last chapter.

اے آدم کی اولاد ہم نے تم سے کہہ نہیں دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ﴿۶۰﴾ اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا۔ یہی سیدھا رستہ ہے ﴿۶۱﴾ اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں تھے؟ ﴿۶۲
(سورہ یٰس ۶۰-۶۲)

زندگی ایک امتحان ہے۔ جہاں اچھا برا راستہ انسان کو بتا دیا جاتا ہے۔ انتخاب اُسکے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ برا راستہ دلفریب اور آسائشوں سے مزین، جبکہ سچ کا اور اچھا راستہ قربانیاں مانگتا ہے۔
یہ امتحان ہے جو ہر کسی نے دینا ہے، کیسے؟ وہ اُسکے اپنے ہاتھ میں ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا کی ساری باتیں اُسکے ذہن میں مقید تھیں جو کل اُنہوں نے اُسے کہیں تھیں۔
جانوروں کا انتظام وہ کر چکا تھا، ایک آیان اور ایک ہدا کے لیے۔ وہ جانوروں کو لینے جا ہی رہا تھا کے اُسکا فون ایک دم سے بج پڑا۔ نمبر انجان تھا، اُسنے آخر میں فیصلہ کرتے ہوئے فون اٹھایا اور دوسری طرف سے آواز سننے کے انتظار میں چپ رہا۔

"یار تو کچھ بول کیوں نہیں رہا؟" ایک دم سے حبیب کی آواز سن کر وہ ایک خوشگوار حیرت سے بول پڑا۔

"تو؟ تو پاکستانی نمبر سے کیسے کال کر رہا ہے؟"

"ارے ابھی ابھی ہی تو میری فلائٹ لینڈ ہوئی ہے، سب سے پہلے سوچا تجھے بتاؤں۔ گھر میں ابھی میں نے کسی کو نہیں بتایا، آ اور آ کر مجھے پک کر۔"

"حبیب، ابھی میں ذرا مصروف ہوں، تو انتظام کر لے۔ میں تجھ سے ملنے جلد آؤنگا۔" محب اس کام کو مزید ٹالنا نہیں چاہتا تھا اس لیے حبیب کو منع کرتے ہوئے بولا۔

"تو ابھی کے ابھی آ میں لوکیشن بھیجتا ہوں، بس اب میں فون آف کر کے تیرا انتظار کر رہا ہوں۔" حبیب نے محب کو وقت دئیے بغیر فون کاٹ دیا اور محب کو چار و ناچار گاڑی ایئرپورٹ کی اور موڑ نی
پڑی۔

وہاں پہنچتے ہی اُسنے حبیب کو پک کیا، اُس سے ملا اور پھر دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔ حبیب نے محب کے لہجے میں ایک بےچینی محسوس کی۔ یہ محسوس کیا جیسے وہ بےحد پریشانی اور قرب میں ہے۔

"اچھا بتا کیا ہوا ہے؟"

محب اُسکی بات پر چونکہ اور بولا۔

"کچھ نہیں، بس تھوڑی مصروفیات ہیں۔۔۔"

"آغا ولا چل، بھابھی سے ہی ملوا دے۔"

"وہ ولا نہیں ہے، تو گھر سے ہو آ، ایک دو دن تک میں تیری دعوت کرونگا پھر سب سے ملواونگا۔"

"کیا چھپا رہا ہے تو؟
مجھے گھر جانے کا کہہ رہا ہے، اور اتنی جلدی میں ہے۔ اب ایسا بھی کیا کام ہے؟" محب حبیب کی بات سے چپ ہوگیا۔ حبیب سے وہ ہر بات ڈسکس کرتا تھا۔
کچھ دیر بعد محب کی بےچینی بہت بڑھ گئی، وہ چاہتا تھا کے وہ کسی کو تو یہ سب بتائے۔

اُسنے گاڑی کے دیش بورڈ سے ڈائری نکالی، اُسکا ایک صفحہ پھاڑ ا اور اُس پر کچھ لکھنے لگا، پھر وہی کاغذ حبیب کو دیتے ہوئے کہنے لگا۔

"سب بتاتا ہوں، پر بس تو میری اس امانت کی حفاظت کرنا اور اسے حفاظت سے اپنی بھابھی تک پہنچا دینا۔"

"یہ خط خطوط خود کیوں نہیں دیتے جانی، ویسے نائس چینج برو۔" حبیب نے حظ اٹھاتے ہوئے کہا۔

"حبیب، بس جو کرنے جانا ہے اُس میں ہلکا سا خطرہ ہے۔ چاہتا ہوں کے اُس کے دل سے ہر شک دور ہو۔ جلد نہیں تو بدیر ہی سہی!"

"شک؟
کیا مطلب۔ کچھ ہوا ہے کیا!
بتا مجھے؟"
حبیب کے کہنے پر محب نے اُسے سب کہہ ڈالا۔ سب کچھ جو اُسکے ساتھ ہوا، وہ سب جو اُسنے محسوس کیا تھا! سب کچھ!

"مجھے لگتا تھا!" حبیب سب سننے کے بعد بولا۔

"کیا؟"

"جب بھی میں پاکستان کا ذکر کرتا تھا تیری آنکھوں میں ایک علیحدہ سی چمک آجاتی تھی۔
مجھے لگتا تھا کے کوئی ایسی وجہ تو ہوگی جو تیرے گلے شکوے اور نفرت سے بڑی ہوگی۔ وہ وجہ یہ محبت تھی جو تو بھابھی سے کرتا تھا۔"

محب چپ رہا، شاید یہ ادراک اُس پر بھی ہو چکا تھا، وہ بھی جانتا تھا کیسے کوئی چھپ چھپ کر اُس سے دروازے کی اوٹ میں کھڑے ہوکر پڑھتا تھا۔
وہ جانتا تھا کے جب بھی وہ اُس سے سرد لہجے میں بولتا تھا تو اُسکی آنکھوں میں آئی نمی اُسکی معصومیت کی گواہ ہوتی تھی۔

پر اُس نے یہ سب ہدا کو ایک خطرے میں دیکھ کر محسوس کیا کے وہ اُسکے لیے کیا تھی!

"اور اب تو یہ سب اکیلے کرنے جا رہا ہے، تو بیوقوف ہے یا پاگل؟"

"پتہ نہیں۔"

"میں تیرے ساتھ جاؤنگا۔" حبیب اٹل لہجے میں بولا۔

"نہیں حبیب۔
یہ سب مجھ سے منسلک مسئلے ہیں، میں تجھے ان میں گھسیٹ نہیں سکتا۔"

"دیکھ آج جیسے میں تیری مدد کرونگا، ہو سکتا ہے کل کو تُجھ سے مدد لوں بھی۔ اب اپنے فائدے کے لیے میں تیری اتنی مدد تو کر سکتا ہوں نا؟"

"حبیب مذاق نہیں کر رہا میں! یہ سب بہت عجیب ہے، تو دور رہ بس۔" محب سنجیدگی سے بولا۔

"تو میں کب مذاق کر رہا ہوں؟
اور سب جاننے کے بعد تو سوال ہی نہیں اٹھتا کے میں تیرے ساتھ نا جاؤں۔ دوست ہیں ہم، اور میں اپنے دوست کو کسی بلا کے پاس اکیلا نہیں چھوڑ سکتا، خدا جانے تو بلا کا کیا حشر کرے!" حبیب کی بات سن کر محب مسکرا گیا۔
اب جب حبیب فیصلہ کر ہی چکا تھا تو دیری کرنے کہا جواز بچتا ہی نہیں تھا۔

وہ دونوں چل پڑے، راستے سے جانور اٹھا لیے، اور منڈی کے آس پاس ہی کسی ویران علاقے کو ڈھونڈنے لگے۔
اس سب میں کچھ وقت لگ گیا پر پھر حبیب نے محب کو ایک خالی سڑک کی اور اشارہ کیا، اُسنے سڑک کی اور گاڑی موڑ دی اور پھر وہ مکمل ویرانے کی طرف بڑھنے لگے۔ سردیوں کی وجہ سے خنکی کافی تھی، اور چڑھتا دِن بھی مانو بادلوں کے سائے سے گہرے رنگوں میں گھرا ہوا تھا۔

اتنے میں ہی حبیب بولا۔

"محب ویسے کیا یہ چیز اور بلا اوروں کو تو تنگ نہیں کرتی نا؟
یعنی اُسکا مسئلہ تیرے سے ہے مجھے تو کچھ نہیں کہے گی نا؟" حبیب کو محب جانتا تھا اسلیے اُسکی بات پر ہنس دیا۔

"اور یہ بکرے کتنا بول رہے ہیں! جیسے انہیں بھی معلوم ہوگیا ہو کے یہ قربان ہونے جا رہے ہیں۔"
پھر بکروں کے اور دیکھ کر بولا۔

"تم یہاں سے آنکھ بند کرو گے اور جنت میں آنکھ کھولو گے۔ نا کوئی حساب کتاب نا ہی کچھ۔ اب تو بولنا بند کر دو!"

"کوئی تو بڑا بہادر بن رہا تھا کچھ دیر پہلے، خیر فکر نا کر میں کوشش کرونگا کے تجھے کچھ نا ہو..." وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ اور پھر اُسنے سڑک کے کچھ دور ایک جگہ دیکھی، جو کچھ درختوں میں گھری ہوئی تھی۔ وہ گاڑی وہاں لے گیا اور گاڑی روکتے ہی وہاں سے اتر گیا۔ حبیب بھی اُسکے ساتھ ہی نکلا تھا۔ دونوں نے مل کر جانور گاڑی سے نکالنے کے لیے دروازہ کھولا، پر مانو جیسے وہ باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں تھے۔

"یار یہ کیوں نہیں نکل رہے." حبیب اپنا بازو مسلتے ہوئے بولا جس کو ایک بکرے نے لات مار دی تھی۔

محب رکا نہیں، اُسنے اُن میں سے ایک کو باہر نکال دیا، جیسے ہی دوسرے کو نکالنے لگا ایک آواز اُسکی سماعت سے ٹکرائی۔

"محب، محب بیٹا!" اُسکے ہاتھ جن سے اُس نے بکرے کو پکڑا ہوا تھا ڈھیلا پڑ گیا، یہ آواز اور کسی کی نہیں بلکہ اُسکی ماما کی تھی۔

"محب تو نے کوئی آواز سنی؟" حبیب کے بولنے پر محب ہوش میں آیا اور کہا۔

"پیچھے مت دیکھنا۔" محب سے زیادہ بولنے نہیں ہوا، پر یہ سن کر حبیب کے دل کی دھڑکن تیز سی ہوگئی!

"یہ کون ہے محب؟ ماما سے نہیں ملوایا تم نے۔" آواز کے پھر سے آنے کی وجہ سے حبیب کا دل منہ کو آرہا تھا، اور محب، وہ شاید ڈر سے نہیں بلکہ درد سے منہ کو سیے کھڑا تھا۔

آنکھیں بند کر کے وہ اس آواز کو محسوس کرتے گیا کو اُسکی ماما کی تھی۔ گو کے یہ ایک دھوکہ اور چھل تھا پر!...

وہ آیات الکرسی کا ورد کرنا شروع ہو گیا۔ دوسرا بکرا اُسنے نکالا، دل ہی دل میں صدقے کی قبولیت کی دعا کرتا گیا۔ جانتا تھا کے آیان اور اس کو آنے والے خواب، اُسکے ماما بابا کی موت، یہ سب کیوں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے تھے...

دوسرے بکرے کے اُتارتے ہی آواز رونے میں بدل گئی۔ اب وہ محب کو پکار رہی تھیں، کے وہ اُسے یاد کرتی ہیں۔ اُسکے بغیر وہ بہت دکھ میں ہیں پر اُسنے پیچھے نہیں دیکھا۔ وہ سارے زخم سہتے گیا۔
چلتا گیا، رُکا نہیں۔

اُسنے پھر پیچھے کا دروازہ بند کیا اور خود گاڑی میں جلدی سے بیٹھ گیا۔ اُسکے ساتھ ہی حبیب بھی گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔

اب کی بار آواز اُسکے بابا کی آئی جو اُسے جانے سے روک رہے تھے، کہہ رہے تھے کے محب کیسے اُنھیں چھوڑ کے جا سکتا ہے؟

"محب گاڑی چلا!" حبیب نے محب کو خود سے لڑتے دیکھ کے کہا۔
اُسنے گاڑی سٹارٹ کر دی، ابھی وہ چل ہی رہے تھے کے آواز اور اونچی ہوتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہنسی میں بدل گئی، اور پھر وہی آواز جسے محب اپنے خوابوں میں سنتا آیا تھا، اُسنے وہ سنی۔ جیسے وہ آواز خاص اُس پر ہنس رہی تھی۔

پھر ایک بہت بھیانک لہجے میں کسی نے یہ الفاظ بولے، تیزی کی وجہ سے حبیب لفظوں کا مطلب سمجھ نہیں پایا، پر محب سمجھ گیا۔

"خود کو مجھ سے کیسے بچاو گے؟"

یعنی اُس پر بھی یہ کالا عمل ہوا تھا؟ کوئی اُسکی جان کے بھی پیچھے تھا؟

حبیب کو وقت لگا پر وہ سمجھ گیا! محب کو فکرمندی سے دیکھتے ہوئے بولا!

محب کے چہرے پر فکر کی ایک لہر دوڑگئی، اُسنے حبیب کو دیکھا جو بغیر سیٹ بیلٹ باندھے بیٹھا ہوا تھا، کہا کے وہ فکر نا کرے یہ چیز بس اُنکا دھیان اپنی طرف کرنا چاہتی ہے۔

اُسنے حبیب کی طرف ایک نظر دیکھا، مسکرایا اور پھر گاڑی تھوڑا آگے لے گیا۔ اب آواز آنا بند ہوگئی تھی۔ محب نے حبیب کی اور ایک صفحہ کیا اور کہا کہ اسے بھی پیچھے پھینکنا تھا پر اُسے یاد نہیں رہا، اور کہا کہ حبیب اُسے پھینک دے۔

حبیب نے اُس سے وہ کاغذ لیا، کھڑکی کھولنے ہی والا تھا کے محب نے یہ کہہ کر منع کردیا کے اُسکا شیشہ خراب ہے۔ حبیب نے پھر دروازہ کھولا، رفتار اب پہلے کی نسبت بڑھ رہی تھی، پر اسی لمحے میں محب نے اُسے دھکا دیا اور وہ آن کی آن میں باہر سڑک کے اطراف میں موجود گندم کی فصل، جو ابھی اُگنے کے مراحل میں تھی، گر گیا۔

کچھ خراشیں کچھ زخم اُسے آئے، پر دور جاتی محب کی گاڑی، جسکی رفتار بڑھتی جا رہی تھی اُسکا دل ہلا گئیں!

کیا محب نے اُسے بچانے کے لیے ایسے گاڑی سے باہر دھکیلا تھا؟
اُس نے وہ کاغذ کھول کے دیکھا جو اُسے باہر پھینکنے کے لیے محب نے دیا تھا، پر وہ بلکل خالی تھا! یعنی محب نے جان کر!....

وہ پاگلوں کی طرح گاڑی کے پیچھے بھاگنے لگا، گاڑی بہت بے قابو سی لگ رہی تھی، اس کو سمجھ آگئی کے محب نے اُسے کیوں گاڑی سے دھکیلا!
وہ جان گیا تھا کے اُسکی گاڑی کی بریکس فیل ہوگئی تھیں!

"محب!
محب!!" حبیب حلق کے بل چلایا!
اور پاگلوں کے جیسے گاڑی کی سیدھ میں بھاگنے لگا، گاڑی کی رفتار جہاں بے قابو ہو چکی تھی، وہیں سڑک کے دوسری اور سے آتے ٹرک نے حبیب کا دل دہلا دیا!

شاید یہ سب محب بھی دیکھ چکا تھا اس لیے اُسنے گاڑی کو سڑک کے داہنی موڑ موڑا جہاں کئی گھنے درخت تھے، ماحول پر چھائے سکوت کو محب کی گاڑی اور درختوں کی ہونے والی ٹکر نے توڑا!

گاڑی رک گئی پر ایکسیڈنٹ بہت برا ہوا تھا، جہاں حبیب کے پیروں تلے زمین چھن گئی وہیں کہیں دور موجود لڑکی خواب سے ڈر کر اُٹھی تھی، اُسکا دل زور زور سے کانپ رہا تھا!

ہدا کبھی اتنا خوفزدہ نہیں ہوئی تھی، وہ تو وجہ تک نہیں جانتی تھی کے کیوں اُسکی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے! حالت ایسی کے مانو سانس لینا بھی مشکل تھا اُسکے لیے۔

پر وہ تو، وہ تو جائے نماز پر تھی، نماز پڑھتے پڑھتے اُسکی آنکھ کیسے لگ گئی؟

اُس نے بے اختیار اپنے ہاتھ اٹھائے اور زارو قطار رونے لگی، کئی دنوں بعد جیسے آج اُسکے آنسو نکلے تھے، جیسے آج اُسکا دل صاف ہو رہا تھا، دُھل رہا تھا۔۔۔

اُسکے لبوں سے اُس ظالم کی سلامتی کی دعا نکلنے لگی جس سے وہ کل تک نفرت کا دعویٰ کر کے آئی۔تھی!

کچھ تو تھا جو ٹھیک نہیں تھا، پر وہ بس یہ جانتی تھی کے مزید وہ اپنی خالہ کی طرف نہیں رہ سکتی تھی۔ اُسکا جانا ضروری تھا، وہ اٹھی۔ حالت ٹھیک کی اور خالہ کو اپنے جانے کی خبر سناتے ہی گھر سے باہر نکل گئی۔

خالہ اُسکے اضطراب سے واقف تھیں اس لیے اُنہوں نے اُسے کچھ نہیں کہا بلکہ دل سے اُسکی خوشیوں کی سلامتی کی دعا مانگی!

وہ جلد ہی ولا پہنچ گئی، پر وہاں ایک سوگ ایک ماتم زدہ ماحول دیکھ کر دنگ رہ گئی! یہ سب کیا تھا، وہ آگے بڑھی ہی تھی کے علینہ کی چینخوں سے گھبرا گئی!

"امی! امی محب کو کیسے کچھ ہو سکتا ہے؟
یہ ایکسیڈنٹ، یہ کیسے ہوا!"

ایکسیڈنٹ، بس یہ لفظ سنتے ہی اُسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا! وہ بھاگتی ہوئی علینہ کی طرف آئی اور پوچھنے لگی!

"ایکسڈنٹ! کس کا؟
کیا کہہ رہی ہو تم؟" بے یقیں لہجے سے بھرے اُسکے الفاظ نے حبیب کو متوجہ کیا جو محب کو ہسپتال پہنچا کر یہاں آیا تھا! محب کا فون ٹوٹ چکا تھا اور ایڈریس کے علاوہ اُسکے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا جس سے وہ سب کو آگاہ کر سکے!

وہ پہلی نظر میں ہی، اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو پہچان گیا تھا جس سے اُس کے دوست نے محبت کی تھی، سو اپنی جیب سے وہ خط نکال کر اُسنے ہدا کو دیا، دیتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ گیا۔

سب کچھ، ساری سچائی!
سارے خدشات کے کوئی اُسکے پیچھے تھا، کوئی چیز اُسے یہاں بلاتی تھی! سب کچھ کہہ دیا جسے سن کر نا صرف ہدا بلکہ علینہ بھی اندر سے کانپ گئی تھی، سب سے زیادہ فریحہ بیگم...

تو کیا جس دلدل میں وہ ہدا کو گرانا چاہتی تھی، اُسکی خود کی خوشیاں ہی اُس میں گر گئیں تھیں؟

اور فریحہ بیگم، جو اپنے حسد میں آ کر کئی زندگیاں برباد کر گئی تھیں آج اپنی بیٹی کی خوشیاں بھی اُنکے ہاتھوں ہی اُجڑ گئیں تھیں؟

ہدا خط لیتے پاس پڑے صوفے پر ڈھے سی گئی، خط کھولتے ہی جو لفظ اُسکے سامنے آئے، اُسکی آنکھیں نم کرتے گئے!

"تم مجھ سے بہت خفا ہوگی، اور ہونا بھی چاہیے۔
پر میں مجبور تھا، بہت مجبور تھا۔
اور صرف تمہارے لیے ہی میں مجبور ہو سکتا ہوں!

پر میں جانتا ہوں کے جتنی محبت تم اپنے دل میں میرے لیے رکھتی ہو اُسکے آگے یہ نفرت ایک بار پھر سے ہار جائیگی!

میں نہیں جانتا کے کب مجھے تم سے محبت ہوئی، بس یہ جانتا ہوں کے اب یہ میرے اندر سے ختم نہیں ہو سکتی۔ میری زندگی، میری خوشیوں پر میں ہمیشہ اپنی بیٹر ہالف کی زندگی اور خوشیوں کو ترجیح دونگا۔ تمہاری ایک امانت میرے کمرے کے دراز میں ہے، اُسے دوبارہ کبھی مت اتارنا!

اگر یہ خط تم تک پہنچ گیا تو اسے پڑھتے ہی وہاں آجانا جہاں میں ہوں!"

"مجھے ہسپتال جانا ہے۔" ہدا کی بھیگی آواز سنتے ہی آغا جان کی آنکھیں مزید نم ہو گئیں۔ حبیب اور عدیل کو ہدا کے ساتھ ہسپتال جانے کا کہہ کر وہ مسجد کی اور چلے گئے۔

آج کا دن بہت بھاری تھا، وہ خیر مانگنے جا رہے تھے، کے رب کے علاوہ خیر دینے والی کوئی ذات نہیں تھی!

ہدا نے محب کے کمرے سے جا کر انگھوٹی لی، اُسے پہنا اور زارو قطار رونے لگی، اسی اثناء میں دادو کی نظر خود پر پا کر وہ اُنکے گلے لگ کے رونے لگی۔ وہ اُسے سنبھال رہی تھیں، پھر دونوں باہر نکلیں اور لاؤنج کی اور جا ہی رہی تھیں کے علینہ کے کمرے سے آتی آوازوں پر چونک گئیں۔

"محب! آپ نے اُس پر عمل کیوں کروایا تھا امی!"

"علینہ دھیرے سے بولو!
میں نے کچھ نہیں کروایا، اور محب سے تم محبت کرتی ہو تو میں بھلا ایسا کیوں کرونگی؟"

"امی، میں کچھ نہیں جانتی، یہ سب اور کوئی کیوں کروائے گا ہاں!
پوچھیں، پوچھیں اُس عورت سے کے یہ سب کیا ہے!" علینہ کی روتی آواز اور الفاظوں کی سنگینی نے کمرے کے باہر کھڑے دونوں وجود کو دہلا دیا!

"تم، ہاں تم۔ یہ سب کیا ہے؟
میں نے صوفیہ خانم، اُسکی ہونے والی اولاد اور ہدا پر ہی تم سے عملیات کروائے تھے۔
تو پھر محب! اُسکے ساتھ وہ سب کیوں ہو رہا ہے جو صوفیہ خانم کے ساتھ ہوا تھا؟"

"تم تم ہنس کیوں رہی ہو؟" فریحہ بیگم کی آوازوں سے گویا اُن اور یکے بعد دیگرے پہاڑ گر رہے تھے!

"کیا!
یہ، یہ کیا کہہ رہی ہو تم..."

"امی، کیا کہہ رہی ہیں، بتائیں مجھے۔ بتائیں..." علینہ کی بگڑتی حالت اُسکی آواز سے عیاں تھی۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد فریحہ بیگم کی آواز پھر سے دونوں کو سنائی دی۔

"وہ، وہ کہہ رہی ہے کے!
اُسنے صوفیہ خانم اور اُسکی اولاد پر عملیات کیے تھے۔ آیان کے پیدا ہونے سے پہلے اُسکا کوئی نام تو نہیں تھا نا، اسی لیے اُسنے صوفیہ خانم اور اُسکی اولاد!
اور صوفیہ خانم کی اولاد میں محب بھی تھا۔۔۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے یہ سب کچھ تب سے محب کے ساتھ بھی ہو رہا تھا!
صوفیہ خانم اور آیان کے ساتھ ساتھ وہ بھی!..."

اُنکی بات ختم ہوتی اس سے پہلے ہدا اور دادو کے پیچھے سے کوئی کمرے کی اور گیا، جو اور کوئی نہیں بلکہ تایا جان تھے۔

کمرے میں جاتے ہی اُنہوں نے فریحہ بیگم کو تھپڑ مارا۔ علینہ ایک دم سے اُنھیں دیکھ کر ڈر گئی۔

"تم دونوں ماں بیٹیوں نے کیا کردیا ہے؟
پہلے میرے بھائ بھابھی، اور اُس معصوم بچے پر جو اس دنیا میں آیا بھی نہیں تھا، اُس پر کالے عملیات کروائے! اور آج محب!
خدا کے غضب سے کیا تمہیں ذرا بھی خوف نہیں آیا؟" وہ چلاتے ہوئے بولے، گھر پر موجود باقی افراد اس آواز سے اکھٹے ہوگئے تھے۔ سب کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

تایا جان کی باتیں سن کر سب کو ہی سانپ سونگھ گیا، تو یہ تھی سچائی! حسد کی آگ نے ایک ہنستے بستے گھر کو کیسے ایک جلتی ہوئی آگ میں دھکیل دیا تھا!

آغا جان بھی نماز پڑھ کر واپس آگئے، سب کچھ جب اُنکی سماعت سے ٹکرایا وہ یک ٹک کھڑے دیکھے گئے۔۔۔

یہ کیسی آزمائشیں تھی جو اپنوں نے ہی تحفے میں اُنھیں دی تھیں۔

"میں کسی کو مارنا نہیں چاہتی تھی، میں بھائ صاحب کے بھی خلاف نہیں تھی۔ یہ سب حادثاتی تھا!
مجھے، مجھے معاف کردیں!" فریحہ بیگم کی روتی ہوئی آواز سن کر ہدا باہر کی اور مڑ گئی۔ بہت افسوس کے ساتھ کے کئ بار ہمارے اپنے دکھنے والے ہی ہمارے سب سے بڑے دشمن نکلتے ہیں!

"اللہ توبہ سنتا ہے، شاید کبھی نہ کبھی تمہیں معاف بھی کردے۔ پر میں اُسکا بنایا ہوا انسان ہو۔ تم وہ عورت ہو جسکا آخرت میں حصہ ہی نہیں رہا، تم نے شیطان کی رفاقت کو ترجیح دی فریحہ!

کیا اس گھر کے پیار میں کوئی کمی رہ گئی تھی؟

کیا تمہاری عزت میں کبھی کسی نے کوئی کمی لائی تھی؟

نہیں نا!

تم نے پھر بھی شیطان کو چنا، اُسکا طریقہ اپنایا، اس لیے تمہاری رفاقت مجھے نا اس دنیا میں قبول ہے، نا اُس آخرت میں۔

میں تمہیں طلاق دینے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ چاہتی ہو تو اپنی بیٹی کو بھی اپنے ساتھ لے جانا۔"

یہ کہتے ہوئے وہ ہدا کے پیچھے پیچھے باہر نکل گیے۔

وہ تو ولا سے نکل گئی تھی، یہ جانے بغیر کے فریحہ بیگم کو بھی زندگی بھر کی تنہائی تحفے میں مل چکی تھی، یہ بھی جانے بغیر کے اُنکا حساب اسی دنیا سے شروع ہو گیا ہے۔ اور رہی بات علینہ کی، تو آج اُسنے اپنا برہم اور اپنی محبت دونوں کھو دی تھیں۔ رشتوں کے آگے اُسکی اوقات ایک چیونٹی کے جیسے رہ گئی تھی۔

آغا جان جو عملیات کی سنگینی سے واقف تھے، عادل اور مجیب کو صدقے کے حوالے سے آگاہ کردیا۔
اسی اثناء میں ہدا ہسپتال پہنچ چکی تھی۔

کافی دیر باہر انتظار کرنے کے بعد بھی اُنھیں مایوس کن خبر ملی کہ محب کی جان خطرے سے باہر نہیں نکلی۔

وہ بہت دعائیں مانگ رہی تھی، اُسکا دل ساکت ہونے کو آ چکا تھا۔ پر اس دل میں ایمان تھا۔
اُمید تھی کے رب اپنے بندوں کو خالی ہاتھ نہیں چھوڑتا۔ وہ مدد کرتا ہے بس صدق دل سے مانگنا شرط ہے۔۔۔

منٹ گھنٹوں میں بدلے اور پھر جہاں ایک طرف محب کے نام کے صدقے نے اُس پر آئیں بلائیں ٹال دیں وہیں دوسری اور وہ زندگی کی طرف آنے لگا۔

یہ خدا کا رحم ہی تھا، یہ اُسکا کرم تھا۔ کے اُسنے محب کی زندگی کو بچا لیا تھا، ایک محبت کو نیا موقع دیا تھا۔

دیر لگی، پر وہ خطرے سے باہر نکل گیا تھا۔ اُسکا دیا ہوا خط ہدا انگنت بار پڑھ چکی تھی۔ اس محبت کے اقرار کو ہی تو وہ سننا چاہتی تھی۔ وہ جو بھی کہہ لیتی، اس بار تو اُسکے ساتھ جو بھی ہوا وہ اُسی کے لیے کیا گیا تھا تو اُسکا دل کیسے نرم نا پڑتا؟

کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے اُنھیں خوشخبری دی۔ محب ڈرگز کے زیرِ اثر تھا اس وجہ سے وہ اُس پوری رات میں سویا رہا۔ باہر عدیل اور مجیب جب کے محب کے ساتھ ہدا اٹینڈنٹ کے طور پر رکی۔

وہ ایک لمحہ بھی نا سوئی۔ چاہتی تھی کے محب کو اٹھتا ہوا سب سے پہلے وہ خود دیکھے۔

فجر کا وقت تھا، وہ سورہ رحمان کی تلاوت کر رہی تھی کے اچانک سے بستر پر لیٹے محب کی آنکھوں میں جنبش پیدا ہوئی۔ ایک آواز، ایک روشنی اُسے اُٹھ جانے کو کہہ رہی تھی۔ اُسنے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ کچھ دیر اُسے لگی، پر پھر آواز جہاں سے آرہی تھی وہاں دیکھا تو ایسا لگا جیسے وہ کسی خواب کے زیرِ اثر ہو۔

اُسکی بیوی، اُسکی شریک حیات۔ اور قرآن پاک کی تلاوت۔ وہ چپ رہا، سنتا گیا۔

محسوس کرتا گیا۔ اُس پاک محبت کو جو اُس لڑکی نے اس سے کی تھی۔

تلاوت ختم کرنے کے بعد ہدا کی نظر محب پر پڑی، جو خود بھی اُسکی اور دیکھ رہا تھا۔

وہ یہ یقین کرتے ہوئے کے محب اُٹھ گیا تھا، مسکرائی اور چند آنسو اُسکی آنکھوں سے گر گئے۔
وہ شکر ادا کر رہی تھی۔ وہ مطمئن تھی۔ وہ ایسا سکون محسوس کر رہی تھی جو اُسنے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔

"معاف کردیا ہے مجھے، ہیں نا؟" محب ہدا کے ہاتھ میں اپنی ماما کی انگھوٹی دیکھتے ہوئے بولا۔

"نہیں۔" وہ نرمی سے بولی۔

"مطلب!" وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا۔
پر وہ چپ رہی۔ کچھ نہیں بولی۔

"ناراض ہو؟" محب کے دوبارہ پوچھنے پر بھی وہ چپ رہی۔

"ہدا، یہاں آو." اُسکے بلانے پر وہ تھوڑا بیڈ کے پاس گئی۔

"مجھے دیکھو." اُسکے کہنے پر ہدا نے اُسکی اور دیکھا۔

"آئی ایم سوری.
فور نوٹ ٹیلنگ یو!
فور ہرٹنگ یو!
آئندہ ایسا نہیں ہوگا." اُسکے کہنے پر ہدا نے اپنے آنسو صاف کیے اور بولی۔

"اگر آئندہ آپ نے ہیرو بننے کے چکر میں اپنی جان خطرے میں ڈالی، تو میں آپکو کبھی معاف نہیں کرونگی." ہدا کے کہنے پر محب نے مصنوعی درد سے کراہتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا۔

"آؤچ ظالم لڑکی۔
پر میں وعدہ کرتا ہوں، ایک بار پھر سے کے آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا!" یہ کہنے کے بعد وہ بھی ہنس پڑا اور ہدا بھی۔

یہ لمحے اُنہوں نے بہت کچھ قربان کر کے پائے تھے. یہ محبت ہی اب دونوں کے پاس تھی، اُس دیے کے جیسے جو بہت اندھیرے میں بھی روشنی دیتا ہے۔
نوید دیتا ہے اُمید کی، جو مایوسی مٹاتا ہے۔ یقین کو جو ہمیشہ بڑھاتا ہے کے ہر رات کے بعد صبح آئیگی!
ہر دکھ کے بعد خوشی آئیگی۔ بس صبر، یقین اور محبت کا دیا جلا کر رکھنا شرط ہے۔۔۔

.............

Rani_dream_faith❤️🌺

The journey is now completed.
The story will always be close to my heart.
Do share your feedbacks on this Story❤️🌺

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top