وہ آنکھ جو جھکی نہیں

ہے ملال جسکا مجھے۔۔

وہ آنکھ جو جھکی نہیں

وہ آنکھ جو ڈری نہیں

وہ دل جو پگھلا نہیں

وہ سانس جو تھمی نہیں

وہ سوچ جو مثبت نہیں

وہ نفس جو اچھا نہیں

ہے ملال اسکا مجھے،

یہ ملال ختم ہوتا نہیں۔۔۔

وہ یونی کی سیڑھیوں پر بیٹھا دونوں ہاتھوں میں سر دیے ہوئے تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہوگیا؟ وہ اپنے آپ کو کیا دلیل دیگا کہ اس نے کیا، کیا ہے؟ اس کی زندگی اب کبھی نارمل نہیں ہوسکتی. وہ انہیں سوچوں میں گِھرا ہوا تھا جب اس کی پیٹھ پر ہلکی سی تھپکی دے کر اس کا دوست اس کے برابر میں آ بیٹھا۔۔
"کیا ہوا یار ایسے کیوں بیٹھا ہوا ہے؟" اس نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا اس کا دوست اس کے ساتھ ہی آ بیٹھا تھا۔۔ لمحہ بھر کو وہ اس سے لپٹ کر رونے لگا۔۔ آنسوؤں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو لہروں کے جوش سے بہہ رہا تھا۔۔ اس کا دوست ششدر تھا۔۔ یہ کیا ہو گیا؟ یہ ایسے کیوں رو رہا ہے؟ "کیا ہوا بھائی کیوں رو رہا ہے۔۔ سب کچھ ٹھیک تو ہے؟" اس نے اسے خود سے الگ کیا اور اسکا بھیگا چہرہ پوچھنے لگا۔۔
"کیا ہوا ہے میری جان؟ کچھ بول تو سہی کیوں رو رہا ہے؟" وہ بہت بے چین ہو گیا تھا. اس کا دوست ایسے رو رہا تھا اس کے دل کو کچھ ہو رہا تھا.. اس نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اس کی آنکھوں میں صدیوں کا درد تھا۔۔ ایسی سرخ آنکھیں اس نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تھیں۔۔ وہ اپنے دوست کو دیکھتا رہا اس کے اندر بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔۔ کیا کہتا؟ کیا،کیا ہے اس نے کیسے بتاتا؟ وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا..
"میں نے بہت غلط کیا ہے.. مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اللّٰہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے۔۔ وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔" وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے رو رہا تھا۔۔ اس کے دوست کو لگا کسی نے اسے برف کی سیل بنا دیا ہے۔۔
"معاف نہیں کرے گی... آخر اس نے ایسا کیا کیا ہے؟" وہ پریشان سا اسے دیکھنے لگا.. کچھ لمحے گزرے۔۔ وہ ایسے ہی روتا رہا.. وہ یونی کے کونے میں سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔ وہاں پر لوگوں کا رش نہیں تھا اِکّا دُکّا لوگ نظر آرہے تھے جو اپنے کام میں مصروف تھے۔۔

"رونا بند کرو اور بتاؤ ہوا کیا ہے؟" اس کا دوست اسکی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا..

"اس نے مجھے منع کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ یہ گناہ ہے! میں نہیں مانا. میں نے اس کے ساتھ غلط کیا. میں نے اس کے ساتھ زبردستی کی۔۔ وہ یہ گناہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ اس کے لیے کسی شخص سے بات کرنا بھی زنا تھا۔۔" وہ آنسوؤں کے درمیان بولا۔۔

کچھ لمحے اس کا دوستوں اسے حیرانی کے عالم میں دیکھتا رہا۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔ اس نے کبھی اس سے نہ ایسی امید کی تھی اور نہ ہی اس نے کبھی ایسی کسی حرکت کے بارے میں اسے بتایا تھا۔۔ ورنہ وہ اسے ضرور روکتا مگر وہ کیا روکتا اصل روک تو ہمارا ضمیر لگاتا ہے۔۔ کیا اس کے ضمیر نے اسے نہیں روکا تھا؟ نہیں مجھے اسے جج نہیں کرنا چاہیے.. مجھے اس کی پوری بات سننی چاہیے۔ اس نے اسے بولنے دیا وہ کہنا شروع ہوا۔۔
"یونی کے شروع کے دن تھے. وہ مجھے اچھی لگی. وہ ایک دن میرے پاس سے گزر رہی تھی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا. وہ ہر بڑا گئی. اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور میری طرف غصے اور حیرانی سے دیکھنے لگی۔ میں مسکرا رہا تھا۔ میں اسے بہت پسند کرتا تھا مگر میرا طریقہ بہت غلط تھا۔ میں نے اس سے اس کا نمبر مانگا۔ اس نے نہیں دیا اور جھڑک دیا۔ اب بات میری انا پر آئی تھی۔ میں اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا پھر میں نے اس کے آئی ڈی کارڈ کے ذریعے سے اس کا نمبر نکلوایا اور اسے میسج کیا۔۔ میں اسے روز میسج کرتا تھا مگر وہ جواب نہیں دیتی تھی۔ دو ہفتے گزر گئے جب اس کا بالکل بھی جواب نہیں آیا تو ایک دن میں نے اسے یونی کے سب سے اوپر والے کوریڈور میں سب کے جانے کے بعد زبردستی روک لیا۔۔ میں نے اسے دھمکایا۔ وہ اکیلی تھی اور وہ ڈری ہوئی تھی۔۔ میں نے اسے اور ڈرایا۔۔ میں اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ میں بس اس سے رابطے میں رہنا چاہتا تھا۔۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر وہ مجھ سے بات نہیں کرے گی۔ تو میں اس کا وہ حال کروں گا جو وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔۔ وہ میرے سامنے گڑگڑائی میں نہیں مانا۔۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مجھے جواب دو گی۔۔ مجھ سے بات کرو گی۔۔۔ اس نے کہا کہ میں پٹھان گھر سے تعلق رکھتی ہوں اور میرا رشتہ بھی ایک پٹھان سے طے ہے۔۔ اگر انہیں ذرا بھنک بھی لگ گئی تو وہ مجھے جان سے مار دینگے ۔ اور یہ گناہ ہے۔ مجھے یہ گناہ نہیں کرنا۔۔ تم بھی توبہ کر لو تم بھی یہ گناہ چھوڑ دو۔۔ میرے سر پر نہ جانے کیسا بھوت سوار تھا؟ میں نہیں مانا۔۔ میں نے اس کی ایک نہیں سنی۔۔ اگلے دن میں نے اسے میسج کیا اس کا جواب آیا۔۔ میں اس سے بات کرتا رہا۔۔ وہ زبردستی مجھے جواب دیتی تھی۔۔ میں نے اسے کئی بار ملنے بلایا۔ وہ نہیں آئی۔۔ تیسرے دن میں نے اسے دوبارہ سے ڈرایا کہ اس بار اگر میرے کہنے پر وہ مجھ سے ملنے نہیں آئی۔۔ تو میں اس کے گھر والوں کو اس کے بارے میں بتا دوں گا کہ تم مجھ سے بات کرتی رہی ہو اور میرے پاس سارے میسج محفوظ ہیں۔۔۔ اگرچہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی مجھ سے" اس نے چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔ وہ بہت رو رہا تھا۔۔ اب اس کی آنکھیں درد کرنے لگی تھیں۔۔ "مگر وہ ڈری ہوئی تھی۔۔۔۔ جو چیز اس کی نظر میں گناہ تھی وہ اس کے گھر والوں کی نظر میں ایسا کفر تھی کہ وہ اس کے لیے اسے جان سے مار دیتے۔۔ میں نہیں مانا میں نے نہیں سنی۔۔۔" وہ سسکیاں بھرتے ہوئے آنسوؤں کے درمیان بول رہا تھا۔۔ وہ کہہ رہا تھا مگر اس کا سانس۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سانس۔۔۔۔ رُک رہا تھا۔۔ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے مٹھی میں بھینچ لیا۔۔ اسے تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔ ہاں اسکا دل رو رہا تھا۔۔
"وہ مجھ سے ملنے بھی آ گئی" وہ ایک دم چیخ کر رونے لگا۔۔۔ اس کے دوست نے اسے سینے سے لگا لیا۔۔ "اور۔۔۔ اور ۔۔اور م۔م میں۔۔ میں اکثر اسے ملنے بلاتا رہا۔۔ وہ کسی نہ کسی بہانے سے آتی رہی اور ایک دن اس نے مجھے میسج کیاآآآ۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ پھر بے ساختہ چیخ اٹھا۔۔ تکلیف برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔۔۔ "وہ ۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ایک۔۔ک خط کا اسکرین شارٹ تھا۔۔ جس میں لکھا تھا۔۔۔۔" وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔ "میں کسی لڑکے سے بات کرنے کو بھی گناہ سمجھتی ہوں۔ اور یہ گناہ میرے لیے معافی کے لائق نہیں ہے۔۔ میں مجبور تھی مجھے دھمکایا گیا تھا مگر میں نے کبھی کسی شخص کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔۔ مگر ہاں! رات کی تاریکی میں، میں نے اس سے بات کی۔۔۔۔ دن کے اجالے میں ، میں اس سے ملی بھی۔۔۔ یہ سب اب میری برداشت سے باہر ہے۔۔۔ میں یہ سب برداشت نہیں کر پا رہی۔۔ میرے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔ میں اب کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گی۔۔۔ آپ لوگوں سے ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔ میں اس شخص کا نام نہیں بتاؤں گی کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ اسے سزا وہ خود دے۔۔ مجھے اللہ معاف نہیں کرے گا۔۔۔ میں بھی خود کو معاف نہیں کرونگی۔۔ اور اس کی یہی سزا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں اور وہ زندگی بھر زندہ رہ کر اس ملال کے ساتھ جئے کہ وہ کبھی مجھ سے معافی نہیں مانگ سکا اور میں نے اسے معاف کر دیا۔۔۔" اس کے منہ سے ایک دم خون نکلنے لگا۔۔ اس کا دوست اک دم گھبرا کر اس کی طرف بڑھا۔۔ مگر اس نے اسے ہاتھ سے دور کردیا۔۔ اور پھر سرخ آنکھیں آسمان کی جانب اٹھائیں اور اپنی بات جاری رکھی۔۔ "وہ اس ملال میں ہر دن مرے گا اور ہر دن روئے گا.. اس کا ضمیر اسے جینے نہیں دے گا اور اس کی مضبوط ارادی اسے مرنے بھی نہیں دے گی.. میں کمزور ہوں۔۔ ہاں! میں بزدل ہوں.. اسی لیے میں اپنے آپ کو ختم کر رہی ہوں.." آخری جملہ کہتے ہوئے وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔ وہ زمین میں دھنس جانے کو تھا۔۔ وہ جینا نہیں چاہتا تھا۔۔ مگر وہ موت کو ایسے گلے بھی نہیں لگانا چاہتا تھا۔۔ اسے ڈر لگ رہا تھا۔۔ مرنے کے بعد وہ کیسے ان آنکھوں کا۔۔۔۔ ان ہاتھوں کا۔۔۔ اس دل کا حساب دے گا۔ وہ کیسے۔۔۔؟ کیسے؟ ان گناہوں کا حساب دے گا.. اس آنکھ کا حساب ۔۔ وہ آنکھ جو جھکی نہیں۔۔۔۔۔ اس کے دوست نے کچھ نہیں کہا سوائے اس کے۔۔۔ کہ "اللّٰہ غفور الرحیم ہے۔۔ اللّٰہ معاف کرنے والا ہے۔۔۔ بہت رحیم ہے۔۔۔ تو یہ مت سوچ کہ وہ تجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔ ہاں اس لڑکی کے ساتھ غلط کیا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے! مگر تو اب پچھتا رہا ہے۔۔ تجھے اس بات کا احساس ہے۔۔ اللّٰہ تجھے معاف کردے گا۔۔ تو اس سے معافی مانگ کر تو دیکھ۔۔ چل! ہم مسجد چلتے ہیں.. اللّٰہ کے سامنے گڑگڑا کر تو معافی مانگ۔۔ ہم امام صاحب سے کہیں گے کہ وہ ہمیں کچھ قرآن پڑھ کر سنائے۔۔ دیکھنا تیرے دل کو سکون آ جائے گا۔۔" وہ مسلسل نفی میں سر ہلا رہا تھا۔۔
"وہ مجھے کبھی بھی معاف نہیں کرے گا.."

"وہ معاف کرے گا تجھے۔۔ تو چل تو سہی۔۔" اس کے دوست نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا.. وہ ہرگز جانے کو تیار نہیں تھا..
"میں کیسے جاؤں گا اسکے سامنے..؟ مجھے ڈر لگ رہا ہے اس سے... میرا دل کانپ رہا ہے.. میرا سینہ پھٹ جائے گا درد سے.... میں نہیں جا سکتا... میں اس کے سامنے کھڑے ہونے کے لائق نہیں.." وہ کہہ رہا تھا۔ اس کی زبان تک لرز رہی تھی۔۔ اس کے پورے وجود میں ایک آگ سی لگی تھی۔ وہ جھلس رہا تھا اس آگ میں۔۔۔ ملال اور پچھتاوے کی آگ کی ایسی تپش ہے تو وہ سوچنے پر مجبور تھا کہ دوزخ کی آگ کا کیا عالم ہوگا؟ یہ خیال ذہن میں آتے ہیں اس نے دونوں ہاتھ میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور زور زور سے کہنے لگا "اللّٰہم اجرنی من النار۔۔۔! اللّٰہم اجرنی من النار۔۔۔!" اس کی آواز میں صدیوں کا کرب تھا۔۔ وہ اپنے آپ کو قابو میں نہیں کر پا رہا تھا اس کا دوست اسے بے حد رحم اور ہمدردی سے دیکھ رہا تھا۔۔ یہ ملال اور پچھتاوے کی آگ تھی، اسے توبہ اور اللہ کا رحم ہی بجھا سکتا تھا۔۔۔!

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top