۷
"ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں."
(سورہ ق آیت ۱۶)
لوگ صرف ظاہر جانتے ہیں، اندر کا حال تو بس خدا جانتا ہے۔ ہماری زندگی میں بھی ہمیں ظاہر سے جانچنے والے کئی لوگ آئینگے۔ اُن سے بس ذرا فاصلے پر رہنا ہے، یہ یاد رکھتے ہوئے کے خدا ہے۔
اور وہ ہمیں سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔
.............
"یہ پرفیوم میرا ہے۔" عدیل نے نفیس کے ہاتھ سے اسکا پرفیوم چھینتے ہوئے کہا۔
"دادو دیکھیں اسے، یہ پرفیوم بھائی نے مجھے دیا تھا!" نفیس دکھی منہ بناتے ہوئے بولا۔
"توبہ لڑکوں اتنی چیزیں تو دے چکا ہے وہ تمہیں اب ایک پرفیوم کے لیے بھی لڑ رہے ہو؟"
دادو نے مصنوعی خفگی سے بولا، محب انکی بات پر ہنس دیا۔
"دادو یہ دیکھیں مجھے اور اسماء کو ایک جیسی میک اپ کٹ دی ہے، کتنی پیاری ہے نا۔ میرے فیوریٹ برانڈ کی ہے۔" مائرا دادو کو اپنا تحفہ دکھاتے ہوئے بولی۔
"میرا گفٹ سب سے اچھا ہے، یہ دیکھو۔" علینہ اپنے ہاتھ میں پہنی ہوئی گھڑی دادو کو دکھاتے ہوئے بولی۔
گلابی رنگ کی نازک نفیس سی گھڑی واقعی بہت خوبصورت تھی۔
تحریم کو اپنے پینٹ برشز بہت پسند آئے وہیں عادل کو تحفے میں ملی ہوئی گلاسز۔
سب خوش تھے۔
محب جتنا جانتا تھا اتنا سب کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے تحفے لایا تھا۔
دادو کو ایک بےحد نفیس شال اور آغا جان کو یورپ کی مشہور پرفیومز۔ جانتا تھا وہ کے آغا جان دنیا بھر کی مختلف خوشبوؤں کے اسیر تھے۔
تحفے تحائف مل جانے کے بعد کوئی ناشتے پر لگ گیا تو کوئی کمرے میں تحفہ رکھنے چلا گیا۔
اپنے کمرے کی کھڑکی سے خاموشی سے جھانکتی ہدا سب دیکھ رہی تھی۔
۶ سال گزر گئے تھے پر سب ویسا ہی لگ رہا تھا۔
وہ بھی۔۔۔
وہ جانتی تھی کے یہ سب تب تک ایسا رہنا تھا جب تک وہ منظر سے دور تھی، اگر وہ باہر جاتی تو شاید یہ سب ایسا نہیں رہنا تھا۔ اُسکی بےضرر ذات باہر بکھری خوشیوں کو سوگ میں بدل سکتی تھی۔
وہ سب ہدا کے بغیر خوش تھے، اور وہ شاید ان کی خوشی میں خوش تھی۔
شاید۔۔۔
اتنے میں اُسکے کمرے کا دروازہ کُھلا اور تحریم اندر آئی۔
"آپی آپ یہاں ہیں۔ یہ دیکھیں مجھے اتنے اچھے پینٹس دیے محب بھائی نے۔۔۔" روانی میں بولتے ہوئے اُس نے ہدا کے چہرے کے بدلتے رنگوں کی طرف نا دیکھا۔
"بہت اچھے ہیں۔" وہ نرم لہجے سے بولی۔
اتنے میں مائرا، علینہ اور اسماء بھی اُسکے کمرے میں آ گئیں۔
"ارے ہدا تم یہاں ہو، باہر آتی نا، اتنا مزہ آرہا تھا ہم سب کو۔"
اسماء انجان بنے اُس سے پوچھ رہی تھی۔
"اچھا خیر تحریم، آپی کو دکھایا اپنا گفٹ؟" اسماء نے اُسکے ہنوز چپ رہنے پر پھر سے بولا۔
"ہاں، آپی کو دیکھایا ہے میں نے.
کیوں؟
کیا آپکو میرے پینٹس چاہئیں؟ اگر ہاں تو فوراً یہ خیال چھوڑ دیں کیونکہ میں کسی کو نہیں دینے والی۔" تحریم جھٹ سے بولی۔
"ارے نہیں شونو، ہمیں نہیں چاہئیں، ہمیں تو ہمارے گفٹس مل گئے ہیں نا۔
یہ دیکھو،کتنی پیاری ہے یہ گھڑی۔" علینہ اپنے ہاتھوں میں بندھی گھڑی تحریم کو، یا شاید ہدا کو جتاتے لہجے میں دکھاتے ہوئے کہا۔
ہدا کی نظریں اُسکے ہاتھ پر انجانے میں پڑیں، گھڑی واقعی پیاری تھی پر علینہ کی نیت نہیں، وہ صرف یہاں اُسے جتانے آئی تھیں کے سب کو محب نے کچھ نہ کچھ دیا سوائے اُسکے۔
اُسے کسی کے تحفے کی ضرورت تھی بھی نہیں،
اُسے تو بس عزت چاہئے تھی!
"مجھے اور اسماء کو ہمارے پسندیدہ برانڈ کا میک اپ ملا ہے، ہم تمہارے پینٹس کیوں لینگے۔"مائرا اپنی عمر سے چھوٹی تحریم کو دیکھ کے منہ چڑھا کر بولی۔
"تمہیں کیا دیا ہدا؟" اسماء نے اُس سے سوال کیا۔
ہدا چپ رہی، وہ جانتی تھی کے ان سب کا اُس کے کمرے میں آنے کا مقصد ہی اُسے ایک ازیت دینا، اُسے شرمندہ کرنا تھا۔
تحریم کو بھی آخر کر احساس ہوا، وہ اس نیت سے ہرگز نہیں آئی تھی کے ہدا کی دل آزاری ہو۔
"مجھے اور ہدا آپی کو ہی تو یہ پینٹس دیے بھائی نے۔ آپ نے سنا نہیں تھا کیا۔" تحریم اُسکا دل رکھنے کو بولی۔
"واقعی؟ ہنساؤ نا مجھے تحریم۔"علینہ ہنستے ہوئے بولی۔
"ان سب باتوں کا کیا مقصد ہے علینہ باجی؟"
ہدا اپنے نرم لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے بولی۔
"باجی نہیں ہوں میں تمہاری ہدا!
پر خیر میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کے سب سے پیارا گفٹ کسے ملا ہے۔
پر تمہیں اچھا تو کیا برا گفٹ بھی محب نے نہیں دیا تو یعنی میرا گفٹ ہی سب سے پیارا نکلا۔
ہیں نا مائرا، اسماء۔"علینہ فاتح لہجے میں بولی۔
مائرا اور اسماء نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر وہ تینوں طنزیہ نظروں سے ہدا کو دیکھے گئی۔
ہدا کبھی انکی باتوں کو دل سے نہیں لگاتی تھی، پر وہ بھی ایک حد رکھتی تھی۔
اُسے کسی بھی تحفے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ چپ رہی۔
اگر کچھ کہتی تو وہ تینوں اور طنز کرنا شروع ہو جاتیں۔
اس لیے وہ چپ رہی، وہ جانتی تھی کے کئی بار انسان کو اُسکی خاموشی ہی بچا سکتی ہے، یہ خاموشی ہی ایسا جواب ہے جسکے بعد کسی سوال کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ہاں پر اُسنے اپنے ہاتھ بہت سختی سے مٹھی کی صورت میں بند کیے ہوئے تھے۔
وہ ضبط کر رہی تھی، سہہ رہی تھی، اپنے وعدے کے لیے جو اُسنے اَپنی دادو سے کیا تھا۔۔۔
وہ تینوں کسی جواب کے نا ملنے اور باہر سے آوازیں آنے کی وجہ سے باہر کو چل دیں۔
"تحریم تم جا کے پینٹ کر لو، میں کچھ دیر میں ناشتا کرونگی۔"
"پر آپی، آئی ایم سوری، میں ہرگز..."اس سے پہلے وہ بات ختم کرتی ہدا بولی۔
"نہیں نہیں، تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے۔ تم معافی کیوں مانگ رہی ہو۔
میں بس تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہوں۔"اُسکے کہنے پر تحریم اٹھی اور پچھتاوے کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔
ہدا بیڈ پر بیٹھ گئی، کاش آج اُسکی امی ہوتیں تو وہ اُنسے سارے دکھ اور اذیتوں کا ذکر کرتی جو اُسے بے گناہ ہونے کے بعد بھی دیے جا رہے تھے۔
وہ بیڈ پر بیٹھی اور آنکھیں بھینچ کے اپنے رب کو پکارنے لگ گئی۔ ایک ننھا سا آنسو اُسکی آنکھوں سے نکلا، جو اُسکے سارے گلے شکوے کرگیا۔
وہ جانتی تھی کے بس وہ رب ہی تھا جو تب بھی اُسکے ساتھ تھا، جب اور کوئی نا تھا، اور وہ تب بھی ساتھ ہوگا جب اور کوئی نہیں ہوگا۔۔۔
کمرے کے باہر کھڑا محب سب سن رہا تھا۔
وہ اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا جب اُسے اندر سے کچھ آوازیں آئیں، نا چاہتے ہوئے بھی وہ رک گیا، اُسنے سنا اسماء، مائرا اور علینہ کا ہدا کو طنز کرنا۔
سچ تو یہ تھا کہ اُسے تحفے لیتے میں کوئی بھی بھولا نہیں تھا، پر وہ اس بات کا اقرار مر کے بھی کبھی نہیں کرتا۔
محب کو شاید، کچھ محسوس نہیں ہوا تھا، ہاں یہ سچ تھا کے آج ہدا کی غلطی نہیں تھی، پر اگر آج ہدا کی غلطی نہیں تھی پھر بھی اُسے یہ سب سننا پڑ رہا تھا تو اسی طرح ماضی میں وہ بھی غلطی پر نہیں تھا پھر بھی اُسنے اپنے ماں باپ کی ناراضگی مول لی تھی۔
وہ جھوٹا ثابت ہوا تھا۔
صرف ہدا کی وجہ سے۔۔۔
آج اُسے ہدا کی بےبسی میں وہ محب نظر آیا جو اس کی وجہ سے کئی نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا تھا، بلکہ کاٹ رہا ہے، تو وہ کیوں اس بارے میں سوچے بھی۔
وہ ایک اچٹی نگاہ کھڑکی پر ڈالتے ہوئے کمرے کے سامنے سے گزر گیا، جیسے یہ سب اُسنے سنا ہی نا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت تھا، اب فاطمہ بیگم کا دل ہدا کے لیے بہت دکھ رہا تھا۔ سارے بچے گھومنے پھرنے مالز کی طرف گئے ہوئے تھے اور وہ اکیلی اپنے کمرے میں بند تھی۔ محب کو آئے آج تیسرا دن تھا پر وہ لڑکی سب کے سکون کے خاطر اپنے کمرے سے نکل بھی نہیں رہی تھی، جیسے خاموشی سے ایک سزا کاٹ رہی ہو۔
دادو موقع پاتے ہی ہدا کے کمرے میں چلی گئیں۔
"کیا کر رہی ہے میری بیٹی۔" اُنہوں نے شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
"بس یہ کتاب پڑھ رہی ہوں، بہت اچھی ہے، آغا جان نے مجھے بہت اچھی کتابیں لا کر دی ہیں۔"
وہ نرمی سے بولی، وہ خود کی ذات تک بہت محدود ہوتی جا رہی تھی، پر اُسے ان کتابوں میں ایک نئی دنیا ڈھونڈنا شروع کر دی۔ انسے اُسکی تنہائی کافی حد تک بٹ جایا کرتی تھی۔
"میری جان کو اور بھی کچھ اگر چاہئے تو بتانا، میں اُسے لا کر دے دونگی۔" وہ پیار بھرے لہجے میں بولیں۔
"نہیں دادو، مجھے کچھ نہیں چاہئے۔" وہ جواباً بولی۔
"کب تک ایسے بند رہو گی؟" دادو سنجیدہ ہوتے ہوئی بولیں۔
"میں بند نہیں ہوں دادو!
پر بس تسلی میں ہوں، اس سب سے آپ بھی خوش ہیں نا دادو؟" وہ جواب میں سوال کر گئی۔
"تم میرے سوال کا جواب دو ہدا"
"دادو باہر آ کر کیا کرونگی؟ سب خوش ہیں، مطمئن ہیں، اور میں بھی ٹھیک ہوں یہاں۔" وہ انہیں قائل کرتے ہوئے بولی۔
"میرا مقصد تمہیں کمرے میں قید کرنا نہیں تھا، بس تمہارا اُس سے سامنا کم ہو، پر اب مجھے بہت برا لگ رہا ہے میری جان، تمہاری ماں آج ہوتی تو کتنی خفا ہوتی!" وہ نم آنکھوں سے بولیں۔
"نہیں دادو، پلیز ایسا نا کہیں، میں صرف آپ کے لیے ہی ایسا کر رہی ہوں، اور آپ جانتی ہیں کے مجھے ویسے بھی باہر جانے کا زیادہ شوق نہیں ہے، آپ بلاوجہ فکرمند نا ہوں۔"
" پر ہاں، ایک بات کے بارے میں میں نے آپ سے ذکر کرنا تھا، خالہ کا فون آیا تھا، بچے مجھے بہت یاد کر رہے ہیں، میں وہاں ایک دو دن رہ آؤں کیا؟"
"ارے کیوں نہیں، تم جاؤ اور جا کر رہ آؤ، میں مومن یا عادل کو کہہ دونگی وہ چھوڑ آئینگے تمہیں۔"
نہیں دادو، اسکی ضرورت نہیں ہے، خالہ جان ڈرائیور کو بھیج دینگی اور شاید آیان بھی ساتھ آئے گا۔" اُسکے لہجے میں آیان کا نام آنے سے ایک خوشی آگئی تھی
"ارے، یہ تو بہت اچھی بات ہے، میں بھی آیان سے مل لونگی اسی بہانے۔"وہ ہدا کی خوشی دیکھ کر کافی مطمئن تھیں۔
اور ابھی واقعی اُسکا وہاں جانا بہتر بھی تھا!
وہ ان دنوں کافی ڈسٹرب تھی، گو کہ کچھ کہتی نہیں تھی پر وہ تو اُسکی دادو تھیں نا۔
وہ باتوں کے ساتھ ساتھ کچھ ضروری چیزوں کو پیک کرنے لگی، پیک کرنے کے بعد، ہدا خود تیار ہونے چلی گئی۔
تیار ہونے کے بعد اُسنے اپنا حجاب ٹھیک کیا، وہ ہمیشہ ہلکےرنگ پہنتی تھی، شوخ کپڑے اُسکے پاس نا تھے نا اُسے شوخ رنگ اچھے لگتے تھے۔
اُسنے اپنے گرے کلر کے کپڑوں پر، ہلکا گرے حجاب کیا، آذان ہو چکی تھی، وہ آذان کو سنتی گئی، ہر بار کی طرح اس بار بھی اُسکی بچی کچی پریشانی آذان کی آواز کے سامنے مدھم پڑنے لگ گئی اور ایک سکون اُسکے اندر اترنے لگا۔
آذان کے بعد وہ اٹھی اور نماز پڑھنے لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ تھے تو مالز میں پر محب مسلسل، نا چاہتے ہوئے بھی صبح ہونے والے واقع کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
اس بار بھی وہ چپ تھی، علینہ، مائرا، اسماء تینوں کی باتوں اور طعنے کو خاموشی سے سنتی رہی تھی۔
یہ خاموشی ہی تو محب کو اُلجھا دیتی تھی، اگر وہ بری تھی تو مکمل بری کیوں نہیں تھی؟
کیوں اگلا ہمیشہ ایک پل کو سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کے کہیں وہ اُسکے ساتھ غلط تو نہیں کر رہا؟
خیر سب نے کافی وقت شاپنگ میں لگا دیا، اور کیونکہ کھانا تو وہ لوگ کھا کر آئے تھے اس لیے بس اُنہوں نے آئس کریم کھانے پر اکتفا کیا اور گھر کی طرف کو چل پڑے۔
سفر سب کا باتوں میں گزر گیا اور وہ لوگ گھر پہنچ گئے۔
محب سے کچھ پہلے ہی علینہ گاڑی سے باہر نکلی، کیونکہ فون استعمال کر رہی تھی تو اُسے اپنے سامنے سے آتا آیان نظر نا آیا، چونکہ بچہ بھاگ رہا تھا اس وجہ سے اُن دونوں کی ٹکر کافی شدید ہوئی۔
آیان لڑکھڑایا اور گرنے ہی والا تھا کے محب آگے بڑھا اور اُس بچے کو سمبھال لیا، وہ بچہ محب کی گود میں آگرا۔
علینہ کا جدید ماڈل کا آئ فون اُسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور زمین پر زور سے گر گیا، قسمت سے اُسکی سکرین زمین پر لگنے سے بچ گئی پر فون آف ہوگیا۔
"اندھے ہو تم؟ دیکھ کے نہیں بھاگ سکتے، میرے سے ہی ٹکرانا تھا کیا تمہیں!"
علینہ بےحد غصّے میں اپنا فون دیکھتے ہوئے
اور جب اُسکی نظر آیان پر پڑی تو اُسکا غصہ اور بڑھ گیا، وہ جانتی تھی کے آیان، ہدا کی خالہ کا بیٹا ہے۔
اُسنے بےحد غصّے میں آ کر آیان کو دیکھا، محب جس نے آیان کو پکڑا ہوا تھا اُسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔
ایک پل کو محب مبہوت رہ گیا، یہ بچہ اُسے بہت پیارا لگا، گورے گورے گال، بڑی بڑی آنکھیں، اور پیشانی پر آتے بال، کیا اُس بچے پر کسی کو غُصہ بھی آ سکتا تھا؟
اُسنے دل میں سوچا، پر ایک بات جو اُسے حیران کر گئی کے وہ محب سے بہت مشابہت رکھتا تھا، علینہ کے ڈانٹنے اور غصے سے دیکھنے کے وجہ سے وہ محب کے گلے لگ گیا اور اپنی آنکھیں موند لیں، اُسے کبھی کسی نے ایسے نہیں ڈانٹا تھا۔
محب کے گلے جیسے ہی وہ لگا، محب کو ایک عجیب سا احساس محسوس ہوا، اُسے علینہ پر چڑ ہونے لگی جو اپنا فون دیکھتے ہوئے مسلسل بولے جا رہی تھی۔
"علینہ، اتنا ریکٹ کرنا نہیں بنتا، فون کونسا ٹوٹ گیا ہے۔" وہ آرام سے بولا۔
"محب! اگر ٹوٹ جاتا تو؟ ایک مہینے پہلے ہی یہ ماڈل لاؤنچ ہوا ہے، اور دیکھو یہ آف بھی ہو گیا ہے۔" وہ شکایت کرتے ہوئے بولی۔
"بات اگر کی ہے، اور یہ ابھی ٹوٹا نہیں ہے، تم کوشش کرو آن ہو جائیگا، اور اگر نا ہوا تو اس بچے کو ڈانٹنے سے ٹھیک تو ہو گا نہیں، ہم اسے ریپیرنگ شاپ لے جائینگے اگر کوئی مسلہ ہوا بھی۔" محب کے لہجے میں خفگی واضع تھی، جو علینہ نے بھی محسوس کی اور تھوڑا رویہ بدل کے بولی۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے، میں اور تم لے جائینگے فون کو۔" علینہ کچھ سوچنے کے بعد بولی، اب کی بار اُسکا لہجہ کافی بدلہ ہوا تھا، اور وہ غصے میں بھی نہیں تھی۔
علینہ اندر چلی گئی جبکہ محب، آیان کو نیچے اتار کر اُسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بولا۔
"ویسے تمہارا نام کیا ہے؟"محب جو آیان کو نہیں جانتا تھا، بولا۔
"آیان۔"
"نام تو بہت پیارا ہے تمہارا۔
پر آیان یہاں کس سے ملنے آیا ہے؟"
" میں اپنی بیسٹ فرینڈ کو لینے آیا ہوں۔"محب کو وہ بچہ بہت کم گو لگا، اور اُسکے جواب پر وہ حیران ہوا، کیوں کے آغا ولا میں آیان کے عمر کا تو کوئی بچی بچہ نہیں تھا۔
"بیسٹ فرینڈ؟ کہیں غلط گھر میں تو نہیں آگئے ہو۔" محب نے سوالاً پوچھا۔
"وہ اسی گھر میں رہتی ہیں، میں نے انکو جلدی آنےکا کہا پر اُنکے آنے سے پہلے میری ٹکر ہوگی آنٹی سے۔" وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔
محب اُسکا منہ بنا دیکھ کر ہنس دیا۔
"میرے خیال سے تم غلط گھر میں آ گئے ہو، یہاں کوئی بچہ بچی نہیں ہے آیان۔" محب نرم لہجے میں بولا۔
اتنے میں ولا کا دروازہ کُھلا اور اندر سے کوئی باہر آیا، شاید یہ جانے بغیر کے باہر آیان اکیلا نہیں ہے وہ گم سم سی باہر نکلی۔
محب جو ہنس رہا تھا، اب نہیں ہنس رہا تھا۔
آج پورے چھ سال بعد اُسنے ہدا کو دیکھا تھا۔
ہدا جو آس پاس آیان کو ڈھونڈ رہی تھی اُسکی نظر بھی عین اُسی وقت محب پر پڑی۔
اُسکی آنکھیں بھی حیرت سے کھل گئیں، تو آج چھ سالوں بعد یہ دِن بھی آگیا تھا۔
"وہ آگئیں ہیں۔
اور آنی آپ نے دیر کیوں کی، میں گر گیا تھا، مجھے آنٹی نے ڈانٹا بھی۔"
آیان اُسکی اور جاتے ہوئے بولا، اُسکو علینہ کی ڈانٹ یاد آگئی، اُسکی پیاری پیاری آنکھیں ڈبڈبا گئیں تھیں۔
" وہ میں..میں۔"
ہدا بهوکلا گئی تھی۔ محب اُسکے سامنے تھا۔
اور اُسے دیکھ چکا تھا۔
چھ سال پہلے ہدا نے اُسکی آنکھوں میں بہت نفرت دیکھی تھی، وہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اُسکے سامنے آنا نہیں چاہتی تھی۔
وہ تو کسی کی بھی آنکھوں میں خود کے لیے نفرت نہیں دیکھ سکتی تھی، اور محب کی آنکھوں میں تو۔۔۔
وہ بےگناہ تھی، ہے قصور تھی، پر پھر بھی نفرت کے لفظ سے اُسکا وجود ہل جاتا تھا۔
ہدا نیچے بیٹھی اور آیان کے موتیوں جیسے آنسوؤں کو اپنی ہاتھوں کی پوروں سے صاف کرنے لگی۔
"تم کیسے گر گئے؟ تمہیں چوٹ تو نہیں لگی؟" اُسنے خود کو سنبھالتے ہوئے آیان سے پوچھا۔
"میں باہر آیا تو علینہ آنٹی سے ٹکر ہوگی، پر انہوں نے مجھے بچا لیا۔" وہ محب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
پھر آیان، محب کی طرف واپس آیا اور اُسے کہا۔
"تھینک یو، آپ نے مجھے گرنے سے بچایا۔" وہ آیان کی معصوم بات پر مسکرا دیا۔
نظر پھر اس کی جانب اٹھی تو وہ نیچے دیکھ رہی تھی، بلکل ویسے ہی جیسے اُس دن، اُس دِن غلطی پر ہونے کے باوجود نظریں نیچے جھکائے کھڑی ہوئی تھی.
اُسے سب یاد آنے لگا، ایک ایک بات، ایک ایک چیز۔
وہ تلخ ماضی، سب کچھ۔
جیسے ایک فلیش بیک اُسکی نظروں سے گزر رہا ہو۔
وہ آیان کا سر تھپتھاتے اٹھا اور اُسے کہا۔
"نو نیڈ آیان۔ (no need Ayyan) بس ایک ایڈوائس دونگا، بی کیئر فل ان میکنگ فرینڈ
(Be careful in making friends)
خود کو دوست کہنے ولا ہر شخص دوست نہیں ہوتا، کبھی کبھار وہ دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوجاتا ہے۔" آیان نا سمجھی میں محب کو دیکھے گیا اور یہ کہتے وہ اندر چلا گیا ایسے جیسے اُسنے کچھ کہا ہی نا ہو۔
اور وہ اُسکے کہے ہر لفظ، اور اُن میں چھپے طنز
کو بخوبی سمجھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
Assalamoalikum All, How's Ramadan going?
Very much happy that you people are liking my story, specially ChristaBel515, this early update is for you ❤️
(B.T.W I just can't believe that I wrote 2800+ words chap)
whollySinner Just because you suggested for a lengthy update 😁🌸✨
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top