دوسری قسط

Story: Deedar E Mohabbat E Dil
Writer: UrwahTahir

****

"تعریف لکھنے بیٹھے تھے ہم ان کی مکمل حسن پر
مگر الفاظ ہی تھم گئے انکی جھکی نظریں دیکھ کر"
زارا جو اس میرج حال میں ایک طرف کھڑی سکندر کی کزن فریال سے باتیں کر رہی تھی سکندر کی آواز پر خاموش ہو گئی اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس، نہایت ہی نفاست سے سجائے بال، ہاتھ میں گھڑی پہنے اور بلیک ہی جوتے پہنے بہت ہینڈسم لگ رہا تھا وہ۔

"شکریہ۔" زارا نے سر جھکائے شرماتے ہوئے کہا اور سکندر کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ویسے میں کیسا لگ رہا ہوں؟" سکندر نے شرارتی انداز میں اپنی طرف اشارہ کر کے زارا سے پوچھا کہ وہ جانتا تھا کہ زارا، فریال کی وجہ سے اور زیادہ شرما رہی ہے۔

فریال ان دونوں کو ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ کر وہاں سے اوجھل ہو گئ کہ کباب میں ہڈی کیوں کر بنے۔

"تم کو یہ کمال حاصل ہے،
وقت بے وقت اچھے لگتے ہو۔"
زارا کو علم تھا کہ وہ ایک نہایت ہی گڈ لکنگ آدمی تھا۔ وہ مردانہ خوبصورتی رکھتا تھا اور بچکانہ شخصیت مگر اسے ایسا ہی پسند تھا۔ وہ تھوڑا مغرور تھا مگر شاید اتنے پرفیکٹ انسان تھوڑے بہت مغرور ہوتے ہی ہیں۔

زارا کے الفاظ پر سکندر نے اسے غور سے دیکھا تھا اور حیرت سے پوچھا تھا۔ "تم میری منگیتر زارا خلیل ہی ہو نہ؟" اب وہ اس کے برابر میں کھڑا تھا اور اس کے سوال پر زارا اسے کہنی مار کر آگے بڑھ گئی تھی۔

****

ڈانس فلور کا انتظام تھا اور ان کے بچوں کے ہم عمر سب مزے کر رہے تھے اور ولید صاحب بھی ادھر جانے لگے تو خالدہ نے انہیں روک کر پوچھا۔ "یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟"
"میری مرضی میں جو کروں۔ آپ کیوں روک رہی ہیں مجھے؟" ولید صاحب نے اپنی بیوی کو خفگی سے دیکھا تھا اور خالدہ ان کی سوچ کو روءی تھیں۔
"ولید یہ آپ کی بیٹی کے ہونے والے جیٹھ کی شادی ہے۔ لوگ کیا سوچیں گے اگر دولہا کے چھوٹے بھائی کے ہونے والے سسرالی ایسی حرکتیں کریں گے تو؟"

"بھئی لوگوں نے جو سوچنا ہے وہ خوشی سے سوچیں۔ آپ کو یا مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟" ولید دوبارہ ڈانس فلور کی طرف بڑھنے لگے تو خالدہ بولیں۔
"آپ کو ڈاکٹر نے یہ سب کرنے سے منع کیا کوا ہے۔ اگر پھر آپ کی کمر اکڑ گئی تو میں آپ کی مدد نہیں کروں گی۔" خالدہ کے الفاظ پر خلیل کے بڑھتے قدم رک گئے تھے۔ وہ بخوبی واقف تھے کہ وہ اپنے الفاظ پر ہمیشہ عمل کرتی ہیں۔

****

"نزاکت لے لے کے آنکھوں میں ان کا دیکھنا، توبہ!
الہی ہم انہیں دیکھیں یا ان کا دیکھنا دیکھیں۔"
دانش نے بسمہ کے کانوں میں سرگوشی کی تھی جو کہ شرما شرما کر کبھی اسٹیج پر آنے والے لوگوں کو سر اٹھا کر دیکھتی تو کبھی دانش کو۔

"نہ کریں آپ ایسی باتیں۔ میرا تو پہلے ہی یہاں بیٹھنا محال ہے۔" بسمہ نے بھی آہستہ آواز میں دانش کو جواب دیا تھا اور اپنا سر جھکائے رکھا تھا۔ دانش کچھ کہنے والا تھا کہ ایک اور مہمان کی اسٹیج پر آمد ہو گئی۔

****

"اب تو ہمیں سکندر اور زارا کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔" رضیہ نے خالدہ سے کیا تھا جو ان کے ساتھ ہی کھڑی تھیں۔ رخصتی کا وقت اب قریب تھا اور دلہن کے گھر والے اس کے پاس تھے۔

"رضیہ، زارا آپ کی ہی بیٹی ہے۔ جب چاہیں اسے لے جائیے گا۔" خالدہ نے مخلصی سے کہا تھا اور رضیہ تو خوش ہو کر رہ گئی تھیں۔

"بس پھر دانش اور بسمہ کی شادی نمٹ جائے اور سکندر کا ایم۔بی۔بی۔ایس ختم ہو جائے تو ان کی شادی کر دیتے ہیں۔" خالدہ نے تو ابھی سے ہی شادی کی تیاریوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ کتنے ارمان تھے ان کے اپنی ننھی پری کی شادی کے۔

****

زارا یونیورسٹی کے کیفیٹیریا میں اپنی دوست سانیہ کے ساتھ بیٹھی سموسے کھا رہی تھی اور ان کو ابھی ابھی ملے پروجیکٹ کے بارے میں باتیں کر رہی تھی۔

"یار ویسے تم پے تو کوئی دباؤ ہی نہیں ہے۔ اور ایک مجھے دیکھو۔ میری امی پر وقت میری اتنے مستقبل میں کہیں رکھی شادی کو لے کر ابھی سے پریشان رہتی ہیں۔" سانیہ نے امی کا ازلی مسلہ بیان کیا تھا اور زارا کی ہنسی نکل گئی تھی۔

"انہیں اپنا ہونے والا داماد مل گیا ہے کیا؟" زارا نے ہنستے ہنستے ہی پوچھا تھا تو سانیہ اپنے ہاتھوں میں اپنا منہ دے گئی تھی۔
"یہی تو مسلہ ہے کہ داماد نہیں ہے۔"

زارا اب بھی اس بیچاری پر ہنس رہی تھی جو اس کا موبائل فون بج اٹھا۔ اس نے دیکھا تو سکندر کی کال تھی۔ اس نے کال اٹھانے سے پہلے دعا کی کہ وی یہاں نہ آیا ہو۔

"میں باہر کھڑا تمہارا انتظار کر رہا ہوں زارا۔" سکندر اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے یونیورسٹی کے باہر کھڑا تھا۔
"آپ یونیورسٹی نہیں گئے؟" زارا نے حیرانگی سے پوچھا تو سکندر نے اپنا سر نفی میں ہلادیا تھا۔

"جا رہا تھا مگر پھر تم سے ملنے کا دل چاہنے لگا تو یہاں آ گیا۔"
زارا کی بھویں سکڑی تھیں سکندر کی بات سن کے اور سانیہ نے اس کو دیکھ کر سر کی جنبش سے پوچھا تھا کہ کون ہے۔

"سکندر ابھی میری کلاس ہے دس منٹ میں۔" زارا نے سکندر کے نام پر زور دیا تھا کہ وہ جان جائے کہ وہ ایسے نہیں آ سکتی اور سانیہ کو بھی پتا چل جائے کہ وہ کس سے بات کر رہی ہے۔
زارا اپنی پڑھائی پر پوری دل و جان سے توجہ دینا چاہتی تھی۔ اس کے امی، ابو اور بھائی سب کی امیدیں وابستہ تھیں اس سے اور وی ان کی امیدوں پر پورا اترنا چاہتی تھی، خود کو ثابت کرنا چاہتی تھی اور ابھی تو اس کی یونیورسٹی کا پہلا سال چل رہا تھا۔

"زارا یہ کیا بات ہوئی؟ میں خود یونیورسٹی نہیں گیا۔ تم سے ملنے آنے کے لئے آیا ہوں اور تم ایک کلاس مس نہیں کر سکتیں؟" سکندر کا ہلکا ہلکا چھپا ہوا غصہ زارا بھانپ گئی تھی اور اس ہی وقت اس کی نظر کیفیٹیریا میں لگی گھڑی پر گئی تھی۔ اس کی کلاس کا ٹائم کو رہا تھا۔

"سکندر میں آپ سے بعد میں بات کروں گی۔ ابھی آپ یونیورسٹی جائیں۔ اللہ حافظ۔" یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔
"کیا کہہ رہا تھا؟" سانیہ نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

"چلو۔ کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے۔" زارا اپنے ساتھ سانیہ کو کھینچتی ہوئ لے گئی تھی۔

سکندر سے وہ بعد میں اس مسئلے پر بات چیت کر لے گی۔ اسے اپنے اس بچپنے کو چھوڑنا پڑے گا۔ ایسے زندگی نہیں گزاری جا سکتی، پر فی الحال وقت نہیں تھا تو بعد میں بات کرنی ہے۔ اس بات کا زارا نے خود سے عہد کر لیا تھا۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top