قسط 02

ناول:- گردشِ ماہ
ازقلم:- طوبیٰ کرن

قسط 2:-
دریا ماسکوا کے کنارے تیز تیز بھاگنے کی وجہ سے اس کا سانس بری طرح پھول چکا تھا۔ سیاہ رنگ کے جاگنگ سوٹ میں ملبوس وہ تقریباً پچھلے آدھے گھنٹے سے بھاگ رہا تھا۔ سخت سردی کے باوجود اسے پسینہ آیا ہوا تھا۔ وہ ابھی ایک اور چکر لگاتا لیکن اس کی نظر سامنے سے آتی لڑکی پر پڑی۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا اور اپنی پیشانی پر آتے پسینے کو انگلی سے صاف کرتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔

"گڈ مارننگ میری!"
اس نے پھولے ہوئے سانس سے کہا اور اپنی بھوری آنکھوں سے میری کو دیکھنے لگا۔ میری دھیرے سے مسکراتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اپنے پرس میں سے پانی کی بوتل نکال کر اس کی طرف بڑھا دی جوکہ اس نے گھر سے نکلتے ہوئے پرس میں رکھی تھی ۔ اس نے گردن کو تھوڑا سا خم دیتے ہوئے بوتل پکڑی اور منہ سے لگا لی۔ سارا پانی ایک ہی گھونٹ میں حلق کے اندر انڈیلنے کے بعد اس نے خالی بوتل میری کی جانب بڑھا دی۔

"تھینکیو میری!"
اس نے اپنے بکھرے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔ اب اس کی سانسیں بھی معمول کے مطابق چلنے لگی تھیں۔
میری نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا پھر اپنا بازو اس کے بازو میں ڈال دیا۔

"کچھ دیر واک کرنا چاہتی ہوں۔"
میری نے کہا تو وہ کندھے اچکاتا ہوا اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

"وہ انڈر گراونڈ ہونا چاہتا ہے۔"
کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد میری اس سے مخاطب ہوئی تو اس نے چونک کر میری کو دیکھا۔

"کون؟"
اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
میری نے ایک گہرا سانس لیا اور کھلے آسمان کو دیکھنے لگی۔

"میں مارک کی بات کر رہی ہوں۔ کیا تمہیں نہیں لگتا شایان کہ اب اسے ٹیم سے نکال دینا چاہیے؟؟"
میری نے پوچھا تو شایان نے حیرت سے اسے دیکھا جیسے اس کی عقل پر ماتم کر رہا ہو۔

"تم نیند میں ہو شاید۔"
شایان نے رک کر کہا تو میری نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"کیا مطلب؟؟"
اس کے لہجے میں ناراضگی اور غصے کے ملے جلے تاثرات تھے۔ شایان نے اسے کندھوں سے تھاما۔

"دیکھو میری! مارک ٹیم کا سب سے طاقتور اور کاریگر بندہ ہے۔ اگر اسے ہی ٹیم سے نکال دیا گیا تو ہمارا بزنس ٹھپ ہو جائے گا۔ اور ٹیم سے نکلنے کے بعد وہ سیدھا پولیس کے پاس جائے گا اور پھر ہم دونوں سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔اس لیے اسے برداشت کرنا ہماری مجبوری ہے۔"
شایان نے تحمل سے اسے سمجھایا تو میری نے ہنستے ہوئے خود کو اس کی گرفت سے چھڑوایا۔

"کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں اسے ٹیم سے نکالنے کے بعد زندہ چھوڑ دوں گی؟؟"
میری کے کہنے پر شایان کی آنکھوں حیرانی سے پھیل گئیں۔اس کی سانس بری طرح اکھڑنےلگی تھی۔ وہ خود کو نارمل کرنے کے لیے گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ میری اس کی یہ حالت دیکھ کر کچھ پریشان ہوئی۔

"واہٹ ہیپن شایان؟ آر یو اوکے؟"
میری نے فکرمندی سے پوچھا تو شایان نے فوراً اپنی جیب سے ان ہیلر نکال کر منہ سے لگا لیا۔

"اوہ گاڈ شایان! تمہیں سانس کا پرابلم ہے؟ ٹھہرو میں ڈاکٹر کو فون کرتی ہوں۔"
میری ایک ہاتھ سے اسے سہارا دیتی دوسرے ہاتھ سے اپنے پرس میں موبائل تلاش کرنے لگی۔ شایان گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتا چلا گیا جبکہ تھوڑی سی کوشش کے بعد میری کو موبائل مل گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ فون ملاتی شایان نے اسے روک دیا۔

"آئی ایم اوکے میری! کسی کو فون مت کرو۔ میں ٹھیک ہوں۔"
شایان نے ان ہیلر منہ سے ہٹا کر اسے کہا تو وہ فون واپس ڈالتی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔

"تم ٹھیک نہیں ہو شایان! پلیز ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ۔۔ میں تمہیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔"
میری نے کہا تو شایان ہلکا سا مسکرایا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"تمہارے ہوتے ہوئے مجھے کچھ نہیں ہو گا۔"
شایان نے اس کے ہاتھ پر زور ڈالتے ہوئے محبت سے کہا تو میری نے سر ہلا دیا لیکن وہ ابھی مطمئن نہیں ہوئی تھی۔

"برف باری ہو رہی ہے۔ اتنی ٹھنڈ ہے اور تمہاری طبعیت خراب ہو گئی ہے۔ میں تو آج تمہارے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنے آئی تھی لیکن۔۔"
میری نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی تو شایان کچھ کہے بنا اٹھ گیا۔ میری بھی اسے دیکھ کر اٹھی۔۔

"مارک کو مت مارنا۔ وہ ہمارا ہتھیار ہے۔ اور ابھی میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ کچھ دیر آرام کروں گا تو بہتر محسوس کرنے لگوں گا۔"
شایان نے کہا اور اسے وہیں چھوڑ کے لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا جبکہ وہ کتنا ہی وقت بے مقصد وہاں کھڑی رہی۔

---------☆☆☆☆☆

ہسپتال کی راہداری میں تیز تیز چلتے ہوئے اس نے ایک نگاہ ادرگرد دوڑائی اور محتاط سے انداز میں چلتا ہوا ایک وارڈ میں گھس گیا۔ وہ وارڈ بالکل خالی تھا سوائے ایک بیڈ کے جس پر ایک لڑکی نیم بےہوشی کی حالت میں لیٹی ہوئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا بالکل اس کے بیڈ کے قریب پہنچ گیا۔ لڑکی نے اپنے سامنے ایک نقاب پوش آدمی کو دیکھا تو اس کے چہرے پر خوف و ہراست کے تاثرات چھا گئے۔

"کک۔۔۔کون ہو تم؟؟"
نیم بےہوش لڑکی نےکانپتی ہوئی آواز میں پوچھا اور ہلنے کی کوشش کی لیکن نقاہت کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔
اس نے اس لڑکی کے بازو میں لگی ڈرپ کو بےدردی سے کھینچا جس سے اس لڑکی کی چینخیں فضا میں بلند ہوئیں لیکن اس آدمی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ لڑکی آنسو پیتی ہوئی اپنے زخمی ہاتھ کو دیکھنے لگی جس سے گوشت باہر کو جھانکنے لگا تھا۔

"میں تمہاری موت ہوں۔۔"
اس آدمی نے اس کے بالکل قریب آکر کہا اور اپنی جیب سے پستول نکال کر اس کی کنپتی پر رکھ دی۔ وہ لڑکی خوف سے آنکھیں پھیلائے ہلنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس آدمی نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹا کر اس کے بال نوچ لیے۔ جس کے نتیجے میں وہ لڑکی سسکنے لگی۔

"میری ایک بات کان کھول کر سن لو! اگر۔۔تم نے شور مچانے کی کوشش کی تو سیدھا اوپر پہنچا دوں گا۔ سمجھیں؟"
بےدردی سے اس کے بال نوچتے ہوئے اس آدمی نے کہا تو وہ لڑکی تیز تیز سانس لیتی سر ہلانے لگی۔ اس کے گال آنسووں سے تر تھے لیکن وہ بلند آواز میں نہیں رو سکتی تھی۔

"اچھا ہوا جو ابھی تک تم عدالت نہیں پہنچیں ورنہ تمہیں مارنے میں بہت مشکل پیش آتی۔"
اس آدمی نے مکاری سے کہا۔ پستول ابھی تک اس لڑکی پر تانی ہوئی تھی۔

"مم۔۔مجھے۔۔چھوڑ دو۔۔مجھے مت مارو۔۔میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟"
وہ تڑپتے ہوئے بولی تو اس آدمی کا قہقہ فضا میں بلند ہوا اور اس نے لڑکی کے بال چھوڑ کر اپنی جیب سے ایک تصویر نکال کر اس لڑکی کو دکھائی جسے دیکھتے ہی لڑکی کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ شور مچاتی اس آدمی نے گولی چلا دی اور یکے بعد دیگرے تین گولیاں اس کی کھوپڑی میں اتارنے کے بعد وہ اپنی سائلنسر لگی پستول اور تصویر کو اپنی جیب میں ڈالتا مطمئن سا چلتا وارڈ سے نکل گیا جبکہ وارڈ میں اس لڑکی کی لاش اپنے قتل پر خود ہی ماتم کناں تھی۔

----------------☆☆☆

ابھی وہ چادریں پھیلا کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ دروزہ بجا۔ اس نے اپنے ہاتھ تولیے سے صاف کیے اور سر پر دوپٹہ اوڑھتی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ دروازہ کھولتے ہی اس کی نظر پلوشہ پر پڑی جو کچھ پریشان سی لگ رہی تھی۔ پلوشہ سلام کرتی ہوئی اندر داخل ہوئی تو اس نے کنڈی چڑھائی اور پلوشہ کے ساتھ چلتی ہوئی اندر آگئی۔

"بہت دیر لگا دی تم نے۔ بابا تمہارا انتظار کر رہے تھے کہ تم آؤ تو کھانا کھائیں لیکن انتظار کرتے کرتے ہی سو گئے۔"
دعا کچھ خفگی سے بولی تو پلوشہ کچھ کہے بنا بابا کے کمرے کی جانب بڑھ گئی جبکہ دعا کندھے اچکا کر کھانا نکالنے لگی۔

جب کھانا لے کر وہ کمرے میں پہنچی تو بابا اور پلوشہ کو باتیں کرتا پایا۔ دعا انھیں دیکھ کر مسکرائی اور کھانا میز پر رکھا۔

"ویسے پلوشہ! تم بہت بری ہو۔ مطلب کہہ کر گئی تھی کہ دو بجے تک آجاو گی اور اب دیکھو تین سے بھی اوپر ٹائم ہو چکا ہے۔"
دعا کرسی گھسیٹتی ہوئی بیٹھی اور کچھ ناراضگی سے پلوشہ کو کہا تو اس نے بابا کو مدد طلب نگاہوں سے دیکھا۔ بابا نے دعا کو مصنوعی انداز میں گھورا۔

"خبردار جو میری بیٹی کو کچھ کہا۔ چلو جاو پلوشہ یہ برقعہ وغیرہ اتارو اور ہاتھ منہ دھو کر آؤ پھر کھانا کھاتے۔"
بابا نے پہلے دعا سے اور پھر پلوشہ سے مخاطب ہو کر کہا تو پلوشہ سر ہلا کر کمرے سے نکل گئی۔ جبکہ دعا اب اگلے ماہ کے خرچے کے بارے میں بات کر رہی تھی۔

"بابا! اب آپ کی پینشن سے گزارا کرنا مشکل ہو گا کیونکہ میری یونیورسٹی کی فیس بھی ہے اور پلوشہ کے خرچے بھی بڑھ رہے ہیں۔ تو۔۔وہ میں سوچ رہی تھی کہ۔۔۔"
دعا نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ تو بابا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"کہ؟؟"
بابا نے پوچھا تو دعا اٹھ کر ان کے پاس آئی اور اپنا سر ان کے کندھے پر رکھ لیا۔

"بابا! میں سوچ رہی تھی کہ ہم بیکری کھول لیتے ہیں۔ مجھے اور پلوشہ کو بیکنگ آتی ہے یاد ہے ہم نے سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی کیک بنانے پر۔ تو اگر ہم بیکری کھول لیں تو مہینہ آرام سے گزر سکتا ہے۔ "
دعا نے محتاط انداز میں بابا سے کہا کہ کہیں وہ منع ہی نہ کر دیں۔ بابا اس کی بات سن کر خاموش ہو گئے۔ وہ کتنے ہی لمحے ان کے بولنے کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ کسی گہری سوچ میں تھے۔ تبھی پلوشہ کمرے میں داخل ہوئی تو دعا نے بابا کے کندھے سے سر اٹھایا اور کرسی پر جا بیٹھی۔ پلوشہ نے اس غیر معمولی خاموشی کو محسوس تو کیا لیکن کچھ نہ بولی۔ خاموش ماحول میں کھانا کھایا گیا اور دعا وقفے وقفے سے بابا کے پرسوچ چہرے کو دکھ رہی تھی۔

----------☆☆☆☆☆
اگلے روز آلارم بجنے کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی تو اس نے تکیے کے نیچے سے موبائل نکال کر اس پر وقت دیکھا۔ گھڑی سحری کے ساڑھے تین بجا رہی تھی۔ وہ کمبل دور پھینکتی اٹھ کر بیٹھی اور ساتھ والی چارپائی پر سوئی پلوشہ پر ایک نظر ڈالی جو دونوں ہاتھ اپنے گالوں کے نیچے رکھ کر پرسکون سی سو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ بےاختیار مسکرا دی۔
پاؤں چارپائی سے نیچے لٹکاتے ہوئے اس نے اپنے پاؤں میں پہنی سنہری پائل کو دیکھا جس پر موتی جڑے ہوئے تھے۔ یہ اس کا واحد شوق تھا جو اس نے بچپن سے پال رکھا تھا۔ ذرا سا جھک کر پائل پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے کلمہ پڑھا۔ پھر تکیے سے دوپٹہ اٹھا کر سر پر لپیٹ لیا۔

ابھی وہ کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کہ اس کی نظر صحن میں دھری چارپائی پر پڑی جس پر بابا بیٹھے تھے۔ وہ انھیں سلام کرتی ہوئی نلکے سے لوٹے میں ابا کے لیے وضو والا پانی بھرنے لگی۔

"آجائیں بابا! پانی بھر لیا ہے۔"
اس نے بابا کو آواز دی تو وہ اٹھ کر نلکے کے پاس رکھی چوکی پر بیٹھ گئے۔ دعا نے ٹھنڈا پانی ان کے ہاتھوں پر ڈالا۔

"بابا! میں نے اتنی بار کہا ہے آپ سے کہ میں پانی گرم کر دیا کروں فجر کے وقت کا۔ پانی اس قدر ٹھنڈا ہے آپ بیمار ہو جائیں گے۔"
اس نے کہا تو بابا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر مسکرا دیے۔

"محبت کا ثبوت بھی تو دینا ہے خالق کو۔ بیمار ہوا تو وہی شفایاب کرئے گا جس کے لیے وضو کر رہا ہوں۔"
بابا نے کہا تو وہ خاموشی سے ان کے الفاظ کو محسوس کرنے لگی۔ واقعی اگر اس ذات سے عشق کے دعوے ہیں تو پھر ٹھنڈے پانی سے کیا ڈرنا؟
سوچتے ہوئے اس نے بابا کو وضو کروایا۔

"تم دونوں بھی نماز ادا کر لو پھر تلاوت سنوں گا۔"
بابا حکم دیتے ہوئے پگڑی لینے اپنے کمرے کی طرف بڑھے جبکہ وہ پلوشہ کو جگانے چل دی۔ کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر بتی جلائی اور پھر پلوشہ کی طرف بڑھ دی۔

"اٹھ جاؤ میڈم! فجر کی اذان ہونے والی ہے۔"

اس نے پلوشہ کو جگانے کی کوشش کی تو پلوشہ نے کروٹ بدل لی۔

"اٹھو ناں یار! دیر ہو جائے گی۔"
دعا نے اپنے کمبل کو تہہ لگاتے ہوئے کہا تو پلوشہ آنکھیں رگڑتی اٹھی۔

"کیا آپی! روز نماز سے گھنٹہ پہلے ہی جگا دیتی ہیں۔ افف!! دو بجے سوئی تھی میں اور اب پورا دن سونے کا ٹائم نہیں ملے گا۔"
پلوشہ بڑبڑاتی ہوئی اٹھی تو دعا نے پلٹ کر اسے دیکھا۔

"تم اتنا کیوں پڑھتی ہو؟ پورا دن دوست کے ساتھ پڑھائی کرتی رہی پھر پوری رات بیٹھ کر اسائنمنٹس بناتی رہی ہو۔ یار پڑھائی کرؤ لیکن خود کو بھی وقت دو۔ ایسے تو صحت خراب ہو جائے گی۔"
اس نے کہا تو پلوشہ نے نظریں چڑا لیں۔ اب کیا بتاتی کہ پورا دن پڑھائی نہیں کر پائی تھی جس کی وجہ سے رات کو جاگنا پڑھا۔

" اب وضو کر کے قرآن کی تلاوت ریوائز کرو آج بابا کہہ کر گئے ہیں کہ نماز کے بعد سنیں گے۔"
اس نے پلوشہ کو اطلاع دی تو وہ سر ہلاتی باہر نکل گئی۔

جب وہ دونوں تلاوت کر چکیں تو اتنے میں اذان شروع ہوگئی۔ کانوں میں سحر گھولتی اذان کی آواز ہمیشہ کی طرح ماحول پر جادو کر رہی تھی۔ ایسی آواز جسے سن کر ایک پل کے لیے انسان اپنے ماحول سے بےخبر ہو جاتا تھا۔ وہ تو بچپن سے اس آواز کو سننے کی عادی تھیں۔ بچپن میں تو دونوں اپنے بابا کی غیر موجودگی میں ان کی طرح اذان دینے کی کوشش بھی کرتیں لیکن لفظوں کے درمیان ہی سانس ٹوٹ جاتا۔ خیر اذان مکمل ہوئی تو انھوں نے نماز ادا کی یہاں تک کہ بابا آگئے۔ تب تک آسمان پر سورج میاں نے منہ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ دعا نے ایک اور چارپائی باہر نکالی اور وہ دونوں اس پر بیٹھ گئیں۔ باری باری تلاوت سنانے کے بعد جب وہ قرآن پاک رکھ کر آئیں تو بابا نے انھیں اپنے پاس بلایا۔

"آؤ بیٹیوں! مجھے آج تم دونوں سے ایک اہم بات کرنی ہے۔ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ کب بات کروں پھر خیال آیا کہ اس مبارک وقت ہی بات کرنا بہتر ہے۔"
بابا نے تمہید باندھی تو ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ناجانے کیا بات تھی جو بابا نے اتنی سوچ بچار کی۔

"کیا بات ہے بابا؟سب خیریت ہے ناں؟"
دعا نے پوچھا تو بابا نے سر ہلا دیا۔

"ہاں ہاں بیٹا! سب خیریت ہے۔ دراصل! ندیم صاحب کے بیٹے اسد کا رشتہ پلوشہ کے لیے آیا ہے۔"
بابا نے کہا تو  پلوشہ بری طرح چونکی جبکہ دعا بھی اس غیر متوقع بات پر کچھ حیران تھی۔

"میں جانتا ہوں پلوشہ! تم سوچ رہی ہو گی کہ دعا بڑی ہے تو پہلے اس کی شادی ہونی چاہیے لیکن بیٹی! ایک بار اس رشتے کے بارے میں لازمی سوچنا۔ اسد ما شا اللہ سے ڈاکٹر ہے۔ پانچ وقت کا نمازی ہے اور اخلاق بھی بہت اچھا ہے۔ شکل و صورت سے بھی اچھا بچہ ہے۔ دیکھو پلوشہ! آرام سے سوچ کر مجھے بتا دینا کیونکہ آخری فیصلہ تمہارا ہی ہو گا۔"
بابا نے پیار سے کہا تو پلوشہ نے جی کہہ کر سر جھکا لیا۔ اب وہ کیا کہتی کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے؟ بابا کے سامنے ایسا کہنا ناممکن تھا۔ تبھی وہ خاموشی سے اٹھ گئی۔

"میں کیاروں کو پانی دے دوں۔"
پلوشہ کہہ کر نلکے کی جانب بڑھ دی جبکہ دعا نے بابا کا تھکا ہوا چہرہ دیکھا۔

"کیا ہوا ہے بابا؟ رات کو ٹھیک سے سوئے نہیں؟"
اس نے پوچھا تو بابا نے گہرا سانس لیا۔

"سوچتا ہوں کہ ایک دن تم دونوں مجھے چھوڑ جاؤ گی تو سانس بند ہونے لگتا ہے۔"
بابا نے کہا تو وہ اٹھ کر ان کے پاس بیٹھی اور اپنا سر ان کے کندھے سے ٹکا دیا۔ یہ اس کی ہمیشہ سے عادت تھی۔ بابا کے کندھے پر سر رکھ کر جو سکون ملتا تھا وہ دنیا کے کسی خزانے میں نہ تھا۔

"میں تو کہیں نہیں جاؤں گی آپ کو چھوڑ کر۔ پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے۔"
اس نے کہا تو بابا نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔

"ایسی باتیں نہیں کرتے۔ بیٹیوں کا اصل گھر ان کا سسرال ہی ہوتا ہے۔ "

"تو میں آپ کو بھی اپنے اصلی گھر لے جاؤں گی۔ کیا خیال ہے؟"
اس نے شرارت سے کہا تو بابا ہنس دیے جبکہ کیاریوں کو پانی دیتی پلوشہ کو ان کی یہ ہنسی زہر لگ رہی تھی۔

---------☆☆☆☆

اس نے کچن میں داخل ہوتے ساتھ کبنیٹ سے گلاس نکالا اور شیلف پر رکھ کر اس میں ساتھ پڑی بوتل سے پانی انڈیلنے لگی۔ سردی کے باعث اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ تیزی سے پانی ڈالنے بعد اسے حلق میں انڈیلا اور گلاس تقریباً پٹختے ہوئے کچن سے نکل آئی۔

"میم! کیا آپ کو کچھ چاہیے؟"
اس کی میڈ نے پوچھا جو کہ اس کے کمرے کی صفائی کر کے آئی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور سیڑھیاں پھیلانگتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ساتھ اس نے دروازہ پٹاخ سے بند کیا اور اپنا پرس بیڈ پر پھینکنے کے بعد وہ خود بھی بیڈ پر بیٹھ گئی۔

"یعنی شایان کو ایستھما ہے اور اس نے مجھے بتایا تک نہیں۔"
وہ کسی غیر مرئی نقطے کو گھورتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
اس وقت گیارہ بج رہے تھے اور وہ کتنی ہی دیر دریا کے کنارے ٹہلتے صرف یہی سوچتی رہی تھی کہ آخر شایان نے اسے کیوں نہیں بتایا؟ لیکن جب سردی سے ٹھٹھرنے لگی تو اپارٹمنٹ واپس آگئی۔

"اس کے لیے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی شایان! تم نے میری سے اپنے متعلق اتنی اہم بات چھپائی جبکہ میری تمہیں اپنی ساری باتیں بتاتی ہے۔"
غصے سے سوچتے ہوئے وہ شیشے کی دیوار کے پاس آئی۔ نیچے سڑک پر اب چہل قدمی تھی۔ گاڑیاں اپنے سفر پر رواں دواں تھی۔ ہر ایک زندگی سے بھرپور تھا سوائے اس کے۔ برف باری کی شدت میں اضافہ ہو گیا تو اس نے میڈ کو آواز دی۔

"اڈینا! اڈینا!"
اس کی آواز سن کر میڈ بھاگتی ہوئی آئی تھی۔

"یس میم؟"

"میرے کمرے کا ہیٹر چلا دو اور کچھ دیر بعد بند کر جانا۔ میں کچھ دیر سونا چاہتی ہوں۔ اگر کوئی ملنے آیا تو اسے کہہ دینا کہ میم کی طبعیت خراب ہے۔ "
اڈینا کو حکم دیتے ہوئے اس نے الماری سے اپنا سلیپنگ سوٹ نکالا اور باتھ روم کی جانب بڑھ دی۔

----------☆☆☆☆

"تین مارچ 2015!!"
اس کے سامنے بیٹھے موٹے پولیس افیسر نے معنی خیز نگاہوں سے اسے دیکھتے پوچھا تو وہ لب بھینج کر رہ گئی۔

"دیکھیں مس!! آپ شاید یہاں کے اصولوں سے واقف نہیں ہیں۔ ورنہ۔۔۔۔"
پولیس افیسر نے خباثت سے کہتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تو اس کے ماتھے پر بل نموندار ہوئے۔

"ورنہ کیا؟؟"
اب کی بار وہ کرخت ہو گئی تھی۔ اس کی بات سن کر پولیس افیسر شیطانی ہنسی ہنسا۔

"ارے اوہ شیدے! آج ہمارے تھانے بہت معصوم لوگ تشریف لائیں ہیں۔ ان کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرؤ۔"
پولیس افسر نے کمال کی اداکاری کی اور پھر ٹیبل پر کچھ آگے ہو کر اس کی طرف جھکا۔

"مس معصوم! ہر کام کے لیے پیسے لگتے ہیں۔ یہی ہمارا اصول ہے۔ اگر آپ دس لاکھ کا بندوبست کرلیں تو ہم آپ کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ورنہ۔۔۔" کہہ کر وہ پیچھے ہوا اور اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے۔"یہ تھانہ گواہ ہے ہم نے کبھی بغیر پیسوں کے کام نہیں کیا۔"
پولیس افسر کی بات پر اس کی آنکھوں میں بےیقینی پھیل گئی۔

"پیسوں کے بغیر کام نہیں کیا یعنی رشوت کے بغیر کام نہیں کیا؟"
وہ گویا خود کو بتا رہی تھی۔

"ارے او بی بی! اتنی نیک پروین ہو ناں تو سکون سے گھر جا کر بیٹھو۔ سب جانتا ہوں تم جیسی لڑکیوں کو۔ تم لوگ عزت بیچ کر اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتی ہو۔"
پولیس افسر نے غصے سے کہا تو وہ طنزیہ ہنسی۔

"اور آپ ایمان بیچ کر اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ہم ایک ہی گلی کے جانور ہیں جناب!"
کہتے کہتے وہ ہنسی اور میز پر پڑے پین باکس سے ایک سیاہ مارکر نکالا۔

"بکواس بند کرؤ!"
پولیس افسر اس کی بات پر اشتعال انگیزی سے بولا تو اس کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔

"یہ تاریخ لکھ کر جا رہی اس دیوار پر۔۔اگلے سال ٹھیک اسی تاریخ اور اسی ماہ  پھر آؤں گی۔ تب بتاؤں گی کہ کون ایمان بیچتا ہے اور کون عزت!!"
مارکر سے سفید چونے کی دیوار پر اکیس مارچ 2015 لکھ کر اس لڑکی نے مارکر پولیس افسر کی آنکھوں کے سامنے کیا اور ہوا میں چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں مارکر میز پر گر گیا۔ وہ پولیس افسر مٹھیاں بھینجے اس لڑکی کی جرات دیکھ رہا تھا جو اب رخ موڑے لکڑی کا دروازہ کھول کر باہر جانے کو تیار تھی۔ لیکن ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ پلٹی اور دلچسپی سے پولیس افسر کا چہرہ دیکھا۔

"تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھوائیے گا کہ جب غم شدت اختیار کر جاتا ہے تو وہی غم انسان کو مضبوط اور بےخوف بنا دیتا ہے۔ صاحب!آپ کے پاس تو کھونے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا۔اس لیے طاقت میں آپ مجھ سے کم ہیں۔۔سوچیں اگر کسی رات آپ سکون سے سو رہے ہوں اور آپ کو فون آئے کہ آپ کے بیوی بچے اغوا ہوگئے ہیں تو آپ کا کیا حال ہو گا۔۔ہنہہہ!!" نخوت سے سر جھٹکا پھر مخاطب ہوئی۔ "مگر مجھے ایسا کوئی خوف نہیں ہے اس لیے مجھ سے ڈرئیے صاحب!! میں اغوا اور قتل بھی کر سکتی ہوں!"
آخری الفاظ کہتی وہ دروازے کا پٹ کھولتی باہر نکل گئی جبکہ پولیس افسر نے غصے سے کرسی کو ٹھوکر ماری-
"اس کا تو کچھ بندوبست کرنا پڑے گا۔"
سوچتے ہوئے اس کی نظر سفید چونے کی دیوار پر پڑی جہاں کالی سیاہی سے اکیس مارچ 2015 لکھا تھا۔

----------☆☆☆

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top