Episode 10

وہ صہن میں بیٹھی آسمان کو دیکھ  رہی تھی ۔کتنا خوبصورت تھا؛ آج اسے اپنے نانا جان بہت یاد آ رہے تھے۔

یا خدا ! میری مدد کر ۔ میرے دل سے عمر کا خیال نکال دے یا انھیں میری تقدیر میں لکھ دے۔ آمین!!

وہ دل ھی دل میں دعائیں مانگ رہی تھی۔جب امی کی آواز آئی۔

خدیجہ دیکھ چوہدری صاحب کو کیا ہو گیا ہے۔ اوے جلدی آ ۔

وہ بھاگتی ہوئی کمرے میں گئی ۔ ابا جی کی روح تو کب کی پرواز کر چکی تھی مگر ان کی قسمت میں آخری بار اپنی بیٹی کو گلے لگانا نہیں تھا۔

اماں جی ۔ اماں جی یہ ابا کو کیا ہو گیا ہے ؟ نہیں۔۔ ابا ابا جی! آنکھیں کھولیں ۔۔

وہ بدحواس ہو رہی تھی۔اور ابا جی کو جھنجھور رہی تھی۔

تیرا ابا مر گیا ہے خدیجہ۔ تیرا ابا مر گیا ہے۔۔

نہیں اماں نہیں ابا جی نہیں مر سکتے۔ ابا جی آپ اٹھ جائیں آپ اپنی خدیجہ کو چھور کر نہیں جا سکتے۔ ابھی تو آپ نے میری شادی کرنی تھی۔ اماں دیکھیں ابا جی مسکرا رہے ہیں۔

وہ چلا رہی تھی اورآنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
اماں بھی رو رہی تھیں۔

نہیں خدیجہ! وہ بہت نیک تھے۔ اسی لیے مسکرا رہے ہیں۔

نہیں! آپ ۔۔۔ آپ جھو۔۔۔۔جھوٹ۔۔کہہ۔۔

اور پھر وہ بےہوش ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جب سےاس ہسپتال میں آئی تھی عمر کا دل مٹھی میں بند تھا۔ وہ بار بار خود کو اسے دیکھنے سے روکتا مگر کچھ چیزیں انسان کے بس میں نہیں ہوتیں۔بہت سال پہلے اسے خدیجہ سے بن دیکھے محبت ہوئی تھی مگر شاید وہ اس کی قسمت میں نہیں تھی۔ لیکن اب یہ۔۔۔۔

وہ سوچوں میں کھویا ہوا تھا جب اسے کسی کی آواز آئی۔

excuse me sir!

وہ مرا۔ ڈاکٹر علی کھڑے تھے۔ ان دو سالوں میں وہ سئنیر ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر علی اس سے ایک سال جونئر تھے۔

جی۔
عمر نے کہا۔

سر وہ جو پچھلے ہفتے پیشینٹ آئی تھیں ان کو ہوش آ گیا ہے۔

علی خوشی سے بتا رہا تھا۔

کیا سچ؟

اس میں جیسے کسی نے نئی روح پھونک دی تھی۔

یس سر۔

الحَمْد للهْ‎۔ دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ وہ ہوش میں آ جائے گی۔ تم یہ فارم فِل کرو ۔ میں اسے دیکھتا ہوں۔

وہ اس کے کمرے کی طرف بھاگا۔
کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ چھت کو گھور رہی تھی۔ وہ ہلکا سا کھنکارا۔ تو وہ لڑکی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

میں کہاں ہوں اور یہاں کیسے آئی؟؟

اس لڑکی نے پوچھا۔ عمر چلتا ہوا اس کے بیڈ کے قریب آیا۔

آپ کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا اور کوئی آپ کو یہاں چھوڑ گیا۔

مم۔۔میرا بیگ کہاں ہے؟؟

وہ اس الماری میں ہے ۔ دیکھیں آپ آرام کریں اور باتیں نہ کریں۔ آپ کی ٹانگ اور سر پر چوٹیں ہیں۔

عمر نے کہا۔

آج کیا دن ہے؟

وہ ٹیکے میں دوائی بھر رہا تھا جب اس لڑکی نے پوچھا۔

جمعرات۔

کیا؟ مجھے یہاں آئے پانچ دن ہو گئے ہیں۔

وہ پریشان ہو گئی۔

آپ کا نام کیا ہے؟

عمر نے پوچھا تو اس لڑکی نے اسے دیکھا۔ پھر ذرا دیر بعد بولی۔

حرا۔

اوہ اچھا۔ چلیں آپ لیٹ جائیں میں آپ کو یہ اِنجیکشن لگا دوں۔

نہیں پلیز مجھے یہاں سے جانے دیں۔

آپ کہاں رہتی ہیں؟

عمر کو ناجانے کیوں اس سے بات کرنا اچھا لگ رہا تھا۔

م۔۔۔میں۔۔۔

وہ اٹکی۔

میں کہیں نہیں رہتی۔ میرا کوئی نہیں ہے۔

وہ اب کی بار بھیگی آواز سے بولی تھی۔عمر کے دل کو کچھ ہوا۔

اوہ! سوری۔ آپ یہاں سکون سے رہیں۔ اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔

اب سکون نصیب میں کہاں ہے۔ خیر آپ یہ لگا دیں۔ میں بے ہوش رہوں تو ہی بہتر ہے۔ لیکن ڈاکٹر میرے پاس آپ کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

آپ بےفکر رہیں۔

عمر نے کہا اور اسے اِنجیکشن لگا دیا۔ وہ آہستہ آہستہ غنودگی میں چلی گئی۔ عمر اسے دیکھتا رہا پھر باہر نکل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جب ہوش میں آئی تو اس نے اونچی اونچی آواز میں رونے کی آوازیں سنی۔ اس نے ادھرادھر دیکھا وہ اپنے کمرے میں تھی۔
(یہ کون اتنا اونچا اونچا رو رہا ہے؟) وہ اٹھی اور باہر آ گئی۔ سامنے کا منظر چونکا دینے والا تھا؛ صحن میں ایک ہجوم تھا لگتا تھا پورا گاوں اکٹھا ہو گیا تھا۔ کچھ لمحوں بعد اسے سب یاد آ گیا۔ وہ آہستہ 
آہستہ چلتی صحن کے وسط  میں آ گئی۔ کسی عورت نے اماں کو گلے سے لگایا ہوا تھا۔اس نے ادھرادھر دیکھا مگر اسے ابا جی کہیں نظر نہ آئے۔

اماں جی! میرے ابا کہاں ہیں؟

اس نے چیخ کر پوچھا۔ سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔

دھی رانی ادھر آ !

پری کی اماں نے اسے بلایا۔ مگر وہ ایک قدم بھی نہ اٹھا پائی۔

اماں جی! میرے ابا کہاں ہیں؟ بتائیں ناں!

وہ اسی انداز میں چیخی۔۔۔

پتر تیرا باپ مر گیا ہے۔

یہ وہ الفاظ تھے جو وہ کبھی نہیں سننا چاہتی تھی۔
وہ اونچی اونچی سانس لینے لگی۔

دیکھ خدیجہ یہ الله کے فیصلے ہیں۔ ہم تو اس کے آگے بالکل بےبس ہیں۔ چودهری صاحب بہت اچھے انسان تھے۔ دیکھ پورا گاوں رو رہا ہے۔ وہ ہمارے گاؤں کی سب بچیوں کے باپ تھے۔ آج پورا گاؤں یتیم ہوا ہے۔ تو اکیلی نہیں ہے۔

ایک عورت نے کہا۔

میں پوچھ رہی ہوں کہ میرے ابا جی کہاں ہیں؟؟

وہ اتنے زور سے چیخی تھی کہ دور کہیں پرندوں نے اڑان بھر لی۔

انھیں دفنانے کے لیے لے گئے ہیں۔

اسے نہیں پتا کس نے کہا تھا۔ وہ دھوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔
لیکن سامنے سے مرد آ رہے تھے۔

اوے خدیجہ تو کہاں جا رہی ہے؟

عاصم نے پوچھا۔

بھائی مجھے ابا سے ملنا ہے۔ وہ میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔

پاگل تو نہیں ہو گئی تو! وہ مر چکے ہیں۔ اور تو ہی ان کی قاتل ہے۔۔

کچھ لوگوں سے آپ کو ہمیشہ دھتکار ہی ملتی ہے۔

مگر بھائی!

وہ کہہ رہی تھی مگرعاصم نے اس کی بات کاٹ دی۔

چل اندر۔اور یہ ناٹک بند کر۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی اسے پرمانینٹ ہوئے دو دن ہی ہوئے تھے کہ اسے فون پر چودهری صاحب کے فوت ہونے کی خبر ملی۔ کچھ لمہوں تک اسے یقین ہی نہ آیا۔ مگر یقین نہ کرنے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی ناں؟

اس کی ڈیوٹی کی وجہ سے وہ جنازہ کے بعد پہنچا تھا۔ گاؤں پر ایک عجیب سا سکتہ طاری تھا۔ عجیب سی خاموشی تھی جو کاٹ کھانے کو دھورتی تھی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

after a great effort😍😍
waiting for your feedback...

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top