آٹھویں قسط
Story: Deedar E Mohabbat E Dil
Writer: UrwahTahir
****
وقت کا پتا نہیں چلتا اپنوں کے ساتھ لیکن اپنوں کا پتا چلتا ہے وقت کے ساتھ۔
**
چند سالوں بعد
زارا اس وقت اپنے آفس میں موجود ایک ڈیزائن پر کام کر رہی تھی۔ اس کے آفس میں دستک ہوئی اور پھر دروازہ کھلا۔ جو کوئی بھی داخل ہوا تھا وہ دروازے کے سامنے ہی موجود اس کی ٹیبل کی طرف دیکھ رہا تھا مگر وہ وہاں وہ موجود نہیں تھی۔ اس نے دروازے کے الٹے ہاتھ کی طرف دیکھا، جہاں ایک خالی اور اونچی ٹیبل موجود ہوا کرتی تھی۔
زارا وہیں کھڑی ایک بڑی سی شیٹ پر پورے انہماک سے کام میں مشغول تھی۔
"مس زارا۔" اس شخص نے اسے بہت ہی پیشہ ورانہ انداز میں مخاطب کیا تھا اپنی طرف اور زارا نے جھٹکے سے اپنی گردن اٹھا کر اس شخص کو دیکھا تھا۔
"مسٹر عامر۔" زارا کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔ "سب خیریت، آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا۔"
زارا نے مودب انداز میں کہا تھا۔ آخر کو وہ جس پروجیکٹ پر کام کر رہی تھی وہ اس کا ہیڈ تھا اور وہ خود ابھی نسبتاً نئی تھی اس کمپنی میں۔
وہ باہر سے اس پروجیکٹ کے لئے بلایا گیا تھا اور بولنے کا انداز بھی انگریز تھا اور باتیں کرتا بھی انگریزی میں ہی تھا ان سب سے۔
"نہیں۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ دراصل ابھی فارس احمدانی کو آپ کے چچا ظہیر کی کال آئی تھی اور انہوں نے گزارش کی ہے کہ آپ کو آج جلدی جانے دیا جائے۔ میرے خیال سے آپ کے گھر میں کوئی فنکشن ہے۔" اوزان نے اسے ساری بات بتا دی جو اس کے سامنے فارس اور ظہیر خان صاحب کے درمیان ہوئی تھی۔
خان انڈسٹریز کے سی ئی او کی بہت عزت اور نام تھا بزنس کمیونٹی میں اور زارا کے باس اس بات سے بھی آگاہی رکھتے تھے کہ زارا ان کی بھتیجی ہے اور ان ہی کے ساتھ رہتی ہے۔
زارا نے اپنا سر اثبات میں ہلا کر اپنی کلائی کے گرد بندھی گھڑی کی طرف دیکھا۔ ابھی ساڑھے چار بج رہے تھے اور جہاں تک اس کے علم میں تھا فنکشن سات بجے شروع ہونا تھا مگر اگر ظہیر چچا نے کال کر دی تھی تو وہ اور وقت نہیں لینا چاہتی تھی۔
"مسٹر عامر، مسٹر احمدانی کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے نہ کہ میں جلدی جا رہی ہوں؟" زارا نے اوزان سے پوچھا تھا، ساری چیزیں سمیٹتے ہوئے۔
"نہیں مس زارا۔ دراصل آپ کے چچا نے مجھے اور فارس کو ان وائٹ بھی کیا ہے۔" اوزان کی بات پر زارا نے اسے بغور دیکھا تھا۔
ظہیر چچا کا فارس کو ان وائٹ سمجھ میں آتا تھا کیونکہ ان کے اچھے کوروباری مراسم تھے مگر اوزان کو کیوں بلایا تھا؟ اور اگر بلایا تھا تو کیا وہ سچ میں آج کے فنکشن میں آ رہا تھا؟ اس کے گھر؟ اور اگر آ رہا تھا تو کیوں آ رہا تھا؟ اسے کیا شوق ان سب چیزوں کا۔
"مجھے یہاں کی شادیاں دیکھنے کا شوق ہے۔ مختلف رسمیں، روایتیں وغیرہ۔ اس لیے میں نے حامی بھر لی۔" اوزان نے اس کی آنکھوں کو پڑھ لیا تھا جیسے وہ ہمیشہ پڑھ لیتا تھا۔
اور زارا نے جھینپ کر سر جھکا لیا کہ وہ اپنے ایک طور پر باس کو یہ نہیں دکھانا چاہتی تھی کہ وہ اس کے آنے پر خوش نہیں۔
"جی۔ آپ بہت لطف اندوز ہوں گے۔ یہاں کی شادیاں ہوتی ہی ایسی ہیں۔" زارا نے اپنے چہرے کے تاثرات کو بحال کیا تھا اور مسکرا کر اس سے کہا تھا۔
"چلیں پھر شام میں آپ سے ملاقات ہو گی۔" یہ کہہ کر اوزان وہاں سے چلا گیا تھا۔ زارا ابھی اس دروازے کو ہی دیکھ رہی تھی جب اس کا موبائل فون بجا۔
"ہیلو؟" زارا نے بغیر دیکھے ہی کال اٹھا لی تھی۔ اس کا فون اس کے کان اور کاندھے کے بیچ دبا ہوا تھا اور وہ جلدی جلدی اپنی چیزیں اپنے بیگ میں بھر رہی تھی۔
"کہاں ہو؟ ویسے حد ہوتی ہے سستی کی۔ آج تمہارے ایک نہیں دو دو کزنز کی مہندی ہے۔ مگر مجال ہے جو تم خود اپنے اس جان سے عزیز آفس کو چھوڑ دو۔ نہیں تمہیں تو کوئی گھسیٹنے آئے گا جب ہی نکلو گی ورنہ تو شانِ بے نیازی کی حدیں پار کر دو تم تو۔"
دوسری طرف ضرور حیدر موجود تھا۔ اس کے علاوہ شاید ہی کوئی زارا کو اس کی بقول اس کے شانِ بے نیازی کے طعنے دیتا تھا۔
"حیدر کے بچے! دن بھر میں ایک ہی تو کام ہوتا ہے تمہیں۔ اور وہ کرنے میں بھی تمہاری گائے مر جاتی ہے۔" زارا نے بھی طیش میں آ کر جواب دیا تھا۔
حیدر کو ایک کام سونپا گیا تھا جن سے زارا کی گاڑی بننے گئی ہوئی تھی کہ اسے وقت پر آفس چھوڑ دے اور آفس سے لے آئے۔
"بیٹا، صبح سے گھن چکر بنا ہوا ہوں کام کر کر کے۔ صرف تمہاری وجہ سے ہی خوار نہیں ہوں!" حیدر نے جل کر جواب دیا تھا۔
"اگر آ رہی ہو تو آ جائو ورنہ میں جا رہا ہوں یہاں سے۔" حیدر نے اپنی بات پر زور ڈالنے کے لئے گاڑی کو ریس دی تھی۔ جو کہ زارا نے فون کی دوسری طرف سے سن لی تھی۔
زارا اب اپنے آفس سے نکل کر لفٹ کا انتظار کر رہی تھی۔
"زیادہ فری مت ہو۔ آ رہی ہوں۔" یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی تھی اور حیدر جو کہ ایک کرارا سا جواب دینے والا تھا خاموش ہو گیا۔
****
زارا جیسے ہی گھر میں گھسی سامنے مہرین چچی دکھیں۔ اور وہ بھی اس ہی کی طرف آ رہی تھیں۔
"زارا کہاں تھیں تم؟ کتنی دیر کر دی آنے میں۔ مہندی کے فنکشن میں اب وقت ہی کتنا رہ گیا ہے۔"
"سوری چچی۔ بس کام میں دھیان ہی نہیں گیا وقت کی طرف۔" زارا نے اپنے کان پکڑ کر اتنی معصوم بچوں والی شکل بنائی کہ مہرین نے اس کے سر پر ایک چپت ماری۔
"ڈرامے باز، ڈرامے بازی بند کرو اور جا کے دیکھو۔ ہانیہ کب سے تمہارا پوچھ رہی ہے۔"
زارا سر اثبات میں ہلاتی سیڑھیاں چڑھ گئی اور مہرین اور کاموں میں مصروف ہو گئیں۔
****
زارا دستک دے کر ہانیہ کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ شیشے کے سامنے اسٹول پر بیٹھی اپنا میک اپ کروا رہی تھی، اپنے ماموں کی بیٹی مشال سے اور الیزے بیڈ پر بیٹھی چپس کھا رہی تھی۔
"مجھے یاد کیا کسی نے؟" زارا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شوخی سے کہا اور ہانیہ فوراً اس کی طرف دیکھنے لگی۔
"آج میری مہندی ہے۔ یاد ہےبھی یا نہیں؟"
"ارے بابا یاد ہے۔" زارا الیزے کے برابر میں بیڈ پر گر گئی۔ "مگر کیا تم بھول رہی ہو کہ میں پیشہ ور انسان ہوں۔ اس کی طرح فارغ نہیں۔" زارا نے الیزے کی طرف اشارہ کیا تھا اور ہانیہ کو آنکھ ماری تھی کہ جانتی تھی الیزے ابھی شروع ہو جائے گی۔
"میری جان۔" الیزے نے زارا کی گردن کے گرد اپنا سیدھا ہاتھ ڈالا اور نہایت ہی میٹھے لحجے میں کہا۔ "میرے پاس مفت میں کام کے پیچھے جلانے کے لئے جان نہیں ہے۔"
"مگر میری جان اب سب آپ کی طرح شادی کا انتظار بھی تو نہیں کر سکتے نا۔" زارا نے الیزے کو چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ منہ بسور کر بولی۔
"جب آپ کو محبت ہو گی نہ میری جان تب پوچھوں گی۔" الیزے نے مذاق کیا تھا، زارا جانتی تھی۔ مگر الیزے کبھی کبھی بھول جاتی تھی کہ زارا نے محبت کی تھی اور اس میں دھوکا بھی کھایا تھا۔
زارا کے چہرے پر اب بہت نہیں دکھتا تھا اس کا غم، پہلے کے مقابلے میں مگر کبھی کبھی اسے امی، ابو اور سکندر کی وجہ سے ایک گہری محرومی کا احساس ہوتا تھا۔
"الیزے فضول باتیں مت کرو۔" ہانیہ زارا کے احساسات اور چہرے کے تاثرات فوراً بھانپ لیتی تھی اور اب بھی اس کی اداسی بھانپ لی تھی۔
"اور زارا پلیز یار میرا ہیئر اسٹائل بنوا دو۔"
زارا فوراً مشال کی مدد کروانے لگی اور الیزے خود کو برا بھلا کہنے لگی دل ہی دل میں۔ وہ ہمیشہ ہی ایسی کوئی بات کر دیتی تھی جو زارا، احمر یا بہزاد کو بری لگ جاتی تھی یا انہیں دکھ پہنچا جاتی تھی۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top