پانچویں قسط

Story: Deedar E Mohabbat E Dil
Writer: UrwahTahir

****

کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ

**

"السلام علیکم چچا جان۔" بہزاد نے اپنے چچا بابر کی کال اٹھاتے ہی سلام کیا تھا۔ "سب خیریت، آپ آفس نہیں آءے؟" بابر تو وقت پر آفس آنے کے پابند تھے مگر آج وہ آفس آءے ہی نہیں تھے۔

"بہزاد تم کہاں ہو اس وقت؟" اب رات کے سات بجنے کو تھے اور وہ ابھی تک آفس میں تھا مگر یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی وہ اکثر دیر تک کام کیا کرتا تھا۔ اس لیے بابر چچا کا فون کر کے اس کے بارے میں معلوم کرنا تھوڑا خلاف توقع تھا۔

"چچا سب کچھ ٹھیک ہے نہ؟" بہزاد نے پریشان ہوتے پوچھا تھا۔

"بیٹا، تم اسپتال آ جاءو۔ تمہارے چچا خلیل اور چچی خالدہ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔" بابر کے الفاظ بھاری تھے۔ بوجھل تھے دلاور کو اب اندازہ ہوا تھا۔ ان کا ایک اور بھائی موت کے دہانے پر کھڑا تھا۔

"جی چچا۔ میں فوراً آیا۔" بہزاد نے یہ کہ کے اپنی کرسی کی پشت سے اپنا کوٹ اٹھایا تھا، ٹیبل پے رکھا اپنا موبائل اٹھایا تھا اور باہر کی طرف بڑھ گیا تھا۔

باہر اپنے سیکرٹری کی ٹیبل پر رکھا رائٹنگ پیڈ اٹھایا اس پر اپنے لیپ ٹاپ کے گھر بھجوا دینے اور کل پرسوں کی ساری میٹنگز ملتوی کر دینے کا لکھ دیا اور لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔

****

جب بہزاد اسپتال پہنچا تو وہاں اپنے دونوں چچا اور پھپھو کے بیٹے حارث کو پایا۔

"چچا جان یہ ایکسیڈنٹ کیسے ہوا؟" بہزاد نے فوراً اپنے چچا، ظہیر سے پوچھا تھا جو کہ وہیں کھڑا تھا۔
"بیٹا ڈرائیور خلیل بھائی اور بھابھی کو لے کے آ رہا تھا کہ دوسری طرف سے غلط راستے پر تیز رفتار گاڑی چلاتا ہوا ان سے آ ٹکرایا۔" ظہیر کے ماتھے پر بل بڑھتے جا رہے تھے۔
بہزاد نے اپنا ہاتھ اپنے بالوں میں پھیرا تھا جب اسے ایک خیال آیا۔

"چچا آپ نے ان خلیل چچا کے بچوں کو اطلاع دی؟" بہزاد کی بات پر ظہیر ویٹنگ روم کی ایک کرسی پر ڈھہ گئے۔

"چچا ان کو اطلاع کرنا ضروری ہے۔ اگر خلیل چچا اور خالدہ چچی کو کچھ ہو گیا اور وہ لوگ یہاں نہیں ہوئے تو اچھی بات نہیں ہے۔" ظہیر نے سر اثبات میں ہلا کر اپنے فون پر ایک نمبر ڈائیل کیا۔

کافی دیر گھنٹی بجنے کے باوجود کسی نے کال نہ اٹھائی۔
"بہزاد کال نہیں اٹھا رہا کوئی۔"

بہزاد نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ان سے موبائل لے لیا اور جس نمبر پر انہوں نے ابھی کال کی تھی اس پر دوبارہ کال ملائی اپنے موبائل سے۔

کافی دیر بجنے کے بعد، جب بہزاد کال کاٹنے والا تھا کال اٹھائی۔

"اگر کوئی کال نہیں اٹھا رہا تو اس کا مطلب ہے کہ بات نہیں کرنی! بار بار کال کس خوشی میں کر رہے ہیں؟"
آ

واز کسی لڑکی کی تھی اور وہ بہت غصّے میں بھی لگ رہی تھی مگر بہزاد کے پاس اور اہم مسلہ تھا۔

"یہ خلیل خان کا گھر ہے؟" بہزاد نے تحمل سے پوچھا تھا مگر لڑکی کے تو جیسے مزاج ہی نہیں مل رہے تھے۔
"ہاں ہے! کوئی مسلہ؟"

"جی میں اسلام آباد سے بول رہا ہوں! خلیل خان اور ان کی زوجہ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔" ان الفاظ نے شاید اس لڑکی کو چپ لگا دی تھی۔

"کیا؟" اس لڑکی نے ٹوٹے ہوئے لحجے میں پوچھا تھا۔ "امی ابو ٹھیک تو ہیں نہ؟"
تو یہ لڑکی اس کی کزن تھی۔ اس قدر بدتمیز کزن کی امید نہیں تھی بہزاد کو مگر اس وقت جس درد سے وہ گزر رہی تھی وی بھی بہزاد سمجھ سکتا تھا۔

"آپ اور آپ کے بھائی جلد از جلد یہاں آ جائیں۔ میں ابھی حتمی طور پر آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا مگر بہتر ہے کہ آپ لوگ یہاں آ جائیں۔" بہزاد نے کچھ نہ بتاتے ہوئے بھی بہت کچھ بتا دیا تھا کہ عقلمند کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہے۔

"ابھی بھائی۔۔۔" وہ کچھ کہنے والی تھی کہ رک گئی، پیچھے سے بات کرنے کی آواز آ رہی تھی پھر چند لمحے بعد کسی اور نے فون پر بات کی۔

"السلام علیکم۔ میں احمر بول رہا ہوں۔ آپ مجھے بتائیں، کیا بات ہے؟" بہزاد جانتا تھا کہ یہ اس لڑکی کا بھائی ہے۔
"دیکھیں میں بہزاد ہوں۔ آپ کے تایا کا بیٹا۔ آپ کے والدین کا ایکسیڈنٹ و گیا کے براہ کرم آپ لوگ فوراً اسلام آباد آ جائیں۔"

اس شخص نے بہت دیر نہیں لگائی تھی اور اس کو صرف ایک چھوٹا سا جواب دے کر فون بند کر دیا تھا۔ "ٹھیک ہے۔"

****

بہزاد جب واپس پہنچا تو ایک ڈاکٹر کے گرد اپنے دونوں چچا، بابر، ظہیر اور اپنے کزن حارث کو پایا۔ وی بھی ان کی طرف بڑھ گیا اور ڈاکٹر کے آخری الفاظ سنے۔

"ہم ان دونوں کو نہیں بچا سکے۔"

بہزاد نے آنکھیں بند کر کے انا اللہ و اننااللاہ راجءون پڑھا تھا۔

اس خاندان کے دو اور بچے یتیم ہو گئے تھے آج اور بہزاد کے چہرے پر ایک کڑوی حقیقت لکھی تھی۔ اس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا تھا۔

****

"میں عثمان انکل کو کال کرتا ہوں۔" احمر نے ٹیلیفون بند کرتے ہی دوبارہ عجلت میں کہا مگر زارا کے اگلے الفاظ پر رک کر اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
"بھائی آپ ان لوگوں کو چھوڑیں اور فلائٹ بک کرائیں اسلام آباد کی۔"

"مگر زارا-" زارا اس کی بات سنے بغیر ہی اٹھ گئی۔
"بھائی میں آپ کا اور میرا کچھ ضروری سامان پیک کر لیتی ہوں جب تک آپ ٹکٹ کرائیں۔"

"زارا رکو۔" احمر کہہ کر صوفے سے کھڑا ہو گیا۔ تب اس نے زارا کی سرخ آنکھوں اور لال ناک پر غور کیا۔ اس کی حالت سے تو لگتا تھا بہت دیر سے رو رہی ہے۔ اس کال کے آنے سے بھی پہلے سے۔
"تمہارے اور سکندر کے بیچ کچھ بات ہوئی ہے؟"

"نہیں بھائی۔ ابھی ہمیں جلد از جلد اسلام آباد پہنچنا ہے۔ اور بس۔" وہ سختی سے کہہ کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور اس نے اپنے موبائل سے اپنے ٹریول ایجنٹ دوست کو کال کی۔

"بس جلد از جلد آج ہی کی کوئی فلائٹ ہونی چاہیے اسلام آباد کی۔" احمر نے اپنے دوست سے کہا تھا۔ 
"دو گھنٹے بعد کی؟" احمر نے پوچھا تھا تسلی کے لیے اور دوسری طرف سے جواب آیا تھا۔

"ہاں۔ اس سے پہلے کی کوئی فلائٹ نہیں ہے۔" احمر نے کچھ لمحے سوچ کر ہاں کر دی۔
"میری اور زارا کی بکنگ کر دو۔ ساری معلومات ہیں نہ تمہارے پاس؟۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔ اللہ حافظ۔"

کل ان کے امی ابو اس جلدی میں وہاں گئے تھے۔ کس لیے گئے تھے وہ احمر یا زارا کے علم میں نہیں تھا۔ اور آج یہ دونوں جا رہے تھے مگر حالات کیا رخ اختیار کر لیں گے اس کا بھی ان دونوں کو علم نہیں تھا۔

آج کا یہ سفر ان کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top