Episode 1 " !موتیوں کا آغاز سفر"
پاکیزہ موتی از اقراء عزیز
باب١ : " موتیوں کا آغازِ سفر! "
صبح کا سورج آسمان پہ طلوع ہورہا تھا۔ پرندے اپنے رب کی حمد و ثناء میں مشغول تھے۔ یہ کویت کا شہر فحیحیل تھا۔ الکوة ساحل سمندر کے قریب واقع اس عمارت کی پہلی منزل کے خوبصورت سے اپارٹمنٹ میں مکمل سکوت چھایا ہوا تھا۔ سحر کی مدھم سی روشنی کمرے میں ہر سوں پھیلے ہوئے تھی۔ اور وہ سامنے بیڈ پہ سوتے ہوئے کوئی خوبصورت اور اُداس سی پری کی مانند لگ رہی تھی۔
اس کے گہرے بھورے بال تکئیے پر بکھرے ہوئے تھے۔
وہ شاید نیند میں کچھ بڑبڑا رہی تھی۔
" نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔۔آپ کہیں نہیں جاسکتے۔ "
پھر ایک جھٹکے سے وہ اٹھ بیٹھی۔ اتنی ٹھنڈ میں بھی وہ پوری پسینے میں شرابور تھی۔
گزشتہ ایک سال پانچ مہینوں میں یہ خواب آج اس نے پانچویں بار دیکھا تھا۔
وہ بیڈ سے اٹھ کر دھیرے دھیرے چلتی ہوئی کھڑکی کے سامنے آ رُکی اور اس کے پٹ کھولے وہیں کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
آنسو مسلسل اس کے چہرے کو بھگورہے تھے۔
وہ ایک بار پھر اپنی لازوال سوچوں کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ دفعتاً دروازے پہ دستک ہوئی، اور وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ سجائے دروازے کی سمت بڑھی۔
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے پھوپھو کھڑی تھیں۔ اسے دیکھتے ہی وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے ناشتے کی ٹرے لئیے اندر داخل ہوئیں۔
" مرحبا میری جان! "
" مرحبا پھوپھو! ارے آپ رہنے دیتیں، میں باہر آ کے کرلیتی ناشتہ۔"
" تم باہر آتی تو کرتی نا، مجھے پتہ ہے کہ تم اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلتی، اسی لئیے یہیں لے آئی۔ "
اُن کی بات پہ وہ کچھ شرمندہ سی نظریں چرانے لگی۔
" حیات! " انہوں نے اسے شانوں سے پکڑ کے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔
" بیٹا باہر نکلا کرو، ہنسا بولا کرو۔۔ایسے تو تم اپنے ساتھ ساتھ بابا جان اور مجھے بھی تکلیف دے رہی ہو۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم میرے سامنے یوں مسکراتی رہوگی تو مجھے تمہاری تکلیف کا اندازہ نہیں ہوگا؟ میں تمہاری پھوپھو ہی نہیں ماں بھی ہوں۔ "
وہ اُداسی سے مسکرائیں۔
اور ان کے اس طرح کہنے پہ اس کے کب سے ضبط کئیے آنسو بلآخر بہہ نکلے۔
وہ ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
" مجھے معاف کردیں پھوپھو! میرا مقصد آپ کو یا دادا جان کو تکلیف پہنچانا ہرگز نہیں تھا۔ "
اب سبرینہ کیا کہتیں' اسکی یہ حالت دیکھ کے ان کا تو اپنا دل خون کے آنسو روتا تھا۔
" اچھا۔۔بس اب میں تمہیں روتا نہ دیکھوں۔"
وہ خود پہ کنٹرول کئیے، اسے خود سے الگ کرتے ہوئے قدرے سخت لہجے میں بولی تھیں۔
جبکہ ان کی بات پہ وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرادی۔
سبرینہ اب کمرے سے جاچکی تھیں۔ اس کی بڑی بڑی بھوری آنکھوں میں ایک بار پھر نمی سی اُمڈنے لگی۔
ذہن کی اسکرین کے پردوں پر ماضی کی کچھ یادیں ابھرنے لگی تھیں۔
********************
آج اسے پاکستان سے کویت آئے دو دن گزر چکے تھے۔ دادا جان اور پھوپھو اس بار تین سال بعد پاکستان آئے تھے۔
وہ بھی کسی عزیز کی شادی میں شرکت کرنے۔ سو اب کے واپس آتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھ کویت لے آئے۔ وہ پورے دو مہینوں کے لیے یہاں آئی تھی۔
اس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا' اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کویت پہلی بار آئی تھی۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اسے دادا جان سے یوں اتنے عرصے بعد باتیں کرنے کا موقع ملا تھا۔
وہ بچپن سے ہی دادا جان سے حد درجہ مانوس تھی۔
اس کے بابا اصغر حسن صاحب بزنس کے سلسلے میں اکثر گھر سے باہر ہی رہا کرتے تھے۔ وہ بہت چھوٹی تھی جب اس کی ممی اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں۔ اس لئیے دادا جان نے ہی اس کی پرورش کی تھی۔
اس کی ضرورتوں کا خیال بھی ہمیشہ وہی رکھا کرتے تھے۔
چونکہ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس لئیے انہیں بھی بے حد عزیز تھی۔
لیکن اچانک ہی پانچ سال قبل پھوپھو کے شوہر' اسفند پھوپھا کی ڈیتھ ہوئی تو دادا جان نے پھوپھو کو پاکستان آنے کے لیے راضی کرنا چاہا ، مگر ان کا کہنا تھا کہ کویت سے ان کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں. اسی باعث وہ یہیں رہنا چاہتی ہیں۔ بلآخر انہیں اپنی بیٹی کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔
وہ بھلا اپنی اکلوتی بیٹی اور نواسی کو وہاں اکیلا کیسے چھوڑ سکتے تھے۔ لہٰذا وہ بھی یہیں کویت میں رہائش پذیر ہو گئے۔
حیات کے دادا حسن داؤد اپنے زمانے میں پاکستان فوج میں ایک قابل برگیڈئیر رہے تھے۔ اور اب کافی عرصہ ہو گیا تھا انہیں ریٹائرڈ ہوئے۔ جبکہ ان کے بیٹے اور حیات کے بابا اصغر حسن ایک کامیاب اور مشہور بزنس مین تھے۔
حیات کی زندگی میں وہ دو ہی تو مرد تھے۔ جنہیں وہ اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتی تھی۔
لیکن قدرت اسے ان میں سے کسی ایک سے محروم کرنے والی تھی یہ وہ ابھی نہیں جانتی تھی۔ مگر کون جانتا تھا ؟
سوائےاس خالق حقیقی کے جو سب جانتا تھا۔
اس وقت وہ اور دادا جان الشہید پارک جوکہ سیرو تفریح کے لیے کویت کا ایک نہایت ہی خوبصورت پارک تھا۔۔ وہاں چہل قدمی کر رہے تھے۔
وہ چلتے چلتے دادا جان سے باتیں بھی کر رہی تھی۔ جہنیں وہ مسکراتے ہوئے نہایت توجہ سے سن رہے تھے۔ وہ اپنی ہی دھن میں نان سٹاپ بولے چلے جا رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر دادا جان پر پڑی جو اب چہرے پر نرم اور شفیق مسکراہٹ سجائے سامنے کی سمت دیکھ رہے تھے۔
انکی نظروں کے تعاقب میں اس نے بھی اپنی نظریں گُھما کر اسی سمت دیکھا' جہاں سامنے سے ایک خوش شکل وجیہہ نوجوان ان ہی کی طرف آرہا تھا۔
"اسلام و علیکم سر!" وہ اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں دادا جان سے مخاطب ہوا۔
"وعلیکم اسلام آزر بیٹا کیسے ہو؟"
اس کے خوش اخلاقی سے کئیے گئے سلام کا جواب انہوں نے بھی نہایت گرم جوشی سے اسے گلے لگا کر دیا تھا۔
"الحمد اللہ! میں بالکل خیریت سے ہوں آپ کیسے ہیں؟ "
" ہم بھی ٹھیک ہیں الحمد اللہ۔۔اور بہت خوش ہیں ہماری پوتی جو آئی ہے پاکستان سے۔"
" یہ ہماری پوتی ہیں حیات نور۔"
وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہے تھے۔
" حال ہی میں ان کی تعلیم مکمل ہوئی ہے۔ سائیکالوجی پڑھی ہے انہوں نے اس لئے آج یہ خود کو ایک بہترین سائیکالوجسٹ سمجھتی ہیں۔" دادا جان نے اپنی نظروں کا رخ حیات کی سمت کرتے ہوئے کہا۔
اب کے دادا جان کی بات پہ اس شخص نے نظریں اٹھا کر اپنے سامنے کھڑی بھوری آنکھوں والی اس لڑکی کو دیکھا تھا۔ جو سفید رنگ کی فراک میں ملبوس ہلکے گلابی رنگ کا دوپٹہ سر پہ حجاب کی صورت بہت سلیقے سے اوڑھے ہوئے تھی۔۔ کہ اس کا صرف چہرہ ہی نظر آرہا تھا۔
جبکہ حیات اپنے اس تعارف پر خفگی سے دادا جان کو دیکھ رہی تھی۔
مگر انہوں نے ایساکچھ غلط بھی نہیں کہا تھا۔ اس میں واقعی یہ خوبی تھی کہ وہ لوگوں سے چند ملاقاتوں میں ہی ان کے ذہن پڑھ لیا کرتی تھی۔
اس بات پہ اسے معمولی سا فخر بھی تھا۔ جس کے بعد وہ خود کو ایک ماہر نفسیات سمجھنے لگی تھی۔
" حیات! بیٹے یہ ہیں۔۔میجر آزر جہانزیب۔ آپ کی پھوپھو کے سسرالی رشتے دار ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کے اسفند پھوپھا کے کزن کے بیٹے۔ "
" یہ پاکستان میں ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کی فیملی یہیں کویت میں رہائش پذیر ہے۔انہیں بچپن سے ہی اپنے وطن سے بہت محبت تھی۔ پیدا بھلے یہ یہیں ہوئے ہیں۔ لیکن جب یہ چھوٹے تھے تو کچھ عرصہ کے لیے یہ لوگ پاکستان شفٹ ہوگئے تھے۔اور جب ہی ان کے دل میں اپنے وطن کے لیے محبت پیدا ہوگئی تھی۔ مگر اچانک ہی ان کے والد کا کچھ کام کے سلسلے میں ایک بار پھر کویت آنا ہو گیا۔ اور ان کی فیملی یہیں رہنے لگی۔ پھر کچھ عرصے بعد آزر پاک فوج میں ٹریننگ حاصل کرنے چلا گیا اور ماشاءاللہ سے آج یہ ایک قابل میجر ہے۔ "
دادا جان کی باتوں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ انہیں اس نوجوان پہ کس قدر فخر ہے۔
اُن کے لہجے میں اس شخص کے لیے اتنی اپنائیت اور محبت تھی کہ حسد کے مارے وہ اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی تھی۔
وہ نیلی جینز پر سرمئی رنگ کی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ بھورے بال ماتھے پر گر رہے تھے۔۔ اور اپنی گہری بھوری آنکھوں میں مسکراہٹ لیے وہ دادا جان سے محو گفتگو تھا۔
لہٰذا حیات انہیں یوں باتوں میں مشغول دیکھ کر بس منہ بنا کر رہ گئی۔
ایسی ہی تھی وہ دادا جان اس کے سامنے کسی اور سے بات کریں یا کسی کی تعریف کریں' اس سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔
تبھی وہ اب کچھ خفا خفا سی دادا جان کو دیکھ رہی تھی۔
جبکہ اس کی یہ خفگی مقابل سے چھپی نہ رہ سکی۔
اب کے دادا جان بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
"آپ سے مل کہ خوشی ہوئی مس حیات! آپ کو ہمارا کویت کیسا لگا؟ "
جیسا وہ دیکھنے میں دلکش تھا بات کرنے میں اس سے کہیں زیادہ پرخلوص اور دھیما لہجہ تھا۔ آنکھوں میں سادگی لیے' نظریں نیچے کیے وہ حیات سے مخاطب تھا۔
اس کے پوچھنے پر حیات بدقت ذرا سا مسکرائی۔
"بہت اچھا لگا! "
وہ اسے دیکھ کر اخلاقاً مسکرائی تو تھی۔ لیکن اس وقت اسے وہ شخص بہت برا لگ رہا تھا۔ اس کی وجہ اُس کا دادا جان اور اس کی باتوں کے درمیان آنا تھا۔
پھر وہ دادا جان کو خدا حافظ کہتے وہاں سے آگے بڑھ گیا۔
وہ اور دادا جان بھی پارک سے باہر کی طرف ہی نکلے تھے کہ اسے اپنے عقب میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔
اس نے اپنا رخ موڑ کر اس سمت دیکھا' جہاں ایک بچہ اپنی ممی کا ہاتھ پکڑے روتے ہوئے سامنے کھڑے غبارے والے کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔
جیسے ہی وہ لوگ اس غبارے والے کے پاس پہنچے سامنے سے ہی ایک اٹھارہ، بیس سال کی لڑکی وہاں آئی۔ چونکہ وہ آخری بلون بچا تھا تو اس لڑکی نے غبارے والے کو دگنے پیسے دے کر وہ غبارہ خریدا اور چہرے پر فخریہ مسکراہٹ لیے آگے بڑھ گئی۔
وہ جو وہاں کھڑی کب سے یہ ساری کاروائی دیکھ رہی تھی۔ اس بچے کو ایک بار پھر دھاڑیں مار مار کر روتا دیکھ کے اسے اس لڑکی پر شدید غصہ آیا تھا۔
کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔
وہ اپنی مسکراہٹ دبائے' نہایت ہی محتاط انداز میں ادھر ادھر گردن گھمائے آرام سے قدم قدم چلتی اس لڑکی کے برابر آ کھڑی ہوئی۔
وہ لڑکی سیل فون کان پر لگائے اس قدر مگن تھی۔ کہ حیات نے بالکل غیر محسوس کن انداز میں اس کے ہاتھ سے بلون کھینچا اور ایک جھٹکے سے بھاگتی ہوئی وہاں واپس آئی۔
اور اس بچے کو بلون تھما دیا پھر اسے پیار کرتے' آگے بڑھ گئی۔
اس بچے کی ممی جو یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی، اب اپنے بچے کو خوش ہوتے دیکھ کر مسکرا دیں۔
" بڑی ہی پیاری بچی ہے اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے۔" وہ دل ہی دل میں اسے دعائیں دینے لگیں۔
اور ادھر اس لڑکی کو جب تک سمجھ آیا کے اس کے ساتھ کیا ہوا ہے. تب تک حیات اس کی نظروں سے بہت دور جاچکی تھی۔ سو وہ غصے سے پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔
یہاں حیات دبے دبے جوش سے چہکتی ہوئی دادا جان کے پاس پہنچی۔
جبکہ وہ سامنے کھڑے نہایت ہی خفگی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
" حیات! آپ اپنی اِن حرکتوں سے کب باز آئیں گی؟"
"کونسی حرکتیں دادا جان؟"
وہ اس قدر معصومیت سے بولی تھی'کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنس دیے۔
" یہ جو 'ابھی' آپ نے کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ "
دادا جان نے " ابھی" پہ زور دیتے ہوئے کہا۔
" دادا جان وہ لڑکی اس غبارے والے کو دگنے پیسے دے کر غبارہ تو لے کر جارہی تھی لیکن کیا آپ کو پتہ ہے؟ وہ اس کے ساتھ ساتھ اس معصوم بچے کی مسکراہٹ بھی لے کر جا رہی تھی۔ جو اب اس بچے کے چہرے پر صرف اس کے ہاتھ میں پکڑے اس غبارے کی وجہ سے آئی ہے۔"
" پتہ نہیں لوگ دوسروں کی خوشیوں کو مار کر ہی ہمیشہ اپنی خوشیاں کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔"
وہ تاسف سے سر ہلاتے بولی۔
"حیات۔۔ آپ کی سوچ جان کر ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ ہماری پوتی بہت ہی نرم دل اور پر خلوص ہے۔ آپ کا ارادہ نیک تھا۔ مگر ہم اب بھی یہی کہیں گے کہ آپ کا طریقہ غلط تھا۔"
"سوری۔۔اب نہیں ہوگا دادا جان! "
"اوکے۔۔ مائی گرینڈ ڈاٹر! بلآخر ہمیشہ کی طرح ہمیں ہی ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔ "
انہوں نے گہری سانس لے کر کہا۔
جبکہ وہ بے اختیار مسکرادی۔
***************
آج اسے کویت آئے تیسرا دن تھا۔
پھوپھو کی بیٹی لائبہ اس وقت اسکول گئی ہوئی تھی۔
جبکہ وہ' پھوپھو اور دادا جان ناشتہ کر رہے تھے۔ اچانک ہی کچھ یاد آنے پر حسن داؤد اپنی بیٹی سبرینہ سے مخاطب ہوئے۔
" سبرینہ ! کل جب میں اور حیات پارک میں چہل قدمی کرنے نکلے تھے' تو جانتی ہیں وہاں ہماری ملاقات کس سے ہوئی؟ "
"کس سے بابا جان؟" سبرینہ پوچھنے لگیں۔
" آزر بیٹےملے تھے وہاں ہمیں۔ کافی عرصے بعد آئے ہیں اس بار پاکستان سے۔"
اس کا نام لیتے ہوئے ان کے لہجے میں آج پھر وہی اپنائیت تھی۔ سبرینہ کو یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
" اچھا بابا جان کب آیا وہ؟ "
" ہوں۔۔۔کہہ رہا تھا دو دن پہلے ہی آیا ہے۔"
پھر سبرینہ اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
"حیات آپ ملیں آزر سے؟"
"جی پھوپھو۔" جواباً وہ بس اتنا بولی۔
جبکہ سبرینہ کہہ رہی تھیں۔
" بہت ہی پیارا بچہ ہے ہمارے خاندان کا۔ بہت ہی پرخلوص اور سب کا احترام کرنے والا۔
نام اونچا کر دیا اس نے میرے سسرال والوں کا ماشاءاللہ میں تو۔۔۔۔"
اس سے پہلے سبرینہ مزید کچھ کہتیں وہ جھٹ سے بول پڑی۔
" آہ! بس کریں پھوپھو میں اور نہیں سن سکتی۔"
اس نے ایک سرد آہ بھری۔
جبکہ وہ خفگی سے اسے دیکھنے لگیں۔
" دادا جان تو کل سے اس میجر کی ہی تعریفیں اور باتیں کررہے ہیں۔ اور اب آپ بھی پھوپھو۔ مجھے تین دن ہوگئے یہاں آئے ہوئے۔۔۔ مگر اتنی باتیں تو دادا جان نے مجھ سے میرے بارے میں بھی نہیں کیں۔ کل پارک میں بھی مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ان کی پوتی نہیں، بلکہ وہ ان کا پوتا ہے۔ "
بلآخر کب سے دل میں آیا شکوہ زبان پہ آہی گیا۔
اور اس کے اس انداز میں ناک سکوڑ کر کہنے پہ دادا جان اور پھوپھو دونوں ہی ہنس دئیے۔
" حیات آپ تو جانِ دادا ہیں بچے۔ " حسن داؤد صاحب نے شفقت سے اس کے سر پہ اپنا ہاتھ پھیرا۔
" اور رہی بات تعریف کی تو جو اس کے مستحق ہوں، سراہا بھی انہیں ہی جاتا ہے۔ "
جبکہ دادا جان کے یوں اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرنے پہ حیات کی ساری خفگی اور غصہ ہمیشہ جھاگ بن کہ اڑ جاتے تھے۔
لہٰذا آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
" حیات بیٹا! آج میری ایک سہیلی آرہی ہے تم سے ملنے۔۔اسی علاقے میں رہتی ہے دو گھر چھوڑ کر' ان کی فیملی بھی پاکستان سے ہی آئی تھی یہاں۔ "
سبرینہ مسکراتے ہوئے اسے بتارہی تھیں۔
"میں ذرا کچن میں جا کر ان کے لئے کچھ تیاری کرلوں۔ "
پھوپھو کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرائی۔
" اچھا پھوپھو۔۔ میں بھی چلتی ہوں آپ کے ساتھ کچن میں۔"
اور وہ دونوں کچن کی جانب بڑھ گئیں۔
تھوڑی ہی دیر میں سبرینہ کی دوست مسز سامعیہ اپنی بیٹی ماریہ کے ہمراہ ان کے گھر آگئی تھیں۔
جبکہ حیات مسکراتے ہوئے بغور ان کا جائزہ لے رہی تھی۔
مسز سامعیہ لگ بھگ سبرینہ کی عمر کی ہی ایک سادہ سی خاتون تھیں۔
جبکہ ان کی بیٹی ماریہ دراز قد اور گوری رنگت کی مالک تھی۔ جس کے سیاہ بال پونی میں مقید تھے۔ اور بڑی بڑی ڈارک براؤن آنکھيں، وہ شکل سے ہی پاکستانی لگتی تھی۔
مگر پیدا کویت میں ہوئی تھی۔ یہ بات اسے پھوپھو پہلے ہی بتاچکی تھیں۔
مسز سامعیہ اس وقت حیات کو خود سے لپٹا کر دعائیں دے رہی تھیں۔
" ماشاءاللہ! کتنی پیاری بھتیجی ہے سبرینہ تمہاری۔ "
وہ اس کے دونوں خوبصورت سرخ و سفید گال چومتے ہوئے بولیں۔
البتہ حیات ان کے اس عمل پہ حیرانی سے انہیں دیکھنے لگی۔
جبکہ سبرینہ مسکرادیں۔
اور ماریہ شاید اسے یوں حیران و پریشان دیکھ کر بھانپ گئی تھی کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔
" ارے! تم پریشان نہ ہو، یہ کویت میں عربوں کے ملنے کا مخصوص انداز ہے، اپنی محبت و خلوص ظاہر کرنے کا۔ تو ممی بھی یہاں کی روایت پوری کررہی ہیں۔ "
وہ دھیرے سے ہنستے ہوئے بولی تھی۔
" اوہ! "
ماریہ کی بات پہ وہ بدقت اپنی شرمندگی چھپائے ہلکا سا مسکرادی۔
پھر ماریہ بات بدلنے کی غرض سے کہنے لگی۔
" تمہارا نام کتنا خوبصورت ہے۔
" حیات " اس کے معنیٰ ہیں زندگی۔" ہاں ایسی ہی تو تھی وہ بھی اپنے نام کی طرح زندگی سے بھرپور، خوش مزاج، سادہ اور نرم دل۔۔مگر ایک بات تھی وہ تنہائی میں اجنبیوں کو دیکھ کر ذرا سی گھبرا جایا کرتی تھی۔ اور خاص طور پہ مردوں سے وہ ہمیشہ محتاط رہا کرتی تھی۔ اسلئیے وہ جلد لوگوں میں گھلا ملا نہیں کرتی تھی۔
لیکن سبرینہ کی یہ سہیلی اور ان کی بیٹی ماریہ۔۔اسے کویت کے یہ پرخلوص اور سادہ دل لوگ بہت پسند آئے تھے۔ کچھ دیر وہ سب باتوں میں مشغول تھیں۔
پھر سبرینہ انہیں کھانے کے لئیے اپنے خوبصورت طرز پہ بنے ڈائیننگ ہال میں لے آئیں۔
حیات بھی ان کے ساتھ کھانے کے لوازمات ٹیبل پر سجانے لگی۔
آج سبرینہ نے ساری کویتی ڈیشز بنائی تھیں۔
" مجبوس"
( کویت کی قومی ڈش )، کویت کے خاص آلو کباب، کویتی چکن بریانی، اور میٹھے میں " بسبوسة " یہ عربوں کی مخصوص میٹھی ڈش ہوتی ہے۔
اس نے بھی آج کویت کا کھانا پہلی بار کھایا تھا۔
" پھوپھو! آپ کے ہاتھ میں واقعی بہت ذائقہ ہے۔ "
مسز سامعیہ اور ماریہ کے ساتھ ساتھ وہ بھی سبرینہ کی تعریف کئیے بغیر نہ رہ سکی۔
سبرینہ اور مسز سامعیہ مسکرارہی تھیں۔
جبکہ ماریہ جھٹ سے بولی۔
" ابھی تو تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا، تم جب تک یہاں ہو ہم روز کویت کے مزے دار کھانے کھائیں گے۔۔اور میں تمہیں کویت کے مخصوص جگہیں بھی دکھاؤں گی۔ "
جواباً اس نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ محض اثبات میں سر ہلادیا۔
" اوکے۔ "
آج اس کی اور ماریہ کی پہلی ملاقات میں ہی کافی اچھی بات چیت ہوگئی تھی۔
چونکہ دونوں ہی ہم عمر تھیں۔ اور ان میں کافی باتیں یکساں تھیں۔ شاید اسی لئیے۔
حیات کو یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی جب ماریہ نے اسے یہ بتایا کہ وہ بھی حال ہی میں پاکستان سے سائیکالوجی پڑھ کر آئی ہے۔
"پھوپھو یہ لوگ کتنے اچھے ہیں، کتنے پُر خلوص۔۔"
ان کے جانے کے بعد وہ پھوپھو سے کہہ رہی تھی۔
" مجھے تو محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں آج ان سے پہلی بار ملی ہوں۔ "
" ہاں۔۔بیٹا بہت اچھے اور پھر اپنے وطن کے لوگوں کی تو بات ہی اور ہوتی ہے نا۔ "
وہ بے ساختہ مسکرائی۔
" ہوں یہ تو ہے۔ "
**********
افق پہ ہر سوں نیلنگے بادل چھائے ہوئے تھے۔ وہ فجر کی نماز ادا کر کے قرآن پاک پڑھ رہی تھی۔ اسے یہاں آئے اب ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔
ماریہ بھی روزانہ اس سے ملنے آتی تھی۔ کچھہ ہی دیر میں وہ کمرے سے باہر آئی تو دادا جان اور پھوپھو ناشتے کی میز پر اسی کے منتظر تھے۔
ابھی وہ ناشتہ کر کے لاؤنج میں صوفے پر بیٹھے تھے' کہ سبرینہ اس سے مخاطب ہوئیں۔
" حیات بیٹا! کیا تم ڈرائیور کے ساتھ جاکر لائبہ کو اسکول چھوڑ آؤگی؟ اس کی اسکول وین نہیں آئی آج۔۔مگر شُکر ہے کہ ڈرائیور ایک ہفتے کی چھٹی کے بعد آج آگیا ہے۔ لیکن لائبہ نور کو شروع سے وین میں جانے کی عادت ہے' تو میں جانتی ہوں وہ اکیلے ڈرائیور کے ساتھ نہیں جائے گی۔ تم ساتھ چلی جاؤگی تو وہ بھی فوری اسکول جانے کے لئیے رضامند ہوجائے گی۔ "
انہوں نے جیسے اسے تفصیل بتائی۔
" جی پھوپھو ! میں چھوڑ آتی ہوں، اس میں پوچھنے والی کیا بات تھی۔ " وہ خفگی سے بولی۔
جبکہ سبرینہ مسکرادیں۔
ذرا دیر بعد وہ لائبہ کو ساتھ لئیے باہر کی جانب بڑھ گئی۔
جہاں باہر کھڑا ڈرائیور اُن کا منتظر تھا۔
کچھ ہی دیر میں وہ انٹرنیشنل اسکول اینڈ کالج آف پاکستان کے سامنے پہنچ چکے تھے۔
وہ مسکراتے ہوئے سامنے جاتی لائبہ نور کو خدا حافظ کررہی تھی۔
لائبہ اس سے کافی حد تک مشابہت رکھتی تھی۔ اس ہی کی طرح بھوری آنکھیں تھیں، حیات کو ہاتھ ہلاتے ہلاتے اس کے خوبصورت سنہرے بالوں کی پونی جھول رہی تھی۔ پھر وہ گیٹ عبور کر کے اندر داخل ہوگئی۔ جبکہ حیات بھی کار پارکنگ کی طرف بڑھ گئی۔
وہ اپنا بڑا سا دوپٹہ جو کہ اس نے ہمیشہ کی طرح حجاب کی صورت سر پہ لے رکھا تھا۔۔اسے درست کرتی ہوئی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ دفعتاً اپنے عقب میں اسے کسی کی آواز سنائی دی۔
" ایکسکیوز می مادام! کیا یہاں یہ کار آپ نے پارک کی ہے؟ "
حیات کی اس کی طرف پشت تھی۔ اس لئے وہ اسے دیکھ نہیں سکا تھا۔
" یس! میں نے پارک کی ہے۔ " ڈرائیور کو نذدیک نہ پاکر' حیات نے یہ کہتے ہوئے اپنا رخ اس کی سمت کیا۔
سامنے کھڑا وہ شخص بے اختیار چونکا۔
اور ایک بار پھر اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں اس سے مخاطب ہوا۔
" دیکھئیے مِس آپ نے کار غلط جگہ پارک کی ہے، میں پچھلے پندرہ منٹ سے یہاں کھڑا ہوں۔۔کیونکہ میں اپنی کار نہیں نکال سکتا۔ "
آزر نے اس کی گاڑی کی سمت اشارہ کیا۔
بلاشبہ گاڑی ڈرائیور نے پارک کی تھی۔ مگر حیات کو لگا جیسے اسے کسی نے کم عقلی کا طعنہ دے دیا ہو۔
" کیا مطلب ہے مسٹر آپ کا کہ مجھے گاڑی پارک کرنی نہیں آتی۔ " وہ دبے دبے غصے سے بولی۔
" مادام! اگر آپ کو کار پارک کرنی آتی ہے۔۔تو دیکھنا بھی ضرور آتا ہوگا۔۔وہ سامنے دیکھ رہی ہیں۔۔"
آزر نے اپنی نگاہوں کا رخ اس کی کار کے سامنے لگے بورڈ کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
حیات نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں اس سمت دیکھا جہاں بورڈ پر عربی میں " ممنوع الوقوف " لکھا تھا۔ جبکہ اس کے نیچے ہی انگریزی میں ( No Parking) بھی لکھا تھا۔
اور اس کا دل بے اختیار اپنی عقل پہ ماتم کرنے کو چاہا۔
بھلا ڈرائیور کو بھی کیا ضرورت تھی اس قدر جلدبازی میں ممنوع جگہ پر کار پارک کرنے کی۔ اور اسے کیا ضرورت تھی یہ کہنے کی کہ یہ کار اس نے پارک کی ہے؟
اسکے سامنے آزر ہاتھ باندھے کھڑا محظوظ ہوتا مسکرارہا تھا۔
مگر حیات نور کسی کے سامنے اپنی غلطی مان لے ہو ہی نہیں سکتا۔
" مجھے عربی نہیں آتی۔ "
اس وقت کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ اپنی غلطی چھپانے کے لئے منہ بسورے فوراً بولی۔
جبکہ اُس کے اس قدر اعتماد سے کہنے پہ آزر کا دل چاہا دل کھول کر ہنسے مگر پھر وہ معصومیت سے پوچھنے لگا۔
" اوہ! کیا آپ کو انگریزی آتی ہے؟ "
اور وہ تو غصے سے جل بھن گئی۔
" آپ مجھے جاہل سمجھتے ہیں ، اور یہاں انگریزی کی کیا تک بنتی ہے۔ " یہ کہتے کہتے اس کی نظر ایک بار پھر سامنے لگے بورڈ پہ پڑی تو وہ تلملا کر رہ گئی۔
" اوہ میرے خدا! یہ کیسا آدمی ہے۔ "
" بہت اچھا۔ " فوراً جواب آیا تھا۔ وہ اس کی بڑبڑاہٹ سن چکا تھا۔
حیات کا بس نہیں چل رہا تھا کیا کردے۔ اور وہ جانتی تھی، دادا جان کے حوالے سے وہ اسے پہچان چکا ہے۔ ( ہونہہ کھڑوس میجر )۔
" میں یہاں نئی ہوں۔۔مگر آپ تو بتا سکتے تھے یہاں پارکنگ منع ہے۔ " اب وہ کیا کرتی اپنی غلطی تو ہرگز نہیں مان سکتی سو سارا الزام مقابل پر ہی کیوں نہ ڈال دیا جائے۔
اور وہ اس کے یوں کہنے پہ چکرا کر رہ گیا۔
" پہلی بات یہ کہ مجھے نہیں معلوم تھا یہ آپ کی کار ہے۔ اور دوسری بات۔۔آپ مجھے اب نظر آئی ہیں، اگر میں کہتا بھی تو کیا آپ میری بات مان لیتیں؟ "
( اب نہیں مان رہیں، پہلے کیا مانتیں۔ ) وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوا۔
" آپ کی نہ مانتی، یہاں کے رولز تو مانتی نا۔ "
اتنے میں ڈرائیور وہاں چلا آیا۔
حیات اسے کچھ کہنے کا موقع دئیے بغیر شانے اُچکا کر گاڑی میں جا بیٹھی۔ جبکہ ڈرائیور نے اسٹیئرنگ سنبھال لیا۔ گاڑی اب سڑک پر آگے بڑھتی جارہی تھی۔
اور آزر محض دیکھتا رہ گیا۔
وہ یہ بھی نہ کہہ سکا کہ۔۔ کیا یہ ڈرائیور بھی یہاں نیا تھا؟
" یا فتاة مجنون۔ "
( اُف پاگل لڑکی )۔
وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔
****************
وہ جیسے ہی گھر پہنچی لاؤنج سے گزرتے سیدھے اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑا پرس غصے سے سامنے پڑی میز پر پٹخا۔
" اف سمجھتا کیا ہے خود کو، میں جاہل ہوں۔۔مجھے کچھ کرنا نہیں آتا۔"
وہ کمرے میں ادھر ادھر ٹہلتی خود سے ہی مخاطب تھی۔
البتہ وہ کچھ حیران بھی تھی' بھلا اسے اس شخص پہ اتنا غصہ کیوں آرہا تھا۔
وہ تو کبھی اجنبیوں سے یوں بحث نہیں کیا کرتی تھی پھر آج۔۔ ویسے وہ آرمی آفیسر گرلز کالج میں کیا کررہا تھا؟
وہ ایک بار پھر اس کے متعلق سوچتے ہوئے بڑبڑائی۔
" ہونہہ! مجھے کیا آیا ہوگا کسی لڑکی کے لئیے۔۔فضول آدمی! "
اب کون جانے؟ کہ وہ واقعی وہاں کسی لڑکی کے لیے آیا تھا۔ مگر وہ لڑکی کوئی اور نہیں اس کی اپنی بہن تھی۔
****************
وہ اسکول سے سيدھا گھر آيا تھا۔ ابھی وہ سيڑھياں چڑھتا اوپر اپنے کمرے کی سمت جارہا تھا۔ کہ مسز صدف کی آواز نے اس کے قدم روک ديئے۔
" آزر بيٹا چھوڑ آئے بہن کو۔" وہ مسکراتے ہوئے اپنے بيٹے سے مخاطب ہوئيں۔
جو ابھی اپنی چھوٹی بہن مريم کو اسکول چھوڑنے گيا تھا' اور وہيں اس کی ملاقات حيات سے ہوئی تھی۔
" جی ممی! " وہ ان کے شانوں کے گرد اپنے بازو حمائل کرتے ہوئے محبت سے کہہ رہا تھا۔
" آپ کچھ کہہ رہیں تھيں؟ "
" ہاں بيٹا روحان کا فون آيا تھا کہہ رہا تھا۔۔تمہارا فون مسلسل بند جارہا ہے تم آجاؤ تو تمہیں کہوں ياد سے اسے کال کرلينا۔"
" شايد موبائل کی بيٹری ڈيڈ ہوگئی تھی۔ميں روحان کو کرلوں گا کال۔ "
روحان آزر کا بچپن کا دوست تھا۔ دونوں ايک دوسرے کے اچھے برے وقت کے ساتھی تھے۔
دونوں نے کويت ميں ايک ہی اسکول سے پڑھا تھا۔ جبکہ اب آزر کے ساتھ روحان بھی پاک فوج ميں تھا۔ اب کی بار دونوں پاکستان سے کويت ساتھ ہی آئے تھے۔
*****************
"اللہ اکبر! "
يہ فقره عربوں کا غصے يا پھر حيرانی اور شاکڈ کی کيفيت ميں کہا جانے والا مخصوص فقره تھا۔
اس وقت وہ اپنے کمرے میں بیٹھا خود سے ہی مخاطب تھا۔
" معلوم نہيں کيسی لڑکی ہے' سر حسن داؤد اتنے ہی نرم مزاج اور پرخلوص شخصیت کے مالک ہيں اور ان کی یہ پوتی۔۔ نکچڑھی! "
آزر کو کچھ دير پہلے ہونے والی اپنی اور حيات کی ملاقات ياد آئی۔ يا پھر بحث کہنا زياده بہتر ہوگا۔ ابھی وہ يہی سوچ کہ زير لب مسکرارہا تھا۔کہ اگر روحان اسے يوں کسی لڑکی سے بات کرتا ديکھ ليتا تو نہ جانے اسے کتنے والٹ کا کرنٹ لگتا۔
اس کی روحان سے بات ہوچکی تھی۔ وہ اسے آج کسی مصروفیت کے باعث کل آنے کا کہہ رہا تھا۔
****************
اس لمحے وہ اپنے کمرے ميں بیٹھی سائنس فکشن کی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ تبھی ماريہ وہاں چلی آئی اور اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے کتاب لے کر تکئے پر اچھال دی۔
اب کے حيات نے نظريں اُٹھا کر اسے ديکھا۔
"ماريہ يہ کيا بدتميزی ہے۔"
وہ منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے بولی تھی۔
"يہ بدتميزی نہيں بھوک ميزی ہے بہن! مجھے بھوک لگی ہے چلو نا ہم کسی اچھے سے ريسٹورنٹ ميں چل کر کھانا کھاتے ہيں۔ "
" اچھا ماريہ بی بی چلتے ہيں۔ " وہ اُس کے اس قدر معصومیت سے کہنے پر دھيرے سے ہنس دی۔
حيات نے رايل بليو کلر کی فراک زيب تن کر رکھی تھی۔ جس کے اوپر سفید موتیوں کا کام تھا' اور ساتھ ہی ہم رنگ دوپٹہ لے رکھا تھا جو کہ اس نے اپنے مخصوص انداز میں حجاب کی طرح سے ليا ہوا تھا۔ جبکہ ماريہ نے بھی اسی کی طرح لمبی سی گلابی فراک پہن رکھی تھی۔
کچھ ہی دير ميں وہ دونوں اورينٹل ريسٹورنٹ (oriental restaurant) پہنچ چکی تھیں۔ جو کہ کويت شہر کا ايک نہایت ہی خوبصورت سا ريسٹورنٹ تھا۔ شام کے وقت اکثر اوقعات لوگ وہيں کھانے پينے آيا کرتے تھے۔ ابھی وہ دونوں وہاں بیٹھيں اپنا آرڈر لکھوارہيں تھيں۔ دفعتاً انہيں اپنے عقب ميں کسی کی آواز سنائی دی۔
****************
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top