زندگی بے مطلب سی

وہ موبائل پر چیٹنگ کر رہی تھی۔۔ صبح کو ہوئی امی سے منہ ماری اسے ابھی تک یاد تھی۔ذہن کے پردے پر ایک فلم کی طرح چل رہی تھی۔۔ وہ چیٹنگ کرتے ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہی تھی۔۔
"چل اب بتا۔ صبح کیا ہوا تھا؟" اس کی دوست نے اسے خوب ہنسانے کے بعد سوال کیا۔۔
"کچھ نہیں یار۔۔ سارا دن امی بس ہر بات کو لے کر ٹوکتی رہتی ہیں۔۔ موبائل استعمال مت کرو، کھانا بنانا سیکھو، باہر جاتے ہوئے اسکارف لو۔ اففففف۔۔ میں نے پھر آج آگے سے سنا دی۔" اس نے اکتاہٹ میں غصے میں بھرا جواب لکھا۔
"تو کیا ہوا یار۔ امی ہیں تیری۔ تو اگنور کردیا کر تجھے آگے سے جواب دینے کی کیا ضرورت تھی۔۔" دوست نے سمجھداری سے سمجھانا چاہا۔۔
"تجھے پتا نہیں ہے۔۔ ان کی فضول باتوں سے مجھے ڈپریشن ہوتا ہے۔۔"وہ منہ بسوڑتے ہوئے لکھنے لگی۔۔
"تو نے کہا کیا؟" دوست کو کچھ تجسس ہوا۔۔
"میں نے کہا کہ خود بھی تو ایک چادر اوڑھ کے گھر سے باہر جاتی ہیں۔ طرح طرح کے مردوں سے بات کرتی ہیں۔ تب آپکو خیال نہیں آتا۔ تب یاد نہیں آتا اللّٰہ رسول۔۔ بس میرے معاملے میں بولتی رہیں۔۔ شوہر کو تو آپ کھا گئی ہیں۔ ضرور آپ کی ہی وجہ سے بابا کو اٹیک آیا ہوگا۔ ایسے ہی انہیں بھی پریشان کرتی ہوں گی آپ۔۔" اس نے لکھ بھیجا۔۔ چند لمحوں تک اسکی دوست کا جواب نہیں آیا۔۔ وہ کچھ پریشان ہوئی۔۔
"ایک بات کہوں۔"بہت دیر بعد اس کی دوست کا روکھا سا پیغام موصول ہوا۔۔
"بول" اس نے سینڈ پر کلک کیا۔۔
"تیری امی نے تجھے اکیلے پالا۔ دھوپ چھاؤں میں تیری حفاظت کی۔ تجھے مردوں کی نظریں نہ جھیلنی پڑے اس لیے وہ ہر کام خود کرتی رہیں۔ تجھے ہر طرح سے سنوارنے کی کوشش کی لیکن افسوس ۔۔ تو سنور نہیں سکی۔۔" ایک افسوس کرتا ایموجی ساتھ لگا کہ وہ دوست شاید اسے کچھ یاد دلانا چاہ رہی تھی۔۔ اس کی ماں کے احسانات، محبت، شفقت۔۔۔ پر وہاں تو جیسے سنگدلی عروج پر تھی۔۔
"میں تجھ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔۔"رومیسا کا موڈ پھر خراب ہوگیا تھا۔ وہ موبائل بستر پر غصے سے پھینکتی کمرے سے باہر نکل آئی۔۔ کچن میں پانی پینے کے لیے آئی تو یونہی خیال آیا کہ ماں کے کمرے میں زرا جھانک لے۔ وہ کمرے کی طرف بڑھی اور دھیرے سے دروازہ کھولا۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے کا منظر رات کے دوسرے پہر میں کچھ اس طرح واضح ہوا کہ رومیسا کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی ہو۔۔
"امی ی ی ی۔۔۔۔۔" وہ دیوانہ وار چیختی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی جہاں بیچ کمرے میں چھت سے لگے پنکھے سے اس کی ماں لٹکی ہوئی تھی۔ رومیسا کا لال دوپٹا ہی انہوں نے رسی کے طور پر استعمال کیا تھا۔ وہ اپنی ماں کے پیروں سے لپٹ کر چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔۔
"امی ی ی ی۔۔۔۔۔۔! یہ آپ نے کیا، کیا؟ میرا آپ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ امی ی ی ی ی۔۔۔ "چیخ چیخ کر وہ نڈھال ہو رہی تھی۔۔ ان کے پیروں کو جب وہ ہلا رہی تھی تو اچانک ان کے ہاتھ سے کوئی چیز اس کے قدموں میں جا گری۔۔ وہ جھکی اور چکراتے سر کے ساتھ وہ چیز اٹھائی۔ اس کے شعور نے لاشعور کو بتایا کہ وہ کاغز ہے چند لمحے وہ سُن سی کھڑی رہی پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔
"میری پیاری بیٹی!
میں نے زندگی میں کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا۔ تم بہت چھوٹی تھی اس وقت جب تمہارے بابا میرا ساتھ چھوڑ گئے۔۔ ہماری محبت کی شادی تھی۔ اسی لیے تمہارا نہ کوئی ددھیال ہے نہ ہی ننھیال۔۔ تمہارے بابا کو مونگ پھلی سے الرجی تھی اور جس دن انہیں اٹیک آیا اس دن انکے کسی دوست نے انہیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی تھی۔ کھانا وہ کھا کہ جب گھر آئے تو انہیں سانس لینے میں تنگی ہو رہی تھی۔۔ میں نے اس دن لال رنگ پہنا تھا سہاگ کا رنگ لال رنگ خون کا رنگ لال رنگ۔۔۔ انہیں بہت پسند تھا۔۔ وہ میرے پاس آ کر بیٹھے میری تعریف کی اور میرا ہاتھ پکڑ کر انہوں نے کہا: میں چاہتا ہوں میری بیٹی میری بیوی جیسی ہو۔ یہ کہتے ہوئے انکی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے۔۔ میں انہیں دیکھتی رہی۔ پھر انہوں نے محبت سے میرے سر پہ بوسا دیا اور کہا: میری بیوی جیسی امانتدار، وفادار اور باحیا ہو جائے۔۔ چند ہی لمحے ہوئے اور وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر درد سے کراہنے لگے۔۔ میں نے انہیں کلمہ پڑھایا تھا۔۔" رومیسا ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ اس کی واحد سرپرست اسے چھوڑ گئی۔۔ ملال سا ملال تھا اسے اپنے لفظوں پر۔۔۔
"ان کے جانے کے بعد میں نے تمہیں اپنی کل کائنات بنا لیا۔ تمہارے لیے جینے لگی۔۔ تمہاری خوشیاں لینے جاتی تھی ایک چادر اوڑھ کر۔۔ میں برقا نہیں پہن سکتی تھی۔ کیونکہ تمہارے بابا کے جانے کے بعد مجھے سانس لینے میں تکلیف ہوتی تھی۔۔ دم گھٹتا تھا میرا برقے میں۔ میں مر نہیں سکتی تھی کیونکہ تمہیں زندگی دینی تھی۔ پر اب تم بڑی ہو گئی ہو۔ بہت بڑی ہو گئی ہو۔۔ اب تمہیں میری ضرورت نہیں ہے۔۔ اب میں مر جاؤں تو تمہاری زندگی آسان ہو جائے گی۔۔" بے سُدھ بے جان پڑی تھی وہ اپنی مای کی لاش کے نیچے۔۔ نہ اس کی ماں واپس آ سکتی تھی اور نہ ہی اس کا ملال کبھی ختم ہونے والا تھا۔۔

درد کی حدوں کو چیر دیتا ہے
لغت میں جسے ملال کہتے ہیں۔۔

ختم شد

امید کرتی ہوں آپ کو یہ افسانہ پسند آئے گا۔۔ ووٹ اور کمنٹ ضرور کیجئیے گا۔۔ #AMR۔
شکریہ۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top