علم کا تعلق صبر سے

واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عالم کی تلاش میں نکلے تھے، کیونکہ اللہ نے انہیں اپنے ایک ایسے بندے کے بارے میں بتایا تھا کہ جن کے پاس سے وہ علم سیکھ سکتے تھے۔۔ علم کے بارے میں اکثر لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ علم اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔۔ کچھ کا کہنا ہے کے علم دنیا میں زندگی کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ علم کردار کو نکھارنے کا ذریعہ ہے۔۔ اسی طرح اور بہت سے لوگ بہت کچھ کہتے ہیں۔۔ سوال یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم کا صبر سے تعلق بیان کیا ہے۔۔ کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی امت میں سے کسی نے سوال کیا کہ "اس وقت ہم میں (یعنی دنیا میں) سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟" مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواباً کہا"میں!" بقول مفسرین اللّٰہ کو انکی یہ بات پسند نہیں آئی (میرا ماننا ہے کہ نبیوں کی چھوٹی چھوٹی سی لگزشیں بھی اللّٰہ کے ہاں بڑی گردانی جاتی ہیں اور اللّٰہ موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے ہماری رہنمائی کرنا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے ایسا کہا کہ آپ کو علم سیکھنا ہے تو آپ میرے فلاں بندے سے ملاقات کیجیئے۔۔ میرے نزدیک موسیٰ علیہ السلام اللّٰہ کے مقرب بندوں میں سے ہیں) تو موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہا گیا کہ فلاں جگہ آپ کو میرا ایک بندہ ملے گا جو آپ کو علم سکھائے گا جو ہم نے اسے عطا کیا ہے۔۔۔ قارئین ایک بات جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ یہاں پر صبر کو علم سے تعبیر کیا گیا ہے۔۔ اس ایک جملے کو سمجھنے کے لیے میں نے اپنی زندگی کے چار سال وقف کر دیے۔۔ اور آج میں اس بات کو سمجھنے پر آپ لوگوں کے ساتھ بانٹ رہی ہوں۔ کیونکہ علم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ علم بانٹنے سے بڑھتا ہے۔۔

اس سے پہلی آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرت خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اور پھر اس آیت میں فرماتے ہیں کہ اور اس بات پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں کہ جس کا آپ کو علم نہیں ہے۔۔ قارئین یہ ایک انتہائی غور طلب بات ہے کہ اللّٰہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم سیکھنے بھیجا تھا مگر حضرت خضر علیہ السلام نے جو پہلی بات کہی وہ صبر سے متعلق ہے۔۔ صبر کا علم سے جو تعلق میں بیان کرنا چاہتی ہوں اسکی پہلی دلیل یہی آیت ہے۔۔
علم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ علم انسان میں ٹھہراؤ لاتا ہے اور صبر سے زیادہ ٹھہراؤ کسی چیز میں نہیں۔۔
علم کے حوالے سے ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ علم انسان کے مزاج کو ٹھنڈا رکھتا ہے یعنی علم غصے کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے اور صبر سے زیادہ ٹھنڈا اور غصے کو کھا جانے والا عمل اور کوئی نہیں۔۔
دراصل علم، علم ہے اور صبر عمل ہے۔۔ ع۔ل۔م اور ع۔م۔ل دو الفاظ اور بجز تین حروف۔۔
بہت سے جھوٹے عالم اپنی دن بھر کی تھکان اور کسی سے ہوئے جھگڑے کا سارا غصہ اپنے سے کمزور یا غریب پر نکالتا ہے اور خود کو ایسا بزرگ عالم سمجھتا ہے کہ جیسے اس سے زیادہ علم والا، دماغ والا کوئی اور نہیں۔ دراصل یہی وہ غلط فہمی ہے جو اکثر لوگوں نے اپنے ذہنوں میں بھر رکھی ہے۔۔ بغیر صبر کے علم کی کوئی حیثیت نہیں اور اس کی دلیل یہی مذکورہ بالا آیت ہے۔۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسے علم والوں کو بھی دیکھا ہے جو بڑی بڑی ڈگریوں سے سپنے گھر میں موجود الماریوں کی زینت بڑھاتے ہیں مگر ان کی ذات میں علم کا ع بھی نہیں ہوتا۔۔ علم ایک سمندر ہے جس میں تیرنے کے لیے صبر درکار ہے۔۔ قارئین! یاد رہے کے موسیٰ علیہ السلام سے خضر علیہ السلام کی ملاقات ایک طویل سفر کے بعد ہوئی تھی۔۔ سفر کہتے ہیں منزل کے انتظار میں قدم بڑھانا اور منزلِ مقصود تک پہنچ جانے کے لیے بے شمار صبر درکار ہوتا ہے۔۔ ہم سب ہی چھوٹے بڑے پیمانے پر سفر کرتے رہتے ہیں۔۔ اور ہم سب ہی یہ جانتے ہیں کے بغیر صبر کے منزل کو پا لینا ناممکن ہے۔۔۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام کو یقین دلایا کہ وہ اللّٰہ کے حکم سے صابر رہیں گے تو سفر کا آغاز کردیا گیا مگر اس عہد کے ساتھ کہ جب تک خضر علیہ السلام کسی چیز کا ذکر خود سے نہ کریں موسیٰ علیہ السلام ان سے اس کا سوال نہیں کریں گے۔۔ تو یہاں سے اصل داستانِ صبر شروع ہوتی ہے۔۔ خضر علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے اور خضر علیہ السلام نے اس خوبصورت کشتی کے تختے توڑ دیے۔۔ موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ آپ کشتی والوں کو ڈبونا چاہتے ہیں یہ تو آپ نے بہت بری بات کی۔۔ علم کا تعلق صبر سے یوں ہی واضح ہو رہا ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام اس عمل کے پیچھے چھپی حکمت کا علم رکھتے ہوتے تو وہ صبر سے کام لیتے۔۔ قارئین! ہم سب کی زندگی میں ایسے بہت سے موقع آتے ہیں جب ہم مکمل بات کو نہ جانتے ہوئے بے صبرے ہو جاتے ہیں۔۔ اور ایسی صورت میں ہم وہ کام کر دیتے ہیں جس سے ہمیں منع کیا ہو۔۔ ایسا ہی کچھ اس وقت بھی ہوتا ہے جب ہمارا کوئی اپنا یا ہم خود بہت علیل ہوجائیں یا کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جائے جس کا علاج سمجھ نہ آ رہا ہو۔ اس وقت لاعلمی میں ہم جعلی پیروں، بابوں اور بدعتیوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور اللّٰہ سے مدد طلب کرنے کی بجائے انسانوں اور شیطانوں کو پوجنے لگتے ہیں۔۔
قارئین کرام! یہ مضمون بہت طویل ہے اس ایک آیت کے صرف ایک حرف پر بھی غور وفکر کر کے لکھنا چاہوں اور اس کے لیے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ بھی میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ختم ہو جائے گا گو کہ ہم اسی جیسا اور بھی اس کی مدد میں لے آئیں۔۔۔
میں نے اس آیت سے صبر کا علم سیکھا ہے۔۔ امید کرتی ہوں یہ تحریر آپ کی زندگی میں کچھ اچھی تبدیلی لائے گی۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔۔
دعاؤں کی طلبگار
انوشہ محمد رفیق آرزو۔۔۔ #AMR

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top

Tags: