار ملے تھے۔ "
مسز صدف نے دھیرے سے مسکرا کر کہتے ہوئے گویا سبرینہ کی مشکل آسان کردی۔
جس پہ وہ سکون بھری سانس لے کر رہ گئیں۔
" جی بھابھی! میں یہی کہہ رہی تھی۔ " سبرینہ نے جیسے اُن کی بات کی تائید کی۔
اور وہ جو ہاتھ میں فائل پکڑے سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ سیڑھیوں کے وسط میں ٹھٹک کر رُکا۔
" بچپن میں؟ " اور بس لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے سمجھ آگیا تھا کہ۔۔کون تھی وہ۔
" اس کا مطلب یہ ہے وہ بھوری آنکھوں والی معصوم بلی۔۔ جس کے بارے میں وہ بچپن سے سوچتا آیا تھا کہ کیا وہ اب تک اس سے ناراض ہوگی؟ "
یہی حال کچھ حیات کا بھی تھا۔ دونوں نے ایک ساتھ سر اُٹھا کر دیکھا۔ پھر فوراً ہی نظروں کا رُخ بھی پھیرلیا۔
" اللہ اکبر! تو ۔۔کیا یہ ہے وہ بھورے بالوں والا چوزا۔ " عجیب بے یقینی سی بے یقینی تھی۔
کون جانے؟ کہ جن کی بچپن میں ایک ہی ملاقات میں نہیں بن پائی تھی۔ تو کیا آگے کبھی ان کی بن سکتی تھی؟
" اور اب دیکھو۔۔وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا! " مسز صدف نے سلسلہ کلام ایک بار پھر وہیں سے جوڑا۔
" ہوں۔۔ٹھیک کہتی ہیں بھابھی۔" جواباً سبرینہ بھی مسکرائیں۔
جبکہ حیات اب اُن کی باتوں سے اُکتا کر رہ گئی تھی۔
وہ اپنی اکتاہٹ چھپانے کے لئیے یہاں وہاں نظریں گھمانے لگی۔ دفعتاً اسکی نظر سامنے دیوار پہ لگی ایک فریم پر پڑی۔
جس میں ایک باوقار۔۔ وجیہہ' درمیانہ عمر کے صاحب مسکراتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
" یہ کون ہیں؟ " وہ یونہی پوچھ بیٹھی۔
اگلے ہی پل وہاں بیٹھے اُن سب لوگوں کے چہروں پہ افسردگی چھاگئی۔ لمحوں پہلے کا خوشگوار ماحول' ایک دم افسردہ ہوگیا تھا۔
" یہ جہانزیب بھائی ہیں۔ مریم اور آزر کے بابا۔" جواباً سبرینہ نے دھیرے سے کہا۔
" اوہ آئی ایم سوری! " اتنا تو وہ جانتی تھی کہ اسکے اسفند پھوپھا کے کزن جہانزیب اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
" ہاں۔۔یہ میرے بابا ہیں۔ " مریم نے اُداسی سے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ بہت چھوٹی تھی۔ جب اُن کی زندگی میں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ مگر وہ بچپن سے آزر کی زبانی اپنے بابا کے متعلق جو کچھ بھی سنتی آئی تھی۔ اب اسے ان باتوں کے لئیے اپنے بابا پہ فخر محسوس ہوتا تھا۔
" انکل کی ڈیٹھ کیسے ہوئی تھی آنٹی! " ناجانے وہ یہ سوال کیوں پوچھ بیٹھی تھی۔
جبکہ اُس کے اِس اچانک سوال پہ وہاں موجود اُن دو لوگوں کے چہروں پہ تاریک سایہ لہرایا تھا۔
"طبعی موت تھی بیٹا۔ " مسز صدف نے اتنی دھیمی آواز میں کہا تھا کہ اُن سب کو بمشکل اُن کی آواز سنائی دی تھی۔
کچھ تھا اُن کی آنکھوں میں۔۔جیسے وہ بہت ضبط کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔
اسی لمحے آزر تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے وہاں سے باہر نکلتا چلاگیا۔ اُس کی آنکھیں ایک دم سرخ ہوگئی تھیں۔
جبکہ مسز صدف نے افسوس سے اسے جاتے دیکھا تھا۔
وہ جانتی تھیں' یہ موضوع ہمیشہ سے اسکے لئیے تکلیف دہ ہوتا تھا۔ مگر حیات نہیں جانتی تھی کہ وہ جانے انجانے میں اس شخص کو کس قدر دُکھی کرگئی تھی۔
***********
حیات اور سبرینہ جب گھر واپس آئیں تو وہ عجیب کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتی تھی۔
" سوری پھوپھو! مجھے وہاں جہانزیب انکل کی ڈیتھ کا نہیں پوچھنا چاہئیے تھا۔ میں سمجھی کہ شاید وہ بھی پہلے پاک آرمی میں تھے۔ " بلآخر اُس نے بات کا آغاز کیا۔
" کوئی بات نہیں حیات! تم پریشان مت ہو۔ " جواباً انہوں نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
اُس نے خفیف سا سر جھٹکا اور لب بھینچ کر رہ گئی۔
ناجانے کیوں اب اسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ وہاں غلط وقت پر غلط سوال پوچھ بیٹھی تھی۔
" اچھا یہ بتاؤ مریم کو تمہارا تحفہ پسند آیا؟ " سبرینہ نے مسکراتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
وہ جانتی تھیں کہ شاید اب وہ اس بات پہ شرمندہ ہورہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اسکا دھیان بٹانا چاہا۔
جبکہ اُن کے اس سوال پہ اسکے کانوں میں کچھ دیر پہلے کسی کا کہا گیا وہ جملہ سنائی دیا۔
" آپ کی چوائس اچھی ہے مِس نور۔۔! "
جس سے اُس کا موڈ مزید خراب ہوگیا۔ مگر بظاہر ہلکا سا مسکرائی۔
" جی پھوپھو۔۔مریم خود ہی اتنی پیاری ہے۔ "
" ہوں۔۔تمہارے اور بابا جان کے علاوہ یہی لوگ تو ہیں حیات۔ جو میرے اپنے ہیں۔ " وہ تھکے تھکے سے انداز میں مسکرائیں۔
حیات نے چونک کر انہیں دیکھا۔ اسی طرح کی مسکراہٹ آج جہانزیب ابراہیم کے ذکر پہ اُس نے مسز صدف کے چہرے پر دیکھی تھی۔ افسردہ اور تھکاوٹ بھری مسکراہٹ۔
اتنا کہہ کر سبرینہ اپنے کمرے کی سمت بڑھ گئیں۔
جبکہ وہ اُن کی پشت دیکھتی رہ گئی۔
کیا کچھ ایسا تھا جو پھوپھو نے اُسے نہ بتایا ہو؟ جس سے وہ لاعلم ہو؟
پھر جیسے کچھ سمجھ نہ آنے پر وہ بھی سر جھٹک کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
آج کے دن کا آغاز اسکے لئیے جتنا افسردہ تھا۔ اختتام اتنا ہی تھکا تھکا سا تھا۔ بس درمیان میں جو وقت گزرا تھا۔ وہ اچھا تھا یا۔۔۔شاید بہت اچھا۔
*************
مت کھولو میرے ماضی کی کتابوں کو
جو تھا وہ رہا نہیں' جو ہوں وہ کسی کو پتا نہیں
آزر جب گھر واپس آیا تو وہ بلکل نارمل دکھائی دے رہا تھا۔
مسز صدف نے ایک نظر اسے دیکھا جو اب لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھا کسی فائل کا معائنہ کررہا تھا۔
وہ جانتی تھیں کہ خود سے وہ انہیں کبھی کچھ نہیں بتائے گا۔
وہ جو بظاہر مریم کے سامنے ہنستا مسکراتا تھا۔ وہ یہ سب کیوں کرتا تھا۔۔تاکہ وہ مریم کو خوش رکھ سکے۔ وہ اپنی بہن کو دُکھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
مگر وہ ماں تھیں۔ وہ بھی اپنے بیٹے کو دُکھی نہیں دیکھ سکتی تھیں اور وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ۔۔
جیسا وہ دِکھتا ہے ویسا وہ ہے نہیں' اور جسے وہ چُھپا کر رکھتا ہے وہ کبھی کوئی دیکھ نہیں سکتا۔
وہ تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کچن کی جانب بڑھ گئیں۔
جبکہ یہاں آزر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل بند کی اور ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
پھر اپنے موبائل پہ روحان کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
" مرحبا روحان..! آج ہمیں ایک بہت ضروری کام کرنا ہے۔ "
وہاں وہ اسکی بات سن کر جیسے حیران رہ گیا تھا۔
" کیا آج ہی ضروری ہے؟ "
" ہاں بلکہ ابھی اور اسی وقت۔ " جواباً اُس نے سخت لہجے میں کہا۔
پھر مزید کچھ کہے سنے بغیر رابطہ منقطع کردیا۔
جبکہ یہاں روحان اپنے فون کو گھور کر رہ گیا۔
" یہ آدمی مجھے کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ " اُس نے بے اختیار ہاتھ سے اپنے ماتھے کو چھوا۔
***********
آج کی صبح کا آغاز بہت ہی خوبصورت تھا۔ آسمان سے برستی ہلکی ہلکی پھوار موسم کو مزید دلکش بنارہی تھی۔
وہ سب ڈائننگ ہال میں ناشتہ کی میز پہ بیٹھے تھے۔
"دادا جان..! آج میں سوچ رہی ہوں کہ کویت کی سِم لے ہی لوں۔ " حیات چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے اُن سے مخاطب ہوئی۔
" سوچ کیا رہی ہو بچے۔۔میں تو کہتا ہوں آج ہی جاؤ اور لے ہی آؤ۔ " انہوں نے بھی اسی کے انداز میں دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
" جی ٹھیک۔ " جواباً وہ بھی مسکرائی اور وہاں سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
اب اسے ماریہ کو فون بھی تو کرنا تھا۔
**********
آج کے ٹھنڈے ٹھنڈے موسم میں وہ دونوں سڑک پہ چل رہی تھیں۔ تب ہی سامنے انہیں ایک موبائل کی دُکان نظر آئی۔
" حیات تمہاری سِم تو لے لی ہم نے۔ اب میں ذرا امی کا موبائل ٹھیک کروالوں۔ " وہ کوٹ کی جیب میں سے ایک چھوٹا سا موبائل نکالتے ہوئے بولی۔
" ہوں ٹھیک ہے۔۔چلو پھر۔ "وہ دونوں ایک ساتھ اس دُکان کے اندر داخل ہوئیں۔
دفعتاً حیات کے ہاتھ میں پکڑا موبائل بج اُٹھا جو کہ ماریہ کا تھا۔
" آنٹی کا فون ہے ماری! " حیات نے اُس کا شانہ ہلایا۔
جو اب دکاندار سے اس موبائل کے متعلق کچھ کہہ رہی تھی۔
" اوہ! تم کہہ دو انہیں کہ ہم موبائل شاپ پہ ہیں۔ امی کو یہی فکر ہوگی کہ کہیں میں اُن کا فون ٹھیک کروانا بھول نہ جاؤں۔ " اُس نے وہ موبائل دکاندار کو دکھاتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا۔
جبکہ حیات اب فون پہ اسکی امی (مسز سامعیہ) سے بات کررہی تھی۔
" جی آنٹی! "
"ہیلو۔۔ہیلو! " یوں لگتا تھا جیسے وہاں انہیں حیات کی آواز نہیں آرہی تھی۔
" ماریہ۔۔یہاں سگنل کا مسئلہ ہے شاید' میں باہر جا کر دیکھتی ہوں۔ " اُس نے ذرا نذدیک آکر سرگوشی میں کہا۔
" ہاں ٹھیک۔ " جواباً اُس نے اثبات میں سرہلادیا۔
جبکہ وہ اس دُکان سے باہر کی سمت چلی آئی۔
" جی آنٹی! ہم یہیں موبائل شاپ پہ ہیں۔ "
اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ اُن سے بات کرتے کرتے اب سڑک کے عین وسط میں چل رہی تھی۔
ابھی وہ فون بند کرنے ہی لگی تھی۔۔دفعتاً سامنے سے ایک تیز رفتار گاڑی آتی دکھائی دی اور اس سے قبل کہ وہ سنبھلتی' اسے اپنی کمر پہ کسی نوکیلی شے کا دباؤ محسوس ہوا۔ جس نے اسے سڑک کی دوسری جانب لڑھکا دیا۔
************
باقی آئندہ اِن شاء اللہ!
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top