اے آنکھ تیری خیانت

اے آنکھ تیری خیانت نے، کیسا دیا ملال مجھے۔۔

ہر رات سوتے جگتے، میں اب تیرے شر سے پناہ مانگوں گی۔۔

وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا جس کی اسکرین سے چمکتی روشنی سے اس کا چہرہ روشن ہو رہا تھا۔ وہ مسلسل رو رہی تھی اس کا چہرہ بھیگ چکا تھا۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر کوئی ویڈیو چل رہی تھی۔ وہ اپنی آنکھیں بند کرتی پھر کھول دیتی، مسلسل رو رہی تھی۔ اسے تکلیف ہو رہی تھی اور اس تکلیف کو ختم کرنے کا اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے جھٹ لیپ ٹاپ بند کردیا اور بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے فوراً شاور لیا اور وضو کرکے جانماز بچھائی۔ وہ بہت رو رہی تھی اور اب اس کی سسکیاں بلند ہورہی تھی اس نے رکعت باندھی۔ سورہ فاتحہ شروع کی مگر اس کے الفاظ ٹوٹ رہے تھے۔ اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ اس کے سامنے وہ ویڈیو آنے لگی اور کئیں ویڈیوز آنے لگیں۔ وہ پھر اپنے خیال کو جھٹکنے لگی اور اپنا دھیان نماز میں لگانے لگی۔ اس نے پھر سے سورہ فاتحہ شروع کی پھر اس کی زبان لڑکھڑا گئی الفاظ ٹوٹ گئے۔ سورہ فاتحہ مکمل نہ ہو سکی۔ بار بار اس کے سامنے اس کے گناہ آ رہے تھے۔ اس نے ہار نہیں مانی پھر سے بسم اللہ پڑھی، پھر سے سورہ فاتحہ شروع کی مگر ندارد۔ وہ اھدنا الصراط پہ آ کر الفاظ بھول جاتی تھی۔ وہ اور زور زور سے رونے لگی۔ اب اس کی برداشت ختم ہو رہی تھی وہ جھٹ سے سجدے میں جاگری۔ جب سجدے میں گئی تو آنسوؤں سے چہرہ تر تھا۔ وہ روتے ہوئے مسلسل کہہ رہی تھی۔ "اللہ مجھے معاف کر دیں۔ اللہ مجھے معاف کردیں۔ میں نے بہت کوشش کی مگر نہیں کرپارہی میں کیسے خود کو روکوں؟ میں کیسے خود کو بچاؤں؟ یا اللہ! تو ہی مجھے بچا لے." وہ رو رہی تھی اور کمرہ اس کی سسکیوں سے بھر چکا تھا. یکایک دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ وہ پھر رونے لگی، کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور اسے سجدے سے اٹھایا تھا۔ اس کی نماز نہیں ہوئی اس کا سجدہ نہیں ہوا تھا۔ وہ قبول نہیں کی گئی، ہاں! وہ قبول نہیں کی گئی. اس نے بھیگی پلکیں اٹھائی سامنے اس کی بہن اس کے کندھے پر جھکی ہوئی تھی۔ وہ اسے بہت دکھ اور ملال سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ ایسے کیوں روتی ہے؟ مگر اس کی زبان الفاظ سے خالی تھی .. وہ جانتی تھی جب بات اللہ سے شروع کردی جائے تو پھر انسانوں سے نہیں کہنی چاہیے۔ اسکی بھیگی آنکھوں میں بہت دکھ اور ملال تھا۔ جیسے اس نے خود ہی اپنا اعتماد توڑا ہو۔ وہ اپنی بہن کو دیکھ کر اس سے لپٹ گئی اور زور زور سے رونے لگی۔ اب بلند آواز کمرے کے سکونت کو توڑ رہی تھی۔ وہ کئیں لمحے ایسے ہی روتی رہی پھر اسکی بہن نے اسے خود سے الگ کیا اور اس کا بھیگا چہرہ صاف کیا۔ اسے اس پر بہت ترحم آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس کے گناہ اس کی بہن پرافشاں ہوگئے تو کیا وہ اس کے ساتھ ایسے بیٹھے گی؟ کیا وہ اس سے محبت کرے گی؟ جواب ہمیشہ اسے 'نہ' میں ہی ملتا تھا۔ اسے لگتا تھا وہ خود بھی اپنے آپ سے نفرت کرنے لگی ہے۔ کچھ گناہ ہمیں اپنی ہی نظروں میں گرا دیتے ہیں۔ مگر اللہ کتنا غفور الرحیم ہے۔ کسی کے سامنے اس کی بات نہیں کی، اس کا راز نہیں کھولا، اس کے گناہوں کو سب کے سامنے لا کر اسے رسوا نہیں کیا۔۔۔ "میں نہیں جانتی تم کیوں رو رہی ہو؟ کیا بات ہے جو تمہیں اس طرح بے چین کیے ہوئے ہے۔ میں تم سے پوچھوں گی بھی نہیں ۔۔ کیونکہ جو بات اللہ سے کر دی جائے، جو اس کے سپرد کر دیا جائے اسی لوگو کے سامنے نہیں کہا جاتا۔ خاموش ہو جاتے ہیں۔۔ اللہ کی مدد اور اس کے رحم کا انتظار کرتے ہیں۔۔ وہ بہت غفور الرحیم ہے۔۔ تمہارے آنسوؤں کو یوں ضائع نہیں ہونے دے گا۔۔۔ میں تمہیں بس اتنا کہوں گی کہ گناہ پر صبر کرنا بھی ثواب ہے۔۔ اپنے گناہوں پر صبر کرنا سیکھو! اللہ تمہارے دل کو سکون عطا کرے اور تمہارے ہر ملال کو ختم کردے"۔جب وہ بہت رو چکی تو اس کی بہن نے اس سے کہنا شروع کیا۔ اپنی بات کے اختتام پر اس نے اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ جب ہم ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں تو ہم اکیلا پن چاہتے ہیں۔۔۔ صرف اللہ کو اپنے پاس چاہتے ہیں۔۔ وہ جانتی تھی اسی لئے اسے اس کے رب کے سپرد کرکے چلی گئی۔۔ اس کے جاتے ہی وہ پھر رونے لگی زار و قطار رونے لگی آنکھوں کے نیچے واضح ہلکے پڑھ رہے تھے چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور رونے کی وجہ سے اب ناک سے پانی نکلنے لگا تھا۔۔ وہ آج کتنا روئے گی؟ اور وہ کتنا رو چکی ہے؟ اسے اس بات کا ذرا خیال نہیں تھا.. وہ بس اپنے اللہ کو واپس چاہتی تھی۔۔ وہ پھر سے سجدے میں گر گئی ۔۔ اس سے تو ایک سورۃ تک نہیں پڑھی گئی۔۔ وہ بار بار ہدایت مانگنے سے روک دی جاتی۔۔ اس کی زبان کو روک دیا جاتا۔ جیسے اس کے دل پر ہی قفل لگا دیا گیا ہو۔۔ وہ سجدے میں گری یہی سوچ رہی تھی۔۔ اسے اللہ سے بہت ڈر لگ رہا تھا۔۔ اس سے زیادہ اسے اپنے آپ سے نفرت ہو رہی تھی۔۔ اللہ تو غفور الرحیم ہے مگر کیا وہ خود سے کبھی نظریں ملا پائے گی؟ کیا وہ کبھی خود کو معاف کر پائے گی؟ وہ سجدے میں گری پڑھ رہی تھی۔ "اللہم مغفرلی! اللہم مغفرلی! اللہم مغفرلی!" کسی احساس کے تحت اس نے سجدے سے سر اٹھایا اور شیلف سے قرآن اٹھا لائی۔۔ وہیں جا نماز پر بیٹھ کر اس نے قرآن کھولا۔ قرآن کھولتے ہی سب سے پہلی نظر اس کی جس آیت پر پڑی وہ تھی۔۔ "والله يحب التوابين""اور اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے" اس کے آنسو پھر بہنے لگے۔ وہ پھر زار و قطار رونے لگی۔۔ اس نے قرآن بند کرکے اسے سینے سے لگا لیا۔۔ کتنی محبت کرتا ہے اس کا رب اتنے بڑے گناہ کے بعد بھی وہ اس سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے وہ کیسے ہے اتنا رحیم؟؟ ہاں! وہ ہے اس لائق کے اسے رب العالمین پکارا جائے ۔۔ ہاں وہ ہے اس لائق کے اپنا آقا، مولا اور والی مانا جائے۔۔۔ ہاں! وہ ہے اس لائق کے اسکی عبادت کی جائے۔۔۔ اس سے مانگا جائے۔ ۔۔ روتے روتے اسکی نظر بند پڑے لیپ ٹاپ پر پڑی۔۔ اسکے لب بھینچ گئے۔۔ وہ کچھ سوچ کر اٹھی اور قرآن کو شیلف پر رکھا۔۔ پھر خون بھری نظروں سے لیپ ٹاپ کو دیکھتی قدم قدم چل کر اس تک آئی۔۔۔ اس نے لیپ ٹاپ اٹھایا اور پوری شدت سے اسے دیوار میں دے مارا پھر اپنی مٹھیاں بھینچ کر ٹوٹے پڑے لیپ ٹاپ کو دیکھتی رہی۔۔ اسکی آنکھ سے ننھے ننھے قطرے گر رہے تھے۔۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے جھک گئی اور زور زور سے رونے لگی۔۔ کیا مل گیا اسے یہ کر کے؟ کیا حاصل کرلیا اسنے؟ کیوں کی اس نے آنکھوں کی خیانت؟ آنکھوں کی خیانت سے بھلا کیا ملتا ہے؟ نہ دنیا میں سکون اور آخرت میں ایسا برا بدلا... اس کا ملال ہر چیز پر حاوی تھا، ہر احساس پر ہر دلاسے پر۔ ۔ وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ اللہ معاف کرنے والا ہے اور یہ بھی سوچ رہی تھی کہ کتنی بار معافی مانگ کر اس نے اپنی توبہ کو توڑا ہے۔۔ اب کس منہ سے جا رہی ہے اللہ کے سامنے؟ کیا منہ دکھائے گی وہ اللہ کو حشر کے میدان میں؟ اس کا سینا درد سے پھٹ رہا تھا۔۔۔ اس نے سسکیوں کے درمیان کرب سے پکارا "اللہ............." اور چھت کو دیکھنے لگی ۔۔۔ اسکے بھیگے چہرے پر سالوں کا ملال تھا۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top